Friday 26 September 2014

خسرہ کی وبا کیا ھے؟

خسرہ کی وبا کیا ھے؟
ملک میں اس وقت خسرہ کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔اس لئے خسرہ پر کچھ نہ کچھ لکھا جانا ضروری ہے۔
خسرہ ایک ایسی انفیکشن ھے جو وائرس سے پیدا ھوتی ھے۔ِ سردیوں کے آخر میں یا بہار کے موسم میں ھوتی ھے۔ خسرہ کی بیماری کے ساتھ جب کوئی مریض کھانستا یا چھینک مارتا ھےتو نہایت چھوٹےآلودہ قطرے پھیل کر ارد گرد کی اشیاء پر گر جاتے ھیں۔ آپکا بچہ یا تو ڈائیرکٹ سانس کے ساتھ اندر لے لیتا ھے یا پھر آلودہ اشیاء کو ھاتھ لگا کراپنا ھاتھ ناک، منہ، اور کانون لگاتا ھے۔
خسرہ کے نشانات اور علامات
خسرے کے ریش چہرے سے شروع ہوتے ہیں اور پورے جسم سے ہوکر پاوں تک جاتے ہیں
خسرہ کی علامات بخار کے ساتھ شروع ھوتی ھیں اور جو کہ دو دن تک رھتی ھیں۔ اس سے کھانسی ، ناک اور آنکھوں سے پانی بہتا ھے اور پھر بخار آ لیتا ھے۔ اس سے آنکھ مین انفیکشن ھوتی ھے جسے ' پنک آئی' کہتے ھیں۔ سرخ دانے چہرے اور گردن کےاوپر نمودار ھوتے ھیں اور پھر جسم کے دوسرے حصوں میں منتقل ھو جاتے ھیں۔ پھر یہ دانے بازوں، ھاتھوں، ٹانگوں،اور پیروں تک پھیل جاتے ھیں۔پانچ دن کے بعد جس طرح سرح دانے بڑھے تھے اسیطرح کم ھونا شروع ھو جاتے ھیں
خسرہ ایک سے دوسرے بچے میں آسانی سے پھیل جاتا ھے
خسرہ ایک سے دوسرے کو لگنے والا مرض ھے۔ مطلب کہ ایک سے دوسرے انسان کو فوری لگ جاتا ھے۔ اس بیماری کو پکڑنے والے 4 دن پہلے اور 4 دن بعد تک متاثر ھوتے ھیں۔ جن بچوں کی قوت مدافعت کمزور ھوتی ھے وہ زیادہ لمبے عرصے تک بیمار رھتے ھیں۔ خسرے کا وائرس ناک اور گلے کی بلغم میں پرورش پاتا ھے۔ جب وہ چھینک مارتے ھیں یا کھانستے ھیں تو قطرے ھوا میں پھیل جاتے ھیں۔ یہ قطرے قریب کی جگہوں پر بھی پڑتے ھیں جو دو گھنٹوں تک وائیرس فضا میں بکھیرتے رھتے ھیں
خطرے کے امکانات
خسرا عام طور پر سرخ اور دھبوں والا ہوتا ہے
آپکے بچے میں خسرہ ھونے کے امکانات زیادہ ھو سکتے ھیں اگر:
اگر آپکے بچے نے خسرہ کی ویکسینیشن نہیں کرائی
آپکا بچہ ویکسینیشن کے بغیر دوسرے ملک کا چکر لگاتا ھے
اگر بچے میں وٹامن اے کی کمی ھےِ
پیچیدگیاں
پیچیدگیاں بہت سے خطرات پیدا کرتی ھیںخسرے کے ساتھ کچھ بچوں کو کان کی انفیکشن ھو جاتی ھے ساتھ میں ڈائیریا اور نمونیہ ھونے کا خطرہ بھی ھوتا ھے بہت کم کیسیز میں ایسا ھوتا ھے کہ بچے کو دماغ کی سوجن کی بیماری ھو جاتی ھے جسے لینسفالیٹیس کہتے ھیں۔ اس بیماری کے شدید اثرات والے مریضوں کا یا تو دماغی نقصان ھوتا ھے یا وفات ھو جاتی ھے۔ ایسے بچے جنہیں خسرہ نکلتا ھے ، انہوں نے خفاظتی ٹیکہ نہیں لگوایا ھوتا۔ یا کینیڈا سے باھر کسی ملک سے آتے ھیں
خسرہ میں ڈاکٹر کیا مدد کر سکتے ہیں
خسرے کی تشخیش ڈاکٹری جسمانی معائنے کے بعد ھوتی ھے۔ ڈاکٹر خون کا ٹیسٹ بھی کروا سکتا ھے اور روئِ پر ناک اور گلے سے نمونہ لیکر ٹیسٹ کروا سکتا ھے۔ اگر آپ کے خیال میں آپکے بچے کو خسرہ ھے تو ڈاکٹر کو فون کرکے جائیں تا کہ وہ حفاظتی اقدامات کر لیں۔
گھر پر بچے کی دیکھ بھال کرنا
خسرے کا چونکہ کوئِ بھی علاج نہیں ھے اس لئے اپنے بچے کوگھر پر اسطرح رکھئے جس سے وہ آرام محسوس کر سکے
بخار کا درجہ حرارت نوٹ کیجےَ
ایسیٹیمینوفین[ ٹائینانول یا ٹیمپرا] آئی بوپروفین بخار کو کم کرنے کے لئے استعمال کر سکتےھیں۔ چے کو ھرگز آے ایس اے ِیعنی اسپرین نہ دیں
اپنے بچے کو بستر کا آرام دیجےَِ اوردوسرے بچوں سے الگ کر دیجیے
سرخ دانے نمودار ھونے کے بعد آپ کا بچہ ڈے کئیر یا سکول 8 دن تک نہیں جا سکتا۔ حسرہ کے بارے میں پبلک ھیلتھ ڈیپارٹمنٹ اطلاع کر دی جائے گی جو کہ آپ سے رابطہ کریں گے۔
مشروبات
اپنے بچے کو پانی اور دوسرے مشروبات پلائیِں
طبی مدد کب حاصل کی جائے
اپنے بچے کے ڈاکٹر سے فوری رابطہ کریں اگر:
جسم پر سرخ دانے نکلنے کے بعد اگر 4 دن کے اندربخار نہ اترے
بہت زیادہ کھانسی ھو
آپ کے بچے کے کان میں درد ھو
اپنے بچے کو ایمرجنسی میں لیکر جائیں
اگر بچے کو سانس لینے میں دشواری ھو یا سانس لینے میں آواز کا عنصر شامل ھو۔
آپکے بچے کو دورہ پڑ جائِے، ھلنے جلنے میں مشکل پیش آئے یا سلوک میں بدلاو نظر آئے
آپکے بچے کو سر میں شدید درد ھو اور الٹیاں آئیں
آپ کا بچہ دیکھنے میں بہت بیمار لگے
خسرے سے بچاو کا طریقہ
بہت سے ملکوں میں خسرے کی ویکسین مفت دستیاب ھے۔ چھوٹے بچوں کو خسرے کے دو ٹیکے لگائے جاتے ھیں۔ پہلی خوراک بچے کو ایک سال کی عمر میں دی جاتی ھے اور دوسری بچے کے سکول شروع کرنے سے پہلے دی جاتی ھے
خسرے، ممز اور روبیلا[ایم ایم آر] کی ایک ھی ویکسین ھوتی ھے۔ اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کیجئے اگر آپ دونوں نے حفاظتی ٹیکہ نہیں لگایا
آپکے بچے کو خسرہ، ممز اور روبیلا[ایم ایم آر] کا حفاظتی ٹیکہ لگانا ضروری ھے۔ اس کے دو ممکنہ شیڈیول ھیں:
بارہ مہینے اور اٹھارہ مہینے یا
پندرہ مہینے اور چار سے چھھ سال کا عرصہ
زیادہ تر کیسز میںمامون سازی یا جسمانی مدافعت آپکے بچے کوخسرے کی بیماری سے بچا لیتی ھے۔ مامون سازی بہت سی پیچیدگیوں سے بچاتی ھےجیسے کہ نمونیہ، پھیپھڑوں کی انفیکشن یا دماغی سوزش وغیرہ
کچھ بچوں میں ویکسین سے دانوں کا نمودار ھونا
جب بچوں کو خسرے کا ٹیکہ لگایا جائے تو کچھ بچوں میں بیماری کی ھلکی سی علامات پیدا ھو جاتی ھیں۔ یہ ایک عام سی بات ھے۔ ایسی صورت میں ٹیکہ لگنے کے 7 سے 10 دن کے درمیان گلابی دانے پیدا ھو جاتے ھیں ۔ بچے کو ھلکا بخار اور جوڑوں میں ھلکی درد بھی ھوتی ھے، اگر آپ فکر مند ھوں تو اپنے فیملی ڈاکٹر سے رابطہ کریں
ویکسینیشن کروانا بہت ضروری ھے
ترقی یافتہ مما لک میں جہاں ویکشینیشن کی جاتی ھے ، وھاں اگر خسرے کا حملہ ھو بھی تو بہت ھلکی نوعیت کا ھوتا ھے۔ دوسرے ممالک سے آنے والے یا مغربی سیاح جو دوسرے ملکوں سے واپس آتے ھیں، وہ اپنے ساتھ ملک میں یہ بیماری بھی لے آتے ھیں۔
اس وجہ سے آپ کا بچے اور خاندان کے دوسرے افراد کو حفاظتی ٹیکہ لگنا ضروری ھے۔ اگر حفاظتی ٹیکے نہیں لگائے جائیں گے تو یہ بییماری بہت تیزی سے پھیل جاتی ھے
اگر آپکے بچے کو ھسپتال میں خسرہ ھو جاتا ھے
یہ بیماری دوسرے مریضوں میں پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر،آپ کے بچے کو الگ کمرے میں رکھا جائے گا۔ آپکا بچہ پلے روم میں نہیں جا سکے گا جب تک کہ خسرے کے دانے ختم نہ ھو جائیں۔ علہدگی خسرہ شروع ھونے کے 4 دن کے اندرشروع ھو گی۔ اگر آپکے بچے کو مامون سازی کا مسلہ ھے تو بچے کو علامات کے ختم ھونے تک کمرے میں رھنا ھو گا۔
بچے کے لائف سپیشیلیشٹ سے کہیں کہ وہ کھلونے اور رسد کمرے ھی میں لے آئے۔ ایسے لوگ جنہیں پہلے خسرہ نہیں ھوا یا انہوں نے حفاظتی ٹیکہ نہیں لگوایا ھوا ، انہیں بچے کے کمرے میں نہیں آنا چاھئے۔ اگر آپ یا کوئی اور جسے خسرے کی علامات ظاھر ھوں وہ فوری طور پر بچے کے ڈاکٹر یا نرس سے رابطہ کریں
ترقی یافتہ دنیا میں خسرے کی بیماری بہت کم ھے
کینیڈا جیسے ملک میں جہاں زیادہ مقدار میں ویکسین کے استعمال کی وجہ سے خسرہ نہ ھونے کے برابر ھے۔ دنیا کے دوسرے حصوں میں 43 ملین لوگ ھر سال خسرے کا شکار ھوتے ھیں۔ دس لاکھھ لوگ ھر سال خسرے کی بیماری سے وفات پا جاتے ھیں
کلیدی نکات
خسرہ، وائرس سے پیدا شدہ ایک بیماری ھے جس کا کوئی خاص علاج نہیں ھے
خسرے سے عام طور پر بخار، کھانسی، آشوب جشم اور دانوں کی بیماری پیدا ھوتی ھے
خسرہ بہت جلدی دوسروں کو لگ جاتا ھے اس لئے دوسروں میں پھیلانے کی بجائے بہت احتیاط کی ضرورت ھے اس لئے اپنے بچے کو فوری طور پر علہدہ کر دیں
بہت کم کیسیز میں خسرہ کے مریض کو ھسپتال میں داخل کروانے کی ضرورت ھوتی ھے
مامون سازی یا حفاظتی ٹیکہ لگوانے سے خسرہ کے عمل سے بچا جا سکتا ھے

جوڑوں کے کا درد طبی علاج (طب یونانی میں علاج)

جوڑوں کے کا درد طبی علاج (طب یونانی میں علاج)
Treatment of Arthritis with herbal medicines
نسخہ ھوالشافی
پھٹکری سفید بریاں
5 تولہ (60 گرام)
مُقِّل مصفٰی
3 تولہ (36 گرام)
چوب چینی
3 تولہ (36 گرام)
ہلدی
3 تولہ (36 گرام)
کوڑانڈین
3 تولہ (36 گرام)
مغزکر نجوہ
3 تولہ (36 گرام)
پھٹکری سرخ بریاں
3 تولہ (36 گرام)
سورنجاں شیریں
3 تولہ (36 گرام)
پوست ہلیلہ زرد
3 تولہ (36 گرام)
گؤدنتی بریاں (چولہا جلا کر ایک گھنٹہ تک اس پر رکھی رکھیں پھر پیس لیں)
2 تولہ (24 گرام)
کلونجی
2 تولہ (24 گرام)
اجوائن خراسانی
1 تولہ (12 گرام)
مصبر
1 تولہ (12 گرام)
سنامکی
1 تولہ (12 گرام)
تمام دواؤں کا سفوف بنا کر 500 ملی گرام کے کیپسول بھر کر اسے 2 کیپسول صبح دوپہر شام کھانے کے آدھے گھنٹے بعد ہمراہ پانی کے استعمال کرائیں۔ مذکورہ نسخہ میں نے ذاتی تحقیق اور محنت سے ترتیب دیا ہے۔ اس سے بہت فائدہ پہنچتا ہے‘ یہ نسخہ اوسٹیوآرتھرائیٹس‘ نِقْرِس‘ پٹھوں کے درد (Muscular Pain)‘ موچ (Sprain)‘ چوٹ لگنے کے بعد جوڑ یا پٹھوں میں ہونے والی سوجن (Inflammation) اور پٹھوں کے کھنچاؤ میں بہترین کام کرتا ہے لیکن حِدَارِی التہاب مفصل (Rheumatoid Arthritis) میں یہ نسخہ استعمال کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ مذکورہ نسخے کے ساتھ ساتھ اوسٹیوآرتھرائیٹس کے مریضوں کو کیلشیم اور وٹامن ڈی پر مشتمل درج ذیل نسخے کا بھی ضرور استعمال کروایا جائے۔
کشتہ بیضہ مرغ‘ کشتہ صدف‘ کشتہ مرجان اور مروارید ہم وزن لے کر‘ سفوف کرکے 400 ملی گرام کے کیپسول بھرلیں اور دو سے تین دفعہ روز ہمراہ مکھن اور دودھ کے مریضوں کو استعمال کروانے چاہیے اور ساتھ ساتھ مچھلی کے تیل کا ایک چھوٹا چمچ صبح/شام استعمال کیا جائے کیونکہ اس میں وٹامن ڈی ہوتا ہے جو جسم میں کیلشیم کے جذب ہونے کی رفتار کو تیز کرتا ہے۔ لہٰذا مچھلی کا تیل یا مچھلی کے تیل کے کیپسول ساتھ ساتھ مریضوں کو ضرور استعمال کروائے جائیں۔
اگر ساتھ میں یورک ایسڈ بڑھا ہوا ہو اور بخار بھی ہو تو مناسب علاج کریں۔ درج ذیل ادویات معجون سورنجاں‘ معجون چوب چینی‘ یوروسینال کو اگر ضرورت ہو تو ساتھ میں استعمال کروایا جاسکتا ہے۔
تقویت کے لیے حب اذراقی‘ معجون اذراقی‘ معجون فلاسفہ‘ دوالمسک معتدل جواہر دار‘ جواہر مہرہ وغیرہ میں سے کسی ایک کا استعمال کروایا جائے۔ سورنجاں (Colchicum) کے مرکبات کے جوڑوں کے درد میں احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے کیونکہ اس کا زیادہ استعمال اور غیر ضروری استعمال (Agranulocytosis) اور (Mitotic Arrest) کا سبب بن سکتا ہے۔

نسخہ،سدا جوانی کیلئے


نسخہ،سدا جوانی کیلئے
نسخہ الشفاء:
ناریل60گرام،چھوہارہ بغیر گٹھلی60گرام،کشمش60گرام،مغزاخروٹ60گرام
مغز پستہ60گرام،مغزبادام60گرام،چینی60گرام
تیاری:
تمام کو پیس کررکھ لیں
مقدار خوراک:
بارہ گرام صبح و شام نہار منہ ہمراہ نیم گرم دودھ ایک گلاس
فوائد:
جسم کی سوئی ہوئی قوتوں کو بیدار کرتا ہے جسمانی طاقت اور قوت باہ بڑھاتا ہے
مادہ تولید پیدا کرتا ہے بے اولادوں کے اولاد پیدا کرتا ہے مرد و عورت دونوں کے لیے
مفید ہےعورت ڈھیلے ڈھالے جسم کو خوبصورت سمار‌ٹ جوان بنا دیتا ہے عرصہ10سال
سے آزمودہ ہے یہ نسخہ گفٹ ہے
  ہر موسم میں استعمال کر سکتے ہیں دس دن استعمال کر کے تین دن ناغہ
کریں پھر استعمال کریں اسی طرح ایک ماہ استعمال کافی ہے ایک ماہ کے وقفے کےبعد پھر
استعمال کرسکتے ہیں...!

