Saturday, 26 July 2014

چنے کھائیے، صحت پائیے

چنے کھائیے، صحت پائیے
دکانوں اور بازاروں میں عام دسیتاب چنے بڑی مفید غذا ہے۔ اسی لیے بحیرہ روم میں ساڑھے سات ہزار سال قبل اِسے بطور اناج بویا گیا۔ یہ دنیا کے قدیم ترین اناجوں میں شامل ہے۔
چنا دالوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی دو بنیادی اقسام ہیں:کالا چنا اور سفید چنا۔ دونوں وٹامن اور معدنیات سے بھرپور غذا ہیں۔ بھارت، پاکستان، ترکی، آسٹریلیا اور ایران میں چنا کثیر تعداد میں پیدا ہوتا ہے۔
چنا ایک دو نہیں کئی طبی فوائد رکھتا ہے۔ اس میں فولاد، وٹامن بی 6، میگنیشم، پوٹاشیم اور کیلشیم کافی مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ فاسفورس، تانبے اور میگنیز کی بھی خامی مقدار ملتی ہے۔ چنے کے طبی فوائد درج ذیل ہیں۔
وزن کم کیجیے
چنے میں ریشہ (فائبر) اور پروٹین کثیر مقدار میں ملتے ہیں۔ پھر اس کا گلائسیمک انڈکس بھی کم ہے۔ اسی بنا پر چنا وزن کم کرنے کے سلسلے میں بہترین غذا ہے۔ کیونکہ عموماً ایک پلیٹ چنے کھا کر آدمی سیر ہوجاتا ہے اور پھر اُسے بھوک نہیں لگتی۔
دراصل چنے کا ریشہ دیر تک آنتوں میں رہتا ہے۔ لہٰذا انسان کو بھوک نہیں لگتی۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو مرد و زن دو ماہ تک چنے کو اپنی بنیادی غذا رکھیں، وہ اپنا آٹھ پونڈ وزن کم کرلیتے ہیں۔ یاد رہے، ایک پیالی چنے عموماً پیٹ بھر دیتے ہیں۔
نظام ہضم کا معاون
چنے میں ریشے کی کثیر مقدار اُسے نظام ہضم کے لیے بھی مفید بناتی ہے۔ یہ ریشہ آنتوں کے جراثیم (بیکٹریا) کو مختلف مفید تیزاب مہیا کرکے انھیں قوی بناتا ہے۔ نتیجتاً وہ آنتوں کو کمزور نہیں ہونے دیتے اور انسان قبض و دیگر تکلیف دہ بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
ضد تکسیدی مادوں کی فراہمی
انسانی جسم میں آزاد ا اصلیے (مضر صحت آکسیجن سالمے) مختلف اعضا کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ضد تکسیدی مادے(Antioxidants)انہی سالمات کا توڑ ہیںجو مختلف صحت بخش غذائوں میں ملتے ہیں۔ ان غذائوں میں چنا بھی شامل ہے۔ چنوں میں مختلف ضد تکسیدی مادے مثلاً مائریسٹین(Myricetin)، کیمفوریل، کیفک ایسڈ، وینلک ایسڈ اور کلوروجینک ایسڈ وغیرہ ملتے ہیں۔ ان کے باعث چنا مجموعی انسانی صحت کے لیے بہت عمدہ غذا ہے۔
کولیسٹرول میں کمی
جسم میں کولیسٹرول بڑھ جائے،تو امراض قلب میں مبتلا ہونے اور فالج گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ چنے اپنے مفید غذائی اجزا کی بدولت فطری انداز میں کولیسٹرول کی سطحکم کرتے ہیں۔ ایک تجربے میں ماہرین نے ان مرد و زن کو ایک ماہ تک آدھی پیالی چنے کھلائے جن کے بدن میں کولیسٹرول زیادہ تھا۔ ایک ماہ بعد ان کے کولیسٹرول میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔
دراصل چنے میں فولیٹ اورمیگنیشم کی خاصی مقدار ملتی ہے۔ یہ وٹامن و معدن خون کی نالیوں کو طاقتور بناتے اور انھیں نقصان پہنچانے والے تیزاب ختم کرتے ہیں۔ نیز حملہ قلب(ہارٹ اٹیک)اِمکان بھی کم ہوجاتا ہے۔
گوشت کا بہترین نعم البدل
چنے میں خاطر خواہ پروٹین ملتا ہے۔ اگر اسے کسی اناج مثلاً ثابت گندم کی روٹی کے ساتھ کھایا جائے، تو انسان کو گوشت یا ڈیری مصنوعات جتنی پروٹین حاصل ہوتی ہے اور بڑا فائدہ یہ ملتا ہے کہ نباتی پروٹین زیادہ حرارے یا سیچوریٹیڈفیٹس نہیں رکھتی۔
ذیابیطس کی روک تھام
چنے اور دیگر دالیں کھانے والے ذیابیطس قسم 2 کا شکار نہیں ہوتے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ غذائیں زیادہ ریشہ اور کم گلائسیمک انڈکس رکھتی ہیں۔ اسی باعث ان میں موجود کاربوہائیڈریٹ آہستہ آہستہ ہضم ہوتے ہیں۔ اسی عمل کے باعث ہمارے خون میں شکر یک دم اوپر نیچے نہیں ہوتی اور متوازن رہتی ہے۔
یاد رہے، انسان جب کم ریشے والی کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور غذا کھائے، تو اُس کے خون میں شکر بہت تیزی سے اوپر نیچے ہوتی ہے۔جب یہ عمل معمول بن جائے، تو انسولین نظام گڑبڑا جاتا ہے۔ یوں ذیابیطس قسم 2جنم لیتا ہے۔
توانائی میں اضافہ
چنے میں شامل فولاد، مینگنیز اور دیگر معدن و حیاتین انسانی قوت بڑھاتے ہیں۔ اسی لیے چنا حاملہ خواتین اور بڑھتے ہوئے بچوں کے لیے بڑی مفید غذا ہے۔ یہ انھیں بیشتر مطلوبہ غذائیت فراہم کرتا ہے۔
مزید برآں چنا ساپونینز (Saponins) نامی فائٹو کیمیکل رکھتا ہے۔ یہ کیمیائی مادے ضد تکسید کا کام دیتے ہوئے خواتین کو سینے کے سرطان سے بچاتے۔ نیز ہڈیوں کی بوسیدگی کے مرض سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔
چنوں کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اُسے کئی ماہ تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے اور ان کی غذائیت کم نہیں ہوتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انھیں بھگونے کے بعد استعمال کیا جائے،تو بہتر ہے۔ یوں وہ جلد ہضم ہوجاتے ہیں۔ چنوں کو چار تا چھ گھنٹے بھگونا کافی ہے۔ بھگونے کے بعد چنے جتنی جلد استعمال کیے جائیں، بہتر ہے۔ چنے بھگوتے ہوئے اُن میں تھوڑا سا نمک اور میٹھا سوڈا ڈال لیا جائے، تو وہ جلد گل جاتے ہیں۔ - 

