Tuesday, 25 November 2014

انٹی بائیؤ ٹک ادویات کے بارے انتہائی تلخ حقائق

انٹی بائیؤ ٹک ادویات کے بارے انتہائی تلخ حقائق
انٹی بائیؤ ٹک ادویات کے بارے انتہائی تلخ حقائق
برطانوی محکمہٴصحت کی چیف آفیسر نے دنیا کو آنے والےوقتوں میں اینٹی بایوٹک ادویات کے بے اثر ہوجانے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ایسی اینٹی بایوٹک ادویات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جن کے خلاف بیکٹریا نے مزاحمت پیدا کرلی ہے، اس لیے دوران علاج یہ ادویات انسانی جسم پر اپنا اثر کھوتی جا رہی ہیں۔
حکومت برطانیہ کی چیف میڈیکل افسر، ڈیم سیلی ڈیوس کے مطابق، ‘اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت اختیار کرلینے والے بیکٹریا کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا علاج نہیں کیا جاسکے گا، جو مستقبل میں اقوام عالم کے لیے ایک سنگین خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔’
ڈیوس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا کہ دنیا کو درپیش دہشت گردی کا مسئلہ اور موسمی تغیرات جیسے اہم مسائل کی طرح یہ بھی ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ کیونکہ، مستقبل میں دنیا کو دہشت گردی سے زیادہ بڑا نقصان اینٹی بایوٹک دواؤں کے بے اثر ہو جانے سے پہنچے گا۔ کئی اقسام کے انفیکشن کا علاج نہ ہونے سے دنیا میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں واقع ہو سکتی ہیں۔
ڈیوس نے مستقبل کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ،’وہ ایک ایسی صورت حال کا تصور کر رہی ہیں جب 20 برس بعد ایک معمولی آپریشن کرنے پر موت کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اعضا کی پیوندکاری جیسے بڑےآپریشن کے دوران کوئی معمولی انفیکشن مریض کی جان لے سکتا ہے، کیونکہ اس وقت زیادہ تر اینٹی بایوٹک ادویات اپنا اثر کھو چکی ہوں گی۔ اگر حکومت نے بروقت اس مسئلے کی سنگینی پر غور نہیں کیا تو مجھے ڈر ہے کہ برطانیہ ایک بار پھر سے 200 برس پرانے طب کے دور میں لوٹ جائے گا جب بیماریوں کے علاج کے لیے ادویات موجود نہیں تھیں ۔’
جبکہ اینٹی بایوٹک کے خلاف بیکٹریا کا مزاحمت اختیار کرنے کا عمل نیا نہیں ہے، یہ عمل اس وقت سے ہی شروع ہو گیا تھا جب پہلی بار اس دوا کا استعمال کیا گیا تھا۔ مگر موجودہ دور میں اینٹی بایوٹک ادویات کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ مزاحمتی بیکٹریا پیدا ہو رہے ہیں، جو کہ ایک جسم سے دوسرے جسم میں آسانی سے منتقل ہو رہے ہیں۔ اس طرح یہ ایک گھمبیر نوعیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔
اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف بیکٹریا کی (Resistance ) مزاحمت کے عمل کو اس طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔ انفیکشن کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج اینٹی بایوٹک ادویات کے ذریعے کیا جاتا ہے جب دوا بیمار جسم میں داخل ہوتی ہے تو بیماری پھیلانے والے حساس بیکٹریا کو ختم کر دیتی ہے۔ مگر تمام بیکٹریا کو مارنے میں ناکام رہتی ہے ایسے میں بچ جانے والے بیکٹریا مزاحمت اختیار کرلیتے ہیں اور زیادہ تعداد میں سارے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ لہذا، اب اس جسم میں اس دوا کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔ جبکہ، اسی اینٹی بایوٹک کا بار بار استعمال جسم میں مزاحمتی بیکٹریا کو مضبوط کردیتا ہے۔ اب یہ دوا اس بیکٹیریا کے خلاف اپنا اثر کھوتی جاتی ہے ۔ نتیجتاً بے اثر ہو جاتی ہے۔
برطانیہ میں سال 2003 ء میں صرف تین دوائیوں کے خلاف مزاحمت کے کیس سامنے آئے تھے۔ لیکن، ہیلتھ پروٹیکشن ایجنسی کی گذشتہ برس کی رپورٹ کے مطابق، ایسی اینٹی بایوٹک ادویات کی تعداد800 تک جا پہنچی جو ان مزاحمتی بیکٹریا پر اثرانداز نہیں ہو رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ، ‘ماضی میں مریضوں کو گھبرانے کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کیونکہ، طب کی دنیا میں تحقیق کا سلسلہ جاری تھا اور موٴثر اینٹی بایوٹک ادویات طب کے ہر شعبے کے لیے ایجاد ہو رہی تھیں۔ مگر، اب حالات مختلف ہیں۔ آج بہت سی اینٹی بایوٹک ادویات کا اثر زائل ہوجانے کی وجہ سے ہمیں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ نئی دواؤں کی ضرورت ہے۔ مگر، مشکل یہ ہے کہ دواساز کمپنیوں کی نظر ان کے منافع پر ہوتی ہے۔ وہ زیادہ تر لمبی اور مستقل بیماریوں، جیسے کے دل کی بیماریوں میں استعمال کی جانے والی دوائیں بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس وقت، طب کا ہر شعبہ ان ادویات پر مکمل انحصار کرتا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ ہماری طب کی دنیا میں تحقیق کی پائپ لائن مکمل سوکھ چکی ہے۔’
اس وقت بہت سی ادویات انفیکشن کے علاج کے لیے غیر موثر ہو چکی ہیں جبکہ حال یہ ہے کہ بیماروں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اگرچہ” سپر بگ ‘یا” ایم آر ایس اے ” نامی مزاحمتی بیکٹریا جو بہت سی بیماریاں پھیلانے کا باعث تھا، اس پر قابو پا لیا گیا ہےلیکن کئی دیگر اقسام کے بیکٹریا جن میں E Coli اور Kelebsiellaجیسے بیکٹریا مزاحمت اختیار کر رہے ہیں جو کہ نمونیہ کی بیماری پھیلانے کا سبب ہیں۔
اسی طرح ٹیٹرا سائکلین نامی اینٹی بایوٹک کے خلاف Gonorrhea نامی بیکٹریا 80 فیصد مزاحمت اختیار کرچکا ہے،جس سے ٹی بی جیسی بیماری پھیلنے کا خطرہ بڑھ ریا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سی ایسی بیماریاں جن پر اس وقت کچھ اینٹی بایوٹک اثر نہیں کر رہی ہیں ہم اس کا علاج متبادل اینٹی بایوٹک ادویات کے ذریعے کر رہے ہیں۔ تاہم، مستقبل قریب میں یہ صورتحال بدلنے والی ہےجب ہمارے پاس اس کمی کو پورا کرنے کے لیے نئی متبادل ادویات موجود نہیں ہوں گی۔
انھوں نے کہا کہ اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف جسم میں مزاحمت پیدا ہونے کے مسئلے کو بین الاقومی سظح پر حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ادارے، دوا سازکمپنیوں، ڈاکٹر اور مریضوں سے لے کر عام افراد کو اس مسئلے کی سنجیدگی پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ہیلتھ ایجنسی کے سربراہ پروفیسر انتھونی کیسل نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اینٹی بایوٹک ادویات کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے وائرل بیماری کے لیے بھی اینٹی بایوٹک دوا تجویز کرنے کی وجہ سے اس مسئلے کی سنگینی میں اضافہ ہوا ہے۔
اس سلسلے میں، ڈاکٹر کے کلینک اور مریض دونوں کو مکمل آگاہی کی ضرورت ہے، تاکہ وہ صرف ضرورت پڑنے پر ہی اینٹی بایوٹک دوا کا استعمال کریں۔ جو ادویات انھیں علاج کے لیے تجویز کی جارہی ہیں ان کے بارے میں اپنے معالج سے مشورہ کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ان دواؤں کو ٹھیک مقدار اور مناسب وقفے کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے، تاکہ جسم میں قوت مدافعت کمزور نہ پڑے۔

