Tuesday, 22 July 2014

کدو شریف بہت سی بیماریوں کا علاج


کدو شریف بہت سی بیماریوں کا علاج

قرآن مجید میں حضرت یونس علیہ السلام کے ذکر میں لکھا ہے کہ جب آپ مچھلی کے پیٹ سے نکلے تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر بیل دار پودے (بعض روایات کے مطابق کدو) کا سایہ کردیا۔ کدو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ ترکاری تھی۔ یہ موسم گرما کا خاص تحفہ ہے۔ عوام اور خواص اسے پکا کر بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔ اسے سکھا کر اس کے خول سے ایک ساز بھی بنایا جاتا ہے جسے تو نبا کہتے ہیں۔
کدو سے علاج
کدو ایک مسکن‘ سرد مزاج‘ دافع صفرا اور پیشاب آور غذائی اور دوائی اثرات رکھنے والی سبزی ہے۔ لہٰذا اس کی افادیت کے پیش نظر اسے معدے کے امراض کیلئے خاص طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔کدو کا جوس پینے سے نہ صرف پیشاب کی جلن ختم ہوجاتی ہے بلکہ یہ آنتوں سے اور معدے سے تیزابیت اور انفیکشن بھی ختم کرتا ہے۔ اس کا جوس حاصل کرنے کیلئے ایک پودے کو کدوکش کرنے کے بعد نچوڑ لیا جائے تو خاصی مقدار میں جوس حاصل ہوجاتا ہے۔
بعض لوگوں کو گرمیوں میں نیند نہیں آتی اور ان کا سر چکراتا رہتا ہے ایسے لوگ کدو کاٹ کر پائوں کے تلوئوں کی مالش کریں۔ کدو کا جوس تلوں کے تیل میں ملا کر روزانہ رات کو سر پر مالش کرکے لگایا جائے تو گہری نیند آتی ہے۔
کدو کا ایک پائو کا سالن اور چپاتیوں کے ساتھ کھا لینے سے بدن کو ایک وقت کی ضروری غذا حاصل ہوجاتی ہے۔ گرم مزاج لوگوں‘ جوانوں اور گرمی‘ خشکی اور قبض کے مریضوں کیلئے یہ غذا بھی ہے اور دوا بھی۔پرانے حکیموں نے گھیا میں چنے کی دال شامل کرکے ایک سستی اور مکمل غذا ہمارے لیے تجویز کردی ہے۔
عام زندگی میں ہم کدو کو صرف خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے اور بہت سے فائدے ہیں۔ حکما نے اس کے استعمال سے بہت سی لاعلاج اور خطرناک بیماریوں کا علاج کیا ہے۔ یہاں چند بیماریوں کے نسخے دئیے گئے ہیں جن میں کدو کو دوا کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔

سردرد سے فوری نجات
تازہ کدو کا گودا حسب منشا لے کر کھرل میں باریک کرکے پیشانی پر ضماد (لیپ) کردیں انشاءاللہ تھوڑی دیر میں سردر د رفع ہوجائے گا۔ کدو کا پانی روغن گل برابر وزن لے کر آپس میں ملا لیں بس دوا تیار ہے۔ اسے شیشی میں محفوظ کرلیں اور بوقت ضرورت دو سے تین قطرے کان میں ٹپکائیں‘ درد سے فوراً نجات ملے گی۔

دانتوں کے امراض سے نجات
ذیل کا نسخہ دانت کے درد کیلئے آسان اور مجرب نسخہ ہے۔ کدو کا گُودا پانچ تولے لہسن ایک تولہ‘ دونوں کو ملا کر ایک سیر پانی میں خوب پکائیں۔ جب پانی آدھا رہ جائے تو نیم گرم پانی سے کلیاں کریں۔

آنکھوں کی بیماریاں ختم
کدو کا چھلکا سائے میں خشک کرکے جلالیں اور کھرل میں باریک پیس کر شیشی میں بھرلیں۔ صبح و شام تین تین سلائی دونوں آنکھوں میں لگایا کریں انشاءاللہ چند روز کے استعمال سے آنکھوں کی بیشتر بیماریاں ختم ہوجائینگی۔

ہونٹوں کے امراض کیلئے
مغز تخم کدو شیریں‘ گوند کتیرا برابر وزن لے کر خوب باریک کرلیں اور شب کو سوتے وقت ہونٹوں پر لیپ کرکے سوجائیں۔ صبح گرم پانی سے صاف کردیں۔ اپنے ہونٹ طبعی حالت میں پائیں گے۔

پھنسیوں سے نجات کیلئے
کدو کا پانی پھنسیوں پر لگانے سے پھنسیاں معدوم ہوجاتی ہیں۔ اس کے گودے کا لیپ کرنے سے بھی یہی فائدہ ہوتا ہے۔

بواسیر اور خونی اسہال کیلئے
کدو کا چھلکا حسب ضرورت لے کر سائے میں خشک کریں اور باریک پیس کر محفوظ رکھیں‘ بس دوا تیار ہے۔ صبح و شام چھ ماشے سے ایک تولے تک تازہ پانی کیساتھ پھانک لیا کریں۔ دو تین دن کے استعمال سے بواسیر کا خون آنا بند ہوجائیگا۔ یہ خونی اسہال کی بھی لاجواب دوا ہے۔

پیاس کی شدت میں مفید
کدو کا گودا باریک پیس کر ایک چھٹانک پانی نچوڑ لیں۔ اسے دو تولہ مصری کیساتھ ایک پائو سادہ پانی میں حل کرلیں۔ دو تولے تھوڑے تھوڑے وقفے سے پینا پیاس کی شدت میں مفید رہتا ہے۔

یرقان سے نجات
کدو ایک عدد لے کر نرم آگ میں دبا کر بھرتا بنائیں اور اس کا پانی نچوڑ لیں۔ اس پانی میں تھوڑی سی مصری ملا کر پینے سے دل کی گرمی اور یرقان سے نجات ملتی ہے۔
کدو کا رس ایک تولہ‘ قلمی شورہ ایک ماشہ‘ مصری دو تولہ‘ سادہ پانی دس تولہ یہ سب ملا کر پیشاب بند کے مریض کو پلائیں‘ اگر ایک بار پلانے سے پیشاب نہ کھلے تو ایک خوراک اور دیدیں۔

