Saturday 19 April 2014

سفیدبال کالے کرنے کے لیے بہترین نسخہ

سفیدبال کالے کرنے کے لیے بہترین نسخہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ لوگوں کے بال زیادہ دماغی کام کرنے یا زکام کی وجہ سے وقت سے پہلے ہی سفید ہوجاتے ہیں تو انکے لیے دو نسخے لکھ رہی ہوں ۔
استعمال کریں ان شاء اللہ بال سیاہ ہو جائیں گے اور اگر سیاہ بالوں والے بھی استعمال کریں تو انکے بال جلدی سفید نہیں ہونگے
٭ مہندی کے پتے 12 گرام
کلونجی 7 گرام
لونگ 2 گرام
ناریل کا تیل 1 پاوٴ -
تمام دواوٴں کو ناریل کے تیل میں ہلکی آنچ پر اتنا پکائیں کے جل جائیں اور روزانہ سوتے وقت بالوں کی جڑوں میں اچھی طرح مالش کریں
٭روغنِ بادام شیریں: 250 گرام
روغنِ گل یا روغنِ چنبیلی: 250 گرام
روغنِ کدو : 250 گرام
روغنِ کاہو: 250 گرام
روغنِ بیضہ مرغ: 250 گرام
پانچوں تیل ایک بڑی شیشی میں ملا کر رکھ لیں اور روزانہ رات میں سوتے سے پہلے سر میں ڈال کرانگلیوں کے پور سے ہلکے ہلکے پندرہ سے بیس منٹ مالش کریں۔ ان شاء اللہ آپ کے بال کبھی سفید نہیں ہوں گے۔

طب نبوی صل اللہ علیہ وسلم



طب نبوی صل اللہ علیہ وسلم
تلبینہ (جَو سے تیار لاجواب نبویؐ ٹانک)
جَو کا آٹا دو بڑے چمچ بھرے ہوئے' ایک کپ تازہ پانی میں گھولیں برتن میں دو کپ پانی تیز گرم کریں۔ اس گرم پانی میں جَو کے آٹے کا گھولا ہوا کپ ڈال کر صرف پانچ منٹ ہلکی آنچ پر پکائیں اور ہلاتے رہیں پھر اتار کر اس کو ٹھنڈا کریں ہلکا گرم ہو تو اس میں شہد حسب ذائقہ مکس کریں اور پھر اسی میں دو کپ دودھ نیم گرم (یعنی پہلے سے ابال کر اس کو ہلکا نیم گرم کرلیا گیا ہو) ملا کر خوب مکس کریں۔ تلبینہ تیار ہے۔
چمچ سے کھائیں یا گھونٹ گھونٹ پئیں یہ تیار مرکب اسی مقدار میں دو آدمیوں کیلئے کافی ہے۔ جب بھی استعمال کریں نیم گرم استعمال کریں۔ چاہیں تو ٹھنڈا بھی استعمال کرسکتے ہیں۔(چاہیں تو دن میں ایک ہی دفعہ بنا کر رکھ لیں بار بار بھی بناسکتے ہیں ہر بار تازہ بھی بناسکتے ہیں۔ لیکن اس کی مقدار ہر دفعہ یہی رہے گی۔ ڈبل کرنا چاہیں یا اس سے یادہ کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں لیکن جَو کے آٹے' پانی' دودھ کا پیمانہ یہی رہے گا۔
نوٹ: اگر جَو کا آٹا نہ ملے تو جَو کا دیسی دلیہ اتنی ہی مقدار میں لیں' ڈبے والا نہ ہو دیسی دلیہ ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ کے اہل خانہ میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو حکم ہوتا کہ اس کیلئے تلبینہ تیار کیا جائے۔ پھر فرماتے تھے کہ تلبینہ بیمار کے دل سے غم کو اُتار دیتا ہے اور اس کی کمزوری کو یوں اتار دیتا ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کراس سے غلاظت اُتار دیتا ہے۔'' (ابن ماجہ)
اسی مسئلے پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت میں اسی واقعہ میں اضافہ یہ ہوا کہ جب بیمار کے لیے تلبینہ پکایا جاتا تھا تو تلبینہ کی ہنڈیا اس وقت تک چولہے پر چڑھی رہتی تھی جب تک وہ یا تو تندرست ہوجاتا۔اس سے معلوم ہوا کہ نیم گرم تلبینہ مریض کو مسلسل اور بار بار دینا اس کی کمزوری کو دور کرتا ہے اور اس کے جسم میں بیماری کا مقابلہ کرنے کی استعداد پیدا کرتا ہے۔''حضرت عائشہ بیمار کیلئے تلبینہ تیار کرنے کا حکم دیا کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ اگرچہ بیمار اس کو ناپسند کرتا ہے لیکن وہ اس کیلئے ازحد مفید ہے۔'' (ابن ماجہ) ویسے تلبینہ نہایت ٹیسٹی خوش ذائقہ خوشبودار اور بہت لاجواب ہے۔ چاہیں تو خوشبو کیلئے آٹے میں پسی ہوئی چھوٹی الائچی بھی تھوڑی سی مکس کرسکتے ہیں۔پریشانی اور تھکن کیلئے بھی تلبینہ کا ارشاد ملتا ہے۔
''جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھرانے میں کوئی وفات ہوتی تو دن بھر افسوس کرنے والی عورتیں آتی رہتیں' جب باہر کے لوگ چلے جاتے اور گھر کے افراد اور خاص خاص لوگ رہ جاتے تو وہ تلبینہ تیار کرنے کا حکم دیتیں۔ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سُنا ہے کہ یہ مریض کے دل کے جملہ عوارض کا علاج ہے اور دل سے غم کو اُتار دیتا ہے۔'' (بخاری' مسلم' ترمذی' نسائی' احمد)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت میں ہےجب کوئی نبی ﷺ سے بھوک کی کمی کی شکایت کرتا تو آپ اسے تلبینہ کھانے کا حکم دیتے اورفرماتے کہ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ تمہارے پیٹوں سے غلاظت کو اس طرح اتار دیتا ہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کر صاف کرلیتا ہے۔نبی پاک ﷺ کومریض کیلئے تلبینہ سے بہتر کوئی چیز پسند نہ تھی۔ اس میں جَو کے فوائد کے ساتھ ساتھ شہد کی افادیت بھی شامل ہوجاتی تھی۔ مگر وہ اسے نیم گرم کھانے' بار بار کھانے اور خالی پیٹ کھانے کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ (بھرے پیٹ بھی یعنی ہر وقت ہر عمر کا فرد اس کو استعمال کرسکتا ہے۔ صحت مند بھی ' مریض بھی)
نوٹ: تلبینہ ناصرف مریضوں کیلئے بلکہ صحت مندوں کیلئے بہت بہترین چیز ہے۔ بچوں بڑوں بوڑھوں اور گھر بھر کے افراد کیلئے غذا' ٹانک بھی' دوا بھی شفاء بھی اور عطا بھی۔۔۔ ۔خاص طور پر دل کے مریض ٹینشن' ذہنی امراض' دماغی امراض' معدے' جگر ' پٹھے اعصاب عورتوں بچوں اور مردوں کے تمام امراض کیلئے انوکھا ٹانک ہے۔


شہتوت کے فوائد


شہتوت کے فوائد
یہ ایک معروف اور عام پھل ہے۔بچے بڑے سب اسے شوق سے کھاتے ہیں۔پاکستان باآسانی اور کثرت سے کاشت کیا جاتا ہے۔شہتوت لال،ہرے ،سفید اور کالے رنگ کے بھی ہوتے ہیں۔سیاہ رنگ کے شہتوت کی ایک قسم بے دانہ سب سے اعلیٰ تسلیم کی گئی ہے، اسکا رس ٹپکتا رہتا ہے اور یہ شیریں ہوتا ہے۔عموما میٹھے شہتوت کھانے سے طبیعت میں سکون آتا ہے۔یہ پھل بے چینی ،گھبراہٹ،چڑچڑاپن اور غصہ دور کرتا ہے۔صا لح خون پیدا کرتا ہے۔اسکے کھانے سے جگر اور تلی کی اصلاح ہوتی ہے۔یہ زود ہضم غذائیت سے مالا مال ہوتا ہے۔اس پھل میں مصفا پانی،گوشت بنانے والے اجزاء،نشاستےدار شکر شامل ہے۔اسکے کیمیائی اجزاء میں تانبا۔آئیوڈین،پوٹاشیم ،کیلشیم،فولاد،فاسفورس اور روغنیات شامل ہیں۔قدرت نے اس پھل کو وٹامن اے ، بی اور ڈی سے بھی کثیر مقدار میں نوازہ ہے۔یہ قبض کشا پھل ہے۔اس سے ہاضمے کو تقویت ملتی ہے۔جگر کو افادیت پہنچا کر صالح خون کو پیدا کرنے میں یہ اکسیر و مجرب ہے۔گرمی کی پیاس کی شدت اور ہیجانی کیفیت دور کرتا ہے۔اسکا شربت بخار میں فائدہ دیتا ہےاور جسم کی حرارت کو کم کرتا ہے۔اسکے استعمال سے بلغمی مادہ خارج ہو جاتا ہے۔یہ شدید کھانسی ،خاص طور پر خشک کھانسی میں اور گلے کی دکھن میں بے حد مفید ہے۔سر درد کے لیے اکیس تازہ شہتوت لیکر چینی کی پلیٹ میں لیکر رات بھر کھلے آسمان کے نیچے رکھیں۔اور صبح نہار منہ کھانے سے پہلے ہی دن آرام آ جاتا ہے۔معدہ و جگر میں جب گرمی بڑھ جاتی ہے تو اسکے اثرات عموما زبان پر چھالوں کی صورت میں پڑتے ہیں، اسکے علاوہ گلے میں درد بھی شروع ہو جاتا ہے،متاثرہ فرد کھانے سے بھی عاجز ہو جاتا ہے۔ایسے میں اگر شہتوت کے درخت سے نرم نرم کونپلیں توڑ کر اچھی طرح چبائی جائیں تو منہ کے چھالے دور ہو جاتے ہیں۔کسی چیز کے اضافے یا کمی سے الرجی ہو جاتی ہے، جسے عرف عام میں پتی بھی کہا جاتاہے۔جب یہ الرجی ہوتی ہے تو جسم پر سرخ رنگ کے چکتتے پڑ جاتے ہیں۔اس سے جسم پر خارش ہوتی ہے اور بہت تکلیف رہتی ہے۔ایسے میں کچے شہتوت لیں انہیں پیس کر جو کے سرکے میں ملائیں ،اس میں تھوڑا سا عرق گالاب بھی شامل کر لیں۔انہیں باہم ملا کر اس قدر ملائیں کہ یکجان ہو جائیں۔اس دوا کو متاثرہ جگہ پر لیپ کریں۔اسکے بیس منٹ کے بعد نہا لیں۔پتی کا خاتمہ ہو جائے گا۔جو لوگ شہتوت شوق سے کھاتے ہیں انکے گلے کبھی خراب نہیں ہوتے ہیں اور نہ انہیں ٹانسلز کی تکلیف ہوتی ہے۔اسلیے شہتوت کے مو سم میں ضرور شہتوت کھائیں۔نزلہ و زکام کے لیے اور دماغی تکلیف کے لیے مریض صبح سویرے شہتوت سیاہ نہار منہ کھائیں۔ چند دن کے استعمال سے دماغی خشکی اور نزلہ زکام سے نجات مل جائے گی۔

Wednesday 16 April 2014

"جوشاندے برائے کھانسی، نزلہ، زکام، دمہ ، سانس کی تنگی"


"جوشاندے برائے کھانسی، نزلہ، زکام، دمہ ، سانس کی تنگی"

یہ بہت خاص قسم کا جوشاندہ ہے جو یہ کھانسی، نزلہ، زکام، دمہ، تنگی تنفس میں بہت مفید ہے، بلغم کو خارج کر کے سانس کی نالیوں کو کھول دیتا ہے۔

A.نسخہ جوشاندہ گاؤزبان خاص:


ہوالشافی

1.گاؤزبان
2.گل گاؤزبان
3.ملٹھی
4.زوفا
5.تخم خطمی
6.تخم خبازی
7.عناب
8.برگ بانسہ
8.اسطوخودوس
9.خاکسی یا خوب کلاں
10.پرسیاؤشاں
11.سوم کلپا لتا**،

طریقہ تیاری اور استعمال:

ہر ایک 3 ، 3 گرام ڈیڑھ پاؤ پانی میں جوش دے کر صبح شام خالص شہد(Pure Honey)* ملا کر پینا چاہئے ۔

B.نسخہ جوشاندہ گاؤزبان برائے دمہ و الرجی وغیرہ ۔

یہ بھی بہت خاص قسم کا جوشاندہ ہے جو کھانسی، نزلہ، زکام، دمہ، تنگی تنفس، الرجی اور چھنکیں وغیرہ، بالائی اور زیریں تنفسی اعضاءکی سوزش، میں بہت مفید ہے، بلغم کو خارج کر کے سانس کی نالیوں کو کھول دیتا ہے۔

ہوالشافی

1.گاؤزبان(Borago Officinalis)،
2.خولنجان (Alpinia Galangal)،
3.زوفا (Hyssopus Officinalis)،
4.سپستان (Cordia Latifolia)،
5.تخم میتھی(Trigonella Foenum-Graecum)،
6.سوم کلپا لتا(Ephedra Sineca-Ma huang)**،

طریقہ تیاری اور استعمال:

ہر ایک 3 ، 3 گرام ڈیڑھ پاؤ پانی میں جوش دے کر صبح شام خالص شہد(Pure Honey)* ملا کر پینا چاہئے ۔

نوٹ:
*زیابیطس کے مریض شہد یا چینی ملائے بغیر نیم گرم پیئں ۔
**ہائی بلڈ پریشر یا فشارلدم قوی کے مریض اس جڑی بوٹی یعنی سوم کلپا لتا (Ephedra Sineca-Mahuang) کو جوشاندہ میں استعمال کرنے سے پہلے اپنے طبیب سے مشورہ ضرور کر لیں ۔

Friday 11 April 2014

گنّا سستا اور میٹھا علاج


گنّا سستا اور میٹھا علاج
گنّا کھانے کو ہضم کرتا ہے اور نظام ہاضمہ کوطاقت دیتا ہے ۔ یہ جسم کوطاقت اور خون دینے کے ساتھ ساتھ موٹا بھی کرتا ہے ، خشکی دور کرتا ہے ، پیٹ کی گرمی اور جلن کودور کرتا ہے ،پیشاب کی جلن کو دور کرتا ہے، اس کا بیلنے سے نکلا ہوا رس دیر سے ہضم ہوتا ہے چناچہ اسے دانتوں سے چوسنا زیادہ مفید ہے ۔ اس طرح اس میں لعاب دہن شامل ہوجاتا ہے جو ہاضم ہے ۔
پوری دنیا میں شکر، گلوگوز،فروٹوز،گنّے سے حاصل کی جاتی ہیں۔ اس کی گنڈیریاں بنا کر چوسنے سے گرمی دور کرنے، بدن سے زہریلی کثافتیں باہر نکالنے، بدنی مشنری چلانےکے لئے گرمی پیدا کرنے والی شکر بنانے اور دانتوں کی میل کچیل صاف کر کے مسوڑوں کو حرکت دے کرمضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے ۔
2 گلاس گنّے کے رس میں 2 ہلکی چپاتیوں کے برابرغذائیت ہوتی ہے ۔
جوان اور گرم مزاج رکھنے والے اگر کھانے بعد چند گنڈیریاں چوس لیں تومعدہ ہلکا، دانت صاف، اور طبعت چست اور ہشاش بشاش ہوجاتی ہے ۔
گنے کے رس کا ایک گلاس پینے سے قبض ختم اور معدے کی تیزابیت میں کمی ہوجاتی ہے ۔ ساتھ ساتھ بدنی تناؤکم اورخون کا دباؤ گھٹ کر کم ہوجاتا ہے ۔
اطباء کا کہنا ہے کہ دل کی گرمی اوردھڑکن کی زیادتی کو دورکرنے لئے آدھا پاؤسے آدھا سیرتک گنڈیریاں رات کو شبنم میں رکھ کرصبح کو بطورناشتہ چوس لی جائیں تو چند ایام میں گرمی دوراور دل مضبوط ہوجاتا ہے ۔
بعض لوگ نیند کی کمی ، طبعت کے بھاری پن اور چڑچڑے مزاج کا شکار رہتے ہیں ۔ ایسے افراد بھی اگر صبح کے وقت گنڈیریاں چوسیں تو نیند کی کمی دورطبعت ہلکی پھلکی اور چڑچڑاپن جاتا رہتا ہے ۔
گلابیٹھ جائے اورآواز بھاری ہوجائے تو گنے کو پانچ ساتھ منٹ بھوبل میں دبا کر چوسنے سے آواز صاف ہوجاتی ہے ۔
گنّے کا رس بادی طبعت رکھنے والوں کے لئے بے حد مفید ہے۔ اس سے قبض دور ہوجاتی ہے۔
ہرے پیلے رنگ کے قے ہوتو گنّےکا ٹھنڈا میٹھا رس بہت فائدہ دیتا ہے ۔
اس کے سنگھانے سے نکسیر بھی بند ہوجاتی ہے۔
خشک کھانسی دور ہوجاتی ہے بلغم صاف ہوتا ہے ۔
یرقان کی بیماری میں آنکھیں اور پیشاب کا رنگ ذرد ہوجاتا ہے ، بعض کا سارا بدن پیلا اور بدن میں خارش بھی ہوجاتی ہے ۔ اس کے لئے اگر تین تین گھنٹے کے بعد گنڈیریاں چوسیں اور علاج کے ساتھ ساتھ گنّے کا رس بھی پۂیں تو چند روز میں پیلاہٹ ختم اورصحت اچھی ہوجاتی ہے ۔
بدن میں جابجا گلٹیاں اورگانٹھیں نمودار ہوں تو عمر اور جسمانی طاقت کے مطابق چند روزتک صبح ہرڑ کے ساتھ گنّے کا رس پیا جائے تو بڑھے ہوئے غدودوں اورگلٹیوں کا نام ونشان مٹ جاتا ہے ۔