ریح ہار… جوڑوں کی ایک انتہائی پیچیدہ بیماری


ریح ہار… جوڑوں کی ایک انتہائی پیچیدہ بیماری
(ریموٹائیڈآرتھرائٹس کو اْردو زبان میں گھٹیا وجع مفاصل کہاجاتاہے۔ اردو،فارسی اور کشمیری زبان میں اس بیماری کو ریح ہار کا نام دیا گیاہے)
ریح ہار کو ڈاکٹری اصطلاح میں ریموٹائیڈ ا?رتھرائیٹس (RHEUMATIOD ARTHRITIS) کہا جاتاہے۔ یہ کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں میں جوڑوں کی سب سے زیادہ اورعام بیماری ہے۔تقریباً ہر سو افراد میں سے ایک فرد اس مرض میں مبتلا ہوتاہے۔ ا?رتھرائٹس کے لغوی معنی ہیں متورم یا ملہتب جوڑ۔آرتھرویونانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں جوڑ اور آئٹس (ITIS)یعنی ورم یا التہاب۔ بطور کْلی آرتھرائٹس کی ایک سو بیس قسمیں ہیں مگر ریح ہار جوڑوں کی سب سے زیادہ عام اور پیچیدہ بیماری ہے۔ یہ بیماری کسی بھی فرد کو بلالحاظ رنگ ونسل ، مذہب وعقیدہ سِن اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے مگر پچیس اور پچاس برس کی عمر کے اشخاص کو زیادہ تر اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔عورتوں میں مردوں کے مقابلے اس بیماری کی شرح تین گنا زیادہ ہے اور یہ بیماری دوسو برس قبل طبی دنیا میں دریافت ہوچکی ہے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جوڑوں کی یہ بیماری ا?غاز سے لیکر دو تین برسوں تک مریض کے جوڑوں کو خاصا ضرر پہنچاتی ہے اسلئے لازمی ہے کہ اس بیماری کا ابتدائی مرحلے میں تشخیص دیا جاسکے تاکہ مریض کو بروقت مناسب وموزوں علاج بہم پہنچا کراسکے جوڑوں کو ناکارہ ہونے سے بچایا جاسکے۔ دنیا کے سبھی سائنس دان ، محقق او ر ڈاکٹر ابھی تک اس تحقیق میں مصروف ہیں کہ اس بیماری کی اصل وجہ کیاہے۔ ابھی تک صرف یہ پتہ چلا ہے کہ یہ ایک خود مصّون(Auto immune) بیماری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے جسم کا نظام مدافعت(جو جسم کو انواع واقسام کی عفونتوں سے بچانے کا کام کرتاہے) کچھ کیمیائی مادے پیدا کرتاہے جو جوڑوں کی اندرونی تہوں پر حملہ آور ہوکر ان میں ورم اور درد پیدا کرتے ہیں ۔ دوسرا تازہ ترین فرضیہ یہ ہے کہ اس بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد کے اجسام میں ایک الگ اور خاص قسم کا نظام مدافعت ہوتاہے اور وہ کسی خاص عکس العمل اور دبائو کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں … باور کیا جاتاہے کہ یہ مرض موروثی ہے لیکن یہ بات بھی ابھی پوری طرح ثابت نہیں ہوسکی ہے۔ یہ بیماری وراثت میں نہیں ملتی ہے لیکن جن خاندانوں میں یہ بیماری پائی جاتی ہے ان کی آئندہ نسل کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جب نظام مدافعت کسی وجہ سے دبائو میں آکر مجبور ہو جاتاہے تو وہ خاص قسم کے لمحیات (انٹی باڈیز) جن کو ریموٹائیڈفیکٹرRheumatiod Factorکہا جاتاہے ،پیدا کرکے جوڑوں کے اندرونی حصوں کو نقصان پہنچاتاہے، اسی لئے خون کے ٹیسٹ میں ا?رفیکٹر مثبت ہوتاہے اور یہ جوڑوں کی اس بیماری کا ایک اہم ٹیسٹ ہے۔
علامات:
اس بیماری کے خاص علائم درج ذیل ہیں ۔
rدرد ، احساس خستگی ، تھکاوٹ ، شدید کمزوری ، چڑچڑا پن اور جوڑوں کے حرکات میں دشواری، جوڑوں میں درد اور ورم خاص کر ہاتھوں او رپیروں کے جوڑوں میں ۔
r جوڑوں میں ''سختی'' خاص کر صبح کے وقت۔
r جوڑوں میں ورم خاص کر ہاتھوں پیروں کے جوڑوں اور گھٹنوں میں ۔
r لگاتار احساسِ کمزوری اور کچھ نہ کرنے کی سکت۔
rجوڑوں کے ارد گرد عضلات اور دیگر نسیجوں کی کمزوری کی وجہ سے کام کرنے میں دشواری۔
rرات کو نیند نہ آنا۔ جوڑوں میں درد کی وجہ سے مریض کی نیند روٹھ جاتی ہے۔
rبعض مریضوں کے جسم میں جلد کی تہہ کے نیچے چھوٹی چھوٹی گٹھلیاں سی ظاہر ہوتی ہیں ۔ جنہیں ریموٹائیڈنوڈول کہا جاتاہے اگر کہنیوں کی ہڈیوں کے ا?س پاس ظاہر ہوتی ہیں تو یہ کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر یہ ا?نکھوں یا پھیپھڑوں میں نمودار ہوتی ہیں تو مریض کے لئے کسی حد تک ضرر رساں ہوسکتی ہیں ۔
کیا ریح ہار قابل علاج ہے ؟
بدقسمتی سے ابھی تک ریموٹائیڈآرتھرائٹس کے لئے کوئی مکمل اور حتمی علاج دریافت نہیں ہواہے۔لیکن پھر بھی دورِ حاضر کے علاج سے مریض کودرد اور ورم سے نجات دلانے کے علاوہ جوڑوں کو ناکارہ ہونے سے بچایا جاسکتاہے۔ چونکہ اس بیماری میں مبتلا مریض کے جوڑوں کو ابتدائی دو برسوں میں زبردست نقصان پہنچتاہے ، اسلئے ابتدائی مرحلے میں تشخیص اور علاج ومعالجہ بے حد ضروری ہے۔ اگر صحیح ڈھنگ سے علاج نہ کیا گیا تومریض کے جوڑ ہمیشہ کے لئے ناقص یا ناکارہ ہو کر رہ جاتے ہیں اور اگر بیماری اندرونی اعضائ کو متاثر کرتی ہے تو یہ مریض کو موت سے بھی ہمکنار کروا سکتی ہے۔ اب جب کہ یہ بات عیاں ہے کہ اس بیماری کا کوئی حتمی علاج میسر نہیں ہے ، پھر معالج کے پاس جانے کا فائدہ کیا ہے ؟ معالج کی تجویز کردہ ادویات سے مرض پرقابو پایا جاسکتاہے اور مریض کسی خاص مدت تک ایک ا?رام دہ زندگی گذار سکتاہے۔ بعض مریضوں کے علائم ادویات کے بغیر بھی ناپید ہو جاتے ہیں اور پھر کچھ وقفے کے بعد کسی خاص موسم میں کسی خاص وجہ سے دوبارہ ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ بیماری کا حملہ دس ماہ کے بعد ہوتاہے۔ اس دوران مریض بیماری کے علائم سے بے خبر رہتاہے…اور وہ سوچتا ہے کہ اسکی بیماری نے اسکا پیچھا چھوڑ دیا مگر کچھ ماہ کے بعد وہ دوبارہ بیماری کے چنگل میں پھنس جاتاہے۔
