Sunday 29 June 2014

ستو


ستو
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ستو بہت پسند تھے۔ یوں تو عرب میں ستو گندم سے بھی بنائے جاتے تھے مگر انکو جو سے بنے ہوئے ستو پسند تھے۔ غزواتِ نبویﷺ میں ایک جنگ "غزوۃ السویق"کے نام سے مشہور ہے۔ جنگِ احد کے فوراً بعد ابی سفیان 200آدمی لیکر اس غرض کے لیئے مدینہ آیا کہ وہ مقامی یہودیوں کی امداد سے مسلمانوں پر شب کون مارے گا۔ یہودی بھی تذبذب میں تھے کہ دشمن کی آمد کی اطلاع بارگاہِ نبویٌ میں ہوئی، حضور ﷺ اپنے لشکر کے ساتھ سوار ہو کر ان کے مقابلہ کو نکلے تو دشمن مقابلہ کے بغیر بھاگ گیا۔ مارے دہشت کے وہ اپنا سامان حتیٰ کہ راستے کا کھانا بھی چھوڑ گئے۔ یہ کھانا ستووّں کے تھیلوں پر مشتمل تھا۔ اس طرح مسلمانوں کے ہاتھ ستووّں کی ایک مقدار آئی اور یہ جنگ اسی مناسبت سے "جنگِ السویق" کہلائی۔
جنگ کے دوران مجاہدین کا راشن ستو اور کھجور پر مشتمل رہا ہے۔ اور اس غذا سے انکو اتنی تقویت حاصل ہوتی تھے کہ صعوبتیں برداشت کرنے کے علاوہ دشمن سے مقابلہ میں جسمانی طور پر بھی بر تر ثابت ہوئے تھے۔ دن بھر کے روزہ کی کمزوری کو رفع کرنے کے لیئے افطاری کے لیئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ستو پسند فرمائے۔
محدثین کے مشاہدات:
جو کھانے سے قوت حاصل ہوتی ہے جو جسمانی کمزوری کے علاوہ کھانسی اور حلق کی سوزش کے لیئے مفید ہیں معدہ کی سوزش کو ختم کرتے ہیں جسم سے غلاظتوں کا اخراج کرتے ہیں ۔ پیشاب آور ہیں، پیاس کو تسکین دیتے ہیں۔ ابنِ القیمؓ نے جو کے پانی کو پکانے کا نسخہ بیان کیا ہے اسکے مطابق جو لیکر ان سے پانچ گنا پانی ان میں ڈالا جائے پھر انہیں اتنا پکایا جائے کہ پانی دودھیا ہو جائے اور اسکی مقدار میں کم از کم ایک چوتھائی کی کمی آ جائے۔۔۔(اس غرض کے لیئے اگر ثابت جو استعمال کرنے کی بجائے جو کا دلیہ استعمال کیا جائے تو جو سے حاصل ہونے والے فوائد اور زیادہ ہو جائیں گے) ۔
یہ امر صریح ہے کہ پکنے کے بعد جو کا پانی فوری اثر کر کے طبعیت کو بشاش بناتاجسم کو کمزوری کا مقابلہ کرنے کے لیئے غذا مہیا کرتا ہے۔ اگر اسے گرم گرم پیا جائے تو اس کا اثر فوری شروع ہو کر جسم میں حرارت پیدا کرتا،مریض کے چہرے پر شگفتگی لاتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کے فوائد میں دو اہم باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔
۔مریض کے دل سے بوجھ کو اتارتا ہے
۔غم اور فکر سے نجات دیتا ہے۔
بھارت ماہرین نے آنتوں اور گلے کی سوزش کے لیئے بڑا مجرب نسخہ بیان کیا ہے
انجیر خشک (توڑ کر) 2-1/2 اونس منقہ 2-1/2 اونس سفوف ملٹھی 2چمچے چائے والے
جو کا پانی 2 سیر سادہ پانی 1 سیر
جب یہ پانی پکنے پر آدھا رہ جائے تو اتار کر چھان لیں۔ آدھ پیالی چائے والی گرم گرم دی جائے۔ یہ نسخہ ایک تاریخی نسخے سے حاصل کیا معلوم ہوتا ہے۔ مکہ معظمہ میں جب حضرت سعدؓ بن ابی وقاص بیمار ہوے تو ان کے لیئے حکیم حارث بن کلدہ نے ایک فریقہ تجویز کیا۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مشورہ کے بعد اس طرح تیار کیا گیا تھا۔
انجیر خشک ، ملٹھی۔ میتھرے، شہد۔ پانی
یہ فریقہ مریض کو نہار منہ گرم گرم پلایا جاتا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انجیر اور منقہ کو بیک وقت دینے سے منع فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی نسخہ میں اکثر مریضوں کو اسہال شروع ہو جاے ہیں۔
پرانی قبض کے لیئے جو کے دلیہ سے بہتر اور محفوظ کوئی دوائی دیکھی نہ گئی ۔

جوڑوں کی بیماریاں


جوڑوں کی بیماریاں
ہمارے ہڈیوں کے جوڑ مختلف وجوہات کے باعث کمزوز ہو جاتے ہیں جن میں ناقص خوراک، ڈھلتی عمر اور مختلف وارثتی بیماریاں شامل ہیں ۔ تاہم یہ قطعی ممکن ہے کہ آپ ایسی خوراکوں کے ذریعے اپنی جوڑوں کو مضبوط بنا سکتے ہیں جن میں تمام ضروری غذائی اجزاءموجود ہوں۔ آئیے آپ کو اس بارے میں چند اہم نکات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ میٹابولک کے عمل کی وجہ سے ہمارے جسم میں بہت بڑی مقدار میں فری ریڈیکل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ فری ریڈیکل جسم کیلئے بہت تباہ کن ہوتے ہیں اور ان کو جسم سے ختم کرنا بہت ضروری ہوتا ہے ایسی خوراکیں جن میں انٹی آکسیڈنٹ کثیر مقدار میں ہوں جسم کے فری ریڈیکل کے خاتمے میں مدد کرتی ہیں۔ ترش خوراکیں جن میں وٹامن سی کثیر مقدار میں ہو اور ایسی خوراکیں جن میں وٹامن اے، ای اور سلیئیم ہو، اچھی انٹی آکسیڈنٹ ہوتی ہیں لہٰذا خوراک میں اس قسم کے وٹامنز جن غذاﺅں میں زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں ان میں چکوترے، مالٹے، پپیتے، آم، رس بھری، انناس، بند گوبھی، مکمل اناج، بیج سورج مکھی، دلیہ، مونگ پھلی کا مکھن، جئی کا آٹا اور بھورے چاول وغیرہ شامل ہیں۔ ان غذائی اجزاءکا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ خلیات کی تجدید کے عمل میں معاون ہوتے ہیں اور یوں جوڑوں کو چھوٹے موٹے نقصان سے بچاتے ہیں جو چوٹ لگنے، روز مرے کے کاموں پاورزش کی صورت میں ہو سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہی غذائی اجزاءجسم کے مدافعی نظام کو بھی بہتر بناتے ہیں۔ اور یوں جوڑوں کو مختلف بیماریوں سے بھی بچاتے ہیں۔ جوڑوں کی صحت کیلئے ایک اورغ ذائی جز بہت اہم کردار ادا کرتا ہے جو اومیگا تھری فیٹی ایسڈز ہیں۔ ان ایسڈز میں ایسے دفاع ورم اجزاءپائے جاتے ہیں جو ہمیں جوڑوں کو مختلف بیماریوں جیسے گٹھیا آرتھرائٹس سے لڑنے میں مدد گار ہوتے ہیں۔ یہ فیٹی ایسڈز جوڑوں میں ورم اور درد کو کم کرتے ہیں جو کہ گٹھیا کے مریضوں میں عام ہوتی ہیں۔ چونکہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز جسم میں جذب نہیں ہوتے ہیں اس لیے ان کو غذا کے ساتھ ہی لیا جا سکتا ہے۔ جن غذاﺅں میں یہ فٹی ایسڈز کثرت سے پائے جاتے ہیں ان میں سارڈین، ٹیوٹا اور نمکین پانی کی دیگر مچھلیوں کا گوشت شامل ہے۔ خشک میوہ جات، تازہ پھل اور سبزیاں، اناج اور بیجوں میں بھی یہ فیٹی ایسڈز وافر ہوتے ہیں۔ مزید پر اثر نتائج کیلئے فیٹی ایسڈز اومگا سکس کی متوازن خوراک لینا بھی ضروری ہوتا ہے تاہم یاد رکھیں کہ جوڑوں کے درد میں کمی کیلئے ایک دم بہت زیادہ مقدار میں اومیگا تھری لینے سے گریز کریں کیونکہ اس کی زیادہ مقدار ہیمرہیجک سٹروک کا باعث بن سکتی ہے جو بہت خطرناک ہوتا ہے۔ جسم میں مختلف زہریلے مادوں کے رکے رہنے سے بھی مختلف بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان مادوں کے اخراج کیلئے ایک سب سے مو ثر اور آسان طریقہ تو یہ ہے کہ خوب پانی پیا جائے۔ پانی زیادہ پینے سے پیشاب کے ذریعے زہریلے مادے خارج ہو جاتے ہیں اور یوں گردوں پر کم بوجھ پڑتا ہے اس کے علاوہ قبض کا مسئلہ بھی ختم ہوتا ہے جو کہ جوڑوں کے درد کی بڑی وجہ ہوتا ہے۔ درج بالا میں پیش کیے گئے تمام غذائی اقدامات کے ساتھ ساتھ روزانہ کم از کم آدھے گھنٹے کی ورزش بھی بہت ضروری ہوتی ہے باقاعدگی سے ورزش کرنے سے خون کے بہاﺅ میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس سے جوڑ متحرک اور سرگرم رہتے ہیں اور مضمومن میں دی گئی ہدایات پر عمل کرنے سے جوڑوں کو صحت مند رکھنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ ان اقدامات پر صرف ایک ماہ تک باقاعدگی سے عمل کی صورت میں یقینی طور پر جوڑوں کی صحت میں بہتری آئے گی اور ادویات کے بغیر ہی جوڑوں کے درد پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

کیا آپ اپنی موجودہ عمر کے مقابلے میں زیادہ بڑی عمر کے نظر آتے ہیں


کیا آپ اپنی موجودہ عمر کے مقابلے میں زیادہ بڑی عمر کے نظر آتے ہیں؟ اگر آپ آئینے میں ایسا منظر دیکھنا نہیں چاہتے تو اپنی روزمرہ کی عادات میں تبدیلی لانا ہی سب سے بہترین طریقہ کار ثابت ہوگا، خوراک اور نیند وغیرہ بھی آپ کے چہرے کو بوڑھا جبکہ زندگی کی مدت کو کم کردیتے ہیں۔

ایسی چند عادات کے بارے میں جانئے جو آپ کو جلد بوڑھا کرسکتی ہیں۔
ایک وقت میں بہت سارے کام یا ملٹی ٹاسک

اگر آپ ہر وقت متعدد کام بیک وقت کرنے کے عادی ہیں تو اس مصروف زندگی کے تناﺅ کی قیمت آپ کے جسم کو ادا کرنا پڑے گی۔

متعدد سائنسی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکے ہے کہ بہت زیادہ تناﺅ جسمانی خلیات کو نقصان پہنچانے اور عمر کی رفتار بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک وقت میں ایک کام کرے اور اسے مکمل کرنے کے بعد ہی کسی اور چیز پر توجہ دیں۔
مٹھاس کا بہت زیادہ استعمال

میٹھی اشیاءکس کو پسند نہیں ہوتی مگر یہ جسمانی وزن میں اضافے کے ساتھ ساتھ آپ کے چہرے کی عمر بھی بڑھا دیتی ہیں۔ شوگر یا چینی زیادہ استعمال کی وجہ سے ہمارے خلیات سے منسلک ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں چہرے سے سرخی غائب ہوجاتی ہے اور آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے ابھر آتے ہیں۔

اسی طرح جھریاں اور ہلکی لکیریں بھی چہرے کو بوڑھا بنا دیتی ہیں۔ تو میٹھی اشیاءسے کچھ گریز آپ کے چہرے کی چمک برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
کم نیند

کم سونا نہ صرف آنکھوں کے گرد بدنما حلقوں کا سبب بنتا ہے بلکہ یہ زندگی کی مدت بھی کم کردیتا ہے۔ روزانہ سات گھنٹے سے کم نیند لینے کی عادت دن بھر کم توانائی، ذہنی سستی، توجہ مرکوز رکھنے میں مشکلات یا موٹاپے وغیرہ کا سبب بن جاتی ہے۔
بہت زیادہ ٹی وی دیکھنا

آج کل لوگوں کا کافی وقت ٹی وی پروگرامز دیکھتے ہوئے گزرتا ہے مگر برٹش جرنل آف اسپورٹس میڈیسین کی ایک تحقیق کے مطابق ایک گھنٹے تک لگاتار ٹی وی دیکھنا بائیس منٹ کی زندگی کم کردیتا ہے۔ اسی طرح جو افراد روزانہ اوسطاً چھ گھنٹے ٹی دیکھتے ہیں وہ اس عادت سے دور رہنے والے افراد کے مقابلے میں پانچ سال کم زندہ رہ پاتے ہیں۔

اس کی وجہ ہے کہ ٹی وی دیکھنے کیلئے آپ زیادہ تر بیٹھے رہتے ہیں، جس کے باعث جسم شوگر کو ہمارے خلیات میں جمع کرنا شروع کردیتا ہے جس سے موٹاپے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اس سے بچنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اگر آپ ٹی وی دیکھ رہے ہو تو ہر تیس منٹ بعد کچھ دیر کیلئے اٹھ کر چہل قدمی بھی کریں۔
زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنا

دن کا زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے یا سست طرز زندگی کے عادی افراد میں موٹاپا کا خطرہ تو ہوتا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ گردوں اور دل کے امراض کیساتھ ساتھ کینسر کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ اگر خود کو صحت مند رکھنا ہو تو روزانہ ورزش کی عادت کو پانان سب سے زیادہ فائدہ مند ہوگا۔
بہت زیادہ میک اپ کا استعمال

چہرے پر بہت زیادہ میک اپ کا استعمال بڑھاپے کی جانب آپ کا سفر بھی تیز کردے گا۔ بہت زیادہ میک اپ خاص طور پر تیل والی مصنوعات جلد میں موجود ننھے سوراخوں یا مساموں کو بند کرکے مسائل کا سبب بن جاتی ہیں۔

اسی طرح جلدی مصنوعات کا الکحل اور کیمیکل سے بنی خوشبو کے ساتھ استعمال سے جلد سے قدرتی نمی ختم ہوجاتی ہے اور وہ خشک ہوجاتی ہے جس سے قبل از وقت جھریاں ابھر آتی ہیں۔
نیند کے دوران چہرہ تکیے پر رکھنا

پیٹ کے بل یا ایک سائیڈ پر لیٹ کر سونے سے آپ کا چہرہ تکیے میں دب کر رہ جاتا ہے اور جھریاں ابھرنے کیساتھ بڑھاپے کا سبب بنتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق چہرہ مسلسل تکیے میں دبا رہے تو وہ اندر سے کمزور ہوجاتا ہے اور موجودہ عمر کے مطابق نظر نہیں آتا۔ اگر ایسا مسلسل کیا جائے تو جلد ہموار نہیں رہتی۔
اسٹرا کے ذریعے مشروب پینا

کسی مشروب کو اسٹرا کے ذریعے پی کر آپ دانتوں کو تو داغ لگنے سے بچاسکتے ہیں مگر ہونٹ سکڑنے کا یہ عمل آنکھوں اور چہرے کے ارگرد جھریاں پڑنے کا سبب ضرور بن جاتا ہے۔

ایسا اس وقت بھی ہوتا ہے جب سیگریٹ نوشی کی جائے۔

اپنی خوراک سے چربی کا استعمال مکمل ختم کردینا۔ خوراک میں کچھ حد تک چربی کا استعمال شخصیت میں جوانی کے اظہار اور احساس کیلئے ضروری ہوتا ہے۔