بواسیر خونی اور بواسیر بادی ۔


بواسیر ( Piles ) کا مرض عام ہے ۔ جلد توجہ نہ دینے اور ٹوٹکے کرنے سے اکثر مریض مرض کو پیچیدہ کر لیتے ہیں یہاں تک کہ معاملہ عمل جراحی تک جا پہنچتا ہے ۔ اگر بر وقت علاج معالجہ کیا جائے اور حفاظتی تدابیر و احتیاط کر لی جائے تو مرض پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے ۔
بواسیر کی اقسام
بواسیر کی دو اقسام ہیں ۔
بواسیر خونی اور بواسیر بادی ۔
پہلی قسم میں خون آتا ہے جبکہ ثانی الذکر میں خون نہیں آتا ، جبکہ باقی علامات ایک جیسی ہوتی ہے ۔
بواسیر کس طرح ہوتی ہے ؟
گردش خون کے نظام میں دل اور پھیپھڑوں سے تازہ خون شریانوں کے ذریعے جسم کے تمام اعضاءکو ملتا ہے ، اس کے ساتھ آکسیجن فراہم کرتا ہے ۔ پھر ان حصوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ والا خون واپس دل اور پھیپھڑوں تک وریدوں کے ذریعے پہنچتا ہے ۔ مقعد میں خاص قسم کی وریدوں میں راستہ ( Valves ) نہ ہونے کی وجہ سے ان وریدوں میں خون اکٹھا ہو کر سوزش پیدا ہو جاتی ہے جو کہ بواسیر کہلاتی ہے ۔ اس طرح یہ مرض ہو جاتا ہے اور مناسب تدابیر نہ کی جائیں تو وریدیں اس قدر کمزور ہو جاتی ہیں کہ تھوڑی سے رگڑ سے بھی پنکچر ہو کر خون خارج کرنے لگتی ہیں ۔ مقعد کے اوپر والے حصے کے اندر خاص قسم کے خلیوں کی چادر ہوتی ہے جو کہ بہت حساس اور ( Painless ) ہوتی ہے ۔ جب کہ مقعد کا نچلے والا حصہ جلد کا ہوتا ہے اور اس میں درد محسوس کرنے والے خ لیے ہوتے ہیں ۔ مقعد میں بڑی اور چھوٹی وریدوں کے باعث موہکے ( مسے ) بھی ان کی پوزیشن پر ہوتے ہیں ۔ بواسیر کے تین چھوٹے اور تین بڑے موہکے ہوتے ہیں ۔
بواسیر کے اسباب :
عموما یہ مرض موروثی ہوتا ہے ۔ مستقل قبض کا رہنا بھی اس کا اہم سبب ہوتا ہے ۔ خواتین میں دوران حمل اکثر قبض کا عارضہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ مقعد کے پٹھوں میں کھچاؤ ، گرم اشیاءمصالحہ جات کا بکثرت استعمال ، خشک میوہ جات کی زیادتی ، غذا میں فائبر ( ریشہ ) کی کمی سے بھی مقعد میں دباؤ بڑھ کر وریدوں میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے ۔ وہ لوگ جو دن بھر بیٹھنے کا کام کرتے ہیں اور قبض کا شکار ہو جاتے ہیں وہ بھی عموماً بواسیر کے مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔
علامات :
مقعد میں خارش ، رطوبت اور درد کا ہونا ، اجابت کا شدید قبض سے آنا ، رفع حاجت کے دوران یا بعد میں خون کا رسنا ، قبض کی صورت تکلیف کا بڑھ جانا اور مقعد پر گاہے گاہے موہکوں کا نمایاں ہونا شامل ہے ۔ موہکے بعض دفعہ باہر نہیں آتے صرف اندر ہوتے ہیں بعض مریضوں میں رفع حاجت کے وقت باہر آ جاتے ہیں جس سے درد ، جلن بڑھ جاتی ہے پھر یہ موہکے از خود اندر چلے جاتے ہیں یا اندر کر دئیے جاتے ہیں ۔ بعض لوگوں میں کبھی یہ موہکے باہر ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی اندر نہیں جاتے اور شدید اذیت کا سبب بنتے ہیں ۔
علاج :
طب مشرقی کا اصول علاج یہ ہے کہ اسباب مرض پر توجہ دی جائے ۔ عموماً یہ مرض دائمی قبض کے باعث ہوتا ہے ۔ لہٰذا اول قبض کو دور کیا جائے ۔ دیکھا گیا ہے کہ قبض نہ ہونے سے مریض کو آدھا افاقہ ہو جاتا ہے ۔ درج ذیل نسخہ مفید ہے ۔ صبح نہار منہ حب بواسیر خونی دو عدد تازہ پانی سے اگر خون نہ آتا ہو تو پھر حب بواسیر بادی دو عدد ۔
بعد غذا دوپہر شام نیموٹیب دو دو عدد رات سونے سے قبل اند مالی ایک عدد ۔
پرہیزو غذا :
بواسیر میں پرہیز و غذا کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔
1 بڑے جانور کا گوشت ، چاول ، مصالحہ جات ، تلی ہوئی اشیاءسے مکمل احتیاط کی جائے ۔
2 گرم اشیاءانڈا ، مچھلی ، مرغ اور کڑاہی گوشت نہ کھایا جائے ۔ اس طرح خون آ جاتا ہے ۔
3 فائبر ( ریشہ دار اشیاء ) کا استعمال زیادہ کیا جائے ۔ فائبر پھلوں اور سبزیوں کی کثرت کی صورت لیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح قبض نہ ہو گی اور بواسیر میں افاقہ ہوگا ۔
4 آٹا ، چوکر والا ( بغیر چھنا ) استعمال کریں اس طرح بھی آنتوں کا فعل درست ہو کر قبض رفع ہوگی اور بواسیر میں فائدہ ہوگا ۔
5 جو لوگ بیٹھے رہنے کا کام کرتے ہیں وہ صبح نماز فجر کے بعد اور شام کھانے کے بعد سیر کو معمول بنائیں ۔
6 پانی کا استعمال زیادہ کیا جائے ۔
7 پھلوں کا جوس بھی مناسب ہے ۔

Thursday 10 April 2014

فالج کی وجوہات


فالج کی وجوہات
فالج کا حملہ ایک ایسی بد قسمتی ہے جس کے بارے میں سن کر ہی دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد فالج کے حملے کا شکار ہوتے ہیں جن میں بڑی تعداد ہلاک یا طویل عرصے کیلئے معذور ہو جاتی ہے۔ امریکہ کی نیشنل سٹروک ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق صرف امریکہ میں فالج سے اموات کی تیسری سب سے بڑی وجہ ہے جہاں ہر سال آٹھ لاکھ افراد فالج سے متاثر ہوتے ہیں۔ فالج اصل میں دماغ پر ہونے والا حملہ ہے جس میں دماغ کو ملنے والی خون کی فراہمی میں تعطل آجاتا ہے۔ جو اسکیمک سٹروک کہلاتا ہے۔ یا دماغ کے اندر موجود خون کی کوئی نالی رسنے لگتی ہے یا پھٹ جاتی ہے جو ہیمر ہیجک سٹروک کہلاتا ہے۔ اس کے نیتجے میں ہر سال ایک لاکھ 44 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں جبکہ سینکڑوں ہزاروں افراد طویل عرصے کیلئے معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عمر، نسل اور جینیات فالج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ کئی دیگر عوامل ہوتے ہیں جن میں کچھ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اور کچھ پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حالیہ تحقیق میں کئی اور اہم عوامل سامنے آرہے ہیں۔ مثلاً آپ کیا کھاتے ہیں اور کس علاقے میں رہتے ہیں جو چیزیں فالج کے خطرے کو بڑھاتی ہیں ان کو ذیل میں دیا جا رہا ہے۔ لہٰذا اگر ہم خود کو فالج سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو یہ وہ چیزیں ہیں جن سے ہمیں بچنا ہے۔



1۔ زیادہ چکنائی کا استعمال: وہی خوراکیں جو دل کے دورے کے خطرے کو بڑھاتی ہیں، فالج یعنی دماغ پر حملے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں ان خوراکوں میں سرخ گوشت اور تلی ہوئی تمام چیزیں شامل ہیں امریکن سٹروک ایسوسی ایشن کی جانب سے گزشتہ ماہ عالمی سٹروک کانفرنس فالج کے حوالے سے عالمی کانفرنس منعقد کرائی گئی جس میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے محقیقن نے اپنی ایک رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ بعد ازسن پاس کی خواتین جو چکنائی والی خوراکیں بہت زیادہ کھاتی ہیں ان میں اسکیمک سٹروک یعنی دماغ کو خون کی فراہمی میں تعطل سے ہونے والا فالج کا خطرہ ان خواتین سے چالیس فیصد زیادہ ہوتا ہے جو کم چکنائی والی خوراکیں کھاتی ہیں۔ بیکریوں پر ملنے والی چیزں پیسٹریاں اور کریکرز وغیرہ جن میں ٹرانس فیٹس پائے جاتے ہیں زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں پتہ چلا کہ ایسی خواتین جو روزانہ سات گرام ٹرانس فیٹس کھاتی ہیں ان میں فالج کا خطرہ ان خواتین سے تیس گنا بڑھ جاتا ہے ایک گرام ٹرانس فیٹ کھاتی ہیں۔ پھر کیا کھایا جائے؟ متعدد تحقیقات اور مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ ایسی خوراکیں فالج کے خلاف مفید ہیں جن میں سبزیاں، مکمل اناج، مچھلی، زیتون کا تیل، خشک میوے اور پھلیاں شامل ہوں اور سرخ گوشت اور میٹھی اشیاءکم ہوں۔

2۔ تنہائی: اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو فالج کا خطرہ کم ہو تو شادی کریں۔ تل ابیب یونیورسٹی کی دس ہزار اسرائیلی مردوں کے حوالے سے کی جانے والی ایک سٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ جو افراد وسط عمر میں شادی کر لیتے ہیں ان میں آئندہ چونتیس برس تک فالج کے باعث مرنے کا خطرہ ان مردوں سے 64 فیصد کم ہو جاتا ہے جو غیر شادی شدہ ہوتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کو دیگر عوامل کے ساتھ بھی ایڈجسٹ کیا گیا ۔ جن میں سماجی معاشی رتبہ، بلڈ پریشر اور سگریٹ نوشی شامل ہے۔ لیکن یہاں ایک اور رکاوٹ ہے۔ شادی ایسی ہوئی چاہیے جس میں فریقین خوش ہوں۔ امریکن سٹروک ایسوسی ایشن کی عالمی کانفرنس میں محققین کی رپورٹ کے مطابق جومرد اپنی شادی سے مطمئن ہوتے ان میں بھی فالج کا امکان اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ ایک غیر شادی شدہ مرد میں ہوتا ہے۔

3۔ ناخوش رہنا: خوشی دل کی صحت کیلئے بہت مفید ہے۔ گلاویسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے محققین کی 2001ء میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق بوڑھے افراد میں مثبت مزاج اور خوشگوار رویہ فالج کے خلاف ان کی مدد کرتا ہے۔ حتیٰ کہ خوشی میں بتدریج ہونے والا اضافہ بھی خاصا مفید ہوتا ہے۔ محققین نے اس سلسلے میں خوشی کا ایک پیمانہ طے کیا جس کے مطابق خوشی میں ہر اضافے میں مردوں میں فالج کا خطرہ اکتالیس فیصد کم ہوا جبکہ عورتوں میں اس خطرے میں اٹھارہ فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ حتیٰ کہ اگر آپ خوش نہ ہوں اور صرف ظاہر کریں تو خوش ہیں تو تب بھی اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ جو لوگ خوش رہتے ہیں ان کے بارے میں امکان یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے طبی مسائل کا علاج کراتے ہیں۔ ورزش کرتے ہیں اور خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ تمام وہ اقدامات ہیں جوانہیں فالج سے بچاتے ہیں۔

4۔ موٹاپا: یونیورسٹی آف مائنی سوٹا کے محققین کی رپورٹ کے مطابق زیادہ وزن کا مطلب فالج کا زیادہ خطرہ ہے۔ گزشتہ ماہ انٹرنیشنل سٹروک کانفرنس فالج کے حوالے سے عالمی کانفرنس میں پیش کی گئی سٹڈی کے مطابق محققین نے 13 ہزار امریکیوں کو 19 سال تک طبی نگرانی میں رکھا تو یہ پایا گیا کہ جن افراد کا باڈی ماس انڈکس بی ایم آئی زیادہ تھا ان میں فالج کا خطرہ ان افراد سے 1.43 سے 2.12 گنا زیادہ تھا جن کا باڈی ماس انڈکس کم تھا۔ یاد رہے کہ باڈی ماس انڈکس کا تخمینہ ایک فرد کے قد اور اس کے وزن کے حساب سے لگایا جاتا ہے اور اس سے جسم میں چربی کا اندازہ ہوتا ہے ایک رپورٹ کے مطابق عورتوں میں پیٹ پر چربی زیادہ ہونے کے باعث ان میں موٹاپے کے باعث فالج ہونے کا خطرہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ سٹڈی کے شریک مصنف ہیروشی یا تسویا کا کہنا ہے کہ اس باہمی تعلق کی وجہ یہ ہے کہ موٹاپے کی وجہ سے فالج کا خطرہ پیدا کرنے والے عوامل اور زیادہ تر ہو جاتے ہیں ان میں سب سے بڑے مجرم عوامل ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس ہیں۔

5۔ سگریٹ نوشی: امریکن ایسوسی ایشن کے مطابق سگریٹ نوشی فالج کے خطرے کو لگ بھگ دو گنا کر دیتی ہے تاہم خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ عادت ترک کرنے سے یہ خطرہ واپس لوٹ جاتا ہے چاہے سگریٹ نوشی ترک کرنے والے بہت شدید قسم کے سگریٹ نوش کیوں نہ ہو۔ 1988ءمیں کی جانیوالی ایک سٹڈی میں پایا گیا ہے کہ سابق سگریٹ نوشوں میں فالج کا خطرہ اتنا ہی کم ہو جاتا ہے جتنا کہ ایک سگریٹ نوشی نہ کرنے والے میں ہوتا ہے۔

6۔ ذہنی دباﺅ: ذہنی دباﺅ یا سٹریس فالج کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ محققین کے مطابق ذہنی دباﺅ دماغ پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں اسکیمک اور ہیمر ہیجک دونوں قسم کے فالج ہو سکتے ہیں۔ ذہنی دباﺅ معاشی، تعلیمی، سماجی، جسمانی اور طبی وجوہات میں سے کسی بھی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس دباﺅ سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لیا جائے اور خوش رہا جائے اس کے علاوہ ورزش اور دیگر سرگرمیاں بھی ذہنی دباﺅ کے خلاف مو ثر ہتھیار ہوتی ہیں۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس کی ایک سٹڈی میں جب ورزش کرنے والوں اور ورزش نہ کرنے والوں کو مسلسل دس سال تک نگرانی میں رکھنے کے بعد جب ان کا باہمی موازنہ کیا گیا تو ورزش کرنے والے افراد میں فالج کا خطرہ ان افراد کے مقابلے میں 45 فیصد کم پایا گیا جو ورزش نہیں کرتے تھے۔

7۔ منفی مسابقت: سماج میں ایک دوسرے سے مسابقت مثبت چیز ہے لیکن ہر چیز کی زیاد تی کبھی اچھی نہیں ہوتی ہے۔ مسابقت میں حد سے بڑھ جانا اور منفی رو یے اختیار کرنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔ ایسا نہ تو اخلاقی طور پر اور نہ ہی طبی طور پر درست تصور ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسابقت منفی ذہنی دباﺅ پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے اور طویل عرصے تک اس ذہنی دباﺅ کا نتیجہ دماغ پر حملے کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔ لہٰذا منفی مسابقت کو ترک کر دیں اور اپنے حالات اور واقعات کو مد نظر رکھے ہوئے ہی اقدامات اٹھائیں۔ تاہم مثبت اور معتدل مسابقت میں کوئی حرج نہیں۔

اسبغول کے فوائد


اسبغول کے فوائد

اسپغول سے تقریباً ہر شخص وا قف ہے۔ بڑی مشہور عام دوا ہے۔ اسپغول ایک بیج ہے جس کا پو دا ایک گز کے قریب اونچا ہوتا ہے ۔ اس کی ٹہنیا ں باریک ہو تی ہیں اور پتے لمبے یعنی جامن کے پتو ں سے تقریبا ً مشا بہ ہوتے ہیں ۔ اس کا رنگ سرخی ما ئل سفید اور سیا ہ ہوتاہے۔ یہ بے ذائقہ اورلعاب دار ہوتا ہے اس کامزاج سر د اور تر ہو تا ہے۔ اس کی مقدار خوراک تین ماشہ سے ایک تولہ ہوتی ہے ۔ اسپغول کے چھلکے کو سبوس اسپغول کہتے ہیں۔
اسپغول کے فوائد