شاید یہی وجہ ہے یا نامعلوم وجوہات کی بنائ پر ، یا پھر مریضوں کی عدم واقفیت کی وجہ سے کشمیر میں اس بیماری میں مبتلا مریض (خاص کر عورتیں ) اپنے ہاتھوں میں ، وزنی تھیلے( جن میں ڈاکٹروں کے نسخے، لیبارٹری کی رپورٹیں اور ایکسرے ، سی ٹی اسکین اور ایم ا?ر ا?ئی کی رپورٹیں بھی ہوتی ہیں )لئے ایک کلینک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے پھرتے رہتے ہیں اور ہر ایک دو ماہ بعد معالج بدلتے رہتے ہیں ۔ جہاں بھی سنا کہ فلاں جگہ اس بیماری کا ''علاج'' ہوتاہے وہاں حاضری دینا اپنا اوّلین فرض سمجھتے یا سمجھتی ہیں (آخر صحت کا سوال ہے اور انسان مجبور ہے) … نہ صرف ڈاکٹروں کے مطّبوں میں بلاناغہ حاضری دی جاتی ہے بلکہ نقلی پیروں ،فقیروں ، نیم حکیموں کی تجویز کردہ ہر ممکن دوائیاں ، جڑی بوٹیاں وغیرہ بھی استعمال کی جاتی ہیں … ہمارے سماج میں بے شمار نقلی پیر صاحبان اس بیماری کا علاج ''شیرینی '' اور ''مٹی کے دانوں '' سے کرتے ہیں … حیرت کی بات یہ ہے کہ مریض کے جوڑوں کے درد اور ورم میں خاصا فرق پڑتاہے اور مریض '' پیر صاحب'' کے معجزہ کے قائل ہوجاتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ مریض شیرینی اور مٹی میں ملائے گئے ''سٹیرائیڈ (STEROID)دوائی '' سے بے خبر ہوتاہے۔ جی ہاں ہمارے نقلی پیر فقیر اور رنگے سیار ایسے مریضوں کو مختلف ''چیزوں ''میں دوائیاں ملا کر کھلاتے ہیں اور اپنی مہارت اور تجربے کاسکہ بٹھاتے ہیں ۔ اگر مریض کو تشخیص کے وقت ہی معالج اس مرض کے بارے میں مفصل اور مکمل جانکاری دے دے تو وہ مریض پر احسان کرتاہے ، وہ اس کا قیمتی وقت اور اسکا خون پسینہ بہاکر کمایا ہوا پیسہ برباد ہونیسے بچا سکتاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مریض اس بیماری کے متعلق مکمل واقفیت رکھتا ہو تاکہ وہ اپنی زندگی ا?رام سے گذار سکے۔
تشخیص:
lمریض اپنا شرح ِحال (History) مفصل طور معالج کے سامنے بیان کرے اور اسے نہ صرف اپنی جسمانی حالت سے بلکہ ذاتی ،نجی ، سماجی ، اقتصادی حالات سے بھی باخبر کرے…اور کوئی بھی بات اْس سے پوشیدہ نہ رکھے۔
lمعالج مریض کا تفصیلی معائنہ کرے۔ نہ صرف جوڑوں کا بلکہ جسم کے ہر حصّے کا بغور معائنہ کرے۔
lخون کے ٹیسٹ جن میں خون کی مکمل جانچ CBCاور ESRکے علاوہ آرفیکٹر (RـFactor) لازمی ہیں ۔
lمتاثر شدہ جوڑوں کا ایکسرے کروانا لازمی ہے۔
یاد رہے کہ صرف آرفیکٹر مثبت ہونے سے اس بیماری کا تشخیص نہیں دیا جاسکتاہے۔ کیونکہ کچھ اور بیماریاں بھی ہیں جن میں مبتلا اشخاص کا یہ Test مثبت ہوتاہے اسلئے معالج کا فرض ہے کہ ان بیماریوں کی طرف بھی خصوصی توجہ دے۔ جب بیماری کا تشخیص ہو تو مریض کا یہ پیدائشی حق ہے کہ وہ اپنے معالج سے اپنی بیماری اور علاج کے متعلق پوری پوری جانکاری حاصل کرے اور اسی طرح معالج کا بھی یہ اولین فرض ہے کہ وہ مریض کو اس بیماری اور دوائیوں کے متعلق مفصل جانکاری فراہم کرے تاکہ مریض یہ تسلیم کرلے کہ یہ بیماری ہمیشہ کے لئے اسکے ساتھ رہنے والی ہے۔ دوائیوں سے صرف وہ علائم پر قابو پاسکتاہے یا کچھ دوائیوں سے بیماری کا رْخ موڑا جاسکتاہے۔
علاج :
Eادویات ـ ضدِ درد اور ضدِ التہاب ادویات۔ کچھ دوائیاں ایسی ہیں جن سے مریض کے جوڑوں کے درد اور ورم میں افاقہ ہوتاہے اور وہ درد کی تڑپ سے آزاد زندگی گذارنے کا اہل ہوجاتاہے۔ ان دوائیوں کا انتخاب بھی مریض کی جسمانی اور ذہنی حالت کو مدنظر رکھ کر کیا جاتاہے۔ مختلف مریضوں میں مختلف قسم
کی ادویات تجویز کی جاتی ہیں کیونکہ ان دوائیوں کے اثراتِ جانبی ہر مریض کے لئے جداگانہ ہوتے ہیں ۔ اسلئے ادویات کے مثبت ومنفی اثرات کے بارے میں پوری پوری جانکاری رکھنا ہر مریض کے لئے لازمی ہے۔
Eدوسری قسم کی ادویات وہ ہیں جن سے بیماری کا رْخ موڑا جاسکتاہے یعنی مرض کی شدت کوحتی الامکان کم تر کیا جاتاہے۔ ایسی دوائیاں صرف ان معا لجین کی زیر نگرانی لینی چاہئیں جنہوں نے اس بیماری کے علاج ومعالجہ میں کمال مہارت حاصل کی ہو… کچھ مدت تک ادویات کا استعمال کرنے کے بعد کچھ خاص قسم کی ا?زمائشات انجام دینا اشد ضروری ہے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ان ادویات سے جسم کا کوئی اور عضو متاثر تو نہیں ہواہے۔مریض کو ہر دوائی کے بارے میں مفصل جانکاری ہونی چاہئے۔ اگر معالج جلد بازی میں جانکاری فراہم کرنے میں ناکام رہے تو مریض خود دوائیوں کے ساتھ رکھا ہوا لٹریچر پڑھ لے یا کسی تعلیم یافتہ فرد سے جانکاری حاصل کرے اور احتیاطی تدابیر پر پوری طرح عمل کرے۔
ادویات کا بلاناغہ اور طبق دستورِ معالج استفادہ کرنے کے علاوہ مریض ہلکی پھلکی ورزش کرنے کو اپنا معمول بنائے۔ اگر جوڑوں میں کوئی خاص خرابی شروع نہیں ہوئی ہو تو وہ روزانہ پیدل چلنے کو اپنا معمول بنائے یا کوئی اور ایسی ورزش باقاعدگی سے انجام د ے جس سے اسکے متاثرہ جوڑوں کو کوئی ضرر نہ پہنچے۔ ورزش کیلئے کسی ''فیزیوتھراپسٹ''سے مشورہ کرنا زیادہ بہترہے۔
پرہیز:
کشمیر میں رائج خرافات اور باطل عقائد کے برعکس اس مرض میں کسی ''خاص قسم کا پرہیز'' نہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جوڑوں کی اس عام اور پیچیدہ بیماری میں مبتلا مریض ایک بہترین مناسب وموزون غذا کھائے۔ مریض اپنی غذا میں تازہ سبزیوں اور میوہ جات کی وافر مقدار استعمال کرے۔ سالم اناج اور ریشہ والی غذائیں ،گوشت ، پنیر ، انڈے ،خشک میوے اپنی غذا میں شامل کرے۔ چربی ، نمک اور کھانڈ کا استعمال کم کرے۔سگریٹ نوشی ،شراب نوشی سے مکمل پرہیز لازمی ہے۔ جن اشیائ میں کیلشیم زیادہ ہو انہیں اپنی غذا میں شامل کرے ، اپنا وزن اعتدال میں رکھے۔ ہر مریض کوشش کرے کہ ایک صاف ستھرا ،پاکیزہ ،منظم ومرتب طرزِ زندگی گذارے۔ اپنے ذہن کو سکون بخشنے کے لئے روزانہ عبادت کرے کیونکہ ایسے مریض ہر وقت ذہنی دبائو ، تنائو اور کچھائو کے شکار ہوتے ہیں جس سے مرض کی شدت بڑھنے کا احتمال ہوتاہے۔
یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ ریح ہار(وجع مفاصل ، گٹھیا) کیلئے ابھی تک طبی دنیا میں کوئی ایسی دوائی دریافت نہیں ہوئی ہے جس سے یہ بیماری جڑ ہی سے ختم ہولیکن پھر بھی وہ دوائیاں موجود ہیں جن کے استعمال سے مریض ایک آرام دہ زندگی گذار سکتاہے۔بشرطیکہ وہ اپنے مرض کے بارے میں صد درصد جانکاری رکھتاہو بصورت دیگر اسکی زندگی عذاب بن جاتی ہے