انگور کے فوائد

انگور کے فوائد
اللہ تعالی نے جہاں انسان کیلئے مختلف اقسام کے اجناس، سبزیاں، ترکاریاں اور دیگر مختلف النوع خوردنی نعمتیں پیدا کی ہیں وہاں مختلف قسم کے موسمی پھل بھی پیدا فرمائے ہیں جو نہ صرف ذائقہ و لذت کے اعتبار سے بہترین کیفیات و تاثرات سے بھرے ہوئے ہیں بلکہ قدرت نے ان پھلوں میں حیاتیاتی جو ہر اورامراض سے شفابخشی کے کمالات بھی سمودئیے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ طبی نقطہ نظر سے اکثر و بیشتر پھلوں میں تقویت
بدن کے ایسے ایسے حیران کن جو ہر پوشیدہ ہیں کہ ان کے سامنے بیشتر دوائیں بھی محض رسمی اور عمومی ہو کر رہ جاتی ہیں ایسی ہی نعمتوں میں ایک نعمت انگور ہے جو انتہائی لذیذ اور بے مثال قوت بخش پھل ہے اسے صحت و توانائی فراہم کرنے کے لحاظ سے ایک اچھوتا اور پر کشش پھل تصور کیا جاتا ہے قدرت کے اس کیپسول میں تین بنیادی خصوصیات ایسی ہیں کہ سوائے انار کے دوسرے پھلوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
*۔۔۔ انگورکثیر الغذا ہے۔
غذائیت اور توانائی کے خزانوں سے بھر پور یہ ایک کثیر الغذا پھل ہے ۔ انگور کے پختہ پھل کا استعمال اچھے سے اچھے گوشت و اعلیٰ ترین پروٹینز اور وٹامنز والی غذاؤں سے بھی بہتر ثابت ہوتا ہے خوش قسمتی سے پاکستان میں کوئٹہ سمیت دیگر پہاڑی علاقوں میں یہ کثرت سے پایا جاتا ہے اور بطور غذا مستعمل ہے۔
*۔۔۔ انگورزودہضم ہے۔
انگور کی دوسری بڑی خوبی اس کا زو دہضم اور لطیف ہوناہے اس کے استعمال سے نہ توطبیعت بوجھل ہوتی ہے اور نہ ہی معدے میں کسی قسم کی گرانی پیدا ہوتی ہے بلکہ دوسری کھائی ہوئی غذا کو بھی ہضم کرنے کا باعث بنتا ہے۔
*۔۔۔ انگور خون صالح پیداکرتا ہے۔
انگورجسم میں تازہ اور مصفی خون پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے تمام معالجین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ انسان کی تندرستی کا دارو مدار خون صالح کی پیداوار سے ہے اگر جگر خون پیدا کرنا بند کر دے تو انسانی صحت جواب دے جاتی ہے جسم کمزور ہو جاتا ہے رنگ پیلا پڑ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ جن افراد میں خون کی کمی ہوتی ہے وہ اکثر لاغر اور کمزور ہوتے ہیں نئے خون کی پیداوار کے بغیر جسم سوکھنا شروع ہو جاتا ہے قدرت نے انگور کو یہ خوبی بخشی ہے کہ اس کے استعمال سے صاف خون پیدا ہوتا ہے۔
انگور کی کئی اقسام ہیں جو رنگ اور حجم کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔رنگت کے اعتبار سے سفید‘ سرخ اور سیاہ انگور کی تین اقسام پائی جاتی ہیں ان اقسام میں سفید قسم سب سے زیادہ مقبول ہے اور فائدہ مند ہے ۔جبکہ حجم کے اعتبار سے بھی بڑا انگور‘گول جسے بادانہ یا گولا انگور بھی کہا جاتا ہے ‘لمبوترا یا بیضوی جسے سندرخانی انگور بھی کہتے ہیں‘تین اقسام ہیں۔کچاانگور استعمال نہیں کرناچاہئے کیونکہ خام اور کچے انگور میں وہ غذائیت شیرینی اور قوت نہیں ہوتی جو پکے ہوئے انگور میں ہوتی ہے پکا ہوا شیریں انگور قبض کشا ہوتا ہے زیادہ کھانے سے اسہال لاتا ہے اس کے خشک پھل کو کشمش کہتے ہیں مویز منقی بھی ایک قسم کا خشک انگور ہے کم و بیش جو خواص تازہ انگور میں پائے جاتے ہیں وہی کشمش اور مویز منقی میں پائے جاتے ہیں اگر تازہ دستیاب نہ ہوں تو کشمش استعمال کی جا سکتی ہے جو بہت حد تک انگور کا نعم البدل ہے۔
انگور میں کاربوہائیڈریٹس‘کیلشیم ‘فاسفورس‘فولاد‘وٹامن اے‘بی اور سی پایا جاتا ہے انگور میں سیلولوز شکر اور کچھ تیزاب والے مرکبات ہوتے ہیں جو اس کو قبض کشا بناتے ہیں اس لیے یہ قبض کے مرض میں بہت مفید ہے۔ یہ معدے اور آنتوں کو طاقت بھی دیتا ہے۔معدے کی رطوبت کو مزید ہاضم اور مصفی بنانا ہے بلکہ عمل انہضام کے بعد خون میں شامل ہو کر خون کو صحت مند بناتا ہے۔ بدن کوپرکشش اور فربہی دینے میں بھی دوا کا کام کرتا ہے۔ بچوں کے دانت نکلنے کے دوران اسہال‘ قبض یا تشنجی دورے پڑتے ہیں ان عوارضات کیلئے انگورکا رس بہت ہی مفید ثابت ہوتا ہے۔ جن بچوں کے منہ اور حلق میں چھوٹے چھوٹے چھالے پڑ جاتے ہیں ان کے لیے بھی انگور کا رس نہایت فائدہ مند ہے۔ بچوں کے لیے اس کی مقدار خوراک ایک چائے کے چمچے سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ کمزور اور سوکھے کے مرض کا شکار چھوٹے بچوں کو انگورکا رس روزانہ پلانا چاہئے۔بلغمی امراض میں اعتدال کے ساتھ شیریں انگور کا استعمال مفید ہے۔ انگور کا معتدل استعمال جسم میں فاسد مادوں کے اخراج میں بھی مفید ہے۔ کھانسی زکام وغیرہ کیلئے بھی مفید ہے۔ انگور کا رس درد شقیقہ ‘جسم کی کمزوری‘خون کی کمی اور دیگر امراض کیلئے بہت مفید ہے۔قطرہ قطرہ پیشاب آنے کی صورت میں ایک پاؤ انگور روزانہ کھانامفید ہے‘ ضعف گردہ میں انگور کااستعمال مفید ثابت ہوتا ہے۔
گردے ومثانے کی پتھری اور جگر و گردے کے دوسرے عوارضات کیلئے انگور کی بیل کے پتوں کا جوشاندہ بہت مفید ہے جس کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ دس گرام انگور کی بیل کے پتوں کو 150ملی لیٹریا ایک کپ پانی میں ڈال کر اتنا جوش دیں کہ وہ تیسرا حصہ یعنی پچاس ملی لیٹر رہ جائے پھر اس کو چھان کر اور بقدر ضرورت میٹھا ملاکر یا بغیر میٹھا کئے پی لیا جائے۔