گرمی اور پیا س کو تسکین دیتا ہے ۔
گرمی کے بخار اور خون کے جو ش کو تسکین دے کر طبیعت کو نرم کر تاہے ۔
سینہ ، زبان ،حلق کے کھر کھراپن اور صفراوی و دمو ی بیماریو ںکے لیے مفید ہے ۔
آنتو ں کے زخمو ں اور مروڑ ہونے کی حالت میں بے حد مفید ہے ۔اس کے لیے اسے شربت صندل میں ایک بڑا چمچہ ڈال کر پلا نا مفید ہوتا ہے۔
قبض کشا ہے۔ آنتو ں میں پھسلن پیدا کر تا ہے۔ اس کے لیے رات سو تے وقت ایک گلا س دودھ میںایک تولہ اسپغول کا چھلکا ملا کر تین چار منٹ کے بعد استعمال کرنے سے کھل کر اجابت ہو تی ہے ۔یہ دائمی قبض میں بھی بے حد مفید ہے۔
مر دانہ جوہر کو گاڑھا کر تا ہے اور قوت با ہ بڑھا تاہے ۔
سر درد کی صورت میں اسپغول سر کہ میں رگڑ کر چنبیلی کا تیل ملا کر پیشانی پر لیپ کرنے سے فائدہ ہو تاہے ۔ اگر چنبیلی کے روغن کی بجائے بادام روغن ملا کر پیا جا ئے تو سر درد کا فائدہ ہو تا ہے ۔
جریا ن میں اسپغول کا چھلکا ہمرا ہ شربت بزوری یا صندل کے، صبح نہا ر منہ پینا فائدہ مند ہے۔
دماغی طاقت بڑھا تا ہے ۔ دما غی کام کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ رات سو تے وقت پانچ دانے گری بادام چبا کر کھائیں اور بعد میں ایک تولہ اسپغول دود ھ میں ملا کرپئیں۔ یہ مقوی دما غ نسخہ ہے ۔
نسیا ن کے امرا ض میں اسپغول ایک بڑا چمچہ ہمرا ہ شربت صندل ،صبح نہا ر منہ پینا بے حد مفید ہے اور رات کو سوتے وقت پانچ دانہ گری بادام ، سونف ایک تولہ اور کوزہ مصری حسب ضرورت ہمرا ہ دودھ استعمال کریں ۔
منہ کے دانو ں کی تکلیف میں اسپغول کا استعمال بے حد مفید ہے ۔ ایسی صورت میں دہی میں ایک چمچہ بڑا ملا کر صبح نہار منہ کھایا جائے اور ہر کھانے کے بعد دہی کے ایک یا دو چمچ استعمال کریں ۔
ورمو ں کو تحلیل کرنے کے لیے اسپغول کو سرکہ میں رگڑ کر متاثرہ جگہ پر لیپ کر نا بے حد مفید ہے ۔
پیچش میں اسپغول ایک تولہ پانی کے ساتھ کھانے سے فائدہ ہو تا ہے ۔
سوز ا ک میں اسپغول کو پانی یا شربت کے ہمرا ہ چند یوم تک استعمال کرنے سے شفا ہوتی ہے۔
معدے کی بیماریو ں ، خاص طور پر السر میں بے حد مفید ہے ۔
بالو ں کو نرم اور بڑھانے کے لیے عرق گلا ب میںرگڑ کر با لو ں پر لیپ کرنے اور دو گھنٹے بعد دھونے سے فائدہ ہو تاہے۔ یہ علا ج موسم گر ما کے لیے ہے ۔
خشک کھانسی اور دمہ کے لیے روزانہ ایک تولہ اسپغول دودھ یا پانی کے ساتھ چالیس روز تک استعمال کریں ۔
اسپغول کا جو شاندہ بطور مسکن و ملین مشروب سو زش معدہ اورفم معدہ اور سینے کی جلن میںمفید ہے ۔

ؑعضو تناسل کی بیماریاں۔


ؑعضو تناسل کی بیماریاں۔ 

آتشک کے لفظی معنی آگ کے ہیں جس طرح آگ دوسری چیزوں کا جلا کر راکھ کر دیتی ہے اسی طرح یہ مرض بھی تمام جسمانی قوتوں کوبیکاراور تباہ کر دیتا ہے۔آتشک اس کو انگریزی میں سلفس کہتے ہیں اٹلی کے ایک مشہور شاعر ایف راکسٹر ونے ۱۵۳۰ءمیں لاطینی زبان میں ایک نظم لکھی تھی اس نظم میں اس نے ایک بیماری کی تکالیف اور کوفتوں کو ظاہر کیا اور اسے سلفس کے نام سے پکارا تب سے دنیا بھر کے میڈیکل پر وفیشن نے اس مرض کو سلفس کے نام سے منسوب کر دیا سلفس کے لفظی معنی ”محبت کے ساتھ“ ہیں ۔،یہ جراثیم اسپائرو کیٹیا پلیڈا گروپ سے تعلق رکھتا ہے اسے ڈاکٹر شوڈین نے ۱۹۰۵ ءمیں دریافت کیا تھا ۔ یہ مرض جنسی بے راہ روی،فاحشہ بازاری عورتوں اور طوائفوں کے ساتھ مباشرت کرنے سے پیدا ہوتا ہے مرض سے متا ثرہ عورت سے مبا شرت کرنے کے دوران عورت سے جراثیم مرد کے قضیب کی غشا ءمخاطی یا جسم کے دیگر حصوں میں متقل ہوجاتے ہیں پھر یہی بے خبر اپنی بیوی سے جماع کرتا ہے تو وہ بے چاری بھی اس مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے اور آنے والی نسل کومتاثر کردیتی ہے ۔
امریکہ ،مغربی،جرمنی انگلستان ،اٹلی اور دیگر ترقی یافتہ مغربی ممالک کے علاوہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں جہاں نوجواں لڑکے لڑکیاں آزاد انہ طرز زندگی کی طرف مائل ہورہے ہیں یہ مرض بھی وبائی شکل اختیار کرتا جارہا ہے ۔ نوجوانوں کی بے راہ روی جسے آج کل بڑے فخر سے ہپی از م کا نام دیا جارہا ہے نسل انسانی کے خاتمے اور تباہی کاپیش خیمہ بن رہی ہے عورت اور مرد کے آزادنہ تعلقات کے حامی اور آزادی کے نام پر انسانیت کی رسوائی اور بربادی کا سامان خندہ پیشانی سے فراہم کررہے ہیں ۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں ایسے متعدد رسائل اور جرائد با قاعدگی سے شائع ہورہے ہیں جن میں ہر دوجنس کو بلا خوف و خطر جنسی بے راہ روی کی تلقین کی جاتی ہے اور آئندہ خطرات سے بے فکر رہنے کا مشورہ دیاجاتاہے حیا سوز منظر کے ذریعے قبائے انسانیت تا رتار کرنے پر اکسایا جاتا ہے اب تو نظریاتی ممالک بھی ان بے ہودہ لٹریچرکی زد میں آچکے ہیں۔جدیدیت کے عاشق گھرانوں کے چشم و چراغ بھی اسی انداز میں اپنے شب و روز گذاررہے ہیں اس مسموم طرز زندگی کے زہر نے اپنے اثرات دکھائے ہیں بے راہ روی کا خمیار پوری قوم کو بھگتنا پڑا ہے اس مرض خبیث کے جراثیم ملک کے نوجوانوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔
امریکہ میں شائع ہونے والے ایک ایسے ہی حیا سوز رسالے میں خواتین کو مشورہ دیا گیا کہ وہ بے خوف و خطر جنسی بے راہ روی کو جاری رکھیں کیوں کہ خوش قسمتی سے طب جدید نے اس خبیث مرض کا علاج دریافت کر لیا ہے پینسلین کے ایک سے دو انجکشن انہیں اس عذاب سے نجات دلا دیں گے جس کے بعد وہ پھر سے داد عیش دے سکتی ہیں واضح رہے کہ اندازاً بیس لاکھ امریکی خواتین نے اس رسالے کو پڑھا ہے ۔ اس قسم کے چھپنے والے لٹریچر میں یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ ”پہلے عیش کر لو بعد میں پینسلین کا ٹیلہ لگو الینا “ ایسے ہی رسالے اور کتابیں آ ج کل اپنے قارئین کو سخت دھو کہ دے رہے ہیں کیو ں کہ اس مرض میں مبتلا خواتین اورمرد پینسلین سے کسی بھی شفا یاب نہیں ہو سکتے البتہ وقتی طور پر فائدہ ضرور ہوتا ہے ۔ اس مرض کے جراثیم بڑی خاموشی کے ساتھ جسم میں اپنا زہر پھیلاتے رہتے ہیں پھر یکایک ان کی سمیت نومولود بچوں کی نا بینائی عورتوں کے بانجھ پن مردوں میں بالعموم دورہ ¿ قلب پاگل پن ، بانجھ پن یا نا بینائی کی صورت میں رونما ہوتی ہے ۔
اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کونسل کے کمیشن کے مطابق ۱۹۶۷ءمیں دنیا میں ۳سے ۵کروڑ انسان اس مرض خبیث میںمبتلا تھے ۔
اس مرض خبیث نے ماضی میں بھی بڑا عجیب اور ڈرامائی کر دار ادا کیا ہے اگر چہ یہ کہنا تو ممکن نہیں کہ اس کا آغاز کیسے ہوا لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ مرض صدیوں تک جنسی تعلقات کے ذریعے سے نسل میںمنتقل ہوتا رہاہے انسانی طبقہ کے ہر افراد اس مرض کی لپیٹ میں آتے رہے ہیں ان میں شہنشاہ ، بادشاہ شرفاء، شعرا ، مصور اور علماءنیز نچلے طبقے کے افراد بھی شامل ہیں۔ قدیم ترین تہذیبوں مثلاًچین ، بابل،نیوا مصر ، یونان اور روم دیگر تہذیبوں کے آثار کا مطالعہ اس بات کا شاہد ہے کہ اس مرض اس دور میں بھی انسانی کا بڑی بے دردی سے تباہ کر دیاتھا ان تہذیبوں کے کھنڈرات سے برآمد ہونے والے برتنوں، تصاویر اور مجسموں وغیرہ پر ایسی تحریری ملی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض حسین و خوبصورت عورتوں کی قربت کے بعد لوگوں کو زہریلے زخم ہوجایا کرتے تھے عبرانی زبان کی قدیم کتابوں میں بھی اس قسم کی تنبیہ ملتی ہے کہ ”تمھیں ناجائز تعلقات سے گریز کرنا چاہئے ورنہ تمھیں بطور سزا وہ زخم ملیں گے جو تمھارے گوشت پوست کو چٹ کر جائیں گے “۔
یہ مرض امریکہ کے اصل باشندوں تک ہی محدود تھا ۱۴۹۳ءمیں جب کولمبس نے امریکہ کو دریافت کیا تو اس کے ملاح اس مرض کو وہاں سے اپنے ساتھ لائے اسی سال با رسلونا میں اس مرض نے بڑی تباہی مچائی پھر وہاں سے یہ وباءپورے یورپ میں پھیل گئی ۔صلیبی جنگوں ،مہم جو جماعتوں اور تاجروںکے ذریعے سے یہ مرض مشرق ہندوستان ،چین و جاپان میں پھیل گیا ہمارے ملک ہندوستان میں اس مرض کی تاریخ نہایت قدیم ہے منو سمرتی میں صاف مرقوم ہے ” جو شخص پرائی عورت کے ساتھ مجا معت کرے گا نہ وہ صرف بلکہ اس کے آنے والی ساتھ پشتیں دوزخ میں جائیں گی اور دوزخ کی آگ میں جلیں گیں“۔یہ ایک استعارہ کی شکل ہے مہابھارت میں بھی کہیں کہیں آتشک کا ذکر ملتا ہے ۔
اسباب:
یہ مرض کم و بیش روئے زمین کے تمام ممالک میں پایا جاتا ہے ماہرین صحت معترف ہے کہ جدید طبی سہولتوں کے باوجود یہ مرض آج بھی بے قابو ہے امریکی ماہرین صحت کے مطابق دیگر تمام متعددی امراض کے مقابلے یہ مرض نہایت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے ان کی رائے میں یہ مرض اپنی ہلاکت خیزیوں کے لحاظ سے سب میں آگے نکل چکا ہے ۔ اس مرض کا ایک اہم سبب تو نرمی ٹری پونیما پے لی ڈی نامی جراثیم ہی ہے جو مختلف طریقے سے جسم انسانی میں پہنچ کر اس مرض کانمود کا سبب ہوتا ہے لیکن جس خاص سبب سے اس جراثیم یا سمیت کو جسم میں داخل ہونے کا موقع ملتا ہے ان میں مباشرت ایک خاص سبب ہے خاص طورسے بازاری فاحشہ عورتوں اور طوائفوں سے مباشرت کرنا وغیرہ ۔(یہاں اس غلط فہمی کو بھی خاص طور سے دور کرتا چلوں کہ دنیا کے تمام معا شروں میںاس امراض کو پھیلانے میں یہ عورتیں صرف پانچ فیصد حصہ لیتی ہیں پنیسلین کی دریافت سے پہلے البتہ یہ خواتین اس مرض کی پوری پوری ذمہ دار تھیں لیکن اب صورت حال دیگر ہے آج کل اس مرض کو پھیلانے میں اسیّ فیصد ان نوجوانوں لڑکے لڑکیوں اور مرد خواتین کا ہے جوآزادانہ جنسی تعلقات کے حامی ہیں اس کے علاوہ ہم جنسی کے عادی افراد کا حصہ پندرہ فی صد ہے ۔) جراثیم کا جسم میں داخل ہونے کے لئے مرد کے عضو تنا سل میں خراش یار گڑ کا ہونا ضروری ہے چاہے یہ خراش یارگڑ کتنی ہی ہلکی کیوں نہ ہو پھر یہ اسی جسم میں نہایت آزادی کے ساتھ داخل ہوکر عروق شعریہ کی چھوٹی چھوٹی نہروں میں پہنچ کر بتدریج خون کی رگوں کی بڑی بڑی نہروں میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں تیرتے پھرتے ہیں اور اپنی سمیت آلود زندگی سے تمام خون کی زہر آلود کر دیتے ہیں ۔بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی مریضہ ¿ آتشک سے جماع کرتا ہے لیکن اس شخص میں کسی قسم کی خراش نہ ہونے یااس مرض کی استعداد نہ ہونے کی وجہ سے وہ شخص محفوظ رہتا ہے لیکن جب وہ اپنی بیوی یا کسی تندرست یا صحیح عورت سے مباشرت کرتا ہے تو آتشک عورت میں منتقل ہوجاتے ہیں اور وہ آتشک میں مبتلا ہو جاتی ہے بعض اوقات اس کے برخلاف مریض آتشک صحیح وتندرست عورت جماع کرتا ہے ،لیکن عورت میں اس مرض کی کوئی نمود نہیں ہوتی پھر جب کوئی تندرست مرد اس عورت ست جماع کرتا ہے تو وہ اس مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔
مباشرت کے علاوہ مریض آتشک سے میل جول رکھنے اس کے کپڑے پہنے اس کے ساتھ سونے کھانا کھانے یااس کا جھوٹا پانی پینے یااس کا بوسہ لینے یااس کی تولیہ سے ہاتھ وغیرہ پونچھنے سے بھی یہ مرض ہوجاتا ہے اس صورت میںبھی جسم کے کسی مقام پر یا منہ کے اندر ہلکی سی خراش موجود ہوتی ہے جس سے آتشک کی سمیت جسم میں داخل ہوجاتی ہے ۔اس کے علاوہ حجام بھی اس مرض کو تندرست آدمی میں منتقل کرنے کا سبب بن جاتے ہیں دایا بھی اس مرض کو پھیلانے کا سبب بنتی ہیں کیوں کہ مریضہ آتشک کی زچگی کے وقت آتشک کی سمیت دایا کے ہاتھوںمیں لگ جاتی ہے پھر وہ دوسری تندرست عورت کی زچگی کرتی ہے تو یہی سمیت اس کے جسم میں داخل ہوکر آتشک کا سبب بنتی ہے ۔
جو بچے موروثی طورپر اس مرض میںمبتلا ہوتے ہیں وہ والد یا والدہ میں سے کسی ایک کے مبتلا ہونے سے مریض ہوجاتے ہیں اور گاہے دونوں کے مبتلا ہونے کی وجہ سے یا اگر حاملہ اس مرض میں مبتلا ہے تو جنین میں بھی یہ مرض ہوجاتاہے کیوں کہ جنین کی غذا میں جوخون صرف ہوتا ہے وہ مریضہ کا زہریلا خون ہوتا لہذا اس کا مبتلا ہونا یقینی امر ہے چنانچہ جب یہ مرض ماں کی طرف سے ہوتا ہے تو نہایت شدید ہوتا ہے یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ بچہ توموروثی آتشک میں مبتلا ہے اور اس کی ماں بظاہراس میں مبتلا نہیں ہے لیکن درحقیقت اس کا ماں کا خون آتشک کی سمیت سے آلودہ ہے ۔ جب یہ مرض ایک قوم سے دوسری قوم یا ایک افراد سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے تو اس کی علامات بہت شدید ہوتی ہے اس مرض سے جب مریض بالکل شفایاب ہوجاتا ہے تو پھر کم ہی دوبارہ اس میں مبتلا ہوتا ہے اگر ہو بھی جا ئے تو مرض بہت کمزور اور اس کی علامات زیادہ تکلیف دہ نہیں ہوتیں ۔ اس مرض کی دوقسمیں ہیں ۔
(۱)خود حاصل کردہ آتشک :
اس قسم میں براہ راست ناپاک مباشرت کے بعد اس کا مواد کسی خراش کے ذریعے بدن میں داخل ہوکر دوران خون میں شامل ہوجاتا ہے اس قسم کے چار درجات ہوتے ہیں ۔
(۱)درجہ اول: اسے پرائمری سلفس بھی کہتے ہیں اس درجہ میں بیمار شخص سے ملوث ہونے کے فوری بعد رونما نہیں ہوتا اس کی پہلی اور واضح علامت باالعموم ایک ابھاریا پھنسی ہوتی ہے یہ تین طرح کی ہوتی ہے ہن ٹرین ،پارچی منٹ، جو جراثیم کے جسم میں داخل ہونے کے دس سے نوے دن بعد ظاہر ہوتی ہے اس پھنسی یا ابھار کی جڑ سخت ہوتی ہے ۔ یہ رفتہ رفتہ بڑھ کر پھٹ جاتی ہے اور وہاں ایک زخم بن جاتا ہے جو صرف تعداد میں ایک ہی ہوتا ہے اس کے آس پاس کی جلد کس قدر اونچی ہوتی ہے زخم کو دبا یا جائے تو یوںمحسوس ہوتا ہے گویا کوئی سخت کری جلد کے اندر پیداہو گئی ہے اس زخم میں درد بالکل نہیں ہوتا اور مواد بھی بہت کم نکلتا ہے اس زخم کو ڈاکٹری اصطلاح میں شینکر (Shaucers)کہتے ہیں ۔ بعض اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ صرف عضو تنا سل کے کسی حصے کی جلد موٹی اور اور سرخ ہوجاتی ہے جس پر کہ آتشک کا گمان بھی نہیں ہوتا اس درجے کے ظاہر ہونے سے چھ ماہ بعد مرض کا دوسرا درجہ شروع ہوجات ہے ۔
(۲) درجہ دوم : اسے سکینڈری سلفس بھی کہتے ہیں اس درجہ میںمریض بے چین پست ہمت اورکمزور ہوجاتا ہے جسم پر گلابی رنگ کے دانے نکل آتے ہیںساتھ ہی جسم کے تمام غدو د بڑھ جاتے ہیں گوشت اور ہڈیوں میں درد ہونے لگتا ہے جورات میں شدید ہوجاتا ہے کبھی ہلکا اور کبھی شدید بخار بھی ہوتا ہے گلابی رنگ کے دانے جسم کے تمام حصوں پرنکل جاتے ہیں پھر دو ماہ کے ہوتے ہوئے مرجھا کر بالکل غائب ہوجاتے ہیں صرف انکے سیاہ داغ باقی رہ جاتے ہیں بعض اوقات ان میں ذرا سی پیپ وغیرہ بھی پڑجاکرتی ہے لیکن ان میں نہ جلن ہوتی ہے اور نہ ہی درد ہوتی ہے ۔لوز تین (ٹانسلز) میںسوجن آجاتی ہے ان میں زخم پڑجاتے ہیں جس سے آواز میں بھاری پن پیدا ہوجاتا ہے یہ اس امراض کی خاص علا مت ہے ۔تلی بڑھ جاتی ہے ۔بھنوو ¿ں پلکوں اور سر کے بال گرجاتے ہیں کلائی اور پاو ¿ں کی ہڈیوں میں درد ہونے لگتا ہے جو رات میں شدید ہوجاتا ہے جو ڑوں میں سوجن آجاتی ہے کبھی بہرے پن کی شکایت ہوجاتی ہے مریض کا خون ناقص اور کمزور ہوکر اسے اینمیا یعنی بھس کی شکایت ہوجاتی ہے ۔ ۶ ۱گست ۱۹۲۱ ءکو ڈاکٹر ایسن نے سفلس پر برٹش میڈیکل ایسو سی یشن کے سامنے لکچر دیتے ہوئے بتایا کہ آج کل کے ڈاکٹر کمی خون یعنی اینمیا کو آتشک کی نمودقرار نہیں دیتے وہ ان کے علاج کی طرف مائل ہوجاتے ہیں یہ سخت غلطی ہے کیوں کہ تجربہ بتاتا ہے کہ جب تک آتشک کے زہر کو دبانہ دیا جائے یا اس کو شفا نہ دی جائے اس وقت خون کی کمی کا کامیاب علاج نہیں ہو تا ۔ ڈاکٹر ایسن نے بتایا کہ خون کی کمی آتشک ثانوی کی ایک نمود جو اکثر ہو اکرتی ہے اور بعض وقت یہ خطر ناک حالت اختیار کرلیتی ہے مندرجہ بالا علامات بعض مریضوں میں چھ یا آٹھ ماہ بعض اوقات اٹھارہ ماہ بعد بالکل رفع ہو جاتی ہےں ۔
(۳) درجہ سوم: اسے ٹرثری سفلس بھی کہتے ہیں اس درجہ کی علامت ظاہر ہونے کا کوئی خاص وقت نہیں ہے ان کے ظاہر ہونے کا انحصار مریض کی صحت اورمناسب علاج پر موقوف ہوتا ہے اس درجہ کی علامت درجہ دوم کی علامت کے رفع ہوجانے کے مہینوں یا برسوں بعد نمایاں ہوتی ہیں چنانچہ مختلف اعضاءو احشاءمیں ابھار یا گلٹیاں پیدا ہو کر بعض اوقات وہ نرم اور متقرح ہوجاتی ہیں اس قسم کی گلٹیاں جلد ، عضلات ، زبان حلق ،آنت ، دماغ ، نخاع ، اعصاب دل ، پھیپھڑے ،جگر ،تلی ،گردوں اور ہڈیوں میں پیدا ہوجاتی ہیں ہڈیوں میں جوابھار ہوتے ہیں ان میںرات سخت درد ہوتا ہے تالو گل جاتے ہیں کبھی ناک کی ہڈی بھی گل جاتی ہے مریض انتہائی درجہ لاغرور کمزور ہا جاتا ہے۔
(۴)درجہ چہارم:بعض عصبی امراض ٹپس ڈراسلس (نخاع کی کمزوری) لوکو موٹر ا ٹیکسی) (لڑکھڑا چلنا)، فالج ، جنون وغیر ہ پرانے آتشک اور اس کے زہریلے اثر کا نتیجہ ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسی فی صد مریض ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں کسی نہ کسی وقت آتشک ضرور ہو چکا ہوتا ہے۔
(۲) پیدائشی آتشک:
یہ آتشک کی دوسری قسم ہے اس میں حمل ٹھہرتے وقت یہ مرض بذریعہ نطفہ والد کی طرف سے یا والدہ کی طرف سے یا دونوں کی طرف سے ہوجایا کرتا ہے یہ بات یاد رہے کہ والدین کی آتشک کااثر ہر حال میں ماں کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے کو حمل ہونے کے وقت ہی ورثہ میںمل جاتا ہے باپ کی بہ نسبت ماں کی طرف سے ہوئے آتشک کی علامت بچہ میں زیادہ شدید ہو اکرتی ہیں۔
علامت : چونکہ آتشکی نطفہ عموماً ناقص اور کمزور ہوتا ہے اس لئے رحم مادر میں ٹھیک طور سے نشونما نہیں پاتا جس کی وجہ سے حمل باربار ساقط ہوجاتا ہے بعض حالتوں میں بچہ اپنی طبعی مدت میں پیدا ہوتا ہے لیکن جلد مرجاتا ہے لیکن بعض اوقات طبعی ،مدت میں پیدا ہو کر بظاہر تندرست رہتا ہے مگر اس میں موروثی آتشک کی علامت جلد نمایاں ہوجاتی ہیں ۔پیدا ئش سے آٹھ ہفتے بعد مرض کا ظہور شروع ہوجاتا ہے ابتداءمیں بچہ موٹا تازہ اور تندرست معلوم ہوتا ہے مگر علامت کے ظاہر ہوتے ہی کمزور اور دبلا پتلا ہونا شروع ہو جاتا ہے بدن کی رنگت سفید اور تمام بدن پر جھریاں پڑنے لگ جاتی ہیں بچے کو زکام ہوتا ہے سانس رک رک کر آتی ہے منہ یا حلق میں چھالے پڑجاتے ہیں ناک کے اندر زخم ہوکر ہڈی خراب ہو جاتی ہے ،زیر ناف تمام حصے پھنسیاں پیدا ہوجاتی ہیں بال باریک ہوجاتے ہیں اور پھر جلد ہی جھڑ جاتے ہیںدودھ کے دانت دیر سے نکلتے ہیں جو کہ نہایت کمزور اور بد شکل ہوتے ہیں اور جلد ہی گر جاتے ہیں بچہ ہمیشہ روتا ہے مزاج چڑ چڑا پن ہوتا ہے قے اور دست آتے ہیں کبھی یرقان بھی ہوجاتا ہے دودھ کے دانت گرجاتے ہیںوہ بھی بد شکل اور کرم خور دہ ہوتے ہیں آنکھیں؟ دکھتی ہیں اونچا سنائی دینے لگتا ہے ٹانگوں کی ہڈیاں مڑجاتی ہیں اور بہت جلد ان بچوں کا ٹی۔ بی۔ میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔
تشخیص :
آتشک کی دونوں قسموں کی تشخیص واسر مین ری ایکشن ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے یہاںیہ بات یادرکھنے کی ہے واسر مین ری ایکشن کے مثبت ہونے پر ہر وقت مریض کو آتشک میں مبتلا نہ سمجھ لینا چاہئے کیوں کہ ایسی مستشنیات بھی دنیا میں موجود ہیں جس سے خون میں واسر ری ایکشن مثبت ہوتا ہے تا ہم وہ کبھی آتشک میں مبتلا ہوئے اور نہ کبھی ہوئے تھے مندرجہ ذیل مستشنیات یاد رکھنے کے قابل ہیں ۔
(۱)وقتاًفوقتاً خون کی جانچ کرنے کے بعد اس ٹیسٹ کے مستقل طور پر مثبت رہنے سے ثابت ہوتا کہ آتشک کا زہر جسم کے کسی خاص حصہ میں نہایت تیز ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مریض کی موجود ہ بیماری آتشک ہی ہے گوہو سکتا ہے مریض میں آتشک موجود ہواس حالت میں علامت کومد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے اس کے علاوہ کینسر کے مریض کے خون کی جانچ میں واسر مین ری ایکشن ہمیشہ مثبت ہوتا ہے تو اس کابھی یہ مطلب نہیں کہ مریض کر آتشک لاحقہ ہے ۔ بوڑھاپے میں حاصل کردہ آتشک یا آتشک کے آخری مرحلہ میں واسر مین ری ایکشن ہمیشہ منفی ہوتا ہے ان تمام مستشنیات کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ ٓخذ کیا جاسکتا ہے کہ محض اس ٹیسٹ پر بھروسہ کرلینا آتشک کی صحیح تشخیص نہیں ہے ۔
انجام مرض
اس مرض میں خود بخود آرام ہوجانا محال ہے البتہ اگر مناسب اور معقول علاج پابندی اور مستقل مزاج ساتھ جارہ رکھا جائے تو اس صورت میں مرض میں کمی یا اس خاتمہ ہوسکتا ہے اور اگر مرض پوری طور پر زائل نہ بھی ہوتو اس کے عوارضات کی شدت ضرور ختم ہوجاتی ہے البتہ اگر علاج مناسب اور معقول نہ کیا گیا تو مرض انتہائی مہلک صورت اختیار کر لیتا ہے اس کے علاوہ حنجرہ ، اعصاب ،جگر ، تلی ، گردہ اور آنتوں کا کوئی بھی مرض لاحق ہو کر مریض انتقال کر جاتا ہے بعض اوقات مرض کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی مگر اس مرض کی سمیت بدن میں
چھپی رہتی ہے اور جیسے ہی انسان زیادہ کمزور اور ضعیف ہوتا ہے یا بداعتدالی کی زندگی گذارتا ہے مرض فوراً حملہ آور ہو جاتا ہے ۔
تحفظ:
اس مرض سے محفوظ رہنے کے لئے صفائی اور پرہیزگاری کی زندگی بسر کرنا نہایت ضروری ہے اس مرض کو زنا کا ری یا بد کاری کی قدرتی سزا سمجھنا چاہئے ۔
میاں کو آتشک بیوی کو بد ہے
نتیجہ کار بد کاکار ہے
چنانچہ سب سے بہتر تدبیر فسق و فجور جنسی بے راہ روی اور بد کاریوں سے پر ہیز سے تا کہ دنیا میں جسمانی مصائب سے محفوظ رہے اور عقبیٰ میں گنہگار اور مستوجب سزا قرار نہ پائے ۔مریض آتشک کے میل جول ، بوس و کنار ، ساتھ میں کھانا کھانے ، جھوٹا پانی پینے اس کے کپڑے اور رومال استعمال کرنے اس کے بستر پر سونے سے قطعی پرہیز کرنا چاہئے ورنہ ممکن ہے کہ اگر ہاتھ منہ یا جسم پر کہیںہلکی سی بھی خراش ہوگی تو وہاں آتشک کے جراثیم آسانی سے سرایت کر جائیں گے خود ایسے مریضان آتشک کو بہت محتاط رہنا چا ہئے ۔ شراب سے پرہیزکرنا لازم کیوں کہ اس کے استعمال سے آتشک کے جرا ثیم کو بہت جلد تمام بدن میں پھیلنے کا موقع مل جاتا ہے ۔
اصول علاج :
مریض کو صاف اور کشادہ مکان میںرکھیں اور اس کی ہر چیز علیحدہ رکھیں ورزش اور محنت کرنے سے منع کریں بدن کو سردی لگنے اور پانی میں بھیگنے سے بچانا چاہئے گرم کپڑے پہنانے چاہئے اگر مریضہ حاملہ ہے اس صورت میں علاج کے لئے جلدی کر نا چاہئے ۔
امریکی ماہرین صحت کی رائے میں اس مرض کا علاج بے حدمشکل اور پیچیدہ ہے وہ اسے ایک لاحاصل کوشش سمجھنے لگے ہیں ان کی اکثریت اس بات کی قائل ہے اس مرض کو پھیلانے میں ان کے معاشرہ کی موجودہ اقدار بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہےں ماہرین صحت معترف ہیں کہ اس مرض کی روک تھام صر ف اس صورت میں ممکن ہے کہ دنیا اخلاقی کے دائرے میں آجائے بے لگام اور کھلے عام جنسی اختلاط کا خاتمہ ہو یہی ماہرین صحت اجتماعی سطح پر ایک اخلاقی تحریک چلانے کے حامی ہیں تا کہ عورت اور مرد دونوں ہی ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھیں ضبط نفس کی ترتیب حاصل کریں اور صرف جائز وسائل پر انحصارکریں۔
آج مغرب میں از خرابی بسیار انہیں ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ عورت کے تعلقات میں حدود کا تعین کیا جائے بے حیائی اور آزادانہ جنسی تعلقات کو ختم کردیا جائے ورنہ بصورت دیگر آج کی ترقی یافتہ اقوام کی آئندہ نسلوں کو مرض کے جراثیم اس قدر کھوکھلا کر دیں گے کہ پھر ان میں موجود تما م صلاحیتوں کا ہمیشہ ہمیشہ خاتمہ ہو جائے گا ترقی کے نام پر فریب کھانے والے ہم مسلمانوں کوبھی اندھی تقلید سے گریز کر کے تباہی کی طرف بڑھنے کی کوشش ختم کر دینی چاہئے ۔

