انٹی بائیؤ ٹک ادویات کے بارے انتہائی تلخ حقائق
انٹی بائیؤ ٹک ادویات کے بارے انتہائی تلخ حقائق
برطانوی محکمہٴصحت کی چیف آفیسر نے دنیا کو آنے والےوقتوں میں اینٹی بایوٹک ادویات کے بے اثر ہوجانے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ایسی اینٹی بایوٹک ادویات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جن کے خلاف بیکٹریا نے مزاحمت پیدا کرلی ہے، اس لیے دوران علاج یہ ادویات انسانی جسم پر اپنا اثر کھوتی جا رہی ہیں۔
حکومت برطانیہ کی چیف میڈیکل افسر، ڈیم سیلی ڈیوس کے مطابق، ‘اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت اختیار کرلینے والے بیکٹریا کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا علاج نہیں کیا جاسکے گا، جو مستقبل میں اقوام عالم کے لیے ایک سنگین خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔’
ڈیوس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا کہ دنیا کو درپیش دہشت گردی کا مسئلہ اور موسمی تغیرات جیسے اہم مسائل کی طرح یہ بھی ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ کیونکہ، مستقبل میں دنیا کو دہشت گردی سے زیادہ بڑا نقصان اینٹی بایوٹک دواؤں کے بے اثر ہو جانے سے پہنچے گا۔ کئی اقسام کے انفیکشن کا علاج نہ ہونے سے دنیا میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں واقع ہو سکتی ہیں۔
ڈیوس نے مستقبل کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ،’وہ ایک ایسی صورت حال کا تصور کر رہی ہیں جب 20 برس بعد ایک معمولی آپریشن کرنے پر موت کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اعضا کی پیوندکاری جیسے بڑےآپریشن کے دوران کوئی معمولی انفیکشن مریض کی جان لے سکتا ہے، کیونکہ اس وقت زیادہ تر اینٹی بایوٹک ادویات اپنا اثر کھو چکی ہوں گی۔ اگر حکومت نے بروقت اس مسئلے کی سنگینی پر غور نہیں کیا تو مجھے ڈر ہے کہ برطانیہ ایک بار پھر سے 200 برس پرانے طب کے دور میں لوٹ جائے گا جب بیماریوں کے علاج کے لیے ادویات موجود نہیں تھیں ۔’
جبکہ اینٹی بایوٹک کے خلاف بیکٹریا کا مزاحمت اختیار کرنے کا عمل نیا نہیں ہے، یہ عمل اس وقت سے ہی شروع ہو گیا تھا جب پہلی بار اس دوا کا استعمال کیا گیا تھا۔ مگر موجودہ دور میں اینٹی بایوٹک ادویات کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ مزاحمتی بیکٹریا پیدا ہو رہے ہیں، جو کہ ایک جسم سے دوسرے جسم میں آسانی سے منتقل ہو رہے ہیں۔ اس طرح یہ ایک گھمبیر نوعیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔
اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف بیکٹریا کی (Resistance ) مزاحمت کے عمل کو اس طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔ انفیکشن کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج اینٹی بایوٹک ادویات کے ذریعے کیا جاتا ہے جب دوا بیمار جسم میں داخل ہوتی ہے تو بیماری پھیلانے والے حساس بیکٹریا کو ختم کر دیتی ہے۔ مگر تمام بیکٹریا کو مارنے میں ناکام رہتی ہے ایسے میں بچ جانے والے بیکٹریا مزاحمت اختیار کرلیتے ہیں اور زیادہ تعداد میں سارے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ لہذا، اب اس جسم میں اس دوا کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔ جبکہ، اسی اینٹی بایوٹک کا بار بار استعمال جسم میں مزاحمتی بیکٹریا کو مضبوط کردیتا ہے۔ اب یہ دوا اس بیکٹیریا کے خلاف اپنا اثر کھوتی جاتی ہے ۔ نتیجتاً بے اثر ہو جاتی ہے۔
