Tuesday, 7 October 2014
ذی الحج کے پہلے عشرہ (دس دن) کی اہمیت اور احکام و مسائل:
مکمل پڑھیے اور زیادہ سے زیادہ شیر کریں جزاک الله خیر
ذی الحج کے پہلے عشرہ (دس دن) کی اہمیت اور احکام و مسائل:
ذی الحجہ کا پہلا عشره برکت کے لحاظ سے سب سے زیادہ اہم وقت ہے۔ کیونکہ اللہ کے نزدیک اس کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اس عشرہ سے محبت کرتا اور اس کی قدر کرتا ہے تویہ دس مبارک دن ہیں۔ یہ بھرپور نیکیوں والے، برائيوں سے بچے جانے والے، بلند درجات حاصل کیے جانے والے اور طرح طرح کی کی نیکیاں کیے جانے والے دن ہیں
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
الله کو کوئی نیک عمل کسی دن میں اتنا پسندیدہ نہیں، جتنا ان دنوں میں محبوب ہوتا ہے، یعنی ذی الحج کے پہلے عشرہ (دس دن) میں.
صحیح بخاری 969 سنن ابوداؤد 2438
رسول الله صلى الله عليه وسلم ذی الحج کے پہلے 9 دن روزہ رکھا کرتے تھے.
سنن ابو داؤد 2437 سنن نسائی 2374
عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل :
دنیا کے تمام دنوں میں دس دن سب سے افضل ہیں :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں انجام دیے گئے اعمال سال بھر کے تمام دنوں میں انجام دیے جانے والے اعمال کی بہ نسبت زیادہ فضیلت والے ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا:جہاد بھی اس سے افضل نہیں؟ فرمایا:جہاد بھی نہیں، ہاں البتہ اگر کوئی شخص جان ومال سے نکلے ،پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہ آئے،یعنی شہید ہوجائے۔
(رواہ البخاری:969)
اسی حدیث کے بعض الفاظ کچھ مزید وضاحت کے ساتھ مروی ہیں ،چنانچہ امام احمد نے اپنی مسند:1968، اور امام ابوداود نے اپنی سنن:2438 میں یہ الفاظ درج فرمائے ہیں:
"نیک اعمال ان دس دنوں کی بہ نسبت کسی بھی دن میں اللہ رب العالمین کے نزدیک محبوب نہیں ہیں صحابہ نے عرض کیا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا :جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، مگر کوئی شخص اپنی جان ومال کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے ، پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہ آئے یعنی شہید ہوجائے۔"
"ذی الحجہ کے یہ دس دن دنیا کے دنوں میں سب سےافضل ہیں۔"
(رواه البزار وصححہ الألبانی کما فی صحیح الجامع الصغیر: 1133)
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:
الله کے نزدیک کوئی عمل اتنا با عظمت اور محبوب نہیں, جتنا وہ عمل ہے جو ان دس دنوں (عشرہ ذی الحج) میں کیا جائے, تم ان دنوں میں کثرت سے تہلیل (لا اله), تکبیر (الله اكبر) اور تمحيد(الحمد لله) کہو.
مسند احمد: 5446
جلد 3
"حضرت عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سال کے تمام ایام میں کوئی دن ایسا نہیں جس میں عمل صالح اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ عظیم اور محبوب ہو۔ اس لیے ان دنوں میں کثرت سے "لا إلہ إلا اللہ، اللہ أکبر" اور "الحمد للہ" کہنا چاہئے۔"
(رواہ أحمد: 2/75، 131)
ان ایام میں بہت سے اعمال مشروع ہیں، جن میں نماز ، زکوۃ صدقات کے علاوہ روزه خصوصاً یوم عرفہ کا روزہ رکھنا مسنون ہے۔ بلکہ اس ایک دن(يوم عرفه) کا روزہ دوسال کے گناہوں کے کفارہ کا موجب ہے۔
حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:
"عرفہ کے دن کا روزہ سابقہ اور لاحقہ سال کے گناہوں کوختم کردیتا ہے۔"
(مسلم: 1162)
القرآن:
قسم ہے فجر کی.
اور دس راتوں کی.
اور جفت اور طاق کی.
اور رات کی جب وہ گزر جاتی ہے.
یقینا اس میں صاحب عقل کے لیے بہت بڑی قسم ہے.
سورۃ الفجر (89)
آیت 1-5
نوٹ: مختلف تفاسیر کے مطابق دس راتوں سے ذی الحج کا پہلا عشرہ مراد ہے. جفت سے مراد یوم النحر 10 ذی الحج (قربانی کا دن) اور طاق سے مراد یوم عرفہ 9 ذی الحج (عرفات کا دن) ہے.
اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم کھائی ہے اور اور وہ اہم چیزوں ہی کی قسم کھاتا ہے۔فرمان تعالیٰ ہے:
(وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْر) )الفجر:1
"قسم ہے فجر کی! اور دس راتوں کی!۔"
جمہور مفسرین کے نزدیک فجر سے مراد یوم عرفہ کی نماز فجر ہے ۔ اور دس راتوں سے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔
رب العالمین کا ان ایام کی قسم کھانا درحقیقت ان کی بلندیِ عظمت کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ وہ عظیم چیز ہی کی قسم کھاتا ہے۔ جیسے عظیم ترین مخلوقات میں، آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، ہوائيں، نیز عظیم اوقات میں فجر، عصر، چاشت، رات دن نیز عظیم ترین جگہوں میں، مکہ مکرمہ کی قسم کھا کر ان کی عظمت اور بلندیِ مرتبہ پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس لیے ہمیں چاہئے کہ ان عظمت والے ایام میں کثرت سے نیک اعمال انجام دیں۔ برائیوں سے بچیں اور کمال محبت اور انکساری کے ساتھ رب کی اطاعت وبندگی بجالائیں۔ اور میدان عمل میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی پوری جد وجہد کریں تاکہ دونوں جہان میں کامیابی سے ہمکنار ہو تے ہوئے اس کے عظیم عفو وکرم،رحم ومغفرت کے حقدار بن سکیں اور زبان حال سے گنگناتے ہوئے اقرار کریں
بالاختصاریہ دس دن نہایت ہی مبارک ایام ہیں جن میں رب العالمین نے جملہ عبادات قلبیہ وبدنیہ اکٹھا کردیا ہے۔ جنہیں انجام دے کر بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہوئے وسیع جنتوں کا مستحق قرار پاسکتا ہے۔ اللہ رب العالمین ہم سب کو اس کا اہل بنائے، آمین۔