حمل ٹھہرنے کے بہترین دن۔۔۔ ؟؟

حمل ٹھہرنے کے بہترین دن۔۔۔ ؟؟
مفصل جواب !
جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے کہ پریگنسیی (حمل ) یا امید ہونے کے کون سے دن مناسب سمجھے جاتے ہیں جن کے دوران میاں بیوی کو مباشرت کرنی چاہئیے ؟۔
۔
ایک مرد کی منی اور خاتون کے انڈہ کے ملاپ سے اللہ تعالٰی سے نئی زندگی کی امید لگاتے ہیں۔
۔
میڈیکل سائنس کے مطابق عام طور پہ ۔
خواتین کو ایک ماہ میں یعنی ایام ختم ہونے کے بعد اگلی بار ایام شروع ہونے تک عام طور پہ خواتین کے جسم میں ایک بار بیضہ بنتا اور خارج ہوتا ہے۔
مرد کا مادہ منویہ یعنی اسپیرم خاتون کے اندر 3 تین سے 5 پانچ دن تک زندہ رہتا ہے ۔
جبکہ خاتون کے انڈہ کی عمر عام طور پہ 4 چارگھنٹے سے 12 بارہ گھنٹے ہوتی ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق اگر خاتون کا انڈہ اور مر د کی منی چار سے چھ گھنٹے تک ساتھ رہیں تو حمل یعنی امید کے لگنے کے لئیے یہ نہائت ہی مناسب اور تقریباً یقینی مانا جاتا ہے۔ لیکن اگر مادہ منویہ یعنی مرد کے اسپریم کے جرثومہ اور خاتون کا بیضہ اس سے کم وقت بھی ساتھ رہیں تو بھی امید یعنی پریگننسی ہونے کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔
۔
امید لگنے یا پریگننسی کے لئیے مباشرت کرنے کے مفید دن ۔
اگر ایک خاتون کے ایام 28 اٹھائیس دن کا مکمل دائرہ ہو تو 11 گیارہویں دن سے لیکر 14 چودہویں دن کے ایام میں بیضہ خاتون کے جسم میں سے خارج ہو گا۔ لیکن سو فیصد درست بتانا ممکن نہیں۔ اس لئیے ڈاکٹرز عام طور پہ میاں بیوی کے لئے خاتون کے ایام ختم ہونے کے بعد 7 ساتویں دن سے لیکر 20 بیسویں دن تک اس عرصے میں مباشرت کرنے کو امید لگنے یعنی پریگننسی ہونے کو مفید سمجھتے ہوئے ان دنوں مباشرت تجویز کرتے ہیں۔
۔
خواتین کے بیضہ کے اخراج کے دن جاننے کی علامتیں۔
ایام گزر جانے کے بعد وجائنا خشک ہو جاتی ہے۔ اور اس میں سیرویکل فلوئڈ بلکل نہیں ہوتا۔ پھر
پھر کچھ دنوں بعد وجائنا میں ایک طرح کا ربڑی سا فلوئڈ یعنی گُم کی طرح کا چپکنے والا مواد یا سیال سا ظاہر ہوتا ہے۔ پھر
پھر یہ سیال بہت زیادہ نمدار اور کریم کی طرح سفید سا ہو جاتا ہے۔ ان دنوں مباشرت پریگننسی کے لئیے مفید ہوتی ہے۔پھر ۔۔۔۔ مفید
اسکے بعد وجائنا میں یہ سیرویکل فلوئڈ ۔ مرغی کے کچے انڈے کی سفیدی کی طرح صاف اور پھسلنے والی سی ہوجاتی ہے ۔ یہ دن پریگننسی کے لئیے انتہائی مفید اور پر امید ہوتے ہیں۔۔۔۔ انتہائی مفید
بیضہ کی مدت پوری ہوجانے کے بعد وجائنا ایک بار پھر سے خشک ہوجاتی ہے ۔ یعنی اس میں سرویکل فلوئد یا سیال نہیں رہتا۔
یہ فلوئڈ چیک کرنے کے لئیے خواتین اپنے انگھوٹے اور شہادت والی انگلی کو وجائنا کے نچلے حصے میں اندر کر کے باہر نکال کر فلوئڈ چیک کرسکتیں ہیں ۔ اور اسکی رنگت اور ماہئیت سے اندازہ لگا سکتیں ہیں کہ بیضہ کا اخراج نزدیک ہے ۔
۔
میڈیکل سائنس کے مطابق ۔باڈی ٹمپریچر سے بیضہ کے اخراج کا دن جاننے کا طریقہ ۔
جس دن خواتین کا بیضہ جونہی خارج ہوتا ہے انکے جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے ۔اور امید لگنے یا پریگننسی ہونے کا وقت گزرنے کے بعد جسم کا درجہ حرارت پھر سے نارمل ہو جاتا ہے۔
اسکے لئیے ضروری ہے کہ خاتون ایک ہی تھرمامیٹر استعمال کرے جو اسکے بیڈ کے پاس ہاتھ کی پہنچ میں ہو اور خاتون کو کسی طور اسکے لئیے اٹھنا نہ پڑے اور نہ ہلنا جلنا پڑے ورنہ جسم کا درجہ حرارت ہلنے جلنے سے ہی بڑھ جائیگا اور اور مطلوبہ نتیجے کا پتہ نہیں چلے گا ۔اور لازمی ہے کہ ایک قلم اور کا غذ پہ روزانہ کا درجہ حرارت لکھا جائے ۔
تھرما میٹر ڈیجیٹل ہو یا پارہ والا مگر پورے ماہ میں ایک ہی تھرما میٹر ہو ۔ مختلف تھرما میٹرز سے درجہ حرارت کا درست پتہ نہ چلنے کا امکان رہتا ہے۔
۔
درجہ حرارت ماپنے کا طریقہ یہ ہے ۔
صبح کے وقت رو زانہ ایک ہی وقت پہ بستر سے اٹھے بغیر سب سے پہلے تھرما میٹر سے خاتون اپنا درجہ حرارت چیک کرے اور اسے روز لکھتی جائے ۔یوں ایام کے بعد سے ایام کے آنے تک لکھتی جائے ۔، اور اس چارٹ میں جس دن جسم کا درجہ حرارت اعشاریہ دو درجہ یا اس سے زائڈ بڑھا ہوا ہو تو اس دن مباشرت کرنے پریگننسی کا امکان ہوتا ہے ۔ یو ں لگاتارتین ماہ کرنے سے سے ایک خاتون کو پریگننسی کے لئیے اپنے بیضہ کے خارج ہونے کا اندازہ ہو جاتا ہے یہ طریقہ کار نہائت مفید جانا جاتا ہے ۔ اور ان دنوں میں پریگننسی کے لئیے مباشرت مفید جانی جاتی ہے ؛۔
۔
اولیشن پریڈیکٹر کٹ۔
جن خواتین کے ایام ریگولر نہیں۔ یعنی ان کے دن مقرر نہیں ان کے لئیے یوروپ اور امریکہ میں عام طور پہ ”اولیشن پریڈیکٹر کٹ “ نامی میڈیکل اسٹورز پہ دستیاب ہے ۔ یہ ایک ایک ٹیسٹ ہے جو خواتین ایام کے ختم ہونے کع بعد گیارویں دن سے گھر پہ کر سکتی ہیں ۔ اگر وہ پازٹو ہو تو اسکا مطلب یہ بنتا ہے کہ اگلے 24 چوبیس سے 36 چھتیس گھنٹے تک انکے بیضہ کے اخراج ہونے کا امکان ہے۔

حکماء قدیم کے حیرت انگیز کارنامے

حکماء قدیم کے حیرت انگیز کارنامے
خلیفہ متوکل عباسی کی ایک کنیز بیت خوبصورت تھی خلیفہ اس پر جان دیتا تھا ایک دن وہ حمام سے نکلی تو اسے کچھ سستی معلوم ہوئی اور دونوں ہاتھ اٹھا کر تن گئی لیکن جب ہاتھ نیچے کرنا چاہا تو ایسا نہ کر سکی۔دونوں ہاتھ اٹھے کے اٹھے رہ گئے خلیفہ کو یہ دیکھ سخت رنج ہوا فوراً اطباء جمع کئے گئے سب نے دیکھ یہی کہا کہ اسکا کوئی علاج نہیں ہےوزیر نے عرض کیا کہ کوفے میں ابن صاعد نام کا ایک حازق طبیب ہے جو اسکا علاج کر سکتا ہے چنانچہ ابن صاعد کو طلب کیا گیا اس نے کنیز کی جب یہ حالت تو خلیفہ سے کہا کہ یہ اچھی تو ہو جائے گی مگر ایک شرط ہے خلیفہ نے شرط پوچھی تو اس نے کہا کہ میرا ایک شاگرد ہے وہ اسکے پورے بدن پر تیل ملے گا جو میں نے خود تیار کیا ہے خلیفہ نے خفگی سے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ میری کنیز کے بدن پر کوئی غیر مرد مالش کرے ابن صاعد نے کہا کہ صرف اسی طریقے سے ہی اسکا علاج ہو سکتا ہے خلیفہ کو مجبوراً یہ شرط منظور کرنا پڑی
ابن صاعد کے حکم سے کنیز برہنہ کر دی گئی اور دفعۃً اسکے سامنے ابن صاعد کا شاگرد بلایا گیا کنیز نے جب اجنبی مرد کو دیکھا تو شرم سے پانی پانی ہو گئی رگوں میں خون نے جوش مارا اور وہ اپنے کپڑوں کی طرف دوڑی اور جلدی سے ستر پوشی کی اب اسکے ہاتھ ٹھیک ہو چکے تھے خلیفہ کو بہت خوشی ہوئی اس نے ابن صاعد کو انعام دینے کا حکم دیا مگر ابن صاعد نے کہا کہ میں اس وقت انعام لونگا جب کہ میرے شاگرد کو بھی انعام دیا جائے کیونکہ اصلی انعام کا مستحق وہی ہے خلیفہ کے بلانے پر شاگرد حاضر ہوا اسکی لمبی داڑھی کو دیکھ کر خلیفہ کو تعجب ہوا ابن صاعد نےآگے بڑھ کر شاگر کے منہ پر لگی داڑھی کو کھینچ لیا داڑھی الگ ہوگئی خلیفہ نے دیکھا کہ اب اسکے سامنے مرد نہیں عورت کھڑی ہے خلیفہ یہ جان کر بہت خوش ہوا کہ ابن صاعد نے ایک عورت کے چہرے پر مصنوعی داڑھی لگوا کر اسکی عزت رکھی ہے اور کنیز کو اجنبی مرد کے سامنے نہیں کیا ۔ ابن صاعد اور اس عورت کو خلیفہ کی طرف سے بہت سا انعام عطا کیا گیا