موتیابندCataract


موتیابندCataract


اس بیماری میں آنکھ کے لینس یا اس کے کیپسول یا دونوں ہی دھندلے ہوجاتے ہیں اور اس پر ایک پردہ سا آجاتا ہے۔


اسباب:٦٠ سال کی عمر کے بعد اکثر لوگوں کو یہ مرض ہوجاتا ہے. کمزور کرنے والے ایسے امراض جن سے آنکھوں کے لینس میں خون کے ذریعے پوری مقدار میں غذائی مادے نہیں پہنچتے جیسے ذیابیطس(Diabetes)، آتشک یا الٹراوائی لیٹ علاج کے زیادہ استعمال سے اس عمر سے بھی پہلے موتیابند شروع ہوجاتا ہے۔
علامات:بینائی دھیرے دھیرے گھٹتی چلی جاتی ہے، ہر چیز بڑی دکھائی دیتی ہے، بجلی کے بلب کے نور کو دیکھنے پر فرق محسوس ہوتا اور نور کے چاروں طرف ہری نیلی شعاعیں دکھائی دیتی ہیں، تاروں اور چاند کو دیکھنے پر ایک کے بجائے کئی دکھائی دیتے ہیں۔
تفریقی تشخیص: اس مرض کو سبز موتیا (گلوکوما) سے تفریق دینا ضروری ہے، سبز موتیا میں آنکھوں کی پتلی سبز ہوجاتی ہے، آنکھ کا ڈھیلا پتھر کی طرح سخت ہوجاتا ہے، روشنی سے پتلی نہیں سکڑتی ہے، مریض قریب کی چیزوں کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا ہے، آنکھوں اور کنپٹیوں میں اتنا سخت درد ہوتا ہے کہ مریض تڑپنے لگتا ہے۔
علاج: (١) بیماری کے شروع میںہلکا ایٹروپین لوشن مریض کی آنکھ میں ڈالنے سے پتلی پھیل کر کسی حد تک بینائی صاف رہتی ہے، لیکن مرض بڑھ جانے پرآپریشن کے علاوہ کوئی دوا مفید نہیں ہوتی ہے۔
(٢) کیٹے لین(Catalin) یہ ٧٥ئ٠ ملی گرام کی ٹکیوں کی صورت میں، ہر ٹکیہ ١٥ ملی لیٹر دائیلونٹ کے ساتھ ملتی ہے. نئے موتیابند میں ایک ٹکیہ کوڈائیلونٹ میں اچھی طرح گھول کر متاثرہ آنکھ میں١۔٢ بوند ٤۔٥ گھنٹے بعد ڈالیں، ابتدائی موتیابند میں مفید ہے۔
سبز موتیا، گلوکوماGlaucoma
اس مرض میں آنکھ کی پتلی سبز ہوجاتی ہے. آنکھوں کے ڈھیلے کے اندر سیال زیادہ بنتا ہے لیکن اس کا مصرف کم ہوتا ہے. اس طرح ڈھیلے میں سیال زیادہ اکٹھا ہوجانے سے ڈھیلا سخت ہوجاتا ہے. مرض کے شروع ہونے میں کبھی کبھی آنکھوں کے سامنے اندھیرا آجاتا ہے. بجلی کے بلب یا موم بتی کے نور کے چاروں طرف رنگین دائرے دکھائی دیتے ہیں، بینائی دن بدن گھٹتی چلی جاتی ہے. پرانے قبض، گٹھیا (جوڑوں کا درد اور ورم) اور قلبی کمزوری کے مریض اس بیماری میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں . بعض کو آنکھوں کے دوسرے امراض ہونے کے بعد یہ مرض ہوجاتا ہے۔
اس بیماری کی دو قسمیں ہیں(١) اکیوٹ گلوکوما: اس حالت میں لالی، پانی بہنا، آنکھ کے ڈھیلے کا سخت ہوجانا، پتلی کا پھیل جانا وغیرہ علامات ظاہر ہوتی ہیں، پتلی دھندلی دکھائی دیتی ہے، مریض کو سر اور آنکھ میں پھاڑنے والا سخت درد ہوتا ہے جو کبھی دور ہوجاتا ہے تو کبھی ہونے لگتا ہے، بعض مریضوں کی آنکھوں میںاتنے زور سے آنکھوں اور کنپٹیوں میں درد ہوتا ہے کہ ان کی بینائی بالکل ختم ہوجاتی ہے، درد کے ساتھ مریض کو قی، سر میں سخت درد اور تپ ہوکر بینائی ختم ہوجاتی ہے. اکثر ایک آنکھ میں یہ مرض ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات دونوں آنکھوں میں بھی یہ مرض ہوجاتا ہے. ایسی مثالیں بھی ہیں کہ رات کو مریض بھلا چنگا سویا، رات کو کنپٹی اور آنکھ میں درد سے آنکھ کھل گئی اور صبح تک وہ اندھا ہوگیا۔
(٢) کرانک گلوکوما: اس میں درد کم ہوتا ہے یا نہیں بھی ہوتا، لیکن بینائی دھیرے دھیرے گھٹتی چلی جاتی ہے،مریض کو تیز روشنی میں بالکل ٹھیک دکھائی دیتا ہے، لیکن شام اور صبح کے وقت کم دکھائی دیتا ہے، پتلی سکڑتی چلی جاتی ہے اور دھندلاپن بڑھتا جاتا ہے، مریض نزدیک کی چیزوں کو نہیں دیکھ سکتا ہے۔
ان علامات کے ظاہر ہونے پرآنکھوں کے کسی سرکاری اسپتال یا آنکھوں کے کسی متخصص کو دکھائیں۔