پودینہ ۔ ایک معجزاتی پودا


پودینہ ۔ ایک معجزاتی پودا
کھانوں کو خوش ذائقہ اور خوشبو دار بنانے کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔پودینہ کی چائے‘ دوائی کے لحاظ سے بہت مفید ہے۔ اس کا استعمال بد ہضمی‘ کھانسی‘ زکام میں کیا جاتا ہے ‘ دن بھر کی تھکن ختم کر دیتی ہے‘ گیس کی شکایت ختم اور آنتوں کو صاف کرتی ہے‘ بہت لذیذ اور خوشبو دار ہوتی ہے۔
پودینہ جسے ہمارے ہاں عام طور پر کھانوں کو خوش ذائقہ اور خوشبو دار بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور پودینہ کی چٹنی کو بطور ہاضم و لذت موسم گرما میں متوسط و غریب گھرانوں میں بطور سالن استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پودینہ قدرت کی عطا کردہ بہت سی خصوصیات سے مالا مال ہے۔
افعال و خواص
اطباءنے پودینہ پر بہت تحقیقات کی ہیں اور اس کے درج ذیل غذائی و دوائی فوائد کی نشاندہی کی ہے۔ پودینہ نظام ہضم سے متعلقہ امراض میں مفید ہے۔ غذا کو ہضم کرتا ہے اور ریاح کو خارج کرتا ہے۔ بھوک لگاتا ہے۔ پیٹ پھولنا‘ درد ہونا‘ کھٹی ڈکاریں آنا‘ جی متلانا اور قے ہونا میں فائدہ مند ہے۔ پودینہ الرجی( زود حساسیت) میں بہت موثر تدبیر ہے ‘ پتی اچھلنا(چھپاکی) الرجی کی ایک قسم ہے جس میں جسم میں کسی جگہ یا کئی جگہ خارش ہوتی ہے پھر سرخ دھبے( دھپڑ) بن جاتے ہیں جو تھوڑی دیر بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس تکلیف میں پودینہ سبز دس پتے ایک کپ پانی میں جوش دے کر چھان کر روزانہ رات سونے سے قبل‘ بیس یوم تک استعمال کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ پودینہ خون سے فاسد مواد کو خارج کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یرقان میں بھی استعمال کرایا جاتا ہے ۔ جن لوگوں کو جی متلانے یا قے آنے کی شکایت و جگر کا فعل سست ہو اور اس سبب بھوک اچھی طرح نہ لگتی ہو ‘ رنگت زرد رہتی ہو یا ان عوامل کے سبب خون کا دباﺅ( بلند فشار خون) بڑھ جاتا ہو۔ ان کے لئے یہ جوشاندہ بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ یہ نسخہ محترم شہید پاکستان حکیم محمد سعید کا معمول مطب بھی تھا۔
ہوالشافی
ریان (سونف) چھ گرام‘ پودینہ خشک چھ گرام‘ مویز منقی نو گرام‘ آلو بخارا خشک پانچ دانہ‘ آدھے گلاس پانی میں ڈال کر جوش دے کر چھان کر صبح نہار منہ پی لیا جائے۔ اگر موسم گرما ہو تو یہ نسخہ رات کو پانی میں بھگو دیں صبح مل چھان کر نوش جاں کریں۔ یہ عمل بیس یوم تک کافی رہے گا۔
اسہال (دست آنا) اور ہیضہ میں پودینہ کے پتوں کو نمک لگا کر کھانا یا اس کی چٹنی کا استعمال مفید ہے اور اس کا جوشاندہ بھی اچھی تدبیر ثابت ہوا ہے۔ پودینہ سبز 60 گرام یا پودینہ خشک 10 گرام‘ دارچینی 3 گرام ‘ الائچی کلاں 3 گرام ایک کپ پانی میں جوش دے کر چھان کر پی لیا جائے۔
پودینہ میں تریاقی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔ خصوصاً بچھو‘ بھڑ‘ چوہے وغیرہ کے کاٹنے پر پودینہ پیس کر لیپ کیا جا سکتا ہے۔ جو خواتین ماہانہ ایام کی کمی کے عارضہ میں مبتلا ہوں وہ پودینہ کی چائے استعمال کریں۔پودینہ بلغم کو پتلا کرتا ہے اور مسکن ہے۔ پودینہ سے طب کے کئی مرکبات تیار کئے جاتے ہیں جن میں جوارش پودینہ‘ قرص پودینہ‘ جوارش انارین اور عرق پودینہ شامل ہیں۔ یہ مرکبات اور ادویہ معدہ کی خرابی کے امراض میں بہت موثر ہیں۔
پودینہ کی چائے
پودینے کی چائے دوائی کے لحاظ سے بہت مفید ہے۔ اس کا استعمال بد ہضمی‘ کھانسی‘ زکام میں کیا جاتا ہے۔ دن بھر کی تھکن ختم کر دیتی ہے۔ گیس کی شکایت ختم اور آنتوں کو صاف کرتی ہے۔ بہت لذیذ اور خوشبو دار ہوتی ہے۔ نظام ہضم کی اصلاح کرتی ہے۔ متلی کی صورت میں تھوڑا سا لیموں کا رس ملا لیں۔ پودینہ کی چائے سانس کی نالی کی سوجن‘ برونکائٹس ‘ درد سر اور کھانسی زکام میںمفید ہے۔ ایک کپ چائے دن بھر کی تھکن ختم کر دیتی ہے‘ آنتوں کو صاف کرتی ہے جس سے سانس میں ناگوار بو کی شکایت ختم ہو جاتی ہے۔
جی متلانا یا قے آنا
جن لوگوں کو جی متلانے یا قے آنے کی شکایت ہو جائے وہ پودینہ دس پتے اور چھوٹی الائچی دو عدد کے ساتھ پانی میں جوش دے کر چھان کر پی لیں، شکایت جاتی رہے گی(انشاءاللہ)روغنی اور دیر ہضم ثقیل اشیاءکے استعمال کے بعد ٹھنڈی بوتلوں کی جگہ پودینہ اور لیموں کی چائے مفید ہے۔
بد ہضمی
بد ہضمی‘ اپھارہ‘ ریاحوں کی صورت میں پودینہ کا رس پانی میں ملا کر پینے سے فائدہ ہوتا ہے۔
پتھری گردہ و مثانہ
بتھوے کی سبزی میں پودینہ ڈال کر کھانے سے پتھری کا مرض ختم ہو جاتا ہے۔ ایسا ایک ماہ تک کریں یا فائدہ ہونے تک۔
پودینہ کا شربت
پودینہ کی بڑی گڈی دھو لیں۔ اس کے بعد ایک کپ شکر اور پانچ عدد لیموں کا رس نچوڑ لیں اور اس آمیزے کو دو گھنٹہ تک اسی طرح رکھارہنے دیں پھرجگ میں بھر لیں اور برف ڈال کر اس میں ادرک کا سرکہ20گرام اور پودینہ کی چند پتیاں ڈال کر پیس لیں یہ نہایت خوش ذائقہ شربت ہوگا جو دل و دماغ کیلئے مفید ہے۔
گیس ریاح
بو علی سینا نے پودینہ کا کھانا اور چبانا ریاح و گیس کیلئے مفید قرار دیا ہے۔
ایک حکایت
پودینہ کے متعلق درج ذیل حکایت سے اس کی تاریخی حیثیت واضح ہوتی ہے نیز یہ کہ قدیم حکماءبھی اس سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ قدیم یونانیوں کاعقیدہ تھا کہ نتھا ایک یونانی دوشیزہ کا نام تھا جس کا حسن و جمال قابل رشک تھا وہ یونانی دولت کے دیوتا (پلوٹو) کی محبوبہ تھی اور اسے پلوٹو کی اہلیہ پروسہ پائن ( ہندو عقائد کے مطابق دولت کی دیوی) نے حسد اور رشک کی بناءپر ایک نبات میں بدل دیا تھا اور اسی نبات کو لاطینی میں نتھا جبکہ اردو میں پودینہ کہتے ہیں۔ یونانی اطباءمیں سے حکیم ساﺅ فرطس نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ اہل چین و جاپان بھی دو ہزار سال سے پودینہ کے خواص سے واقف ہیں۔ ماہرین طب نے جو تحقیقات کی ہیں اس کے مطابق یہ ایک اہم نبات ہے جو دوائی کے اعتبار سے استعمال ہوتی ہے اور بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں کثیر مقدار میں غذائی استعمال ہے اور اس کا سالن و سلاد خوشبود ار اور ہاضم چٹنی کے طور پر موسم گرما کی دوپہرو ں میں عام طور پر کیا جاتا ہے۔
محافظ حسن
پودینہ حسن کا محافظ بھی ہے۔ چہرے کے داغ دھبے‘ کیل مہاسوں سے نجات کیلئے تازہ پودینہ خالص سلاد کے ساتھ پیس کر متاثرہ مقامات پر لیپ کیا جاتا ہے۔ چند دنوں میں داغ دھبے ‘ کیل مہاسے صاف ہو کر جلد کا رنگ نکھار دیتے ہیں۔
-------------------------------------------------------------------------------