اجوائن...درجنوں بیماریوں کا علاج

اجوائن...درجنوں بیماریوں کا علاج
اجوائن کا استعمال بطور دوا زمانہ قدیم بلکہ قبل از مسیح سے ہو رہا ہے۔ اس کا نباتی نام ptcuoticAjowan ہے اور انگریزی میں omum seed کہتے ہیں۔جبکہ زبان طب (فارسی) میں نانخواہ کے نام سے پکاراجاتا ہے۔ اجوائن ایک مفرد ہے۔ اس کے پودے کا رنگ سفیدی مائل اور بیج سونف کی طرح حجم میں چھوٹے اور ذائقہ میں تلخ ہوتے ہیں۔ اس کا پودا ہندوستان‘ ایران‘ مصر اور پاکستان میں عام پایا جاتا ہے۔ یہ کاشت بھی کیا جاتا ہے اورخودرو بھی ہے۔ اطباءنے اس کا مزاج تیسرے درجے میںگرم خشک بتایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرد مزاج کے لوگوں میں مفید ہے اور بلغمی مزاج اور بلغمی امراض میں بہت فائدہ دیتا ہے۔ اجوائن دو قسم کی ہوتی ہے جس اجوائن کا ذکر کیا جارہا ہے اسے دیسی اجوائن کا نام دیا جاتا ہے ۔دوسری قسم اجوائن خراسانی ہے۔ یہ ایک مختلف چیزہے۔ یہ تخم بھنگ کا نام ہے جس کے افعال و معالجاتی اثرات قطعی مختلف ہیں۔ تخم بھنگ جو خراسان سے ہندوستان آتے تھے اجوائن سے مشابہہ ہونے کے باعث اجوائن خراسانی کا نام دے دیا گیا ہے ‘حالانکہ ان دونوں میں بہت تضاد ہے۔
اجوائن کے کیمیائی تجزئیے سے اس میں سے ایک جوہر ست اجوائن یا تھامول‘ کاربالک ایسڈ سے پچیس گنا زیادہ انٹی سیپٹک ہے اور جسم پر اس کے مضر اثرات کاربالک ایسڈ کی نسبت نصف ہیں ۔ طب میں اجوائن سے معجون نانخواہ ‘ عرق نانخواہ اور شربت نانخواہ تیار کئے جاتے ہیں اجوائن پیٹ کے مختلف امراض جن میں درد معدہ‘ ریاح معدہ‘ بھوک کم لگنا‘ پیٹ کے کیڑے اور قولنج میں مفید ہے۔
اجوائن نہ صرف کھانے کو لذیذ بناتی ہے بلکہ ہاضم بھی ہے۔ افیون کے مضراثرات زائل کرتی ہے اسی لئے اسے افیون کا مصلح قرار دیا گیا ہے۔ اجوائن جگر کے سدے کھولتی ہے۔ گردہ و مثانہ کی پتھری توڑتی ہے پیشاب اور حےض کو جاری کرتی ہے۔ خوراک:۔ 5تا 10 گرام حسب ضرورت۔
پیٹ کے کیڑے
اگر پیٹ میں کیڑے ہوں تو اجوائن میں شہد ملا کر چاٹنے سے کیڑے ختم ہو جاتے ہیں۔
پیٹ درد
پیٹ درد کی صورت میں اجوائن ۳ گرام۔ کالا نمک ڈیڑھ گرام ملا کر نیم گرم پانی سے کھانے سے پیٹ دردمیں فائدہ ہوتا ہے۔
ریاح معدہ
ایسی صورت میں اجوائن ‘ کالی مرچ اور نمک میں پیس کر ہم وزن گرم پانی سے کھانے سے ریاح معدہ میں مفید ہے ۔
قولنج
اجوائن 12 گرام۔ نمک سینڈھا ۳ گرام ملا کر کھانا قولنج میں مفید ہے۔
اسہال
اجوائن کا عرق اور چونے کا پانی ملا کر پلانا اسہال میں مفید ہے۔
ناف پھولنا
اجوائن انڈے کی سفیدی میں ملا کر لگانا بچے کی ناف پھول جانے میں مفید ہے۔
ہیضہ
روغن اجوائن کے دو قطرے پانی میں ملا کر پلانا ہیضہ کے ابتدائی ایام میں مفید ہے۔
چھوٹے بچوں کو قے اور دست
ایسی صورت میں ماں کے دودھ کے ساتھ اجوائن کا استعمال مفید ہے۔
زچہ کیلئے
اجوائن اور سونٹھ کا ہم وزن سفوف ملا کر زچہ کے کھانے میں ملانے سے نہ صرف اس کا کھانا لذیذ ہو جائے گا بلکہ بد ہضمی بھی نہیں ہو گی۔
عرق اجوائن
عرق اجوائن‘ فالج‘ رعشہ اور اعصاب کیلئے مفید ہے۔ ریاحوں کو تحلیل کرتا ہے ۔
روغن اجوائن
روغن اجوائن اور سفوف دار چینی ایک گرام ملا کر کھانے سے پیٹ درد جاتا رہتا ہے۔ اس تیل کی مالش جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔ نظام ہضم کیلئے فائدہ دیتا ہے۔

مولی


مولی 
مولی برصغیر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سبزیوں میں سے ایک ہے۔ یہ سالانہ اُگنے والی، روئیں دارسبزی ہے۔ جڑ سے براہ راست سبز پتے پھوٹتے ہیں۔ جڑ ایک ہی ہوتی ہے جو گول بیلن نما یا مخروطی، سفید یا سرخ رنگ کی ہے۔ یہ بھوک بڑھاتی اور خون کی گردش کو فعال بناتی ہے۔ مولی کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں جن کاسائز اور رنگ مختلف ہوتا ہے۔ مولی کے تمام تر فوائد حاصل کرنے کیلئے اسے کچی حالت میں ہی کھانا چاہیے۔ پکانے پر اس کے حیاتین اجزا ضائع ہو جاتے ہیں۔ بالخصوص سکروی دور کرنے والے اجزاتباہ ہو جاتے ہیں۔ مولی کے پتوں کو بھی سلاد کے طور پر یا سالن میں پکا کر کھایا جاتا ہے۔ مولی کے پتوں میں کیلشیم، فاسفورس، وٹامن سی اور پروٹین نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہیں۔

شفا بخش اجزا اور قدرتی فوائد
مولی کے پتے پیشاب آور، دافع سکروی اور مسہل ہوتے ہیں۔ مولی کی جڑ بھی سکروی کے مرض سے محفوظ رکھنے اور اس کا علاج کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے۔ مولی کے بیج بلغم خارج کرتے ہیں۔ پیشاب آور ہیں اور تبخیر کی بے چینی دور کرتے ہیں۔

بواسیر
مولی کا جوس اور تازہ جڑ، بواسیر کا مو ¿ثر علاج قرار دیا جاتا ہے۔ 60سے 90ملی لٹر تک کی مقدار میں اس کا جوس صبح و شام پینا چاہیے۔

پیشاب کی بے قاعدگیاں
مولی کا رس درد کے ساتھ پیشاب آنے کی تکلیف اور رحم کے شدید درد میں عمدہ علاج بالغذا ہے۔ اسے تکلیف کی شدت کے مطابق 60سے 90ملی لٹر تک پینا مناسب رہتا ہے۔ ضرورت کے مطابق اسے دن میں کئی بار پیا جا سکتا ہے۔ مثانے کی پتھری اور سوزش دور کرنے کیلئے مولی کے پتوں کا جوس ایک کپ روزانہ پندرہ دن تک پینا صحت بخشتا ہے۔

سینے کی تکلیف
مولی کاتازہ جوس ایک چائے کا چمچ، ہم وزن شہد اور تھوڑا سا نمک ملا کر استعمال کرنا، گلا بیٹھ جانے، کالی کھانسی، برونکائٹس اور سینے کے دیگر امراض میں بہت مفید ہے۔ یہ نسخہ دن میں تین بار استعمال کرنا چاہیے۔

یرقان
مولی کے سبز پتے یرقان کے علاج میں نافع ہیں۔ پتوں کو کچل کر کسی کپڑے میں ڈال کر نچوڑنے سے مطلوبہ جوس حاصل ہو جاتا ہے۔ ذائقہ بہتر بنانے کیلئے اس میں چینی شامل کی جا سکتی ہے۔ اس مشروب کا نصف کلو بالغ فرد کیلئے روزانہ استعمال کرنا نافع ہے۔ اس سے فوراً افاقہ ہو تا ہے۔ مذکورہ مشروب بھوک بڑھاتا ہے اور صفرا کو خارج کرتا ہے اور مرض بتدریج ختم ہو جاتا ہے۔

پھلبہری
مولی کے بیجوں سے بنا پیسٹ اس مرض میں مفید رہتا ہے۔ 35گرام بیج کا سفوف بنا کر اس میں سرکہ ڈالنے سے مطلوبہ پیسٹ تیار ہو جائے گا۔ یہ پیسٹ پھلبہری کے سفید دھبوں پر لگانا چاہیے۔ زیادہ بہتر نتائج کیلئے مولی کے بیجوں کو کوٹتے ہوئے ان میں چٹکی بھر آرسینک (زہر) شامل کر لینا چاہیے اور پھر رات بھر سرکہ میں بھگو رکھنا چاہیے۔ دو گھنٹوں کے بعد پتے نمودار ہو جائیں گے۔ انہیں جسم کے سفید داغوں پر ملنا چاہیے۔ یہ نسخہ صرف اور صرف بیرونی استعمال کیلئے ہے۔

جلد کے دیگر عوارض
مولی کے پتوں میں مصفی مادے ہوتے ہیں۔ جب کہ مولی کے بیجوں کا ایملشن (پانی کے ساتھ بنانے کے بعد) چہرے پر ملنے سے کالے تل اور چھائیاں دور ہو جاتی ہیں۔ پیٹ کے کیڑے بالخصوص رنگ ورم کی ہلاکت کیلئے ان کا استعمال آزموہ ہے۔

خشک میوہ جات اور ان کے حواض

خشک میوہ جات اور ان کے حواض
خشک میوہ جات قدرت کی جانب سے سردیوں کا انمول تحفہ ہیں جو خوش ذائقہ ہونے کے ساتھ ساتھ بےشمار طبی فوائد کے حامل بھی ہیں۔ خشک میوہ جات مختلف بیماریوں کے خلاف مضبوط ڈھال کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈرائی فرو ٹس جسم کے درجہ حرارت کو بڑھانے اور موسم سرما کے مضر اثرات سے بچاو میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اعتدال کے ساتھ ان کا استعمال انسانی جسم کو مضبوط اور توانا بناتا ہے۔

مونگ پھلی

مونگ پھلی ہردلعزیز میوہ ہے۔سردیوں میں مونگ پھلی کھانے کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے تاہم اس کا باقاعدہ استعمال دبلے افراد اور باڈی بلڈنگ کرنے والوں کے لئے انتہائی غذائیت بخش بھی ثابت ہوتا ہے۔ مونگ پھلی میں قدرتی طور پر ایسے اینٹی آکسیڈنٹ پائے جاتے ہیں جو غذائیت کے اعتبار سے سیب‘ گاجر اور چقندر سے بھی زیادہ ہوتے ہیں جو کم وزن افراد سمیت باڈی بلڈنگ کرنے والوں کے لئے بھی نہایت مفید ثابت ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے طبی فوائد کئی امراض سے حفاظت کا بھی بہترین ذریعہ ہیں۔ مونگ پھلی میں پایا جانے والا وٹامن ای کینسر کے خلاف لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اس میں موجود قدرتی فولاد خون کے نئے خلیات بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔کینیڈا میں کی جانے والے ایک تحقیق کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذیابطیس کے مریضوں کے لئے مونگ پھلی کا استعمال نہایت مفید ہے ۔ماہرین کے مطابق دوسرے درجے کی ذیابطیس میں گرفتار افراد کے لئے روزانہ ایک چمچہ مونگ پھلی کا استعمال بہت مثبت نتا ئج مرتب کرسکتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مونگ پھلی کا استعمال انسولین استعمال کرنے والے افراد کے خون میں انسولین کی سطح برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔مونگ پھلی میں تیل کافی مقدار میں ہوتا ہے لیکن آپ خواہ کتنی بھی مونگ پھلی کھا جائیں اس کے تیل سے آپ کا وزن نہیں بڑھے گا۔
چلغوزے

چلغوزے گردہ‘مثانہ اور جگر کو طاقت دیتے ہیں اس کے کھانے سے جسم میں گرمی اور فوری توانائی محسوس ہوتی ہے۔ چلغوزہ کھانے سے میموری سیلز میں اضافہ ہو کر یادداشت میں بہتری پیدا ہوتی ہے ۔اگر کوئٹہ سے قلعہ عبداللہ کے راستے ژوپ(فورٹ سنڈیمن)کی طرف جائیں تو تقریبا پانچ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ژوب کا علاقہ آتا ہے۔جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان سے یہی مسافت چار گھنٹے میں طے ہوتی ہے۔یہ علاقہ 2500سے 3500میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 37سینٹی گریڈ جبکہ سردیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 15سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ مزید بلندی پر یہ درجہ حرارت مزید کم ہو جاتا ہے-یہی وہ علاقہ ہے جہاں چلغوزے کے دنیا کے سب سے بڑے باغات واقع ہیں۔یہ باغات تقریبا 1200مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں ۔اس علاقے میں پیدا ہونے والا چلغوزہ دنیا بھر میں نہایت معیاری اور پسند کیا جاتا ہے۔یہاں پیدا ہونے والا بیشتر چلغوزہ لاہور کی مارکیٹ میں سیل کیا جاتا ہے جہاں اسکی مناسب پیکنگ وغیرہ کر کے اسکو بیرون ملک ایکسپورٹ کر دیا جاتا ہے۔بلوچستان میں پیدا ہونے والے اس چلغوزے کی زیادہ تر مارکیٹ دبئی‘اینگلینڈ‘ فرانس‘مسقطاور دیگر ممالک ہیںجہاں کےخریدار اس علاقے کے پاکستانی چلغوزے کو منہ مانگی قیمت پر خریدنے کو تیار رہتے ہیں۔بیرون ملک مہنگے داموں خریدے جانے کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں بھی چلغوزے انتہائی مہنگے داموں کم و بیش 2500روپے کلوبیچے جا رہے ہیں۔
کاجو

کاجو انتہائی خوش ذائقہ میوہ ہے جسے فرائی کر کے کھایا جاتا ہے ۔اس میں زنک کی کافی مقدار پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے استعمال سے اولاد پیداکرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔کینیڈا میں کی گئی ایک حالیہ طبی تحقیق کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کاجو کا استعمال ذیابطیس کے علاج میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کاجو کے بیج میں ایسے قدرتی اجزا پائے جاتے ہیں جو خون میں موجود انسولین کو عضلات کے خلیوں میں جذب کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کاجو میں ایسے ”ایکٹو کمپاونڈز“ پائے جاتے ہیں جو ذیابطیس کو بڑھنے سے روکنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں لہذا ذیابطیس کے مریضوں کے لئے کاجو کا باقاعدہ استعمال انتہائی مفید ہے۔
اخروٹ

اخروٹ نہایت غذائیت بخش میوہ شمار ہوتا ہے۔ اس کی بھنی ہوئی گری جاڑوں کی کھانسی میں خاص طور پر مفید ہے۔ اس کے استعمال سے دماغ طاقتور ہوجاتا ہے۔ اخروٹ کو اعتدال سے زیادہ کھانے سے منہ میں چھالے اور حلق میں خراش پیدا ہوجاتی ہے۔ایک حالیہ امریکی تحقیق کے مطا بق اخر وٹ کا استعمال ذہنی نشونما کے لئے نہایت مفید ہے، اوراس کے تیل کا استعما ل ذہنی دباﺅ اور تھکان کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے ۔امریکہ کی ریاست پنسلوانیا میں کی جا نےوالی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اخروٹ میں موجود اجزا خون کی گردش کو معمول پر لاکر ذہن پر موجود دباو کوکم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ حضرات جو زیادہ کام کرتے ہیں ان کے ذہنی سکون کے لئے اخرو ٹ اور اس کے تیل کا استعما ل نہایت مفید ثابت ہوتا ہے ۔ ماہرین کے مطابق اخرو ٹ کا استعما ل بلڈپریشر پر قابو پانے اور امراض ِقلب کی روک تھام کے لیے بھی نہایت مفید ہے
بادام