برطانیہ میں سال 2003 ء میں صرف تین دوائیوں کے خلاف مزاحمت کے کیس سامنے آئے تھے۔ لیکن، ہیلتھ پروٹیکشن ایجنسی کی گذشتہ برس کی رپورٹ کے مطابق، ایسی اینٹی بایوٹک ادویات کی تعداد800 تک جا پہنچی جو ان مزاحمتی بیکٹریا پر اثرانداز نہیں ہو رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ، ‘ماضی میں مریضوں کو گھبرانے کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کیونکہ، طب کی دنیا میں تحقیق کا سلسلہ جاری تھا اور موٴثر اینٹی بایوٹک ادویات طب کے ہر شعبے کے لیے ایجاد ہو رہی تھیں۔ مگر، اب حالات مختلف ہیں۔ آج بہت سی اینٹی بایوٹک ادویات کا اثر زائل ہوجانے کی وجہ سے ہمیں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ نئی دواؤں کی ضرورت ہے۔ مگر، مشکل یہ ہے کہ دواساز کمپنیوں کی نظر ان کے منافع پر ہوتی ہے۔ وہ زیادہ تر لمبی اور مستقل بیماریوں، جیسے کے دل کی بیماریوں میں استعمال کی جانے والی دوائیں بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس وقت، طب کا ہر شعبہ ان ادویات پر مکمل انحصار کرتا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ ہماری طب کی دنیا میں تحقیق کی پائپ لائن مکمل سوکھ چکی ہے۔’
اس وقت بہت سی ادویات انفیکشن کے علاج کے لیے غیر موثر ہو چکی ہیں جبکہ حال یہ ہے کہ بیماروں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اگرچہ” سپر بگ ‘یا” ایم آر ایس اے ” نامی مزاحمتی بیکٹریا جو بہت سی بیماریاں پھیلانے کا باعث تھا، اس پر قابو پا لیا گیا ہےلیکن کئی دیگر اقسام کے بیکٹریا جن میں E Coli اور Kelebsiellaجیسے بیکٹریا مزاحمت اختیار کر رہے ہیں جو کہ نمونیہ کی بیماری پھیلانے کا سبب ہیں۔
اسی طرح ٹیٹرا سائکلین نامی اینٹی بایوٹک کے خلاف Gonorrhea نامی بیکٹریا 80 فیصد مزاحمت اختیار کرچکا ہے،جس سے ٹی بی جیسی بیماری پھیلنے کا خطرہ بڑھ ریا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سی ایسی بیماریاں جن پر اس وقت کچھ اینٹی بایوٹک اثر نہیں کر رہی ہیں ہم اس کا علاج متبادل اینٹی بایوٹک ادویات کے ذریعے کر رہے ہیں۔ تاہم، مستقبل قریب میں یہ صورتحال بدلنے والی ہےجب ہمارے پاس اس کمی کو پورا کرنے کے لیے نئی متبادل ادویات موجود نہیں ہوں گی۔
انھوں نے کہا کہ اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف جسم میں مزاحمت پیدا ہونے کے مسئلے کو بین الاقومی سظح پر حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ادارے، دوا سازکمپنیوں، ڈاکٹر اور مریضوں سے لے کر عام افراد کو اس مسئلے کی سنجیدگی پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ہیلتھ ایجنسی کے سربراہ پروفیسر انتھونی کیسل نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اینٹی بایوٹک ادویات کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے وائرل بیماری کے لیے بھی اینٹی بایوٹک دوا تجویز کرنے کی وجہ سے اس مسئلے کی سنگینی میں اضافہ ہوا ہے۔
اس سلسلے میں، ڈاکٹر کے کلینک اور مریض دونوں کو مکمل آگاہی کی ضرورت ہے، تاکہ وہ صرف ضرورت پڑنے پر ہی اینٹی بایوٹک دوا کا استعمال کریں۔ جو ادویات انھیں علاج کے لیے تجویز کی جارہی ہیں ان کے بارے میں اپنے معالج سے مشورہ کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ان دواؤں کو ٹھیک مقدار اور مناسب وقفے کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے، تاکہ جسم میں قوت مدافعت کمزور نہ پڑے۔