Thursday, 24 July 2014

ميں ليموں ہوں

ميں ليموں ہوں
ليمن ڈارپس، ليموں کا شربت اور ليموں کا اچار، ان کا تصور آتے ہي منہ ميں پاني بھر آتا ہے اور اس کي خوشبو کے تصور ہي سے آپ ايک قسم کي راحت اور تازگي محسوس کرتے ہيں۔ جي ہاں! ميں پھل ہي ايسا ہوں۔۔ تازگي بخش، توانائي اور صحت دينے والا!
ميں پوري دنيا ميں ہوتا ہوں اور ہر علاقے کے لوگ مجھے اپنے رسم و رواج کے مطابق کھانوں ميں ذائقہ پيدا کرنے اور مختلف امراض کے علاج کے لئے استعمال کرتے ہيں۔
ميري يوں تو کئي قسميں ہوتي ہيں، ليکن ان ميں کاغذي ليموں سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے، کيونکہ اس کي لذت، رس اور مہک زيادہ ہوتي ہے۔ ميري ايک قسم ميٹھے ليموں کے نام سے بھي ہوتي ہے، ليکن ترش کے مقابلے ميں اس کے فائدے کم ہوتے ہيں۔ ميري ترشي اس ميں موجود سٹرک ايسڈ کي وجہ سے اور خوشبو چھلکے ميں پائے جانے والے روغن ليموں (آئل اوف ليمن) کا نتيجہ ہوتي ہے۔
قدرت نے مجھے جراثيم ہلاک کرنے کي صلاحيت دي ہے۔ ميرا رس زخموں اور چھوت سے متاثر حصوں کے جراثيم ہلاک کر ديتا ہے۔ آپ ڈيٹول يا کاربالک ايسڈ کے محلول کے بجائے ايک گلاس پاني ميں آدھے ليموں کا رس شامل کر کے اس سے بھي زخم وغيرہ دھونے کا کام پورے بھروسے کے ساتھ لے سکتے ہيں، ليکن اگر زخم کي وجہ سے ورم ہو تو پھر احتياط کيجئے کيونکہ اس سے تکليف بڑھ سکتي ہے۔
کيل مہاسوں سے نجات کے لئے آپ ميرا خالص رس لگا سکتے ہيں۔ جلن زيادہ محسوس ہو تو پھر اس ميں گلاب کا عرق اور تھوڑي سي گلسرين يا شہد ملا ليجئے۔ اس کے علاوہ داد (اگزيما) پر يہ رس لگانے سے اس کے جراثيم بھي ہلاک ہوجاتے ہيں۔
مجھ ميں آنتوں کي سستي دور کرنے والے ريشے کے علاوہ معدني نمکيات، نشاستے دار اجزائ، فاسفورس اور معمولي مقدار ميں فولاد بھي ہوتا ہے۔ مجھ ميں اور پھلوں کے مقابلے ميں حياتين ج (وٹامن سي) سب سے زيادہ ہوتا ہے۔ يہ وہ حياتين ہے جس کي وجہ سے جسم ميں بيماريوں سے مقابلہ کرنے کي طاقت بہت مضبوط رہتي ہے۔ يوں ميرا استعمال کر کے آپ خود کو کئي امراض سے محفوظ رکھ سکتے ہيں۔
مجھ ميں غذا جلد ہضم کرنے کي صلاحيت بھي بہت ہوتي ہے۔ اس لئے مختلف کھانوں کے ساتھ مختلف صورتوں ميں استعمال کرتے ہيں۔ ميں خاص طور پر جگر کو چست اور توانا رکھتا ہوں۔ بھوک نہ لگتي ہو، طبيعت ميں گراوٹ اور پستي ہو، سستي نے گھير رکھا ہو تو ايسي صورت ميں صبح منہ دھونے کے بعد ايک گلاس تازہ پاني ميں آدھا ليموں نچوڑ کر پي ليجئے۔ چند ہي دنوں ميں يہ شکايات دور ہو جائيں گي۔ آپ کا جي چاہے تو اس ميں شہد يا پھر تھوڑي سي چيني بھي شامل کر سکتے ہيں۔ بعض لوگ ايک چٹکي ميٹھا سوڈا بھي ڈال ديتے ہيں۔ اس سے سينے ميں جلن کي شکايت بھي دور ہوجاتي ہے۔
جب لو چل رہي ہو اور پاني پي کر پيٹ مشکيزہ بن گيا ہو، ميرا شربت پي ليجئے، گرمي اور لو کے اثرات بہت جلد دور ہو جائيں گے۔ ہاں! اس ميں ايک دو چٹکي نمک ملانا نہ بھولئے۔
اکثر لوگ دعوتوں ميں روغن اور مسالے دار غذائيں کھانے کے بعد پياس اور بے چيني محسوس کرتے ہيں۔ انھيں کھولتے پاني ميں ايک دو چٹکي چائے کي پتي کے ساتھ تازہ يا خشک پودينہ ڈال کر چائے کي طرح دم دينے کے بعد اس ميں چيني اور ليموں کا رس ملاکر پي لينا چاہيے، کھانا آساني سے ہضم ہوجائے گا۔
گرميوں ميں نکسير کي شکايت بھي عام ہوتي ہے۔ ايسے لوگوں کو ميرا باقاعدہ استعمال کرنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مجھ ميں موجود حياتين ج ناک کے نازک ريشے کو مضبوط کرکے نکسير کي شکايت ختم کرديتا ہے۔
گرميوں اور خاص طور پر بارش کے موسم ميں متلي اور قے کي شکايت عام ہوتي ہے۔ اس موسم ميں ليموں کي چٹني اور اس کا شربت بہت مفيد ثابت ہوتا ہے۔ صرف ليموں کے چاٹتے رہنے سے بھي متلي دور ہو جاتي ہے۔ آپ نے اس موسم ميں روح افزائ ميں ميرا رس شامل کر کے پيا تو ہوگا، کتني فرحت ہوتي ہے اس سے! ہاں! ميں بتانا بھول ہي گيا کہ ميرا ايک ثابت بيج نگلنے سے بھي قے فوراً رک جاتي ہے۔
مسوڑھوں ميں ورم اور ان سے خون اور پيپ آنے کي تکليف، پائيوريا ماسخورہ کہلاتي ہے۔ يہ زيادہ تر ان لوگوں کو ہوتي ہے جو گوشت بہت کھاتے ہيں اور دانت صاف نہيں کرتے۔ يہ تکليف حياتين ج کي کمي سے بھي ہوتي ہے۔ منہ سے بدبو آتي ہے تو لوگ منہ پھير ليتے ہيں۔ ميں اس کا بھي بہترين علاج ہوں۔ ليموں کي پتلي سي قاش کاٹ کر اسے مسوڑھوں اور دانتوں پر ملئے اور ميرا رس بھي نچوڑ کر کھانوں وغيرہ ميں استعمال کيجئے۔ ايک بہتر طريقہ يہ بھي ہے کہ ايک پيالي عرقِ گلاب ميں ميرا رس ملاکر اس سے صبح و شام کلياں کيجئے۔ ميرا رس دانتوں پر ملنے سے وہ سفيد بھي ہوجاتے ہيں ۔ آپ چاہيں تو ميرا رس تھوڑا سا نمک ملاکر برش سے دانتوں پر لگائيے، آپ کے دانت چمک اٹھيں گے۔
مٹاپے سے نجات کے لئے بھي ميں استعمال ہوتا ہوں۔ صبح نہار منہ نيم گرم پاني ميں ميرے رس کے ساتھ تھوڑا سا نمک ملاکر پينے سے جسم ہلکا ہونے لگتا ہے۔
بعض لوگوں کو ترشي نہيں بھاتي، ان کے حلق اور گلے ميں تکليف ہوجاتي ہے۔ انھيں ميرے استعمال سے بچنا چاہيے يا پھر اسے دو سري چيزوں کے ساتھ استعمال کرنا چاہيے۔