بادام قوت حافظہ‘ دماغ اور بینائی کیلئے بے حد مفید ہے اس میں حیاتین الف اور ب کے علاوہ روغن اور نشاستہ موجود ہوتا ہے۔ اعصاب کو طاقتور کرتا ہے اور قبض کو ختم کرتا ہے۔بادام خشک پھلوں میں بے پناہ مقبولیت کا حامل ہے۔ غذائی اعتبار سے بادام میں غذائیت کا خزانہ موجود ہے بادام کے بارے میں عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چکنائی سے بھرپور ہونے کے سبب انسانی صحت خصوصا عارضہ قلب کا شکار افراد کیلئے نقصان دہ ہے تاہم اس حوالے سے متعدد تحقیقات کے مطابق بادام خون میں کولیسٹرول کی سطح کم کرتا ہے اور یوں اس کا استعمال دل کی تکالیف میں فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے نیز اس کی بدولت عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک تحقیق کے مطابق 3اونس بادام کا روزانہ استعمال انسانی جسم میں کولیسٹرول لیول کو 14فیصد تک کم کرتا ہے ۔بادام میں 90 فیصد چکنائی نان سیچوریٹڈ فیٹس پر مشتمل ہوتی ہے نیز اس میں پروٹین وافر مقدار میں پایا جاتا ہے دیگر معدنیات میں فائبر کیلشیم میگنیٹیم پوٹاشیم وٹامن ای اور دیگر اینٹی آکسیڈنٹس بھی وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ اطباءکی رائے میں بادام کا استعمال آسٹوپورسس میں بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے تاہم اس کیلئے گندم، خشخاش اور میتھرے کو مخصوص مقدار میں شامل کرکے استعمال کیا جاتا ہے۔
پستہ

پستہ کا استعمال مختلف سویٹس کے ہمرا ہ صدیوں سے مستعمل ہے۔حلوہ‘زردہ اور کھیر کا لازمی جز ہے۔نمکین بھنا ہوا پستہ انتہائی لذت دار ہوتا ہے اور دیگر مغزیات کی طرح بھی استعمال کیا جا تا ہے۔جدید طبی تحقیق کے مطابق دن میں معمولی مقدار میں پستہ کھانے کی عادت انسان کو دل کی بیماری سے دور رکھ سکتی ہے ۔ پستہ خون میں شامل ہو کر خون کے اندر کولیسٹرول کی مقدار کو کم کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ خون میں شامل مضر عنصر لیوٹین کو بھی ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔اس تحقیق کے دوران ماہرین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ پھل اور پتے دار ہری سبزیاں کھانے سے شریانوں میں جمے کولیسٹرول کو پگھلایا جاسکتاہے ۔طبی ماہرین کا خیال ہے کہ پستہ عام خوراک کی طرح کھانا آسان بھی ہے اور ذائقے دار غذا بھی ‘ اگر ایک آدمی مکھن‘ تیل اور پینر سے بھرپور غذاوں کے بعد ہلکی غذاں کی طرف آنا چاہتا ہے تو اسے پستہ کھانے سے آغاز کرنا چاہیے۔پستہ کا روزانہ استعمال کینسر کے امراض سے بچاﺅ میں مددگار ثابتہ ہوتا ہے۔ ایک جدید تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزانہ منا سب مقدار میں پستے کھانے سے پھیپھڑوں اور دیگر کینسرز کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ کینسر پر کام کر نے والی ایک امریکی ایسوسی ایشن کے تحت کی جانے والی ریسرچ کے مطا بق پستوں میں وٹامن ای کی ایک خاص قسم موجود ہو تی ہے جو کینسر کے خلاف انتہائی مفید ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پستوں میں موجود اس خاص جزو سے نہ صرف پھیپھڑوں بلکہ دیگر کئی اقسام کے کینسرز سے لڑنے کے لیے مضبوط مدا فعتی نظام حاصل کیا جا سکتا ہے۔
تل
موسم سرما میں بوڑھوں اور بچوں کے مثانے کمزور ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر بستر پر پیشاب کردیتے ہیں۔ اس شکایت سے نجات کیلئے تل کے لڈو بہترین غذا اور دوا ہیں۔ تل اور گڑ سے تیار شدہ ریوڑیاں بھی فائدہ مند ہیں۔
کشمش اور منقہ
کشمش دراصل خشک کیے ہوئے انگور ہیں۔ چھوٹے انگوروں کو خشک کرکے کشمش تیار کی جاتی ہے جبکہ بڑے انگوروں کو خشک کرکے منقی تیار کیا جاتا ہے۔ کشمش اور منقہ قبض کا بہترین علاج ہے۔ نیزہڈیوں کے بھربھرے پن کی مرض میں مفید ہے۔ بہت قوت بخش میوہ ہے۔

جوڑوں پٹھوں کے امراض اوروجوہات


جوڑوں پٹھوں کے امراض اوروجوہات

Osteoporosisi:آسٹویوروسس
اس مرض میں ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔ ان کا Mass کم ہو جاتا ہے۔ فریکچرکا خظرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک ہڈی بھی متاثر ہوسکتی ہے اور ایک وقت میں پورے جسم کی ہڈیاں بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ یہ مرض عموماً زیادہ عمر میں ہوتا ہے۔
لڑکیوں میں 16 سے 18 سال اور لڑکوں میں 18 سے 20 سال تک ہڈیوں کی نشوونما مکمل ہو جاتی ہے۔یعنی Peak Bone mass=PBM ہو جاتا ہے۔ آسٹیویوروس کی وجہ ہڈیوں کو ضروری معدنیات نہ ملنا ہے۔ ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے vk,vd,p,co اور کچھ دیگر عناصر F-Fe-B- Mn – Cu -Zn ضروری ہیں۔ Cu اور P سب سے زیادہ ضروری ہیں۔
خواتین 30 سال کی عمر سے احتیاطی تدابیر اختیار کر لیں۔ ضروری معدنیات لینا چاہیے۔ مناسب ڈائٹ اور فزیکل ورک یا ہلکی ایکسرسائز آسٹیویوروسس سے بچاتی ہے۔ مرد 40 سال سے احتیاطی تدابیر شروع کر دیں۔
آسٹیویوروسس کی وجہ سے جو Bone Less ہوتا ہے وہ واپس نہیں ہوتا۔ اگر یہ مرض ہو جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ ہڈیوں کو ناقابل تلافی تقصان ہوتا ہے اس لیے تدارک جلد ہونا چاہیے۔ آسٹیویوروسس کے ساتھ اگر کوئی دوسرا جوڑوں کا مرض ہو جائے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ہارمونز استعمال کرواتے ہیں اس کے نقصان ہیں۔
Cu بیراتھائی رائد ہارمونز (PTH) کی Secretion کو کم کرتا ہے جب کہ PTH-P کا امراض بڑھاتا ہے۔ PTH کی زیادتی Bone Mass کے لیے سخت نقصان دہ ہے لہٰذا Ca اور P کا مناسب تناسب ضروری ہے۔
2۔ Narrow Discspace ۔ ریڑھ کی ہڈی کے مہرے قریب ہو جاتے ہیں یعنی ان کے درمیان Space کم ہوجاتا ہے۔ اس لیے رگوں پر دبائو آجاتا ہے۔ متاثرہ مہرے کے اردگرد کے پٹھوں میں شدید تکلیف ہوتی ہے۔ جھکنے مڑنے میں دشواری ہوتی ہے۔
3۔ Cervical Intervertebrel Narrow Disc Space: گردن کے مہرے ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں جس سے بازو میں درد یا سن ہونے کی تکلیف ہو جاتی ہے۔ سر درد یا چکر کی شکایت ہو سکتی ہے۔ بینائی کم ہو سکتی ہے۔
(مہروں کے قریب ہونے سے اعصاب جو درمیان سے گزرتے ہیں ان پر دبائو پڑتا ہے اس وجہ سے یہ شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ اعصاب کا فنکشن متاثر ہوتا ہے۔ مثلاً آنکھوں کو جانے والے اعصاب متاثر ہوں تو بینائی کم ہو جاتی ہے۔ شاٹیکا Sciatica erve دب جائے تو اس میں درد ہوتا ہے۔)
4۔ Prolapsed Intervertebral disc-PID : کمر کے مہروں کے درمیان Disc آگے کو نکل آتی ہے۔ اعصاب پر Disc کے دبائو کے سبب ایک یا دونوں ٹانگوں میں درد اور سن ہونے کی کیفیات ہوتی ہیں۔
5۔ Frozen Shoulder: کندھے پر درد ہوتا ہے۔ بازو کو حرکت دینا مشکل ہوتا ہے۔
(1) عموماً 40 سال کے بعد ہوتا ہے۔ (2) ذیابطیس اور HBP کے مریضوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ (3) فالج کے مریض بازو کو حرکت نہیں دیتے اس وجہ سے بھی ہوجاتا ہے۔ (4) کندھے کے جوڑ کی بیماری arthritis کی وجہ سے ہو جاتا ہے۔ (5) جوڑ یا موچ کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ (6) زیادہ اور مسلسل بائولنگ کرانے سے ہو سکتا ہے۔ (7) سخت فزیکل ورک کرنے سے۔ (8) بھاری وزن غلط angle پر اٹھانے سے۔
6۔ Lowbackache: کمر درد، بھاری وزن اٹھانے خصوصاًغلط angle پر۔ جھٹکا لگنے، چوٹ لگنے سے جھک کر زیادہ دیر کام کرنا، فون کے گدے پر سونا جس پر کمر سیدھی نہ رہے۔
7۔ Osteo Arthritis: جوڑوںمیں ہڈیوں کے سرے گھسنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ہڈیوں کے کنارے بڑھ جاتے ہیں جس کے باعث حرکت دینے سے تکلیف ہوتی ہے۔ حرکت نہ دینے سے ان میں سختی آجاتی ہے۔
جوڑ کے درمیان کی جگہ کم ہو جاتی ہے۔ کنارے اور سطحیں غیرہموار اور نوکیلے ہو جاتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی متاثر ہو جائے تو ہڈیوں کے باریک کونے باہر نکلنے لگتے ہیں جس سے اعصاب پردبائو پڑتا ہے۔ درد اور سن ہونے کی شکایت ہوتی ہے۔
Spondylitis: ریڑھ کی ہڈی کی سوزش۔ روایتی یا وائرس سے ہو سکتا ہے۔ ہڈی میں سوزش روایتی یا وائرس سے ہو سکتا ہے۔ ہڈی میں سوزش ہوتی ہے۔ ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ خراب ہو جاتی ہے۔ گل جاتی ہے۔ اصل وجہ نامعلوم۔
9۔ Giout:گھٹیا۔ خون اور urine میں uric Acid کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ جوڑوں میں یورک ایسڈ جمع ہو جاتا ہے۔ جوڑوں میں یورک ایسڈ جمع ہونے سے جوڑوں کے کناروں کی ہڈیاں گل کر باریک ہو جاتی ہیں جوڑوں میں شدید درد اور سوجن ہو جاتی ہے۔
پروٹین طیارہ استعمال کرنے سے یورک ایسڈ بڑھ جاتا ہے۔ ٹینشن اسٹریس سے بھی خون میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔
گردوں کی بیماری کی وجہ سے یورک ایسڈ کا اخراج کم ہوتا ہے۔
یورک ایسڈ کا میٹابولزم کم ہوتا ہے۔ جس کے باعث وہ استعمال ہونے کے بجائے جمع ہونے لگتا ہے۔
عموماً 40 سال کے بعد ہوتا ہے۔
یورک ایسڈ کے مزید نقصانات:HBP پتھری، السر، Atherosclerosis۔ گردوں کی کارکردگی کم ہونا۔
10۔ Hemiplegia:آدھے جسم کا فالج۔ دماغی چوت، دماغ کی رگ پھٹ جانا، دماغی نسوں کا سکڑ جانا۔ دماغ کا ٹیومر، دماغ کی ٹی بی، گردن توڑ بخار، ہیموفیلیا، HBP اور ذیابطیس کے مریضوں میں عموماً برین اسٹروک کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اوپری جسم کے دونوں طرف بھی فالج ہو سکتا ہے۔
11۔ Para Plagia: نچلے دھڑ کا فالج۔ کمر پر چوٹ لگنے سے، حرام مغز Spinal Cord کو نقصان پہنچنا، حرام مغز کے نچلے حصوں پر دبائو، حرام مغز کی سوزش یا رسولی، کمر کے مہروں کی ٹی بی۔
12۔ Polio۔ یہ ایک قسم کا بچوں کا فالج ہے۔ اس کی وجہ ایک وائرس ہے جو اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتاہے۔
13۔ شیکا ٹیکا اعصابی درد : ران کے پچھلے حصے اور پنڈلی میں درد ہوتا ہے۔ غلط Angle پر جھک کر بھاری وزن اٹھانا زبردست جھٹکا چوٹ۔
دیگر پرابلمز+ وجوہات
مہروں کے درمیان Space کم ہو جانا، کمر درد، پٹھوں میں درد، ان سب کی بڑی وجہ مسلز کا سخت Stiff ہو جانا ہے۔ یعنی جب ان کی قدرتی لچک کم ہوتی ہے تو ان میں سختی آجاتی ہے۔ Stiffness کی ایک ایجنگ فیکٹر ہے دوسری وجہ فزیککل حرکات نہ ہونا ہے۔ یعنی جس مسلز یا جوڑ پر مناسب حرکات (Movements) نہ ہوں گی وہ Dystunctional اور سخت ہونے لگتا ہے۔
جوڑوں کی رطوبت خشک ہونا، جوڑ اور ریڑھ کی ہدی خراب ہونا، گلنا۔ یہ Deqeneration ہے۔ اس کی وجہ ایچکنگ فیکٹر اور خون کی کم سپلائی ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر پٹھوں اور ہڈیوں میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ خون کم سپلائی کی وجہ خون کی شریانوں، artecics کا تنگ ہونا، (Pkigve کے باعث) Capillarics پرانی تنگ سخت ہوں تو ضرورت کے مطابق خون سپلائی نہیں کر سکتیں۔ خون کی کمی anoemia (ٹشوز لیں O2 اور CO2 کا، Exchange صحیح طرح نہ ہو سکے تو ٹشوز damage ہونے لگتے ہیں۔
وزن کی زیادتی سے گھٹنوں، ٹخنوں پر درد سوجن ہو جانا ہے۔ کیونکہ ان جوڑوں پر سارا جسم کا بوجھ ہوتا ہے۔ وزن کی زیادتی سے Bone فریکچر کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ وزن کی زیادتی سے پورے جسم میں خون کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔ کیونکہ دل کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ خون کی نالیاں سخت تنگ ہو جاتی ہیں۔ محدود خون زیادہ رقبہ پر گردش کرتا ہے اس لیے تقسیم ہو کر ہر حصے کو کم خون ملتا ہے۔
ایکسر سائز غلط طریقے سے کرنا، برداشت سے زیادہ کرتا۔ حد سے زیادہ بھاری وزن ویٹ لفٹنگ کرنا نقصان دہ ہے۔ مسلز خراب ہو جاتے ہیں۔ ویٹ لفٹنگ حد سے زیادہ کرنے سے خون کی نالیاں Blood Vessels میں سخت ہونے لگتی ہیں۔
میڈیسن خاص کر ہارمونز شدید Degeneration کا بڑا سبب ہیں۔ یہ خون کی کوالٹی خراب کرتے ہیں۔ خون میں جگر کسی بھی قسم کے زہریلے مادے خون کی کوالٹی کو خراب کرتے ہیں۔ اور Deseneration کا سبب بنتے ہیں مثلا یورک ایسڈ کی زیادتی سے ہڈیاں گلنے لگتی ہیں۔
ضروری معدنیات کی کمی اور غذائی قلت سے ہڈیاں، مسلز، اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ضرورت سے بہت زیادہ خوراک لینا Degenaration ک باعث ہے۔ (فالتو خوراک جسم کے لیے زہر ہے) خوراک کی بہت کمی اور بہت زیادتی دونوں سخت نقصان دہ ہیں۔

با لوں کی حفا ظت کیسے کریں ؟


با لوں کی حفا ظت کیسے کریں ؟

بال مرد کے ہوں یا عورت کے، وقار اور خوبصورتی سے ان کا خاص تعلق ہے۔بلاشبہ یہ قدرت کا بیش بہا عطیہ ہیں جو انسانی جسم کو خوبصورتی عطا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی گھنے اور سیاہ بال پسند کرتا ہے اور سب سے زیادہ توجہ انسان انہی پر دیتا ہے۔ شیو بناتا اور اصلاح گیسو سب اسی فطری خواہش اور توجہ کے مظاہر ہیں۔ ہمارے جسم پر تقریباً پانچ لاکھ بال ہوتے ہیں۔ صرف پاؤں کے تلووں اورہاتھوں کی ہتھیلیاں ہی ایسی جگہ ہیں جن پر بال نہیں اگتے۔ جسم میں سب سے زیادہ بال سر پر ہوتے ہیں اور ان کی تعداد تقریباً سوا لاکھ ہوتی ہے۔ بالوں کی لمبائی ایک انچ سے ایک گز تک ہوتی ہے اور عمر دو سے چھ سال تک ہوتی ہے۔ چھ سال بعد پرانا بال گر کر نیا آ جاتا ہے۔ گرم آب و ہوا والے مقامات پر بال زیادہ بڑھتے ہیں۔ ظاہری طور پر بال بہت نرم معلوم ہوتے ہیں مگر بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ بالوں کی لمبائی رنگت اور ساخت کا تعلق عموماً کافی حد تک خاندان سے ہوتا ہے۔

