Thursday, 24 July 2014

مرچ کے استعمالات

مرچ کے استعمالات
معدے کے لیے:
کھانوں میں ہری مرچوں کا استعمال معدے کے درد گیس اور مروڑ کے لیے انتہائی مفید ہے۔
آیورودیدک اور چینی ادویات مناسب عملِ انہضام کے لیے مرچ کے استعمال کی تجویز کرتی ہیں ، کیونکہ یہ معدے سے نکلنے والی رطوبتوں کے بہاؤ کو بہتر بناتی ہے اور انہیں متحرک کرتی ہے۔ اس کے علاوہ مرچیں ، کھانا ہضم کرنے اور بھوک بڑھانے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ قدیم زمانے کے لوگ مرچوں کو باقاعدہ ادویات کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
زکام اور گلے کی بیماریوں کے لیے:
نزلہ و زکام میں مرچوں کا استعمال بے حد فائدہ مند ہے ، کیوں کہ مرچوں کی تیزی اور تیکھا پن ناک اور گلے سے نکلنے والی رطوبتوں کو متحرک کرتا ہے ، جس سے ناک کی سانس لینے والی نالیاں صاف ہوجاتی ہیں اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
ہندوستان میں اکثر گاؤںکے لوگ پھپپھڑوں ، ناک یا سینے کی بندش یا جکڑ جانے کی صورت میں مرچوں کو باقاعدہ طور پر سبزی میں استعمال کرتے ہیں۔
خون کے بہاؤ کو بہتر بنانا:
جب جسم کا کوئی حصہ بیمار ہوتا ہے تو اس کا دوران خون بھی متاثر ہوتا ہے۔ مرچوں کے باقاعدہ استعمال سے منجمد خون ہلکا ہوجاتا ہے اور اس کے بہاؤ میں تیزی آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مرچوں میں موجود معدنیات جیسا کہ کیلشیم اور آئرن جو انسانی سیلز اور جسم کے سیال کا اہم حصہ ہوتے ہیں ، وہ دل کی شرح اور بلڈ پریشر کو بہتر طریقے سے کنٹرول کرتے ہیں۔
دل کی بیماریوں کے لئے:
حالیہ تحقیق سے بھی ثابت ہوگیا ہے کہ مرچ کا استعمال مریض کو ہارٹ اٹیک سے بچاتا ہے ، کیوں کہ مرچیں خون میں کولیسٹرول کی مقدار کو کم کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ مرچ فاسد مادوں کو تحلیل خون کو منجمد کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
مرچوں کا استعمال جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے اور اس میں موجود وٹامن سی سنگترے میں موجود وٹامن سے 6 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

Tuesday, 22 July 2014

ایڈز HIV اور میڈیکل سائنس کی لغزش


ایڈز HIV اور میڈیکل سائنس کی لغزش

چونکہ اِس بیماری کی پوری تفصیل اور مخففات Abbreviationsکی تشریح محض وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہے لہٰذا بات وہاں سے شروع کی جا رہی ہے جو ہمارا اصل موضوع ہے۔

اِس ضمن میں میڈیکل سائنس نے جو شواہد مرتب کیے ہیں ان میں ایک نکتہ ایسا ہے جو میڈیکل سائنس کی ایک سنگین لغزش کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ عارضہ ایک وائرس کا مرہون منت ہے۔ اِس وائرس کو ایچ آئی وی HIV کا نام دیا گیا ہے جبکہ اِس کی درجہ بندی کی قسم کو آر این اے کہا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اِس وائرس کے اِنسانی جسم میں ملٹی پلائی کرنے سے پیدا ہونے والا انفیکشن اِنسانی جسم میں موجود قدرتی مدافعتی نظام کو "چند" سال میں بے اثر کر دیتا ہے لیکن اِس میں قابل توجہ امر یہ ہے کہ اِس وائرس کی اثر پذیری کی مدت کا کوئی پیمانہ آج تک میڈیکل سائنس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ HIVکا کوئی مریض تو محض سات سال میں ہی ایڈز سے مر گیا اور کسی مریض کا بارہ سال تک یہ وائرس خون میں رہنے کے باوجود کچھ نہ بگاڑ سکا یعنی اُس میں ایڈز کی کوئی علامت نمودار نہ ہوئی۔

یہاں دو اہم سوالات اور HIV کے دیگر کسی بھی وائرس سے مختلف ہونے کے بارے میں ذکر ضروری ہے جس سے میڈیکل سائنس کی اِس بیماری کے بارے میں ناقص تھیوری کو سمجھنے میں آسانی ہو گی، اِس لیے کہ اِن دونوں سوالات کا تسلی بخش جواب میڈیکل سائنس میں نہیں ملتا۔

1۔ اِنسانی جسم کے لیے ضرر رساں وائرس کی فہرست میں یہ واحد وائرس ہے جو اگر ایک دفعہ بدن میں داخل ہو جائے تو مرتے دم تک پیچھا نہیں چھوڑتا جبکہ عارضہ پیدا کرنے والے دیگر وائرس اِنسانی جسم میں طویل عرصہ تک رہ نہیں پاتے،۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ اِس کی کوئی توجیہ میڈیکل سائنس میں مسلمہ نہیں ہے۔

2۔ یہ واحد وائرس ہے جس کے خلاف اِنسانی بدن میں اِس کے ملٹی پلائی ہوتے وقت بھی کوئی مزاحمت نہیں ہوتی جبکہ دیگر وائرس میں سے جب بھی کوئی وائرس اپنی نشوونما اور انفیکشن کا عمل شروع کرتا ہے، اِنسانی جسم اِس پر فوراً خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے اور آبلے، بخار، سوزش، درد، پھپھولے، بلغم وغیرہ، از قسم مختلف علامات ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اِس فرق کی توجیہ Justification کیا ہے؟۔۔۔۔ کوئی نہیں۔

اِس ضمن میں ہمارے رفقائے کار نے جس تجزیئے کی طرف راہنمائی دی ہے اُس کی تفاصیل و جزئیات کا احاطہ تو یہاں ممکن نہیں، البتہ اُس کا ماحصل آسان زبان میں پیش خدمت ہے۔

یہ دونوں حقائق اگر غور کیا جائے تو ایک ہی سمت نشاندہی کرتے ہیں کہ کوئی ایسی وجہ ضرور ہے جس کی بنیاد پر اِنسانی جسم اِس وائرس کے خلاف مزاحمت نہیں کرتا اور یوں وائرس کو Multiply کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔۔۔ اور وہ وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ اِنسانی جسم میڈیکل سائنس کے پراپیگنڈے سے دھوکا نہیں کھاتا اور اِس بیرونی اور اجنبی قرار دیئے جانے والے وائرس کو اپنے لیے اجنبی ہی نہیں سمجھتا جبکہ میڈیکل سائنس کی تھیوری کے مطابق یہ اِنسانی جسم کیلئے ایک اجنبی آر این اے ہے، بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ یہ وائرس چمپینزی یعنی بندر سے اِنسان میں منتقل ہوا ہے۔