بواسیر خونی اور بواسیر بادی ۔

بواسیر خونی اور بواسیر بادی ۔
بواسیر ( Piles ) کا مرض عام ہے ۔ جلد توجہ نہ دینے اور ٹوٹکے کرنے سے اکثر مریض مرض کو پیچیدہ کر لیتے ہیں یہاں تک کہ معاملہ عمل جراحی تک جا پہنچتا ہے ۔ اگر بر وقت علاج معالجہ کیا جائے اور حفاظتی تدابیر و احتیاط کر لی جائے تو مرض پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے ۔
بواسیر کی اقسام
بواسیر کی دو اقسام ہیں ۔
بواسیر خونی اور بواسیر بادی ۔
پہلی قسم میں خون آتا ہے جبکہ ثانی الذکر میں خون نہیں آتا ، جبکہ باقی علامات ایک جیسی ہوتی ہے ۔
بواسیر کس طرح ہوتی ہے ؟
گردش خون کے نظام میں دل اور پھیپھڑوں سے تازہ خون شریانوں کے ذریعے جسم کے تمام اعضاءکو ملتا ہے ، اس کے ساتھ آکسیجن فراہم کرتا ہے ۔ پھر ان حصوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ والا خون واپس دل اور پھیپھڑوں تک وریدوں کے ذریعے پہنچتا ہے ۔ مقعد میں خاص قسم کی وریدوں میں راستہ ( Valves ) نہ ہونے کی وجہ سے ان وریدوں میں خون اکٹھا ہو کر سوزش پیدا ہو جاتی ہے جو کہ بواسیر کہلاتی ہے ۔ اس طرح یہ مرض ہو جاتا ہے اور مناسب تدابیر نہ کی جائیں تو وریدیں اس قدر کمزور ہو جاتی ہیں کہ تھوڑی سے رگڑ سے بھی پنکچر ہو کر خون خارج کرنے لگتی ہیں ۔ مقعد کے اوپر والے حصے کے اندر خاص قسم کے خلیوں کی چادر ہوتی ہے جو کہ بہت حساس اور ( Painless ) ہوتی ہے ۔ جب کہ مقعد کا نچلے والا حصہ جلد کا ہوتا ہے اور اس میں درد محسوس کرنے والے خ لیے ہوتے ہیں ۔ مقعد میں بڑی اور چھوٹی وریدوں کے باعث موہکے ( مسے ) بھی ان کی پوزیشن پر ہوتے ہیں ۔ بواسیر کے تین چھوٹے اور تین بڑے موہکے ہوتے ہیں ۔
بواسیر کے اسباب :
عموما یہ مرض موروثی ہوتا ہے ۔ مستقل قبض کا رہنا بھی اس کا اہم سبب ہوتا ہے ۔ خواتین میں دوران حمل اکثر قبض کا عارضہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ مقعد کے پٹھوں میں کھچاؤ ، گرم اشیاءمصالحہ جات کا بکثرت استعمال ، خشک میوہ جات کی زیادتی ، غذا میں فائبر ( ریشہ ) کی کمی سے بھی مقعد میں دباؤ بڑھ کر وریدوں میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے ۔ وہ لوگ جو دن بھر بیٹھنے کا کام کرتے ہیں اور قبض کا شکار ہو جاتے ہیں وہ بھی عموماً بواسیر کے مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔
علامات :
مقعد میں خارش ، رطوبت اور درد کا ہونا ، اجابت کا شدید قبض سے آنا ، رفع حاجت کے دوران یا بعد میں خون کا رسنا ، قبض کی صورت تکلیف کا بڑھ جانا اور مقعد پر گاہے گاہے موہکوں کا نمایاں ہونا شامل ہے ۔ موہکے بعض دفعہ باہر نہیں آتے صرف اندر ہوتے ہیں بعض مریضوں میں رفع حاجت کے وقت باہر آ جاتے ہیں جس سے درد ، جلن بڑھ جاتی ہے پھر یہ موہکے از خود اندر چلے جاتے ہیں یا اندر کر دئیے جاتے ہیں ۔ بعض لوگوں میں کبھی یہ موہکے باہر ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی اندر نہیں جاتے اور شدید اذیت کا سبب بنتے ہیں ۔
علاج :
طب مشرقی کا اصول علاج یہ ہے کہ اسباب مرض پر توجہ دی جائے ۔ عموماً یہ مرض دائمی قبض کے باعث ہوتا ہے ۔ لہٰذا اول قبض کو دور کیا جائے ۔ دیکھا گیا ہے کہ قبض نہ ہونے سے مریض کو آدھا افاقہ ہو جاتا ہے ۔ درج ذیل نسخہ مفید ہے ۔ صبح نہار منہ حب بواسیر خونی دو عدد تازہ پانی سے اگر خون نہ آتا ہو تو پھر حب بواسیر بادی دو عدد ۔
بعد غذا دوپہر شام نیموٹیب دو دو عدد رات سونے سے قبل اند مالی ایک عدد ۔
پرہیزو غذا :
بواسیر میں پرہیز و غذا کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔
1 بڑے جانور کا گوشت ، چاول ، مصالحہ جات ، تلی ہوئی اشیاءسے مکمل احتیاط کی جائے ۔
2 گرم اشیاءانڈا ، مچھلی ، مرغ اور کڑاہی گوشت نہ کھایا جائے ۔ اس طرح خون آ جاتا ہے ۔
3 فائبر ( ریشہ دار اشیاء ) کا استعمال زیادہ کیا جائے ۔ فائبر پھلوں اور سبزیوں کی کثرت کی صورت لیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح قبض نہ ہو گی اور بواسیر میں افاقہ ہوگا ۔
4 آٹا ، چوکر والا ( بغیر چھنا ) استعمال کریں اس طرح بھی آنتوں کا فعل درست ہو کر قبض رفع ہوگی اور بواسیر میں فائدہ ہوگا ۔
5 جو لوگ بیٹھے رہنے کا کام کرتے ہیں وہ صبح نماز فجر کے بعد اور شام کھانے کے بعد سیر کو معمول بنائیں ۔
6 پانی کا استعمال زیادہ کیا جائے ۔
7 پھلوں کا جوس بھی مناسب ہے ۔