نبض

نبض 
علم نبض طب قدیم می بتداء ہی سے تشخیص کاروح رواں رہا ہے اور اب بھی علم نبض تشخیص کے جدید وقدیم طبی آلات ووسائل وذرائع پر فوقیت رکھتاہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نبض صرف حرکت قلب کا اظہار کرتی ہے مگر ایسا کہنا درست نہیں ،فن نبض پردسترس رکھنے والے نبض دیکھ کر مرض پہچان لیتے ہیں مریض کی علامات وحالات کوتفصیل سے بیان کردیتے ہیں ۔ 
سائنس کایہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ قو ت سے حرکت اورحرکت سے حرارت پیداہوتی ہے یہی نظام زندگی میں راوں دواں ہے نبض کے ذریعے بھی ہم مریض کے جسم میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت اس کے جسم میں قوت کی زیادتی ہے یاحرکت کی زیادتی ہے یاحرارت کی زیادتی ہے یا ان میں کس کس کی کمی ہے اسی کے تحت نبض کی باقی جنسیں بھی پرکھی جاسکتی ہیں ۔ جن کا اس مقالہ میں تفصیلاً ذکر ہو گا نبض کی حقیت کو جانچنے کے لیے اسقدر جان لینا ضرروی ہے کہ نبض روح کے ظروف وقلب وشرائین کی حرکت کانام ہے کہ نسیم کو جذب کرکے روح کو ٹھنڈک پہنچائی جائے اورفضلا ت د خانیہ کوخارج کیاجائے اس کا ہر نبضہ ( ٹھو کر یاقرع) دو حرکتوں اور دو سیکونوں سے مرکب ہوتا ہے کیونکہ ہرایک بنضہ انسباط اورانقباص سے مرکب ہوتا ہے یہ دونوں حرکتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں اور ہر دو حرکتوں کے درمیان سکون کاہوناضروری ہے۔
نبض دیکھنے کاطریقہ
طبیب اپنی چاروں انگلیاں مریض کی کلائی کے اس طرف رکھے، جس طرف کلائی کا انگوٹھا ہے، اور شہادت کی انگلی پہنچے کی ہڈی کے ساتھ نیچے کی طرف اور پھر شریان کا مشاہد ہ کریں ۔
اجناس نبض
نبض کی دس اجناس ہیں 
1۔مقدار 
2۔قرع نبض 
3۔زمانہ حرکت 
4۔قوام آلہ 
5۔زمانہ سکون 
6۔مقدارِرطوبت 
7۔شریان کی 
8۔وزنِ حرکت 
9۔استوا واختلا ف نبض 
10۔نظم نبض
مقدار
i۔طویل 
یہ وہ نبض ہے جس کی لمبائی معتدل و تندرست شخص کی نبض سے نسبتاً لمبائی میں زیادہ ہویعنی اگریہ چارانگلیوں تک یا ان سے میں بھی طویل ہوتو اسے ہم طویل نبض کہیں گے اوریادرکھیں طویل نبض حرارت کی زیادتی کوظاہر کرتی ہے اگر اس کی لمبائی دو انگلیوں تک ہی رہے تو یہ معتدل ہوگی ۔ اوریہ دوانگلیوں سے کم ہوتو یہ قیصر ہوگی اورقیصر نبض حرارت کی کمی کوظاہر کرتی ہے ۔طویل غدی نبض ہے اور قصیر اعصابی ۔ 
iiعریض 
چوڑی نبض جوکہ انگلی کے نصف پور سے زیادہ ہورطوبت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جوکہ نصف پور ہو معتدل ہوگی اورجس کی چوڑائی نصف پور سے کم ہوگی رطوبت کی کمی کا اظہار کرے گی ۔تنگ نبض کو ضیق کہا جاتا ہے ۔عریض نبض اعصابی ہو گی اور ضیق نبض غدی ہو گی ۔ 
iiiشرف (بلند) 
جونبض بلندی میں زیادہ محسوس ہوایسی نبض حرکت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جودرمیان میںہوگی معتدل اورجو نبض نیچی ہوگی اسے منحفض کہتے ہیں ۔ یہ حرکت کی کمی پر دلالت کرتی ہے۔ 
چاروں انگلیوں کو نبض پر آہستہ سے رکھیں یعنی دبائو نہ ڈالیں ۔ اگر نبض انگلیوں کوبلا دبائو چھونے لگے توایسی نبض مشرف ہوگی اوراگر نبض محسوس نہ ہوتو پھر انگلیوں کو دباتے جائیں اورجائزہ لیتے جائیں اگرنبض درمیان میں محسوس ہوتو یہ معتدل ہوگی اوراگرانگلیاں کلائی پردبانے سے نبض کا احساس کلائی کی ہڈی کے پاس اخیر میں جاکر ہوتو یہ نبض منخفض ہے جوکہ حرکت کی کمی کا اظہارکرتی ہے مشرف نبض عضلاتی اورمنخفض اعصابی ہوگی۔
قرغ نبض -- ٹھوکر نبض
اس میں نبض کی ٹھوکر کوجانچا جاتا ہے چاروں انگلیاں نبض پر رکھ کر غور کریں آہستہ آہستہ انگلیوں کودبائیں اگرنبض انگلیوں کوسختی سے اوپرکی طرف دھکیل رہی ہے توایسی نبض قوی کہلاتی ہے یعنی ذرا زور سے ٹھوکر لگانے والی نبض ہی قوی ہے یہ نبض قوت حیوانی کے قوی ہونے کوظاہر کرتی ہے اوراگر یہ دبائو درمیانہ سا ہو تومعتدل ہوگی ۔اورجونبض دبانے سے آسانی کے ساتھ دب جائے تویہ نبض ضعیف کہلاتی ہے یعنی قوت حیوانی میں صغف کا اظہار ہے قوی عضلاتی ہوگی اورضعیف اگرعریض بھی ہوتو اعصابی ہوگی اورضیق ہوتو غدی ہوگی۔
زمانہ حرکت
اس کی بھی تین ہی اقسام ہیں سریع ۔ متعدل ۔ بطی ۔ 
سریع نبض وہ ہوتی ہے جس کی حرکت تھوڑی مدت میں ختم ہوجاتی ہے یہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ قلب کو سوئے سردنسیم یعنی اوکسیجن بہت حاجت ہے جسم میں دخان (کاربانک ایسڈ گیس ) کی زیادتی ہے۔ 
اگر بطی ہے صاف ظاہر ہے کہ قلب کو ہوائے سرد کی حاجت نہیں۔ سریع یعنی تیزتر نبض عضلاتی ہوتی ہے اوربطی(سست) نبض اگرعریض ہوگی تواعصابی ہوگی اورضیق ہوگی توغدی ہوگی بطی سے مراد نبض کی سستی ہے۔
قوام آلہ -- شریان کی سختی ونرمی
اسے بھی تین اقسام میں بیان کیاگیاہے صلب ، معتدل اورلین ، 
صلب وہ نبض ہے جسکو انگلیوں سے دبانے میں سختی کااظہار ہویہ بدن کی خشکی کودلالت کرتی ہے ایسی نبض ہمیشہ عضلاتی ہوتی ہے۔ 
لین نبض صلب کے مخالف ہوتی ہے یعنی نرم ہوتی ہے ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پردلالت کرتی ہے یعنی ایسی نبض اعصابی ہوگی ۔ 
اورمعتدل اعتدل رطوبت کا اظہار ہے۔
زمانہ سکون
اس کو بھی تین اقسام میں بیان کیاجاتا ہے متواتر ، تفاوت، معتدل ۔ 
متواترنبض وہ ہے جس میں وہ زمانہ تھوڑا ہوجو دو ٹھوکروں کے درمیان محسوس ہوتاہے ۔ یہ نبض قوت حیوانی کے ضعف کی دلیل ہے قوت حیوانی میں ضعف یاتوحرارت کی زیادتی کی وجہ سے ہوگا یاپھر رطوبت کی زیادتی سے ہوگا۔عموماً ایسی نبض اگر ضیق ہو تَو غدی ہوگی یاپھر اگرعریض ہو تَواعصابی بھی ہوسکتی ہے ۔ 
نبض دیکھتے وقت اس بات کوخاص طور پر مدنظر رکھیں کہ کتنی دیر کے بعدٹھوکر آکرانگلیوں کو لگتی ہے اورپھر دوسری ٹھوکر کے بعد درمیانی وقفہ کومدنظررکھیں ۔ پس یہی زمانہ سکون ایسازمانہ ہے کہ جس میں شر یان کی حرکت بہت کم محسوس ہوبلکہ بعض اوقات اسکی حرکت محسوس ہی نہیں ہوتی اورایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبض انگلیوں کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے۔
مقدارِ رطوبت
نبض پرانگلیاں رکھ کر جانچنے کی کوشش کریں اس کی صورت یہ ہوگی جیساکہ پانی سے بھری ہوئی ٹیوب کے اند رپانی کی مقدار کااندازہ لگایاجائے کہ ٹیوب کے اند ر پانی اس کے جوف کے اندازے سے زیادہ ہے یاکم بالکل اسی طرح نبض ضرورت سے زیادہ پھولی ہوگی اوردبانے سے اس کا اندازہ پوری طرح ہوسکے گا اگر ممتلی ہوتو اس میں ضرورت سے زیادہ خون اورروح ہوگی جوکہ صحت کے لئے مضرہے اسی طرح اگرنبض خالی ہوگی توخون اورروح کی کمی کی علامت ہے کمزوری کی دلیل ہے اس لئے ممتلی یعنی خون و روح سے بھری ہوئی نبض عضلاتی ہوگی خالی ممتلی کے متضاد ہوگی جوکہ اعصابی ہوگی ۔