برطانوی محکمہٴصحت کی چیف آفیسر نے دنیا کو آنے والےوقتوں میں اینٹی بایوٹک ادویات کے بے اثر ہوجانے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ایسی اینٹی بایوٹک ادویات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جن کے خلاف بیکٹریا نے مزاحمت پیدا کرلی ہے، اس لیے دوران علاج یہ ادویات انسانی جسم پر اپنا اثر کھوتی جا رہی ہیں۔
حکومت برطانیہ کی چیف میڈیکل افسر، ڈیم سیلی ڈیوس کے مطابق، ‘اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت اختیار کرلینے والے بیکٹریا کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا علاج نہیں کیا جاسکے گا، جو مستقبل میں اقوام عالم کے لیے ایک سنگین خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔’
ڈیوس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا کہ دنیا کو درپیش دہشت گردی کا مسئلہ اور موسمی تغیرات جیسے اہم مسائل کی طرح یہ بھی ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ کیونکہ، مستقبل میں دنیا کو دہشت گردی سے زیادہ بڑا نقصان اینٹی بایوٹک دواؤں کے بے اثر ہو جانے سے پہنچے گا۔ کئی اقسام کے انفیکشن کا علاج نہ ہونے سے دنیا میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں واقع ہو سکتی ہیں۔
ڈیوس نے مستقبل کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ،’وہ ایک ایسی صورت حال کا تصور کر رہی ہیں جب 20 برس بعد ایک معمولی آپریشن کرنے پر موت کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اعضا کی پیوندکاری جیسے بڑےآپریشن کے دوران کوئی معمولی انفیکشن مریض کی جان لے سکتا ہے، کیونکہ اس وقت زیادہ تر اینٹی بایوٹک ادویات اپنا اثر کھو چکی ہوں گی۔ اگر حکومت نے بروقت اس مسئلے کی سنگینی پر غور نہیں کیا تو مجھے ڈر ہے کہ برطانیہ ایک بار پھر سے 200 برس پرانے طب کے دور میں لوٹ جائے گا جب بیماریوں کے علاج کے لیے ادویات موجود نہیں تھیں ۔’
جبکہ اینٹی بایوٹک کے خلاف بیکٹریا کا مزاحمت اختیار کرنے کا عمل نیا نہیں ہے، یہ عمل اس وقت سے ہی شروع ہو گیا تھا جب پہلی بار اس دوا کا استعمال کیا گیا تھا۔ مگر موجودہ دور میں اینٹی بایوٹک ادویات کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ مزاحمتی بیکٹریا پیدا ہو رہے ہیں، جو کہ ایک جسم سے دوسرے جسم میں آسانی سے منتقل ہو رہے ہیں۔ اس طرح یہ ایک گھمبیر نوعیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔
اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف بیکٹریا کی (Resistance ) مزاحمت کے عمل کو اس طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔ انفیکشن کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج اینٹی بایوٹک ادویات کے ذریعے کیا جاتا ہے جب دوا بیمار جسم میں داخل ہوتی ہے تو بیماری پھیلانے والے حساس بیکٹریا کو ختم کر دیتی ہے۔ مگر تمام بیکٹریا کو مارنے میں ناکام رہتی ہے ایسے میں بچ جانے والے بیکٹریا مزاحمت اختیار کرلیتے ہیں اور زیادہ تعداد میں سارے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ لہذا، اب اس جسم میں اس دوا کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔ جبکہ، اسی اینٹی بایوٹک کا بار بار استعمال جسم میں مزاحمتی بیکٹریا کو مضبوط کردیتا ہے۔ اب یہ دوا اس بیکٹیریا کے خلاف اپنا اثر کھوتی جاتی ہے ۔ نتیجتاً بے اثر ہو جاتی ہے۔