صبح جلدی اٹھیں ،خوش و خرم زندگی پائیں

صبح جلدی اٹھیں ،خوش و خرم زندگی پائیں
برازیل کے ماہرین نے ڈیپریشن کے مریضوں کے سونے اور جاگنے کے اوقات پر تحقیق کے بعد یہ پتا چلایا کہ وہ پرسکون نیند سے محروم تھے۔ پوٹو ایلگرے کی ایک یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کار ڈاکٹر ماریا پاز لوائی زا ہڈالگو کہتی ہیں کہ
اس سے قبل کے جائزوں سے یہ معلوم ہوا تھا کہ کہ ڈیپریشن کے مریضوں کا علاج روشنی کی تھراپی سے ممکن ہے۔ اس طریقہ علاج کے تحت وہ مریض جن کی نیند تیز روشنی ، مثلاً ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر وغیرہ کے سامنے بیٹھنے کے باعث متاثر ہوتی ہے، اپنے معمولات کو تبدیل کرکے سونے کے اوقات میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس نئے جائزے میں 200 ایسے لوگوں کو شماریاتی طریقے سے منتخب کیا گیا جو پہلے کبھی کسی ذہنی بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے تھے اور ان سے ان کے سونے کی عادات اور ڈیپریشن کی علامات کے بارے میں پوچھا گیا۔ ماہرین کو معلوم ہوا کہ رات کو دیر تک جاگنے والوں میں ڈیپریشن کی سنگین علامات ان لوگوں سے تقریباً تین گنا زیادہ تھیں جو صبح جلد اٹھتے تھے۔
ان کے سونے کے اوقات میں اوسطاً کوئی بڑا فرق نہیں تھا۔ رات کو جاگنے والے لگ بھگ رات 12بجے بستر پر چلے جاتے تھے جب کہ صبح اٹھنے والے لگ بھگ گیارہ بجے سوجاتے تھے۔ اسی طرح رات کو دیر تک جاگنے والے صبح جلدی اٹھنے والوں سے اوسطاً صرف چالیس منٹ کے بعد سو کر اٹھتے تھے۔ ان دونوں کی نیند کا دورانیہ تقریباً ایک ہی تھا۔ لیکن ان کے سونے کے اوقات کا فرق ان کے مزاج میں بہت زیادہ فرق کا باعث دکھائی دیا۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف سائیکیٹری اور یونیورسٹی کے ڈیپریشن ریسرچ اینڈ کلینک پروگرام کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ایان اے کک کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے انتہائی مفید معلومات سامنے آئیں۔ کسی بھی اچھے مطالعاتی جائزے کی طرح اس کے نتیجے میں جوابات کی نسبت کہیں زیادہ سوالات سامنے آئے۔
ڈاکٹر کک کا کہنا ہے کہ :
انہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ آیا سونے کا معمول ڈیپریشن کی علامات کی وجہ بنتا ہے یا ڈیپریشن کی وجہ سے لوگوں کی نیند متاثر ہوتی ہے اور وہ رات کو دیر تک جاگتے ہیں۔
تاہم ڈاکٹر کک کا کہنا ہے کہ :
ایک حالیہ جائزے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ اگر آپ اپنے سونے کا معمول تبدیل کرکے رات کو جلد سونے کی عادت ڈالیں تو اس کے آپ کے مزاج پر خوش گوار اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
نیویارک کے پریسبائٹیرین اسپتال اور ویل کارنل میڈیکل سینٹر کے ایک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ایلن مینی وٹز کا کہنا ہےکہ اگر آپ رات کو جلد سونے کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں تو سونے کے وقت سے کچھ دیر پہلے ہی ایسی سرگرمیاں ترک کردیں جو آپ کے دماغ کو فعال کردیتی ہیں۔ مثال کے طورپر سونے سے پہلے کمپیوٹر پر اپنی ای میلز چیک کرنا۔ ڈاکٹر ایلن کا کہنا ہے کہ رات دیر گئے کوئی پریشان کن ای میلز پڑھنے سے آپ فکر مند ہوجاتے ہیں جس سے آپ کی نیند اڑسکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رات دیر تک کمپیوٹر آن رکھنے سے اس کی سکرین سے خارج ہونے والی روشنی بھی آپ کی نیند کی راہ میں حائل ہوسکتی ہے۔
تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سونے کے اوقات اور ڈیپریشن کے رجحان میں کوئی خاص تعلق نہیں ہوسکتا۔
پٹس برگ یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن میں نیند پر تحقیق شعبے کے ڈائریکٹر اور پروفیسر آف سائیکیٹری ، ڈاکٹر ایرک نوف زنگر کہتے ہیں کہ سائنس دانوں نے ایسے جینز کا پتا لگایا ہے جن کی وجہ سے کچھ لوگ صبح جلد اٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور کچھ رات دیر سے سونے کو۔
ڈاکٹر نوف زنگر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ ہمیں رات دیر تک جاگنے والوں کے دماغ میں کچھ ایسی مخصوص خصوصیات کا سراغ ملے چلے جو انہیں رات دیر تک جگائے رکھتی ہوں اور انہیں ڈیپریشن کی طرف زیادہ مائل کرتی ہوں۔
ڈاکٹر نوف زنگر نے ڈیپریشن کے کچھ مریضوں کے سروں کا سکین کرکے یہ معلوم کیا ہے کہ ان کے دماغ نیند کے دوران دوسرے لوگوں کے دماغوں کی نسبت مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نوف زنگر کا کہناہے کہ انہیں اپنے تجربات سے یہ معلوم ہوا کہ ڈیپریشن کے مریضوں کے جذبات سے متعلق دماغ کے حصوں میں بہت زیادہ فعالیت موجود تھی۔ جس کی وجہ سے وہ رات کو پرسکون نیند نہیں لے سکتے تھے۔
بحوالہ وائس اوف امریکا