بالوں کے امراض میں سب سے اہم گنجا پن ہے۔ یعنی بالوں سے محروم ہو جانا۔ بالوں کا گرنا ویسے تو ایک طبعی عمل ہے کیونکہ کمزور شدہ بال آہستہ آہستہ گر ہی جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے بال آتے رہتے ہیں۔ اگر بال نہ گریں تو انسان بھی ایک برفانی ریچھ کا روپ دھار لے مگر قبل از وقت بال گرنا ایک پریشان کن بات ہے اور اس سے نجات کے لیے دنیا کے بے شمار لوگ کوشاں رہتے ہیں مگر تھک ہار کر اسے قبول کر لیتے ہیں۔ اخبارات و رسائل اٹھا کر دیکھیں تو بال اگانے کی ادویہ اور تیلوں کے اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے اور لاکھوں روپوں کے یہ تیل فروخت ہو رہے ہیں جن لوگوں کو ان سے فائدہ نہیں ہوتا وہ انہیں فراڈ قرار دیتے ہیں۔ جن کو کچھ فائدہ ہو وہ ان کے گیت گاتے ہیں۔

سر کے بال جلد کا ایک زائد حصہ ہیں جنہیں ہم بالوں کے غدود یا گلٹیاں کہتے ہیں۔ بالوں کی جڑیں حقیقی جلد کے نشیب میں 4/1 سے 12/1 انچ تک گہری ہوتی ہیں۔ جب کہ بال ایک طرح کا بے جان تنا ہوتے ہیں۔ یعنی جلد کے باہر بے جان ہوتے ہیں اس وجہ سے ہی جب ہم بال کٹواتے ہیں تو ہمیں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف بالوں کی جڑ ایک زندہ اور فعال ریشہ ہیں ان کی پرورش خون کی باریک رگوں سے ہوتی ہے اور ان کی طاقت اعصاب کے ذریعے برقرار رہتی ہے۔ بالوں کی پیدائش کے تین مراحل ہیں، پہلے مرحلے میں پیدا ہو کر بڑھتے ہیں، دوسرے مرحلے میں گرتے ہیں۔ بالوں کے گرنے یا گنجے پن کا انحصار پہلے اور دوسرے مرحلے پر ہے۔ پہلے مرحلے میں جس قدر پیدا ہوں گے اسی قدر گھنے ہوں گے، جتنے زیادہ گریں گے اتنا ہی سر صاف ہوتا جائے گا جبکہ تیسرے مرحلے میں تو بالوں سے مکمل رخصت ہے۔

انسانی جسم اور جلد میں فعلیاتی اور مرضیاتی تبدیلیوں کا بالوں کی صحت سے گہرا تعلق ہے۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ ان تبدیلیوں سے ہی بال گر کر صاف ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بال جھڑنے کے اسباب میں جنسیاتی موروثی اثرات بھی شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ شدید امراض، شدت بخار، تیز کیمیکل ادویات کے علاوہ کسی ذہنی کیفیت، خون کی کمی، نقص تغدیہ اور تھائی رائڈ گلینڈ ( غدہ درقیہ ) کی خرابی اور بعض خواتین میں دوران حمل بال تیزی سے جھڑتے ہیں۔ مگر کچھ عرصے کے بعد عموما خود ہی آ جاتے ہیں۔ مستقل گنجے پن کی وجہ سے بالوں کی جڑوں کا مردہ ہو جانا ہے اور دوسری وجہ بال خورہ ہو سکتی ہے۔ پہلی صورت میں خون کی کمی سے جڑیں ختم ہو جاتی ہے اور جسم کی طرح کمزور ہو کر مر جاتی ہیں۔ ان جڑوں کی تباہی میں کھوپڑی چھوت ( پھپھوندی ) وائرس کو بھی عمل دخل ہے۔ اس طرح جلدی وائرس نملہ ( Herdeszosrter ) سے بھی گنجا پن ہو سکتا ہے۔ ایسے لوگ جن کے خون کی کمی سے بال گرتے ہوں مقوی غذاؤں کا استعمال کرنا چاہیے۔

بال خورہ ( Alopicial ) یہ ایک پریشان کن مرض ہے اس کا شکار زیادہ تر مرد ہوتے ہیں۔ اور مقام زیادہ داڑھی یا بھنویں بنتے ہیں۔ جہاں سے تکلیف کا آغاز ہوتا ہے۔ پہلے وہاں دھبہ پڑتا ہے، اس کے بعد چھوٹی چھوٹی پھنسیوں کا دائرہ بن جاتا ہے، پھنسیاں کچھ روز میں سوکھ جاتی ہیں اور ان کی کھرنڈ باریک چھلکوں کی صورت میں جھڑ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی بال گر کر گول چکنا بن جاتا ہے اور بھوسی لگی رہتی ہے۔ یہ نشان بڑھ کر بعض اوقات داڑھی اور سر کو صاف کر لیتے ہیں یہ تکلیف ویسے تو کوئی نقصان نہیں دیتی لیکن نفسیاتی طور پر پریشان کر دیتی ہے جدید تحقیقات نے اس کا سبب ایک خاص قسم کا بیکٹیریا بتایا ہے۔ قدیم اطباءکے نزدیک اس کا سبب اعصابی فتور اور نمکین غذاؤں کا زیادہ استعمال ہے۔ اس مرض میں جسم میں خود کار واقع اجسام ( Anti Body ) بننے لگتے ہیں۔ بعض لوگوں میں موروثی بھی ہوتا ہے۔ اس مرض میں صحت بخش غذائیں استعمال کی جائیں، دودھ، دہی، میٹھے پھل، سبزیاں زیادہ استعمال کی جائیں۔ قبض نہ ہونے دیں، خون صاف کرنے والی ادویہ کا استعمال مفید ہے، جمال گھوٹہ کا تیل احتیاط سے تمام مرض پر پھریری سے لگائیں۔ تھوم، پیاز اور ادرک کا پانی لگانا بھی مفید ہے۔

” بفہ “ جسے dandruff کہتے ہیں اور عام طور پر سر میں خشکی یا بھوسی کہا جاتا ہے اس تکلیف میں سر کی جلد سے ایک چکنی رطوبت بہتی ہے جو جلد کی سطح پر جمع ہو کر جسم کی حرارت سے جسم سے بھوسی کی مانند جھڑتی ہے۔ دراصل یہ رطوبت سر کی جلد کو خشکی سے بچانے کے لیے سر کے غدودوں سے نکلتی ہے مگر جب یہ رطوبت زیادہ بننے لگے تو بہتی ہے بعض لوگوں میں جسم کے دوسرے حصوں میں بھی کبھی ہو جاتی ہے اور خشی پیدا کرتی ہے۔ اس میں عام طور پر سر میں خارش ہوتی ہے جس سے بھوسی اترتی ہے۔ یہ خشکی سر کی جلد کے مسامات کو بند کر دیتی ہے اور میل کچیل خارج نہیں ہو پاتا۔ دھوپ اور تازہ ہوا بھی نہیں لگتی جس سے بالوں کی جڑیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ اور بال گرنے لگتے ہیں، اس کی ایک وجہ خون کی کمی اور غذائی کمی بھی ہوتا ہے۔ بفہ کی صورت میں روغن کمیلہ 100 گرام اور دوا خارش سفید 10 گرام ملا کر رکھ لیں۔ رات کو ہلا کر انگلیوں سے بالوں کی جڑوں میں جذب کرایا کریں۔ صبح بال دھو دیں۔ دس یوم میں مطلوبہ نتائج سامنے آتے ہیں مگر اس کے ساتھ غذا بہتر بنائیں۔ پتوں والی سبزیاں، تازہ دودھ، موسمی پھل، سبزترکاریوں زیادہ کھائیں۔ موسم سرما میں مچھلی کے جگر کا تیل ( روغن جگر ماہی ) استعمال کرائیں اور ذیل ادویہ کھائیں:

1 صبح دوالمسک معتدل سادہ چھ گرام بعد غذا دوپہر شام شربت فولاد دو چمچے پانی ملا کر جبکہ رات کو گل منڈی چھ گرام جوش دے کر چھان کر پی لیں۔
2 روزانہ نیم کے تازہ پتے پیس کر لگانا بھی مفید ہوتا ہے، اگر کسی بیماری کی وجہ سے ہو تو مقوی غذائیں استعمال کرائیں۔

بالوں کا سفید ہونا:
قبل از وقت بالوں کا سفید ہونا بڑا تشویش ناک ہوتا ہے، اگرچہ جسمانی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن ذہنی اور نفسیاتی طور پر اس کا رد عمل ناخوشگوار ہی ہوتا ہے۔

بالوں کو قدرتی طور پر سیاہ رنگ دینے والا مادہ جلد کے اندر ہوتا ہے اور ایک دفعہ بال جلد سے باہر آ جائے تو اس کے بعد اس کا رنگ تبدیل نہیں ہوتا پھر بال کے اندر ایک سوراخ ہوتا ہے، اس میں رنگت کا مادہ اور چربی ہوتی ہے، سیاہ بالوں میں رنگ دار مادہ زیادہ ہوتا ہے، عمر کے ساتھ ساتھ اس رنگ کی پیداوار کم ہوتی جاتی ہے اور آخر کار ختم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ بال پہلے بھورے، پھر سفید ہوتے ہیں۔ یہ تو طبعی عمل ہے مگر وقت سے قبل بچوں اور نوجوانوں میں بال سفید ہو جانے کی وجوہات میں موروثی اثرات کے علاوہ خون کی کمی سے بھی رنگت میں فرق آ جاتا ہے مگر ابھی تک کوئی بھی سبب معلوم نہیں ہو سکا مگر مطب کے تجربات سے مشاہدہ میں آیا ہے کہ دائمی نزلہ، زکام، دماغی کمزوری اور سوائے ہضم بھی بالوں کی سفیدی کا ایک سبب ہو سکتے ہیں۔

اس لیے طب مشرقی کے اصول علاج کے مطابق اسباب جاننا ضروری ہے۔ اگر دائمی نزلہ زکام کی شکایت رہتی ہے تو پھر قرص مرجان سادہ 1 عدد، خمیرہ گاؤ زبان عنبری چھ گرام صبح نہار منہ کھانا مفید ہے۔ جبکہ رات سوتے وقت اسطخودوس چھ گرام پانی میں جوش دے کر نیم چھان کر خمیرہ بادام کچھ چھ گرام کھا لیا کریں۔

بالوں کی حفاظت کے لیے تدابیر:
بالوں کی صفائی بہت ضروری امر ہے۔ اس لیے ہفتے میں کم از کم تین بار کسی مناسب صابن یا شیمپو سے صاف کیا جائے اور روزانہ سادہ پانی سے دھو کر صاف کیا جائے۔ اگر جلد چکنی ہے تو بیسن سے دھونا مفید ہے، برش روزانہ کیا جائے اور بالوں کو دھونا تازہ ہوا اور دھوپ میں کھلا چھوڑا جائے۔ اس کے بعد مناسب تیل لگائیں۔ بازاری تیلوں سے احتیاط کریں۔ بالوں کو زیادہ صابن نقصان دیتا ہے اور جلدی امراض جنم لیتے ہیں۔ بالوں کی کھٹاس بھی گل جاتی ہے اور جو جراثیم کو مارتی ہے بالوں کو دھو کر دھوپ لگانا اس لیے بھی مفید ہے کہ دھوپ جراثیم مارتی ہے اور حیاتین ” د “ کو جذب کرتی ہے۔ قدیم اطباءنے بالوں کے ماحول کو ترش قرار دیا ہے اس سے ان کی نشوونما ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ترش اشیاءسے دھونے کا مشورہ دیتے ہیں۔

غذا میں موسمی پھل، سبزیاں، دودھ، دہی مفید ہیں کیونکہ خون کی کمی یا جسمانی طور پر کمزور شخص کے بال کبھی بھی صحت مند توانا اور گھنے و سیاہ نہیں ہوں گے۔ اس لیے صحت کی طرف توجہ ضروری ہے

پھلوں سے علاج


پھلوں سے علاج

مشہور بات ہے کہ جب اللہ تعالی نے حضرت آدم اور اماں حوا کو پیدا کر کے باغ بہشت میں ٹہرنے کا حکم دیا تو ان کی خوراک بہشت کے ثمرات تھے اور وہ انھیں کھا کر بہشت کی عیش کے مزے لیتے تھے نیز آخرت میں بھی مومنوں کو بہشتی فواکہات کا وعدہ کیا گیا ہے ، حضرت آدم جب زمین پہ آباد ہوئے تو خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زمین کے میوہ جات اور پھلوں پہ گزارہ کرتے تھے، بعد کی نسلوں نے زبان کے چٹخارے کے لئے پیاز لہسن غلہ اور ماش وغیرہ کی خواہش کی اور وہ پیسنے پکانے کی مصیبت میں گرفتار ہوگئے، نیز انسانی نسل کی افزائش سے قدرتی پھل اور میوے ان کے لئے کافی ثابت نہ ہوئے اس لئے وہ اناج کے مخمصے میں پھنس گئے،

میوے اور پھل انسان کی قدرتی غذا ہیں اور ان میں ہر قسم کے مفید اجزا بکثرت موجود ہیں اگر انسان اعتدال کو ملحوط رکھتے ہوئے اس قدرتی غذا پر اکتفا کرے تو کوئے بیماری پاس نہیں آتی بلکہ اگر غیر قدرتی غذا کے استعمال سے کوئی بیماری پیدا ہو تو اس کا ازالہ بھی پھلوں اور میوہ جات کے استعمال سے ہوسکتا ہے ، گویا میوے اور پھل غذا کی غذا اور دوا کی دوا ہیں ، دیگر دوائیں جن کو انسان بطور علاج استعمال کرتا ہے ان میں سے زیادہ تر بد ذائقہ تیز اور زہریلی ہوتی ہیں ان دواؤں کا معدہ کی اندرونی اور باریک رگوں پہ برا اثر پڑتا ہے بعض اوقات یہ اعصاب کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں اس کے برخلاف پھل خوش ذائقہ اور طبیعت کے موافق ہیں یہ اعضائے بدن اور اعصاب کو طاقت دیتے ہیںچھوٹے بچون کی حقیقی غزا ماں کے دودھ کے بعد میوے اور پھل ہیں اگر ان کو گوشت یا دیگر مصنوعی غذاوں کی عادت نہ ڈالی جائے تو ہر عمر کے بچوں کے لئے پھلوں سے بہتر اور کوئی غذا نہیں ۔ بچوں کے امراض میں جن ادویہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی پھلوں سے پوری کی جاسکتی ہے ، دوائیں انسانی بدن سے غیر مانوس ہوتی ہیں اور بچوں کی صحت اور تندرستی پر مضر اثر ڈالتی ہیں بچے مٹھائی کے مقابلے میں پھلوں کو تر جیح دیتے ہیں ۔

شیریں پھل جو سورج کی حرارت سے پکتے ہیں ان میں شکر اور دوسرے طاقتور اجزا پائے جاتے ہیں ان میں زیادہ تر حصہ پانی کا ہوتا ہے اس کے علاوہ ان میں چکنائی بھی ہوتی ہے بعض میں نشاستہ اور شکر زیادہ ہوتی ہے ،تمام چیزیں انسانی جسم کو پرورش کرنے اور طاقت دینے میں بے نظیر ہیں ،جوشکر پھلوں میں پائی جاتی ہے وہ دوسری قسم کی شکروں کے مقابلے میں زیادہ لذیذ اور زود ہضم ہوتی ہے اور جسم کی نشونما اور طاقت دینے میں بہت مفید ہوتی ہے یہ جسم کو حرارت اور طاقت بخشتی ہے ،مصنوعی شکر بدن میں جوش اور تحریک پیدا کرتی ہیں جن کے کثرت استعمال کا نتیجہ ہمیشہ مہلک ثابت ہوتا ہے اس کے برخلاف میوہ جات کی شکر اصلی طاقت اور قوت کی سرمایہ دار ہے ۔

شکر کے علاوہ بعض پھلوں میں نمک اور ترشی کا مادہ بھی ہوتا ہے ان میں فاسفورس بھی بکثرت ہوتی ہے یہ سب سے زیادہ طاقتور چیز ہے جن لوگوں کو خون کی خرابی کی وجہ سے کمزوری لاحق ہوجاتی ہے ان کے لئے پھلوں کا نمک بہت مفید ہوتا ہے ان میں جو ترشی پائی جاتی ہے خواہ کسی قسم کی ہو ہمیشہ نفع بخش ہوتی ہے اور کبھی نقصان نہیں دیتی ،