چونکہ اِنسانی جسم کا اپنے دشمن کو پہچان نہ سکنا قانون فطرت کے خلاف ہے لہٰذا وائرس کو اجنبی قرار دینے کی یہ میڈیکل سائنس کی تھیوری ایک قابل یقین تھیوری نہیں ہو سکتی چنانچہ یہ کہنا کہ یہ وائرس کسی دوسری مخلوق سے بنی نوع اِنسان میں آیا، غیر منطقی بات ہے اور ٹامک ٹوئیاں قرار دی جا سکتی ہے۔ اِس صورت میں صرف ایک گوشہ ایسا ملتا ہے جس کے ممکن العمل ہونے کے بارے میں ابھی تک میڈیکل سائنس میں غور ہی نہیں کیا گیا اور وہ گوشہ ہے وائرس کا بیرونی یا اجنبی نہ ہونا بلکہ خود اِنسان کے اندر ہی وجود حاصل کرنا۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایچ آئی وی کوئی ایسا خارجی وائرس نہیں ہے جو اِنسانی جسم کیلئے اجنبی ہو اور دیگر وائرس کی طرح باہر سے اِنسانیت پر حملہ آور ہوا ہو بلکہ یہ اِنسان کے اندر ہی وجود حاصل کرتا ہے اور اسی پروٹین کا جزو ہے جس سے اِنسان کے دیگر خلیات نمود حاصل کرتے ہیں۔

اِس نقطہ نظر کو ان شواہد سے مزید تقویت ملتی ہے کہ کئی مریضوں میں میڈیکل ٹسٹ کے دوران HIV پازیٹو نکلا لیکن وہ بارہ چودہ برسوں کے بعد بھی ایڈز کے شکار نہیں ہوئے حالانکہ اِس دوران وائرس ان کے خون میں موجود بھی رہا۔ اِس کا سیدھا سادہ مطلب یہ تھا کہ وہ HIV جو ان مریضوں کے خون میں ہے، ان کیلئے مہلک نہیں ہے۔ گویا ہر HIV ہر اِنسان کیلئے مہلک نہیں ہوتا بلکہ اسی شخص کیلئے مہلک ہوتا ہے جس سے اُس کی پروٹین مماثل ہوتی ہے۔۔۔ لیکن میڈیکل سائنس نے اس وائرس کے غیر مہلک ہونے کے جواز میں یہ غیر منطقی اور بے بنیاد مفروضے قائم کر لیے کہ یہ وائرس جو مہلک نہیں نکلا، یہ وائرس ہی کوئی دوسرا ہے اور یہ ایڈز پیدا ہی نہیں کرتا۔۔۔ یا یہ کہ ہر شخص میں اِس وائرس کی اثر پذیری کی شدت مختلف ہوتی ہے چنانچہ کچھ مریض دس بارہ سال تک بھی اِس کے انفیکشن کے شکار نہیں ہوئے اور کبھی نہ کبھی وہ ضرور ہوں گے، وغیرہ۔

بچپن میں ایک چٹکلہ سنا کرتے تھے کہ کوئی سائنسدان مینڈک پر تحقیق کر رہا تھا۔ اُس نے مینڈک کو میز پر بٹھا کر اُس کے عقب میں پٹاخا چھوڑا۔ مینڈک زور سے اچھلا۔ سائنسدان نے اُس کی ایک ٹانگ کاٹ دی اور پھر پٹاخا پھوڑا۔ اِس دفعہ مینڈک کم اچھلا۔ سائنسدان نے اُس کی دوسری ٹانگ بھی کاٹ دی۔ اِس دفعہ پٹاخا پھوڑا تو وہ بالکل نہ اچھلا۔ اِس سے سائنسدان نے یہ محققانہ نتیجہ اخذ کیا کہ مینڈک کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی جائیں تو وہ بہرا ہو جاتا ہے۔

کچھ اِسی قسم کی واردات میڈیکل سائنس کے ساتھ بھی ہوئی چنانچہ اب وہ مینڈک کو بہرا تصور کرنے پر مصر ہے اور اِن ممکنات پر غور کرنے کیلئے تیار ہی نہیں کہ ہر H.I.Vہر شخص کیلئے مہلک نہیں ہوتا بلکہ صرف اُنہی کیلئے مہلک ہوتا ہے جن سے مماثل Compatibleہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر دو افراد کے ڈی این اے باہم فیوز ہو جائیں تو اِن میں سے ایک کی مثبت دھاری Strand دوسرے کی منفی دھاری کے ساتھ اِس طرح مخلوط ہو سکتی ہے کہRNA بنا سکے۔ اب چونکہ یہ دونوں Strands مختلف افراد کے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہیں اِس لیے اِن کی پیوستگی عدم توازن کی شکار رہے گی چنانچہ ایسا RNA جو پروٹین جمع کرے گا وہ ان دو افراد کے جسم سے نیم ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے انہی دو افراد کے Tخلیات پر چپک کر ایڈز کا باعث بنے گی جن کے ڈی این اے باہم فیوز ہوئے تھے۔ اِسی غیر متوازنRNA کا نام HIV ہے۔ یہ HIV چونکہ صرف انہی دو افراد کے جسم سے نیم ہم آہنگ ہے لہٰذا صرف ان کے اور ان کی اولاد کیلئے مہلک ہے، باقی اِنسانوں کیلئے نہیں۔

یہ ایک ایسی تھیوری ہے جو میڈیکل سائنس میں زیر غور ہی نہیں لائی گئی اور وہاں مینڈک کے بہرا ہونے کی رٹ لگائی جاتی رہی یعنی جان چھڑانے کیلئے یہی کہا جاتا رہا کہ جو وائرس مہلک نہیں نکلا وہ HIV تھا ہی نہیں بلکہ وہ اسی قبیل کا کوئی دوسرا وائرس تھا، یا یہ بے سروپا مفروضہ قائم کر لیا گیا کہ ہر HIV کے ہر اِنسان کیلئے مہلک بن جانے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے جس کا کوئی پیمانہ بھی ممکن نہیں ہے، وغیرہ۔

ہماری تھیوری میں یہ سوال ابھی تشنہ ہے کہ دو مختلف افراد کے ڈی این اے کو باہم فیوز ہونے کا موقع کہاں اور کیسے مل سکتا ہے .؟

میڈیکل سائنس HIV کے عمل اِنتقال کے جن ذرائع کا ذکر کرتی ہے ان میں ایک Multiple Sexual Partners یعنی ایک وقت میں ایک سے زیادہ، مختلف اصناف کے افراد کا باہمی فطری جنسی تعلق ہے۔

یہ انتہائی مبہم بات ہے جو ایک جسم فروش عورت کی زندگی اور دو بیویاں رکھنے والے شوہر کی عائلت کو ایک ہی صف میں کھڑا کر رہی ہے۔ مزید یہ کہ اِس میں لفظ "وقت" کی کوئی حد بندی نہیں ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی پیشہ ور عورت خود کو ہر شب ایک نئے مرد کے سامنے پیش کرتی ہے تو بھی یہ Multiple ہو گا اور اگر کوئی عورت بیوہ ہو جائے اور پھر دوسری شادی کرے تو بھی یہ Multiple ہو گیا۔ گویا میڈیکل سائنس کی اِس Definition کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عمر بھر میں جب بھی کبھی کسی اِنسان کا Sexual Partner تبدیل ہوا، یہ عمل ملٹی پل کی تعریف میں آ گیا یعنی اُس کے لیے اِس انفیکشن کا امکان پیدا ہو گیا، خواہ یہ امکان بہت موہوم سا ہی ہو۔