شریان کی کیفیت
نبض کی اس قسم سے جسم کی حرارت وبرودت (گرمی وسردی )کوپرکھا جاتاہے اس کوجانچنا بہت آسان ہے اگرنبض چھونے سے حرارت زیادہ محسوس ہوتویہ نبض حارہوگی، گرمی پر دلالت کریگی اورگرم نبض عموماً طویل اور ضیق بھی ہوتی ہے ۔ اگرنبض پرہاتھ رکھنے سے مریض کاجسم سرد محسوس ہوتویہ نبض باردہوگی جوکہ اعصابی عضلاتی کی دلیل ہے۔
وزن حرکت
یہ نبض حرکت کے وزن کے اعتبارسے ہے جس سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ نبض کازمانہ حرکت اورزمانہ سکون مساوی ہے۔ 
اگریہ زمانہ سکون مساوی ہے تو نبض انقباص وانسباط(پھیلنا اورسکٹرنا)کے لحاظ سے حالت معتدل میں ہوگی اسے جیدالوزن کہاجاتا ہے 
ایسی نبض جسکا انقباض وانسباط مساوی نہ ہوبلکہ دونوں میں کمی بیشی پائی جائے یہ نبض صحت کی خرابی کی دلیل ہے۔ اگر دل میںیہ سکیڑ دل کی شریانوں کی بندش کی وجہ سے ہوتو ایسی نبض عضلاتی ہوگی ۔اگریہ ضعف قلب کی وجہ سے ہے توایسی نبض غدی ہوگی اوراگریہ تسکین قلب کی وجہ سے ہے توایسی نبض اعصابی ہوگی۔ ان باتوں کومدنظر رکھنا طبیب کی مہارت ہے۔ ایسی نبض کوخارج الوزن کانام دیا گیا ہے۔ 
اگر نبض عمرکے مطابق اپنی حرکت وسکون کے وقت کوصحیح ظاہر نہ کرے یعنی بچے ، جوان ،بوڑھے کی نبض کے اوزان ان کی اپنی عمر کے مطابق نہ ہوں تویہ ردی الوزن کہلائے گی۔ اس میں نبض کی انقباضی اورانبساطی صورت کوجانچا جاتاہے۔ نبض جب پھیلے تواس کوحرکت انسباطی کہتے ہیں اورجب اپنے اند ر سکڑے تواسے حرکت انقباص کہتے ہیں ۔ان دونوں کے زمانوں کافرق ہی اسکا وزن کہلاتاہے۔ 
ایسی نبض پرکھتے وقت عمر کوخاص طور پرمدنظر رکھیں ایسی نبض کوحتمی نبض قرار دینے کے لئے نبض کی دیگراقسام کے مدنظر حکم لگائیں۔
استوا واختلاف نبض
اسکی صرف دوہی اقسام ہیں مستوی اورمختلف ۔ 
مستوی نبض وہ ہے جس کی تمام اجزاء تمام باتوں میں باقی نبض کے مشابہ ہوں یہ نبض بدن کی اچھی حالت ہونے کی علامت ہے ۔ 
نبض مختلف وہ نبض ہے جومستوی کے مخالف ہواوراس کے برعکس پردلالت کرے ۔
جانچنے کے لئے نبض پرہاتھ رکھیں جس قدر نبض کی اجناس اوپر بیان کی گئی ہیں کیا یہ ان کے اعتبار سے معتدل ہے اگران میں ربط قائم ہے اورمعتدل حیثیت رکھتی ہیں تووہ مستوی ہے ورنہ مختلف۔
مرکب نبض کی اقسام
تعریف 
مرکب نبض اس نبض کو کہتے ہیں جس میں چند مفرد نبضیں مل کرایک حالت پیداکردیں۔ اس سلسلہ میں اطباء نے نبض کی چند مرکب صورتیں بیان کی ہیں ، جن سے جسم انسان کی بعض حالتوں پر خاص طورپر روشنی پڑتی ہے اورخاص امراض میں نبض کی جومرکب کیفیت پیدا ہوتی ہے، ان کااظہارہوتا ہے۔ ان کافائدہ یہ ہے کہ ایک معالج آسانی کے ساتھ متقدمین اطباء اکرام کے تجربات ومشاہدات سے مستفید ہوسکتاہے ۔ 
وہ چندمرکب نبضیں درج ذیل ہیں 
1۔ نبض عظیم 
وہ نبض جوطول وعرض وشرف میں زیادہ ہوایسی نبض قوت کی زیادتی کااظہار کرتی ہے اسے ہم عضلاتی یاوموی کہیں گے جونبض تینوں اعتبارسے صغیر ہوگی وہ قوت کی کمی کااظہا ر ہے اوروہ اعصابی نبض ہوگی۔ 
2۔ نبض غلیظ 
غلیظ وہ نبض ہے جوصرف چوڑائی اوربلندی میں زیادہ ہوایسی نبض عضلاتی اعصابی ہوگی۔ 
3۔نبض غزالی 
وہ نبض ہے جوانگلی کے پوروں کوایک ٹھوکر لگانے کے بعد دوسری ٹھوکر ایسی جلدی لگائے کہ اس کا لوٹنا اورسکون کرنا محسوس نہ ہو یہ نبض اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ترویج نسیم کی جسم میں زیادہ ضرورت ہے۔ غزالی کے معنی بچہ ہرن ہیں۔ یہاں اس کی مشابہت چال کی تیزی کی وجہ سے دی گئی ہے ایسی نبض عضلاتی ہوگی۔ 
4۔موجی نبض 
ایسی نبض جس میں شریانوں کے اجزاء باوجودہونے کے مختلف ہوتے ہیں کہیں سے عظیم کہیں سے صغیر کہیں سے بلند اورکہیں سے پست کہیں سے چوڑی اورکہیں سے تنگ گویا اس میں موجیں (لہریں) پیدا ہورہی ہیں جوایک دوسرے کے پیچھے آرہی ہیں ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پردلالت کرتی ہے قانون مفر د اعضا ء میں ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی۔ 
5نبض دودی 
)کیڑے کی رفتار کی مانند ) یہ نبض بلندی میں نبض موجی کے مانند ہوتی ہے لیکن عریض اورممتلی نہیں ہوتی یہ نبض موجی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس کی موجیں ضعیف ہوتی ہیں گویااس کے خلاف صغیر ہوتی ہے ایسی نبض قوت کے ساقط ہونے پردلالت کرتی ہے لیکن سقو ط قوت پورے طورپرنہیں ہوتا اس نبض کودودی اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حرکت میں اس کیڑے کے مشابہ ہوتی ہے جس کے بہت سے پائوں ہوتے ہیں ایسی نبض غدی اعصابی ہوگی بوجہ تحلیل نبض میں ضعف پیداہوتاہے۔ 
6نبض ممتلی 
یہ وہ نبض ہے جونہایت ہی صغیر اورمتواتر ہوتی ہے ایسی نبض اکثر قوت کے کامل طور پرساخط کے ہوجانے اورقربت الموت کے وقت ہوتی ہے یہ نبض دودی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس سے زیادہ صغیر اورمتواتر ہوتی ہے یہ اعصابی غدی کی انتہائی صورت ہوگی۔ 
7۔نبض منشاری 
(آرے کے دندانوں کی مانند) 
یہ وہ نبض ہے جوبہت مشرف ،صلب،متواتراورسریع ہوتی ہے اسکی ٹھوکر اوربلندی میں اختلاف ہوتاہے یعنی بعض اجزا سختی سے ٹھوکر لگاتے ہیں بعض نرمی سے اوربعض زیادہ بلندہوتے ہیں اوربعض پست گویا ایسامحسوس ہوتاہے کہ اس نبض کے بعض اجزاء نیچے اترتے وقت بعض انگلیوں کوٹھوکر ماردیتے ہیں ۔یعنی ایک پورے کوجس بلندی سے ٹھوکر لگاتے ہیں اس سے کم دوسرے پورے کو یہ نبض اس امر کوظاہر کرتی ہے کہ کسی عضومیں ورم پیدا ہوگیا ہے خاص طور پر پھیپھڑوں اورعضلات میں صاف ظاہر ہے کہ یہ عضلاتی اعصابی تحریک کی بگڑی ہوئی نبض ہے ۔ 
نبض ذنب الفار،نبض ذولفترہ ،نبض واقع فی الوسط،نبض مسلی ،مرتعش اورملتوی وغیرہ بھی بیان کی جاتی ہیں، جن سے کسی مزاج کی واضح پہچان مشکل ہے، اس لئے ان کوچھوڑدیاگیاہے۔طبِ قدیم کے تحت نبض کا بیان صرف اس لئے لکھ دیا ہے کہ طبِ قدیم کے اطبا ء بھی اس سے استفا دہ کر سکیں ۔ ساتھ ساتھ تجدیدِ طب کے مطا بق ان کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے کہ تجدیدِ طب کے بھی اس سے مستفیض ہو سکیں ۔ 