اومیگا تھری فیٹی ایسڈ سے بھرپور مچھلی اور کچھ نٹس جیسے اخروٹ وغیرہ جلد کو نرم و ملائم اور جھریوں سے بچاتے ہیں، جبکہ دل اور دماغ کی صحت کو بھی بہتر بناتے ہیں۔
جھک کے بیٹھنا

اپنے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کے کی بورڈ کے سامنے گھنٹوں کمر جھکا کر بیٹھے رہنے سے آپ کی ریڑھ کی ہڈی بدنما کبڑے پن کی شکل میں ڈحل جاتی ہے۔

قدرتی طور پر یہ ہڈی متوازن ایس شکل کے جھکاﺅ کی حامل ہوتی ہے تاکہ ہم چلنے پھرنے میں مشکل نہ ہو۔

مگر گھنٹوں تک جھکے رہنے سے قدرتی شکل تبدیل ہوجاتی ہے، جس سے پٹھے اور ہڈیاں غیرمعمولی دباﺅ کا شکار ہوکر قبل از وقت بوڑھوں کی طرح چلنے پھرنے پر مجبور کردیتی ہیں۔

جریان کیا ہے؟ اس کا علاج کیسے کیا جاسکتا ہے؟


جریان کیا ہے؟ اس کا علاج کیسے کیا جاسکتا ہے؟

مادہ حیات کی اقسام

اس کی تین بڑی اقسام ہیں :

(1)منی (2)مذی (3)ودی

اول: تو تولید حیوانی کی اصل اور بنیاد ہے ۔ اس کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ کہ فریقین سے حالت انتشار میں کود کر ظہور پزیر ہوتی ہے اور اس کے نکلنے سے فریقین ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں اب یہ چاہے حالت پیداری میں ہو یا کہ حالت استراحت میں ۔
دورم: یہ اول الذکر کی ناقص حالت ہے جو اخراج منی سے قبل یا بعد تھوڑی مقدارمیں نمو دار ہوتی ہے ۔
سوئم: یہ بھی اول الذکر کی ناقص حالت ہے،یہ پیشاب کے اول میں یا بعد میں نمودار ہوتی ہے ۔

مذی و ودی میں واضح فرق

مذی منی کے ساتھ خاص ہے تو ودی پیشاب کے ساتھ خاص ہے ۔ یاد رکھنے کا ایک اصول ذھن نشین کرلیں کہ منی بھی میم سے شروع ہوتی ہے تو مذی بھی میم سے تو اس کو لازم ملزوم سمجھیں اور بقیہ کو پیشاب کے ساتھ ۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

عمومی طور پر نوجونوں میں یہی معروف ہے کہ جب جسمِ انسانی سے گاڑھا سا پانی نمو دار ہو تو اس کو جریان کہتے ہیں اور فوراً پریشان ہو جاتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بھائی جریان کا مرض جریان تصور کرنے والوں میں سو میں سے شاید دس پرسنٹ پایا جاتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے نوجوان دوستوں سے سن سنا کر ذہن میں ایک خاکہ متصور کیے ہوئے ہیں کہ جریان فقط گاڑھے مادہ کے اخراج کا نام ہے جبکہ ایسا قطعاً نہیں ہے ۔

مزید وضاحت

نظام قدرت ایسا ہے کہ نر جب مادہ سےملاپ کرتا ہے تو دنوں طرفہ تولیدی نظام کے تحت حالت مقاربت میں ایک مادہ نمو پزیر ہوتا ہے
ہہی وجہ ہے کہ اگر جسم انسانی میں اگر مذی کی کمی ہو جائے تو مختلف امراض جنم لیتے ہیں جن میں سے ، احتلام ، رقت انزال ، بے اولادی ، بانج پن ،مقاربت متلذذ نہ ہونا ،فریقین کا ایک دوسرے سے سیٹسفائڈ نہ ہونا، عنانیت (نامردی)، وغیرہ
اسی طرح ودی کی بھی حالت ہے کہ پیشاپ کی شدت کو روکنے کے لیے قبل البول یا بعد از بول تھوڑا سا گاڑھا مادہ ذکرین مین آکر اس کی شدت کو روکتا ہے ۔ اور اگر یہ مادہ نہ آئے تو بھی کچھ مرض جنم لیتے ہیں جن میں سے ،بول علی الفراش،چلتے پھرتے بول کا اخراج،بول دموی،قلت بول،ذکر کا سکڑنا،وغیرہ

یاد رکھیں !

عمومی طور پر ہمارے نوجوان انہیں تین میں سے دو اقسام کے شکار ہوتے ہیں یعنی مذی اور ودی تو وہ اپنے آپ کو جریان کا مریض تصور کرتے ہیں حالانکہ یہ دونوں فطری عمل تھے یہ نکلنے ہی نکلنے تھے اگر نہ نکلتے تو ہم مر جاتے اگر مرتے نہ بھی تو اور امراض شروع ہو جاتے ۔

جریان کا تعارف

جریان SPERMATORRHOEA

جریان کے لغوی معنی جاری ہونے کے ہیں مجامعت کے سوا بلا ارادہ خواہش منی' مذی یا ودی کی رطوبت کے جاری ہونے کا نام جریان ہے اس مرض میں معمولی شہوانی خیال یا قبض کی صورت میں بعض اوقات بغیر قبض کے بھی بلا ارادہ عضو مخصوص (PENIS) سے منی خارج ہوتی رہتی ہے بعض اوقات پیشاب سے پہلے یا بعد یا پھر مکس خارج ہوتی ہے اکثر حالتوں میں کیلشیم اگزیلیٹ' فاسفورس اور شکر وغیرہ کے مرکبات بھی پیشاب کے راستے خارج ہوتے ہیں جن کا تعلق معدہ کی خرابی' ضعف گردہ یا ذیابیطس سے ہوتا ہے جسے بعض نیم حکیم لوگ جریان تشخیص کر دیتے ہیں حالانکہ اس کا جریان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ مندرجہ بالا امراض کا علاج ضروری ہوتا ہے-
یہ درست ہے کہ منی جسم انسانی کی بنیاد (BASE) ہے- لہذا اس کے زیادہ اخراج سے جسمانی و جنسی کمزوری لاحق ہو جاتی ہے ۔
(((یہی مرض کچھ تھوڑی بہت تبدلی سے خواتین میں بھی پایا جاتا ہے جس کو اطباء کے ہاں لیکوریا سے یاد کیا جاتا ہے)))

تشخیص:

جوانوں میں یہ مرض آج کل بہت زیادہ ہے . اپنے ہی ہاتھوں مادہِ حیات کا بہاو اس کا اہم سبب ہے. پاخانہ کرتے وقت زور لگانا، قبض سے پاخانہ آنے کی وجہ سے پیشاب کے ساتھ پہلے یا بعد میں قوامِ منی خارج ہوجاتا ہے، مرض بڑھ جانے پر معمولی رگڑ، سائیکل اور گھوڑے کی سواری اور صنف نازک کو کثرت سے اپنے خیال مین رکھنے سے عمومی طور پرانزال ہوجاتا ہے ۔

مشہور علامات

آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اور آنکھوں کے آگے پتنگے و چنگاڑیاں اڑتی دکھائی دیتی ہیں غالوں کا پچکنا ، منہ پر چھایاں ، معدہ کی خرابی ، تزابیتِ معدہ، نظر کمزور ، چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھول جانا ، چڑچڑا پن ، دماغ کی کمزوری ، کمر درد، سستی، جسمانی کمزوری، کام کرنے کو دل نہ چاہنا وغیرہ اس مرض کی اہم علامات ہیں۔

طریقہ علاج

بکھڑا 200 گرام، پھٹکڑی سفید 50 گرام پیس کر صبح وشام کچی لسی دودھ والی میں نمک ڈال کر ایک ایک چمچہ لیں ۔ جریان ، لیکوریا ،گرمی سے پیشاب کی جلن ،کثرت احتلام عورتوں مردوںکے لیے یکساں مفید۔ ایسے ایسے لا علاج مریض تندرست ہوئے کہ بے شمار ادویات کھائیں مگر افا قہ نہ ہوا۔ عورتوں کالیکوریا ختم ہوجاتا ہے، بھوک بہت لگتی ہے۔

متبادل

بہیدانہ 100گرام ، لاجونتی100 گرام ، سنگھاڑہ خشک 300گرام ، پوٹاشیم برومائیڈ گرام 100،گیرو 300گرام، سنگ جراحت 500گرام،کوٹ چھان کر تین ٹائم ادھا چمچہ ہمراہ تازہ پانی یا دودھ کے ساتھ

پرہیز

برے خیالات ، ہاتھ کو صرف دعا کے لیے ہی اٹھائیں ،گرم اشیاء سے پرہیزکریں ۔

گرمی کے اثراتِ بد سے بچاؤ کے لیے مفید مشروبات


گرمی کے اثراتِ بد سے بچاؤ کے لیے مفید مشروبات

کسی بھی پھل کے موسم میں اس کا شربت استعمال نہ کیا جائے بلکہ اس پھل کا تازہ رس استعمال کرنا بے حد مفید ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

گرمی کا خیال آتے ہی ذہن میں پیاس،پسینہ اور گھبراہٹ کی کیفیت کا تصور اُبھرآتا ہے۔

گرمی کی شدت وحدت جان داروں کے لیے بظاہر اذیت کا باعث دکھائی دیتی ہے حالاں کہ یہی حدت زندگی کی علامت ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر جان دار کی سانسوں کی حدت ختم ہو جائے توزندگی چند ثانیوں ہی میں موت کا روپ دھار لے گی۔کائنات کے انجن کو رواں دواں رکھنے کے لیے حدت کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔

اسی لیے تو مالکِ کائنات نے مختلف موسم بنا کر ماحولیاتی تبدیلیوں کا ڈول ڈالا۔ مختصر یہ کہ بہار کے پھولوں کی رنگینی سے لے کر خزاں کی زردی تک، موسمِ گرما کی تپش سے لے کر موسمِ سرما کی خنکی تک خالقِ کائنات نے ایک حسن،توازن اور دلکشی رکھی ہے جو نہ صرف مخلوقات کو زندگی سے روشناس کرواتی ہے بلکہ انھیں زندہ رہنے کا جواز بھی فراہم کرتی ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم گرمی کے اثراتِ بد سے بچاؤکے لیے مفید مشروبات کے بارے معلومات تحریر کررہے ہیں۔

مشروب شرب سے بنا ہے اور شرب کا مطلب ہے پینا۔ طبی اصطلاح میں شربت بہ طور دوا کے استعمال کیا جاتا ہے۔ مشروبات عام طور پر پھلوں، پھولوں اور دیگر نباتات سے بنائے جاتے ہیں۔ چوں کہ تمام پھل، پھول اورنباتات موسمی ہوتے ہیں اس لیے اطباء نے ان کے فوائد سے سارا سال مستفید ہونے کی غرض سے شربت کو رواج دیا۔

یاد رہے کسی بھی پھل کے موسم میں اس کا شربت استعمال نہ کیا جائے بلکہ اس پھل کا تازہ رس استعمال کرنا بے حد مفید ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر استعمال ہونے والے مشروبات میں شربتِ صندل، شربتِ انار، شربتِ انجبار، شربتِ بادام، شربتِ انگور،شربتِ بنفشہ، شربتِ دینار، شربتِ عناب، شربتِ نیلو فر، شربتِ فالسہ اور شربتِ مصفی وغیرہ شامل ہیں۔

شربتِ الائچی:۔ الائچی ایک خوشبو دار پھل ہے ۔ اس کا مزاج گرم و خشک ہے۔ طبیعت میں لطافت پیدا کرتی ہے اور منہ و پسینے کی بد بو کو خو شبو میں بدلتی ہے۔ دل اور معدے کو طاقت فراہم کرتی ہے۔ تبخیر سے پیدا ہونے والے سر درد اور مرگی سے نجات دلاتی ہے۔ متلی، قے، ابکائی اور اسہال کو روکتی ہے۔ شربتِ الائچی کو شربتِ سکنجبین کے ساتھ ملا کر پینے سے عوارضِ جگر میں افاقہ ہوتا ہے۔

منہ میں رکھ کر چبانے سے مسوڑھے مضبوط کرتی ہے۔ ہاضمے کی قوت میں اضافہ کرتی ہے۔گرمیوں میں شربتِ الائچی کا استعمال پسینے کی بدبو سے نجات دلاتا ہے۔ الائچی کو عرقِ گلاب میں رات بھر تر کر کے صبح ہلکا جوش دے کر بطریقِ عام شربت تیار کریں۔

شربتِ صندل :۔ صندل کے درخت کی لکڑی کے بُرادے سے بنایا جاتا ہے ۔صندل کا مزاج سرد اور خشک ہوتا ہے۔ یہ دل و دماغ کو فرحت و تازگی بخشتا ہے اور معدہ و جگر کو طاقت دیتا ہے۔ خفقان کے مرض کو دفع کرتا ہے اور کمزوری کی وجہ سے ہونے والی تبخیر کو ختم کرتا ہے۔ یادداشت اور ذہن کو طاقت ور بناتا ہے۔

صندل خون کو صاف بھی کرتی ہے لہٰذا گرمی دانوں سے بچانے میں بھی معاون ہے۔ صند ل کا شربت دل کی گھبراہٹ اور جگر و معدے کی گرمی کو دور کرتا ہے اور گرمی کی وجہ سے ہو نے والے دردِ سر کو تسکین دیتا ہے۔ یہ صندل کے برادے کوعرقِ گلاب میں بھگو کر بنایا جاتا ہے۔

شربتِ انار:۔ یہ جنت کے پھلوں میں سے ہے اور اس کا ذکر قرآنِ پاک میں بھی ہے۔ چوں کہ یہ موسمی ہے اور خاص مدت کے بعد ختم ہوجاتا ہے اسی لیے اس کا شربت بنا کر پورا سال اس کے طبی فوائد سے استفادہ کیا جاتا ہے۔مزاج کے حوالے سے انار سرد تر ہے۔ اس میں ہیمو گلوبن کی کافی مقدار پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ شفاف خون بہت زیادہ پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔گرم مزاج والے افراد انار سے خاطر خواہ استفادہ کرسکتے ہیں۔ جگر، تلی اور پتّے کے امراض میں بہترین نتائج کا حامل پھل ہے۔

کمزورافراد کے جسم کو فربہ کرتا ہے۔ خون میں گرمی کے باعث ہونے والی خارش کو ختم کرتا ہے۔ گرمی کی شدت سے پیدا ہونے والی پیاس کو تسکین دیتا ہے۔گھبراہٹ اور بے چینی کو ختم کرتا ہے۔ یرقان،استسقاء(پیٹ میں پانی پڑنا) اور پیشاب کی جلن میں بہ طورِ دوا مستعمل ہے۔ متلی اور قے کی کیفیات سے نجات دلاتا ہے۔ انار کا شربت رْب انار یا انار دانے سے بنایا جاتا ہے۔

شربتِ عناب:۔ عناب بیر جیسا شفا بخش پھل ہے۔ اس کا مزاج گرمی، سردی، تری اور خشکی میں معتدل ہے۔ عناب کولیسٹرول کو متوازن کرنے کا قدرتی اور بہترین ذریعہ ہے۔ یہ خون کو صاف کر کے انسانی بدن کو جلدی امراض سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ بلغم، صفرا اور سودا کو پتلا کر کے جسم سے نکالتا ہے۔ پھیپھڑوں کو بلغم سے پاک کرتا ہے۔کھا نسی اورگلے کی خراش سے نجات دلاتا ہے۔ خون کی گرمی کو معتدل کرتا ہے اور صفراوی بخاروں کا خاتمہ کرتا ہے۔ امراض ِجگر اور گردہ میں فوائد کا حامل ہے۔ عناب کو رات بھر پانی میں بھگو کر صبح پکا کر بطریقِ معروف شربت تیار کیا جاتا ہے۔

شربتِ بنفشہ:۔بنفشہ ایک پھول دار پودا ہے اور اپنی ادویاتی خصوصیات کی وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا مزاج سرد تر ہے۔ بنفشہ کو نزلہ و زکام کے لیے استعمال ہونے والے جوشاندوں میں عام شامل کیا جاتا ہے۔ یہ گرمی کی زیادتی سے ہونے والے نزلے، زکام اور بخار کا بہترین علاج ہے۔