یہ تصور اگر درست مان لیا جائے تو پوری اِنسانیت کے لیے اِس بیماری سے بچاؤ تقریباً ناممکن بن جاتا ہے کیونکہ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ دنیا کے "ہر ایک" مرد کے لیے غیر فطری ضبط کیے بغیر زندگی بھر ایک ہی عورت تک محدود رہنا ممکن نہیں ہے۔ گویا جب تک ہم مرد اور عورت میں فطری تولیدی عمل کے تناظر میں Multiple کے مفہوم کی درستگی اور اِس کے ضمن میں لفظ "وقت" کا تعین نہ کر لیں، نہ تو ہم وائرس کے فیوژن کے عمل کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اِنسانیت کو اِس مہلک مرض سے حتمی طور پر محفوظ رہنے کا یقینی راستہ فراہم کر سکتے ہیں چنانچہ لازم ہے کہ اِس ضمن میں "وقت" کے تصور کی تعریف مرتب کر لی جائے۔

ہر عورت کو قدرت نے ایام یعنی Menstrual Cycles کی صورت میں خود کار صفائی کے بے مثل نظام کا عطیہ دیا ہے۔ جب کسی عورت کا ایک مرد کے ساتھ عمل مجامعت وقوع پذیر ہوتا ہے تو اُس مرد کے اثرات عورت کے تولیدی اعضاء میں سرایت کر جاتے ہیں۔ اگر اِس عمل کے نتیجے میں عورت کا پاؤں بھاری نہ بھی ہو تو بھی وہ اُس مرد سے تب تک Impregnated رہتی ہے جب تک اُس کا اگلا دورۂ ایام خاطر خواہ طریقے سے مکمل نہ ہو جائے۔

ایک دو یا زیادہ سے زیادہ تین Cycles کے مکمل ہو جانے کے بعد وہ آئینے کی طرح شفاف ہو جاتی ہے اور اِس میں اُس مرد کے کوئی اثرات باقی نہیں رہتے جس سے اِس کی سابقہ Intramenstrual Clean Period کے دوران مجامعت واقع ہوئی تھی یا ہوتی رہی تھی۔ ایام کا یہی نظام عورت کے لیے قدرت کی طرف سے خود کار صفائی کا عطیہ ہے اور اِسی تصور پر Multiple کا درست مفہوم اُستوار ہوتا ہے کہ اگر کسی عورت کی ایک طہر Intramenstrual Clean Period کے دوران ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ مجامعت وقوع پذیر ہو تو یہ Multiple کے مفہوم پر پورا اترے گا اور اِس وائرس کے لیے Culture Media فراہم کرنے کا باعث بنے گا کیونکہ اِس صورت میں کہ جب اُس عورت کے اندر پہلے سے ہی ایک مرد کے اثرات موجود ہںف یعنی وہ پہلے ہی ایک مرد سے Impregnated ہے، اگر کسی دوسرے مرد کے اثرات بھی اُس میں سرایت کرتے ہیں تو وائرس کے لیے سازگار ماحول جسے میڈیکل کی اصطلاح میں کلچر میڈیا کہا جاتا ہے، دستیاب ہو جاتا ہے۔ چونکہ اُس وقت دو مختلف مردوں کے ڈی این اے اُس کے رحم میں بیک وقت موجود ہوں گے لہٰذا یہ امر "قرین قیاس" ہے کہ وہ باہم فیوز ہو جائیں اور ان کے Strands کے اختلاط کے ذریعے ایک ایسا آر این اے تشکیل پا جائے جو ان تینوں افراد یعنی دونوں مرد اور کلچر میڈیا فراہم کرنے والی اُس عورت کے لیے مہلک HIV کی شکل میں نشوونما حاصل کرنے لگے۔ تب یہ HIV اگرچہ ان کی اولادوں کے لیے بھی مہلک ہو گا تاہم اگر یہ کسی چوتھے فرد کو خون کی Transfusion کے ذریعے منتقل ہو گا تو اُس کے لیے غیر مہلک ہو گا، باوجودیکہ اُس کے خون میں موجود رہے گا۔

اب اِس لفظ "قرین قیاس" کی تفصیل کا جائزہ بھی لینا مناسب ہو گا یعنی ایسے دو افراد کونسے ہو سکتے ہیں جن کے ڈی این اے اِس قدر مماثل ہوں کہ ان کے باہم فیوز ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہو سکتے ہوں۔ اِس سوال کا جواب ہے "خون کا رشتہ"۔ جب جنسی تعلق قائم کرنے والے افراد کے مابین کوئی ایسا جینیاتی مشابہت کا تعلق ہو جیسا ایک ہی خاندان کے افراد میں ہوتا ہے، تو ان کے ڈی این اے کے باہم فیوز ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی معاشرے میں جنسی تعلق کی اُستواری پر نگاہ احتساب نہ رہے یعنی زنا عام ہو تو چونکہ افراد کی ولدیت مشکوک ہوتی ہے لہٰذا ایسے معاشرے میں اِس امر کے امکانات بہت زیادہ ہو سکتے ہیں کہ جو افراد جسمانی تعلق قائم کریں وہ ایک ہی جینیاتی فریم کے مالک ہوں، بالفاظ دیگر ان کے درمیان خون کا رشتہ موجود ہو خواہ انہیں اِس حقیقت کا علم ہی نہ ہو۔ اِس صورت میں ان کے ڈی این اے کے فیوز ہونے کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔

اِس نظریے کی صداقت کے لیے یہ مشاہدہ کافی ہے کہ ایڈز سے مرنے والوں کی زیادہ تعداد انہی معاشروں میں ہے جہاں ایک عورت کے ایک وقفہ طہر یعنی Intramenstrual Period کے دوران دو یا زیادہ مردوں سے جسمانی تعلق یعنی زنا کی آزادی ہے۔

Transfusion کے ذریعے منتقل ہونے والے HIV کے غیر مہلک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ایڈز کی تاریخ میں ایسے بچوں کی کوئی تعداد مرقوم نہیں ہے جو سات برس کی عمر میں ایڈز سے مر گئے ہوں اور ان کی ماؤں کو ایڈز نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں ان بچوں کو ایچ آئی وی موروثی طور پر نہیں بلکہ خون کے ذریعے منتقل ہوا ہو۔ اگر Transfusion کے ذریعے منتقل ہونے والا ایچ آئی وی مہلک ہوتا تو ایسے بچوں کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ہوتی۔

اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی عورت اِس امر کو ملحوظ رکھے کہ وہ ایک طہر کے دوران خود کو ایک ہی مرد تک محدود کرے گی تو خواہ اُس کی زندگی میں بیسیوں Sexual Partners بھی کیوں نہ تبدیل ہوں، یہ عمل کسی صورت بھی Multiple کی تعریف میں نہیں آئے گا۔ اِسی طرح اگر ہر مرد یہ امر ملحوظ رکھے کہ وہ کسی ایسی عورت کے ساتھ مجامعت نہ کرے جو اِس وقفہ طہر کے دوران پہلے ہی کسی دوسرے مرد سے Impregnated ہو چکی ہو تو خواہ اُس مرد کا بیک وقت ایک سے زیادہ عورتوں سے بھی جسمانی تعلق کا سلسلہ اُستوار ہو، یہ عمل نہ تو آر این اے کو مہلک ایچ آئی وی کی ہیئت اِختیار کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے اور نہ ہی Multiple کی تعریف میں آ سکتا ہے

اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مرد اگر صرف انہی عورتوں سے تعلق رکھے جو ایک طہر کے دوران صرف اسی تک محدود رہنے والی ہوں اور ان عورتوں کے درمیان کوئی جینیاتی مشابہت، کوئی خون کا رشتہ نہ ہو تو اُس کا یہ عمل نہ تو Multiple کی تعریف میں آ سکتا ہے اور نہ ہی اِس سے کوئی Culture Media ڈیویلپ ہو سکتا ہے چنانچہ کوئی ایچ آئی وی، کوئی انفیکشن وقوع پذیر نہیں ہو سکتا۔

مردوں کی ہم جنس پرستی (لواطت) بھی اِسی ذیل میں آتی ہے کیونکہ اِس سے دو مردوں کے ڈی این اے کو باہم فیوز ہونے یعنی ایچ آئی وی بننے کیلئے ایسا کلچر میڈیا دستیاب ہو جاتا ہے جس میں عورت کی کوئی شراکت یا ضرورت نہیں ہوتی۔

اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہمیں اُس اِنسانیت کو جو اِس انفیکشن کی ابھی شکار نںیا ہوئی، ایک محفوظ اور یقینی راستہ فراہم کرنا ہے تو ہمیں اِس تجزیئے کو قانون کی شکل میں ڈھالنا ہو گا یعنی ایک عورت کے دو مختلف مردوں کے ساتھ اِس تعلق کیلئے تین طہر کے درمیانی وقفے کی شرط کو جس کا نام عدت ہے، پوری دنیا میں قانون کا درجہ دیا جائے تاکہ نسل اِنسانی کی پیدائش کا محفوظ عمل معاشرے کی نگرانی اور ضمانت کے ساتھ جاری رہ سکے۔

کھجور کے فوائد


کھجور کے فوائد

بسم الله الرحمن الرحيم

قرآن میں کھجور کا ذکر صرف رطب اور نخل کی صورت میں آیا ہے جب کہ احادیث میں یہ آٹھ ناموں سے موسوم ہے ـ پانی میں بھگو کر اس کا عرق یا شربت نبیذ کہلاتا ہے ـ
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور بہت پسند تھی ـ حضرت سہیل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ :
میں نے انہیں دیکھا کہ وہ کھجوروں کے ساتھ تربوز کھا رہے تھے
ابو داؤد نے اضافہ کہ انہوں نے فرمایا کہ میں کھجور کی گرمی کو تربوز کی ٹھنڈک سے برابر کر لیتا ہوں یا تربوز کی ٹھنڈک کھجور کی گرمی سے زائل ہو جاتی ہے ـ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس گھر میں کھجور ہو ، وہ گھر والے کبھی بھوکے نہ رہیں گئے ـ مسلم

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کو رات کو بھگو کر اس کا پانی استعمال کرتے تھے ـ ابواسید رضی اللہ عنہ کی دعوت ولیمہ میں یہی پانی بڑے شوق سے ہیا ـ جب کہ ابوالہیم بن الیتھان رضی اللہ نے جب ان کے ساتھ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ کی اپنے باغ میں دعوت کی تو ان سے کہا کہ تم نے تو پکی ہوئی کھجوروں کو بھگو یا ہے ـ ہمیں زیادہ پسند ہو گا اگر پکی ہوئی کھجوروں کے ساتھ نیم پختہ (بسر ـ رطب) کھجوریں بھی ملا کر ان کا پانی ہمیں پلایا جائے ـ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھجور کی نبیذ میں بھی توانائی کے ساتھ ساتھ فرحت پیدا کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے ـ
یہ پانی جسم کی غلیظ رطوبتوں کو خشک کرتا ہے ، معدہ کو تقویت دیتا ہے ـ منہ کے زخموں کو مندمل کرتا ہے ـ ـ خاص طور پر مسوڑھوں کی سوزش میں مفید ہے ـ
پھلوں میں کھجور ممتاز حیثیت کی رکھتی ہے ـ کیونکہ یہ جسم کے ہر حصے کے لئے یکسان مفید ہے ـاس کی اصلاح کے لئے سکنجبین زیادہ مؤثر ہے ـ جب کہ دوسرے ذرائع بتاتے ہیں کھجور کے ذیلی اثرات کو دور کرنے کے لئے اس کے ساتھ بادام اور خشخاش کا استعمال مفید ہے ـ

اطبائے قدیم کے مشاہدات :
کھجور کے درخت کو چیت بیساکھ (مارچ ، اپریل ) میں پھول لگتے ہیں ـ بھادوں اسوج میں (اگست ، ستمبر ) میں پھل پک کر تیار ہو جاتا ہے ــ ا س کے پیڑ سے ایک قسم کا گوند نکلتا ہے جو بیرونی چوٹوں کے لئے مفید ہے ـ اس کے درخت کے تنے میں گھاؤ لگائیں تو ایک میٹھا اور خوشبودار رس نکلتا ہے ـ تازہ پئیں تو بڑا لذیذ ہوتا ہے مگر ایک دن گذرنے کے بعد اسمیں خمیر اٹھ جاتا ہے اور نشہ آور بن جاتا ہے ـ


کھجور کے فوائد

کھجور خون پیدا کرتی ہے اور جلد ہضم ہوتی ہے
قوت باہ کو مضبوط کرتی ہے
مقوی جگر و معدہ ہے ـ بدن کو فربہ کرتی ہے ـ
فالج ، لقوہ اور امراض باردہ میں بے حد مفید ہے

جلی ہوئی کھجور زخمون سے خون بہنے کو روکتی ہے اور زخم جلدی بھرتی ہے ــ خشک کھجور کو جلا کر رکھ لیتے ہیں اور بوقت ضرورت استعمال کرتے ہیں

کھجور کا تازہ پھل سل ودق کے لئے مفید ہوتا ہے ـ
گھٹلی کھجور کو رگڑ کر استعمال کرنے دست آنے بند ہوجاتے ہیں

کھجور گردے اور کمر کو طاقت دیتی ہے اور ریاح ، ورم کو تحلیل کرتی ہے ـ
بادی بلغم کو چھانٹی ہے ـ