سرخ رنگ کے پھلوں میں فولاد کی کافی مقدار ہوتی ہے ان میں گندھک اور فاسفورس کے اجزا بھی پائے جاتے ہیں اگر انسان سوچ سمجھ کہ اس قسم کے پھلوں کا انتخاب کرے تو اس سے بدن کا خون صاف پیدا ہوتا ہے اور ان کے استعمال سے اکثر امراض کا ازالہ ہوجاتا ہے ۔

گرمیوں میں تربوز اور کھیرے کی بہتات ہوتی ہے۔ دھوپ کی تمازت کم کرنے کیلئے دونوں پھل مفید ہیں اور یہ دونوں پھل معدے کی گرمی کو دور کرتے ہیں۔

کھیرا: دھوپ کی تپش سے چہرہ تمتما جائے تو ایک کھیرے کو کدوکش کرکے چہرے پر پھیلا لیں۔ ململ کا ٹکڑا چہرے پر رکھ لیں اور پندرہ منٹ کے بعد چہرہ دھولیں۔

کھیرے کے استعمال کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کے باریک قتلے کاٹ لیں۔ ایک گلاس گرم پانی کسی برتن میں ڈال کر کھیرے کے قتلوں کو بھگودیں۔ ایک گھنٹے بعد کھیرے کے قتلے چھان کر نکال لیں۔ اس محلول میں عرق گلاب ملالیں۔ تقریباً چارپانچ چمچ کے برابر اس محلول کو ششی میں ڈال کر فریج میں محفوظ کرلیں۔ وقت ضرورت روئی کے ٹکڑے کو اس محلول میں بھگو کر چہرے پر لگائیں۔ خاص طور پر ناک اور ٹھوڑی پر۔ روغنی جلد کیلئے آزمودہ نسخہ ہے۔

لیموں: لیموں میں زمانہ قدیم سے خوبصورتی کی افزائش کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ لیموں سے جلد سکڑجاتی ہے کھلے مسام بند ہوجاتے ہیں اور سانولی رنگت میں نکھار آجاتا ہے۔ خشک جلد کیلئے لیموں کا استعمال مناسب نہیں ہے۔ لیموں چکنی جلد کیلئے اکسیر کاکام دیتا ہے۔ ایک بڑے چمچ عرق گلاب میں ایک چمچ چائے والا لیموں کا رس ملا کر اس محلول سے چہرہ صاف کریں۔ چہرے کے علاوہ کہنیوں پر ملیں۔ سیاہ جلد سفید ہوجائے گی۔

سیب:سیب خشکی پیدا کرتا ہے۔ سیب کو کدوکش کرلیں۔ کٹے ہوئے سیب کوچہرے پر پھیلا لیں۔ اس کے لگانے سے جلدکی چکنائی کم ہوجاتی ہے۔ کھلے مسام بند ہوجاتے اور چہرے پر چمک پیدا ہوتی ہے۔ پندرہ منٹ کے بعد چہرہ دھولیں۔

ماسک:آپ کوجان کر حیرت ہوگی کہ بہت سے ماسک پھلوں‘ سبزیوں‘ انڈوں‘ دودھ اور وٹامن سے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ انڈوں کو ماسک کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ انڈے ہر قسم کی جلد کیلئے مفید ہوتے ہیں۔

تازہ پھلوں میں اسٹرابری کو کاٹیے یا اسے اچھی طرح کچل کر چہرے پر ملیے۔ اس طرح کیلے کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کیلے میں وٹامن‘ کیلشیم‘فاسفورس اور پوٹاشیم کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کیلے حساس جلد کیلئے بہت مفید ہیں۔

مکئی ماسک: کارن یعنی بھٹے کے چند دانے لے کر اس کا جوس نکال لیں۔ جوس میں سے نکلنے والا سفید مادہ چہرے اور گردن پر لگا کر سوکھنے دیں۔ پھر چہرہ صاف کرلیں۔

مہاسے سے احتیاط اور علاج

جلد کی نامکمل صفائی بھی مہاسوں کا سبب بنتی ہے۔ جلد کے معاملے میں بے احتیاطی‘ تھکن‘ نیند پوری نہ ہونا اور غیرمتوازن غذا کے اثرات براہ راست چہرے پر نظر آتے ہیں۔ ذہنی دباؤ بھی مہاسوں کا سبب بن جاتا ہے۔ دراصل ان حالات میں روغنی غدود زیادہ سرگرم ہوکر زائد چکنائی پیدا کرنے لگتے ہیں جو جلد کے مساموں کے ذریعے خارج ہونے لگتے ہیں۔ پہلے یہ چکنائی بلیک ہیڈز بناتی ہے جو جلد کی سطح کی مناسب دیکھ بھال اور صفائی سے ختم ہوجاتے ہیں اگر چہرے کی صفائی پر دھیان نہ دیا جائے تو چہرے پر اس کی مستقل موجودگی مہاسوں کی صورت اختیار کرلیتی ہے کیونکہ جلد کا معمولی انفیکشن بھی نظر اندازہ کیا جائے تو مہاسے اور جلدی پھوڑے میں موجودہ زہریلا مواد بدنما نشانات چھوڑ دیتا ہے۔

مہاسے کے مریض کو عموماً خون اور پیشاب ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا جاتا ہے کیونکہ ممکن ہے اس کی وجہ پیٹ کے کیڑے‘ بڑی آنت یا چھوٹی آنت کا کوئی انفیکشن ہو۔ عموماً جلدی امراض کا تعلق پیٹ کی بیماریوں اور نظام ہضم کی خرابی سے ہوتا ہے۔ اگر پیٹ یا نظام ہضم میں کوئی خرابی نہ ہو اور تمام ٹیسٹ بھی کلیئر ہوں تو پھر وٹامن کی گولیوں‘ فریش فروٹ‘ جوس تازہ سبزیوں اور چکنائی کے بغیر کھانوں کے استعمال اور ہلکی ورزش سے آپ اس قسم کے مسائل پر قابو پاسکتی ہیں۔

مہاسوں کیلئے ضروری ہدایات

٭ بلیک اور وائٹ ہیڈز کی مستقل صفائی۔

٭ جلد پر موجود زائد چکنائی کو صاف کرنا۔

٭ مسامات کو بند کرنا اور جلدی انفیکشن کا بروقت علاج۔

٭ صحت مند جلد کیلئے ضروری چیز پانی بھی ہے۔ روزانہ دو لٹر پانی پینے کی روٹین بنالیں تاکہ جسم صحت مند اور جلد صاف ستھری رہے۔ ریشہ دار خوراک کے استعمال سے آپ کو باقاعدگی کے ساتھ اجابت ہوتی ہے جس کے باعث آپ کی رنگت صاف اور روشن ہوجاتی ہے۔ جلد کے بعض خلیوں کی افزائش و مرمت کیلئے وٹامن اے ضروری ہے۔ اس کی کمی سے خشکی اور خارش پیدا ہونے کی شکایت ہونے لگتی ہے اور جلد کی لچک کم ہوجاتی ہے۔ یہ وٹامن گاجر‘ گوبھی‘ پالک اور خوبانی میں پایا جاتا ہے جس وٹامن کی جسم میں کمی ہو وٹامن گولیوں کی بجائے خوراک کی شکل میں زیادہ فائدہ مند ہوں گے۔

وٹامن سی آپ کی جلد کو ٹائٹ یا تنا ہوا رکھتا ہے۔ یہ وٹامن سٹرابری‘ پھل‘ گوبھی‘ ٹماٹر اور سلاد میں پایا جاتا ہے۔

چہرے کی کیلیں دور کرنے کا طریقہ

اگر چہرے پر کیلیں نکل آئیں تو پھٹکڑی پانی میں گھول کر لگانے سے یہ کیلیں ہفتہ دس دن میں ختم ہوجاتی ہیں۔

چہرے کی جھریاں دور کرنے کا طریقہ: کاغذی لیموں کے ایسے ٹکڑے لیں جن کا رس نکال لیا گیا ہو۔ اس کو چہرے پر ملیں۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد چہرہ دھولیں۔

داغ اور پھنسیاں دور کرنے کیلئے

سنگترے کے چھلکوں کو سوکھا کر پیس لیں اور تازہ پانی میں ملا کر چہرے پرملیں۔

سیب

سیب بہترین دماغی غذا ہے کیونکہ اس میں دوسرے پھلوں کی نسبت فاسفورس اور فولاد زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے اور فاسفورس دماغ کی اصلی غذا ہے سیب جگر کے فعل کو درست کر کے سستی رفع کرتا ہے۔ ذہنی اور دماغی قوت بخشتا ہے اس کے متواتر استعمال کرنے سے خون صالح پیدا کرتا ہے۔ رنگت نکھرتی ہے، رخساروں میں سرخی پیدا ہوتی ہے۔ گردے اور دانتوں کے لیے بھی فائدہ بخش ہے خواتیں کو خصوصیت کے ساتھ سیب زیادہ مقدار میں کھانا چاہیے بےبیز کی دفعہ بکثرت استعمال سے فیمیل کو بہت سی بیماریوں سے دور رکھتا ہے تاثیر کے لحاظسے سیب گرم تر ہے سیب کا مربہ دماغ اور خون کی کمزوری کیلیے مفید ہے سیب کسی حد تک بھاری اور دیرپا ہضم ہوتا ہے۔

دھنیا

سرد خشک ہے۔ سبزیؤن کو لذیذ اور خوشبو دار بناتا ہے۔ دل اور دماغ کو طاقت دیتا ہے۔ نیند لاتا ہے۔ قابض ہے۔ بھوک لگاتا ہے۔زود ہضم ہے۔ جگر معدے اور انتریوں کو طاقت بخشتا ہے۔ یہ کچا ہی کھایا جاتا ہے۔ کھٹائی کے شاقین اس میں سرکہ ملا کر کھاتے ہیں جو کہ مفید نہیں سلاد کے ساتھ ٹماٹر کھائے جائیں تو زیادہ مفید ہے۔دھنیا بخار کی شدت اور سوجن کو کم کرتا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق خشک دھنیا بخار کی شدت کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ دھنیا ٹھنڈی تاثیر کی حامل خوشبو دار سبزی ہے ۔اس میں موجود پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، ،وٹامن اے اور وٹامن بی کافی مقدار موجود ہے۔طبی ماہرین اسے معدے کے لئے بھی بہترین قرار دیتے ہیں۔ اسے معدے کی کاکردگی بہتر بنانے والی دوائوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ دھنیئے کے استعمال سے بخار کی شدت اور سوجن کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔۔جبکہ جوڑوں کے درد کے لئے بھی دھنیا بے حد مفید ہے۔۔یہ جسم میں انسولین کی پیداوار بڑھا کر شوگر لیول کو کنٹرول کرتا ہے۔

انار

انار کی تین اقسام ہوتی ہیں، کھٹا انار، میٹھا انار اورکھٹا میٹھا انار، میٹھا انار اور انار کھٹا میٹھا انارکے خواص تقریبا 1 جیسے ہیں جب کہ کھٹے انار کے خواص تھوڑے مختلف ہیں۔ انار کا رنگ سرخ و سبز ہوتا ہے جب کےاس کے دانوں کا رنگ سفید اور سرخ ہوتا ہے اس کا مزاج سرد تر بدرجہ اول ہے بعض اطباء اسے معتدل بھی کہتے ہیں اور کچھ کے نزدیک اس کا مزاج سرد خشک ہے لیکن سرد تر مزاج صحیح ہے اس کی خوراک حسب طبیعت ہے مگر دوا کے طور پر اسکا پانی دو تولہ تک ہے۔ اس کے فوائد مندرجہ ذیل ہیں

انار دل کو طاقت دیتا ہے

جگر کی اصلاح کرتا ہے

خون صالح پیدا کرتا ہے

انار گرم مزاجوں کے لیے عمدہ غذا ہے

اس کا زیادہ استعمال پیٹ میں ہوا پیدا کرتا ہے

انار پیاس کو تسکین دیتا ہے

انار قابض ہے اس لیے اس کا زیادہ استعمال غذا کو فاسد کرتا ہے

انار تپ دق کے مریضون کے لیے بہتریں غذا ہے

انار قلیل الغذا ہے اور بچوں کو دانت نکالتے وقت دست آنے کی صورت میں بے حد مفید ہے

انار پیٹ کو نرم کرتا ہے

انار کھٹا میٹھا صفرا اور جوش خون بلڈ پریشر میں تسکین دیتا ہے

انار یرقان میں بھی مفید ہے

اس کے استعمال سے ذہنی بےچینی دور ہوتی ہے

قے اور متلی کو روکتا ہے

پیشاب کی جلن کو دور کرتا ہے سوزاک دور کرنے میں بہترین دوا ہے

بیگن

گرم خشک ہے۔خون کو بگاڑتا ہے۔تھوڑا اور کبھی کبھی کھائیں بلغمی مزاج والوں کے لیے خاص طور پر مفید ہے۔تر کھانسی اور منہ میں پانی آنے میں مفید ہے۔بھوک لگاتا ہے ہاضمہ کو طاقت دیتا ہے

سٹرابری

سٹرابری کھانے سے یاداشت بہتر بنائی جا سکتی ہے، سٹرابری کو غذائیت سے بھر پور بینائی بڑھانے امراض قلب اور جلد کی شادابی کیلئے بہترین قرار دیا ہے۔ سٹرابری کینسر سے بچاو¿ کیلئے بھی انتہائی مفید ہے۔ سٹرابری میں فولک ایسڈ اور اینٹی ایکسڈینٹس وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں جو کینسر کی روک تھام میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 6 ماہ تک روزانہ 7 گرام تک سٹرابری کے استعمال سے امراض سے بچا جاسکتا ہے۔ سٹرابری بینائی ، قلب اور جلد کیلئے بہترین ہے ,

لیچی کا استعمال جلد کیلئے انتہائی مفید

گرمیوں میں پھلوں کی بہار نظر آتی ہے۔ایسی ہی ایک سوغات لیچی بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس موسم میں لیچی کا استعمال نہایت ہی مفید ہے۔اوپر سے سرخ اور اندر سے رس دار سفید گودے والی کھٹی میٹھی لیچی، گرمیوں کا خاص پھل ہے۔جس میں مختلف قسم کے نیوٹریشنز اور وٹامنزموجود ہوتے ہیں۔خاص طور پرلیچی میں وٹامن سی کی بڑی مقدارموجود ہوتی ہے۔روزانہ سو گرام لیچی کا استعمال پورے دن کی وٹامن سی کی ضرورت پوری کردیتا ہے۔ لیچی میں چکنائی بہت ہی کم ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے یہ پھل تمام عمر کے افراد کے لیے فائدے مند ہے۔تازہ لیچی اسکن بہتر بناتی ہے اور جسم کو طاقت دیتی ہے۔

بادام

موسم سرما میں اس کے استعمال سے کھانسی اور دمہ سے محفوظ رہاجا سکتا ہے۔ بادام کھانے سے حافظہ تیز ہوتا ہے۔ بادام انسانی جسم کی کئی کمزوریوں کو دور کرتا ہے۔ بادام کھانے سے کھانسی اور دمہ سے بچا جاسکتا ہے۔ بادام کا استعمال دل کو بھی مضبوط رکھتا ہے۔ بادام کی مناسب مقدار روزانہ کھانے سے موسم سرما کے دوران نہ صرف نظر کی کمزوری سے بچا جاسکتا ہے بلکہ سینے کی تکالیف سے بھی دور رہاجاسکتا ہے۔

لیموں کے صحت کے لیے فوائد

لیموں کے صحت کے لیے فوائد
 
لیموں ایشیاء کا یک چھوٹا سا سدا بہار درخت ہے اس پر پیلے رنگ کا پھل لگتا ہے۔ پھلوں کا رس، گودا، اور چھیل، خاص طور پر کھانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیموں کی ابتداء کب ہوئی یہ ایک راز ہے۔ مگر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لیموں سب سے پہلے جنوبی بھارت، شمالی، برما، اور چین میں اُگا۔ لیموں کے جینیاتی نژاد کے مطالعے نے رپورٹ دی ہے کہ یہ کھٹے اورینج اور سٹرون کے درمیان ایک ہائبرڈ ہے۔ لیموں کے بہت سے فوائد ہیں جو ہم برسوں سے جانتے ہیں۔ لیموں کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک اینٹی وائرل،جراثیم کش اور مدافعتی نظام میں اضافہ کرتا ہے۔ لیموں کے صحت کے لیے فوائد وٹامن سی، وٹامن بی، فاسفورس، پروٹین، اور کاربوہائڈریٹ کی اس میں موجودگی کی وجہ سے ہیں۔