بلند فشارخون کا علاج اور اسباب


بلند فشارخون کا علاج اور اسباب

(نوٹٗ) جو احباب استعمال کریں اپنی رائے سے ضرور نوازیں۔

قلب کے فعل میں افراط و تفریط اور کمزوری سے دورانِ خون میں جو رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، اس رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کا نام ضغطتہ الدم ہے۔ اسے فشار الدم اور فشار خون کہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے بلڈپریشر کہتے ہیں۔‘‘ بلڈ پریشر اگرچہ انگریزی کا لفظ ہے لیکن بچے بچے کی زبان پر چڑھ گیا ہے اور ضغطتہ الدم متروک ہو گیا ہے۔ اسے اب بعض اطباء بھی نہیں سمجھتے۔

پاکستان میں تقریباً بیس فیصد افراد بلند فشار خون کے مریض ہیں۔ کم عمری میں ہونے والی اموات کا ۴۰ فیصد بلند فشارِ خون ہی کی وجہ سے ہے۔ امراض قلب کا زیادہ تر سبب بھی بلند فشار خون ہے۔ اگر اس مرض کا علاج نہ کیا جائے تو دماغ کی شریان پھٹ سکتی ہے، گردے ناکارہ ہو سکتے ہیں یا حرکت قلب بند ہو سکتی ہے۔

بلند فشار خون کا سبب عموماً خاندانی ہوتا ہے۔ اگر آپ موٹاپے اور ذہنی دباؤ کے شکار ہیں، نمک زیادہ مقدار میں استعمال کرتے ہیں یا کام کی زیادتی کے شکار ہیں تو آپ کا فشار خون بڑھ سکتا ہے۔ اگر بلند فشار خون کا مریض تمباکو نوشی کرتا ہو تو دوسرے مریضوں کی نسبت اسے دل کے دورہ کی کیفیت دس گنا بڑھ سکتی ہے۔ بلند فشار خون کا مریض انجائنا کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔

جسمانی اور نفسیاتی دباؤ کے نتیجے میں، کاروباری مصروفیات کی بنا پر اور غصے کی حالت میں عموماً ہمارا فشار خون بڑھ جاتا ہے لیکن نیند کی حالت میں ہمارا فشار خون کم ہو جاتا ہے۔ اسے اگر نیند کی حالت میں معلوم کیا جائے تو یہ کم سے کم ہوتا ہے۔ ایک عام شخص کا فشار خون رات کو آرام کی حالت میں ۹۵/۶۰۔ صبح اٹھنے کے بعد دوپہر سے پہلے پہل ۱۳۵/۸۰ اور شام کو ۱۵۰/۹۰ ہوتا ہے۔

دنیا بھر کے ڈاکٹروں نے ایک فارمولا وضع کیا ہے جس سے حاصل کردہ فشار خون اوپری سطح تک اسی کے برابر ہونا چاہیے۔ عمر جمع(+) ۱۰۰ یعنی اگر ایک شخص کی عمر 60 سال ہے تو اس کا بالائی سطح پر فشار خون 160 ہو سکتا ہے اور نچلی سطح کے لیے عمر منفی (-) ۵۰ یعنی ۶۰ سال کی عمر میں ۱۰۰۔ گھریلو پریشانیاں، کاروبار کی پریشانیاں، لڑائی مارکٹائی، شور و شغب، بے چینی، گصہ، فشار خون کو عموماً بڑھا دیتے ہیں۔ بلند فشار خون کے مریضوں کو ثقیل اشیا سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مثلاً بھنا گوشت، بھنا مرغ، مغز، کلیجی، سر پائے اور گردے پورے وغیرہ نیز تلی ہوئی اشیاء پراٹھے۔ سموسے پکوڑے۔ وغیرہ۔ دودھ دہی بالائی اتار کر استعمال کریں تو کوئی حرج نہیں۔

دیسی علاج:

2 عدد سبز مرچ اور 2 ترئی لہسن میں معمولی مقدار میں نمک شامل کر کے چٹنی بنائیں اور صبح شام روٹی سے لیں۔

روحانی علاج"

ایک وظیفہ بتاتا ہوںجو۔ 41 دن کرنا ہے۔ اس سے آپ کا فشار خون قابو میں آ جائے گا۔

وظیفہ یہ ہے کہ فجر کی نماز پڑھ کر ایک پیالی میں پانی ڈال کر رکھیں۔ اول آخر درود ابراہیمی ایک ایک بار پڑھیں اور درمیان میں سورۃ یاسین پڑھیں۔ اور پانی پر بھونک کر پی لیں اللہ پر اعتقاد شرط ہے۔
 — 

زعفران

زعفران 

وضاحت: زعفران کے مختلف زبانوں میں مختلف نام ہیں۔ ہندی میں اس کو کیسر کہتے ہیں۔ انگریزی میں اس کا نام سیفرن ہے۔ لاطینی اور یونانی میں اس کو کروکس کہا جاتا ہے۔ بنگلہ میں اس کو جعفران کہتے ہیں۔

زعفران طبیعت کو فرحت بخشتی ہے۔ گردہ، مثانہ اور جگر کو قوت اور طاقت پہنچاتی ہے۔ جسم پر ہر طرح کی سوجن اور ریاح کو تحلیل کرتی ہے۔ گردے اور مثانہ کو مواد سے صاف کرتی ہے۔ گردے کے درد کودور کرتی ہے۔ آنکھ میں پانی ملا کر سلائی ڈالنے سے آنکھ کے درد اور سرخی کو دور کرتی ہے۔ روزانہ رات ایک ایک سلائی آنکھ میں ڈالنے سے نظر کو تیز کرتی ہے۔ جسم میں سردی کی وجہ سے ہونے والے درد اور پسلی کے درد میں فائدہ مند ہے۔ جسم میں اگر مادہ منویہ کم ہو تو اسے پورا کرتی ہے۔ جن خواتین کو حیض رک رک کر آتا ہو یا جن مردوں کے پیشاب میں رکاوٹ ہو اسے جاری کرتی ہے۔ اگر کسی کا پیشاب آنا رک جائے تو اس کے منہ میں اس کا ایک تار رکھ دیں، چند منٹ میں پیشاب جاری ہو جائے گا۔ آنکھ پر اگر گوہانجنی نکلی ہو تو ڈیڑھ رتی زعفران کو ۳ قطرے پانی کے ساتھ پیس کر گوہانجنی پر لگائیں، ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔ اگر کسی مریض کو خارش نے بہت زیادہ تنگ کیا ہو تو پانی میں ۳ ماشہ زعفران گھول کر پلائیں خارش ٹھیک ہو جائے گی۔ تسہیل ولادت کے لیے ساڑھے ۴ ماشہ زعفران پلانے سے بچہ فوراً پیدا ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ اس میں کچھ اور چیزیں ملا کر اس کے مرکبات بنائے گئے ہیں جو بہت فائدہ مند ہیں

ایڈز HIV اور میڈیکل سائنس کی لغزش


ایڈز HIV اور میڈیکل سائنس کی لغزش

چونکہ اِس بیماری کی پوری تفصیل اور مخففات Abbreviationsکی تشریح محض وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہے لہٰذا بات وہاں سے شروع کی جا رہی ہے جو ہمارا اصل موضوع ہے۔

اِس ضمن میں میڈیکل سائنس نے جو شواہد مرتب کیے ہیں ان میں ایک نکتہ ایسا ہے جو میڈیکل سائنس کی ایک سنگین لغزش کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ عارضہ ایک وائرس کا مرہون منت ہے۔ اِس وائرس کو ایچ آئی وی HIV کا نام دیا گیا ہے جبکہ اِس کی درجہ بندی کی قسم کو آر این اے کہا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اِس وائرس کے اِنسانی جسم میں ملٹی پلائی کرنے سے پیدا ہونے والا انفیکشن اِنسانی جسم میں موجود قدرتی مدافعتی نظام کو "چند" سال میں بے اثر کر دیتا ہے لیکن اِس میں قابل توجہ امر یہ ہے کہ اِس وائرس کی اثر پذیری کی مدت کا کوئی پیمانہ آج تک میڈیکل سائنس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ HIVکا کوئی مریض تو محض سات سال میں ہی ایڈز سے مر گیا اور کسی مریض کا بارہ سال تک یہ وائرس خون میں رہنے کے باوجود کچھ نہ بگاڑ سکا یعنی اُس میں ایڈز کی کوئی علامت نمودار نہ ہوئی۔

یہاں دو اہم سوالات اور HIV کے دیگر کسی بھی وائرس سے مختلف ہونے کے بارے میں ذکر ضروری ہے جس سے میڈیکل سائنس کی اِس بیماری کے بارے میں ناقص تھیوری کو سمجھنے میں آسانی ہو گی، اِس لیے کہ اِن دونوں سوالات کا تسلی بخش جواب میڈیکل سائنس میں نہیں ملتا۔

1۔ اِنسانی جسم کے لیے ضرر رساں وائرس کی فہرست میں یہ واحد وائرس ہے جو اگر ایک دفعہ بدن میں داخل ہو جائے تو مرتے دم تک پیچھا نہیں چھوڑتا جبکہ عارضہ پیدا کرنے والے دیگر وائرس اِنسانی جسم میں طویل عرصہ تک رہ نہیں پاتے،۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ اِس کی کوئی توجیہ میڈیکل سائنس میں مسلمہ نہیں ہے۔

2۔ یہ واحد وائرس ہے جس کے خلاف اِنسانی بدن میں اِس کے ملٹی پلائی ہوتے وقت بھی کوئی مزاحمت نہیں ہوتی جبکہ دیگر وائرس میں سے جب بھی کوئی وائرس اپنی نشوونما اور انفیکشن کا عمل شروع کرتا ہے، اِنسانی جسم اِس پر فوراً خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے اور آبلے، بخار، سوزش، درد، پھپھولے، بلغم وغیرہ، از قسم مختلف علامات ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اِس فرق کی توجیہ Justification کیا ہے؟۔۔۔۔ کوئی نہیں۔

اِس ضمن میں ہمارے رفقائے کار نے جس تجزیئے کی طرف راہنمائی دی ہے اُس کی تفاصیل و جزئیات کا احاطہ تو یہاں ممکن نہیں، البتہ اُس کا ماحصل آسان زبان میں پیش خدمت ہے۔

یہ دونوں حقائق اگر غور کیا جائے تو ایک ہی سمت نشاندہی کرتے ہیں کہ کوئی ایسی وجہ ضرور ہے جس کی بنیاد پر اِنسانی جسم اِس وائرس کے خلاف مزاحمت نہیں کرتا اور یوں وائرس کو Multiply کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔۔۔ اور وہ وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ اِنسانی جسم میڈیکل سائنس کے پراپیگنڈے سے دھوکا نہیں کھاتا اور اِس بیرونی اور اجنبی قرار دیئے جانے والے وائرس کو اپنے لیے اجنبی ہی نہیں سمجھتا جبکہ میڈیکل سائنس کی تھیوری کے مطابق یہ اِنسانی جسم کیلئے ایک اجنبی آر این اے ہے، بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ یہ وائرس چمپینزی یعنی بندر سے اِنسان میں منتقل ہوا ہے۔

چونکہ اِنسانی جسم کا اپنے دشمن کو پہچان نہ سکنا قانون فطرت کے خلاف ہے لہٰذا وائرس کو اجنبی قرار دینے کی یہ میڈیکل سائنس کی تھیوری ایک قابل یقین تھیوری نہیں ہو سکتی چنانچہ یہ کہنا کہ یہ وائرس کسی دوسری مخلوق سے بنی نوع اِنسان میں آیا، غیر منطقی بات ہے اور ٹامک ٹوئیاں قرار دی جا سکتی ہے۔ اِس صورت میں صرف ایک گوشہ ایسا ملتا ہے جس کے ممکن العمل ہونے کے بارے میں ابھی تک میڈیکل سائنس میں غور ہی نہیں کیا گیا اور وہ گوشہ ہے وائرس کا بیرونی یا اجنبی نہ ہونا بلکہ خود اِنسان کے اندر ہی وجود حاصل کرنا۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایچ آئی وی کوئی ایسا خارجی وائرس نہیں ہے جو اِنسانی جسم کیلئے اجنبی ہو اور دیگر وائرس کی طرح باہر سے اِنسانیت پر حملہ آور ہوا ہو بلکہ یہ اِنسان کے اندر ہی وجود حاصل کرتا ہے اور اسی پروٹین کا جزو ہے جس سے اِنسان کے دیگر خلیات نمود حاصل کرتے ہیں۔

اِس نقطہ نظر کو ان شواہد سے مزید تقویت ملتی ہے کہ کئی مریضوں میں میڈیکل ٹسٹ کے دوران HIV پازیٹو نکلا لیکن وہ بارہ چودہ برسوں کے بعد بھی ایڈز کے شکار نہیں ہوئے حالانکہ اِس دوران وائرس ان کے خون میں موجود بھی رہا۔ اِس کا سیدھا سادہ مطلب یہ تھا کہ وہ HIV جو ان مریضوں کے خون میں ہے، ان کیلئے مہلک نہیں ہے۔ گویا ہر HIV ہر اِنسان کیلئے مہلک نہیں ہوتا بلکہ اسی شخص کیلئے مہلک ہوتا ہے جس سے اُس کی پروٹین مماثل ہوتی ہے۔۔۔ لیکن میڈیکل سائنس نے اس وائرس کے غیر مہلک ہونے کے جواز میں یہ غیر منطقی اور بے بنیاد مفروضے قائم کر لیے کہ یہ وائرس جو مہلک نہیں نکلا، یہ وائرس ہی کوئی دوسرا ہے اور یہ ایڈز پیدا ہی نہیں کرتا۔۔۔ یا یہ کہ ہر شخص میں اِس وائرس کی اثر پذیری کی شدت مختلف ہوتی ہے چنانچہ کچھ مریض دس بارہ سال تک بھی اِس کے انفیکشن کے شکار نہیں ہوئے اور کبھی نہ کبھی وہ ضرور ہوں گے، وغیرہ۔

بچپن میں ایک چٹکلہ سنا کرتے تھے کہ کوئی سائنسدان مینڈک پر تحقیق کر رہا تھا۔ اُس نے مینڈک کو میز پر بٹھا کر اُس کے عقب میں پٹاخا چھوڑا۔ مینڈک زور سے اچھلا۔ سائنسدان نے اُس کی ایک ٹانگ کاٹ دی اور پھر پٹاخا پھوڑا۔ اِس دفعہ مینڈک کم اچھلا۔ سائنسدان نے اُس کی دوسری ٹانگ بھی کاٹ دی۔ اِس دفعہ پٹاخا پھوڑا تو وہ بالکل نہ اچھلا۔ اِس سے سائنسدان نے یہ محققانہ نتیجہ اخذ کیا کہ مینڈک کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی جائیں تو وہ بہرا ہو جاتا ہے۔

کچھ اِسی قسم کی واردات میڈیکل سائنس کے ساتھ بھی ہوئی چنانچہ اب وہ مینڈک کو بہرا تصور کرنے پر مصر ہے اور اِن ممکنات پر غور کرنے کیلئے تیار ہی نہیں کہ ہر H.I.Vہر شخص کیلئے مہلک نہیں ہوتا بلکہ صرف اُنہی کیلئے مہلک ہوتا ہے جن سے مماثل Compatibleہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر دو افراد کے ڈی این اے باہم فیوز ہو جائیں تو اِن میں سے ایک کی مثبت دھاری Strand دوسرے کی منفی دھاری کے ساتھ اِس طرح مخلوط ہو سکتی ہے کہRNA بنا سکے۔ اب چونکہ یہ دونوں Strands مختلف افراد کے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہیں اِس لیے اِن کی پیوستگی عدم توازن کی شکار رہے گی چنانچہ ایسا RNA جو پروٹین جمع کرے گا وہ ان دو افراد کے جسم سے نیم ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے انہی دو افراد کے Tخلیات پر چپک کر ایڈز کا باعث بنے گی جن کے ڈی این اے باہم فیوز ہوئے تھے۔ اِسی غیر متوازنRNA کا نام HIV ہے۔ یہ HIV چونکہ صرف انہی دو افراد کے جسم سے نیم ہم آہنگ ہے لہٰذا صرف ان کے اور ان کی اولاد کیلئے مہلک ہے، باقی اِنسانوں کیلئے نہیں۔