جَو کے ستو کے ساتھ پینے سے گرمی کا فوری ازالہ کرتا ہے۔ پسلیوں اور پھیپھڑوں کے درد، ورمِ حلق، اور گرمی کے سر درد میں کمال فوائد رکھتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔گلَ بنفشہ کو رات بھر پانی میں بھگو کر صبح ہلکا سا جوش دے کر شربت تیار کیا جاتا ہے۔

شربتِ بادام:۔بادام مشہور میوہ ہے اور چھوٹے بڑے تمام بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ اس کا مزاج گرم تر ہے۔ یہ انسامی جسم کی تمام تر قوتوں کا نگہبان ہے۔ نظر،دماغ اور اعصاب کو کمال توانائی فراہم کرتا ہے۔ خشک کھانسی کا بہترین علاج ہے۔ مادہ حیات کثرت سے بناتا ہے۔ قطرہ قطرہ پیشاب آنے کے مرض کو دفع کرتا ہے۔ جسم کو خوبصورت اور فربہ بناتا ہے۔ قبض کو رفع کرتا ہے اور دماغ، آنتوں اور جسم کی خشکی کو دور کرتا ہے۔ شربتِ بادام بنانے کے لیے محنت درکار ہوتی ہے۔ باداموں کو رات بھر بھگو کر خوب گھوٹا لگایا جاتا ہے ۔ باداموں کی سردائی کاعام طریقے سے شربت بنالیا جاتا ہے۔

شربتِ فالسہ:۔ فالسہ خواتین اور بچوں میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ اس کا مزاج سرد اور خشک ہے۔ فالسہ دل، جگر اور معدے کو طاقت دیتا ہے۔ بالخصوص گرم مزاج والے افراد کے لیے یہ بہت مفید ثابت ہو تا ہے۔ پتّے کی خرابی سے پیدا ہونے والے عوارض، پیچش، قے،اسہال، ہچکی اور پیاس کی زیادتی میں بہت ہی فوائد کا حامل پھل ہے۔

پیشاب کی جلن کو دور کرتا ہے اور گرمی کی وجہ سے بے ترتیب ہونے والی دھڑکنوں کو اعتدال پر لاتا ہے۔ جسمانی غیر ضروری گرمی کو ختم کرتا ہے۔ صفراوی شوگر کے مریضوںکے لیے خدا کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ شوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے۔ پیاس کو تسکین دیتا ہے اور گھبراہٹ دور کرتا ہے۔ تازہ فالسوں کو پانی میں ملاکر اور پانی چھان کر بہ طریق عام شربت تیار کیا جاتا ہے۔

شربت نیلو فر:۔ نیلو فرسردی، تری اور گرمی و خشکی میں اعتدال کا حامل ہے۔ یہ نیلگوں رنگ کے خوب صورت پھولوں والہ پودا پانی کے تالابو ں میں عام پایاجاتا ہے۔ نیلو فر دل ودماغ کو طاقت دیتا ہے اور اور پیاس بجھاکر گرمی میں سکون پہنچاتا ہے۔ خفقانِ قلب کے مریضوں کے لیے بہترین دوا ہے۔ دماغی خشکی اورگرمی سے ہونے والے سر درد کا کام یاب علاج ہے۔ غلبہ سودا و صفرا سے ہونے والے اسہال اور ضعف، امعاء کو دور کرتا ہے۔ نیلو فر کے پھولوں کو رات بھرپانی میں بھگو کر صبح بہ طریقِ معروف شربت تیار کریں۔2 سے 4 چمچے ٹھنڈے پانی میں ملا کر دن میں تین بار استعمال کریں۔

دیگر شربت بھی مذکورہ طریقے سے بنا کر ان کے فوائد سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ مصنوعی طرز پر تیار کیے گئے مشروبات میں زیادہ تر ٹاٹری ڈالی جاتی ہے جو کہ بعض اوقات ’’فائدہ کم اور نقصان زیادہ‘‘ کا سبب بن کر ورمِ حلق،کھانسی اور بخار کابا عث بنتی ہے۔ بازار میں دستیاب مشروبات کو گاڑھا کرنے کی غرض سے ان میں مبینہ طور پر کیمیائی اجزاء بھی شامل کردیے جاتے ہیں جو کہ غیر صحت مندانہ طرزِ عمل ہوتا ہے اور یوں شربت صحت کا ذریعہ بننے کی بجائے بیماری کا پیغام ثابت ہوتا ہے۔

صحت مندانہ طرزِ عمل تو یہ ہے کہ آپ اپنی اور اپنے خاندان کی صحت کے لیے موسمی پھلوں کا رس نکال کر سکوائش کے طریقے پر مشروبات تیار کریں، تاکہ پھلوں کے رس سے خاطر خواہ فوائد حاصل کیے جا سکیں۔ اسی طرح دھیان رہے سڑک کنارے اور بیچ چوراہے ریڑھیاں سجائے ٹھنڈے ٹھار شربت بیچنے والوں سے دور ہی رہیں گے تو آ پ کی صحت کے حوالے سے مفید ہوگا۔

کیوں کہ ان میں سے اکثریت شربت بناتے وقت چینی کی جگہ سکرین ڈالتی ہے جو صحت کے لیے کئی ایک مسائل کا باعث بنتی ہے۔ علاوہ ازیں گرد وغبار،دھواں اور اور جراثیم کی ایک فوج ان مشروبات میں شامل ہوتی رہتی ہے جو بعد ازاں ہیضہ،اسہال،پیچش اور بد ہضمی جیسے عوارض کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔

نسخہ برائے زیادتی یورک ایسڈ‘ گینٹھیا‘ بلڈ پریشر‘ امراض معدہ

نسخہ برائے زیادتی یورک ایسڈ‘ گینٹھیا‘ بلڈ پریشر‘ امراض معدہ
اجزاء:
سبزالائچی 6عدد، پودینہ کے پتے 16 ، ادرک(Zingiber or ginger) چھوٹے چھوٹے پیس 10گرام، سونف 1چھوٹا چمج
ترکیب تیاری: 8 کپ پانی(water) میں ڈال کر اتنا اُبالیں کہ 6 کپ رہ جائے ‘ صبح، دوپہر،شام کھانے کے بعد ایک کپ پی لیں۔ (6کپ دو دن کےلئے ) ہیں اس جوشاندے کا استعمال 2 سے 3 ماہ تک کریں۔ Hopefully 3 ہفتے میں ہی آپ فرق محسوس کریں گے۔ خاص بات یہ کہ اس نسخے کے کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہیں۔
پرہیز: چھوٹا گوشت(meat)‘ بڑا گوشت(meat)‘ ٹماٹر‘ تیز مرچ مصالحہ‘ اچار چٹنی‘ پالک ۔ان تمام چیزوں کا سختی سے پرہیز کریں کیونکہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔

مرگی کیا ہے؟


مرگی کیا ہے؟
مرگی کی بیماری،عرف عام میں بہت سی وجوھات کا مرکب ھو سکتی ھے۔ بچے کی مرگی اس وقت تشخیس ھوتی ھے بغیر کسی خاص بیماری کے بجے کو دو بار دورہ پڑ جائے۔ بغیر کسی وجہ کا مطلب ھے بغیر کسی بیماری کے ، بخار کے یا سر کے چوت لگنے سے دورہ پڑ جائے۔
مرگی کا دورہ کیا ہے ؟
مرگی کا دورہ دماغ میں برقی خلل کی وجہ سے بنتا ھے۔ یہ دماغی خلل پورے جسم پر اثر انداز ھوتا ھے۔ مختلف انسانوں پر یہ دورے مختلف نوعییت کے ھوتے ہیں۔ یہ اس بات پر منحصر ھے کہ بیماری دماغ کے کس حصے میں واقع ھے۔
ایسا بچہ جسے غیر حاضر دورہ پڑنا کہتے ھیں یہ محسوس کرتا ھے جیسے خلا میں تیر رھا ھو ہا دن میں خواب دیکھ رھا ھو
ایسا بچہ جسے سادہ جزوی دورہ پڑے وہ ایسی آواز سنے گا جس کا کوئی وجود نیہیں ھو گا یا اپنے ایک بازو میں جھٹکا محسوس کرے گا
ایک شدید تشنجی دورے سے بچہ زمین پر گر کر بل کھانے لگتا ھے
ایک شدید دورے کے بعد بچہ اپنا ھوش کھو سکتا ھے یا پھر ارد گرد کے ماحول کو دیکھ رھا ھوتا ھے اور بات کر سکتا ھے
مرگی کسی چوٹ ، ٹیومر، زخم یا دماغ میں خون کی رگوں کے آپس میں الجھنے سے ھو سکتی ھے۔ اگر چہ مرگی کی کوئی بظاھر وجہ نظر نہیں آتی۔ ایم آر آئی اور سی ٹی سکین میں دماغی رپورٹ بلکل درست نطر آتی ھے۔ مرگی کی بیماری عموما" بچوں میں زیادہ پائی جاتی ھے
ایک بار کے دورے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کے بچے کو مرگی ھے، آدھے بچے جن کو ایک بار دورہ پڑتا ھے دوبارہ کبھی نہیں پڑتا۔ دوسرے دورے کا مطلب یہ ھے کہ آئندہ بھی دورہ پڑنے کا امکان موجود ھے۔ یہی وہ موقع ھے کہ جب علاج کے متعلق سوچا جاتا ھے۔
مرگی کی کچھ اقسام دواؤں کے ساتھ قابل علاج ھیں۔ کچھ میں خاص خوراک کی ضرورت ھوتی ھےاور کچھ میں سرجری کی۔ ایک بچے کو دوا کا اثر ھوتا ھے اور دوسرے کو نہیں ھوتا۔ مرگی ایک بہت مشکل بیماری ھے۔ اس لئے یہ بچوں ، والدین ادر ڈاکٹروں کو پریشان کر سکتی ھے۔ ڈاکٹروں کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ھو جاتا ھے کہ بچے کے لئے کونسا علاج درست ھو گا۔
مرگی کا علاج
علاج کا پہلا انتخاب دوا سے علاج ھے۔ زیادہ تر مرگی والے بچوں کو دوائی کی پہلی خوراک سے ھی آرام آ جاتا ھے۔ بہر حال، اگر پہلی صورت میں علاج کارگر ثابت نہ ھو تو ڈاکٹر دوا کو بدل سکتا ھے کوئی دوسری دوا شامل کر سکتا ہے
بعض اوقات دو یا تین قسم کی ادویات استعمال کرنے کے بعد دوروں میں فرق نہیں آتا۔ اگر ایسی بات ھے تو ڈاکٹر سرجری تجویز کر سکتا ھے۔ مرگی کی سرجری میں ، ڈاکٹر دماغ کے اس حصے کو نکال دیتا ھے یا الگ کر دیتا ھے جو دوروں کا باعث بن رھا ھوتا ھے۔ مرگی کے تمام مریض بچے جنہیں دوا سے آرام نیں آتا ان کی سرجری کرنا ضروری ھوتا ھے۔
اگر دوا کام نہ کرے اور سرجری بھی کروانا نہ چاھیں تو ڈاکتر ایک اور قسم کا علاج تجویز کر سکتے ھیں جس میں خاص خوراک دی جاتی ھے اور فخفی یا واگس نس مین ہیجان برپا کیا جاتا ھے
علاج کے مقاصد
علاج کے مقاصد چند باتوں پر منحصر ھیں
مرگی سنڈروم
کتنے وقفے کے بعد دودہ پڑتا ھے اور شدت کتنی ھوتی ھے
علاج کے کتنے امکانات موجود ھیں
آپ کے بچے کی عمر
ّعلاج کی ابتدائی مرحلے میں کیا ھونا چاھیے
دوروں کا مکمل خاتمہ
دوروں کی شدت میں کمی
دوروں کی شدت مین کچھ کمی اور کم سے کم ذیلی اثرات
علاج کا اگلا مرحلا کن باتوں پر منحصر ھے
معمول کی ترقی
سیکھنے کے عمل اور سلوک میں بہتری
مستقبل میں اکیلے رہ سکنا
جوں جوں بچے کی حالت میں بہتری آتی جاتی ھے اور اسی بیماری سمجھ میں آنے لگتی ھے تو اسی طبعی حالت اچھی ھو جاتی ھے اور مزید علاج کے مواقع پیدا ھونے لگتے ھیں
علاج کا فیصلہ آپ اپنے بچے کے ، ڈاکٹر کے اور علاج کرنے والی ٹیم کے مشورے سے کریں۔ آپنے بچے کو آسان الفاظ میں، جو وہ سمجھ سکے، علاج کے امکانات کے متعلق بتایئں۔ اس سے وہ کم متفکر ھو گا۔ اس سے اس کے تعاون میں اضافہ ھو گا اور وہ اپنے آپ کو قابو مین رکھے گا
مرگی سے سیکھنے کے عمل اور کردار میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں
ادویات اور سرجری ھی صرف مرگی کے علاج کا حصہ ھیں۔ دورے پر قابو پانا علاج کی طرف پہلا قدم ھے لیکن آخری نہیں۔ اگر چہ دوروں پر کنٹرول حاصل ھو بھی جاتا ھے تو پھر بھی آپ کے بچے کو خودراری، سلوک، سماجی حثییت میں مسائل کا سامنا ھو گا۔ علاج کرنے والی ٹیم کے ساتھ مل کر ان مسائل پر قابو پانے کی کوشش کریں
مستقبل میں کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں
بعض بچوں کے دورے عمر بڑھنے کے ساتھ ھی ختم ھو جاتے ھیں۔ بعض کو ساری عمر دوا کھانا پڑتی ھے۔ اپنے بچے کی علاج کرنے والی ٹیم سے دریافت کیجئے کہ اپنے بچے کے لئے آپ کی توقعات کیا ھیں
کلیدی نکات
مرگی کا دورہ دماغ میں برقی خلل کی وجہ سے بنتا ھے۔ یہ دماغی خلل پورے جسم پر اثر انداز ھوتا ھے۔ مختلف انسانوں پر یہ دورے مختلف نوعییت کے ھوتے ہیں
بچے کی مرگی اس وقت تشخیس ھوتی ھے بغیر کسی خاص بیماری کے بجے کو دو بار دورہ پڑ جائے۔
زیادہ تر بچوں کے دورے دواؤں سے کنٹرول ھو جاتے ہیں
علاج کے دوسرے طریقوں میں سرجری،حاص غذا، یا ایک ایسا طریقھ علاج جسے واگس نس کو متحرک کرنا کہتے ھیں
مرگی سیکھنے کے عمل اور سلوک کے مسائل پیدا کرتی ہے

Monday 16 June 2014

آلو بخارا، فرحت بخش اور قبض کشا


آلو بخارا، فرحت بخش اور قبض کشا

اس کا رنگ سرخی سیاہی مائل، زرد کا ہوتا ہے۔ اس کا ذائقہ پختہ شیریں اور کچا ترش ہوتا ہے، اس کا مزاج سرد درجہ اول اور تر درجہ دوم ہوتا ہے۔ اس کی مقدار خوراک دس سے تیس دانے تک ہوتی ہے۔ اس کے حسب ذیل فوائد ہیں۔