لیموں کے صحت کے لیے فوائد

قبض:
لیوں کے رس سے بد ہضمی اور قبض سے متعلق مسائل کو ٹھیک کرنے میں مدد ملتی ہے۔ لیموں خون کو صاف کرنے اور صفائی کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ لیموں آپ کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے اور آپ کے معدہ کو صاف رکھتا ہے۔ اپنے کھانے میں دو تین قطرے شامل کیجیئے (خیال رکھیے کہ لیموں دودہ کے ساتھ استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہوتا) اس سے ہاضمے میں مدد ملے گی۔

بلڈ پریشر:
لیموں کا رس پینا دل کے امراض میں مبتلا لوگوں کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں پوٹاشیم موجود ہوتا ہے۔ یہ ہائی بلڈ پریشر، چکر آنا، متلی،وغیرہ کو کنٹرول کرتا ہے۔ کیونکہ یہ دماغ اور جسم کو سکون فراہم کرتا ہے۔ یہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کو کم کر دیتا ہے۔

جلنے سے پڑنے والے داغ دھبے:
اگر لیموں کا رس جلی گئی جگہ کے داغ دھبوں پر لگایا جائے تو جلنے کے نشان ہلکے کیے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ لیموں کولنگ ایجنٹ ہے، یہ جلد پر جلن کو کم کر دیتا ہے۔

جلد کی دیکھ بھال:
لیموں سٹرک ایسڈ پر مشتمل ہوتا ہے جو مہاسوں کے علاج میں مؤثر ہو سکتا ہے۔ کھٹے پھلوں میں پایا گیا وٹامن سی صحت مند جلد کی چمک کے لیے بہت اہم ہے۔ لیموں کا رس بھی مہاسوں اور ایکزیما کے مسائل کے لئے جلد پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک اینٹی ایجنگ علاج کے طور پر کام کرتا ہے اور جھریاں اور بلیک ہیڈز کو ختم کرتا ہے۔

بخار کا علاج:
سردی لگنے اور بخار کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن لیموں ایک مفید علاج ہے۔ لیموں کا رس ایک ایسے شخص کا علاج کر سکتا ہے جو نزلہ زکام اور بخار سے متأثر ہو۔ یہ پسینے میں اضافہ کر کے بخار کو توڑنے میں مدد دیتا ہے۔

دانتوں کی حفاظت:
لیموں کا جوس دانتوں کی دیکھ بھال میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر تازہ لیموں کا رس دانت کے دررد سے متاثرہ علاقوں میں لگایا جائے تو اس سے درد سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مسوڑھوں پر لیموں کا رس ملنے سے خون نکلنے کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ منہ کی بدبو اور مسوڑھوں سے متعلقہ دیگر مسائل کے علاج میں بھی مدد دیتا ہے۔

تھکن میں مؤثر:
لیموں کے تیل میں دماغ کی سرگرمیوں کو متحرک رکھنے کی بھی خصوصیت ہوتی ہے۔ جب بھی آپ بغیر کسی وجہ کے تھکاوٹ محسوس کر رہے ہوں یا توجہ مرکوز نہ کر پا رہے ہوں،لیموں کے تیل کے چار قطرے ایک پانی سے بھرے آرموتھراپی لیمپ میں شامل کریں۔

سانس کے عوارض:
لیموں کی مدد سے سانس سے متعلقہ عوارض پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ سانس کے مسائل اور دمہ کے امراض میں مدد ملتی ہے۔ لیموں، وٹامن سی کا ایک امیر ماخذ ہونے کے ناطے، سانس کے عوارض کے ساتھ نمٹنے میں مدد ملتی ہے۔

اختتام:
لیموں ساری انسانیت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ لیموں میں 5 سے 6 فیصد سٹرک ایسڈ ہوتا ہے جسکی وجہ سے یہ ترش ذائقے کا ہوتا ہے۔ لیموں کے مخصوص ذائقے کی بدولت کھانوں اور مشروبات جیسا کہ لیمونیڈ بنانے کا اہم جزو ہے۔ ایک ماہ کے لئے صبح میں لیموں کا رس ایک گرم کپ پانی میں ڈال کر استعمال کرنے سے آپ سارا دن مستعد رہ سکتے ہیں

گاؤزبان



گاؤزبان 

گاؤزبان ایک مشہور و معروف ادویاتی پودا ہے اور شاید ہی کوئی اس سے واقف نہ ہو ۔ گاؤزبان کو اردو، بنگالی اور فارسی زبان میں گاؤزبان ہی کہتے ہیں۔ عربی زبان(Arabic) میں اس پودے کو لسان الثور(Lasanulsaaur)، حَمحَم اور حِمحِم کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں اس کو بوریج(Borage) اور بگلس(Buglos)کہتےہیںفرانسیسی زبان میں اس کو Bourrache، ہسپانوی زبان میں Borrajaاور اٹالین زبان میں اس پودے کو Borranaکہتے ہیں۔ اس پودے کا سائنسی یا نباتاتی نام(Scientific Name) بوریگو آفیشی نیلس(Borago Officinalis)ہے اس کا تعلق بوریجی نے سی(Boraginaceae)خاندان سے ہے ۔ ہمدرد فارما کوپیا آف ایسٹرن میڈیسن(Hamdard Pharmacopae Of Eastern Medicine) میں اس کا نام کیکسینیا گلؤکا(Caccinia glauca)اور انوسما بریکٹیاٹم(Onosma bracteatum) درج ہے ۔ اس کے علاوہ بھی چند پرانی کتب میں یہی نام درج ہیں۔ گاؤزبان کا پودا ایک سے دو فٹ تک اونچا ہوتا ہے ۔ اوراس کے تمام اجزاء روئیں دار اور کھردرے ہوتے ہیں۔ اس کے پتے ۳ انچ تک لمبے اور ڈیڑھ انچ تک چوڑے ہوتے ہیں ۔ اس کے پتے سبزی مائل سفید اور گائے کی زبان (Ox-tongue) کے مشابہ ہوتے ہیں۔ اسی لئے اس کو گاؤزبان کہتے ہیں۔ تازہ گاؤزبان کے پتے گہرے سبز رنگ کے ہوتے ہیں۔ اس کے پھول ایک انچ تک چوڑے پانچ پتوں پر مشتمل نیلے یا جامنی رنگ کے بہت ہی خوبصورت اور چمکدار ہوتے ہیں اور کھلنے پر ستارے کی شکل نظر آتے ہیں اس لئے اس پودے کو سٹار فلاور(Star Flower) بھی کہتے ہیں۔ بعض اوقات اس پر گلابی رنگ کے پھول بھی دیکھے گئے ہیں۔اس کی ایک سفید پھولوں والی قسم بھی کاشت کی جاتی ہے ۔ اس کے پھول موسم گرما میں کھلتے ہیں اور اپریل سے ستمبر تک اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ اس کے پھول سوکھ کر بھی نیلے یا گہرے جامنی رنگ کے ہی ہوتے ہیں۔ پھول آنے پر اس کے پتوں کو بھی اکٹھا کیا جاتا ہے ۔ اس کے بیج سیاہی مائل بیضوی سی شکل کے اور جھری دار ہوتے ہیں۔ اس کے بیج موسم خزاں میں اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ گاؤزبان کے تمام اجزاء بطور دواء استعمال کئے جاتے ہیں۔ زیادہ تر اس کے پھول پتے اور ٹہنیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ بازار میں جو گاؤزبان فروخت کیا جاتا ہے اس میں گاؤزبان کے خشک پتے اور ٹہنیاں موجود ہوتی ہیں اور اس کے پھول علیحدہ فروخت کئے جاتے ہیں اس میں ملے ہوے نہیں ہوتے ہیں۔ گاؤزبان کے بیجوں کا تیل بھی کیپسول کی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ گاؤزبان کا مزہ پھیکا کھیرے کی طرح کا اور لعاب دار ہوتا ہے ۔ اس پودے کو بطور سلاد، پکا کر ، سوپ وغیرہ کو خوشبو دار بنانے کیلئے اور گارنش(Garnish) کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔
اس پودے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی ابتداء ملک شام سے ہوئی اور اب یہ پودا برطانیہ سمیت یورپ ، شمالی امریکہ ، ایشیاء مائز، بحیرہ روم کے آس پاس کے علاقہ اور شمالی افریقہ میں بھی کاشت کیا جاتا ہے ۔
تاریخی پس منظر:
(Brief Historical Background)
فرانسیسی جڑی بوٹیوں کے ماہر جیرارڈ(Gerard) نے قدیم یونانی حکیم بلیناس یا بلینی(Pliny)کا حوالہ دیا ہے ۔ بلینی کے مطابق گاؤزبان انسان کو خوش و خرم اور ہشاش بشاش کرتاہے۔اسکےعلاوہ پہلی صدی کے یونانی حکیم دیسقوریدوس(Pedanius Dioscoride) کے مطابق گاؤزبان دل کو تسکین دیتا ہے،غمگینی اور افسردگی کو دور کرتا ہے اور دیوانگی یا پاگل پن میں مبتلا افراد کو آرام و سکون دیتا ہے ۔ جیرارڈ نے خود بھی اس کے استعمال بطور مفرح ، ذہن کو خوش کرنے کیلئے ، اداسی اور مالیخولیا کو ختم کرنے کیلئے اس کی سفارش کی ہے ۔

شیخ الرئیس بوعلی سینا ؒ(Avicenna) نے اپنی مشہور کتاب ’’الادویہ القلبیہ‘‘(AL-Adviatul Qalbia) میں لکھا ہے کہ گاؤزبان پہلے درجے میں گرم تر ہے اور یہ سوداء(Black Bile) کو خارج کرنے کی اپنی طاقت کی وجہ سے دل کو طاقت اور فرحت(Exhilirant) دینے کی بڑی مضبوط خصوصیت کا حامل ہے اور یہ قلب میں روح اور خون کوصاف(Purifier) بھی کرتا ہے اور بہترین گاؤزبان کے بار ے میں لکھا ہے کہ سب سے بہترین گاؤزبان خراسان سے آتا ہے ۔ اس کے پتے زیادہ موٹے ہوتے ہیں اور اس میں ریشے بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں اور سوکھنے پر اس پر جھریاں نہیں پڑتی ہیں۔

سترہویں صدی کے انگلش ہربلسٹ جون ایویلین کے مطابق یہ مراق میں مبتلا (Hypochondriac) افراد میں دوبارہ زندگی کی لہر پیدا کر دیتاہے ۔ اور اسی کے ایک ہم عصر کلپیپر(Culpepper) اس پودے کو وبائی بخاروں، سانپوں کے زہر، یرقان ، تپ دق، گلے کی سوزش اور جوڑوں میں درد کے لئے استعمال کرتا تھا۔

گاؤ زبان کی کیمیاوی ترکیب:
(Borage Chemistry)
گاؤ زبان میں صابونی اجزاء(Saponins)، لعاب دار مادہ (Mucilage)، ٹے نینز(Tanins) روغن فراری ایک بہت ہی اہم گلو سائیڈ کیکسی نین(Caccinine)پایا جاتاہے جو کہ مدر بول خصوصیت کا حامل ہے اس کو اروڑہ نےعلیحدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ گاؤزبان میں کاربو ہائیڈریٹس ، کیروٹین ( Pro Vitamin A) فیٹس، فائبر، گلو کوز، گلٹوز، نمکیات ، مثلاً فولاد، وٹامن سی ، میگنیشیم، تانبا، سوڈیم ، پوٹاشیم ، زنک ، کوبالٹ، کیلشیم ، فاسفورس وغیرہ اور پائیرو لیزیڈین الکلائیڈز(Pyrrolizidine alkaloids)، مثلاً لائیکو پسمائن(Lycopsamine)انٹرمیڈین(Intermedine) ایمبی لین(Ambiline) سپانین(Supanine) کے ساتھ ان کے ایسیٹائل حاصلات کولین اس کے علاوہ اس میں گاما لینولیک ایسڈ(GLA) بھی پایا جاتاہے جو کہ اومیگا6فیٹی ایسڈ ہے یہ بطور دافع ورم(Anti Inflammatory) کا کام کرتا ہے اور یہ جوڑوں کی صحت (Joints Health)، جلد ، مخاطی یا بلغمی جھلیوں کی حفاظت اور قوت مدافعت (Immunity) کے لئے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ اس میں پایا جانے والا وٹامن سی (Ascorbic Acid) بطور دافع عمل تکسید(Antioxcident)کام کرتا ہے یہ ایک طاقتوراینٹی اوکسی ڈنٹ ہے جو جسم سے نقصان دہ فری ریڈ یکلز کو ختم کرتا ہے ۔ گاؤزبان میں پائی جانے والی کیروٹین (پرو ۔ وٹامن اے ) بھی بطور اینٹی اوکسی ڈنٹ کام کرتی ہے ۔ یہ نقصان دہ فری ریڈیکلز سے بچانے ، عمر رسیدگی(Aging) اور کئی دیگر امراض سے تحفظ کا ذریعہ ہے ۔ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وٹامن اے بینائی اور آنکھوں کی حفاظت، جلد اور بلغمی جھلیوں کی صحت اور حفاظت کے لئے بہت ضروری ہے ۔

ذہنی اور دماغی امراض میں گاؤزبان کا کردار:
(Uses In Mental Diseases)
فلسفہ طب (Basic Principles) یونانی کے مطابق گاؤزبان انسانی جسم سے سوداء یا سوداویت (Black Bile) کو خارج کرتا ہے اور روح کو فرحت تازگی دیتا ہے ۔ طبیعت میں خوشی کا احساس پیدا کرتا ہے ۔ فلسفہ طب کے مطابق جب انسانی جسم میں خلط سوداء بڑھ جائے تو دماغی یا ذہنی امراض(Mental Diseases) پیدا ہوتے ہیں اور گاؤزبان مخرج سوداء ہے یہ مقوی دماغ و اعصاب (Nervine Tonic)ہے ۔ ذہنی دباؤ (Stress)، جنون (Mania)، مالیخولیا(Melancholy)، درمیانے سے لمبے عرصہ کا ڈپریشن(Depression)، اداسی(Sadness) اور پریشانی کو ختم کرتا ہے ۔ اعتماد میں اضافہ کرتا ہے ۔ مسکن اعصاب ہونے کی وجہ سے قدرتی طور پر نیند لاتا ہے ۔ اعضائے رئیسہ کو طاقت دیتا ہے ۔ اسے طبیعت میں خوشی پیدا کرنے والا پودا بھی کہتے ہیں۔

امراض تنفس:
(Respiratiry Diseases)
گاؤزبان اپنی لیسدارانہ خصوصیت کی وجہ سے ، حلق(Pharynx)، حنجرہ(Larynx) اور نظام تنفس کے دیگر بالائی اور زیریں حصوں کی سوزش یا ورم ، خارش اور خشکی کو دور کرنے کے لئے زمانہ قدیم سے ہی استعمال کیا جا رہا ہے یہ بلغم کو نرم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اخراج میں بھی مدد دیتا ہے ۔ جس سے چھاتی کا بلغمی امتلاء (Congestion)ختم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ بخار کو کم (Antipyretic)کرتا ہے ۔ خشک کھانسی (Dry Cough) بلغمی کھانسی (Productive Cough)، دمہ(Asthma)، زکام ، نزلہ(Nasal Catarrh) اور چھاتی کے انفکشنز میں مفید ہے ۔ اسی وجہ سے گاؤزبان اور اس کے پھولوں کو زکام نزلہ اور کھانسی وغیرہ کے تقریباً تمام شربتوں اور خمیروں میں بطور ایک اہم جزو شامل کیا جاتا ہے ۔

امراض قلب:
(Heart Diseases)
زمانہ قدیم سے ہی گاؤزبان کو تفریح و تقویت قلب کیلئے بھی استعمال کیا جاتا رہاہے۔ یہ اختلاج القلب(Palpitation)، تیز دھڑکن(Tachycardia)، گھبراہٹ، بے چینی اور دل ڈوبنے کا احساس(Heart Sinking) کی کیفیت میں بہت مفید ہے۔اسکےمرکبات کا استعمال فشار الدم قوی (Hypertension) میں مفید ہے ۔

امراض جلد:
(Skin Diseases)
یہ جلد پر بڑے اچھے اثرات مرتب کرتا ہے جلد کو نرم کرتا ہے ۔ اندرونی اور بیرونی دونوں طرح سے جلد کو صاف کرتا ہے۔ پسینہ اور پیشاب آور ہونے کی وجہ سے دونوں راستوں سے زہریلے مادوں کو خارج کرتا ہے۔ پسینہ آور(Diaphrotic)ہونے کی وجہ سے جلد میں ٹھنڈک کا احساس پیدا کرتا ہے ۔ گاؤزبان کی چائے یعنی ہربل ٹی یا جوشاندہ جلد کے امراض مثلاً دنبل(Boils)، جلد کی سرخی یا خراش(Rashes) کے لئے مفید ہے ۔ بچوں میں پیدا ہونے والے دانہ دار یا ابھار نما(Eruptive) امراض مثلاً خسرہ(Measles)، لاکڑا کاکڑا(Chicken pox) کیلئے مفید ہے ۔ اس کے پتے جلا کر منہ آنے یا قلاع(Thrush) پر چھڑکنے سے انہیں ٹھیک کر دیتا ہے اور دیگر زخموں کو خشک کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کو بطور پلٹس بھی استعمال کرتے ہیں۔ آنکھوں کی خراش میں بطور آئی لوشن بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔

نظام بول :
(Effects On Urinary System)
مدر بول(Diuretic) خصوصیت کا حامل ہونے کی وجہ سے انسانی جسم سے زہریلے مادوں کو خارج کرنے کا عمل تیز کر دیتا ہے ۔ اس کے علاوہ مثانے کی خراش(Bladder Irritation)، پیشاب کا تکلیف اور رکاوٹ سے آنے(Strangury) اور دیگر کئی تکالیف میں مفید ہے ۔

کلاہ گردہ یا ایڈرینل گلینڈز پر اثرات:
(Effects on Adrenal Glands)
کلاہ گردہ( Adrenal glands) انہیں سپُرا رینل گلینڈز (Suprarenal Galnds)بھی کہتے ہیںیہ دونوں گردوں کے اوپر لگے ہوئے مخروطی شکل کے غدود ہوتے ہیں ان کا وزن 4سے 14گرام تک اور اوسطاً ایک غدود کا وزن 5گرام تک ہوتا ہے عورتوں کی نسبت مردوں کے یہ غدود زیادہ وزنی ہوتے ہیں۔ ان غدودوں کا کام ایڈرینالین (Adrenaline)نار ایڈرینا لین(Nor Adrenaline) جن کو ایپی نیفرین (Epinephrine)اور نار ایپی نیفرین(norepinephrine) بھی کہتے ہیں ان کو پیداکرنا اور ان کے علاوہ کئی قسم کے سٹیرائیڈ ہارمونز پیدا کرنا ہے جو کہ انسانی جسم کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ یہ غدود ہمارے جسم کے لئے ہمہ وقت کام کرتے رہتے ہیں تا کہ ہمارا جسم ہر قسم کی صورت حال سے نپٹنے کیلئے تیار رہے۔یہ لگاتار ایڈرینالین کا افراز کرتے رہتے ہیں۔ جب انسانی جسم زیادہ دباؤ کا شکار ہو جائے تو یہ غدود بھی تھکاوٹ(Fatigue) کا شکار ہو جاتے ہیں۔گاؤ زبان کا استعمال ایڈرینل غدودوں پر مقوی اور شفا ء بخش اثرات مرتب کرتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ گاؤ
زبان مقوی کلاہ گردہ یا ایڈرینل گلینڈز کو طاقت دینے والا پودا ہے ۔ گاؤزبان ان غدودوں کو تحریک دیتا ہے جس کے نتیجے میں ایڈرینالین کا افراز ہوتا ہے اور ہمیں دباؤ (Mental Stress) کا مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ انسانی جسم پر سٹیرائیڈز(Steroids) کے استعمال سے پیدا ہونے والے اثرات یعنی کارٹی سون (Cortisone) یا سٹیرائیڈز سے طبی علاج (Medical Treatment)کروانے کے بعد انسانی جسم پر پیدا ہونے والے اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے یہ پودا بہت ہی مدد گار ثابت ہوتا ہے ۔ یہ پودا ایڈرینل گلینڈز کو تحریک و تقویت دیتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ایڈرینل غدود اپنا کام از سر نو شروع کر دیتے ہیں۔اور اپنے قدرتی سٹیرائیڈز ہارمونز پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

سن یاس(Menopause) کے دوران جب عورتوں میں ایسٹروجن(Estrogen) ہارمون پیدا کرنے کی ذمہ داری بھی ایڈرینل گلینڈز پر ہوتی ہے تو اس دور میں بھی عورتوں کے لئے گاؤزبان کا استعمال بہت مفید ہے ۔ اس کی وجہ گاؤزبان کے ایڈرینل گلینڈ ز کو تحریک دینا ہے ۔ یہی خصوصیت اس کے بیجوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔

اس کے علاوہ گاؤزبان معدہ کی سوزش(Gastritis)اریٹیبل باؤل سینڈروم (Irritable Bowls Syndrome-IBS) اور قبض کیلئے بھی مفید ہے ۔ دودھ پلانے والی ماؤں میں اس کا استعمال دودھ کی پیدا وار بڑھا دیتا(Glatagogue) ہے ۔ جس سے بچے کو بھر پور غذا ملتی ہے ۔ بچے کی پیدائش کے بعد کا ڈپریشن(Postnatal Depression) میں بھی اس کا جوشاندہ استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

طریقہ استعمال اور مرکبات:
(Usage And Its Unani Compounds)
گل گاؤزبان کی مقدار خوراک 3سے 5گرام تک ہے اور برگ گاؤزبان کی مقدار خوراک 5سے 7گرام ہے ۔ اس کے پھولوں کو یا پتوں ،ٹہنیوں کو پانی میں اُبال کر چھان کر اس میں مصری ، چینی یا شہد ملا کر پیا جا سکتا ہے ۔ گاؤزبان کے بیجوں سے نکلا ہوا تیل بھی کیپسول کی شکل میں مل جاتا ہے ۔ اس کے بیجوں کے تیل میں کثیر مقدار میں گاما لینولک ایسڈ پایا جاتا ہے ۔ اس تیل کو ماہواری کے مسائل ، ایگزیما(Eczema) اور دیگر مزمن امراض جلد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ گاؤزبان کے تیل کو ایوننگ پرم روز آئل(Evening primrose oil) کے ساتھ خون میں چکنائی کی مقدار کو کم کرنے میں مفید ہے ۔ اس کا تیل 500ملی گرام کی مقدار میں کیپسول روزانہ صبح شام استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ تیل حداری الہتاب مفصل یا ریٹو میٹائیڈ آرتھرائیٹس کے مریضوں کے لئے بھی مفید ہے ۔ گاؤزبان کے کسی بھی جز کو استعمال کرنے سے پہلے کسی مستند طبیب سے رائے لے لیں تا کہ اس سے مکمل فائدہ حاصل کیا جا سکے ۔

گاؤزبان کے یونانی مرکبات:
اس کے علاوہ گاؤزبان کا پودا طب یونانی کے کثیر مرکبات مثلاً خمیرہ گاؤزبان سادہ(Khameera Gaozaban Sada)، خمیرہ گاؤزبان عنبری جواہر دار، خمیرہ مروارید، خمیرہ گاؤزبان عنبری جدوار عود صلیب والا، خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا(Khameera Abresham Hakeem Arshad Wala)، دوالمسک معتدل جواہر دار،خمیرہ ابریشم شیرہ عناب والا ، شربت گاؤزبان سادہ، شربت احمد شاہی ، شربت دینار، شربت صدر اور دیگر کئی مشہور یونانی مرکبات میں ڈالا جاتا ہے ۔ مذکورہ مرکبات مفرح و مقوی قلب دماغ، مخرج بلغم، مدر بول ، محلل اورام طرز کی خصوصیات کے حامل ہیں اور ان کا استعمال محفوظ بھی ہے ۔ ان کو علامات کے مطابق طبیب کے مشورے سے بے فکر ہو کر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

1.نسخہ جوشاندہ گاؤزبان خاص:
(Borage Decoction For Respiratiry Diseases )
یہ بہت خاص قسم کا جوشاندہ ہے جو میں نے خود ترتیب دیا ہے اور یہ کھانسی، نزلہ، زکام، دمہ، تنگی تنفس میں بہت مفید ہے، بلغم کو خارج کر کے سانس کی نالیوں کو کھول دیتا ہے۔

ہوالشافی
گاؤزبان(Borago Officinalis)،
گل گاؤزبان (Borage Flowers)،
ملٹھی (Glycyrrhiza Glabra)،
زوفا (Hyssopus Officinalis)،
تخم خطمی(Althea Officinalis)،
تخم خبازی(Malva Sylvestris)،
عناب (Zizyphus Vulgaris)،
برگ بانسہ(Adhatoda Vasica)،
اسطوخودوس(Lavendula Stoechas)،
خاکسی یاخوب کلاں(Sisymbrium Irio)،
پرسیاؤشاں(Adiantum Capillus-Veneris)،
سوم کلپا لتا(Ephedra Sineca-Ma huang)**،
طریقہ تیاری اور استعمال:
ہر ایک 3 ، 3 گرام ڈیڑھ پاؤ پانی میں جوش دے کر صبح شام خالص شہد(Pure Honey)* ملا کر پینا چاہئے ۔

2.نسخہ جوشاندہ گاؤزبان برائے دمہ و الرجی وغیرہ ۔
یہ بھی بہت خاص قسم کا جوشاندہ ہے جو میں نے خود ترتیب دیا ہے اور یہ کھانسی، نزلہ، زکام، دمہ، تنگی تنفس، الرجی اور چھنکیں وغیرہ، بالائی اور زیریں تنفسی اعضاءکی سوزش، میں بہت مفید ہے، بلغم کو خارج کر کے سانس کی نالیوں کو کھول دیتا ہے۔

ہوالشافی
گاؤزبان(Borago Officinalis)،
خولنجان (Alpinia Galangal)،
زوفا (Hyssopus Officinalis)،
سپستان یا لسوڑه (Cordia Latifolia)،
تخم میتھی(Trigonella Foenum-Graecum)،
سوم کلپا لتا(Ephedra Sineca-Ma huang)**،
طریقہ تیاری اور استعمال:
ہر ایک 3 ، 3 گرام ڈیڑھ پاؤ پانی میں جوش دے کر صبح شام خالص شہد(Pure Honey)* ملا کر پینا چاہئے ۔

نوٹ:
*زیابیطس کے مریض شہد یا چینی ملائے بغیر نیم گرم پیئں ۔
**ہائی بلڈ پریشر یا فشارلدم قوی کے مریض اس جڑی بوٹی یعنی سوم کلپا لتا (Ephedra Sineca-Mahuang) کو جوشاندہ میں استعمال کرنے سے پہلے اپنے طبیب سے مشورہ ضرور کر لیں ۔

معدہ کے امراض


معدہ کے امراض

جسم انسانی میں معدہ کی اہمیت اپنی جگہ مستحکم ہے مگر وہ خوراک کے ہضم کرنے میں زیادہ اہم کردار نہیں رکھتا۔ سب سے پہلے وہ اندر آنے والی غذا کا اسٹور بنتا ہے۔ پھر اس میں موجود نمک کا تیزاب اور Pepsinمل کر کھانے کو ہضم کرنے کی ابتدا کرتے ہیں۔ دوسرے افعال معمولی نوعیت کے ہیں۔ چونکہ یہاں پر خوراک زیادہ ہضم نہیں ہوتی اس لیے انجزاب کا عمل بھی برائے نام ہی ہوتا ہے۔ ہضم اور انجذاب کا سارا سلسلہ چھوٹی آنت میں عمل پاتا ہے۔ تیزابی ماحول میں آدھ گھنٹہ گزارنے کے بعد خوراک کو چھوٹی آنت کی طرف روانہ کرنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ چھوٹی آنت میں تیزابیت ناپسندیدہ ہے اس لیے اس کے سب سے پہلے حصہ Duodenumکی جھلیوں سے سوڈا بائی کا رب پیدا ہوتا ہے جو معدہ سے آنے والی غذا کی تیزابیت کو ختم کرتا ہے۔
معدہ میں ہر وقت نمک کا تیزاب Hydrochloric Acidموجود رہتا ہے۔ لیکن یہ اس کی دیوار کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا کیونکہ قدرت نے ان دیواروں میں تیزاب سے مدافعت کی صلاحیت رکھ دی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جو اس صلاحیت کو متاثر کرکے ختم کردیتا ہے اور تیزاب معدہ کی دیواروں کو کھا جاتا ہے۔ وہاں زخم پیدا ہوجاتے ہیں۔زخم معدہ میں ہوں تو ان کو Gastric Ulcerاور اگر چھوٹی آنت کے پہلے حصہ میں ہوں توان کو Duodenal Ulcerکہا جاتا ہے۔ دونوں کو ملا کرPeptic Ulcerکا نام دیا گیا ہے۔
معدے کا السر مہذب سوسائٹی میں روزمرہ کی بات ہے۔ یورپ اور امریکا میں جہاں اعداد و شمار میسر ہیں یقین کیا جاتا ہے کہ 10فیصدی مردوں کو دونوں السروں میں سے ایک ضرور ہوگا۔ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ یہ بنیادی طور پر مردوں کی بیماری ہے اور عورتیں نسبتاً محفوظ ہیں کیوں کہ مردوں اور عورتوں میں معدہ کے السر کی شرح 4:1تھی اور آنت کے السر کی 2:1۔ لیکن اب صورت حال بدل کر مردوں اور عورتوں کا تناسب 2:1رہ گیا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ کاروبار‘ تفکرات‘ خوراک بلکہ شراب نوشی اور تمباکو نوشی میں مغربی ممالک کی عورتیں ہر طرح سے مردوں کی ہم پلہ ہوگئی ہیں اس لیے ان حرکات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیماریوں میں بھی یہ برابر کی شریک ہیں۔

