آبِ حیات
زمانہ بدل گیا ہے ، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے طرزِزندگی میں بھی بے شمار تبدیلیاں وجود میں آگئیں ، ہر کسی کا طرزِ زندگی بدل گیا۔ا?ج کل کے مادّی دور اور برق رفتار زندگی میں ہر کوئی ذہنی دبائو، کھچائو اور تنائو میں مبتلا ہے ، ہرکسی کے پاس وقت کم اور کام بہت زیادہ ہے۔ صبح سے شام تک حصولِ زر کی ہوس میں اب انسان کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ اپنی 'صحت 'کی طرف ذرا سا دھیان دے۔ اب تو انسان کے پاس ''کھانے پینے'' کے لئے بھی وقت نہیں ہے، اسلئے و ہ قدرت کی بنائی بے شمار نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی بجائے ''ریڈی میڈ''اور ''عارضی '' چیزوں کا سہارالیتاہے۔ ایک معروف تاجرنے بڑے فخر سے کہا ''مجھے اتنی فرصت کہا ں کہ میں سبزیاں اور میوے کھائوں بس ہر روز دو ملٹی وٹامن کی گولیاں کھاکراپنے ا?پ کو چست ''رکھتاہوں ۔
ہر مریض ڈاکٹر سے ''سوال ''کرتاہے کہ ، ڈاکٹر صاحب کوئی طاقتی دوا، کیپسول یا انجکشن تجویزکیجئے ''اور ڈاکٹر بھی بلا چوں چرا ، سوچے سمجھے بغیر ''طاقت بخش دوائیاں '' تجویز کرتاہے…اور پھر رہی سہی کسر میڈیا پوری کرلیتاہے۔ اخباروں اور میگزینوں میں ،ریڈیو اور ٹی وی پر بے شمار ''طاقت بخش دوائوں ''کی تشہیر کی جاتی ہے اور لوگ بھی متاثر ہوکر ان دوائوں کا استعمال کرکے ''اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں ''…… خیر یہ ایک الگ موضو ع ہے ، اس وقت میرے ذہن میں حالیہ شائع شدہ تحقیق حاوی ہے۔ پچھلے کئی سال سائنس دانوں نے چائے کویہ کہہ کر ایک بہترین مشروب قرار دیا تھا کہ اس میں مانع تکسید اجزائ(Anti Oxidents) موجود ہیں جو جسمانی اور دماغی صحت کے لئے بے حد سودمند ہیں لیکن اب سائنس دانوں نے ثابت کیا ہے کہ چائے سے بھی بہتر مشروب موجود ہے جس میں چائے میں پائے جانے والے مانع تکسید کی مقدار نسبتاً زیادہ ہے۔ جی ہاں ! انار کے رس میں اجرائے مانع تکسید وافر مقدار میں موجود ہیں اسلئے اس معجزاتی پھل کو اس ''زمانہ مانع تکسیدی '' میں آبِ حیات کا نام دیا گیا ہے۔ مانع تکسیدی جدید دور کا وظیفہ ہے کیو ں کہ اجزائے مانع تکسید بڑھاپے کو ٹالنے اور کئی بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں مدد دیتے ہیں ۔
اسرائیل، اٹلی اور امریکا میں حالیہ تحقیقات سے سائنس دانوں نے ثابت کیا ہے کہ انار کے رَس میں چائے اور دیگر مشروبات کے مقابلے میں مانع تکسید اجزائ زیادہ مقدار میں موجود ہیں ۔