آلو بخارہ کے فوائد:
(1) آلو بخارا طبیعت کو نرم کرتا ہے۔ (2)پیاس کو تسکین دیتا ہے۔ (3) خون کے جوش کو کم کرتا ہے۔ اسلئے بلڈپریشر کے مریضوں کو مفید ہے۔ (4) آلو بخارا مسکن صفراءاور ملین ہوتا ہے۔ (5) متلی میں آلو بخارے کا استعمال بے حد مفید ہوتا ہے۔ (6) گرمی کے سر درد میں آلو بخارے کا استعمال مفید ہوتا ہے۔ (7)زخموں کو جلدی ٹھیک کرتا ہے۔ (8) اگر آلو بخارے کے پتے رگڑ کر ناف کے نیچے لیپ کیا جائے تو آنتوں کے کیڑے خارج ہو جاتے ہیں۔ (9) نزلے کو روکنے کےلئے آلو بخارے کے پتوں کا جو شاندہ بنا کر غرارے کرنا مفید ہوتا ہے۔ (10) آلو بخارے کا مربہ فرحت بخش اور قبض کشا ہوتا ہے۔ (11 ) خشک آلو بخارا رات کو بھگو صبح نہار منہ صرف پانی چھان کر پینا احتلام کےلئے مفید ہوتا ہے۔ اگر اس میں ایک چمچہ چائے والا سونف کے سفوف کا اضافہ کرلیا جائے تو دگنا فائدہ دیتا ہے۔ (12) رات کو سوتے وقت اگر آلو بخارے کے دس دانے کھائے جائیں تو صبح کو اجابت صحیح ہوتی ہے (13) خارش کو دور کرنے کےلئے آلو بخارے کا مسلسل استعمال بے حد مفید ہوتا ہے (14) کھانسی میں اس کا استعما ل نقصان دہ نہیں ہوتا۔ (15) منہ اور حلق کی خشکی کو دور کرتا ہے۔(16) آلو بخارے میں وٹامن اے ، بی ، پی اور سی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔(17) دماغی کام کرنے والوں کےلئے یہ بہترین غذا ہے۔(18) پاﺅں کی جلن کو دور کرتا ہے۔
(19) چڑ چڑے مزاج والوں کےلئے یہ بہترین پھل ہے جس سے یہ مرض دور ہو جاتی ہے۔ (20) نیند کی کمی کی مرض میں آلو بخارے کا استعمال بہترین ہوتا ہے۔ (21) یرقان جیسے موذی مرض میں ایک پاﺅ آلو بخارا، زیرہ سفید اور گوکھرو (پھکڑا)ہم وزن کا سفوف بنا کر دو ماشے سفوف ہمراہ مذکورہ بالا آلو بخارا دن میں تین دفعہ استعمال کرنا بے حد مفید ہوتا ہے۔ (22) جلدی بیماریوں میںآلو بخارا کے استعمال کے ساتھ ساتھ ایک دفعہ شربت عناب روزانہ پینا مفید ہوتا ہے۔ (23 ) پتے کی پتھری بننے سے روکنے کےلئے آلو بخارے کا استعمال بے حد مفید ہوتا ہے۔ اس سے بعض دفعہ بنی ہوئی پتھریاں پگھل کر پتے سے نکل جاتی ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ آلو بخارے کا روزانہ استعمال اس کے موسم میں معمول بنا لیا جائے۔ اگر موسم نہ بھی ہوتو خشک کو بھگو کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔(24) آلو بخارے کی چٹنی بھی بے حد مفید ہوتی ہے جو کہ ہاضم غذا اور لذیذ ہوتی ہے، اس چٹنی کے بنانے کی ترکیب کچھ یوں ہے۔ آلو بخارا خشک نصف کلو، چینی ایک کلو، رس لیموں ایک پاﺅ، کشمش ایک پاﺅ، چھوہارے ایک پاﺅ، پودینہ نصف کلو، بڑی الائچی پانچ دانے، گری بادام، چھوٹی الائچی ، کالی مرچ، ادرک ، ،لال مرچ اور نمک ہر ایک پانچ تولے۔رات کو آلو بخارا دھو کر بھگو دیں صبح اچھی طرح سے مسل کر پیس لیں۔ ادرک اور پودینہ بھی رگڑ کر چٹنی بنا لیں اور آلو بخارے کو چٹنی کے ہمراہ ابال لیں۔ کشمش اور چھوہارے بھی کترے ہوئے اس میں ڈال دیں، تین چار ابالے دے کر نیچے اتار کر تمام اشیا ءاس میں ملا دیں، بس چٹنی تیار ہے۔ (25) آلو بخارے کا شربت بھی تیار کیا جاتا ہے، جو خشک آلو بخارے ،عرق گلاب اور چینی سے تیار ہوتا ہے۔ قبض ، گرمی ، خارش اور جوش خون کے لئے مفید ہوتا ہے، اسکے علاوہ یرقان، غلبہ پیاس اور درد سر میں بھی فائدہ دیتا ہے۔ (26)آلو بخارے کا رس ایک تولہ گرم کر کے پینا گلے کے ورم اور قے کے لئے مفید ہوتا ہے۔ (27)صفراءکو خارج کرنے کےلئے پندرہ دانے آلو بخارا کے لیں اور رات کو بھگو کر صبح مل چھان کر چینی ملا کر چند روز تک پینے سے فائدہ ہوتا ہے۔ (28) اگر گردوں میں تکلیف ہو اور پیشاب رک رک کر آتا ہو تو آلو بخارے کا استعمال اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔ (29) خون کے کینسر میں آلو بخارے کا استعمال بے حد مفید ہوتا ہے اور ابتدائی کینسر اس سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اس کےلئے ترش آلو بخارا استعمال کرنا چائیے۔ (30) ذیابیطس (شوگر) کے مریض بھی ترش آلو بخارا استعمال کر کے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں(31) آلوبخارا بینائی کو طاقت دیتا ہے اور گردہ ومثانہ کی پتھری کو توڑتا ہے۔ (32) بھوک کی کمی، دماغی خشکی، اپھارہ اوردرد معدہ میں آلو بخارے کے سات دانے ہمراہ املی تین تولہ، رات کو پانی یا عرق سونف میں بھگو دیں صبح اچھی طرح مسل کر چھان کر نمک ملا کر تین دن استعمال کرنا مفید ہوتا ہے۔ (33)پتے میں کنکریاں ہونے کی صورت میں آلو بخارے کے مسلسل استعمال کے ساتھ ساتھ دن میں دو یا تین مرتبہ عرق کاسنی اور عرق کلو دس تولے روزانہ پینا بے حد مفید ہوتا ہے۔ چند روز کے استعمال (تین ہفتے) میں مکمل صحت ہو جاتی ہے، آلو بخارے خشک بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں۔
آلو بخارے کا استعمال سرد مزاج والے اور اعصابی دردوں والے حضرات بالکل نہ کریں، اسی طرح جنہیں پیچش کی شکایت ہو وہ بھی استعمال نہ کریں۔


Sunday 15 June 2014

حکمائ حضرات کیلیے لاجواب تحفہ



حکمائ حضرات کیلیے لاجواب تحفہ 

نبض
کیسے چیک کریں 
علم نبض طب قدیم میںابتداء ہی سے تشخیص کاروح رواں رہا ہے اور اب بھی علم نبض تشخیص کے جدید وقدیم طبی آلات ووسائل وذرائع پر فوقیت رکھتاہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نبض صرف حرکت قلب کا اظہار کرتی ہے مگر ایسا کہنا درست نہیں ،فن نبض پردسترس رکھنے والے نبض دیکھ کر مرض پہچان لیتے ہیں مریض کی علامات وحالات کوتفصیل سے بیان کردیتے ہیں ۔

سائنس کایہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ قو ت سے حرکت اورحرکت سے حرارت پیداہوتی ہے یہی نظام زندگی میں راوں دواں ہے نبض کے ذریعے بھی ہم مریض کے جسم میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت اس کے جسم میں قوت کی زیادتی ہے یاحرکت کی زیادتی ہے یاحرارت کی زیادتی ہے یا ان میں کس کس کی کمی ہے اسی کے تحت نبض کی باقی جنسیں بھی پرکھی جاسکتی ہیں ۔ جن کا اس مقالہ میں تفصیلاً ذکر ہو گا نبض کی حقیت کو جانچنے کے لیے اسقدر جان لینا ضرروی ہے کہ نبض روح کے ظروف وقلب وشرائین کی حرکت کانام ہے کہ نسیم کو جذب کرکے روح کو ٹھنڈک پہنچائی جائے اورفضلا ت د خانیہ کوخارج کیاجائے اس کا ہر نبضہ ( ٹھو کر یاقرع) دو حرکتوں اور دو سیکونوں سے مرکب ہوتا ہے کیونکہ ہرایک بنضہ انسباط اورانقباص سے مرکب ہوتا ہے یہ دونوں حرکتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں اور ہر دو حرکتوں کے درمیان سکون کاہوناضروری ہے۔

نبض دیکھنے کاطریقہ

طبیب اپنی چاروں انگلیاں مریض کی کلائی کے اس طرف رکھے، جس طرف کلائی کا انگوٹھا ہے، اور شہادت کی انگلی پہنچے کی ہڈی کے ساتھ نیچے کی طرف اور پھر شریان کا مشاہد ہ کریں ۔

اجناس نبض

نبض کی دس اجناس ہیں
1۔مقدار
2۔قرع نبض
3۔زمانہ حرکت
4۔قوام آلہ
5۔زمانہ سکون
6۔مقدارِرطوبت
7۔شریان کی
8۔وزنِ حرکت
9۔استوا واختلا ف نبض
10۔نظم نبض

مقدار

i۔طویل
یہ وہ نبض ہے جس کی لمبائی معتدل و تندرست شخص کی نبض سے نسبتاً لمبائی میں زیادہ ہویعنی اگریہ چارانگلیوں تک یا ان سے میں بھی طویل ہوتو اسے ہم طویل نبض کہیں گے اوریادرکھیں طویل نبض حرارت کی زیادتی کوظاہر کرتی ہے اگر اس کی لمبائی دو انگلیوں تک ہی رہے تو یہ معتدل ہوگی ۔ اوریہ دوانگلیوں سے کم ہوتو یہ قیصر ہوگی اورقیصر نبض حرارت کی کمی کوظاہر کرتی ہے ۔طویل غدی نبض ہے اور قصیر اعصابی ۔
iiعریض
چوڑی نبض جوکہ انگلی کے نصف پور سے زیادہ ہورطوبت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جوکہ نصف پور ہو معتدل ہوگی اورجس کی چوڑائی نصف پور سے کم ہوگی رطوبت کی کمی کا اظہار کرے گی ۔تنگ نبض کو ضیق کہا جاتا ہے ۔عریض نبض اعصابی ہو گی اور ضیق نبض غدی ہو گی ۔
iiiشرف (بلند)
جونبض بلندی میں زیادہ محسوس ہوایسی نبض حرکت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جودرمیان میںہوگی معتدل اورجو نبض نیچی ہوگی اسے منحفض کہتے ہیں ۔ یہ حرکت کی کمی پر دلالت کرتی ہے۔
چاروں انگلیوں کو نبض پر آہستہ سے رکھیں یعنی دبائو نہ ڈالیں ۔ اگر نبض انگلیوں کوبلا دبائو چھونے لگے توایسی نبض مشرف ہوگی اوراگر نبض محسوس نہ ہوتو پھر انگلیوں کو دباتے جائیں اورجائزہ لیتے جائیں اگرنبض درمیان میں محسوس ہوتو یہ معتدل ہوگی اوراگرانگلیاں کلائی پردبانے سے نبض کا احساس کلائی کی ہڈی کے پاس اخیر میں جاکر ہوتو یہ نبض منخفض ہے جوکہ حرکت کی کمی کا اظہارکرتی ہے مشرف نبض عضلاتی اورمنخفض اعصابی ہوگی۔

قرغ نبض -- ٹھوکر نبض

اس میں نبض کی ٹھوکر کوجانچا جاتا ہے چاروں انگلیاں نبض پر رکھ کر غور کریں آہستہ آہستہ انگلیوں کودبائیں اگرنبض انگلیوں کوسختی سے اوپرکی طرف دھکیل رہی ہے توایسی نبض قوی کہلاتی ہے یعنی ذرا زور سے ٹھوکر لگانے والی نبض ہی قوی ہے یہ نبض قوت حیوانی کے قوی ہونے کوظاہر کرتی ہے اوراگر یہ دبائو درمیانہ سا ہو تومعتدل ہوگی ۔اورجونبض دبانے سے آسانی کے ساتھ دب جائے تویہ نبض ضعیف کہلاتی ہے یعنی قوت حیوانی میں صغف کا اظہار ہے قوی عضلاتی ہوگی اورضعیف اگرعریض بھی ہوتو اعصابی ہوگی اورضیق ہوتو غدی ہوگی۔

زمانہ حرکت

اس کی بھی تین ہی اقسام ہیں سریع ۔ متعدل ۔ بطی ۔
سریع نبض وہ ہوتی ہے جس کی حرکت تھوڑی مدت میں ختم ہوجاتی ہے یہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ قلب کو سوئے سردنسیم یعنی اوکسیجن بہت حاجت ہے جسم میں دخان (کاربانک ایسڈ گیس ) کی زیادتی ہے۔
اگر بطی ہے صاف ظاہر ہے کہ قلب کو ہوائے سرد کی حاجت نہیں۔ سریع یعنی تیزتر نبض عضلاتی ہوتی ہے اوربطی(سست) نبض اگرعریض ہوگی تواعصابی ہوگی اورضیق ہوگی توغدی ہوگی بطی سے مراد نبض کی سستی ہے۔

قوام آلہ -- شریان کی سختی ونرمی

اسے بھی تین اقسام میں بیان کیاگیاہے صلب ، معتدل اورلین ،
صلب وہ نبض ہے جسکو انگلیوں سے دبانے میں سختی کااظہار ہویہ بدن کی خشکی کودلالت کرتی ہے ایسی نبض ہمیشہ عضلاتی ہوتی ہے۔
لین نبض صلب کے مخالف ہوتی ہے یعنی نرم ہوتی ہے ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پردلالت کرتی ہے یعنی ایسی نبض اعصابی ہوگی ۔
اورمعتدل اعتدل رطوبت کا اظہار ہے۔

زمانہ سکون

اس کو بھی تین اقسام میں بیان کیاجاتا ہے متواتر ، تفاوت، معتدل ۔
متواترنبض وہ ہے جس میں وہ زمانہ تھوڑا ہوجو دو ٹھوکروں کے درمیان محسوس ہوتاہے ۔ یہ نبض قوت حیوانی کے ضعف کی دلیل ہے قوت حیوانی میں ضعف یاتوحرارت کی زیادتی کی وجہ سے ہوگا یاپھر رطوبت کی زیادتی سے ہوگا۔عموماً ایسی نبض اگر ضیق ہو تَو غدی ہوگی یاپھر اگرعریض ہو تَواعصابی بھی ہوسکتی ہے ۔
نبض دیکھتے وقت اس بات کوخاص طور پر مدنظر رکھیں کہ کتنی دیر کے بعدٹھوکر آکرانگلیوں کو لگتی ہے اورپھر دوسری ٹھوکر کے بعد درمیانی وقفہ کومدنظررکھیں ۔ پس یہی زمانہ سکون ایسازمانہ ہے کہ جس میں شر یان کی حرکت بہت کم محسوس ہوبلکہ بعض اوقات اسکی حرکت محسوس ہی نہیں ہوتی اورایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبض انگلیوں کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے۔

مقدارِ رطوبت

نبض پرانگلیاں رکھ کر جانچنے کی کوشش کریں اس کی صورت یہ ہوگی جیساکہ پانی سے بھری ہوئی ٹیوب کے اند رپانی کی مقدار کااندازہ لگایاجائے کہ ٹیوب کے اند ر پانی اس کے جوف کے اندازے سے زیادہ ہے یاکم بالکل اسی طرح نبض ضرورت سے زیادہ پھولی ہوگی اوردبانے سے اس کا اندازہ پوری طرح ہوسکے گا اگر ممتلی ہوتو اس میں ضرورت سے زیادہ خون اورروح ہوگی جوکہ صحت کے لئے مضرہے اسی طرح اگرنبض خالی ہوگی توخون اورروح کی کمی کی علامت ہے کمزوری کی دلیل ہے اس لئے ممتلی یعنی خون و روح سے بھری ہوئی نبض عضلاتی ہوگی خالی ممتلی کے متضاد ہوگی جوکہ اعصابی ہوگی ۔