دہی کا باقاعدہ استعمال اچھی صحت اور درازی عمر کا سبب بنتا ہے


دہی کا باقاعدہ استعمال اچھی صحت اور درازی عمر کا سبب بنتا ہے
دہی
دہی کو عربی میں ”لبن“ فارسی میں ”ماست“ اور انگریزی میں یوگرٹ (yogurt) کہتے ہیں ۔ صدیوں سے یہ انسانی خوراک کا حصہ رہا ہے ۔ زمانہ قبل از تاریخ کا انسان بھی گائے‘ بکری‘ بھینس‘ اونٹ اور بھیڑ کے دودھ کو بطور غذا استعمال کیا کرتا تھا۔ ان کے مویشیوں کے دودھ کی مقدار کم ہوتی تھی اس لیے وہ اسے جانوروں کی کھالوں یا کھردرے مٹی کے برتنوں میں جمع کرلیتے تھے تاکہ بہ وقت ضرورت آسانی سے استعمال میں آجائے۔
شروع شروع میں اسے جانوروں سے حاصل کرنے کے بعد اسی طرح کچی حالت میں رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن کچے دودھ کو محفوظ حالت میں رکھنا‘ وہ بھی اس طرح کہ اس کی غذائیت بھی برقرار رہے ناممکن سی بات ثابت ہوئی۔ اس مسئلے کا حل اتفاقی طور پر دریافت ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنوب مغربی ایشیا کے وسیع علاقوں میں سفر کرنے والے ”نوماد“ قبیلے والے دودھ کی شکل میں اپنی رسد کو بھیڑ کی کھال سے بنے ہوئے تھیلے میں رکھا کرتے اور اسے اپنے جانوروں کی پیٹھ پر باندھ دیا کرتے تھے۔ ایام سفر میں وہ تھیلے مسلسل ہلتے رہتے اس پر سورج کی تپش بھی اپنا اثر دکھاتی رہتی۔ نتیجتاً ہ دودھ خمیر بن کر نیم ٹھوس شکل اختیار کرلیتا۔ وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ بھیڑ کی کھال کے اندرونی حصے میں چھپے ہوئے بیکٹریا نے دودھ کو خمیر کرکے دہی کی شکل دے دی ہے۔
ابتداء میں دودھ کی اس شکل کو بہت کم مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا کیوں کہ نو ماد قبیلے والے اسے زہریلا سمجھتے تھے پھر آہستہ آہستہ تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ دودھ کی یہ نئی شکل مضر صحت نہیں معجزاتی غذا ہے ۔ جب اس کی افادیت سامنے آئی تو اسے بنانے کا طریقہ دریافت کیا گیا۔ دودھ کو جمانے کے لیے انہوں نے اس میں تھوڑا سا دہی ملالیا ۔ اس تجربے نے کامیابی عطا کی اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ کھٹا اور خمیر کیا ہوا دودھ تازہ دودھ سے بہت زیادہ فائدے مند ہے ۔ یہ نہ صرف زیادہ عرصے تک اچھی حالت میں رہتا ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی مزیدار ہوجاتا ہے۔
بلغاریہ کے لوگوں کی طبعی عمر دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ سائنسدانوں نے مسلسل تجربوں اور تجزیہ کے بعد پتا چلایا کہ اس کی ایک وجہ دہی بھی ہے۔ وہاں کے لوگ دہی کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں۔
فرانس میں اسے ”حیات جاوداں“ کا نام دیا گیا ہے۔ 1700ء میں فرانس کا کنگ فرسٹ کسی بیماری میں ایسا مبتلا ہوا کہ کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ سوکھ کا کانٹا ہوگیا تھا۔ نقاہت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ بیٹھنے کی قوت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے علاج کے لیے مشرق بعید کے ایک معالج کو بلایا گیا۔ اس نے بادشاہ کو صرف دہی کا استعمال کرایا اور کنگ فرسٹ صحت یاب ہوگیا۔
فرانس ہی کے ایک ماہر جراثیم پروفیسر میچسنٹکو لکھتے ہیں کہ دہی درازی عمر کی چابی ہے۔ اس کے استعمال سے نہ صرف انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ عمر بھی طویل پاتا ہے۔
Live longer look younger نامی کتاب میں مصنف نے اسے معجزاتی غذا کہا ہے۔
1908ءکے نوبل انعام یافتہ ایلی میٹ ٹنگوف وہ پہلا ماہر تھا جس نے برسوں کی تحقیق کے بعد اس کے خواص پر تحقیق کی اور بتایا کہ یہی وہ غذا ہے جو انسان کو طویل عمرگزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
آنتوں کے نظام کے اندر ایک خاص تعداد میں بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جنہیں فلورا کہا جاتا ہے۔ دہی فلورا کی پرورش میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ انٹی بایوٹک ادویات فلورا کو ختم کردیتی ہیں اسی لیے بعض ڈاکٹر صاحبان اینٹی بائیوٹک ادویات کے ساتھ دہی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دہی بیکٹیریا کے انفیکشن کو بھی روکتا ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق دہی میں پروٹین‘ کیلشیم اور وٹامن بی اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ البتہ آئرن اور وٹامن سی اس میں بالکل نہیں ہوتا۔ گائے کے دودھ کے مقابلے میں بھینس کے دودھ سے بنا ہوا دہی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی پروٹین اور دوسرے غذائی اجزاءزیادہ پائے جاتے ہیں۔ دہی کے اوپر جو پانی ہوتا ہے اس میں وٹامن اورمنرلز وغیرہ اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہیں کیوں کہ وہ دودھ کا ہی پانی ہوتا ہے۔ جب دودھ جمتا ہے تو پانی اس کے اوپر آجاتا ہے جسے دہی میں ملالیا جاتا ہے۔
دہی نہ صرف کھانوں کو لذت بخشتا ہے بلکہ غذائیت بھی فراہم کرتا ہے۔ جسم کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف بہ آسانی ہضم ہوجاتا ہے بلکہ آنتوں کے نظام پر بھی خوشگوار اثر ڈالتا ہے۔ اسے صحت مند بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی اور حرارے انتہائی کم مقدار میں ہوتے ہیں۔ ایک کپ دہی کے اندر صرف 120حرارے (کلوریز) پائے جاتے ہیں۔ اتنی کم مقدار میں کلوریز کے حامل دہی میںایسے کئی اقسام کے غذائی اجزاءہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ مثلاً پروٹین‘ مکھن نکلے دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 8 گرام پروٹین ہوتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 7 گرام۔ دہی کی اتنی ہی مقدار میں (مکھن نکلے ہوئے دودھ سے بنائے گئے دہی میں) ایک ملی گرام آئرن‘ 294 ملی گرام کیلشیم‘ 270 گرام فاسفورس‘ 50 ملی گرام پوٹاشیم اور 19 ملی گرام سوڈیم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وٹامن اے (A) 170 انٹرنیشنل یونٹ۔ وٹامن بی (B) ایک ملی گرام۔ تھیا مین 44 ملی گرام۔ وٹامن بی (ریبوفلاوین) 2 ملی گرام اور وٹامن سی (ایسکور بک ایسڈ) بھی 2 ملی گرام پایا جاتا ہے۔
ڈائٹنگ کرنے اور وزن کرنے والوں کے لیے دہی ایک آئیڈیل خوراک ہے کیوں کہ اس کے اندر حراروں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے جس کی مقدار اوپر لکھی جاچکی ہے۔ مندرجہ بالا مقدار میں 13 گرام کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح چکنائی کی مقدار بھی بہت کم ہوتی ہے۔ دہی کے ایک کپ میں 4 گرام چکنائی پائی جاتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی میں یہ مقدار بڑھ کر 8 گرام ہوجاتی ہے۔
دہی میں ایک خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا ایک خاص درجہ حرارت پر رکھے جانے والے دودھ کے اندر بڑی تیزی سے پیدا ہوکر بڑھتے چلے جاتے اور دودھ کو نصف ٹھوس حالت میں لادیتے ہیں جسے دہی کہا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا بہت بڑی مقدار میں وٹامن بی مہیا کرتے ہیں جو آنتوں کے نظام کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
دودھ کے کھٹا ہوتے ہی لیکٹوز خمیر ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک شفاف مایہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے جسے لیکٹک ایسڈ کہتے ہیں ۔ یہ نظام ہضم کو قوت فراہم کرنے کے علاوہ غذا کو ہضم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وزن کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ دہی کے بیکٹیریا کی زندگی کا انحصار لیکٹوز پر ہے۔ وہی اسے لیٹک ایسڈ میں تبدیل کرتی ہیں۔ لیکٹوز کی خاصیت ہے کہ وہ توانائی کی بڑی مقدار فراہم کرنے کے ساتھ آنتوں کی صحت کا بھی ضامن ہے۔