یہ ایک ایسی تھیوری ہے جو میڈیکل سائنس میں زیر غور ہی نہیں لائی گئی اور وہاں مینڈک کے بہرا ہونے کی رٹ لگائی جاتی رہی یعنی جان چھڑانے کیلئے یہی کہا جاتا رہا کہ جو وائرس مہلک نہیں نکلا وہ HIV تھا ہی نہیں بلکہ وہ اسی قبیل کا کوئی دوسرا وائرس تھا، یا یہ بے سروپا مفروضہ قائم کر لیا گیا کہ ہر HIV کے ہر اِنسان کیلئے مہلک بن جانے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے جس کا کوئی پیمانہ بھی ممکن نہیں ہے، وغیرہ۔

ہماری تھیوری میں یہ سوال ابھی تشنہ ہے کہ دو مختلف افراد کے ڈی این اے کو باہم فیوز ہونے کا موقع کہاں اور کیسے مل سکتا ہے .؟

میڈیکل سائنس HIV کے عمل اِنتقال کے جن ذرائع کا ذکر کرتی ہے ان میں ایک Multiple Sexual Partners یعنی ایک وقت میں ایک سے زیادہ، مختلف اصناف کے افراد کا باہمی فطری جنسی تعلق ہے۔

یہ انتہائی مبہم بات ہے جو ایک جسم فروش عورت کی زندگی اور دو بیویاں رکھنے والے شوہر کی عائلت کو ایک ہی صف میں کھڑا کر رہی ہے۔ مزید یہ کہ اِس میں لفظ "وقت" کی کوئی حد بندی نہیں ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی پیشہ ور عورت خود کو ہر شب ایک نئے مرد کے سامنے پیش کرتی ہے تو بھی یہ Multiple ہو گا اور اگر کوئی عورت بیوہ ہو جائے اور پھر دوسری شادی کرے تو بھی یہ Multiple ہو گیا۔ گویا میڈیکل سائنس کی اِس Definition کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عمر بھر میں جب بھی کبھی کسی اِنسان کا Sexual Partner تبدیل ہوا، یہ عمل ملٹی پل کی تعریف میں آ گیا یعنی اُس کے لیے اِس انفیکشن کا امکان پیدا ہو گیا، خواہ یہ امکان بہت موہوم سا ہی ہو۔

یہ تصور اگر درست مان لیا جائے تو پوری اِنسانیت کے لیے اِس بیماری سے بچاؤ تقریباً ناممکن بن جاتا ہے کیونکہ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ دنیا کے "ہر ایک" مرد کے لیے غیر فطری ضبط کیے بغیر زندگی بھر ایک ہی عورت تک محدود رہنا ممکن نہیں ہے۔ گویا جب تک ہم مرد اور عورت میں فطری تولیدی عمل کے تناظر میں Multiple کے مفہوم کی درستگی اور اِس کے ضمن میں لفظ "وقت" کا تعین نہ کر لیں، نہ تو ہم وائرس کے فیوژن کے عمل کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اِنسانیت کو اِس مہلک مرض سے حتمی طور پر محفوظ رہنے کا یقینی راستہ فراہم کر سکتے ہیں چنانچہ لازم ہے کہ اِس ضمن میں "وقت" کے تصور کی تعریف مرتب کر لی جائے۔

ہر عورت کو قدرت نے ایام یعنی Menstrual Cycles کی صورت میں خود کار صفائی کے بے مثل نظام کا عطیہ دیا ہے۔ جب کسی عورت کا ایک مرد کے ساتھ عمل مجامعت وقوع پذیر ہوتا ہے تو اُس مرد کے اثرات عورت کے تولیدی اعضاء میں سرایت کر جاتے ہیں۔ اگر اِس عمل کے نتیجے میں عورت کا پاؤں بھاری نہ بھی ہو تو بھی وہ اُس مرد سے تب تک Impregnated رہتی ہے جب تک اُس کا اگلا دورۂ ایام خاطر خواہ طریقے سے مکمل نہ ہو جائے۔

ایک دو یا زیادہ سے زیادہ تین Cycles کے مکمل ہو جانے کے بعد وہ آئینے کی طرح شفاف ہو جاتی ہے اور اِس میں اُس مرد کے کوئی اثرات باقی نہیں رہتے جس سے اِس کی سابقہ Intramenstrual Clean Period کے دوران مجامعت واقع ہوئی تھی یا ہوتی رہی تھی۔ ایام کا یہی نظام عورت کے لیے قدرت کی طرف سے خود کار صفائی کا عطیہ ہے اور اِسی تصور پر Multiple کا درست مفہوم اُستوار ہوتا ہے کہ اگر کسی عورت کی ایک طہر Intramenstrual Clean Period کے دوران ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ مجامعت وقوع پذیر ہو تو یہ Multiple کے مفہوم پر پورا اترے گا اور اِس وائرس کے لیے Culture Media فراہم کرنے کا باعث بنے گا کیونکہ اِس صورت میں کہ جب اُس عورت کے اندر پہلے سے ہی ایک مرد کے اثرات موجود ہںف یعنی وہ پہلے ہی ایک مرد سے Impregnated ہے، اگر کسی دوسرے مرد کے اثرات بھی اُس میں سرایت کرتے ہیں تو وائرس کے لیے سازگار ماحول جسے میڈیکل کی اصطلاح میں کلچر میڈیا کہا جاتا ہے، دستیاب ہو جاتا ہے۔ چونکہ اُس وقت دو مختلف مردوں کے ڈی این اے اُس کے رحم میں بیک وقت موجود ہوں گے لہٰذا یہ امر "قرین قیاس" ہے کہ وہ باہم فیوز ہو جائیں اور ان کے Strands کے اختلاط کے ذریعے ایک ایسا آر این اے تشکیل پا جائے جو ان تینوں افراد یعنی دونوں مرد اور کلچر میڈیا فراہم کرنے والی اُس عورت کے لیے مہلک HIV کی شکل میں نشوونما حاصل کرنے لگے۔ تب یہ HIV اگرچہ ان کی اولادوں کے لیے بھی مہلک ہو گا تاہم اگر یہ کسی چوتھے فرد کو خون کی Transfusion کے ذریعے منتقل ہو گا تو اُس کے لیے غیر مہلک ہو گا، باوجودیکہ اُس کے خون میں موجود رہے گا۔

اب اِس لفظ "قرین قیاس" کی تفصیل کا جائزہ بھی لینا مناسب ہو گا یعنی ایسے دو افراد کونسے ہو سکتے ہیں جن کے ڈی این اے اِس قدر مماثل ہوں کہ ان کے باہم فیوز ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہو سکتے ہوں۔ اِس سوال کا جواب ہے "خون کا رشتہ"۔ جب جنسی تعلق قائم کرنے والے افراد کے مابین کوئی ایسا جینیاتی مشابہت کا تعلق ہو جیسا ایک ہی خاندان کے افراد میں ہوتا ہے، تو ان کے ڈی این اے کے باہم فیوز ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی معاشرے میں جنسی تعلق کی اُستواری پر نگاہ احتساب نہ رہے یعنی زنا عام ہو تو چونکہ افراد کی ولدیت مشکوک ہوتی ہے لہٰذا ایسے معاشرے میں اِس امر کے امکانات بہت زیادہ ہو سکتے ہیں کہ جو افراد جسمانی تعلق قائم کریں وہ ایک ہی جینیاتی فریم کے مالک ہوں، بالفاظ دیگر ان کے درمیان خون کا رشتہ موجود ہو خواہ انہیں اِس حقیقت کا علم ہی نہ ہو۔ اِس صورت میں ان کے ڈی این اے کے فیوز ہونے کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔

اِس نظریے کی صداقت کے لیے یہ مشاہدہ کافی ہے کہ ایڈز سے مرنے والوں کی زیادہ تعداد انہی معاشروں میں ہے جہاں ایک عورت کے ایک وقفہ طہر یعنی Intramenstrual Period کے دوران دو یا زیادہ مردوں سے جسمانی تعلق یعنی زنا کی آزادی ہے۔

Transfusion کے ذریعے منتقل ہونے والے HIV کے غیر مہلک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ایڈز کی تاریخ میں ایسے بچوں کی کوئی تعداد مرقوم نہیں ہے جو سات برس کی عمر میں ایڈز سے مر گئے ہوں اور ان کی ماؤں کو ایڈز نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں ان بچوں کو ایچ آئی وی موروثی طور پر نہیں بلکہ خون کے ذریعے منتقل ہوا ہو۔ اگر Transfusion کے ذریعے منتقل ہونے والا ایچ آئی وی مہلک ہوتا تو ایسے بچوں کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ہوتی۔

اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی عورت اِس امر کو ملحوظ رکھے کہ وہ ایک طہر کے دوران خود کو ایک ہی مرد تک محدود کرے گی تو خواہ اُس کی زندگی میں بیسیوں Sexual Partners بھی کیوں نہ تبدیل ہوں، یہ عمل کسی صورت بھی Multiple کی تعریف میں نہیں آئے گا۔ اِسی طرح اگر ہر مرد یہ امر ملحوظ رکھے کہ وہ کسی ایسی عورت کے ساتھ مجامعت نہ کرے جو اِس وقفہ طہر کے دوران پہلے ہی کسی دوسرے مرد سے Impregnated ہو چکی ہو تو خواہ اُس مرد کا بیک وقت ایک سے زیادہ عورتوں سے بھی جسمانی تعلق کا سلسلہ اُستوار ہو، یہ عمل نہ تو آر این اے کو مہلک ایچ آئی وی کی ہیئت اِختیار کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے اور نہ ہی Multiple کی تعریف میں آ سکتا ہے

اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مرد اگر صرف انہی عورتوں سے تعلق رکھے جو ایک طہر کے دوران صرف اسی تک محدود رہنے والی ہوں اور ان عورتوں کے درمیان کوئی جینیاتی مشابہت، کوئی خون کا رشتہ نہ ہو تو اُس کا یہ عمل نہ تو Multiple کی تعریف میں آ سکتا ہے اور نہ ہی اِس سے کوئی Culture Media ڈیویلپ ہو سکتا ہے چنانچہ کوئی ایچ آئی وی، کوئی انفیکشن وقوع پذیر نہیں ہو سکتا۔

مردوں کی ہم جنس پرستی (لواطت) بھی اِسی ذیل میں آتی ہے کیونکہ اِس سے دو مردوں کے ڈی این اے کو باہم فیوز ہونے یعنی ایچ آئی وی بننے کیلئے ایسا کلچر میڈیا دستیاب ہو جاتا ہے جس میں عورت کی کوئی شراکت یا ضرورت نہیں ہوتی۔

اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہمیں اُس اِنسانیت کو جو اِس انفیکشن کی ابھی شکار نںیا ہوئی، ایک محفوظ اور یقینی راستہ فراہم کرنا ہے تو ہمیں اِس تجزیئے کو قانون کی شکل میں ڈھالنا ہو گا یعنی ایک عورت کے دو مختلف مردوں کے ساتھ اِس تعلق کیلئے تین طہر کے درمیانی وقفے کی شرط کو جس کا نام عدت ہے، پوری دنیا میں قانون کا درجہ دیا جائے تاکہ نسل اِنسانی کی پیدائش کا محفوظ عمل معاشرے کی نگرانی اور ضمانت کے ساتھ جاری رہ سکے۔

دل کو صحت مند اور توانا رکھیں۔


دل کو صحت مند اور توانا رکھیں۔ 
دھک دھک، دھک…جی ہاں، دل کی یہی دھڑکن انسان کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ رُک جائے، تو بشر بھی خاک میں جا لیٹتا ہے۔ انسانی جسم میں دل ودماغ، یہی دو عضو سب سے اہم سمجھے جاتے ہیں۔ دل صحت مند رہے، تو بدن جبکہ دماغ تندرست رہے، تو روح توانارہتی ہے۔ لہٰذا ہر ذی حس کا فرض ہے کہ وہ اپنے دل کی خوب حفاظت کرے۔

ذیل میں قلب کی دیکھ بھال کرنے والے ایسے 43نسخے پیش خدمت ہیں جو سیکڑوں برس پر محیط ماہرین کی تحقیق و تجربات کا نچوڑ ہیں۔ اگر ان پر صدق دل سے عمل کیا جائے، توآپ اتنی طویل عمر ضرور پاسکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کو کرپٹ حکمران طبقے سے پاک اور دنیاکا ترقی یافتہ اور خوشحال ملک دیکھ سکیں۔
(1)سگریٹ کے دھوئیں سے بھی بچیے…
امریکی ڈاکٹروں نے دریافت کیا ہے کہ جو مردوزن ہفتے میں تین بار 30منٹ تک سگریٹ کے دھوئیں کی زد میں رہیں، ان میں امراض قلب میں مبتلا ہونے کا خدشہ 26فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا کبھی سگریٹ کے دھوئیں والے ماحول میں نہ بیٹھیں۔

(2)سرخ گوشت
کھائیے…
اعتدال میں سرخ گوشت کھانا مفیدہے۔ وجہ یہ ہے کہ سرخ گوشت مامون نظام کو تقویت پہنچانے والا معدن یلینیم رکھتا ہے اور حیاتین ہی کی اقسام بھی جو انسانی جسم میں ہومولینٹین کی سطح کم رکھتا ہے۔ اس پروٹین کی بڑھتی شرح دل کے لیے خطرناک ہے۔ مزید برآں سرخ گوشت کی50 فیصد چکنائی قلب دوست مونو ان سیچو ریٹڈ قسم سے تعلق رکھتی ہے۔

(3)ڈرائونی فلم دیکھیے…
ڈاکٹروںکا کہنا ہے کہ جوشے بھی دل کی دھڑکن بڑھادے وہ اُسے طاقت ور بناتی ہے۔ مثلاً ڈرائونی فلم دیکھنا، اچھی کتاب پڑھنا، کرکٹ کھیلنا یا عشق میں مبتلا ہونا۔دراصل جب بھی دل کی دھڑکن تیز ہو، تو یہ اس کی دھڑکن کو ازسر نو شروع (Reset)کرنے کے مترادف ہے۔ یوں اس کی کارگردگی بہتر ہو جاتی ہے۔
(4)گردوغبار میں ورزش نہ کیجیے…
آلودہ ماحول میں ورزش کرنے سے خون میں آکسیجن کم ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں دل کی نالیوں میں لوتھڑے بننے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
(5)تالاب میں غوطہ لگائیے…
برطانوی ماہرین نے بعداز تجربات دریافت کیا ہے کہ جو مردوزن شدید جسمانی سرگرمی مثلاً تیرنے یا پہاڑ پر چڑھنے (ہائکنگ) سے محض 50حرارے بھی جلائیں، ان میں امراض قلب سے مرنے کا خطرہ 62فیصد کم ہوجاتا ہے۔ تاہم ہلکی ورزش مثلاً چلنے یا گالف کھیلنے سے یہ فائدہ نہیں ہوتا۔
(6)کولیسٹرول کا مقابلہ چکنائی سے کیجیے…
ایک تجربے میں آسٹریلوی ماہرین نے تین ماہ تک سترہ مردوزن کو گری دار میوے کھلائے۔ جب چوتھے ماہ ان کامعاینہ ہوا، تو مردوزن میں 3تا 5فیصد کولیسٹرول کم پایا گیا۔ وجہ یہ ہے کہ گری دار میوے مونوان سیچوریٹڈ چکنائی کثیر مقدار میں رکھتے ہیں۔
(7)سائیکل چلا کر ڈپریشن بھگائیے
طبی سائنس دریافت کرچکی کہ جو انسان ڈپریشن کا شکار ہوں، وہ دوسروں کی نسبت جلد امراضِ قلب کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ کئی مردوزن ادویہ کھا کر ڈپریشن بھگا نے کی سعی کرتے ہیں۔ مگر جدید تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ بہترین طریقہ کوئی بھی ورزش کرنا مثلاً سائیکل چلانا یا بیڈمنٹن کھیلناہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک تجربے میں ڈپریشن زدہ مردوزن پر تین ماہ بعد ادویہ اور ورزش کے ایک جیسے اثرات پائے گئے۔
(8)روزانہ 20منٹ مراقبہ کریں…
امراضِ قلب میں مبتلا افراد خاص طور پر روزانہ صرف20منٹ مراقبہ کرنے کے لیے نکالیں۔ یہ روحانی عمل گھبراہٹ اور بے چینی سے نجات دلا کر انسان کو پرسکون کرتا ہے۔ ماہرین امراضِ قلب کا کہنا ہے کہ دل کے جو مریض ڈپریشن کا شکار ہوں، وہ دوسروں کی نسبت جلد چل بستے ہیں۔
(9)ہوا بھرا تھیلا(Punching bag)خرید لیجیے
ہارورڈ یونیورسٹی کے محققوں نے دریافت کیا ہے کہ جو مردوزن اپنا غصہ باہر نکال دیں، امراضِ قلب میں بہت کم مبتلا ہوتے ہیں۔ جبکہ دبا ہواغصہ دل کو لے بیٹھتا ہے۔
(10)اَسپرین لیجیے…
امریکی و برطانوی ماہرین نے امراضِ قلب دور کرنے میں اُسپرین کو مفید پایا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ خون کا دبائو کم کرتی ہے۔ تجربات سے پتا چلا ہے کہ جو مردوزن یہ دوا باقاعدگی سے کھائیں، ان کا قلب صحت مند رہتاہے۔ مؤثر فائدہ اٹھانے کے لیے رات کو سونے سے قبل اسپرین لیجیے۔
(11)کرین بیری (Cranberry)رس پیجیے…
امریکی ماہرین نے ایک تجربے میں فربہ مردوزن کو ایک ماہ تک کرین بیری کا رس پلایا۔ ان میں بُرا (HDL)کولیسٹرول 10فیصد تک ختم ہوگیا۔یہ کمی دل کا دورہ پڑنے کا امکان 40فیصد تک ختم کردیتی ہے۔ لہٰذا جیب اجازت دے، تو رس ضرور استعمال کیجیے۔ امریکا میں اسے’’ سُپر فوڈ‘‘کی حیثیت حاصل ہے۔
(12)صبح ناشتا ضرور کیجیے…
جدید تحقیق نے افشا کیاہے کہ جو لوگ صبح ناشتا کریں، عموماً ان کا وزن نہیں بڑھتا۔ نیز ان میں انسو لین مزاحمت بھی جنم نہیں لیتی۔دو خرابیاں دل کی بیماریاں پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لہٰذا صبح ناشتاکرنا معمول بنا لیجیے۔
(13)غذا میں فولک ایسڈ شامل رکھیے…
فولک ایسڈ وٹامن ہی کی ایک قسم ہے۔ یہ حیاتین نئے خلیے بنانے میں کام آتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے جو مردوزن اس کی مطلوبہ مقدار لیں، وہ امراضِ قلب میں کم ہی مبتلا ہوتے ہیں۔ لہٰذا فولک ایسڈ رکھنے والی غذائیں روزمرہ خوراک میں شامل رکھیے۔ یہ حیاتین گائے کے جگر، ساگ، چاول، شاخ گوبھی اور پھلیوں میں ملتا ہے۔ بچوں کی روزانہ ضرورت 200جبکہ بالغوں کی 400ایم سی جی (مائکرو گرام) ہے۔
(14)سیڑھیاں چڑھیے…
ایک تجربے سے افشا ہوا ہے کہ جو لوگ روزانہ چار پانچ ہزار قدم پیدل چلیں، ان میں خون کا دبائو معمول پر رہتا ہے۔ یوں وہ امراضِ قلب کا شکار نہیں ہوتے۔
(15)پتوں والی سبزیاں کھائیے…
سبزیاں اور انڈے کی زردی اپنے اندر ایک صحت بخش کیمیائی مادہ، لوتین(Lutein)رکھتی ہیں۔ یہ مادہ قلب کو بیماریوں سے بچانے والے ضِد تکسیدی مادے خلیوں اور بافتوں تک پہنچاتا ہے۔
(16)ثابت اناج استعمال کیجیے…
امریکی محققوں نے دریافت کیا ہے کہ ثابت اناج کھانے والوں میں دل کی بیماریاں جنم لینے کا خطرہ 20فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