نبض کے با رے تجدیدِ طب کی رہنما ئی مکمل اور کا فی ہے ۔ مجددطب حکیم انقلاب نے علم النبض پر بھی انتہائی محنت کے ساتھ تجدید کی اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں نبض کوانتہائی آسان کرتے ہوئے اسے بھی اعضائے ریئسہ دل ودماغ وجگر کے ساتھ مخصوص کردیا جوکہ فنِ طب میں ایک بہت بڑا کمال و انقلاب ہے۔ اس اعتبار سے قانون مفرداعضا میں مفردنبض کی اقسام صرف تین ہیں، جنہیں اعصابی نبض ،عضلاتی نبض،اورغدی نبض سے موسوم کیاگیا ہے۔ پھرہر ایک مرکب نبض کی اقسام کوانہیںاعضاء رئیسہ کے باہمی تعلق کے مدنظر چھ(۶)اقسام میں تقسیم کردیاہے،جوکہ بالترتیب درج ذیل مقرر ہیں 
1۔اعصابی عضلاتی 2۔عضلاتی اعصابی 
3۔عضلاتی غدی 4۔غدی عضلاتی 
5۔غدی اعصابی 6۔اعصابی غدی 
اب پہلے مفردنبض کی شناخت ووضاحت کوبیان کیاجاتاہے۔
اعصابی نبض
ایسی نبض جوقیصر ہومنخفض ہو،عریض ہو،لین ہو، بطی ہو اعصابی کہلاتی ہے ۔ انگلیوں کوزورسے دبانے سے کلائی کے پاس محسوس ہوگی۔ یہ جسم میں بلغم اور رطوبت کی زیادتی کی علامت ہوگی۔
عضلاتی نبض
جب ہاتھ مریض کی کلائی پر آہستہ سے رکھا جائے، نبض اوپرہی بلندی پرمحسوس ہو، ساتھ ہی ساتھ صلب ہو اورسریع ہو اورقوی ہوتوایسی نبض عضلاتی نبض کہلاتی ہے۔ ایسی نبض جسم میں خشکی ،ریاح ،سوداوربواسیری زہرکااظہار کرتی ہے ۔
غدی نبض
مریض کی نبض پرہاتھ رکھیں اورآہستہ آہستہ انگلیوں کردباتے جائیں۔ اگرنبض درمیاں میں واقع ہوتویہ غدی نبض ہوگی۔ ایسی نبض طویل ہوگی ،ضیق ہوگی۔یہ جسم میں حرارت اورصفراء کی زیادتی کا اظہار ہے۔ حرار ت سے جسم میں لاغری وکمزوری کی علامات ہوں گی ۔یادرکھیں ،جب طویل نبض مشر ف بھی اورقوی بھی ہوتوعضلاتی ہوگی۔ 
خصوصی نوٹ 
نبض بالکل اوپربلندی پرعضلاتی ،بالکل کلائی کے پاس پست اعصابی اور درمیان میں غدی ہوگی۔ 
مرکب نبض 
قانون مفرد اعصا میں مرکب نبض کو چھ تحاریک کے ساتھ مخصوص کردیاگیاہے جو کہ درج ذیل ہیں
1. اعصابی عضلاتی
جو نبض پہلی انگلی کے نیچے حرکت کرے اورباقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے ، اعصابی عضلاتی ہوگی۔یہ نبض گہرائی میں ہوگی ۔بعض اوقات فقرالدم کی وجہ سے دل بے چین ہو تو تیزی سے حرکت کرتی محسوس ہوگی مگردبانے سے فوراََدب جائے گی جیسا کہ نبض میں حرکت ہے ہی نہیں۔ عام حالات میں اعصابی عضلاتی نبض سست ہوتی ہے ۔ 
اس کی تشخیصی علامات یہ ہیں ـ ـ 
منہ کاذائقہ پھیکا ،جسم پھولا ہوا ہونا شہوت کم ،دل کاڈوبنا ،رطوبت کا کثرت سے اخراج ،پیشاب زیادہ آنا اور اس کارنگ سفید ہونا ،ناخنوں کی سفیدی اہم علامات ہیں۔
2. ضلاتی اعصابی
اگر نبض پہلی اوردوسری انگلی کے نیچے حرکت کرے اور باقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے تو یہ نبض عضلاتی اعصابی ہوگی ۔مقامی طورپر مشرف ہوگی قدرے موٹائی میں ہوگی۔ ریاح سے پرہونے کی وجہ سے ذرا تیز بھی ہوگی ۔ رطوبت کااثر اگرباقی ہوتو سست وعریض بھی ہوسکتی ہے۔ 
تشخیصی علامات 
چہرہ سیاہی مائل اور اس پرداغ دھبے ،چہرہ پچکا ہوا،اگر کولسٹرول بڑھ گیا تو جسم پھولا ہوا کاربن کی زیادتی ،ترش ڈکار ،جسم میں ریاح اور خشکی و سردی پائی جائے گی۔
3. عضلاتی غدی
اگر نبض پہلی دوسری اورتیسری انگلی تک حرکت کرے اور چوتھی انگلی کے نیچے حرکت نہ کرے تویہ نبص عضلاتی غدی ہوگی۔مشرف ہوگی یعنی مقامی طوپر بالکل اوپر ہوگی۔ حرکت میں تیز اورتنی ہوئی ہوگی۔ یاررکھیں نبض، اگرچہ چار انگلیوں تک بھی حرکت کرے، اگروہ ساتھ ساتھ صلب بھی ہواورمشرف وسریع بھی ہوتو عضلاتی غدی شدید ہوں۔ 
تشخیصی علامات 
عضلات وقلب میں سکیٹر ،فشار الدم ،ریاح کا غلبہ ،اختلاج قلب ،جسم کی رنگت سرخی مائل جسم وجلد پر خشکی اورنیند کی کمی ہوگی۔
4. غدی عضلاتی
اگرنبض چارانگلیوں تک حرکت کرے لیکن وہ مقامی طورپرمشرف اورمنحفض کے درمیان واقع ہو ضیق بھی ہوتوایسی نبض غدی عضلاتی ہوتی ہے۔ 
تشخیصی علامات 
جسم زرد ،پیلا ،ڈھیلا ۔ہاتھ پائوں چہرے پرورم۔یرقان،پیشاب میں جلن ، جگروغدداورغشائے مخاطی میں پہلے سوزش وورم اور بالا خر سکیٹرشروع ہوجانا۔
5. غدی اعصابی
اگرمقامی طورپرغدی نبض کا رجوع منخفض کی طرف ہوجائے تویہ غدی اعصابی ہوگی یہ نبض رطوبت کی وجہ سے غدی عضلاتی سے قدرے موٹی ہوگی اور سست ہوگی۔ 
تشخیصی علامات 
جگرکی مشینی تحریک ہے۔ آنتوں میں مڑور،پیچش ،پیشا ب میں جلن،عسرالطمت ، نلوں میں درد،بلڈپریشراورخفقان وغیرہ کی علامات ہوںگی۔
6. اعصابی غدی
اگرنبض منخفض ہوجائے،عریض ہوجائے، قصیر ہوجائے تو ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی انتہائی دبانے سے ملے گی ۔ 
تشخیصی علامات 
جسم پھولا ہوا،چربی کی کثرت ،بار بارپیشاب کاآنا۔ 
بعض اطباء نے ہرنبض کے ساتھ علامات کی بڑی طویل فہرست لکھ کردی ہے جسکی کہ ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے قانون مفرد اعضاء میں تو ہر تحریک کی جداگانہ علامات کو سرسے لیکر پائوں تک وضاحت وتفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیاہے مثلاََجس طبیب کو اعصابی عضلاتی علامات معلوم ہیں تووہ بخوبی جانتاہے کہ اعصابی عضلاتی نبض کی کیا کیا علامات ہیں اسی طرح دیگر تمام تحاریک کی نبض سے علامات کی تطبیق خود بخود پیدا ہوگئی ہے ۔ان کا یہاں پہ بیان کر نا ایک تو طوالت کا باعث ہوگا ۔اوردوسر ا نفس مضمون سے دوری کاباعث ہوگا ۔
مرداور عورت کی نبض میں فرق
عورت کی نبض کبھی عضلاتی نہیں ہوتی کیونکہ عضلاتی نبض سے خصیتہ الرحم میں اور دیگر غدو میںسکون ہوکر جسم اوربچے کو مکمل غذا نہیں ملتی اگرعورت کی نبض عضلاتی ہوجائے تو اس کو یاحمل ہوگا یااس میں مرد انہ اوصاف پید اہوجائیں گے جیسے آج کل کی تہذیب میں لڑکیاں گیند بلا وغیرہ کھیلتی ہیں یا اس قسم کے دیگر کھیل کھیلتی ہیں یاجن میں شرم وحیاء کم ہوجاتاہے ۔ اس طرح جن عورتوں کے رحم میں رسولی ہوتی ہے ان کی نبض بھی عضلاتی ہوجاتی ہے اورورم کی نبض کا عضلاتی ہونا ضروری ہے۔ )ماہنامہ رجسٹریشن فرنٹ مارچ۱۹۷۰؁ء صفحہ نمبر۹تا۱۰(
اہمیت نبض
جولوگ نبض شناسی سے آگاہ ہیں اور پوری دسترس رکھتے ہیں ان کے لیے نبض دیکھ کر امراض کابیا ن کردینا بلکہ ان کی تفصیلات کاظاہر کردینا کوئی مشکل بات نہیں ۔ ایک نبض شناس معالج نہ صرف اس فن پرپوری دسترس حاصل کرلیتا ہے بلکہ وہ بڑی عزت ووقار کا مالک بن جاتاہے یہ کہنا سراسرغلط ہے کہ نبض سے صرف قلب کی حرکا ت ہی کا پتہ چلتاہے بلکہ اس میں خون کے دبائو خون کی رطوبت اورخون کی حرارت کا بھی علم ہوتا ہے ہرحال میں دل کی حرکات بدل جاتی ہیں جس کے ساتھ نبض کی حرکات اس کے جسم اور اس کے مقام میں بھی تبدیلیاں واقع ہوجاتی ہیں جس سے انسانی جسم کے حالات پر حکم لگایا جاسکتاہے۔
راز کی بات