اطبائے قدیم انگور کو قلب سمیت دیگر کئی امراض اور جسمانی صحت کے لیے مفید قرار دیتے چلے آئے ہیں جس کی تصدیق اب جدید تحقیقات نے بھی کر دی ہے۔انگور کھانے سے خون پتلا رہتاہے۔خاص طورپر سیاہ یا سرخ انگوروں کا ایک گلاس رس پینے سے خون میں تھکے بننے کا خطرہ ساٹھ فیصد کم ہوجاتاہے جبکہ ایسپرین کھانے سے یہ خطرہ صرف پچاس فیصد کم ہوتاہے۔امریکہ میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ انگوروں کا استعمال دل کے امراض سے محفوظ رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ انگوروں میں موجود قدرتی اینٹی آکسیڈینٹس نہ صرف حرکتِ قلب کو ہموار رکھتے ہیں بلکہ بلڈ پریشر کا توازن بھی برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
جدیدطبی تحقیقات کے مطابق انگور میں ریزرویراٹول (Reserveratol)نامی ایک اہم جزو شامل ہے جو ہمارے جسم میں تین اہم کام سرانجام دیتاہے۔
*۔۔۔خلیے میں ’’ڈی این اے‘‘کو تباہی سے بچاتاہے۔
*۔۔۔عام خلیہ اس سے سرطانی خلیہ میں تبدیل نہیں ہوتا۔
*۔۔۔رسولی بنانے والے خلیوں کو پیدا ہونے اور بڑھنے سے روکتاہے۔انگورسرطان کے تحفظ میں موثر ہے کیونکہ اس میں ’’کیٹے چنز‘‘Catechinsمانع تکسیدوافر ہوتے ہیں۔ جوانسانوں میں چھاتی'غذودمثانہ(پروسٹیٹ)اور دیگر کئی قسم کے سرطانوں میں فائدہ مند ہیں جبکہ جانوروں کے بھی کئی قسم کے گومڑوں اور رسولیو ں میں مفید ثابت ہوئے ہیں۔
سبزیوں اور پھلوں کی کینسر کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے مسلسل تحقیق جاری ہے اور آئے روز اس حوالے سے تحقیقاتی رپورٹس سامنے آ رہی ہیں ابھی حال ہی میں امریکی طبی ماہرین نے کہا ہے کہ سرطان کے خاتمے کیلئے انگوروں کے بیجوں کا گودا نہایت کارآمد ثابت ہوا ہے۔
طبی ماہرین نے لیبارٹری میں تجربات کرتے ہوئے خون کے سرطان پر انگوروں کے بیجوں کے گودے کو آزمایا اور صرف24گھنٹوں میں سرطان کے خلیوں کی 76فیصد تعداد کو کم ہوتے دیکھا جبکہ خون کے اندر صحت مند خلیے اس سے محفوظ رہے۔طبی ماہرین نے ان تجربات کے بعد امید ظاہر کی ہے کہ عالمی سطح پر اب خون کے سرطان کے علاج کی نئی دوا تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سے قبل لیو کیمیا کے مریضوں کو کثرت سے انگور کھانے کی سفارش کی جاتی تھی جس کو بنیاد بناکر نئی تحقیق شروع کی گئی تھی۔ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ انگوروں کے بیجوں میں جسم سے فاسد مادے خارج کرنے کی بھرپور صلاحیت ہے اور دل کو مضبوط بنانے کیلئے یہ ایک بہترین ٹانک ثابت ہوتے ہیں۔ماہرین نے مزید کہا ہے کہ ان بیجوں میں جلد‘چھاتی‘ مثانہ‘پھیپھڑوں اور معدے کے سرطان کے خلاف بھی قوت دیکھی گئی ہے۔ چوہوں میں چھاتی اور جلد کے کینسر ٹیومر کا سائز ان بیجوں کے استعمال سے کم ہوگیا تھا۔ یہ تحقیق یونیورسٹی آف کینٹیکی کے پروفیسر زینگ لینگ شائی نے مکمل کی ہے۔
فرانسیسی ریسرچرز کے مطابق انگور خاص طور پر بینگنی رنگ کے انگور کے جوس میں اینٹی آکسیڈنٹس کی مقدارکافی زیادہ ہو تی ہے جو دل کی تنگ یا بند شریانوں کی بیماریAtherosclerosisسے ہمیں محفوظ رکھ سکتی ہے ۔ انگور کے جوس اور خود انگور کا تجربہ جن جانوروں پر کیا گیا ان کے جسم میں کو لیسٹرول کی سطح کم ہو گئی تھی ‘جسمانی دباؤبھی کم تھا اور جسم کی اہم ترین شریان آورطہ کے گرد چربی کم مقدار میں دیکھی گئی سبز انگور کے مقابلے میں بینگنی رنگ کے انگور میں یہ حفاظتی صلاحیت زیادہ نوٹ کی گئی ۔ اینٹی آکسیڈنٹس کے فوائد تازہ انگور کے علاوہ انگور کے جوس سے بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ Molecular Nutrition & food Researchمیں شائع ہو نے والی رپورٹ میں اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ جولو گ دل کی بیماریوں سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں انہیں تازہ انگور اور اس کا جوس زیادہ استعما ل کر نا چاہئے۔
انگور اور اس کے پتوں کے شربت زمانہ قدیم سے طب اسلامی میں مستعمل ہیں ۔
افادہ عام کیلئے ان کے نسخہ جات نذر قارئین ہیں۔
مقوی و مفرح قلب شربت انگور
ہوالشافی:میٹھے انگور آدھ کلو‘پانی آدھ کلو‘چینی سات سو پچاس گرام۔
ترکیب:انگور کا رس نکال لیں ۔ ایک دیگچی میں پانی اور چینی ڈال کر چولہے پر رکھ دیں اور پکنے دیں۔ ایک دو جوش آجائیں تو انگور کا رس اس میں ڈال دیں اور پکنے دیں چاشنی جب ایک تار ہو جائے تو اتار لیں اور ٹھنڈا ہو نے پر صاف اور خشک بوتل میں بھر لیا جائے۔ یہ شربت گرمی کے موسم میں بہت لذیذ ثابت ہوتا ہے۔ اس کے استعمال سے دل کو سکون اور دماغ کو فرحت حاصل ہوتی ہے۔مقوی بدن ہے۔
انگور کے پتوں کا شر بت
ہوالشافی :انگور کے پتے 120گرام‘کلتھی ‘گوکھر و‘سونف ‘خر بوزہ کے بیج ہر ایک چالیس گرام‘ پانی تین کلو گرام‘چینی دو کلو گرام۔
ترکیب:کلتھی ‘گوکھر و‘سونف ‘خر بوزہ کے بیج اور انگور کے پتوں کو پانی میں ڈال کر بھگو دیا جائے ۔ بارہ گھنٹے گزرنے کے بعد آگ پر رکھ کر جوش دیں‘جب پانی آدھا رہ جائے تواتارلیں اورچھان کراس میں دو کلو گرام چینی شامل کرکے دوبارہ آگ پر چڑھائیں ہلکا جوش آنے پر قوام تیار ہوجائے تو اتارلیں‘شر بت تیار ہے۔ یہ شربت گردے اور مثانے کی پتھری نکالنے میں انتہائی موثر ہے۔علاوہ ازیں پیشاب کی جلن اور سوزش میں بھی مفید ہے۔

سبزپتوں والی سبزیوں کے فوائد

سبزپتوں والی سبزیوں کے فوائد
سبزیاں نہایت غذائیت بخش خصوصیات رکھتی ہیں جس کی وجہ سے ان کو حفاظتی خوراک میں شامل کیا جانے لگا ہے۔ موجودہ دور کے ماہرین خوراک اب سبزیوں خصوصاً سبزپتوں کو بطور ساگ استعمال کرنے کے مشورے دینے لگے ہیں۔ تحقیق کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ حیاتین نمکیات اور سیلولوز سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ان پتوں میں چمکدار سبزرنگ حیاتین اور کلوروفل کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ سبز پتے اپنے کاربوہائیڈریٹ کی بدولت انسان کو اچھی خاصی توانائی فراہم کرتے ہیں۔ اپنی مخصوص توانائی کی وجہ سے ان پتوں کو دن میں کم از کم دو مرتبہ کسی نہ کسی طرح ضرور استعمال کرنا چاہیے۔ بطور سلاد یا ان کا سالن ساگ کی شکل میں پکا کر استعمال کرنا انسانی صحت کیلئے نہایت سود مند ہوتا ہے۔ یہ سبز پتے اپنے اندر موجود ریشوں اور دیگر اجزاءکی وجہ سے قبض کشا اثر رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کا نظام انہضام درست طور پر کام کرتا ہے اور بہت سے ایسے امراض سے انسان کو بچائے رکھتا ہے جو خرابی معدہ کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ ان پتوں میں موجود نمکیات اور حیاتین کی موجودگی غذا کو ہضم ہونے‘ تازہ اور مصفاءخون کی فراہمی میں ممدو معاون ہوتے ہیں۔ سبزیوں کے ان پتوں میں میتھی‘ چولائی‘ شلغم‘ مولی‘ پالک اور باتھو وغیرہ کے پتے زیادہ مستعمل ہیں۔ ان کے خواص درج ذیل ہیں:۔
میتھی
یہ بنیادی طور پر پیشاب آور اور مخرج بلغم ہے۔ گردوں میں جب سوزش کی وجہ سے پیشاب کم آرہا ہو تو پیشاب لاتی ہے۔
اس طرح بلغم کو خارج کرکے پھیپھڑوں کی اندرونی جھلی کی تندرستی کو برقرار رکھتی ہے اور توانائی فراہم کرکے آئندہ ملتہب (ورم) ہونے سے محفوظ رکھتی ہے۔ میتھی کے استعمال کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ اس کے پتوں کو بطور سالن پکا کر کھانے کا ہے اور دوسرا طریقہ اس کے پتے اور شاخیں سکھا کر کام میں لانا ہے۔ پسی ہوئی میتھی کا ایک چائے والا چمچہ پانی کے ساتھ کھانے سے اسہال اور پیچش کو فائدہ دیتا ہے۔ اگر اسے پانی میں ملا کر گرم کرکے شہد ملا کر پیا جائے تو کھانسی کیلئے مفید ہے۔ میتھی کے مسلسل استعمال سے بواسیر کا خون بند ہوجاتا ہے اور اکثر اوقات مسے گرجاتے ہیں۔ ریح کو ختم کرکے والی اور پیشاب آور ہے جن عورتوں کو حیض کا خون بار بار آتا ہو ان کیلئے مفید ہے۔ عورتوں کے دودھ کی مقدار میں اضافہ کرتی ہے۔ جسمانی خون کی کمی اور اعصابی کمزوری کیلئے بے حد مفید سبزی ہے۔
پالک
گرم اور سرد مزاج دونوں افراد کیلئے یکساں مفید ہے۔ فوری ہضم ہونے میں مفید ہے۔ معدے کی سوزش اور پیشاب کی جلن دونوں میں نافع ہے۔ نزلہ‘ سینہ اور پھیپھڑوں کے درد اور بخار میں اس کا کھانا بہت مفید ہے۔ گرمی کی وجہ سے ہونے والے یرقان اور کھانسی کو رفع کرتی ہے۔ پالک کے پانی سے غرغرہ کرنا حلق (سنگھڑی) کے درد کو آرام دیتا ہے۔ خون کو صاف کرتی ہے۔ دوسرے تمام ساگوں کی نسبت زیادہ نافع ہے اور غذائیت کے لحاظ سے چولائی اور بتھوا کے ساگ سے بھی زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ صفراءکی وجہ سے اگر کسی بھی قسم کا جنون یا چڑچڑاپن ہو تو پالک کو بکرے کے گوشت میں پکا کر استعمال کرائیں۔ سر میں درد ہو یا مسلسل رہتا ہو تو بکرے کی سری میں پکا کر استعمال کریں اسے اگر مونگ کی دھلی ہوئی دال میں پکا کر کھایا جائے تو پیشاب کی سوزش اور پیشاب نہ آنے کی وجہ کو دور کرتی ہے۔
باتھو
یہ ایک خود رو پودا ہے اور عام طور پر گندم کے کھیتوں میں ازخود اگ آتا ہے۔ اسے بھی بطور ساگ پکا کر کھایا جاتا ہے جو اپنے طبی خواص کیلئے بہت سے امراض کیلئے سود مند ہے۔ حلق کے ورموں کو تحلیل کرتا ہے جن لوگوں کو گرمی کی وجہ سے کھانسی اور سل کا عارضہ ہو ان کیلئے مناسب ہے۔ ایسے اصحاب کو روغن بادام میں پکا کر کھانا چاہیی۔ غذا کو جلد ہضم کرتا ہے اور قبض کو دور کرکے پاخانہ لاتا ہے۔ملین ہونے کی وجہ سے جگر کے سدے کھولتا ہے اور یرقان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے سرد مزاج والوں کو چاہیے کہ جوش کرکے روغن زیتون میں بھون کر اور گرم مصالحہ ملا کر کھائیں۔ اسے جوش دیکر اس کے جوشاندے کے استعمال سے مثانے کی پتھری ٹوٹ جاتی ہے ایسی گرم دوائیں جو محلل نہ ہوں کے ساتھ کھانے سے قوت باہ بڑھتی ہے اس کے پتوں کو جوش کرکے وہ پانی پینے سے رکا ہوا پیشاب کھل جاتا ہے۔ باتھو غذا کی خواہش کو بڑھاتا ہے اور بھوک لگاتا ہے۔

آملہ کے غذائی اجزاء

آملہ کے غذائی اجزاء میں سب سے زیادہ اہمیت وٹامن سی کوحاصل ہے ۔طبی ماہرین
آملہ پاک وہند سمیت دنیامیں پایاجا نے والاکثیرالمقاصد پھل ہے آملہ کے غذائی اجزاء سے میں سب سے زیادہ اہمیت وٹامن سی کوحاصل ہے اس کا ترش ذائقہ بھی وٹامن سی کی وجہ سے ہی ہوتا ہے آملہ میں پا ئے جانے و الے وٹامن سی کی مقدارمالٹے کی نسبت 20گنا زیادہ ہوتی ہے وٹامن سی ہمارے جسم کے میٹابولزم میں اہم کرداراداکرتا ہے ساتھ ہی یہ ٹاکسن اورزہریلے مادوں کوبھی تلف کرتا ہے ا س میں موجودخاص قسم کاکمیائی مادہ جوہڈیوں کی نشوونما کے سلسلہ میں مددکرتاہے آملے کومربے ،اچار ،سلاد کی طرح کھایاجاسکتا ہے جگرکے مریض بھی ا س کواستعمال کرسکتے ہیں کیونکہ وٹامن سی اورپروٹین میٹابولزم میں اہم کام سرانجام دیتے ہے ا س لیے یہ جگر اورمعدے کو فعال کرنے اوروزن گھٹانے میں مددکرتا ہے جلدی امراض میں نہایت مفید ہے اس مقصدکیلئے مربع سلاد یہ سوکھے آملے بھگوکران کاپانی ان کاپانی پی سکتے ہیں اس کے ریشے قبض سے نجات دیتے ہیں بالوں کی نشوونماکیلئے صدیوں سے آملے کااستعمال رائج ہے ا س میں موجود کیلشیم بالوں کومضبوط اوران کارنگ سیاہ کرتا ہے ا س کیلئے سوکھے آملوں کاپانی ابال کر لگایاجاسکتا ہے آملے میں موجودہ کوبالٹ جسم میں انسولین کی پیداواربہترکرتاہے جوڑوں کے درداورسوزش میں بھی آملے کااستعمال مفیدہے نیزاس میں موجود وٹامن بی جسم میں نیاخون پیداکرنے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔

مکئی اور جو کے کمالات


مکئی اور جو کے کمالات
مکئی -: مکئی مکو‘ مکا ایک ہی غذائی جنس کے مختلف نام ہیں جو پاکستان میں سردیوں کے موسم میں عام طور پر پیدا ہوتی ہے۔ نیم پختہ بھٹہ کوئلوں پر بھون کر کھایا جاتا ہے جو نہایت لذیذ اور بھوک کو تسکین دیتا ہے لیکن یہ سیاہ مرچ‘ نمک‘ لیموں کے بغیر کھانے سے ذرا دیر میں ہضم ہوتا ہے اور معدہ میں فاسد مادے پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔
پختہ دانہ کی روٹی مہین اور مقوی دماغ ہے۔ اس کی روٹی اس قدر مصفی خون ہے کہ اگر چھ ماہ مسلسل کھائی جائے تو پرانے جذام کا مریض تندرست ہوجاتا ہے۔ اس کا آٹا پانی میں گھول کر رخساروں پر ملنے سے کیل‘ مہاسے دور ہوجاتے ہیں۔ ہاتھوں میں لگانے سے ہاتھوں کی خشکی اور ہر قسم کی بدبو زائل ہوجاتی ہے لیکن عام طور پر اس کا آٹا انسانی جسم کے تمام اعضاءکے لیے مفید نہیں ہے۔ یہ معدہ میں دیر تک رہتا ہے‘ جس کی وجہ سے تبخیر کا باعث بنتا ہے۔ اس کی روٹی دودھ‘ گھی‘ شکر اور گندم کے آٹے کو ملا کر پکائی جائے تو انسانی جسم کو بہت فائدہ دیتی ہے۔
مکئی کے دانوں کو گھی یا تیل میں بھون کر پاپ کارن کی شکل میں بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ سردیوں میںمکئی کے دانوں یا بھٹے کا استعمال خوب مزہ دیتا ہے۔
جو -: قدیم زمانے سے جو کا استعمال بطور علاج اور قوت بخش غذا میں ہوتا چلا آرہا ہے۔ زمانہ قدیم کے یونانی کھیلوں اور زور آوری کے مقابلوں کی تیاری کے سلسلے میں کھلاڑیوں اور پہلوانوں کو زور آور اور قوی تر بنانے کے لیے ان کی خوراک میں جو کو ایک ضروری جز کے طور پر شامل کیا جاتا تھا۔ جو میں جسم کو توانائی بخشنے والے اجزاءکی خاصی مقدار پائی جاتی ہے۔ اس میں 80فیصد نشاستہ‘ لحمیات اور فاسفورس کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے۔ مغربی ممالک کے اکثر گھرانوں میں بچوں کو دودھ کے ساتھ جو ملا کر دیا جاتا ہے اس طرح بچوں کو اضافی غذائیت کے ساتھ ساتھ توانائی بھی ملتی ہے اور وہ پیٹ کے درد سے محفوظ رہتے ہیں۔ دودھ کو آسانی سے ہضم بھی کرلیتے ہیں۔
جو کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سو بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ خون کے جوش کو کم کرتا ہے۔ بلڈ پریشر کو فائدہ پہنچاتا ہے حدت کوکم کرتا ہے‘ پیاس بجھاتا ہے‘ جوڑوں کے درد کو فائدہ پہنچاتا ہے چونکہ زہریلے مادوں کو اخراج کرتا ہے اس لیے مہاسے‘ چہرے کے دانوں اور اس سلسلے میں دوسری جلدی بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ جو گرمی سے نجات دلاتا ہے جسم میں زہریلے مادوں کو خارج کرکے جلد کو نکھارتا ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو گرمیوں میں کھانے سے قبل یا کھانے کے بعد جو کا ایک گلاس پینے سے بہت حد تک چہرے کے دانوں اور داغوں سے نجات ملنا ممکن ہوسکتی ہے۔
احادیث نبوی سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم کی مرغوب غذائوں میں جو بھی شامل ہے۔ آپ نہ صرف جو کو روٹی‘ دلیے اور ستو کے طور پر استعمال فرماتے تھے بلکہ بطور علاج بھی جو کے استعمال کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق اہل خانہ میں سے جب کوئی بیمار پڑتا تھا۔ آپ اس کو جو کا دلیہ کھلانے کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ ”جو کا استعمال غم اور کمزوری کو اس طرح نکال پھینکتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کر میل کچیل صاف کردیتا ہے۔“ جدید تجربات سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بیماروں کے لیے سرکار دوعالم کا تجویز کردہ جو کا دلیہ‘ ستو یا روٹی وغیرہ معدہ‘آنتوں اور السر کے مریضوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔

ادرک کے ذریعے مختلف بیماریوں کا علاج

ادرک کے ذریعے مختلف بیماریوں کا علاج
حضرت ابوسعید خذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ”شہنشاہ روم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ادرک کا ایک بڑا ٹکرا بطورِ تحفہ پیش کیا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ٹکڑے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا اور صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے درمیان تقسیم کر دیا۔ یہ سوغات مجھے بھی ملی جسے میں نے فوراً کھا لیا۔“
درج بالا واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ادرک بڑی فضیلت اور اہمیت رکھتی ہے۔ آئیے پڑھتے ہیں کہ یہ خدائی تحفہ کئی امراض میں انسان کو فائدہ پہنچاتا ہے
حکماء کئی ہزار برس سے ادرک کے ذریعے مختلف بیماریوں کا علاج کر رہے ہیں۔ اسے اردو میں ادرک، ہندی میں سونٹھ اور انگریزی میں جنجر کہتے ہیں۔ یہ وہ مبارک غذا ہے جس کا تذکرہ قرآن شریف میں بھی آیا ہے۔ قرآن پاک میں اسے زنجبیل کہہ کر پکارا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت میں پائی جانے والی نعمتوں کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے کہ ”وہاں انہیں (مسلمانوں کو) ایسا مشروب پلایا جائے گا جس میں ادرک بھی ملا ہوا ہو گا“۔ یونانی اطباءنے اپنی کتاب میں کئی جگہ اس کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً حکیم جالینوس نے اسے فالج میں مفید بتایا ہے۔ کئی حکماءکا خیال ہے کہ چین کی مشہور بوٹی ”جن سنگ“ دراصل ادرک ہی کی ایک قسم ہے۔
نظامِ ہضم
معدے کے جملہ امراض میں ادرک مفید ہے ۔ یہ دست آور بھی ہے اور قابض بھی ۔تازہ ادرک پسی ہوئی آد ھی چمچ لیجئے اس میں ایک چمچ پانی، ایک چمچ لیموں کا رس، ایک چمچ پودینے کا رس اور ایک چمچ شہد ملائیے۔ یہ مرکب وہ لوگ دن میں تین بار چاٹ لیں جن کو متلی‘ قے‘ بدہضمی‘ یرقان یا بواسیر کی شکایت ہو۔ یہ نسخہ اِن بیماریوں کا شافی علاج ہے۔ ادرک ریاح کو تحلیل کرتی ہے۔ بھوک کم لگنے کی صورت میں بھی ادرک استعمال کیجئے۔ پیٹ کا درد اور اپھارہ دور کرنے کیلئے بھی ادرک کھائی جاتی ہے۔
اگر اپنا ہاضمہ درست رکھنا چاہتے ہیں تو کھانے کے بعد تازہ ادرک کا چھوٹا سا ٹکرا چبالیں۔ اس نسخے سے زبان کی میل بھی اترتی ہے نیز معدہ کئی بیماریوں سے پاک رہتا ہے۔ اگر جگر کی خرابی کے باعث پیٹ میں پانی جمع ہو جائے تو مریض کو ادرک کا پانی پلائیں۔ یہ پانی پیشاب آور ہے اور پیٹ کا سارپانی نکال دیتا ہے۔ ادرک انتڑیوں کی سوزش بھی ختم کرتی ہے۔
گلے کے امراض
اگربلغمی کھانسی چمٹی ہوئی ہو یا آپ دمے کا شکار ہوں تو یہ نسخہ استعمال کریں۔ ادرک کا رس 3ماشہ، ایک تولہ شہد میں ملا کر چاٹ لیں۔ یہ معمولی سا نسخہ عموماً کھانسی اور دمے سے نجات دلا دیتا ہے۔ اگر نزلے میں گرفتار ہوں تو ادرک کا رس 3ماشہ، کالی مرچ ایک ماشہ،لہسن 6ماشہ اور شہد 2تولہ ملا کر چٹنی بنا لیں اور اسے تھوڑا تھوڑا چاٹتے رہیں۔ سردی سے ہونے والے نزلے میں بطورِ خاص یہ چٹنی مفید ہے۔ ادرک چبانے سے گلا صاف ہوتا ہے، گلے کی خراش یا زخم دور کرنے کیلئے ادرک کا چھوٹا سا ٹکرا منہ میں رکھ کر چباتے رہیے۔
سردی کا بہترین علاج
ادرک گرم مزاج رکھتی ہے۔ موسم سرما کی بیماریوں میں فائدہ پہنچاتی ہے۔ اس کے کھانے سے سردی کم لگتی ہے۔ بعض لوگ ٹھنڈے یا نیم گرم پانی سے نہانے کے بعد جسم میں کپکپی یا درد محسوس کرتے ہیں۔ اگر وہ نہانے کے بعد 3سے 6ماشے ادرک کھا لیں تو انہیں اس سردی سے نجات مل جائے گی۔ مزید براں مضمون کے آغاز میں جو نسخہ بتایا گیا ہے وہ زکام کے علاج میں موثر ہے۔ سردی زکام کی شکایت میں ادرک کی چائے بھی مفید ہے۔ ادرک کی چائے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اُبلتے ہوئے پانی میں چائے کی پتی ڈالنے سے پہلے ادرک کے چھوٹے ٹکڑے ڈال دیں۔ سردی زکام اور بخار کی صورت میں یہ چائے زیادہ مفید ہو گی۔
دمہ اور نظام تنفس
ادرک اور کالی ہریڑ6,6ماشہ کی تعداد میں معمولی ساکوٹ لیں۔ اس کے بعد انہیں پیالی بھر پانی میں اُبال لیں۔ بعد ازاں پانی میں شہد یا چینی ملا لیں۔ جس کسی کو پرانی کھانسی یا دمہ ہو، وہ یہ پانی پیئے انشاءاللہ افاقہ ہوگا۔ اس کے علاوہ ادرک کا رس شہد کے ساتھ چاٹا جائے تو حلق صاف ہو جاتا ہے اورسینے میں جمع بلغم نکل جاتا ہے۔ ایک نسخہ اور ہے۔ میتھی کا جوشاندہ ایک پیالی لیجئے اس میں ایک چمچی تازہ ادرک کا رس اور ایک چمچی شہد ملائیے۔ جو مرد و خواتین کالی کھانسی، دمہ اور پھیپھڑوں کی تپ دق میں مبتلا ہوں وہ یہ نسخہ استعمال کریں، موثر پائیں گے۔ جن افراد کے منہ سے بو آتی ہے، وہ ادرک کھائیں۔ یہ بدبو دور کرکے منہ کا خراب ذائقہ بھی درست کرتی ہے۔
خواتین کے امراض
تازہ ادرک کا درمیانہ ٹکڑا لیں۔ اُسے کچل کر ایک پیالی پانی میں چند منٹ کیلئے اُبال لیں۔ بعد میں پانی میں چینی ملائیے اوراسے دن میں 3بار استعمال کریں۔ ادرک بھی کھا لینی ہے۔ یہ گھریلو ٹوٹکہ نہ صرف ایام کی بے قاعدگی دور کرتا ہے بلکہ اس سے متعلق تمام تکالیف دور ہو جاتی ہیں۔
ذہنی دباﺅ
ہیجان، بے چینی اور ذہنی دباﺅ کی کیفیت میں ادرک طبیعت کو پُرسکون کرتی ہے ۔حتیٰ کہ ڈاکٹر بھی ادرک کی اس خاصیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اسے ڈپریشن دور کرنے والی دوا سمجھتے ہیں۔ ادرک کا 2تولہ رس لیں اور اسے گائے کے 7تولہ دودھ میں اتنا پکائیں کہ آمیزے کی مقدار نصف رہ جائے۔ اس میں حسب ذائقہ شکر ملا کر سوتے وقت پی لیں۔ یہ آمیزہ ذہنی بوجھ اورپریشانی دور کرکے انسان کوپرسکون نیند کا تحفہ عطا کرتا ہے۔ اگر کسی کو ہسٹریا کا دورہ پڑے تو ادرک اور کالی مرچ ہم وزن ملا لیں۔ مریض کو یہ آمیزہ نسوارکی طرح دیں۔ دورہ ختم ہو جائے گا۔ ادرک کا استعمال یادد ا شت بڑھاتا ہے۔ 5تولہ ادرک کو پیس کر 10تولہ شہد میں ملا لیں۔ کمزور دماغ والے یہ آمیزہ 3,3ماشہ صبح و شام کھائیں۔دماغ کو تقویت ملے گی اور بھولنے کی بیماری ختم ہو جائے گی۔(ان شا ءاللہ )
گٹھیا اور دیگر تکالیف
ادرک کا تیل گٹھیا اور بادی کے درد میں فائدہ پہنچاتا ہے۔ ادرک کا آدھ پاﺅ رس لیں۔ اس میں تل کا تیل ایک چھٹانک ملا لیں۔ آمیزے کو ہلکی آنچ پر اتنا پکائیں کہ سارا مائع اُڑ جائے۔ صرف تیل رہ جائے۔ درد ہو تو اس تیل کی مالش کریں۔سخت سردی کے باعث کئی لوگوں کے سر میں درد رہتا ہے وہ درد سے نجات کیلئے یہ تیل ماتھے پر ملیں۔ بچوں کا سینہ گرم رکھنے کیلئے بھی اس تیل کی مالش مفید ہے۔ سردی کے باعث جسم میں درد ہو تو اس تیل سے اسے بھگائیں۔ مالش کرنے کے علاوہ تھوڑی سی ادرک گڑ کے ساتھ کھا لی جائے تو علاج مزید موثر وہ جاتا ہے۔ دانتوں کا درد بھگانے کیلئے بھی ادرک استعمال ہوتی ہے۔ ایک بار علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو رات کے وقت دانت میں شدید رد ہوا تو شفاءالملک حکیم اجمل خان رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں مشورہ دیا کہ دانت کے نیچے ادرک کا ٹکڑا دبا کر رکھیں۔ چند دن میں شاعر مشرق کا دانت درد جاتا رہا۔ درد شقیقہ میں بھی ادرک مفید ہے۔ کان میں درد ہو تو ادرک کا رس چند قطرے کان میں ڈالیے درد کافور ہو جائیگا۔ کمر اور جوڑوں کی تکلیف سے نجات پانے کیلئے کئی صدیوں سے ادرک بھون کر کھائی جارہی ہے۔ ملٹھی اور ادرک 6,6ماشے 3چھٹانک پانی میں ڈالیے اور پانی کو جوش دیں بعد ازاں چینی ملا کر پانی پی لیں۔ یہ نسخہ سینے‘ کمر اور جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔ اگر ادرک کو سیاہ نمک کے ساتھ پیس کر سونگھیںتو سردرد ختم ہو جاتا ہے۔
دیگر استعمال
(1)مچھلی کھاتے ہوئے ادرک کا استعمال کریں تو پیاس نہیں لگتی۔(2)خون کی نالیوں پر جمی ہوئی چربی کی تہیں اُتارنے میں ادرک کام آتی ہے۔ یہ دل کا فعل اور سست دورانِ خون درست کرتی ہے۔(3) جگر کی ابتدائی خرابی ادرک کے استعمال سے دور ہو جاتی ہے۔ (4)ذیابیطس کی دونوں اقسام میں اگر شہد کے ساتھ ادرک کا رس دن میں کئی بار چاٹا جائے تو فائدہ ہوتا ہے۔ (5)ادرک کا مربہ کھانا اور جائفل کو منہ میں رکھنا فالج سے نجات دلاتا ہے۔ (6)امراضِ چشم میں بھی ادرک مفید ہے۔ ادرک‘ سفید سرمہ‘ قلمی شورہ اور سفید پھٹکڑی ہم وزن ملا کر سُرمہ تیار کریں۔ یہ اکثر امراض چشم دور کرتا ہے۔ یاد رہے کہ اشیاءخالص ہونی چاہئیں۔

باجرہ اور چنا کے فوائد

باجرہ اور چنا کے فوائد
قدرت نے ان سب میں جسمانی قوت کا بیش بہا خزانہ چھپا کر ہمیں بخشا ہے
اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نعمتوں میں سے اناج ایک بہت اہم نعمت ہے۔ مختلف اناج ہماری روزمرہ غذا کا ایک اہم حصہ ہیں۔ خدا نے اناج میں ایسی قوت اور صحت بخش اجزاءشامل کئے ہیں کہ انسان کوعام اور سستی غذائوں میں طاقت کا خزانہ مل جاتا ہے۔ یہاں ہم چند طاقتور غذائوں کا ذکر کررہے ہیں جو بظاہر معمولی نوعیت کی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتہائی طاقتور غذائیں ہیں۔
باجرہ -:باجرہ ایک ایسا اناج ہے جو بدن کو بھرپور غذائیت دینے کے ساتھ ساتھ نزلہ زکام بھی دور کردیتا ہے۔ اطباءکی تحقیق کے مطابق اس میں جسم کی چربی کم کرنے اور اعصاب کو طاقت پہنچانے کی خصوصیت موجود ہے۔ عام طور پر اسے غریبوں کا اناج کہا جاتا ہے۔ راجستھان اور خشک علاقوں کا مزدور طبقہ باجرے کی روٹی کھا کر 15سے 16 گھنٹے تک محنت کرتا ہے اور تھکن محسوس نہیں کرتا۔ عام طور پر لوگ بھوک کی کمی‘ گیس‘ ضعفِ معدہ جیسے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ کم لیسدار اجزاءوالے اس موٹے اناج کو استعمال کریں تو بدہضمی اور گیس جیسے امراض سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔
باجرے کو مستقل استعمال میں رکھنے سے بدن ہلکا پھلکا رہتا ہے۔ برس ہا برس سے حکیم صاحبان یہ مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ باجرہ کو گڑ‘ شکر‘ گھی یا دیگر کھانے کے تیلوں میں ملا کر کھانے سے کمر مضبوط‘ خون عمدہ‘ ہاضمہ درست رہتا ہے اور پیٹ کی چربی میں کمی کے ساتھ گیس بھی نہیں بنتی۔
چنا -: اس مشہور غلے میں جسمانی نشوونما کے لیے درکار تمام اجزاءپائے جاتے ہیں۔ اس کا مزاج گرم اور خشک تر ہے۔ چنے کے چھلکوں میں پیشاب لانے کی قدرتی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ بھنے ہوئے چنوں کو چھلکوں سمیت کھانا نزلہ‘ زکام کے مستقل مریضوں کے لیے بہترین ٹانک ہے۔ گرم خشک تاثیر کی وجہ سے بلغم اور سینے و معدہ کی فاضل رطوبت کو خشک کرتا ہے۔ اسی لیے حکیم بقراط نے چنے کو پھیپھڑوں کے لیے نہایت مفید قرار دیا ہے۔ چنے کو 24گھنٹے بھگونے کے بعد نہار منہ اس کا پانی نتھار کر پی لیا جائے تو یہ جلدی امراض کے لیے مفید ہے۔
خارش اور جلد کی رطوبت کی بیماریوں میں یہ نہایت فائدہ مند ہے۔ بھیگے ہوئے چنے خوب اچھی طرح چبا کر استعمال کرنے سے وزن بڑھتا ہے‘یہ خون کو صاف کرتا اور سدھوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ جن جانوروں کی غذا میں چنا شامل ہوتا ہے وہ اچھا دودھ اور بہتر گوشت فراہم کرتے ہیں۔ اس میں موجود نائٹروجن اور ہائیڈروجن کاربن کی خفیف مقدار جانوروں میں چربی پیدا کرکے جسم کی قوت اور حرارت کو مجتمع رکھتی ہے۔
یورپ اور دیگر مغربی و ایشیائی ممالک میں اسے گوشت کا بہترین نعم البدل سمجھا جاتا ہے۔ کچا چنا ”اولہ“ جسے بچے بڑے سبھی شوق سے کھاتے ہیں‘ وٹامن ”ای“ کی فراہمی اعضائے رئیسہ کی پروداخت اور نسل انسانی کی زرخیزی و توانائی میں معاون ہے۔ یہ وٹامن تازہ دانہ دار گندم‘ بادام‘ پستہ‘ چنے‘ مٹر اور دیگر پھلوں کے سبز چھلکوں میں پایا جاتا ہے۔
چنے میں موجود وٹامن ”بی“ دل کی کارکردگی بڑھاتا ہے۔ دماغ‘ جگر‘ دانتوں اور ہڈیوں کے لیے مفیدہے اور اعصاب گردہ و ہاضمہ کے عمل میں مددگار ہے۔ وٹامن ”بی“ تمام تازہ اناجوں کے چھلکوں اور بیجوں میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ چنے کو چھلکوں سمیت استعمال کرنے سے امراض گردہ اور پتھری بننے کے عمل سے نجات مل سکتی ہے۔