دمہ اور الرجی۔ علامات سے علاج تک
گزشتہ تین دہا ئیوںمیں مرض دمہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں تیزی سے رہا ہے جس کی کئی وجوہات مغربی طرز کے کھانے اور رہن سہن ، ماحولیاتی آلودگی اور وائرس وغیرہ ہیں ۔ ہندوستانی شہری آبادی ،شہروں کا سروے واضح طور دمہ اور الرجی ( Allergy)کی موجودگی ظاہر کرتا ہے جس کے مطابق 20 فیصد مغربی یوروپ میں اور تقریباَ 5 فیصد ہندوستانی سینٹرس میں پایا جاتا ہے ۔ الرجی انسانی ، جلد ناک، حلق ، حلق کے نچلے حصے اور پھرپھڑوں میں پائی جاتی ہے ۔ پھیپھڑے اس کے تنفس نالیاں اور آکسیجن روانہ کرنے کے حلقے ایک ٹینس کورٹ جیسے بڑے ہوتے ہیں جو کہ مختلف قسم کے زہریلے مادے اور الرجی پیدا کرنے والے عناصر سے متاثر ہوتے ہیں ۔ الرجی سے متاثر والدین کی اولاد بھی اس سے متاثر ہو سکتی ہے ۔ اگر وہ بھی الرجی پیدا کرنے والے مادے اور آلودگی سے متاثر ہوں ۔
الرجی اور دمہ کابہتر علاج کیا ہے؟
بد قسمتی سے کوئی واحد علاج نہیں ہے ۔ اس ضمن میں انگریزی ادویات Allopathic Medecine نے پچھلے تین دہوں میں بہت زیادہ ترقی کی ہے اور اس ضمن میں مختلف طریقے ایجاد کئے جا چکے ہیں جن کے ذریعے دوا کو سیدھا پھیپھڑوں میں بھیجا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ مضر اثرات جو کہ انجکشن اور گولیوں سے پیدا ہوتے ہیں نہیں ہو پاتے ۔ مریض تربیت یا قتہ ڈاکٹر کی نگرانی میں پابندی سے ان کو استعمال کرتا ہے تو وہ اس تکلیف دہ بیماری سے راحت پاتا ہے ۔ اس طریقہ علاج کی ایک درجن یا اس سے زیادہ ادویات بازار میں دستیاب ہیں جو کہ تفسی نظام کے ذریعہ دی جاتی ہیں جو کہ مریض کی ضرورت کے مطابق تجویز کی جاتی ہیں۔ یہی ایک واحد دمہ کا علاج ہے ۔ دوسرے طریقہ علاج جیسے ہومیوپیتھیی ، آیوریدک ، یونانی اور بعض دیہاتی طریقہ علاج بھی اس مرض کے علاج کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن یہ کوئی سائنسی جواز یا اعدد وشمار نہیں رکھتے جو کہ آج کے زمانہ میں علاج کے لئے قانوناًبے حد ضروری ہے ۔ انگریزی ادویات زیادہ مریضوں کا اپنا تنفس بگاڑے بغیر آرام کی زندگی گزار سکتا ہے ۔ اس طریقہ علاج میں مریض کو مکمل معلومات فراہم کرنا اور صحیح مشورہ بھی از حد ضروری ہے کہ وہ دمہ کا Inhaler پابندی سے اور صحیح طریقہ سے استعمال کرے۔ یہ Inhaler ایک اچھے تر بیت یافتہ ڈاکٹر سے تجویز کر وائیں ۔ یہ طریقہ علاج مریض کو عادی نہیں بناتا اور نہایت محفوظ ہے ۔یہاں تک کہ چھوٹے بچے بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس Inhaler کی قیمت زیادہ دکھائی دیتی ہے لیکن گولیاں اور انجکشن بھی تقریباَ اتنا ہی خرچہ کرتی ہیں اور پھر Inhaler کا استعمال اموات ، دواخانہ میں شرکت اور ایمر جنسی علاج سے بھی مریض کو محفوظ رکھتا ہے ۔ دمہ کے بارے میں عام معلومات عوام کو پہنچانا بے حد ضروری ہے تاکہ کامیابی سے علاج کیا جا سکے ۔ ہندوستان ایک دیہاتی ملک ہے اور یہ معلومات صرف شہری آبادی کی حد تک محدود رہتی ہیں ۔ لہٰذا دیہاتی آبادی کے دمہ کے بارے میں معلومات پہنچانا از حد ضروری ہے اور ان کا دماگی رجحان بھی اس مرض کے تعلق بنانا بھی ضرورت ہے تاکہ دمہ کا صحیح علاج ممکن ہو سکے ۔ دیہاتی آبادی میں حکومت کی جانب سے دمہ کے مریضوں میں Inhalers پابندی سے تقسیم ہوں حکومت اگر خود یہ بنانا شروع کرے تو اس کے دور رس فائدے حاصل ہو سکتے ہیں اور دیہاتوں میں بھی دمہ کا علاج بہتر طرہقہ سے ہو سکتا ہے ۔
'' اھتیاط علاج سے بہتر ہے '' یہ مقولہ دمہ کے لئے بھی کارگر ہے جن اجزاء سے دمہ آتا ہے مشاہدہ کے ذریعہ اس کی شناخت کرکے یا جلد میں دوا انجکٹکرکے ان اجزاء کو مکمل طور پر چھوڑنے سے دمہ کے اثرات کم کر سکتے ہیں ۔ عام طور پر یہ اجزاء کھانے کی چند چیزیں ، میک اپ کے کیمیکل جو کہ مریضوں کو بنتے ، ان کے علاوہ وہ گھر کی دھول، چوہے اور کیڑے اور بھینکر ہوا کرتے ہیں ، چھوٹے چھوٹے جراثیم جو کہ دکھائی نہیں دیتے وہ گھر میں قالینوں میں اون کے بلانلٹس میں ، صوفوں میں بہت تیزی سے نشو نما پاتے ہیں ۔ آسان صفائی کے طریقے جیسے اچھی طرح صاف کرنے والے واکیوم کلینر، صاف فرش ، قالینوں میں جراثیم کش دوا کا چھڑکائو ، بیڈ مین صفائی اور کشادگی حمام اور چولہے میں بھینکراور چوہے اور دوسرے جراثیم کی نشو ونما نہ ہونے پائے چند اہم تدابیر ہیں ۔ مدافعتی علاج اس بیماری میں بہت مفید ثابت ہوتا ہے جس میں پانچ یا اس سے کم Allergents جو کہ علاج کے ذریعہ مفید ثابت نہیں ہوتے مریض کو انجکشن کے ذریعہ جلد میں دی جاتی ہیں اس علاج میں بعض مریضوں پر مضر اثرات مرتب ہونے کی وجہ سے یہ علاج عام نہیں ہے ۔ چند اجزاء جو کہ تنفس صحت کو بگاڑتے ہیں مندرجہ ذیل ہیں ۔ ( 1) ماحولیاتی آلودگی جو کہ دو تین اور چار پہیوں والی گاڑیوں سے پیدا ہوتی ہے جو کہ ماحول میں سلفر نائٹروجن آکسائیڈ اور لیڈ Leadہیں ۔ چسٹ ہاسپٹل حیدرآباد کی اسٹڈی کے مطابق پچھلے دو دہوں مین ٹریفک پولس کا سنبلس، چھوٹے بچوں اور سگریٹ پینے والے لوگوں مین زیادہ مقدار میں آلودگی پائی
جاتی ہے ۔ Global Burden of Asthma کی رپورٹ کے مطابق زیادہ تعداد میں گاڑیوں کی آلودگی کا وجود ہندوستانی شہروں مین پایاجاتا ہے۔ بد قسمتی سے سٹیزن فورم اور حکومت کے ادارے اس تعلق سے کوئی خاص کوژژ نہیں کرتے تاکہ یہ آلود گی کم ہو ۔