دل ایک عضلاتی عضو ہے مگر اس پردوعددپردے چڑھے ہوئے ہیں دل کے اوپرکا پردہ غشائے مخاطی اور غدی ہے اوراس کے اوپربلغمی اوراعصابی پردہ ہوتاہے۔جوشریانیں دل اوراس کے دونوں پردوںکو غذا پہنچاتی ہیں ۔ان میں تحریک یاسوزش سے تیزی آجاتی ہے جس کا اثر حرکات قلب اور فعال شرائین پر پڑتاہے جس سے ان میں خون کے دبائو خون کی رطوبت اور خون کی حرارت میں کمی بیشی ظاہر ہوجاتی ہے۔ 
یہ راز اچھی طرح ذہین نشین کرلیں کہ
1. شریان میں خون کا دبائو قلب کی تحریک سے پید اہوتا ہے جو اس کی ذاتی اور عضلاتی تحریک ہے۔
2. خون کی رطوبت میں زیادتی دل کے بلغمی اعصابی پردے میں تحریک سے ہوتی ہے ۔
3. خون کی حرارت قلب کے غشائی غدی پردے میں تحریک سے پید اہوتی ہے اس طرح دل کے ساتھ اعصاب ودماغ اورجگر وغددکے افعال کاعلم ہوجاتا ہے ۔
یہ وہ راز ہے جس کو دنیائے طب میں حکیم انقلاب نے پہلی بارظاہر کیا۔ اس سے نبض کے علم میں بے انتہا آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔
تشخیص کے چند اہم نکات
(۱)حرکات جسم کی زیادتی سے تکلیف 
جسم کے بعض امراض وعلامات میں ذرا بھی اِدھر اُدھر حرکت کی جائے توان میں تکلیف پیداہوجاتی ہے یاشد ت ہوجاتی ہے ایسی صورت میں عضلات وقلب میں سوزش ہوتی ہے حرکت سے جسم میں خشکی پیدا ہوتی ہے۔ 
(۲)آرام کی صورت میں تکلیف 
جب آرام کیاجائے توتکلیف جسم بڑھ جاتی ہے اورطبیعت حرکت کرنے سے آرام پاتی ہے ایسی صورت میں اعصاب ودماغ میں سوزش وتیزی ہوتی ہے۔آرام سے جسم میں رطوبت کی زیادتی ہوجاتی ہے 
(تحقیات الامراض والعلامات صفحہ نمبر۱۱۱تا۱۱۲) 
(۳)خون آنا 
اگرمعدے سے لے کراوپرکی طرف سرتک کسی مخرج سے خارج ہوتویہ عضلاتی اعصابی تحریک ہوگی اوراگرجگر سے لے کرپائوں تک کسی مخرج یامجریٰ سے خارج ہوتویہ عضلاتی غدی تحریک ہوگی ۔
ضرور ی نوٹ
تشخیص الامراض میں عضلاتی اعصابی اورعضلاتی غدی یاغدی عضلاتی اورغدی اعصابی وغیرہ تحریکات میں فرق اگروقتی طور پرمعلوم نہ ہوسکے توکسی قسم کافکر کئے بغیر اصول علاج کے تحت عضو مسکن میں تحریک پیداکردینا کافی وشافی ویقینی علاج ہے۔
تشخیص کی مروجہ خامیاں
طب یونانی وطب اسلامی میںتشخیص کاپیمانہ نبض وقارورہ ہے ملک بھر کے لاکھوںمطب کا چکر لگالیں گنتی کے چند مطب ملیں گے جن کو چلانے والے اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اورنہ ہی یہ علم اب طبیہ کالجوںمیں پوری توجہ سے پڑھا یاجاتا ہے شاید ہی ملک کا کوئی طبی ادارہ نبض وقارورہ سے اعضاء کے غیر طبعی افعال اور اخلاط کی کمی بیشی کی پہچان پردسترس کی تعلیم دیتا ہو ۔اب تک تو طب یونانی کا ایسا کوئی ادارہ دیکھا نہیں ،دیکھنے کی خواہش ضرور ہے۔اعتراف ِحقیقت بھی حسن اخلاق کی اصل ہے قانون مفر د اعضاء کے اداروں سے تعلیم وتربیت یافتہ اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص پر کافی حدتک دسترس رکھتے ہیں۔ 
اس طرح مذاکرہ ،دال تعرف ماتقدم جوکہ مریض و معالج میں اعتماد کی روح رواں ہیں مگر اس دور کے معالجین ان حقائق سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتے۔ مریض نے جس علامت کا نام لیا اسی کو مرض قرار دے کر بنے بنائے مجربات کا بنڈل اس کے ہاتھ میں تھما دیاجاتا ہے۔ 
اگرکوئی ادارہ تشخیص کا دعویٰ بھی کرتاہے اس کی تشخیص کا جوانداز ہے، ا س پربھی ذرا غور کریں۔ تمام طریقہ بائے علاج میں پیٹ میں نفخ ہو یا قے ،بھوک کی شدت ہو یا بھوک بند ،تبخیرہویا ہچکی بس یہی کہا جائے گا کہ پیٹ میں خرابی ہے ان علامات میں اعضائے غذایہ کی بہت کم تشخیص کی جائے گی۔ اگر کسی اہل فن نے پیٹ کی خرابی میں معدہ ،امعاء ،جگر،طحال اور لبلبہ کی تشخیص کربھی لی تو اس کو بہت بڑا کمال خیال کیاجائے گا۔لیکن اس امر کی طرف کسی کادھیان نہیں جائے گا کہ معدہ امعاء وغیرہ خودمرکب اعضاء ہیں اور ان میں بھی اپنی جگہ پرعضلات ، اعصاب اور غددواقع ہیں مگر یہاں پربھی صرف معدہ کومریض کہا جاتا ہے جو ایک مرکب عضوہے ۔یہاں پر بھی معدہ کے مفرد اعضاء کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا حالانکہ معدہ کے ہر مفرد عضو کی علاما ت بالکل مختلف اور جدا جدا ہیں مگر تشخیص ہے کہ کلی عضو کی کی جارہی ہے اورعلاج بھی کلی طور پر معد ہ کا کیا جارہا ہے نتیجہ اکثر صفر نکلتا ہے ناکام ہوکر نئی مرض ایجاد کردی جاتی ہے ایک نئی مرض معلوم کرنے کا کارنامہ شما ر کرلیا جاتاہے۔ 
فاعلم، جب معدہ کے اعصاب میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی صورتیں اورعلامات معدہ کے عضلات کی سوزشوں سے بالکل جد اہوتی ہیں اسی طرح جب معدہ کے غدو میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی علامات ان دونوں مفرد اعضاء کی سوزشوں سے بالکل الگ الگ ہوتی ہیں پھر سب کو صرف معدہ کی سوزش شمار کرنا تشخیص اور علاج میں کسی قدر الجھنیں پیداکردیتا ہے یہی وجہ ہے کہ یورپ ،امریکہ کو بھی علاج میں ناکامیاں ہوتی ہیں اوروہ پریشان اور بے چین ہیں اوراس وقت تک ہمیشہ ناکام رہیں گے جب تک کہ علاج اور امراض میں کسی مرکب عضو کی بجائے مفرد عضو کو سامنے نہیں رکھیں گے ۔امراض میں مفرد اعضاء کو مدنظر رکھنا مجد دطب حکیم انقلاب المعالج دوست محمد صابر ملتانی کی جدید تحقیق اور عالمگیر کارنامہ ہے مجدد طب کا یہ نظریہ مفرد اعضا ء (Simple organ theory) فطر ت اور قانون قدرت سے مطابقت رکھتا ہے۔ 
اس سے نہ صرف تشخیص میں آسانیاں پید اہوگئی ہیں بلکہ ہر مرض کا علاج یقینی صورت میں سامنے آگیاہے۔ اس کاسب سے بڑ ا فائدہ یہ ہے کہ مرکب عضومیں جس قدر امراض پیداہوتے ہیں ان کی جدا جد اصورتیں سامنے آجاتی ہیں۔ ہرصورت میں ایک دوسرے سے ان کی علامات جدا ہیں ،جن سے فوراََ یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اس عضو کا کون سا حصہ بیمارہے پھر صرف اسی حصہ کا آسانی سے علاج ہوسکتا ہے۔ 
اب ٹی بی ہی کو لیجئے کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے یہ تو اصل بیماری کی ایک علامت ہے ۔انسان میں آخرکونسا پرزہ خراب ہے جب معالج کو پتہ تک ہی نہیں کہ کون سا پرزہ خراب ہے توہ کیسے ٹھیک کرے گا انسانی جسم بھی تو ایک مشین ہے اس میں بھی تو پرزے ہیں جب یہ مشین خراب ہوتی ہے تودراصل کوئی پرزہ ہی توخراب ہوجاتاہے اسی طرح شوگر ،بلڈپریشر وغیرہ کوئی امراض نہیں بلکہ کسی نہ کسی پرزے کی خرابی کی علامات ہیں ۔ اس لئے صحیح اور کامیاب معالج وہی ہوگا جوصرف علامات کی بنیا دپر علاج کرنے کی بجائے اجزائے خون ،دوران خون اور افعال الاعضاء کے بگاڑ کو سمجھ کر تشخیص وعلاج کرے گا ۔ اس کی ایک دوائی ہی سرسے لے کر پائوں تک کی تکلیف دہ علامات کو ختم کردے گی۔ انشاء اللہ