اسباب
پرانے طبیبوں کا خیال تھا کہ غذا میں بداعتدالیاں خاص طور پر مسالے دار غذائیں اور تیز شرابیں معدہ کی جھلیوں کو کمزور کردیتی ہیں اور تیزاب ان کو کھا جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق ہندوستان کے جنوبی حصے میں کھٹائی کا زیادہ شوق السر کی زیادتی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔
اس بیماری کا اب ایک نیا سبب معلوم ہوا ہے کہ جب کوئی شخص ہر وقت سڑتا اور کڑھتا رہتا ہے تو اس عمل میں اس کے معدہ کی دیواروں میں دورانِ خون میں کمی آجاتی ہے۔ خون کی کمی کی وجہ سے اس کی قوت مدافعت کے کمزور پڑتے ہی وہاں پر موجود تیزاب دیوار کا ایک کونا کھا لیتا ہے۔ یہ دیواریں اتنی بھی کمزور نہیں ہوتیں کہ تیزاب پوری دیوار یا پوری اندرونی جھلی کو گلا دے۔ ان کی کمزوری سے تیزاب کو کبھی کبھار ہی ایک آدھ کونا کھا لینے کا موقعہ ملتا ہے لیکن باقی حصہ اسی طرح تیزاب کی موجودگی کے باوجوداپنی حیثیت اور تندرستی قائم رکھتا ہے۔
کاروباری حضرات‘ سرجن‘ پائلٹ‘ پریشانی کا کام کرنے والے اور مصیبت کے دن گزارنے والوں کو اکثر السر ہوجاتے ہیں۔ جوڑوں کے دردوں میں استعمال ہونے والی اکثر دوائیں اگر درد کو آرام دیتی ہیں تو پیٹ میں السر بھی پیدا کرتی ہیں۔ اسپرین کا السر سے براہ راست تعلق ثابت ہوچکا ہے۔ کچھ السر ایسے ہیں جو معدہ میں ہونے کے باوجود مدتوں خاموش‘ تکلیف دیئے بغیرپڑے رہتے ہیں۔ ایسے مریضوں میں سے کسی کو اگر اسپرین کھانی پڑے تو اس کے فوراً بعد زخموں سے خون نکلنے لگتا ہے اور تب انھیں اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ اسپرین میں موجود تیزاب معدے کی جھلیوں کی قوت مدافعت کو براہ راست ختم کرتے ہیں۔ جوڑوں کے درد کے لیے استعمال ہونے والی جدید ادویہ میں سے اکثر اپنی کیمیاوی ساخت میں اسپرین سے مختلف ہیں لیکن ان میں موجود کیمیاوی اجزاءہر مرتبہ السر بنا دیتے ہیں۔ یہاں پر دو برائیوں میں سے ایک کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ سمجھدار معالج جب بھی جوڑوں کے درد کے لیے دوائی تجویز کرتے ہیں تو ساتھ میں تیزاب کی شدت کو کم کرنے والی دوائی ضرور دیتے ہیں۔ اس عمل کو اطباءعرب نے بدرقہ یا مصلح کا نام دیا تھا۔
شراب نوشی‘ تمباکونوشی اور تفکرات کے علاوہ صدمات بھی السر پیدا کرتے ہیں۔ جیسے کہ خطرناک نوعیت کے حادثات‘آپریشن‘ جل جانے اور دل کے دورہ کے بعد اکثر لوگوں کو السر ہوجاتا ہے۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ صدمات چوٹ اور دہشت کے دوران جسم میں ایک ہنگامی مرکب Histamineپیدا ہوتا ہے یہ وہی عنصر ہے جو جلد پر حساسیت کا باعث ہوتا ہے۔ یقین کیا جارہا ہے کہ اس کی موجودگی یا زیادتی معدہ میں السر کا باعث ہوتی ہے۔ اسی مفروضہ پر عمل کرتے ہوئے السر کی جدید دوائوں میں سے Cemitidineبنیادی طور پر Histamineکو بیکار کرتی ہے اور یہی اس کی افادیت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔
ایسی خوراک جس میں ریشہ نہ ہو۔ جیسے کہ خوب گلا ہوا گوشت۔ چھنے ہوئے سفید آٹے کی روٹی السر کی غذائی اسباب ہیں۔
اکثر اوقات السر خاندانی بیماری کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ آپس میں خونی رشتہ رکھنے والے متعدد افراد اس میں بیک وقت مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ ان میں تکلیف وراثت میں منتقل ہوتی ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بودوباش کا اسلوب‘ کھانا پینا یا عادات ایک جیسی تھیں۔ اس لیے ان کو السر ہونے کے امکانات دوسروں سے زیادہ رہے۔ جنسی ہارمون اور کورٹی سون کا استعمال السر پیدا کرسکتا ہے۔
50فیصدی مریضوں کو السر معدہ کے اوپر والے منہ کے قریب ہوتا ہے وہ اسباب جو معدہ میں زخم پیدا کرتے ہیں وہ بیک وقت ایک سے زیادہ السر بھی بنا سکتے ہیں لیکن 90فیصدی مریضوں میں صرف ایک ہی السر ہوتا ہے۔ جبکہ 10-15فیصدی میں ایک سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔
پیٹ کے وسط میں پسلیوں کے نیچے جلن سے بیماری کی ابتداءکا پتا چلتا ہے جسے عام انگریزی میں لوگ Heart Burnکہتے ہیں۔ یہ جلن بڑھتے بڑھتے درد کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ درد کے اوقات واضح اور مقرر ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر دو کھانوں کی درمیان محسوس ہوتا ہے۔ مریضوں کو بھوک کا احساس درد سے ہوتا ہے۔کیونکہ یہ خالی پیٹ بڑھ جاتا ہے۔ اکثر مریض کھانا کھانے کے بعد آرام محسوس کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیٹ کے تیزاب کھانے کو ہضم کرنے میں صرف ہوجاتے ہیں اس طرح وہ زخم پر لگ کر تھوڑی دیر کے لیے درد کا باعث نہیں بن سکتے۔
معدہ سے غذا کو مکمل طور پر نکل کر آنتوں میں جانے میں 2گھنٹے سے زائد عرصہ لگتا ہے معدہ 2-3گھنٹوں میں خالی ہوجاتا ہے۔ اس لیے اب تیزاب زخم پر لگ کر درد پیدا کرنے کے قابل ہوجاتا ہے یا مریض کو درد کی تکلیف کھانے کے 2-3گھنٹہ بعد محسوس ہوتی ہے۔ مریض کو اگر قے ہوجائے تو تیزاب کی کافی مقدار باہر نکل جاتی ہے اور درد میں کافی دیر کے لیے افاقہ ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس تفکرات‘ پریشانیاں‘ دہشت‘ شراب اور اسپرین درد میں اضافہ کرتے ہیں۔
السر کا درد ایک مخصوص مقام پر ہوتا ہے۔ اکثر مریض سوال کرنے پر درد کی جگہ انگلی رکھ کر صحیح نشان دہی کرسکتے ہیں۔ سوڈا بائی کارب کی تھوری سی مقدار بھی اس میں کمی لاسکتی ہے۔ درد اگر معدہ کے السر کی وجہ سے ہو تو یہ زیادہ عرصہ نہیں رہتا۔ اگر چہ لوگ 20سال تک بھی اس میں مبتلا رہتے ہیں مگر عام طور پر اس سے بہت پہلے یہ پھٹ جاتا ہے یا کنسر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی زیادہ مدت بھی چل جاتا ہے۔ یہ درد پیٹ کے علاوہ گردن سے نیچے کندھوں کے درمیان بھی محسوس ہوسکتا ہے۔
السر میں تشخیص کا سارا دارو مدار درد کی نوعیت۔ اس کے اوقات اور اس کے کھانے پینے سے تعلق پر ہوتا ہے۔ معدے کے السر میں مریض کو بھوکے پیٹ درد ہوتا ہے لیکن کھانا کھانے سے آرام ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں کو درد کے بغیر ایک روز ناگہانی طور پر پتا چلتا ہے کہ قے کے ساتھ خون آرہا ہے اور ان کے پیٹ میں السر ہوگیا ہے۔ ورنہ عام طور پر سب سے پہلے جلن ہوتی ہے۔ پھر منہ میں کھٹا پانی آجاتا ہے (Water Brash) بھوک کم ہوجاتی ہے۔ کھانے کے بعد پیٹ میں بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ جی متلانا اور قے ضروری نہیں لیکن قے اگرآجائے تو اس سے بڑا سکون محسوس ہوتا ہے۔ قے اگر بار بار آئے اور خاصی مقدار میں ہوتو اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معدہ کا آنتوں کی طرف سے منہ بند ہے یا اس میں جزوی طور پر رکاوٹ آگئی ہے۔ بدہضی السر کے مریضوں کا خاصہ ہے لیکن اجابت کا نظام بہت کم متاثر ہوتا ہے۔ البتہ کبھی قبض اور کبھی اسہال روزمرہ کی بات بن جاتے ہیں۔ ان تمام امور سے مریض کی غذائی حالت متاثر ہوتی ہے۔ اس کا وزن کم ہونے لگتا ہے اور کمزوری بڑھتی ہے۔
السریوں بھی گھبراہٹ اور بے سکونی کے مریضوں کو ہوتا ہے۔ اوپر سے جب بدہضمی اور بھوک کی کمی شامل ہوں تو مریض کا حال مزید خراب ہوجاتا ہے۔

پیچیدگیاں
السر کی سب سے بڑی خرابی یا دہشت اس کا پھٹ جانا یا اندر خون بہنا ہے۔ عام طور پر کسی السر سے اپنے آپ جریان خون شروع نہیں ہوتا۔ بلکہ مریض شراب پیتا ہے‘ اسپرین کھاتا ہے یا جوڑوں کے درد کی دوائوں میں خاص طور پر Phenyl Butazone Cortisoneکھاتا ہے تو یہ پھٹ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بیہوشی‘ کمزوری‘ چکر‘ ٹھنڈے پسینے آتے ہیں‘ نبض کمزور پڑجاتی ہے۔
اسی طرح معدہ کی دیوار میں آر پار سوراخ ہوسکتا ہے۔ جس میں پیٹ تختے کی طرح سخت ہوجاتا ہے شدید درد‘ بخار‘ شدید قسم کا Peritonitisہوجاتا ہے۔
معدہ کا وہ منہ جو آنتوں کی طرف کھلتا ہے بند ہوسکتا ہے۔ راستہ بند ہونے پر غذا معدہ سے نہ تو آگے جاسکتی ہے اور نہ ہی جسم کی توانائی قائم رہ سکتی ہے۔ جتنی دیر معدہ غذا کو روک سکتا ہے روکے رکھتا ہے پھر قے کی صورت میں ساری غذا ایک دم سے باہر نکل جاتی ہے۔ اس قے سے طبیعت کو بڑا سکون ملتا ہے مگر یہ سکون ایک طوفان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ پانی اور نمک کی فوری کمی واقع ہوجانے سے وہ تمام علامات پیدا ہوجاتی ہیں جو ہیضہ اور اسہال میں ہوتی ہیںساتھ ہی خون کی کمی اور جسمانی کمزوری آن لیتے ہیں۔ معدہ پھیل جاتا ہے جسے Acute Gastric Dilatationکہتے ہیں۔

السر کی 10فیصدی اقسام کنسر میں تبدیل ہوسکتی ہیں
یہ تمام پیچیدگیاں خطرناک ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جان لے سکتی ہے۔ اگرچہ ان میں بعض کا دوائوں سے علاج ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ طے کرنا کہ کون سے مریض کو بہتری ہورہی ہے اور کون سے کے حالات خراب ہورہے ہیں تجربہ کار اور مسند معالج کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ موٹی بات یہ ہے کہ ان تمام حالات میں کسی قسم کے علاج کی کوشش کرنے کی بجائے مریض کو ایسے ہسپتال میں داخل کردیا جائے جہاں پیٹ کے آپریشن کا معقول انتظام موجود ہو۔ ان کیفیات میں کسی قسم کا التوا موت کا باعث ہوسکتا ہے۔

علاج
ان زخموں کا دوائوں سے اگرچہ علاج کیا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں گڑبڑ پیدا ہونے کی وجہ سے ماہرین کی رائے میں ایک عام ڈاکٹر اور سرجن باہمی مشورہ سے مریض کا علاج کریں یا کوئی سرجن صورت حال سے آگاہ رہے۔ تاکہ زخم سے سوراخ پیدا ہونے یا کسی نالی کے پھٹ جانے کے بعد پیٹ میں ہونے والے جریان خون کو روکنے یا مریض کی جان بچانے کے لیے ہنگامی آپریشن کا بندوبست پہلے سے موجود ہو۔

غذا
ماہرین ابھی تک متفق نہیں کہ مریض کے لیے مناسب غذا کونسی ہونی چاہئے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ مسالے دار غذائیں چونکہ بھوک کو بڑھاتی ہیں اس لیے دنیا میں ہر جگہ مسالوں اور مرچوں سے منع کردیا جاتا ہے۔ انگریز ڈاکٹر تو صرف اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ مریض کو جو ناپسند ہو یا جس سے تکلیف ہوتی ہو اسے کھانا چھوڑ دے۔ تمباکونوشی کے دوران علاج بیکار ہوتا ہے۔
ہمارے ذاتی مشاہدے میں زیادہ مسالے یقینا خراب کرتے ہیں لیکن معتدل مقدار میں گھر کا پکا ہوا معمولی مرچوں والا کھانا نقصان دہ نہیں ہوتا۔ البتہ جب مرض کی شدت کا دورہ پڑا ہو تو اس وقت مرچوں سے پرہیز ضروری ہے۔ ہم نے کھٹائی اور چکنائی کو ہمیشہ تکلیف کو بڑھانے والا پایا۔ کھٹی چیزیں خواہ وہ سنگترا ہی کیوں نہ ہو تیزابیت میں اضافہ کرتا ہے اور چکنائی چونکہ معدہ میں ہضم نہیںہوتی اس لیے تبخیر پیدا کرکے تکلیف کا باعث بنتی۔
طب جدید میں لوگوں کو دودھ پر ضرورت سے زیادہ اعتقاد رہا ہے۔ بعض مریضوں کو علاج کے ابتدائی ایام میں دن میں چار چار مرتبہ دودھ پلایا جاتا رہا ہے۔دودھ تیزاب کی تیزی کو مار دیتا ہے لیکن پیٹ کے اکثر مریض دودھ ہضم نہیں کرسکتے بلکہ دودھ کی مٹھاس (Lactose)جراثیم کی کچھ قسموں کی پرورش میں مددگار ہوتی ہے۔ دودھ پینے سے جلن اور درد میں فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ آرام وقتی ہوتا ہے۔ جب تیزاب پھر سے پیدا ہوتا ہے تو جلن پھر سے نمودار ہوجاتی ہے۔

علاج بالادویہ
ڈاکٹروں نے معدے کی تیزابیت کو مارنے کے لیے دوائوں کی ایک طویل فہرست رکھی ہوتی ہے۔ جن کو Antacidsکہتے ہیں۔ یہ کیمیاوی عناصر نمک کے تیزاب کی تیزی کو کمیسٹری کے مشہور اصول کہ تیزاب کے اثر کو الکلی زائل کردیتی ہے اور الکلی کے اثر کو تیزاب Neutraliseکردیتا ہے۔
کیمسٹری کے اسی اصول کے مطابق معدہ میں تیزاب کی زیادتی کو ختم کرنے کے لیے الکلی دی جاتی ہے۔ ان میں سے آسان اور مقبول سوڈا بائی کارب ہے۔ یہ آسانی سے مل جاتا ہے۔ سستا اور قدرے بے ضرر ہے۔ ایک اہم خوبی یہ ہے کہ چھوٹی آنت کا پہلا حصہ خود بھی سوڈبائی کارب پیدا کرکے معدہ سے آنے والی تیزابی غذا کی تیزابیت کو زائل کردیتا ہے۔ سوڈا بائی کارب کواگر ابالا جائے تو وہ سوڈیم کاربونیٹ (کپڑے دھونے والا سوڈا) بن جاتا ہے جو کہ ایک زہریلا عنصر ہے۔
اس کے علاوہ Calcium, Aluminium, Magnesium, Sodium, Potassiumکے متعدد نامیاتی اور غیر نامیاتی مرکبات کی صورت میں آتے ہیں جیسے کہ magnesium Trisillicate Mag. Carbmag. Hydroxide, Aluminium Hydroxideوغیرہ
ان کے علاوہ جو ادویہ کثرت سے استعمال ہوتی ہیں ان میں Simeco Whydrate, Altacite, Aludrox, Digexہیں۔ دافع تیزاب ادویہ میں سے اکثر سیال ہیں جب کہ چند ایک کی گولیاں بھی ہیں۔ مریض ضرورت کے وقت ان کو چبا کر کھا سکتا ہے۔ بہتر نتائج کے لیے اوپر سے دو گھونٹ پانی پی لینے سے اثر جلد ہوتا ہے۔

تشخص:
جب مریض درد والی جگہ کی پکی نشاندہی کرتے ہوئے اپنی انگلی رکھ کر بتاد ے اور درد کو کھانا کھانے سے آرام آئے۔ بھوک ہو تو درد شروع ہوجائے قے سے آرام آئے تو یہ تمام علامات معدہ کے السر کا پتا دیتی ہیں۔
پہلے زمانے کے لوگ پیٹ میں ربڑ کی نالی ڈال کر خالی پیٹ تیزاب نکال کر پھر گندم کا دلیا کھلا کر معدہ سے رطوبتیں نکال کر ان میں تیزاب کی مقدار اور اس کی ہضم کرنے کی صلاحیت کا جائزہ لیتے تھے۔ Gastric Analysisکا یہ عمل تین گھنٹوں پر محیط ہوتا تھا اور جو اطلاعات میسر ہوتی تھیں ان کا مطلب صرف اتنا ہی ہوتا تھا کہ تیزابیت موجود ہے۔ اس ٹیسٹ کا السر کی موجودگی سے کوئی تعلق نہ تھا۔
Barium Sulphateکی ایک معقول مقدار کھلا کر مریض کے متعدد ایکسرے کئے جاتے ہیں۔ پہلا ایکسرے پینے کے عمل کے دوران کیا جاتا ہے اس میں گلے سے لے کر معدہ تک جانے والی خوراک کی نالی نظر آتی ہے۔ دوسرے ایکسرے میں معدہ دیکھا جاتا ہے۔ آدھا گھنٹہ کے بعد کے ایکسرے سے پتہ چلتا ہے کہ معدہ کی اپنی شکل و صورت کیا ہے۔ اگر اس میں السر موجود ہے تو اس کے کونے نظر آئیں گے۔ آدھ گھنٹہ کے بعد غذا معدہ سے نکل کر آنتوں کو جاتی ہے اس مرحلہ پر لی گئی تصویر معدہ سے اخراج کا عمل یا خارجی منہ پر رکاوٹ ہے تو واضح ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد وقفہ سے لی گئی تصویریں آنتوں کی شکل و صورت ان میں غذا کے سفر اور وہاں پر پھلائو یا رکاوٹ کا پتا دیتی ہیں۔
چونکہ ایکسرے کی شعاعیں آنتوں اور معدہ سے گزر جاتی ہیں اس لیے ان کو شعائوں کے لیے معدہ رنگین بنانے کے لیے بیریم پلایا جاتا ہے۔ اس عمل کو Barium Meal X-Raysکہتے ہیں۔
حال ہی میں ٹیلی ویژن کیمرے کے اصول پر ایک چھوٹا سا کیمرا ایجاد ہوا ہے۔ مریض جب اس باریک سے کیمرے کو نگل لیتا ہے تو اسکرین پر اس کے معدے کا اندرونی منظر براہ راست نظر آنے لگتا ہے۔ معائنہ کرنے والا معدہ اور اس کے ہر حصہ کو پورے اطمینان کے ساتھ دیکھ سکتا ہے پھر یہی کیمرا چھوٹی آنت کے پہلے حصے تک دیکھ سکتا ہے۔ یوں السر کی زد میں آنے والے تمام مقامات دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس میں یہ بندوبست بھی موجود ہے کہ شبہ والے مقام یا زخم سے ٹکڑا کاٹ کر مزید خوردبینی معائنہ کے لیے باہر نکال لیا جائے۔ Gastroscopyکا یہ عمل یقینی اور فیصلہ کن ہے۔ اس سے نہ صرف کہ السر کی تشخیص یقینی ہوجاتی ہے بلکہ کچھ عرصہ بعد مریض کی بہتری یا بدتری کا بھی پتا چلایا جاسکتا ہے۔