خشک کھانسی اور دمے میں کھجور کا استعمال انتہائی مفید ہے ـ

گیس کے مریض صبح ناشتے میں تین سے گیارہ دانے کھجور کھا کر پانی ، دودھ یا پھر چائے کے ساتھ پئیں تو اس مرض سے نجات مل جاتی ہے
اگر دوبلے پتلے لوگ چاہیں کہ موٹے ہو جائیں تو ایک پاؤ کھجور پندرہ روز تک کھا کر بعد میں دودھ پئیں ، ان شاء اللہ صحت مند ہو جائیں گئے ـ
کھانسی ، بخار ، اور پیچیش میں کھجور کا استعال مفید ہوتاہے ـ
یہ قبض کو دور کرنے ے ساتھ پیشاب آور بھی ہے ـ
کھجور کے درخت کا گوند بیرونی چوٹوں کے لیے مفید ہوتا ہے ـ
گردوں ، مثانہ ، ، پتہ ، آنتوں میں قولنجی دردوں کو روکنے کے لیے کھجور کا متواتر استعمال انتہائی مفید ہوتا ہے
اگر کھجور کو نہار منہ کھایا جائے تو یہ پیٹ کے کیڑے مارتی ہےـ
کھجورکے پھول معدے کو طاقت دیتے ہیں ، قبض ختم کرتے ہیں ، اسہال بند کرتے ہیں ، خون تھوکنے اور خون آنے میں مفید ہیں ـ
کھجور کھانے سے بلغم نکلتا ہے اور طبیعت ہلکی ہو جاتی ہے ـ

احیتاط :
کھجور کا زیادہ کھانا مضر ہوتا ہے ، جگر اور تلی میں سدہ پیدا کرتا ہے ، اور خون کو جلاتی ہے اس لئے بہتر ہے کہ اس نعمت خداوندی کو مناسب مقدار کے مطابق ہی کھانا جائے ـ

ہائی بلڈ پریشرکا موثر علاج لہسن کا استعمال


ہائی بلڈ پریشرکا موثر علاج لہسن کا استعمال

جہاں ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشار خون کے لئے مختلف ادویات کا استعمال عام ہو گیا ہے وہاں طبی سائنس کے شعبے میں ریسرچ کرنے والے ترقی یافتہ ممالک میں بھی محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ لہسن کا استعمال نہایت مفید ہے۔
لہسن کا استعمال مشرق و مغرب دونوں غذائی ثقافت میں پایا جاتا ہے
اس سلسلے میں آسٹریلیا کے ڈاکٹروں نے بلڈ پریشر کے 50 مریضوں پر تجربہ کیا۔ ان کو دوا کے بجائے لہسن کے کیپسولز کھلائے گئے۔ ان مریضوں کے بلڈ پریشر کا تقابل ہائی بلڈ پریشر کے اُن مریضوں کے بلڈپریشر سے کیا گیا جو ادویات کا استعمال پابندی سے کرتے ہیں۔ پتہ یہ چلا کہ روزانہ لہسن کے چار کیپسولز کا استعمال کرنے والے مریضوں کا فشار خون یا بلڈ پریشر ادویات کا استعمال کرنے والوں کے مقابلے کہیں نیچے تھا۔ برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے محققین نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔
بلڈ پریشر چک کرواتے رہنا چاہئے
لہسن دراصل قدیم، روایتی طریقہ علاج میں بھی امراض قلب کے مریضوں کے لئے اکسیر سمجھا جاتا تھا۔ ایلوپیتھی کا رواج عام ہونے کے بعد سے گرچہ کیمیائی اجزاء سے تیار شدہ ادویات کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا، تب بھی طبی ماہرین نے لہسن کی افادیت جس میں کولیسٹرول یا خون کو گاڑھا کر دینے والے چکنے مادے کو کم کرنے اور بلند فشار خون کے علاج کے طور پر قدرت کے اس تحفے کو کبھی بھی بے اثر نہیں سمجھا۔ آسٹریلیا کی ایڈیلیڈ یونیورسٹی کے ریسرچرز نے پُرانے لہسن سے تیار کردہ چار کیپسول کا استعمال کرنے والے مریضوں کا 12 ہفتوں تک بغور مطالعہ کیا۔ اس کے مقابلے میں ایسے مریض تھے، جنہیں بلڈ پریشر کم کرنے کے لئے Placebo نامی دوا کھلائی گئی۔ محققین کی تحقیق سے پتہ چلا کہ لہسن کے کیپسولز مریضوں کے ہائی بلڈپریشر کم کرنے میں کہیں زیادہ مدد گار ثابت ہوئے۔
ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کو دل کا دورہ پڑنے کے خطرات سے خبر دار رہنا چاہئے
طبی محقق ’کارین ریڈ‘ کے بقول ’ لہسن کے کیپسولز خاص طور سے ایسے مریضوں کے لئے بھی مفید ثابت ہوئے، جن کے اندر خون کا غیر معمولی دباؤ پایا جاتا ہے، جسے ہائپر ٹینشن بھی کہتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا’ ہمارا یہ تجربہ اپنی نوعیت کا پہلا ہے، جس میں ہم نے ایسے مریضوں کو پرُانے لہسن سے بنے کیپسولز کھلائے، جو پہلے سے ہی ہائپر ٹینشن یا خون کے غیر معمولی دباؤ کے خلاف ادویات کا استعمال کر رہے تھے تاہم ان کا بلڈ پریشر کنٹرول میں نہیں آ پا رہا تھا۔
ماہرین نے تاہم کہا ہے کہ لہسن سپلیمنٹ یا تکمے کا استعمال ڈاکٹروں کے مشورے کے بعد کیا جانا چاہئے کیونکہ لہسن خون کو پتلا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دیگر ادویات کے استعمال کی صورت میں اگر لہسن کیپسولز لئے جائیں تو ہو سکتا ہے کہ کیمیائی تصادم پیدا ہو جائے۔
برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی ایک سینئیر نرس الن میسن کا کہنا ہے کہ لہسن کا استعمال بطور دوا ہزاروں سال قدیم طبی طریقہ علاج ہے، تاہم ماڈرن طبی دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ طبی سائنسی تحقیق سے یہ ثابت کیا جائے کہ خون کے مخصوص قسم کے عارضوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشار خون کے مریض پر لہسن کے کیپسولز مثبت اثرات مرتب کریں گے۔
کھانے میں سبزیوں خاص طور سے لہسن کا استعمال صحت کے لئے نہایت مفید ہے
الن میسن نے مزید کہا کہ لہسن کے استعمال سے بلڈ پریشر میں معمولی کمی کی نشاندہی ہوئی ہے تاہم ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کے بڑے گروپ کو ادویات کی جگہ محض لہسن کے کیپسولز کے استعمال کا مشورہ دینا مناسب نہیں ہوگا۔ زیادہ تر مریضوں کو ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ ساتھ امراض قلب کا بھی سامنا ہوتا ہے ایسے مریضوں کے لئے ڈاکٹروں کے صلاح و مشورے اور پابندی سے ادویات لینے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔
الن میسن کے مطابق برطانیہ میں ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہ اپنے اس مرض پر قابو پانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ بلند فشارخون، دل کے دورے اور قلب کے دیگرامراض کا باعث بنتا ہے۔ اس لئے طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ آپ کھانے میں لہسن کا استعمال جاری رکھیں تاہم بلڈ پریشر کی دوا لینا بند نہ کریں۔