Friday, 14 November 2014

ادرک جسے عربی میں زنجبیل اور سندھی میں سونڈھ کہتے ہیں،

ادرک جسے عربی میں زنجبیل اور سندھی میں سونڈھ کہتے ہیں، ماہرین نباتات کے مطابق ایشیا کا پودا ہے جس کی جڑ یا گرہ کئی مقاصد کے لئے استعمال کی جاتی ہے ۔ سولہویں صدی میں اس کی کاشت جنوبی امریکہ میں ہونے لگی۔ اسپین کے فاتحین اسے شرق الہند سے وہاں لے گئے ۔ اب اس کی کاشت دنیا کے مختلف ملکوں میں ہو رہی ہے ۔ پیداوار اور اس کی برآمد کے معاملے میں چین اور ہندوستان سر فہرست ہیں ۔ ان کے علاوہ سری لنکا ، بنگلہ دیش، بر ما انڈونیشیا میں بھی یہ کاشت ہو تی ہے۔ تازہ جڑ ادرک کہلاتی ہے اور خشک کو سونٹھ کہتے ہیں ۔ یو رپ میں ادرک کا زیادہ تر استعمال بحری ملاح کر تے تھے اس کا مربہ سمندری سفر کے دوران ہو نے والی متلی،چکر وغیرہ کے لئے مفید سمجھاجاتا تھا۔ ادرک میں ۳۱ فیصد ہلکا زرد رنگ کا فراری تیل پایا جاتا ہے۔ ا س کے پھولوں میں بھی اس کی مخصوص خوشبو ہو تی ہے۔ تاہم جڑ ہی پھول او ر تنے سے زیادہ خوشبو اور پر تاثیر ہو تی ہے۔ یہ خوشبو اور مرچ کی طرح چرچری ہو تی ہے۔ ادرک کے کیمیائی تجزئے کے مطابق اس میں فراری تیل کے علاوہ تیز تلخ رال، گوند، ،نشاستہ ، ریشہ یا چوبی مادہ، ایسے ٹک ایسڈ، ایسی ٹیٹ آف پو ٹاش اورگندھک وغیرہ ہو تے ہیں۔ طبی اور دوائی اعتبار سے ادرک ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ یہ ہاضمے کی قوت کو تیز کر تی ہے ، ریاح خارج کر تی ہے، اسی لئے اسے اکثر امراض معدہ میں استعمال کر تے ہیں۔ یہ خاص طور پر شراب نو شی کی وجہ سے ہو نے والی ہضم کی خرابیوں کو دور کرنے میں بہت مفید ثابت ہو تی ہے۔ ادرک بلغمی مزاج والوں کے لئے بہت مفید ہو تی ہے ۔مرض سنگرہنی(Spurue) میں اسے پو رے اعتماد کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس مرض میں آنتیں بہت کمزور ہو جاتی ہیں ان کی دیواریں پتلی پڑ جاتی ہیں اور ان پر کہیں کہیں سطحی زخم بن جاتے ہیں ۔ اس مرض میں سونٹھ کو گھی میں سرخ کرکے اس کا سفوف چھاچھ کے ساتھ دن میں تین بار کھلانا مفید ہو تا ہے۔ ادرک غذا کی اصلاح کر تی ہے۔ ثقیل غذاؤں مثلاً اڑد کی دال، گوبھی کے ساتھ اسے شامل کرنے سے یہ آسانی سے ہضم ہو جاتی ہے اور ان کا بادی پن دور ہو جاتا ہے۔ ادرک کو چھیل کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے نمک چھڑک کرکھانے سے بھوک کھل کر لگتی ہے۔ پیٹ میں بھرے ریاح خارج ہو جاتے ہیں اور قبض بھی دور ہو جاتا ہے۔ اس کا تیل گٹھیا اور سردی کے دردوں کے لئے مفید ہو تا ہے۔ بلغمی امراض میں ادرک کے تازہ رس میں تھوڑا شہد ملا کر چاٹنے سے سینہ اور گلا بلغم سے صاف ہو جاتا ہے ۔ اسی مرکب کو گرم پانی میں ملا کر پینے سے بھی نزلہ ، کھانسی، گلے کی خراش اور درد کو آرام ہو جاتا ہے۔ سردی کم ہو جاتی ہے ۔ ادرک کا استعمال جسم میں حرارت پیدا کر تا ہے۔ تھوڑی سی ادرک یا سونٹھ گڑ میں ملا کر کھانے سے جسم میں حرارت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ سردیوں میں اس کی چائے میں اس کا رس شامل کر کے پینے سے خوش گوار حرارت کا احساس ہو تا ہے۔ قے اور متلی کے لئے ادرک کا تنہا یا دیگر اجزا کے ساتھ استعمال بہت مفید ہو تا ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ادرک کے ٹکڑے توے پر ہلکے سینک کر اور تھوڑا نمک لگا کر چوسے جائیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کے رس میں ہم وزن پو دینے اور لیموں کا رس شہد میں ملا کر دھیمی آنچ م پر گاڑھا کر لیں اور تھوڑا تھوڑا چاٹتے رہیں۔ ہندوستانی بحری بیڑے کے افراد کو سمندر میں روگ یا بحری سفر کی وجہ سے ہو نے والی متلی ، دوران سر وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لئے (زسنم) نامی ایک چٹ پٹا مشروب استعمال کر ایا جاتا ہے جس سے وہ ان تکالیف سے جلد نجات پا جاتے ہیں ۔ زسنم‘ دراصل املی کا زلال ہو تا ہے ، جس میں تازہ ادرک کا رس، سفید زیرہ اور تھوڑا نمک شامل کر تے ہیں ۔ ادرک املی ساتھ ملکر ایک بہترین مانع بن جاتی ہے۔ ایک تجربہ کے مطابق جانوروں کو ادرک استعمال کرانے سے اس کی ایک اور اہم خصوصیت کا انکشاف بھی ہو ا ہے۔ ادرک کھانے والے جانوروں کی خون میں کولیسٹرول کی سطح گر گئی۔ اسی طرح لیبورٹری میں ہو نے والے تجربات سے ادرک کی ضد حیوی ( اینٹی بائیو ٹک) خصوصیات کا انکشاف بھی ہوا ہے ۔ بعض طبی حلقوں نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ ادرک میں مانع سرطان صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ بات اب تسلیم کی جارہی ہے کہ ادرک خون کے قوام کو پتلا رکھتی ہے۔ خراب رطوبتوں کو جذب کر تی ہے اور حیض کو درست رکھتی ہے ۔ یو رپ میں ادرک کی چائے کو سردی کی وجہ سے حیض کی بندش کی شکایت دور کر نے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ادرک میں لہسن کی طرح خون پتلا کر نے کی صلاحیت سے اشارہ ملتا ہے کہ کو کولیسٹرول ، خلطہ بلغم اور صفرا کے عدم توازن اور بگاڑ کی شکل ہے جو غذائی بے اعتدالیوں اور ورزش کی کمی کے نتیجے میں سخت ہوکر شریانوں میں تہ نشین ہوتی ہے ۔ اس قسم کی شفاتی صلاحیت برگ پان میں بھی پائی جاتی ہے۔ تازہ ادرک، سبز پان، آلو بخارے اور پو دینے کی جو شاندے پر ماہرین تجربات کے حوصلہ افزا اور حیرت انگیز نتائج برآمد ہو رہے ہیں ۔ یہ مرکب عضلات قلب کے ضعف، عظم قلب، جگر کی خرابی اور ورم کے لئے بہت مفید ثابت ہو رہا ہے ۔