برطانیہ میں سال 2003 ء میں صرف تین دوائیوں کے خلاف مزاحمت کے کیس سامنے آئے تھے۔ لیکن، ہیلتھ پروٹیکشن ایجنسی کی گذشتہ برس کی رپورٹ کے مطابق، ایسی اینٹی بایوٹک ادویات کی تعداد800 تک جا پہنچی جو ان مزاحمتی بیکٹریا پر اثرانداز نہیں ہو رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ، ‘ماضی میں مریضوں کو گھبرانے کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کیونکہ، طب کی دنیا میں تحقیق کا سلسلہ جاری تھا اور موٴثر اینٹی بایوٹک ادویات طب کے ہر شعبے کے لیے ایجاد ہو رہی تھیں۔ مگر، اب حالات مختلف ہیں۔ آج بہت سی اینٹی بایوٹک ادویات کا اثر زائل ہوجانے کی وجہ سے ہمیں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ نئی دواؤں کی ضرورت ہے۔ مگر، مشکل یہ ہے کہ دواساز کمپنیوں کی نظر ان کے منافع پر ہوتی ہے۔ وہ زیادہ تر لمبی اور مستقل بیماریوں، جیسے کے دل کی بیماریوں میں استعمال کی جانے والی دوائیں بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس وقت، طب کا ہر شعبہ ان ادویات پر مکمل انحصار کرتا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ ہماری طب کی دنیا میں تحقیق کی پائپ لائن مکمل سوکھ چکی ہے۔’
اس وقت بہت سی ادویات انفیکشن کے علاج کے لیے غیر موثر ہو چکی ہیں جبکہ حال یہ ہے کہ بیماروں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اگرچہ” سپر بگ ‘یا” ایم آر ایس اے ” نامی مزاحمتی بیکٹریا جو بہت سی بیماریاں پھیلانے کا باعث تھا، اس پر قابو پا لیا گیا ہےلیکن کئی دیگر اقسام کے بیکٹریا جن میں E Coli اور Kelebsiellaجیسے بیکٹریا مزاحمت اختیار کر رہے ہیں جو کہ نمونیہ کی بیماری پھیلانے کا سبب ہیں۔
اسی طرح ٹیٹرا سائکلین نامی اینٹی بایوٹک کے خلاف Gonorrhea نامی بیکٹریا 80 فیصد مزاحمت اختیار کرچکا ہے،جس سے ٹی بی جیسی بیماری پھیلنے کا خطرہ بڑھ ریا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سی ایسی بیماریاں جن پر اس وقت کچھ اینٹی بایوٹک اثر نہیں کر رہی ہیں ہم اس کا علاج متبادل اینٹی بایوٹک ادویات کے ذریعے کر رہے ہیں۔ تاہم، مستقبل قریب میں یہ صورتحال بدلنے والی ہےجب ہمارے پاس اس کمی کو پورا کرنے کے لیے نئی متبادل ادویات موجود نہیں ہوں گی۔
انھوں نے کہا کہ اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف جسم میں مزاحمت پیدا ہونے کے مسئلے کو بین الاقومی سظح پر حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ادارے، دوا سازکمپنیوں، ڈاکٹر اور مریضوں سے لے کر عام افراد کو اس مسئلے کی سنجیدگی پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ہیلتھ ایجنسی کے سربراہ پروفیسر انتھونی کیسل نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اینٹی بایوٹک ادویات کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے وائرل بیماری کے لیے بھی اینٹی بایوٹک دوا تجویز کرنے کی وجہ سے اس مسئلے کی سنگینی میں اضافہ ہوا ہے۔
اس سلسلے میں، ڈاکٹر کے کلینک اور مریض دونوں کو مکمل آگاہی کی ضرورت ہے، تاکہ وہ صرف ضرورت پڑنے پر ہی اینٹی بایوٹک دوا کا استعمال کریں۔ جو ادویات انھیں علاج کے لیے تجویز کی جارہی ہیں ان کے بارے میں اپنے معالج سے مشورہ کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ان دواؤں کو ٹھیک مقدار اور مناسب وقفے کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے، تاکہ جسم میں قوت مدافعت کمزور نہ پڑے۔