جلد کو خوبصورت بنانے کے آسان نسخے


جلد کو خوبصورت بنانے کے آسان نسخے

لاہور (نیوز ڈیسک)آپ اپنی جلد کو خوبصورت بنانے پر بہت توجہ دیتے ہیںاور اس کے لئے مختلف کریموں کا استعمال کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ فائدہ بھی دیتی ہیں لیکن کبھی ان کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ہم میں سے اکثر لوگوں کو خوبصورت جلد کی چاہ ہوتی ہے اور بھلا کیوں نہ ہو، ملیح چہرے بھلا کس کو اچھے نہیں لگتے یوں تو بہت سے طریقے ہیں جلد پر توجہ دینے کے لیکن بنیادی طور پر جلد کو صاف رکھنا بے حد ضروری ہے کیونکہ اس سے عمر کا اظہار ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اور بہت سے مسائل ہیں جن سے خواتین دو چار رہتی ہیں۔ آیئے ہم آپ کو وہ آسان نسخے بتاتے ہیں جن کے استعمال سے آپ کی جلد نا صرف خوبصورت ہوگی بلکہ آپ جلد کو نقصان پہنچانے والی کریموں سے بھی بچ پائیں گے۔
-1 جلد کو داغ دھبوں سے روکنا۔
-2 لائنوں اور لکیروں سے روکنا۔
-3 جھریوں سے بچانا۔
-4 اور اسے چکنا رکھنا، بے حد ضروری ہے کیونکہ یکساں عمر کے دو اشخاص کی جلدیں ایک عمر نہیں بتائیں گی کیونکہ ذہنی آسودگی اور مالی استحکام انسانی جلد پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اکثر چالیس برس کا بزنس مین اور اتنی ہی عمر کا نوکری پیشہ آدمی آپ کو واضح طورپر ایک دوسرے سے مختلف نظر آئیں گے۔
جلد میں رونما ہونے والے اس قسم کے تغیرات کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ آپ اپنی جلد کے ساتھ کیسا رویہ رکھتے ہیں آپ نے اسے کسی طرح سرد گرم سے محفوظ رکھا ہے ہم جلد کی بھی پرورش کرتے ہیں گوکہ یہ بات آپ کو احمقانہ لگے گی لیکن یہ حقیقت ہے ہر وقت غصے سے رہنے سے آپ کے اعصاب متاثر ہوتے ہیں بلکہ آپ کی جلد بھی متاثر ہوتی ہے اور وہ کرختگی آپ کے چہرے کی معصومیت کو متاثر کرتی ہے۔ اس لئے جلد کی بہتری کے لئے شائستگی اور نرمی سے بات کرنی چاہیے۔ گفتگو پر اعتماد طریقے سے کونی چاہیے۔ جھریاں جو وقت سے پہلے آپ کو عمر رسیدہ ظاہر کرتی ہیں آپ ان پر قابو پاسکتے ہیں۔ اپنی زندگی پر جمود طاری نہ ہونے دیجئے۔ حد سے زیادہ جمود کی زیادتی جھریوں کی صورت میں آپ کی جلد کو متاثر کتی ہے۔
روزانہ رات سونے سے پہلے اپنا چہرہ ضرور کسی کلینزنگ کریم سے صاف کرکے ٹھنڈے پانی سے دھوئیں آپ خود نمایاں فرق اپنے رنگ اور جلد میں محسوس کریں گی۔
دن میں آٹھ بار پانی پئیں پانی کی مقدار جلد کی خشکی اور مسامات کے کھردرے پن کو دور کرتی ہے۔
وہ خواتین جن کی جلد ضرورت سے زیادہ چکنی ہے وہ ایسی چیزیں استعمال کرنے سے گریز کریں جن میں چکناہٹ زیادہ ہوتی ہے مثلاً تلی ہوئی اشیائ، مرغن غذا، سلاد اور ساس وغیرہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔
رس اور پھل اپنی غذائیں ضرور شامل کریں یہ جلد کو خوبصورت بناتے ہیں۔ مثلاً آڑو، آم، انگور یہ تمام موسمی پھل آج مارکیٹ میں ہیں اور ان سے آپ خواتین ضرورت استفادہ کریں گے۔
ٹماٹر، کھیرے کا ماسک چہرے کے لئے بے حد مفید ہوتا ہے۔ اس کا رس چہرے پر لگانے سے نہ صرف ٹھنڈک ملتی ہے بلکہ آپ کی جلد موسمی اثرات سے محفوظ رہتی ہے۔
دہی پھینٹ کر پورے چہرے پر لگائیں، سوکھ جانے کے بعد ہلکے ہلکے ہاتھوں سے چہرے سے میل صاف کریں پھر ٹھنڈے پانی کے چھینٹیں منہ پر ماریں آپ کو اپنی جلد شفاف نظر آئے گی۔
کینو سکھا کر اس کے چھلکوں کو پیس لیں۔ صابن کا استعمال کریں آپ کا چہرہ آپ کی جلد کچھ ہی دنوں بعد خود گواہی دے گی اس کے حق میں۔
خشک رکھنے والی خواتین کے لئے ضروری ہے کہ وہ بلا ناغہ ایک کھانے کا چمچہ معدنیاتی تیل پینے کی عادت کو اپنی روز مرہ مصروفیات میں شامل کرلیں۔ اس کے ساتھ ہی غذائیت سے بھرپور ایسی غذا جس میں چنائی کی مقدار زیادہ ہوکھائیں۔
وٹامنز اے کے استعمال بھی خشک جلد کو تروتازہ رکھتا ہے۔ دبلے ہونے کے لئے فاقہ کشی کی طرف راغب نہ ہوں کیونکہ اس کا اثر سب سے پہلے آپ کی جلد پر ہوتا ہے کیونکہ جسم کو تو یہ متناسب ضرور بناتی ہے لیکن چہرہ اور اس کی جلد اپنی رونق اور شادابی پہلے کھوبیٹھتے ہیں۔
جلد کی صفائی بے حد ضروری ہے اور اس کا ذکر ہم اس لئے بار بار کرتے ہیں کہ ایک بنیادی اصول ہے جلد کی عمر بڑھانے کا۔ بازار میں کچھ اشیائ ایسی بھی ملتی ہیں جن کا باقاعدہ استعمال جلد کی حفاظت، صفائی، نمی اور تازگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ان اشیائ میں سب سے پہلے جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے۔
کلینر
یہ ایک ایسا لوشن ہے جو میک اپ اتارنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ آپ کی جلد میں چھپے ہوئے میل کو مسامات سے نکال لیتا ہے اور چہرہ صاف کردیتا ہے لیکن یہ صرف ہفتے میں دوبارہ کرنا چاہئے ورنہ نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔ بہتر کلینر وہ ہوتا ہے جو چکنائی سے پاک ہو۔
اسٹرنجنٹ
یہ ایک ایسا مائع ہوتا ہے جو جلد کی اندرونی تہہ تک پہنچ کر گندگی نکالتا ہے اور چہرے کے اندر زائد تیل سے جلد کو نجات دلاتا ہے۔ اسے کلینزنگ کے بعد لگایا جاتا ہے اس میں الکحل شامل ہوتا ہے جو بیکٹیریا کے خاتمے اور جلد کے لئے مفید ہوتا ہے۔ چکناہٹ کے ناگوار احساس کو ختم کرنے کے لئے آپ اسے استعمال کرسکتی ہیں۔