(17)زیادہ چائے لیجیے…
امریکی ہارٹ ایسوسی ایشن کا مشورہ ہے کہ دن میں دو پیالی چائے ضرور لیجیے۔ یوں امراضِ قلب نہیں چمٹتے۔ وجہ، چائے میں فلاوونوئیڈ (Flavonoids) مرکبات پائے جاتے ہیں۔ یہ مرکب نہ صرف نالیوں میں تنائو دور کرتے ہیں بلکہ خون کو بھی پتلا کر دیتے ہیں۔ یوں نالیوں میں لوتھڑے پیدا نہیں ہوتے۔
(18)ورزش کے بعد بی پی (بلڈپریشر) چیک کیجیے…
اس عالم میں چیک کرنے پر نمبر بلند (ہائی) ہوں گے۔ لیکن یوں صحت کی مجموعی حالت بھی پتا چل جاتی ہے۔ اگر یہ چیک ڈاکٹر کے ذریعے کرایا جائے، توزیادہ بہتر ہے۔
(19)کیفین سے پرہیز ضروری ہے…
اس مادے کے حامل مشروبات انسان میں خون کا دبائو بڑھاتے ہیں۔ عموماً فی منٹ دل کی دھڑکن دو بار بڑھ جاتی ہے۔ یہ حالت امراضِ قلب میں مبتلا انسان کو ’’ڈینجرزون‘‘میں پہنچانے کے لیے کافی ہے۔
(20)دوست بنیے اور بنائیے…
دوستی قدرت کی عظیم نعمت ہے۔ اب یہ طبی لحاظ سے بھی مفید ثابت ہوگئی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ تنہا انسان ’’ڈپریشن‘‘ کا صحیح طرح مقابلہ نہیں کر پاتا اور بہت جلد امراضِ قلب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مگر دوست احباب رکھنے والے مردوزن پریشانی اور بے چینی سے چھٹکارا پانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
(21)گہرے رنگ کی چاکلیٹ منتخب کیجیے…
چائے کی طرح کوکا بھی خون پتلا کرنے والے فلاوونوئیڈ مادے رکھتا ہے۔ نیز چاکلیٹ کی ایک تہائی مقدار اولیک تیزاب رکھتی ہے۔ یہی مفید مونوان سیچوریٹڈ چکنائی زیتون کے تیل میں ملتی ہے۔ تاہم یاد رکھیے، فلاوونوئیڈ گہری رنگت والی چاکلیٹ میں ملتی ہے۔
(22)نمک کو نکال باہر کریں…
اگر آپ کا وزن زیادہ ہے، تو نمک ہرگز استعمال نہ کریں۔ ورنہ دل کی کسی بیماری سے جاں بحق ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
(23)بیگم سے تعلقات خوشگوار رکھیے…
امریکی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے محققوں نے تجربات سے جانا ہے کہ پریشان کن لمحات میں اگر میاں یا بیوی محض دس منٹ تک اپنے ساتھی کا ہاتھ تھامیں، تو بلڈ پریشر اور نبض کی رفتار کم ہونے میں مدد ملتی ہے۔
(24)ٹماٹر کی چٹنی معتدل مقدار میںکھائیے…
ٹماٹر میں لائکو پین مادہ ملتا ہے۔ یہ خون کی نالیوں میں کولیسٹرول جمع نہیں ہونے دیتا۔ لہٰذا ٹماٹر کی خالص چٹنی معتدل مقدار میں استعمال کیجیے۔
(25)وٹامنز بی کی روزانہ مطلوبہ مقدار لیجیے…
جدید طب نے دریافت کیا ہے کہ جن لوگوں کی غذا میں وٹامنز بی کی مقدار کم ہو، وہ امراضِ قلب کا شکار ہوجاتے ہیں۔
(26)مچھلیوں سے رغبت رکھیے…
مچھلیوں میں ایک مادہ، اومیگا تھری ملتا ہے۔ یہ دل کے عضلات کو قوی کرتا، فشار خون کم کرتا اور خون میں لوتھڑے بننے سے روکتا ہے۔ نیز جسم میں جان لیوا سوزش بھی پیدا نہیں ہونے دیتا۔ مزید برآں مچھلی پروٹین بھی فراہم کرتی ہے۔
(27)السی کے بیج کھائیے…
جو مردوزن مچھلی نہیں کھاتے، وہ السی کے بیج غذا میں شامل رکھیں۔ یہ اومیگا تھری مادوں کا عمدہ ذریعہ ہیں۔
(28)دوڑتے ہوئے تنوع رکھیے…
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انسان کا 10تا 15فیصد وزن بھی کم ہوجائے، تو انسانی جسم میں ذخیرہ شدہ چربی 25تا 40فیصد کم ہوجاتی ہے اور وزن کم کرنے کا ایک طریقہ دوڑنا ہے۔ اب تجربات سے افشا ہوا ہے کہ انسان بھاگتے ہوئے تیز اور کبھیآہستہ دوڑے، تو یوں وزن یکساں رفتار سے بھاگنے کی نسبت جلد کم ہوتا ہے۔
(29)کشتی رانی کیجیے…
ڈاکٹر دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو مشورہ دیتے ہیں کہ کشتی رانی کیجیے۔ یہ بھاگنے سے بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کشتی چلاتے ہوئے زیادہ عضلات استعمال ہوتے ہیں۔ دل پورے جسم میں زیادہ خون پمپ کرتاہے۔جس کے باعث یوں قلب کو مجموعی صحت حاصل ہوتی ہے۔
(30)فلو کا ٹیکا لگوائیے…
برطانوی ڈاکٹروں نے بعداز تحقیق جانا ہے کہ جو مردوزن فلو کا ٹیکا لگوائیں، وہ نہ لگوانے والوں کی نسبت امراضِ قلب میں مبتلا ہوتے ہیں۔
(31)پانی سے منہ نہ موڑیے…
امریکی لومانڈا یونیورسٹی کے محقق زوردار انداز میں سبھی کو مشورہ دیتے ہیں کہ روزانہ پانچ چھ گلاس پانی ضرور پیجیے۔ یوں دل کی بیماریاں چمٹنے کا خطرہ 60فیصد تک کم ہوجاتا ہے…سگریٹ نوشی ترک کرنے، بُرا (ایل ڈی ایل) کولیسٹرول کم کرنے اور وزن گھٹانے سے بھی انسان کو یہی فائدہ ملتا ہے۔
(32)گریپ فروٹ کھائیے…
یہ بڑے کام کا پھل ہے۔ صرف ایک گریپ فروٹ روزانہ کھانے سے خون کی نالیوں میں رکاوٹیں دور ہوتی ہیں، بُرے کولیسٹرول کی مقدار 10فیصد تک کم ہوتی اور بلڈ پریشرنارمل رہتا ہے۔
(33)ادرک غذا میں شامل رکھیے…
یہ قدرتی جڑی بوٹی کولیسٹرول کم کرتی اور چھوت (الرجی) کو دور بھگاتی ہے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہارٹ اٹیک یا آپریشن کے بعد دل کو صحت مند بناتی ہے۔ ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جن جانوروں کو روزانہ ادرک کھلائی جائے، وہ دوسروں کی نسبت دل کی حفاظت کرنے والے ضِد تکسیدی مادے زیادہ رکھتے ہیں۔
(34)کرومیم لیجیے…
جن مردوزن کی غذا میں کرومیم کم ہو، وہ دوسروں کی نسبت جلد امراضِ قلب کا نشانہ بنتے ہیں۔ بالغ کو روزانہ 200تا 400مائیکر وگرام کرومیم درکار ہوتا ہے اور عموماً غذا سے یہ مقدار حاصل نہیںہوپاتی۔ لہٰذا جو دل کے مریض ہوںِ وہ بذریعہ دوا یہ معدن لیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ ملٹی وٹامن لیںجس میں کرومیم پائکولائنیٹ (Picolinate)موجود ہو۔ کرومیم کی یہ مصنوعی قسم انسانی بدن میں باآسانی جذب ہوتی ہے۔
(35)اُٹھک بیٹھک کام آئے گی…
جی ہاں!کینڈین ماہرین نے آٹھ ہزار مردوزن پر تجربہ کرنے کے بعد جانا ہے کہ جو ایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ اُٹھک بیٹھک کرے۔ وہ دوسروں کی نسبت ’’13سال‘‘ زیادہ جیتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ پیٹ کے عضلات مضبوط رکھتا ہے اور وہاں چربی کا نام و نشان نہیں ہوتا اور پیٹ پر چربی جتنی کم ہو، دل کی بیماریاں بھی اتنی ہی کم چمٹتی ہیں۔
(36)پھلیاں کھائیے…
اللہ تعالی کی یہ نعمت انسانی بدن میں ہوموسیسٹائن کم کرنے والا معدن، فولیٹ اور کولیسٹرول روک ریشہ رکھتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو مرد و زن ہفتے میں تین چار بار پھلیاں کھائیں، ان میں امراضِ قلب پیدا ہونے کا امکان بہت گھٹ جاتا ہے۔
(37)ہاتھ دھوئیے…
جرمن سائنس دانوں نے 570 افراد پر تین برس تحقیق کی۔ اس تحقیق سے انھوں نے یہ دریافت کیا کہ جن افراد میں بیماریوں سے لڑنے والے ضدِ جسم (Antibodies) زیادہ ہوں، ان کے دل، گردن اور ٹانگوں کی نالیوں میں لوتھڑے پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ اپنی ظاہری و اندرونی جسمانی صفائی پرخاص توجہ دیجیے۔ واضح رہے صفائی کے باعث ضدِ جسم مادے کم جنم لیتے ہیں۔
(38) شاعری کی کتا ب پڑھیے…
سوئس ماہرین نے بعداز تجربہ جانا ہے کہ جو مردوزن روزانہ آدھا گھنٹا شاعری بلندآواز سے پڑھیں، ان کا ذہنی و جسمانی دبائو کم ہو جاتا ہے۔ یہ عمل دل کی بیماریاں چمٹنے نہیں دیتا۔
(39)چینی کے بجائے شہد استعمال کیجیے…
امریکی الینائے یونیورسٹی نے دریافت کیا ہے کہ شہد طاقت ور ضدِ تکسیدی مادے رکھتا ہے۔ یہ مادے امراضِ قلب کا خوب مقابلہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف چینی کا متواتر استعمال انسانی بدن میں اچھے ایچ ڈی ایل کی سطح کم کردیتا ہے۔ یوں دل کی بیماری لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا چینی کے بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ شہد سے ناتا جوڑیے۔
(40)مسکرائیے…
ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین پچھلے 10برس سے 1300مردوزن کی صحت پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ اس تحقیق سے یہ دلچسپ انکشاف ہوا کہ جو بالغ عموماً خوش و خرم رہتے اور مثبت انداز فکر رکھتے ہیں، امراضِ قلب ان کے قریب نہیں پھٹکتے۔
(41)پیشاب نہ روکیے…
یونیورسٹی آف چائنا میں محققوں نے دل کی بیماریوں میں مبتلا 100افراد پر مختلف تجربے کیے۔ ایک تجربے سے افشا ہوا کہ جو افراد طویل عرصہ پیشاب روکے رکھتے ہیں، اُن میں دل کی دھڑکن فی منٹ نو بار بڑھ جاتی ہے، جبکہ خون کا بہائو بھی 19فیصد تک سکڑ جاتا ہے۔ یہ دونوں عمل دل کا دورہ پیدا کرسکتے ہیں۔
(42)تیزآنچ پر کھانا مت پکائیے…
جب غذا تیز آنچ پر پکائی جائے، تو اُسے کھانے سے انسانی جسم میں خون کے ’’ایڈوانسڈ گلائسیشن اینڈ پروڈکٹس‘‘ نامی مرکبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مرکبات خلیے کی لچک کم کرتے اور امراضِ قلب جنم لینے کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔ لہٰذا کھانا ہمیشہ ہلکی آنچ پر پکائیے اور صحت مند رہیے۔
(43)گھر میں کاربن مونوآکسائیڈ سے خبردار رہیے…
گھر میں کئی اشیا مثلاً گیس ہیٹر، واشنگ مشین، ڈرائر، جنریٹر اور پٹرول سے چلنے والی تمام اشیا کاربن مونوآکسائیڈ گیس رکھتی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے یہ گیس لیک ہوجائے، تو وہ چند گھنٹے میں انسان کو مار ڈالتی ہے۔ لیکن اس گیس کی مسلسل لیک ہوتی معمولی مقدار بھی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ دراصل یہ خون میں لوتھڑے بناتی اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھاتی ہے۔ لہٰذا گھر میں دھیان رکھیے، کسی شے سے یہ گیس خارج تو نہیں ہورہی؟

(44)پوری نیند لیجیے…

برطانوی سائنس دان 70ہزار مردو خواتین کی صحت پر دس برس تک تحقیق کرتے رہے۔ اس تحقیق سے ایک نتیجہ یہ نکلا کہ جو افراد عموماً پانچ گھنٹے یا اس سے کم نیند لیں، ان میں دل کی بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس خرابی کی ایک وجہ یہ ہے کہ نیند کی کمی کا شکار لوگوں میں فیبر نیوجن مادے کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہی پروٹینی مادہ خون میں لوتھڑے بننے میں مدد دیتا اور دل و دماغ تک خون جانے سے روکتا ہے۔
(45)آلو کے چپس سے پرہیز بہتر…
امریکا میں محققین نے 14برس تک 80ہزار مردوزن کی غذائی عادات پہ نظر رکھی۔ جس سے انکشاف ہوا کہ وہ افراد سب سے زیادہ امراضِ قلب میں مبتلا ہوئے ہیں جن کی غذا میں ٹرانس فیٹی ایسڈ(Trans Fatty Acids)شامل تھے۔ چربی کی یہ قسم انسانی جسم میں برے ایچ ڈی ایل کولیسٹرول کی سطح بڑھاتی ہے جبکہ ایل ڈی ایل کی سطح گھٹاتی ہے۔ ٹرانس فیٹی ایسڈ آلو کے چپس،فرنچ فرائز وغیرہ میں بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا دل کی بیماریوں سے بچنا ہے، تو انھیں استعمال مت کیجیے۔
(46) دانت نکال باہر کریں…
بیس سال کی عمر تک ’’65فیصد‘‘ مرد وزن میں ایک ایسی عقل ڈاڑھ (Wisdom Tooth)ضرور ہوتی ہے جو صحیح طرح نکل نہیں پاتی۔ بہت سے مردوزن اسے بے ضرر سمجھ کر یونہی چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ جلد یا بدیر عقل ڈاڑھ کی خالی جگہ جراثیم کا گڑھ بن جاتی ہے۔ یہ جراثیم پھر متفرق بیماریاں پیدا کرتے ہیں جن میں پریوڈونسٹل مرض بھی شامل ہے۔ یہ مرض دل کی بیماریوں سے متعلق پایا گیا ہے۔
(47)ساتھی کو کبھی دھوکا نہ دیجیے…
لندن کے ڈاکٹروں نے دریافت کیا ہے کہ خصوصاً جو شوہر اپنی بیگم سے مخلص نہیں ہوں، وہ محبوبہ کے ساتھ گھومتے پھرتے جلد ہارٹ اٹیک کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ شاید ضمیر کی خلش ان کے دل پر زبردست دبائو ڈال کر اُسے’’کیس‘‘ کردیتی ہے۔
(48)کد و کھانے میں شامل رکھیے…
اسی سبزی کے بیج خصوصاً میگنشیمکاخزانہ ہیں۔ قلب صحت مند رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ روزانہ کم از کم 420ملی گرام یہ معدن ضرور غذا میں شامل ہو۔ میگنیشم کی کمی سے انسان میں بلڈ پریشر جنم لیتا ، کولیسٹرول کی سطح بڑھتی اور نالیوں میں لوتھڑے بننے لگتے ہیں۔
(49)پکانے کا تیل تبدیل کردیں…
بھارت میں ماہرین نے تجربات سے دریافت کیا ہے کہ تل کاتیل بلڈ پریشر کم کرتا ہے۔ دوران تجربہ افراد کو مکئی یا نباتاتی کھانے کا تیل نہیں بلکہ تلوں سے بنا تیل دیا گیا، تو ان کا بلند فشار خون نارمل ہوگیا۔ لہٰذا خدانخواستہ اگر آپ دل کی بیماری میں مبتلا ہیں، تو جیب کی اجازت پر تلوں کا تیل استعمال کیجیے۔