Tuesday, 11 November 2014

جوارش جالینوس

جوارش جالینوس
یہ جوارش معدہ کی اصلاح کے لئے عجیب چیز ہے۔ اس کے خواص اور افعال بے شمار ہیں۔
1- ہاصمے کی خرابی کا زبردست علاج ہے۔
2- معدے کی خرابی کی وجہ سے ہونے والے سردرد میں بہت فائدہ دیتی ہے۔
3- خرابی معدہ کی وجہ سے منہ سے بدبو آتی ہو تو اسے استعمال کریں۔
4- پیشاب کی زیادتی جو موسم سرما اور رات کو بڑھ جاتی ہو اور مثانہ کی کمزوری کے لئے استعمال ہوتی ہے۔
5- جسم میں ریاحی دردوں کا علاج ہے۔
6- بلغمی کھانسی میں اسکا استعمال بہت فائدہ مند ہے۔
7- بادی بواسیر میں اسکا استعمال بواسیر کو ختم کردیتا ہے۔
8- دردکمر کے لئے اسے کم از کم 2 ماہ استعمال کریں۔
9- گردے اور مثانے کی پتھری میں اسکا استعمال پتھری کو ختم کردیتا ہے۔
10- جنسی کمزوری کے لئے بھی اسکا استعمال کیا جاسکتاہے
مقدار خوراک: 7ماشہ سے 9 ماشہ صبح شام کھانے کے بعد عرق سونف کے ہمراہ استعمال کریں۔

Sunday, 9 November 2014

دیرینہ کھانسی: وجوہات اور بچاؤ کے آسان نسخے

دیرینہ کھانسی: وجوہات اور بچاؤ کے آسان نسخے
گلے کی خرابی، حلق کی سوزش، سانس کی نالی میں کسی قسم کے انفکشن کا جنم لینا یا پھیپھڑوں کی خرابی، کھانسی کا سبب بنتی ہے۔ کھانسی کا مؤثرعلاج نہ ہونے کی صورت میں یہ خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔
کھانسی چند روزہ ہو یا کہنہ، برونکائیٹس کی شکل اختیار کر چُکی ہو یا خُشک اور شدید ہو، اس کا تعلق نظام تنفس کی گوناگوں بیماریوں سے ہوتا ہے، ان کے طبی علاج کے ساتھ ساتھ چند سادہ اور گھریلو نسخے بھی بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔
شدید کھانسی عموماً لگ بھگ تین ہفتے رہتی ہے۔ کھانسی کی چند دیگر اقسام ٹھیک ہونے میں کبھی کبھی کافی وقت لے لیتی ہیں تاہم کھانسی کسی بھی نوعیت کی ہو اس کا تعلق نظام تنفس میں پیدا ہونے والے کسی نقص سے ضرور ہوتا ہے۔ گلے کی خرابی، حلق کی سوزش، سانس کی نالی میں کسی قسم کے انفکشن کا جنم لینا یا پھیپھڑوں کی خرابی، کھانسی کا سبب بنتی ہے۔ کھانسی کا مؤثرعلاج نہ ہونے کی صورت میں یہ خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔
پھیپھڑوں کی مخصوص نالیوں میں مسلسل نقص رہنے کی صورت میں برونکائیٹس کا عارضہ جنم لیتا ہے اور ابتدائی مرحلے میں مریض کو خشک کھانسی کا سامنا ہوتا ہے۔ اگر اس مرحلے پر صحیح علاج نہ ہو سکے تو پھیپھڑوں کی نالیوں میں بلغم جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح پھیپھڑے اپنا نارمل فنکشن انجام نہیں دے پاتے اور مریض کو آخر کار سانس لینے میں دشواری ہونے لگتی ہے جو خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
غیر فعال تمباکو نوشی بچوں کی صحت کغ لیے بہت نقصاندہ ثابت ہوتی ہے
غیر فعال تمباکو نوشی بچوں کی صحت کغ لیے بہت نقصاندہ ثابت ہوتی ہے
موسم اور احتیاط
سانس کی تکلیف یا دائمی کھانسی میں مبتلا مریضوں کو سردیوں اور بہار کے موسم کے آغاز سے پہلے ہی بہت محتاط ہو جانا چاہیے کیونکہ پھیپھڑوں کی نالیوں میں جمع ہونے والی بلغم نزلے زکام کے جراثیموں کی آماجگاہ بن جاتی ہے جہاں وہ تیزی سے نشو و نما پاتے ہیں۔ یہ بلغم کبھی کبھی شدید کھانسی کی صورت میں بھی باہر نہیں نکلتی، نالیوں کو جکڑے رکھتی ہے اور اکثر پھیپھڑوں کے مہلک انفکشن کا سبب بنتی ہے۔
کہنہ کھانسی کی وجوہات
کہنہ بروناکائیٹس یا پھیپھڑوں کے ورم کی سب سے بڑی وجہ تمباکو نوشی ہوتی ہے۔ 40 سال کی عمر سے زائد کے ہر دوسرے تمباکو نوش میں ڈاکٹر برونکائیٹس یا پھیپھڑے کے ورم کی بیماری کی تشخیص کرتے ہیں۔ جتنی زیادہ تمباکو نوشی کی جائے گی، مرض کی شدت بھی اتنی ہی بڑھتی جائے گی۔ برونکائیٹس کے مرض میں مبتلا 90 فیصد مریض یا تو تمباکو نوشی کی بُری عادت میں مبتلا ہوتے ہیں یا ماضی میں رہ چکے ہوتے ہیں۔
برونکائیٹس سے نجات حاصل کرنے کے لیے فوری طور پر تمباکو نوشی ترک کرنا اور طبی علاج کا سہارا لینا ناگزیر ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سگریٹ نوشی ترک کرنے کے قریب چار ہفتوں بعد کھانسی ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ چند خاص قسم کے کام کرنے والوں میں پھپپھڑوں کی خرابی اور کھانسی زیادہ عام ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کانوں میں کام کرنے والوں میں یہ بیماری عام ہے اور اگر وقت پر اس کا مؤثر علاج نہ کیا جائے تو یہ پھیپھڑوں کے کینسر یا سرطان کا سبب بن سکتی ہے۔
جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ادویات زیادہ موثر ہوتی ہیں
جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ادویات زیادہ موثر ہوتی ہیں
برونکائیٹس سے بچاؤ کے طریقے
ہوا میں نمی کا مناسب تناسب سانس کی بیماریوں اور کھانسی وغیرہ سے بچنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں سونے کے کمرے میں ہوا میں نمی کا تناسب 45 سے 60 فیصد کے درمیان ہونا چاہیے۔
جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ چائے دائمی کھانسی کے علاج اور پھیپھڑوں کی نالیوں کو کھولنے کے عمل میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔ اس چائے میں پودینے کے خاندان سے تعلق رکھنے والا پودا سلویا، قدیم عرب، یونان، مصر اور اٹلی میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹی زعتر، پودینہ اور پلین ٹین یا موزیہ یا کیلویہ پودے کے پتے شامل ہوتے ہیں۔
کھانسی کے خلاف دیسی نسخے
کھانسی کا زور توڑنے کے لیے حلق کو خُشکی سے بچانا نہیات ضروری ہوتا ہے، اس لیے کھانسی کی شدت سے بچنے اور گلے کی سوزش دور کرنے کے لیے جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ گولیاں چوستے رہنا چاہیے۔
سینے پر ہنس کی چربی ملنے سے کھانسی میں بہت آرام آتا ہے اور اس کی گرمی پھیپھڑوں کی نالیوں میں جمع بلغم کو صاف کرنے میں بھی بہت مدد دیتی ہے۔
لیموں کے عرق سے تولیے کو تر کر کے سینے کو لپیٹنے سے بھی کھانسی میں آرام آتا ہے۔
گرم دودھ میں شہد ملا کر پینے سے پھیپھڑوں سے بلغم صاف ہو جاتا ہے۔
نمک کے پانی سے غرارے کرنے اور نمک کے گرم پانی کا بھاپ لینے سے ناک اور گلے کی سوزش میں کمی آتی ہے اور سانس کی نالی پر حملہ کرنے والے جراثیم بھی مر جاتے ہیں۔ اس طرح کھانسی پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
بہت شدت کی کھانسی میں سانس لینے کا عمل غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ تیز تیز سانس لینا کھانسی اور پھیپھڑے میں جمع بلغم کو صاف کرنے میں مدد نہیں دیتا۔ آہستہ آہستہ اور گہری سانس لینے سے پھیپھڑے کی بند نالیوں کو کھولنے اور خون تک آکسیجن کی مطلوبہ مقدار کی فراہمی میں مدد ملتی ہے۔