موسچرائزر
یہ جلد کو نمی فراہم کرنے والی شے ہے اسے اسٹرانجنٹ کے بعد لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد فاﺅنڈیشن لگائی جاتی ہے۔
آنکھوں کے لئے کریم
خشک جلد والی خواتین کے لئے یہ کریم ضروری ہے یہ فاﺅنڈیشن سے قبل لگائی جاسکتی ہے اس کے علاوہ ہوںتوں کو نرم بھی رکھتی ہے اور اس کے لئے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔
ابٹن یا اسی قسم کی کریم
خواتین میں آج کل ان کا رواج عام ہے لیکن آہستگی سے مل کر چہرہ صاف کیجئے۔ آپ کی جلد بھی سختی محسوس کرتی ہے اس لئے اس کے نازک احساسات کا بھی خیال رکھیں اس قسم کا چہرہ صاف کرنے والی کریم یا ابٹن آپ استعمال ضرور کریں مگر ہفتے میں دوبار۔ جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ سوہنی ابٹن استعمال کریں اس کو خاص طریقے سے تیار کیا گیا ہے۔
فیشل
چہرے کی صفائی کے لئے کریم سے مساج کرکے بھاپ لیں یہ آپ کے چہرے کی جلد کو ملائم کرکے مسامات سے میل نکال لاتا ہے اور چہرے کی صفائی کے اس عمل کو فیشل کہا جاتا ہے۔
ماسک
چہرے کی تروتازگی کے لئے ماسک فیشل کے بعد لگایا جاتا ہے۔ یہ جلد کو مردہ خلیات سے نجات دلاتا ہے ماسک آپ گھر پر بھی بناسکتی ہیں مثلاً
-1 انڈے کی سفیدی اور شہد کا ماسک
-2 انڈے کی زردی اور لیموں کا ماس
اس کے علاوہ بازار میں بنے ہوئے بھی ماسک آپ کی جلد کی تازگی کے لئے معاون ثابت ہوتے ہیں۔
نائٹ کریم
رات کو سونے سے پہلے کریم ضرور لگائیں۔ چہرہ دھو کر کچھ دیر اسے یونہی لگارہنے دیں لیکن جب آپ سونے لییٹیں تو کریم کو چہرے سے قدرے صاف کرلیجئے لیکن خیال رہے رگڑیں نہیں۔
الرجی
الرجی سے مراد جلد پر خارجی اثر کے باعث رونما ہونے والا ردعمل، جس سے جلد سرخ ہوجاتی ہے۔ سوج جاتی ہے۔ ماہر امراض جلد کے پاس جتنے بھی مریض آتے ہیں ان میں سے دس میں سے دو مریض ایسے ضرور ہوتے ہیں جو ”لمس الرجی“ کے متاثرین ہوتے ہیں۔ کوئی فرد صابن سے اور کوئی ایسی کاسمیٹک سے جو وہ ایک عرصے سے استعمال کررہا ہو اور اسے اچانک الرجی کا سبب بھی پتہ نہیں چلتا۔
بعض اوقات ملبوسات سے بھی الرجی ہوجاتی ہے۔ رنگوں سے الرجی ہوجاتی ہے اور جلد پر سرخ دھبے پڑ جاتے ہیں۔
بعض اوقات چشمے، پن، عینک کے فریم سے بھی الرجی ہوجاتی ہے۔ اس الرجی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جلد امراض آہستہ آہستہ موروثی اثرات اختیار کرلیتے ہیں۔ فوراً اس شے کا استعمال ترک کردیں اور ڈاکٹر سے رجوع کریں کیونکہ یہ متعدی امراض کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور پھر علاج بھی ممکن نہیں رہتا۔
مٹی سے الری عموماً دمے کا سبب بن جاتی ہے اسی طرح خوشبو اور بدبو سے الرجی بھی مسائل پیدا کردیتی ہے۔
ذیابیطس، ایگزیما، ارومیٹک فیور، بلڈ پریشر اور دھاتوں سے الرجک لوگوں کو ناک اور کان چھدوائیں وقت بھی خیال رکھنا چاہیے۔ کیونکہ بعض وقت یہ فیشن مسئلہ بھی بن جاتا ہے۔ اس لئے امریکہ کی میڈیکل ایسوسی ایشن نے عوام کو متنبہ کیا ہے کہ وہ کان صرف ڈاکٹر سے جھدوائیں کیونکہ دوسرے حضرات حفظان صحت کے اصولوں کو مد نظر نہیں رکھتے اور اس صورت حال میں انفیکشن بھی ہوجاتا ہے اور خدانخواستہ کسی بڑی مصیبت کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
جلد کی صفائی
روزانہ باہر اگر آپ جاتی ہیں تو واپسی میں چہرہ کسی اچھے صابن سے دھونا نہ بھولئے۔
رات کو سونے سے پہلے چہرہ ضرور صاف کیجئے اور اسے عادت بنالیجئے کہ دانتوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ چرہ بھی دھونا ضروری ہے۔
صبح اٹھ کر منہ ہاتھ دھونے کے بعد چہرے پر اسٹرنجنٹ لگاکر چہرہ ضرور صاف کیجئے۔ پھر موسچرائزر لگاکر میک اپ کیجئے۔ پانی کا استعمال اپنی عادت بنالجئے۔
بستر پر جانے سے قبل
دن بھر کا میک اپ صاف کرکے بستر پر جانے سے قبل تیز روشنی کی مدد سے آئینے میں اپنے چہرے کا بغور جائزہ لیں۔ اگر چہرے پر کوئی چھری یا ہلکی سی لائن بھی نظر آرہی ہے تو فوراً اس کا تدراک کریں۔ یعنی آپ کی جلد کو مزید موسچرائزر کی ضرورت ہے۔ زیتون کے تیل یا آل آف اولے سے اس جگہ پر خوب اچھی طرح مساج کریں۔ کچھ ہی عرصے بعد یہ جھری یا لکیر غائب ہوجائے گی۔
اچھی نیند آپ کو تروتازہ رکھتی ہے
-1 سونے سے پہلے ایک گلاس گرم دودھ جس میں امینو ایسڈ پایاجاتا ہے ایک قدرتی خواب آور دوا ہے۔
-2 اگر کمر کی تکلیف دہتی ہے تو گھٹنوں کے نیچے تکیہ رکھ کر سونے سے پرسکون نیند آتی ہے۔ پیٹ کے بل کبھی نہ سوئیں کہ یہ کمرے کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس سے آپ کی جلد بھی خراب ہوتی ہے۔
-3 بستر پر کروٹ نہ بدلیں بلکہ اٹھ کر کوئی کتاب پڑھیں، چہل قدمی کریں خود بخود نیند آجائے گی۔
-4 غسل کرکے لیٹنے سے بھی پرسکون نیند آتی ہے۔
-5 صبح مقررہ وقت پر اٹھنے کی عادت ڈالیں ورنہ آپ کی جلد کی پڑمردگی آپ کی طبیعت کا چڑ چڑاپن آپ کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
-6 اگر آپ کو رات کو نیند مشکل سے آتی ہے تو دوپہر میں سونے کی عادت ترک کریں۔
-7 چائے اور کافی کی زیادتی سے پرہیز کریں کہ یہ آپ کی نیند اور صحت دونوں کی دشمن ہے۔
-8 سونے سے قبل پڑھنے کی عادت ڈالئے۔