گنٹھیا جوڑوں کا درد


گنٹھیا جوڑوں کا درد (RHEUMATOID ARTHRITIS) ایک سوزش پیدا کرنے والی بیماری ہے جو درد‘ سوجن‘ اکڑا اور جوڑوں کی کارکردگی متاثر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اس کی کئی خاص علامات ہیں جو کہ اسے دوسری اقسام کے آرتھرائٹس (ARTHRITIS) (جوڑوں کے درد) سے ممتاز کرتی ہیں۔

مثال کے طور پر گنٹھیا ترتیب وار حملہ کرتی ہے یعنی اگر ایک گھٹنا یا ہاتھ اس سے متاثر ہوا ہے تو دوسرا گھٹنا یا ہاتھ اسی طرح متاثر ہوگا۔ یہ بیماری عام طور پر کلائی کے جوڑوں اور ہاتھ کے نزدیک انگلیوں کے جوڑوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ جوڑوں کے علاوہ جسم کے دوسرے حصوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بیماری کے شکار لوگوں کو تھکن محسوس ہوتی ہے۔ کبھی کبھی بخار ہو جاتا ہے یا مجموعی طور پر صحتمند نہ ہونے کا احساس حاوی رہتا ہے۔ گنٹھیا لوگوں پر مختلف طریقوں سے اثرانداز ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں میں کچھ ماہ کے اندر ایک سال میں یا دو سال تک رہ کر بغیر کسی قابل ذکر نقصان کے ختم ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگوں میں اس بیماری کی ہلکی اور کم شدید علامات ہوتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدتر ہو جاتی ہیں اور کچھ عرصہ میں یہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتر محسوس ہونے لگتی ہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں میں اس کی شدید ترین شکل دیکھنے میں آئی ہے جو بیشتر وقت متحرک ہوتی ہے اور زندگی میں کئی سال تک برقرار رہتی ہے اور جوڑوں کے سخت نقصان اور معذوری کا باعث بنتی ہے۔

گنٹھیا کی علامات
-1 ڈھیلے‘ گرم اور سوجے ہوئے جوڑ
-2 متاثرہ جوڑوں پر ترتیب وار اثر
-3جوڑوں کی سوزش جو اکثر متاثر کرتی ہے کلائی اور ہاتھوں کے نزدیک انگلیوں کے جوڑوں کو بشمول گردن‘ کندھوں‘ کہنیوں ‘ کولہوں‘ گھٹنوں‘ ٹخنوں اور پاؤں کو
-4تھکن‘ وقتاً فوقتاً بخار ہونا اور ہر وقت بیماری کا عام احساس
-5صبح اٹھنے کے بعد تقریباً آدھے گھنٹے تک شدید اکڑا اور درد
-6علامات کئی سال تک برقرار رہیں۔
-7لوگوں میں بیماری کے ساتھ ساتھ علامات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔
-8 اگرچہ گنٹھیا ( رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس) لوگوں کی زندگی اور کارکردگی پر بہت زیادہ اثرانداز ہو سکتی ہے۔ مگر ان کیلئے علاج کی جدید حکمت عملی جس میں درد کم کرنے والی دوائیں شامل ہوں‘ ایسی دوائیں جن سے جوڑوں کی کم ٹوٹ پھوٹ‘ ان کے آرام اور ورزش میں توازن اور مریضوں کی تربیت کے پروگرام اس بیماری سے متاثر لوگوں میں نئے سرے بہتر زندگی کا احساس پیدا کر سکتے ہیں اور وہ لوگ متحرک اور فعال زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ موجودہ سالوں میں جہاں رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس پر ریسرچ نے نیا رخ اختیار کیا ہے اس کے ساتھ ہی محققین نے اس بیماری کے علاج کے نئے اور بہتر طریقے بھی دریافت کئے ہیں۔

اس کے معاشی اور معاشرتی اثرات خواہ وہ کسی قسم کے آرتھرائٹس (ARTHRITIS) (جوڑوں کے درد) یا رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس کی وجہ سے ہوں نہ صرف افراد بلکہ قوم پر مرتب ہوتے ہیں۔

معاشی نقطہ نگاہ سے گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس ) کے علاج اور سرجری سے لاکھوں ڈالر سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔ روزانہ جوڑوں کا درد اس بیماری کی بڑی علامت ہے۔ اکثر لوگ اس وجہ سے ڈپریشن‘ بے چینی اور بے بسی محسوس کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی روزمرہ سرگرمیاں گنٹھیا کی وجہ سے متاثر ہوتی ہیں۔ خاندانی ذمہ داریوں اور خوشیوں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم آرتھرائٹس کے خود تنظیمی پروگرام موجود ہیں جو لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ درد پر قابو پانے اور بیماری کے دوسرے اثرات سے نبردآزما ہونے میں اور ان کی آزادانہ زندگی گزارنے میں رہنمائی کرتے ہیں۔

گنٹھیا کا درد کیسے بڑھتا اور پھیلتا ہے
جوڑ وہ مقام ہے جہاں دو ہڈیاں ملتی ہیں۔ ہڈیوں کے سروں پر کرکری ہڈی (CARTILAGE) ہوتی ہے جو دو ہڈیوں کی حرکت کو آسان بناتی ہے۔ جوڑ ایک کیپسول سے گھرا ہوتا ہے جو اس کی حفاظت کرتا اور اس کو سہارا دیتا ہے۔ جوڑ کا کیپسول ایک بافت سے جڑا ہوتا ہے جس کو سائنووئیم(SYNOVIUM) کہتے ہیں جو کہ سائنوویل رطوبت (CYNOVIAL FLUID) پیدا کرتی ہے۔

سائنوویل مائع (SYNOVIAL FLUID )
یہ ایک شفاف مادہ ہوتا ہے جو (CARTILAGE) (کرکری ہڈی)‘ ہڈیوں اور جوائنٹ کیپسول کو تر کرتا ہے اور طاقت دیتا ہے۔

دوسری بہت سی رہمیٹیک (RHEUMATIC) بیماریوں کی طرح گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس) بھی ایسی بیماری ہے جس میں انسان مدافعتی نظام اس کے خلاف کام کرنے لگتا ہے۔ عام طور پر ایک آدمی کا مدافعتی نظام جو اس کے جسم کو بیماریوں کے خلاف تحفظ دیتا ہے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس کے جوڑوں کے ٹشوز پر حملہ کر دیتا ہے۔ سفید خلیے جو مدافعتی نظام جو اس کے جسم کو بیماریوں کے خلاف تحفظ دیتا ہے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس کے جوڑوں کے ٹشوز پر حملہ کر دیتا ہے۔ سفید خلیے جو مدافعتی نظام کے کارکن ہیں۔ سائنوویئم کی طرف سفر شروع کر دیتے ہیں اور سوزش کا باعث بنتے ہیں۔ جس کی وجہ سے گرمی‘ سوجن‘ سرخی اور درد ہوتا ہے جو رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس کی روایتی علامات ہیں۔ سوزش کے عمل کے دوران سائنوویئم (SYNOVIUM) گاڑھا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے جوڑ سوج جاتے ہیں اور چھونے سے اکڑا کا احساس ہوتا ہے۔

جیسے جیسے بیماری بڑھتی ہے سائنوویم (SYNOVIUM) پھیلتا جاتا ہے اور کرکری ہڈی(CARTILAGE) کے ساتھ جوڑ کی ہڈی کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ ارد گرد کے پٹھے اور عضلات کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس ) ہڈیوں کیلئے بہت نقصان کاباعث ہوتا ہے یہاں تک کہ ہڈیوں میں کھوکھلا پن آسٹیوپروسیس(OSTEOPOROSIS) پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

جوں جوں گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس) بڑھتا ہے۔ سوزش زدہ سائنوویم (SYNOVIUM) پھیلتا جاتا ہے اور (CARTILAGE)کرکری وہڈی اور جوڑ کو تباہ کر دیتا ہے۔ ارد گرد کے پٹھے اور عضلات جو جوڑ کو سہارا دیتے اور قائم رکھتے ہیں کمزور ہو جاتے ہیں اور عام طور پر کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس کے نتیجے میں شدید درد ہوتا ہے اور جوڑ متاثر ہوتے ہیں۔

محققین (RESEARCHERS) اس بات پر متفق ہیں کہ گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس )سے متاثر شخص کی صحت پہلے یا دوسرے سال ہی متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس لئے اس کی بروقت تشخیص اور علاج کی اشد ضرورت ہے۔

اس بیماری سے متاثر کچھ لوگوں میں جوڑوں کی خرابی کے علاوہ دوسری علامات بھی پائی جاتی ہیں۔ بہت سے گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس )کے مریض خون کی کمی کا شکار ہوتے ہیں یا ان میں خون کے سرخ خلیے بننے کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ گردن کے درد منہ اور آنکھوں کی خشکی سے متاثر ہوتے ہیں۔ بہت کم لوگوں میں خون کی نالیوں‘ پھیپھڑوں کی بیرونی جھلی اور دل کی بیرونی جھلی کی سوزش ہوتی ہے۔

جوڑوں کا درد ہر نسل اور جنس کے لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بیماری درمیانی عمر کے لوگوں سے شروع ہوتی ہے لیکن بڑی عمر کے متاثرین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ بچوں اور نوجوانوں میں بھی بڑھ سکتی ہے۔ دوسری اقسام کے آرتھرائٹس کی طرح رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس بھی مردوں کی نسبت عورتوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ متاثرہ خواتین کی تعداد متاثر مردوں سے دو یا تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔

سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق 2.1 ملین لوگ یا امریکہ میں بالغوں کی آبادی کا 0.5 سے 1 فیصد تک گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس )سے متاثر ہے۔ سائنسدان اب تک صحیح طور پر یہ نہیں جان سکے کہ انسان کا مدافعتی نظام اس کے خلاف کام کرنا کیوں شروع کر دیتا ہے۔ لیکن پچھلے چند سالوں کی تحقیق کے بعد یہ چند عوامل منظر عام پر آئے ہیں۔

جینیاتی (وراثتی) عوامل
سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ کچھ جینز مدافعتی نظام میں گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس )کے رحجان کو بڑھانے میں کردار ادا کرتے ہیں اور مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

کچھ متاثرین میں یہ خاص جینز موجود نہیں ہوتے اور کچھ لوگوں میں ان کے جینز کی موجودگی بھی بیماری کو نہیں بڑھاتی۔ کچھ متنازعہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی جینیاتی ساخت اس کا باعث ہے کہ آیا اس کے اندر یہ بیماری نشوونما پاتی ہے یا نہیں۔ لیکن اس کی صرف یہی ایک وجہ نہیں ہے۔ تاہم اس میں ایک سے زیادہ جینز ملوث ہو سکتے ہیں کہ کسی شخص کو یہ بیماری متاثر کرے گی یا نہیں یا اس کی شدت کتنی ہو گی۔

ماحولیاتی عوامل: سائنسدانوں کے خیال کے مطابق جینیاتی طور پر اس بیماری کے حامل لوگوں میں کچھ بیرونی عوامل اور اس کی بڑھوتری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جس میں وائرل اور بیکٹیریل انفیکشن ہو سکتے ہیں۔ مگر اب تک اصل وجہ کا پتہ نہیں چل سکا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس چھوت کی بیماری ہے اور یہ ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ سکتی ہے۔

دیگر عوامل بعض سائنسدانوں کے خیال میں ہارمونی نظام کی تبدیلیاں بھی اس بیماری میں کارفرما ہوتی ہیں۔ خواتین میں مردوں کی نسبت یہ بیماری جلد بڑھتی ہے۔ حمل کے دوران اور بعد یہ بیماری بڑھ بھی سکتی ہے۔ بچے کو دودھ پلانے کے عمل کے دوران بھی اس بیماری میں اضافے کا امکان ہے۔

اگرچہ تمام جوابات اب تک کسی کے علم میں نہیں مگر ایک بات یقینی ہے کہ یہ مرض بہت سے عوامل کے باہم ملاپ کا نتیجہ ہے۔ محققین ان عوامل پر تحقیق میں مصروف ہیں۔

تشخیص: گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس) کی تشخیص اور علاج کیلئے مریضوں اور معالجین کی باہمی کوشش کا بہت عمل دخل ہے۔ ایک شخص اپنے خاندانی معالج یا کسی رہیماٹالوجسٹ کے پاس جا سکتا ہے۔ وہ اپنے مرض کے بارے میں مشورہ کر سکے۔ رہیماٹولوجسٹ ایسا ڈاکٹر ہوتا ہے جو جوڑوں کے درد اور دیگر بیماریوں کا ماہر ہو جن میں ہڈیاں پٹھے اور جوڑ شامل ہیں۔

اس کے علاج میں دوسرے پیشہ ور بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جن میں نرسیں اور فزیوتھراپسٹ آرتھوپیڈک سرجن‘ ماہر نفسیات ‘ہومیوپیتھک ڈاکٹر اور سوشل ورکر شامل ہیں۔

گنٹھیا(رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس )کی تشخیص ابتدائی مراحل میں کئی وجوہات کی بنا پر مشکل ہو سکتی ہے۔ سب سے پہلے اس بیماری کیلئے کوئی خاص ٹیسٹ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ مختلف لوگوں میں مرض کی مختلف علامات ہوتی ہیں اور کچھ لوگوں میں اس مرض کی شدت دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اس مرض کی علامات بعض اوقات عام قسم کے جوڑوں کے درد اور آرتھرائٹس سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ اسلئے بعض اوقات اس کی دوسری حالتوں کو دریافت کرنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ آخرکار تمام علامات وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتی ہیں۔ ابتدائی مراحل میں صرف چند علامات موجود ہوتی ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ڈاکٹر مختلف طریقوں سے اس کی تشخیص کرتے ہیں۔

میڈیکل ہسٹری: یہ مریض کی زبانی ان علامات کا بیان ہوتا ہے کہ یہ مرض کب اور کیسے شروع ہوا۔ مریض اور معالج کے درمیان بہتر رابطہ اس سلسلے میں بہت اہم ہے۔

مثال کے طور پر مریض کا جوڑوں کے اکڑا‘ سوجن جوڑوں کی کارکردگی کے بارے میں بیان اور یہ سب کچھ کس طرح وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔ یہ ڈاکٹر کو مرض کے بارے میں ابتدائی اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے اور یہ اندازہ لگانا آسان ہوتا ہے کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ کیسے تبدیل ہوتا ہے۔

طبی معائنہ: طبی معائنہ میں ڈاکٹر جوڑوں جلد عضلات اور پٹھوں کی قوت کا اندازہ لگاتا ہے۔

لیبارٹری میں تشخیص: ایک عام امتحان رہیماٹائیڈ فیکٹر(rheumatoid factor) کیلئے ایک اینٹی باڈی کا ٹیسٹ ہوتا ہے جو گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس) کے مریض کے خون میں موجود ہوتا ہے۔ (اینٹی باڈی ایک خاص قسم کی پروٹین ہوتی ہے جس کو مدافعتی نظام پیدا کرتا ہے۔ بیرونی عوامل کے خلاف جسم میں مدافعت پیدا کرنے کیلئے) تمام گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس )کے مریضوں میں رہیماٹائیڈ فیکٹر کا نتیجہ +Ve نہیں ہوتا۔ خاص طور پر بیماری کے شروع دنوں میں۔ کچھ لوگوں میں بیماری زیادہ نہ بڑھنے کی صورت میں رہیماٹائیڈ فیکٹر کا نتیجہ +Ve نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اس بیماری میں وائٹ بلڈ کانٹ(white blood cell count)‘ انیمیا (anemia)کا ٹیسٹ اور سیڈ ریٹ (sedimentation rate (often called the sed rate))ٹیسٹ بھی کئے جاتے ہیں۔ سیڈ ریٹ ٹیسٹ جسم میں سوزش کی مقدار کا اندازہ لگانے کیلئے کیا جاتا ہے۔

ایکس ریز: جوڑوں میں ٹوٹ پھوٹ کی حالت کو دیکھنے کیلئے ایکس ریز کئے جاتے ہیں۔ بیماری کی ابتدائی حالت میں جس وقت ہڈیوں کے بھربھرا ہونے کا مشاہدہ نہ ہو ایکس رے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لیکن بعد میں بیماری میں اضافہ اور شدت کا اندازہ لگانے کیلئے ایکس ریز استعمال کئے جاتے ہیں۔