مانع تکسید اجزائ وہ اجزائ ہیں جو انسانی جسم کو ظاہری و باطنی نقصانات اور سڑنے گلنے سے بچانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ ہمارے جسم کے بے شمار خلیات میں ان گنت اقسام کے ''عکس العمل'' وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ اِن مختلف ''عملیات'' کے دوران خلیات کے اندر موجود انتہائی باریک ذرّوں (Mole cels) کو کسی حدتک نقصان بھی پہنچتاہے۔ حیاتیاتی عملیات میں حرارت پیدا کرنے کے لئے آکسیڈیشن لازمی ہے۔ آکسیڈیشن جلنے کا عمل ہے جس میں آکسیجن ایک لازمی جز ہے۔ اس عمل میں کچھ مزیدفعال حیاتیاتی مرکبات بھی وجود میں آتے ہیں جو نزدیکی خلیات یا نسیج کو ا?زار پہنچاتے ہیں ۔ ا?کسیڈیشن کا عمل حرارت تو پیدا کرتاہے مگر بالا خر یہ ایندھن کی کیمیائی حیثیت کو ضائع کرتا ہے۔ ہمارے جسم میں موجود ان گنت خلیات میں سے ہر ایک خلیہ، ایک جلتی ہوئی بھٹی کی طرح کام کرتاہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے جسم میں یہ ''بھٹی'' 37ڈگری درجہ حرارت پر کام کرسکتی ہے۔ حد سے زیادہ نظر نہ آنے والے باریک ذرّوں کا جلنا ، اسی درجہ حرارت پر عمل میں آتا ہے اور اس عمل میں 'انزائمز' بطورِ معاون اپنا رول ادا کرتے ہیں ۔ہمارے جسم میں ان گنت ، انواع واقسام کی مٹابولک ریکشنز(Metabolic Reactions) عمل میں آتی ہیں اورسوخت وساز کے ان عکس العمل میں ا?کسیجن استعمال ہوتاہے (بعض عکس العمل ہا میں آکسیجن کا استعمال نہیں ہوتاہے)۔اس لئے سوخت وساز کا عمل ایک خلیے کو زندگی بخشتاہے ، اپنے ہمراہ ''ری ایکٹیو ا?کسیجن سپیشیز (Reactive (Oxygen Speciesros) بھی پیدا کرتاہے اور ان ہی سے ایک خلیے کو نقصان پہنچتاہے۔ اکثر خلیوں کے اندر اس نقصان سے بچنے یا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان خلیوں میں یہ طاقت موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنے کو مزید نقصان سے بچانے کے لئے ''بچائو ذرات'' کو اپنی طرف مدعو کرسکیں جن کی مدد سے وہ اضافی ضرررساں حرارت کا رْخ موڑ سکتے ہیں یا تباہ شدہ ذرات کو دوبارہ تیار کرسکتے ہیں ۔ اس عمل میں جو اجزائ معاون ومددگار ثابت ہوتے ہیں انہیں اجزائے مانع تکسید (Antioxidants) کا نام دیا گیا ہے۔ مانع تکسید اشیائ انسان کو مختلف امراض میں مبتلا ہونے سے بچانے میں مدد کرتے ہیں ،اس طرح عمر کو بڑھاوادیتے ہیں ۔
مانع تکسید وہ اجزائ ہیں جو ہمارے جسم میں خلیاتی سطح پرتوڑ پھوڑ کی کارروائی کو کم کرنے ، روکنے یاٹالنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں ۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مانع تکسیدی عمل کو بڑھاوا دینا تاآخرتندرست وتوانا رہنے کے لئے بے حد ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بے حد ضروری عمل کو کیسے بڑھاوا دیا جاسکے۔ یہاں سوال وقتی ناراضی یا کسی بیماری کا نہیں کہ کوئی دوائی کے بیماری پر قابو پایا جاسکے بلکہ سوال پوری زندگی اور پورے جسم کا ہے۔ لہٰذامسئلہ کا حل طاقت کی گولیاں کیپسول ، انجکشن یا طاقتی شربت نہیں بلکہ وہ قدرتی غذائیں ہیں جن میں مانع تکسید اشیائ مقررہ مقدار میں موجود ہوں ۔ تجربوں کی بنیاد پر کہا جاتاہے کہ دن میں چار پانچ بار وافر مقدار میں پھل اور سبزیاں کھانے سے جسم کو کافی مقدار میں مانع تکسیداجزائ حاصل ہوجاتے ہیں ۔ اسلئے لازمی ہے کہ ہم اپنا رْخ قدرتی چیزوں ، پودوں ،سبزیوں اور میوہ جات کی طرف موڑ لیں ۔ کہتے میں جو انسان روزانہ ''گھاس پھوس'' یعنی سبزیاں کھاتے ہیں وہ بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں مگر ہم ان قدرتی چیزوں سے رْخ موڑ کر مصنوعی غذائوں کا استعمال کرتے ہیں ۔یہ کوئی خیالِ خام نہیں کہ رنگین سبزی اور پھل سارے جسم کے لئے فائدہ مند ہیں ، سبزیوں اور میوہ جات میں پائے جانے والے حیاتین ای ، سی، اے ہمیں متعدد بیماریوں سے بچاتے ہیں ۔ کہتے ہیں ا?یورویدک ''طاقتی دوائیاں '' بھی رنگین ہوتی ہیں ۔ ا?پ انار کے رَس کو دیکھئے کہ کتنا رنگین اور خوشنماہے۔ یہ رَس زودہضم ہوتاہے اور غذا کی نالی سے نیچے اترتے ہی گویا خون میں شامل ہو کر رَ گ وریشے میں پہنچ کر توانائی فراہم کرتاہے۔
اسرائیل کے رام بام (RAM BAM ) میڈیکل سینٹرمیں تعینات ڈاکٹر مائیکل ایوی رام نے کئی برس کی تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ انار میں باقی تمام پھلوں کے مقابلے میں مانع تکسید اشیائ زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر موصوف نے دعویٰ کیا ہے کہ روزانہ انار کا رَس پینے سے تکسیدی دبائو میں نمایاں کمی ہو جاتی ہے۔ خون کی نالیوں کی اندرونی تہوں میں جمی ہوئی چربی کو کم کرنے کے علاوہ خون میں اضافی کولیسٹرول کو کم کرتاہے۔ اْن کا کہناہے کہ انار سے رَس حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے چھلکے سمیت نچوڑا جائے کیونکہ اس کے چھلکے میں ایک اہم اوربے حد فائدہ مند انزائم پکٹینیس (Pectinase) موجودہوتا ہے۔ ڈاکٹر ایوی رام نے تجرباتی جانوروں اور دائو طلبانہ افراد پر تجربات اور آزمائش سے ثابت کیا ہے کہ اس معجزاتی پھل میں مانع تکسیدی اشیائ کی وافر مقدار موجود ہے۔ دوسرے سائنس دانوں نے ثابت کیا ہے کہ اب پھل کے رَس میں ''بچائو اثرات'' باقی پھلوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں ۔
اَنار کے رَس میں چالیس فیصد ''فلیونائیڈس'' موجود ہیں ، اس لئے یہ ایک لمبی وٹامن ٹانک کے بدلے استعمال کیا جاسکتاہے۔ ابھی تک سائنس دان اس پھل کو مانع تکسید ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ان کاخیال ہے کہ انار کا رَس جگر، آنکھوں اور جوڑوں کی بیماریوں میں بھی مدد گار ثابت ہوسکتاہے۔ اس کے علاوہ عمر گذرنے کے ساتھ ساتھ وجود میں آنے والے ذہنی امراض (مثلاً انزائمزبیماری)سے بچنے کے لئے بھی اسے استعمال کیا جاسکتاہے۔اس سوال یہ ہے کہ روزانہ کتنی مقدار ضروری ہے ؟ ڈاکٹرایو ی رام نے 50سے 80ملی لیٹر ڈوز تجویز کیا ہے۔ ا?ئیے ہر روز ایک پیالی انار کا رَس نوش کرنا شروع کریں اور دیکھیں کیا نتیجہ نکلتاہے ؟
اَنار کے رَس میں چالیس فیصد ''فلیونائیڈس'' موجود ہیں ، اس لئے یہ ایک لمبی وٹامن ٹانک کے بدلے استعمال کیا جاسکتاہے۔ ابھی تک سائنس دان اس پھل کو مانع تکسید ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