رمضان شریف کا تحفہ:


رمضان شریف کا تحفہ:

بھوک اور پیاس کا علاج:

آلو بخارا سوکھا ڈیڑھ پائو ‘ تازہ ہو تو 2 کلو جو مل جائے استعمال کریں‘ صندل سفید نمبر ایک 50 گرام‘ انجبار 100 گرام‘ چھوٹی الائچی 20 گرام‘ تخم کاسنی 50 گرام‘ دھنیا خشک 50 گرام‘ چینی 4 کلو۔ اگر آلو بخارا تازہ ہو تو6 کلو پانی ڈال کر ابال لیں جب گل جائے اتار کر چھان لیں۔
باقی ادویہ کو کوٹ کر پانی میں بھگودیں صبح چھان کر آلو بخارے والے پانی میں ڈال کر چینی بھی ڈال دیں۔ پھر آگ پر پکائیں۔ شربت تیار ہے۔
رمضان شریف میں سحری کے وقت ایک گلاس استعمال کریں۔ پیاس نہیں لگتی اور افطاری کے وقت استعمال کریں کمزوری دور ہوجائے گی۔ مایہ ناز شربت ہے۔ایک ہفتہ استعمال کرنے کے بعد چہرہ سرخ ہوجاتا ہے۔

خالی معدے میں آب نوشی کے فوائد


خالی معدے میں آب نوشی کے فوائد
جاپان کی میڈیکل سوسائٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق صبح سویرے نیند سے بیدار ہوتے ہی پانی پینے کا عمل دیرینا اور پیچیدہ امراض کے علاوہ جدید بیماریوں کا موثر علاج ثابت ہوا ہے

جاپانی معاشرہ قدیم روایات پر قائم ہے- یہاں خواب بیداری یا نیند سے جاگنے کے ساتھ ہی صبح نہار منہ پانی پینے کا رواج عام ہے- سائنسی تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ نہارمنہ پانی پینا انتہائی فائدہ مند ہے۔ جاپان کی میڈیکل سوسائٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق صبح سویرے نیند سے بیدار ہوتے ہی پانی پینے کا عمل دیرینا اور پیچیدہ امراض کے علاوہ جدید بیماریوں کا موثر علاج ثابت ہوا ہے- جاپان کی میڈیکل سوسائٹی کے زیراہتمام ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پانی کے ذریعے چند بیماریوں کا 100 فیصد کامیاب علاج ممکن ہے- مثلاً سر اور جسم کا درد، قلب کے نظام میں پایا جانے والا نقص، آرتھرائٹس، ہارٹ بیٹ یا دل کی دھڑکن کی غیر معمولی تیزی، مرگی، موٹاپے کے سبب جنم لینے والی بیماریاں، برونکائٹس ایستھما یا دمہ، ٹی بی، گردن توڑ بخار یا پردہ دماغ کا ورم، گردے کی خرابی، میدے کی بیماریاں، ذیابیطیس، قبض، امراض چشم، آنکھ، ناک اور کان کی بیماریاں اور شکم مادر یا رحم کے سرطان اور دیگر زنانہ امراض سے بچنے کے لئے خالی پیٹ پانی پینا 100 فیصد مفید ثابت ہوتا ہے-

پانی سے علاج کا طریقہ
صبح سویرے اٹھتے ہی دانت صاف کرنے سے پہلے 4 گلاس پانی پینا چاہئے-کسی بیماری میں مبتلا یا معمر افراد اگر اکھٹا 4 گلاس پانی نا پی سکیں توکم از کم 1 گلاس پانی پئیں اور اس کی مقدار آہستہ آہستہ بڑھاتے ہوئے اسے 4 گلاس تک لے جانے کی کوشش کریں-اۥس کے بعد دانت صاف کیجئے تاہم 45 منٹ بعد تک کھانے اور پینے سے پرہیز کیجئے۔ اس کے بعد آپ نارمل ناشتہ کر سکتے ہیں- ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد 2 گھنٹے تک کچھ اورکھانے یا پینے سے پرہیز کریں-

پانی کے ذریعے علاج کے اس طریقہ کار سے چند خاص بیماریوں کا علاج چند دنوں کے اندر ممکن ہے- مثلاً ہائی بلڈپریشر یعنی بلند فشار خون کا علاج 30 روز کے اندر،گیسٹرک پروبلم 10 روز میں ، ذیابیطس ایک ماہ کے اندر ، قبض سے نجات 10 دنوں میں ، کینسر یا سرطان 180 روز میں اور ٹی بی پانی کے اس طریقہ علاج سے 90 دنوں کے اندر اندر ٹھیک ہو سکتی ہے- آرتھرائٹس یا گٹھیے یا جوڑوں کی سوزش کے شکار مریضوں کے لئے پانی سے علاج سے متعلق ہدایات کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ پہلے ہفتے میں تین دن اور دوسرے ہفتے سے ہر روز 4 گلاس پانی نہار منہ دانت برش کرنے سے پہلے پیئں اور اس کے بعد 45 منٹ تک کچھ کھانے پا پینے سے پرہیزکریں-

چین اور جاپان میں لوگ کھانے کے دوران پانی یا کوئی دوسرا ٹھنڈا مشروب پینے کے بجائے چائے پیتے ہیں- خاص طور سے سبز چائے یا قہوا- کھانے کے ساتھ ٹھنڈا پانی یا دیگر مشروب پینے سے غذا میں شامل تیل گھی یا چرب اشیاء جمنے لگتی ہیں اور اس طرح ہاضمے کا نظام سُست رفتار ہوتے ہوتے خراب ہونے لگتا ہے- یوں کیچڑ نماں یہ چکنی چیز میدے میں جا کر اس میں پائے جانے والے قدرتی تیزاب کے ساتھ متصادم ہوتی ہے- آخرکار یہ چکنا مادہ انتڑیوں کی اندرونی حصے میں ایک جھلی سی بنادیتا ہے جو رفتہ رفتہ کینسر یا سرطان کا سبب بنتی ہے- اس لئے چینی اور جاپانی ماہرین کی طرح بہت سے دیگر ممالک کے طبی محققین کا ماننا ہے کہ کھانے کے بعد گرم پانی یا سوپ پینا صحت کے لئے سب سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے-