Friday, 24 January 2014
انسان کو جس چیز میں کمال حاصل ہوتا ہے - اس پر مرتا ہے ۔
انسان کو جس چیز میں کمال حاصل ہوتا ہے - اس پر مرتا ہے ۔
چنانچہ دھنتر دید کو سانپ پکڑنے میں کمال تھا - اس کو سانپ نے کاٹا اور مر گیا۔
ارسطو سل کی بیماری میں مرا ۔
افلاطون فالج میں ۔
لقمان سرسام میں اور جالینوس دستوں کے مرض میں۔
حالانکہ انہی بیماریوں کے علاج میں کمال رکھتے تھے ۔
اسی طرح جس کو جس سے محبّت ہوتی ہے ، اسی کے خیال میں جان دیتا ہے ۔
قارون مال کی محبّت میں مرا ۔
مجنوں لیلیٰ کی محبّت میں ۔
اسی طرح طالب خدا کو خدا کی طلبی کی بیماری ہے وہ اسی میں فنا ہو جاتا ہے ۔
اس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے کہ انسان جس چیز میں سمجھتا ہے کہ اسے کمال ہے یا اس کا وہ ماہر ہے وہ مہارت اسے یہ یقین عطا کرتی ہے کہ اب اس چیز سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور اسی میں اسی کی جان جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ اب تک وہ بچتا اللہ کی اس پہ رحمت کی وجہ سے آرہا تھا نا کہ اپنی مہارت یا کمال کی وجہ سے ۔.
اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی علم ہو کوئی بھی چیز ہو اس میں کاملیت صرف رب کی ذات کو ہے باقی سب فنا ہے ۔.
دوسری بات یہ کہ انسان جس خیال میں جان دے گا وہی اس کی آکرت ہے کوئی مال ، دولت دنیا کی حرص و حوص کی چاہ میں یہاں پر جیتا اور مرتا ہے تو وہی چیزیں اسے آخرت میں دی جائیں گی جو کہ عذاب بن کر اسے ہر وقت ڈسیں گی اور جو یہاں پر اللہ کی محبت اور چاہت میں مرا وہاں آللہ تعالیٰ کو پا لے گا ۔.
جس نے اپنے ہنر پہ فخر کیا وہ مارا گیا جس نے رب کی محبت کے سوا کسی اور محبت میں جان دی وہ بھی مارا گیا ۔.
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین ۔.