شریان کی کیفیت

نبض کی اس قسم سے جسم کی حرارت وبرودت (گرمی وسردی )کوپرکھا جاتاہے اس کوجانچنا بہت آسان ہے اگرنبض چھونے سے حرارت زیادہ محسوس ہوتویہ نبض حارہوگی، گرمی پر دلالت کریگی اورگرم نبض عموماً طویل اور ضیق بھی ہوتی ہے ۔ اگرنبض پرہاتھ رکھنے سے مریض کاجسم سرد محسوس ہوتویہ نبض باردہوگی جوکہ اعصابی عضلاتی کی دلیل ہے۔

وزن حرکت

یہ نبض حرکت کے وزن کے اعتبارسے ہے جس سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ نبض کازمانہ حرکت اورزمانہ سکون مساوی ہے۔
اگریہ زمانہ سکون مساوی ہے تو نبض انقباص وانسباط(پھیلنا اورسکٹرنا)کے لحاظ سے حالت معتدل میں ہوگی اسے جیدالوزن کہاجاتا ہے
ایسی نبض جسکا انقباض وانسباط مساوی نہ ہوبلکہ دونوں میں کمی بیشی پائی جائے یہ نبض صحت کی خرابی کی دلیل ہے۔ اگر دل میںیہ سکیڑ دل کی شریانوں کی بندش کی وجہ سے ہوتو ایسی نبض عضلاتی ہوگی ۔اگریہ ضعف قلب کی وجہ سے ہے توایسی نبض غدی ہوگی اوراگریہ تسکین قلب کی وجہ سے ہے توایسی نبض اعصابی ہوگی۔ ان باتوں کومدنظر رکھنا طبیب کی مہارت ہے۔ ایسی نبض کوخارج الوزن کانام دیا گیا ہے۔
اگر نبض عمرکے مطابق اپنی حرکت وسکون کے وقت کوصحیح ظاہر نہ کرے یعنی بچے ، جوان ،بوڑھے کی نبض کے اوزان ان کی اپنی عمر کے مطابق نہ ہوں تویہ ردی الوزن کہلائے گی۔ اس میں نبض کی انقباضی اورانبساطی صورت کوجانچا جاتاہے۔ نبض جب پھیلے تواس کوحرکت انسباطی کہتے ہیں اورجب اپنے اند ر سکڑے تواسے حرکت انقباص کہتے ہیں ۔ان دونوں کے زمانوں کافرق ہی اسکا وزن کہلاتاہے۔
ایسی نبض پرکھتے وقت عمر کوخاص طور پرمدنظر رکھیں ایسی نبض کوحتمی نبض قرار دینے کے لئے نبض کی دیگراقسام کے مدنظر حکم لگائیں۔

استوا واختلاف نبض

اسکی صرف دوہی اقسام ہیں مستوی اورمختلف ۔
مستوی نبض وہ ہے جس کی تمام اجزاء تمام باتوں میں باقی نبض کے مشابہ ہوں یہ نبض بدن کی اچھی حالت ہونے کی علامت ہے ۔
نبض مختلف وہ نبض ہے جومستوی کے مخالف ہواوراس کے برعکس پردلالت کرے ۔
جانچنے کے لئے نبض پرہاتھ رکھیں جس قدر نبض کی اجناس اوپر بیان کی گئی ہیں کیا یہ ان کے اعتبار سے معتدل ہے اگران میں ربط قائم ہے اورمعتدل حیثیت رکھتی ہیں تووہ مستوی ہے ورنہ مختلف۔

مرکب نبض کی اقسام

تعریف
مرکب نبض اس نبض کو کہتے ہیں جس میں چند مفرد نبضیں مل کرایک حالت پیداکردیں۔ اس سلسلہ میں اطباء نے نبض کی چند مرکب صورتیں بیان کی ہیں ، جن سے جسم انسان کی بعض حالتوں پر خاص طورپر روشنی پڑتی ہے اورخاص امراض میں نبض کی جومرکب کیفیت پیدا ہوتی ہے، ان کااظہارہوتا ہے۔ ان کافائدہ یہ ہے کہ ایک معالج آسانی کے ساتھ متقدمین اطباء اکرام کے تجربات ومشاہدات سے مستفید ہوسکتاہے ۔
وہ چندمرکب نبضیں درج ذیل ہیں
1۔ نبض عظیم
وہ نبض جوطول وعرض وشرف میں زیادہ ہوایسی نبض قوت کی زیادتی کااظہار کرتی ہے اسے ہم عضلاتی یاوموی کہیں گے جونبض تینوں اعتبارسے صغیر ہوگی وہ قوت کی کمی کااظہا ر ہے اوروہ اعصابی نبض ہوگی۔
2۔ نبض غلیظ
غلیظ وہ نبض ہے جوصرف چوڑائی اوربلندی میں زیادہ ہوایسی نبض عضلاتی اعصابی ہوگی۔
3۔نبض غزالی
وہ نبض ہے جوانگلی کے پوروں کوایک ٹھوکر لگانے کے بعد دوسری ٹھوکر ایسی جلدی لگائے کہ اس کا لوٹنا اورسکون کرنا محسوس نہ ہو یہ نبض اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ترویج نسیم کی جسم میں زیادہ ضرورت ہے۔ غزالی کے معنی بچہ ہرن ہیں۔ یہاں اس کی مشابہت چال کی تیزی کی وجہ سے دی گئی ہے ایسی نبض عضلاتی ہوگی۔
4۔موجی نبض
ایسی نبض جس میں شریانوں کے اجزاء باوجودہونے کے مختلف ہوتے ہیں کہیں سے عظیم کہیں سے صغیر کہیں سے بلند اورکہیں سے پست کہیں سے چوڑی اورکہیں سے تنگ گویا اس میں موجیں (لہریں) پیدا ہورہی ہیں جوایک دوسرے کے پیچھے آرہی ہیں ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پردلالت کرتی ہے قانون مفر د اعضا ء میں ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی۔
5نبض دودی
)کیڑے کی رفتار کی مانند ) یہ نبض بلندی میں نبض موجی کے مانند ہوتی ہے لیکن عریض اورممتلی نہیں ہوتی یہ نبض موجی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس کی موجیں ضعیف ہوتی ہیں گویااس کے خلاف صغیر ہوتی ہے ایسی نبض قوت کے ساقط ہونے پردلالت کرتی ہے لیکن سقو ط قوت پورے طورپرنہیں ہوتا اس نبض کودودی اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حرکت میں اس کیڑے کے مشابہ ہوتی ہے جس کے بہت سے پائوں ہوتے ہیں ایسی نبض غدی اعصابی ہوگی بوجہ تحلیل نبض میں ضعف پیداہوتاہے۔
6نبض ممتلی
یہ وہ نبض ہے جونہایت ہی صغیر اورمتواتر ہوتی ہے ایسی نبض اکثر قوت کے کامل طور پرساخط کے ہوجانے اورقربت الموت کے وقت ہوتی ہے یہ نبض دودی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس سے زیادہ صغیر اورمتواتر ہوتی ہے یہ اعصابی غدی کی انتہائی صورت ہوگی۔
7۔نبض منشاری
(آرے کے دندانوں کی مانند)
یہ وہ نبض ہے جوبہت مشرف ،صلب،متواتراورسریع ہوتی ہے اسکی ٹھوکر اوربلندی میںاختلاف ہوتاہے یعنی بعض اجزا سختی سے ٹھوکر لگاتے ہیں بعض نرمی سے اوربعض زیادہ بلندہوتے ہیں اوربعض پست گویا ایسامحسوس ہوتاہے کہ اس نبض کے بعض اجزاء نیچے اترتے وقت بعض انگلیوں کوٹھوکر ماردیتے ہیں ۔یعنی ایک پورے کوجس بلندی سے ٹھوکر لگاتے ہیں اس سے کم دوسرے پورے کو یہ نبض اس امر کوظاہر کرتی ہے کہ کسی عضومیں ورم پیدا ہوگیا ہے خاص طور پر پھیپھڑوں اورعضلات میںصاف ظاہر ہے کہ یہ عضلاتی اعصابی تحریک کی بگڑی ہوئی نبض ہے ۔
نبض ذنب الفار،نبض ذولفترہ ،نبض واقع فی الوسط،نبض مسلی ،مرتعش اورملتوی وغیرہ بھی بیان کی جاتی ہیں، جن سے کسی مزاج کی واضح پہچان مشکل ہے، اس لئے ان کوچھوڑدیاگیاہے۔طبِ قدیم کے تحت نبض کا بیان صرف اس لئے لکھ دیا ہے کہ طبِ قدیم کے اطبا ء بھی اس سے استفا دہ کر سکیں ۔ ساتھ ساتھ تجدیدِ طب کے مطا بق ان کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے کہ تجدیدِ طب کے بھی اس سے مستفیض ہو سکیں ۔
نبض کے با رے تجدیدِ طب کی رہنما ئی مکمل اور کا فی ہے ۔ مجددطب حکیم انقلاب نے علم النبض پر بھی انتہائی محنت کے ساتھ تجدید کی اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں نبض کوانتہائی آسان کرتے ہوئے اسے بھی اعضائے ریئسہ دل ودماغ وجگر کے ساتھ مخصوص کردیا جوکہ فنِ طب میں ایک بہت بڑا کمال و انقلاب ہے۔ اس اعتبار سے قانون مفرداعضا میں مفردنبض کی اقسام صرف تین ہیں، جنہیں اعصابی نبض ،عضلاتی نبض،اورغدی نبض سے موسوم کیاگیا ہے۔ پھرہر ایک مرکب نبض کی اقسام کوانہیںاعضاء رئیسہ کے باہمی تعلق کے مدنظر چھ(۶)اقسام میں تقسیم کردیاہے،جوکہ بالترتیب درج ذیل مقرر ہیں
1۔اعصابی عضلاتی 2۔عضلاتی اعصابی
3۔عضلاتی غدی 4۔غدی عضلاتی
5۔غدی اعصابی 6۔اعصابی غدی
اب پہلے مفردنبض کی شناخت ووضاحت کوبیان کیاجاتاہے۔

اعصابی نبض

ایسی نبض جوقیصر ہومنخفض ہو،عریض ہو،لین ہو، بطی ہو اعصابی کہلاتی ہے ۔ انگلیوں کوزورسے دبانے سے کلائی کے پاس محسوس ہوگی۔ یہ جسم میںبلغم اور رطوبت کی زیادتی کی علامت ہوگی۔

عضلاتی نبض

جب ہاتھ مریض کی کلائی پر آہستہ سے رکھا جائے، نبض اوپرہی بلندی پرمحسوس ہو، ساتھ ہی ساتھ صلب ہو اورسریع ہو اورقوی ہوتوایسی نبض عضلاتی نبض کہلاتی ہے۔ ایسی نبض جسم میں خشکی ،ریاح ،سوداوربواسیری زہرکااظہار کرتی ہے ۔

غدی نبض

مریض کی نبض پرہاتھ رکھیں اورآہستہ آہستہ انگلیوں کردباتے جائیں۔ اگرنبض درمیاں میں واقع ہوتویہ غدی نبض ہوگی۔ ایسی نبض طویل ہوگی ،ضیق ہوگی۔یہ جسم میںحرارت اورصفراء کی زیادتی کا اظہار ہے۔ حرار ت سے جسم میں لاغری وکمزوری کی علامات ہوں گی ۔یادرکھیں ،جب طویل نبض مشر ف بھی اورقوی بھی ہوتوعضلاتی ہوگی۔
خصوصی نوٹ
نبض بالکل اوپربلندی پرعضلاتی ،بالکل کلائی کے پاس پست اعصابی اور درمیان میں غدی ہوگی۔
مرکب نبض
قانون مفرد اعصا میںمرکب نبض کو چھ تحاریک کے ساتھ مخصوص کردیاگیاہے جو کہ درج ذیل ہیں

اعصابی عضلاتی

جو نبض پہلی انگلی کے نیچے حرکت کرے اورباقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے ، اعصابی عضلاتی ہوگی۔یہ نبض گہرائی میںہوگی ۔بعض اوقات فقرالدم کی وجہ سے دل بے چین ہو تو تیزی سے حرکت کرتی محسوس ہوگی مگردبانے سے فوراََدب جائے گی جیسا کہ نبض میں حرکت ہے ہی نہیں۔ عام حالات میں اعصابی عضلاتی نبض سست ہوتی ہے ۔
اس کی تشخیصی علامات یہ ہیں ـ ـ
منہ کاذائقہ پھیکا ،جسم پھولا ہوا ہونا شہوت کم ،دل کاڈوبنا ،رطوبت کا کثرت سے اخراج ،پیشاب زیادہ آنا اور اس کارنگ سفید ہونا ،ناخنوں کی سفیدی اہم علامات ہیں۔

ضلاتی اعصابی

اگر نبض پہلی اوردوسری انگلی کے نیچے حرکت کرے اور باقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے تو یہ نبض عضلاتی اعصابی ہوگی ۔مقامی طورپر مشرف ہوگی قدرے موٹائی میں ہوگی۔ ریاح سے پرہونے کی وجہ سے ذرا تیز بھی ہوگی ۔ رطوبت کااثر اگرباقی ہوتو سست وعریض بھی ہوسکتی ہے۔
تشخیصی علامات
چہرہ سیاہی مائل اور اس پرداغ دھبے ،چہرہ پچکا ہوا،اگر کولسٹرول بڑھ گیا تو جسم پھولا ہوا کاربن کی زیادتی ،ترش ڈکار ،جسم میں ریاح اور خشکی و سردی پائی جائے گی۔

عضلاتی غدی

اگر نبض پہلی دوسری اورتیسری انگلی تک حرکت کرے اور چوتھی انگلی کے نیچے حرکت نہ کرے تویہ نبص عضلاتی غدی ہوگی۔مشرف ہوگی یعنی مقامی طوپر بالکل اوپر ہوگی۔ حرکت میں تیز اورتنی ہوئی ہوگی۔ یاررکھیں نبض، اگرچہ چار انگلیوں تک بھی حرکت کرے، اگروہ ساتھ ساتھ صلب بھی ہواورمشرف وسریع بھی ہوتو عضلاتی غدی شدید ہوں۔
تشخیصی علامات
عضلات وقلب میں سکیٹر ،فشار الدم ،ریاح کا غلبہ ،اختلاج قلب ،جسم کی رنگت سرخی مائل جسم وجلد پر خشکی اورنیند کی کمی ہوگی۔

غدی عضلاتی

اگرنبض چارانگلیوں تک حرکت کرے لیکن وہ مقامی طورپرمشرف اورمنحفض کے درمیان واقع ہو ضیق بھی ہوتوایسی نبض غدی عضلاتی ہوتی ہے۔
تشخیصی علامات
جسم زرد ،پیلا ،ڈھیلا ۔ہاتھ پائوں چہرے پرورم۔یرقان،پیشاب میں جلن ، جگروغدداورغشائے مخاطی میں پہلے سوزش وورم اور بالا خر سکیٹرشروع ہوجانا۔

غدی اعصابی

اگرمقامی طورپرغدی نبض کا رجوع منخفض کی طرف ہوجائے تویہ غدی اعصابی ہوگی یہ نبض رطوبت کی وجہ سے غدی عضلاتی سے قدرے موٹی ہوگی اور سست ہوگی۔
تشخیصی علامات
جگرکی مشینی تحریک ہے۔ آنتوں میں مڑور،پیچش ،پیشا ب میں جلن،عسرالطمت ، نلوں میں درد،بلڈپریشراورخفقان وغیرہ کی علامات ہوںگی۔

اعصابی غدی

اگرنبض منخفض ہوجائے،عریض ہوجائے، قصیر ہوجائے تو ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی انتہائی دبانے سے ملے گی ۔
تشخیصی علامات
جسم پھولا ہوا،چربی کی کثرت ،بار بارپیشاب کاآنا۔
بعض اطباء نے ہرنبض کے ساتھ علامات کی بڑی طویل فہرست لکھ کردی ہے جسکی کہ ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے قانون مفرد اعضاء میں تو ہر تحریک کی جداگانہ علامات کو سرسے لیکر پائوں تک وضاحت وتفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیاہے مثلاََجس طبیب کو اعصابی عضلاتی علامات معلوم ہیں تووہ بخوبی جانتاہے کہ اعصابی عضلاتی نبض کی کیا کیا علامات ہیں اسی طرح دیگر تمام تحاریک کی نبض سے علامات کی تطبیق خود بخود پیدا ہوگئی ہے ۔ان کا یہاں پہ بیان کر نا ایک تو طوالت کا باعث ہوگا ۔اوردوسر ا نفس مضمون سے دوری کاباعث ہوگا ۔

مرداور عورت کی نبض میں فرق

عورت کی نبض کبھی عضلاتی نہیں ہوتی کیونکہ عضلاتی نبض سے خصیتہ الرحم میں اور دیگر غدو میںسکون ہوکر جسم اوربچے کو مکمل غذا نہیں ملتی اگرعورت کی نبض عضلاتی ہوجائے تو اس کو یاحمل ہوگا یااس میں مرد انہ اوصاف پید اہوجائیں گے جیسے آج کل کی تہذیب میں لڑکیاں گیند بلا وغیرہ کھیلتی ہیں یا اس قسم کے دیگر کھیل کھیلتی ہیں یاجن میں شرم وحیاء کم ہوجاتاہے ۔ اس طرح جن عورتوں کے رحم میں رسولی ہوتی ہے ان کی نبض بھی عضلاتی ہوجاتی ہے اورورم کی نبض کا عضلاتی ہونا ضروری ہے۔ )ماہنامہ رجسٹریشن فرنٹ مارچ۱۹۷۰؁ء صفحہ نمبر۹تا۱۰(

اہمیت نبض

جولوگ نبض شناسی سے آگاہ ہیںاور پوری دسترس رکھتے ہیں ان کے لیے نبض دیکھ کر امراض کابیا ن کردینا بلکہ ان کی تفصیلات کاظاہر کردینا کوئی مشکل بات نہیں ۔ ایک نبض شناس معالج نہ صرف اس فن پرپوری دسترس حاصل کرلیتا ہے بلکہ وہ بڑی عزت ووقار کا مالک بن جاتاہے یہ کہنا سراسرغلط ہے کہ نبض سے صرف قلب کی حرکا ت ہی کا پتہ چلتاہے بلکہ اس میںخون کے دبائو خون کی رطوبت اورخون کی حرارت کا بھی علم ہوتا ہے ہرحال میںدل کی حرکات بدل جاتی ہیں جس کے ساتھ نبض کی حرکات اس کے جسم اور اس کے مقام میں بھی تبدیلیاں واقع ہوجاتی ہیں جس سے انسانی جسم کے حالات پر حکم لگایا جاسکتاہے۔

راز کی بات

دل ایک عضلاتی عضو ہے مگر اس پردوعددپردے چڑھے ہوئے ہیں دل کے اوپرکا پردہ غشائے مخاطی اور غدی ہے اوراس کے اوپربلغمی اوراعصابی پردہ ہوتاہے۔جوشریانیں دل اوراس کے دونوں پردوںکو غذا پہنچاتی ہیں ۔ان میں تحریک یاسوزش سے تیزی آجاتی ہے جس کا اثر حرکات قلب اور فعال شرائین پر پڑتاہے جس سے ان میںخون کے دبائو خون کی رطوبت اور خون کی حرارت میںکمی بیشی ظاہر ہوجاتی ہے۔
یہ راز اچھی طرح ذہین نشین کرلیںکہ

شریان میںخون کا دبائو قلب کی تحریک سے پید اہوتا ہے جو اس کی ذاتی اور عضلاتی تحریک ہے۔
خون کی رطوبت میں زیادتی دل کے بلغمی اعصابی پردے میںتحریک سے ہوتی ہے ۔
خون کی حرارت قلب کے غشائی غدی پردے میںتحریک سے پید اہوتی ہے اس طرح دل کے ساتھ اعصاب ودماغ اورجگر وغددکے افعال کاعلم ہوجاتا ہے ۔
یہ وہ راز ہے جس کو دنیائے طب میں حکیم انقلاب نے پہلی بارظاہر کیا۔ اس سے نبض کے علم میں بے انتہا آسانیاںپیدا ہوگئی ہیں۔

تشخیص کے چند اہم نکات

(۱)حرکات جسم کی زیادتی سے تکلیف
جسم کے بعض امراض وعلامات میںذرا بھی اِدھر اُدھر حرکت کی جائے توان میںتکلیف پیداہوجاتی ہے یاشد ت ہوجاتی ہے ایسی صورت میںعضلات وقلب میںسوزش ہوتی ہے حرکت سے جسم میںخشکی پیدا ہوتی ہے۔
(۲)آرام کی صورت میں تکلیف
جب آرام کیاجائے توتکلیف جسم بڑھ جاتی ہے اورطبیعت حرکت کرنے سے آرام پاتی ہے ایسی صورت میں اعصاب ودماغ میں سوزش وتیزی ہوتی ہے۔آرام سے جسم میںرطوبت کی زیادتی ہوجاتی ہے
(تحقیات الامراض والعلامات صفحہ نمبر۱۱۱تا۱۱۲)
(۳)خون آنا
اگرمعدے سے لے کراوپرکی طرف سرتک کسی مخرج سے خارج ہوتویہ عضلاتی اعصابی تحریک ہوگی اوراگرجگر سے لے کرپائوں تک کسی مخرج یامجریٰ سے خارج ہوتویہ عضلاتی غدی تحریک ہوگی ۔

ضرور ی نوٹ

تشخیص الامراض میںعضلاتی اعصابی اورعضلاتی غدی یاغدی عضلاتی اورغدی اعصابی وغیرہ تحریکات میں فرق اگروقتی طور پرمعلوم نہ ہوسکے توکسی قسم کافکر کئے بغیر اصول علاج کے تحت عضو مسکن میںتحریک پیداکردینا کافی وشافی ویقینی علاج ہے۔

تشخیص کی مروجہ خامیاں

طب یونانی وطب اسلامی میںتشخیص کاپیمانہ نبض وقارورہ ہے ملک بھر کے لاکھوںمطب کا چکر لگالیں گنتی کے چند مطب ملیں گے جن کو چلانے والے اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اورنہ ہی یہ علم اب طبیہ کالجوںمیں پوری توجہ سے پڑھا یاجاتا ہے شاید ہی ملک کا کوئی طبی ادارہ نبض وقارورہ سے اعضاء کے غیر طبعی افعال اور اخلاط کی کمی بیشی کی پہچان پردسترس کی تعلیم دیتا ہو ۔اب تک تو طب یونانی کا ایسا کوئی ادارہ دیکھا نہیں ،دیکھنے کی خواہش ضرور ہے۔اعتراف ِحقیقت بھی حسن اخلاق کی اصل ہے قانون مفر د اعضاء کے اداروں سے تعلیم وتربیت یافتہ اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص پر کافی حدتک دسترس رکھتے ہیں۔
اس طرح مذاکرہ ،دال تعرف ماتقدم جوکہ مریض و معالج میں اعتماد کی روح رواں ہیں مگر اس دور کے معالجین ان حقائق سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتے۔ مریض نے جس علامت کا نام لیا اسی کو مرض قرار دے کر بنے بنائے مجربات کا بنڈل اس کے ہاتھ میں تھما دیاجاتا ہے۔
اگرکوئی ادارہ تشخیص کا دعویٰ بھی کرتاہے اس کی تشخیص کا جوانداز ہے، ا س پربھی ذرا غور کریں۔ تمام طریقہ بائے علاج میں پیٹ میں نفخ ہو یا قے ،بھوک کی شدت ہو یا بھوک بند ،تبخیرہویا ہچکی بس یہی کہا جائے گا کہ پیٹ میں خرابی ہے ان علامات میں اعضائے غذایہ کی بہت کم تشخیص کی جائے گی۔ اگر کسی اہل فن نے پیٹ کی خرابی میں معدہ ،امعاء ،جگر،طحال اور لبلبہ کی تشخیص کربھی لی تو اس کو بہت بڑا کمال خیال کیاجائے گا۔لیکن اس امر کی طرف کسی کادھیان نہیں جائے گا کہ معدہ امعاء وغیرہ خودمرکب اعضاء ہیں اور ان میں بھی اپنی جگہ پرعضلات ، اعصاب اور غددواقع ہیں مگر یہاں پربھی صرف معدہ کومریض کہا جاتا ہے جو ایک مرکب عضوہے ۔یہاں پر بھی معدہ کے مفرد اعضاء کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا حالانکہ معدہ کے ہر مفرد عضو کی علاما ت بالکل مختلف اور جدا جدا ہیں مگر تشخیص ہے کہ کلی عضو کی کی جارہی ہے اورعلاج بھی کلی طور پر معد ہ کا کیا جارہا ہے نتیجہ اکثر صفر نکلتا ہے ناکام ہوکر نئی مرض ایجاد کردی جاتی ہے ایک نئی مرض معلوم کرنے کا کارنامہ شما ر کرلیا جاتاہے۔
فاعلم، جب معدہ کے اعصاب میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی صورتیں اورعلامات معدہ کے عضلات کی سوزشوں سے بالکل جد اہوتی ہیں اسی طرح جب معدہ کے غدو میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی علامات ان دونوں مفرد اعضاء کی سوزشوں سے بالکل الگ الگ ہوتی ہیں پھر سب کو صرف معدہ کی سوزش شمار کرنا تشخیص اور علاج میں کسی قدر الجھنیں پیداکردیتا ہے یہی وجہ ہے کہ یورپ ،امریکہ کو بھی علاج میں ناکامیاں ہوتی ہیں اوروہ پریشان اور بے چین ہیں اوراس وقت تک ہمیشہ ناکام رہیں گے جب تک کہ علاج اور امراض میں کسی مرکب عضو کی بجائے مفرد عضو کو سامنے نہیں رکھیں گے ۔امراض میں مفرد اعضاء کو مدنظر رکھنا مجد دطب حکیم انقلاب المعالج دوست محمد صابر ملتانی کی جدید تحقیق اور عالمگیر کارنامہ ہے مجدد طب کا یہ نظریہ مفرد اعضا ء (Simple organ theory) فطر ت اور قانون قدرت سے مطابقت رکھتا ہے۔
اس سے نہ صرف تشخیص میں آسانیاں پید اہوگئی ہیں بلکہ ہر مرض کا علاج یقینی صورت میں سامنے آگیاہے۔ اس کاسب سے بڑ ا فائدہ یہ ہے کہ مرکب عضومیں جس قدر امراض پیداہوتے ہیں ان کی جدا جد اصورتیں سامنے آجاتی ہیں۔ ہرصورت میں ایک دوسرے سے ان کی علامات جدا ہیں ،جن سے فوراََ یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اس عضو کا کون سا حصہ بیمارہے پھر صرف اسی حصہ کا آسانی سے علاج ہوسکتا ہے۔
اب ٹی بی ہی کو لیجئے کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے یہ تو اصل بیماری کی ایک علامت ہے ۔انسان میں آخرکونسا پرزہ خراب ہے جب معالج کو پتہ تک ہی نہیں کہ کون سا پرزہ خراب ہے توہ کیسے ٹھیک کرے گا انسانی جسم بھی تو ایک مشین ہے اس میں بھی تو پرزے ہیں جب یہ مشین خراب ہوتی ہے تودراصل کوئی پرزہ ہی توخراب ہوجاتاہے اسی طرح شوگر ،بلڈپریشر وغیرہ کوئی امراض نہیں بلکہ کسی نہ کسی پرزے کی خرابی کی علامات ہیں ۔ اس لئے صحیح اور کامیاب معالج وہی ہوگا جوصرف علامات کی بنیا دپر علاج کرنے کی بجائے اجزائے خون ،دوران خون اور افعال الاعضاء کے بگاڑ کو سمجھ کر تشخیص وعلاج کرے گا ۔ اس کی ایک دوائی ہی سرسے لے کر پائوں تک کی تکلیف دہ علامات کو ختم کردے گی۔ انشاء اللہ

Saturday 14 June 2014

وٹامن نمکیات اور ہماری صحت


وٹامن نمکیات اور ہماری صحت
--------------------------------------------------------
وٹامن اے ۔۔۔ ۔
------------------------
نظر کی بہتری ،صحت مند جلد،دانتوں اور ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے ضروری ہیں۔اس کے علاوہ جسم کے مدافعتی نظام کو بڑھاتے ہیں۔بلخصوص کینسر سے بچاؤ میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔
حاصل کرنے کے ذرائع۔۔۔ ۔۔
آلو،گاجر ،پالک،لالمرچ،اور کم چکنائی والی ڈیری مصنوعات(دودھ ،دہی،آئسکریم وغیرہ)
وٹامن بی 3 (نایاسین )
--------------------------------------
غذا کو توانائی میں بدلنے کے لئے جسم کی مدد کرتے ہیں ۔خوراک کے ہاضمے اور اعصابی نظام کی کارکردگی بہتر بناتے ہیں۔اس کی بہت زیادہ مقدار کھانے سے کولیسٹرول میں تھوڑا بہت اضافہ ہوسکتا ہے۔
حاصل کرنے کے ذرائع۔۔۔ ۔
پولٹری مصنوعات،(مرغی انڈے )سمندری غذا،مونگ پھلی،دلیہ،اور دیگر تمام اجناس کی روٹی۔
وٹامن بی 6 ۔۔۔ ۔۔
-----------------------------------
پروٹین سے خلیات بنانے میں جسم کی معاونت کرتے ہیں۔ہیموگلوبین،انسولین،اور مختلف امراض کا مقابلہ کرنے والے حفاظتی جراثیم کی پیداوار میں بھی مدد دیتے ہیں۔امراضِ قلب اور دل کے درد وغیرہ کی روک تھام میں بھی معاونت کرتے ہیں۔
حاصل کرنے کے ذرائع۔۔۔ ۔۔
مرغی،مچھلی،کلیجی،گردے،بادام،اور تمام اجناس اور دالیں وغیرہ۔
فولک ایسڈ
-------------------------
خون کے سرخ خلیات بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔امراضِ قلب کی روک تھام میں معاون ہے۔
حاصل کرنے کے ذرائع۔۔۔ ۔۔
پالک اور دیگر سبز پتوں والی سبزیاں،سنگترے کاجوس،گندم،مکئی اور دیگر اجناس۔
وٹامن سی
---------------------
خون میں جمنے کی صلاحیت پیدا کرنے (دورانِ زخم ) مسوڑھوں کو صحت مند رکھنے،کولاجِن کی تشکیل اور قوتِ مدافعت کو مضبوط بنانے میں وٹامن سی کا اہم کردار ہے۔کینسر اور امراضِ قلب میں بھی مددگار ہے۔
حاصل کرنے کے ذرائع۔۔۔ ۔۔
تمام سٹرس پھل،پپیتا،اسٹرابری،سبز اور سرخ مرچ،بند گوبھی۔
وٹامن ڈی
------------------------
کیلشئم کو جذب کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔جس سے ہڈیاں مضبوط رہتی ہیں۔مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔کولون (بڑی آنت ) کے کینسر کی روک تھام میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
حاصل کرنے کے ذرائع۔۔۔ ۔۔۔
دودھ ،دلیہ،انڈے کی زردی ،مچھلی اور مکھن۔
وٹامن ای
---------------------
خون کے سرخ خلیات کے علاوہ اعضاء اور پٹھوں کی مضبوطی کا باعث ہوتا ہے۔امراضِ قلب اور دیگر مختلف کینسر کے خطرات کم کرتا ہے ۔اس کے علاوہ ذیابطیس کی قسم دوئم میں بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔
حاصل کرنے کے ذرائع۔۔۔ ۔
گندم،بادام،دالیں ،سبزیوں کے تیل اور انڈے۔
وٹامن کے
-------------------
ہڈیوں کو ٹھوس بناتے ہیں۔اور جسم میں خون کے تھکّے (clots) نہیں بننے دیتے۔
حاصل کرنے کے ذرائع۔۔۔ ۔۔
پالک اور دوسری ہرے پتوں والی سبزیاں،مغز،گندم،کلیجی،گردے۔
معدنی نمکیات
-----------------------------
ہڈیوں اور دانتوں کو صحت مند رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔عضلات اور اعصاب کے عمل کو درست رکھنے میں معاونت کرتے ہیں۔زیادہ مقدار خون کو گاڑھا کرسکتی ہے۔بڑی آنت کے کینسر اور ہائی بلڈ پریشر کے خطرات کو کم کرتے ہیں۔
تانبا (copper)
---------------------------
خون کے سرخ خلیات،اعصابی ریشے بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔لوہے کو جسم میں جذب کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔دل کے امراض کی روک تھام میں بھی معاون ہے۔
فولاد (Iron)
--------------------------
ہیموگلوبین کی پیداوار کے لئے انتہائی ضروری ہے۔خون میں آکسیجن کی فراہمی کا سبب بنتا ہے۔فولاد کی کمی مختلف مسائل پیدا کرسکتی ہے۔خاص طور پر اس کا اثر ذہانت اور یادداشت وغیرہ پر پڑتا ہے۔مدافعتی نظام کمزور ہونے کے علاوہ اس کی کمی سے جسم کا درجہ حرارت بھی متاثر ہوسکتا ہے۔
میگنیشئم۔
-----------------------
انسان کے جسم میں 300 سے زائد مختلف مرکبات موجود ہوتے ہیں جو توانائی پیدا کرتے ہیں۔میگنیشئم ہڈیاں بننے اور اُن کی مضبوطی برقرار رکھنے میں جسم کی معاونت کرتا ہے۔عضلات کی اکڑن روکتا ہے۔دل کے امراض سے بھی بچاتا ہے۔اس کے علاوہ اسٹروک،ہائپرٹینشن،اور گردے میں پتھری وغیرہ سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔
سیلنئیم۔
-----------------
وٹامن ای کے ساتھ مل کر جسم میں موجود فری ریڈیکلز کے اثرات سے بچاتا ہے۔پھیپڑوں اور بڑی آنت کے کینسر سے بچاؤ میں بھی معاون ہے۔
جست (zinc)
-----------------------------
اعصابی نظام کے عمل میں معاونت کرتا ہے۔قوتِ مدافعت کو مضبوط بنانے کے علاوہ جسم کو سردی لگنے سے محفوظ رکھتا ہے۔
معدنی نمکیات حاصل کرنے کے ذرائع۔۔۔ ۔۔
کیلشئم۔
---------------
مچھلی،پنیر،تمام سٹرس پھل،دودھ،سویا سے بنی مصنوعات اور دہی۔
تانبا۔
------------
جوکا دلیا،جھینگا،مچھلی،بادام اور دل کلیجی وغیرہ۔
فولاد۔
--------------
خشک خوبانی ،بڑا گوشت،دلیا،مچھلی،پالک،یا ہرے پتوں والی سبزیاں۔
میگنیشئم۔
-------------------
بینز،روٹی،دلیہ،سبز پتوں والی سبزیاں،بادام اور کستورا مچھلی۔
سیلینئم۔
----------------
مرغی،مشروم،بادام،سمندری غذا،بیج،ادرک،گندم اور دیگر اجناس۔
جست۔
---------------
بڑا گوشت،دلیہ،کلیجی،مچھلی،گندم اور دہی۔
اگر آپ ملٹی وٹامن استعمال کرتے ہیں تو چند باتوں پر عمل کرکے آپ اُن وٹامنز کو زیادہ مفید بنا سکتے ہیں۔
گولی کو کھانے کے ساتھ کھائیں۔بیشتر غذائی اجزاء ایسے ہوتے ہیں جو پروٹین ،چکنائی،اور نشاستے کی موجودگی کے ساتھ زیادہ جذب اور ہضم ہوتے ہیں۔چناچہ سپلیمنٹ کا کھانے کے ساتھ استعمال زیادہ مفید رہتا ہے۔
ایک ساتھ مختلف سپلیمنٹ نہ لیں۔
اگر آپ فولاد کی کمی کے لئے ملٹی وٹامن لے رہے ہیں اور ساتھ ہی کیلشئم کے سپلیمنٹ بھی لے لیتے ہیں تو اس صورت میں فولاد ،کیلشئم کو جذب کرنے کے عمل میں مزاحمت پیدا کرسکتا ہے۔لہذا بہتر ہے کہ ان دونوں کو الگ الگ استعمال کریں۔
فولاد جذب کرنے کی صلاحیت بڑھائیں۔
وٹامن سی فولاد کو جذب کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔اگر آپ ایسے ملٹی وٹامن لے رہے ہیں جو فولاد پر مشتمل ہیں تو اس کے ساتھ ایک گلاس سنگترے کا جوس بھی پی لیں۔فولاد جلد جزو بدن بنے گا۔
کیلشئم کیسے جذب کیا جائے ؟
اگر آپ کیلشئم سپلیمنٹ لے رہے ہیں تو ایک وقت میں 600 ملی گرام سے زیادہ مقدار نہ لیں۔اور یہ مقدار دن میں دو مرتبہ لیں۔صبح اور شام۔ایک ہی وقت میں کیلشئم کی زیادہ مقدار معدے کے لئے مسائل پیدا کردے گی۔
پروٹین اور سوڈیم کے استعمال پر نظر رکھیں۔
روزآنہ ایسی غذا کھانا جس میں سوڈیم کی مقدار زیادہ ہو یا روزآنہ 60 گرام سے زائد پروٹین لینا مناسب نہیں ہوتا۔کیونکہ سوڈیم اور پروٹین کی زیادہ مقدار سے جسم کیلشیئم کا اخراج بڑھا دیتا ہے۔اس طرح جسم نمکیات سے پوری طرح فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔
اگر ملٹی وٹامنز کی گولیاں معدے کے لئے پریشانی کا باعث بنتی ہیں تو بہتر ہے کہ کوئی دوسرا سپلیمنٹ استعمال کیا جائے ۔تاہم کوئی بھی نئی وٹامن کی گولی کھانے کے لئے کم از کم دو ہفتوں کا انتظار کریں۔کوئی بھی وٹامن لینے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور لیں۔

Monday 9 June 2014

ہڈیاں مضبوط کرنے والی غذائیں


ہڈیاں مضبوط کرنے والی غذائیں

انسانی جسم کی بہترین نشوونما کے لئے ہڈیوں کی مضبوطی نہایت ضروری ہے، اور ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے جسم کو کیلشیم اور وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں ہم آپ کو ایسی غذاﺅں کے بارے میں بتائیں گے، جو وٹامن ڈی اور کیلشیم سے بھرپور ہونے کی وجہ سے ہڈیوں کو مضبوط بنا سکتی ہیں۔

دہی: بیشتر لوگ سورج کی روشنی سے وٹامن ڈی حاصل کرتے ہیں لیکن ایسی غذائیں بھی موجود ہیں، جن میں یہ وٹامن کثیر تعداد میں پایا جاتا ہے، جیسے کہ دہی۔ ایک کپ دہی میں 30فیصد کیلشیم اور 20فیصد وٹامن ڈی ہوتا ہے، جو سارے دن کی جسمانی ضرورت کو پورا کر دیتا ہے۔

دودھ: کیلشیم اور وٹامن ڈی سے بھرپور دودھ کو ایک مکمل غذا کہا جاتا ہے۔ 8اونس دودھ میں 30فیصد کیلشیم اور ڈھیر سارا وٹامن ڈی ہوتا ہے، جو ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے نہایت نفع بخش ہے۔

پنیر: پنیر کیلشیم سے بھرپور ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اسے ایک حد سے زیادہ استعمال کریں، کیوں کہ کسی بھی چیز کا حد سے زیادہ استعمال اس کے نقصان کا موجب بن سکتا ہے۔ ڈیڑھ اونس پنیر میں 30فیصد سے زائد کیلشیم ہوتا ہے، جو ایک روز کے لئے کافی ہے۔

مچھلی: مچھلی میں حیران کن طور پر وٹامن ڈی اور کیلشیم کی کثیر مقدار موجود ہوتی ہے۔ انڈہ: اگرچہ ایک انڈے میں صرف 6فیصد وٹامن ڈی ہوتا ہے لیکن یہ وٹامن کے حصول کا نہایت آسان ذریعہ ہے، دوسرا انڈے کی زردی وٹامن ڈی سے بھرپور ہوتی ہے۔

پالک: اپنی روز مرہ کی خوراک میں ایک دن پالک کے استعمال کو بھی یقینی بنائیں کیوں کہ اس میں نہ صرف 25فیصد کیلشیم ہوتا ہے بلکہ یہ فائبر، آئرن اور وٹامن اے سے بھی بھرپور ہوتا ہے۔ مالٹے کا جوس: مالٹے کے تازہ جوس میں براہ راست کیلشیم یا وٹامن ڈی تو نہیں ہوتا لیکن یہ ان اجزا کے حصول کو آسان بنا دیتا ہے۔ متعدد تحقیقات یہ ثابت کر چکی ہیں کہ مالٹے کے جوس میں موجود اسکوربک نامی ایسڈ جسم میں کیلیشم کو جذب کرنے کی صلاحیت بڑھا دیتا ہے۔

Saturday 7 June 2014

اونٹنی کے دودھ کے فائدے


اونٹنی کے دودھ کے فائدے

قرآن پاک میں اکثر مقامات پر اونٹ کی اہمیت اور اسکی تخلیق پر غور و فکر کرنے کی تلقین کی گئی ہے حضرت صالحؑ کی قوم کو اونٹنی ایک تحفے کے طور پر عطا کی گئی تھی، ہمارے پیغمبر ﷺ اونٹنی سواری کو پسند فرماتے تھے اور اونٹنی کا دودھ شوق سے استعمال کرتے تھے کیونکہ صحرا میں بسنے والے لوگوں کے لیے اونٹ ایک نعمت سے کم نہیں ہے ، صحرا کے سخت ترین موسم میں بھی اونٹ کئی دن بغیر کھائے پئے گزارا کر لیتا ہے قحط اور خشک سالی کے موسم میں یہ جانور اپنے دودھ کی پیداواری صلاحیت برقرار رکھتا ہے جبکہ ان ناموافق حالات میں بقیہ لائیو سٹاک کی پیداواری صلاحیت قریباً ختم ہو جاتی ہے اس شدید خشک سالی کے دوران جب پانی کی کمی ہو تب بھی اس کے دودھ میں ایسی کمیائی تبدیلیاں آتی ہیں جو وہاں بسنے والے افراد کی غذائی ضوریات کو پورا کرنے کے کام آتی ہیں۔ افریقہ میں 93۔1990 شد ید قحط کے زمانے میں ہر سم کی لائیوسٹاک کو نصان پہنچا اور اموات ہوئیں مگر اس صورت حال میں بھی اونٹ وہ واحد جانور ہے جو اس قحط میں بھی وہاں کے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں معاون ثابت ہوا۔ اونٹ صحرا کی شدید گرمی میں اپنے جسم میں پانی کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ پانی عمل تبغیر کے ذریعے کم سے کم اس کے جسم سے خارج ہوتا ہے جب اونٹ کو پانی کی کمی کا سامنا ہو تو اس وقت بھی اس کے دودھ میں پانی کی خاصی مقدار خارج ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ دوسرے نمکیات جیسا کہ سوڈیم کلورائیڈ کی مقدار دودھ میں 10 ملی ایکولنٹ فی لیٹرسے بڑھ کر 23 ملی ایکولنٹ فی لیٹر تک پہنچ جاتی ہے ۔ یاد رہے کہ یہ نمک انسان کی جسمانی ضروریات کے لیے بہت ضروری ہے خاص طور پر صحرا جہاں پر گرمی کی وجہ سے پسینے کا اخراج زیادہ ہو، پسینے کے ساتھ ساتھ سوڈیم کلورائیڈ بھی ہمارے جسم سے خارج ہوتا ہے نمکیات کی یہ کمی ہمارے جسم میں کئی بیماریوں کا موجب بن سکتی ہے تو اس صورتحال میں اونٹ کا دودھ استعمال کر کے سوڈیم کلورائیڈ کی کمی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔
وٹامن سی جو عموماً ترش پھلوں اور سبزیوں میں پایا جاتا ہے اس کی بھی خاصی مقدار اونٹنی کے دودھ میں پائی جاتی ہے ، یہ وٹامن گرمی اور خشک سالی کے دنوں میں اونٹ کے دودھ میں اور زیادہ بڑھ جاتی ہے صحرا میں چونکہ سبز یاں اور پھل اتنے زیادہ میسر نہیں ہوتے اس لیے اونٹنی کے دودھ کا استعمال وٹامن سی کی کمی کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ وٹامن سی قوت مدافعت کو بہتر کرنے میں استعمال ہوتا ہے شدید گرمی کے موسم میں وٹامن سی دھوپ کی حدت اور لو لگنے سے بھی بچاتا ہے ۔ اونٹنی کے دودھ میں وٹامن سی 23 ملی گرام فی لیٹر ہوتا ہے ۔
اونٹنی کے دودھ سے بننے والی مصنوعات:
پاکستان میں پائی جانے والی بریلا اور تھلوچا نسل کے اونٹ روزانہ دس سے بارہ لیٹر دودھ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس نسل کے اونٹ زیادہ تر ملگدا نسل کے خانہ بدوشوں کے پاس پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مڑیچہ نسل کے اونٹ کی دودھ دینے کی پیداواری صلاحیت بھی کافی زیادہ ہے اس نسل کے اونٹ چولستان میں پائے جاتے ہیں جہاں پر صحرا کی سخت گرمی ، پانی اور غذائی اجناس کی کمی ہونے کے باوجود یہ نسل اپنی پیداواری صلاحیت اور خوبصورتی کے لحاظ سے کافی مشہور ہے ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں 23 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اونٹنی کا دودھ غذائی اعتبار سے کافی صلاحیت کا حامل اور لذید ہوتا ہے اگر دور دراز اسکولوں میں اونٹنی کا دودھ اور اس سے بننے والی دوسری مصنوعات جیسا کہ قلفی وغیرہ بچوں کو فراہم کی جائے تو ان میں غزائی قلت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اونٹنی کا دودھ پاسچرائزیشن کے بعد مارکیٹ میں دستیاب ملتا ہے ، اونٹنی کے دودھ سے بننے والی مصنوعات میں پنیر ، لفی، گلاب جامن اور دوسرے بہترین آئیٹم لذید ہونے کے ساتھ ساتھ غذائیت سے بھی بھرپور ہوتی ہیں۔ اونٹنی کے دودھ سے بننے والی پنیر خاصی لذید ہوتی ہے اور اس کی مانگ مشرق وسطی اور یورپی ممالک میں کافی زیادہ ہے ہمارے ملک میں بھی بیکری سازی کی صنعت میں اونٹنی کا دودھ مٹھائیاں بنانے کے لیے بہترین نعمل البدل ہے
طبی افادیت :
اونٹنی کے دودھ میں وٹامن ، نمکیات ، پروٹین اور چکنائی کی ایک خاصی مقدار موجود ہوتی ہے ، چھوٹے بچوں میں عموماً دودھ سے ایک خاص قسم کی الرجی اور اسہال کی سی شکایت پائی جاتی ہے تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اونٹنی کے دودھ کے استعمال سے یہ الرجی بچوں میں ناہونے کے برابر ہوتی ہے اس لیے چھوٹی عمر کے بچوں میں اونٹنی کے دودھ کا استعمال اس شکایت کے قابو پانے میں مفید ہے ۔ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی اونٹنی کا دودھ قدرت کی طرف سے ایک انمول عطیہ ہے کیونکہ اس میں انسولین کی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے جو گائے کے دودھ کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے ۔ انسولین ایک ہارمون ہے جو ذیابیطس کے مریضوں میں کم مقدار میں بنتا ہے اور انہیں یہ ہارمون دوائیوں کی شکل میں لینا پڑتا ہے ۔ ذیا بیطس کے ان مریضوں میں اونٹنی کے دودھ کا استعمال ایک شافی علاج کے طور پر اکسیر ہے ۔ زمانہ قدیم سے ہندوستان میں وید ک طریقہ علاج کے طور پر اونٹنی کا دودھ یرقان ، اطحالِ تلی ، ٹی بی، دمہ اور باسیر کے امراض کے علاج میں ادویاتی طور پر استعمال ہوتا آرہا ہے ۔ اونٹنی کے دودھ میں پائے جانے والے نیوٹرسیوٹیکل اجزاء میں سب سے اہم لیکٹو فیران ہیں جو یرقان کے مریضوں میں جگر کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بہت مفید ہے ۔
یرقان اور جگر کے کینسر کی حالت میں جگر کی فعالی حالت بہت کمزور ہو جاتی ہے اس صورت میں اونٹنی کا دودھ جگر کی نشو ونما اور اس کو کارآمد بنانے میں مفید سمجھی جاتی ہے ۔ اونٹنی کے دودھ میں کولسٹرول مناسب مقدار میں پایا جاتا ہے جو دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے غذائی متبادل ہے ، اونٹنی کے دودھ میں ٹی بی کا جرثومہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ گائے اور بھینس کے دودھ میں یہ پایا جاتا ہے اگر اونٹنی کا دودھ غذائی متبادل کے طور پر استعمال سے اس مہلک اور متعدی مرض س بچا جا سکتا ہے ۔
اونٹنی کا دودھ ایک بہترین قبض کشا دوائی کے طور پر بھی استعمال بھی کیا جاتا ہے ، اونٹنی کا دودھ اگر تازہ اور گرم حالت میں استعمال کیا جائے تو یہ اسہال کی سی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ ایتھوپیا اور افریقہ میں اونٹنی کا دودھ مردانہ کمزوری کے لیے شافی علاج کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔
ایک مشہور افریقی کہاوت ہے \”اگر آپ رات کو ایک پیاسی اونٹنی کا دودھ پیءں تو آپ کے پاؤں سے وہ کانٹا بھی نکل جاتا ہے جو بچپن میں چبھا ہو اور وہ آپ کے پاؤں میں رہ گیا ہو\”۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اونٹنی کا دودھ آپ کے جسم میں موجود کافی بیماریوں کیخلاف قوت مدافعت پیدا کرتا ہے اور انسان کو متعدی اور مہلک امراض سے بچانے میں مفید سمجھا جاتا ہے ۔ اونٹنی کا دودھ اگر ایک بیمار آدمی کو پلایا جائے تو اس سے وہ نہ صرف شفا یاب ہو گا بلکہ یہ دودھ اس کی ہڈیوں کی بڑھوتری میں بھی مددگار ثابت ہو گا ۔ اونٹ چونکہ صحرا میں موجود مختلف جھاڑیاں، ادویاتی بوٹیاں اور درختوں سے چرائی کر کے اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرتا ہے لہٰذا یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے دودھ میں وہ ادویاتی خصوصیات شامل ہیں۔ جن کو طلبِ یونانی برسوں سے مختلف امراض کے علاج کے طور پر استعمال کرتی چلی آ رہی ہے ۔
چولستان اور روہی کے لوگ اونٹ کو ایک فرشتہ گردانتے ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ اونٹ کے دودھ کا ستعمال جسم سے ہر طرح کے امراض کو ختم کرنے میں معاون اور مددگار ثابت ہوتا ہے ۔
 — 

حمل نہ ٹھہرنے کے اسباب


حمل نہ ٹھہرنے کے اسباب

آپ کی چھوٹی سی کمزوری زندگی کی بڑی محرومی کا سبب بن سکتی ہے۔آدم کی جنس مرد کو نر اور مادہ کو عورت کہا جاتا ہے۔ دیگر مقاصد تخلیق کے علاوہ ان کا ایک نہایت بنیادی وصف بقائے نسلِ انسانی اور تسلسل آدمیت ہے اور جب ان میں کوئی خرابی پیدا ہو کر نسل پیدا کرنے کی قابلیت مفقود ہو جائے تو طبی اصطلاح میں اسے بانچھ پن کہا جاتا ہے۔بانجھ پن کیلئے انگریزی میں "Sterility" اور عربی میں عقیم یا عقر کا لفظ بولا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ غلط تصو ر پایا جاتا ہے کہ بانچھ پن کا مرض صرف عورتو ں میں پایا جاتا ہے۔مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔بانچھ پن مردوں او ر عورتوں دونوں میں پایا جاتا ہے۔مردوں کی طرف سے منسوب ہو کر عوامی زبان بانچھ پن کو نامردی یا مردانہ بانجھ پنکہا جاتا ہے۔ شادی شدہ جوڑوں میں شادی کے پہلے سال حصول حمل کا امکان80 فیصد ہوتا ہے۔ جبکہ شادی کے دوسرے سال اسی ابتدائی سو فیصد میں سے حمل کی کامیابی کا امکان 10 فیصد تک رہ جاتا ہے۔جبکہ شادی کے دو سال بعد باقی 10 فیصد جوڑوں کیلئے کسی نہ کسی طرح کا طبی تعاون درکار ہوتا ہے۔

اسباب:مردانہ بانچھ پن جنسی قوت کی خرابی کا نام ہے اور جنسی قوت تین قوتوں کا مجموعہ ہے ان تین قوتوں میں سے جب کسی قوت یا فعل میں خرابی ہو گی تو بانچھ پن پیدا ہو سکتا ہے۔ہر وقت کی غیر طبی حالت میں بانچھ پن کی نوعیت بھی مختلف ہوگی اس لئے مردانہ بانچھ پن کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں۔

1۔ خواہش و جذبے کا نہ ہونا ۔خواہش،جذبے اور کشش کا تعلق اعصاب سے ہے۔اس جذبے میں کمی بیشی کے لئے اعصاب کو دیکھا جائے گا۔

2 ۔ نطفے کی منتقلی کے لئے عضو مخصوص کی کارکردگی کو پیش نظر رکھا جائے گا۔کیونکہ نطفہ او ر خواہش دونوں موجود ہوں لیکن متعلقہ مقام تک پہنچانے کیلئے عضوPenis میں ہی جان نہ ہو تو ایسے پانچھ پن کی نوعیت اول سے مختلف ہو گی۔

3۔ نطفہ خصیوں Testicles کے تحت تیار ہوتا ہے۔اس میں نقص واقع ہو تو غدی بانچھ پن تصور ہو گا۔یہ تینوں مفرد اعضاء اپنی حالت سے ایک دوسرے کو متاثر (طاقتور،کمزور او ر سست) کرتے ہیں۔جب ان کے افعال میں توازن ہو گا تو جنسی قوت بھی درست ہو گی.

1 ۔ اعصابی تحریک او ر جنسی قوت

دماغ و اعصاب احساسات کا مرکز ہیں جو اندرونی جسم اور بیرونی ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں او ر محرکات کا احساس کرنے اور حالات کے مطابق عضلات کو حکم رسانی کر کے پسندیدگی اور نا پسندیدگی کو حاصل کرتے ہیں۔ہضم چہارم کے فضلے کی جب خون میں بہتات ہوتی ہے تو خصیے خون سے اپنی ساخت کی منی علےٰحدہ جمع کر دیتے ہیں۔اس دباؤ کو احساسات ایک خاص لذت کی صورت میں محسوس کرتے ہیں۔لذت کی انتہائی صورت اخراج کے وقت حاصل ہوتی ہے۔چنانچہ اس دباؤ اور حصول سے نجات کیلئے جنسی اعضاء اعصاب کو حکم دیتے ہیں۔حکم کا طریقہ یہ ہے کہ اس طرف دوران خون کا رجوع ہو کر عضو مخصوص جس کا زیادہ تر حصہ عضلاتی انسحہ کا بنا ہوتاہے تناؤ میں آجاتا ہے۔پھر اس کی حرکات اور محرکا ت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی حرار ت کے اثر سے خصیے اور منی خارج ہوتی ہے۔اخراج منی اور جماع کا یہ فطری طریقہ ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تینوں مفرد اعضاء توازن و صحت کی حالت میں ہوں ۔

2 ۔ عضلاتی تحریک اور جنسی بیماری

جسم انسانی میں ارادی اور غیر ارادی حرکات کے زمہ دار عضلات فطری صورت میں مضر اثرات سے پچنے کیلئے اور مرطو بات اور مطلوبات کے حصول کیلئے اعصاب تحت ایک ترتیب و سلیقے سے کام کرتے ہیں لیکن انتہائی موافق حالات پا کر تیزی میں آجاتے ہیں ۔ اسے ہم عضلاتی تحریک کہتے ہیں۔ہر تحریک میں درجہ بہ درجہ جسم کے اندر تبدیلیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔غیر طبی تحریک ہو جائے تو ایک حد تک دماغ کے کنٹرول سے نکل کر جسم اور جنسی قوت پراثرات مرتب کرتے ہیں ۔عضو Penis میں سختی اور سکڑاؤ بڑھ جاتا ہے۔تحریک کی شدت اور سوزش کی صورت میں جنسی اعضاء کی طرف خون کا دوران زیادہ ہو جاتا ہے ۔ سوتے ہوئے ایک طرف دماغ کے عضلاتی پردوں میں تحریک سے خیالات کی تحریک بگڑتی ہے اور خصیوں کے عضلات پردوں میں دباؤ سے منی کا اخراج ہوتا ہے۔ اسے ہم احتلام کانام دیتے ہیں۔ایسے مریض علت اغلام ، کثرت مباشرت جیسے افعال سے آغاز جوانی میں اپنی منی خشک یا خراب کر دیتے ہیں۔دماغ کی صالح رطو بات بوجہ تحلیل فنا ہوتی رہتی ہیں ۔غدود ، خصیے تسکین کی وجہ سے اپن کام روک دیتے ہیںیا کم کر دیتے ہیں۔نتیجتاً منی کی مطلوبہ مقدار اورکوالٹی برقرار نہیں رہتی۔ جس بنا پر اس میں سپرم پیدا نہیں ہوتے بلکہ جو زندہ ہوں وہ بھی مر جاتے ہیں۔

3 ۔ غدی بانجھ پن اور جنسی علامات

افزائش نسل کیلئے نطفہSemen ، خصیوں Testicles میں تیا ر ہوتا ہے۔ خصیوں میں غدود چھوٹے چھوٹے اجزاء (لابیول ) میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ہر نطفے میں تین سو کے قریب لابیول پائے جاتے ہیں۔جن میں جرمینل ایپتھیلیم ہوتا ہے۔ان کے اندر سے باریک خمدار نالیاں (ٹیوبز) بن کر نکلتے ہیں۔ یہ خمدار نالیاں در اصل منی کی نالیاں ہیں ان میں منی خون سے علیحدہ ہوتی ہے۔خم اس لئے ہے کہ فاصلہ زیادہ ہو جائے اور منی ٹھر کر مطلوبہ حرارت جذب کر کے پختہ ہو جائے۔منی دو تھیلیوں جو تقریباً 5 سینٹی میٹر لمبی ہوتی ہیں ۔مثانے کے پیچھے پائی جاتی ہیں میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ٹیوبیولز میں پختگی کے بعد سپر م کی پیدائش ہوتی ہے۔جو منی کے ساتھ خارج ہوتے ہیں۔

سیمن SEMEN کے امراض

سیمن کے امرض جاننے سے پہلے مختصر طور پر جاننا ضروری ہے کہ یہ کہاں پیدا ہوتے ہیں ؟ یہ کتنی دیر میں جوان ہوتے ہیں؟ یہ محرک اور زندہ کس رطوبت میں رہتے ہیں؟ ان کی اقسام کتنی ہیں؟ ان کا مزاج کیا ہے ؟ ان کی مقدار کتنی ہے؟ اور یہ کتنے فیصد ہوں تو اپنا فعل سرا نجام دیتے ہیں؟ کرم منی بلوغت میں F.S.H اور ٹیسٹو سیٹران کے زیر اثر سیمنی فیرس ٹیوبزSemen Ferris Tubes کے خلیوں میں پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یعنی کرم منی Sperm ، خصتین میں تیار ہوتے ہیں۔جبکہ باقی رطوبات سیمنل وہیکل اور پیرا سٹیٹ میں بنتی ہیں اس لئے سیمنل وہیکل سے خارج ہونے والی لیسدار رطوبت کے اندر سپرم متحرک زندہ اور صحت مند رہتے ہیں ۔ اگر منی خارج نہ ہو تو سپر م کی شکل و حالت بن جاتی ہے۔سیمن میں خرابی ہونا پیچیدہ و خطر نا ک بیماری یا زندگی کے خطرے کی پہلی علامت ہو سکتی ہے۔جیسے Testes Cancer خصیوں کا کینسر۔

سپرم Sperm کیا ہیں؟
مردانہ پانچھ پن کی سب سے بڑی وجہ سپرم ہیں۔ جو خصیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور مردو عورت کے ملنے کے بعد یعنی Sexual Intercourse کے بعد مردانہ عضو تنا سل سے منی کے ساتھ خارج ہوتی ہے۔عورت کے رحم کی گردن میں پہنچ کر اولاد پیدا کرنے کا باعث بنتا ہیں۔سپرم کی پیدائش ان سپرم کی وجہ سے ہوتی ہے جو جسم میں Ductless Gland یعنی بے نالی غدودوں سے رطوبت بن کر خارج ہوتی ہے۔ہر بار بچے کی پیدائش کے لئے ضروری ہے کہ منی میں سپرم کی کوالٹی اور مقدار مناسب ہوبعض اوقات کسی بیماری کی وجہ سے منی میں سپرم موجود نہیں ہوتے یا بہت کم مقدار میں ہوتے ہیں جو مردانہ بانچھ پن کا باعث بنتے ہیں سپرم کی اقسام سپرم کی دو اقسام ہیں ۔

1>> X, 2>>Y

اگر Y انڈے Ovum سے پہلے ملے تو بیٹا پیدا ہوتا ہے Y الکائن پسند ہے۔
اگر X پہلے پہنچ کر انڈے سے ملے تو بیٹی پیدا ہوتی ہے۔
X معمولی تیزابیت پسند ہے۔ 1ml منی میں سپرم خارج ہوتے ہیں یعنی ایک دفعہ کے اخراج سے سپرم خارج ہوتے ہیں۔

Friday 6 June 2014

انار کا جوس

انار کا جوس
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انار کھاؤ اس کے اندرونی چھلکے سمیت کہ یہ معدے کو حیات نوعطا کرتا ہے“
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا۔” ایسا کوئی انار نہیں ہوتا کہ جس میں جنت کے اناروں کا دانا شامل نہ ہو۔“
اللہ تعالیٰ نے انار کو جنت کے میووں اور ان سہولتوں میں شمار کیا ہے۔ جو جنت میں میسر ہیں۔ سورة انعام کی آیت۹۹ میں انگور، زیتون اور انار کی باہمی مشابہت کا ذکر کر کے اس پر غور وفکر کی ہدایت دی ہے جبکہ سورة انعام کی آہت نمبر ۱۴۱ میں حقداروں کو یعنی جو یہ پھل خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں یہ پھل خرید کر کھلانے کی تاکید فرمائی ہے۔
اقتدار فاروقی ر قم طراز ہیں کہ انار کا ذکر (مان کے نام سے قرآن پاک میں تین مرتبہ آیا ہے اور تینوں بارانسان کو اہم نصیحتیں کی گئی ہیں۔ سورة رحمن کی آیت نمبر۷۹ میں ارشاد ربانی ہے۔” یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں ہر قسم کے پھل جیسے کہ کھجور اور انار موجود ہیں، تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کوجھٹلاؤ گے۔“
انار کا نباتاتی نام(Punica Quaranatum) ہے۔ مشہور سائنسدان ڈی کیڈوے ایران کو انار کا اصل وطن قرار دیتے ہیں۔ ایران سے انار افغانستان اور وہاں سے ہندوستان اور ہندوستان سے سیاحوں کی معرفت افریقہ پہنچا پھر بحیرہ روم کے ممالک میں اس کی کاشت شروع ہو گئی اس کے بعد امریکہ کے گرم علاقوں میں چلّی تک لگایا گیا۔ ہندوستان میں پٹنہ کے انار کو شہرت حاصل ہے۔ لیکن ایشیائی ممالک میں پاکستان اور افغانستان میں پائے جانے والے شیریں اور لذیذ انار کی مثال کہیں نہیں ملتی انار چیو نیکا خاندان کا پودا ہے۔ یہ سرخ اور سفید دورنگوں میں پیدا ہوتا ہے۔ چین اور کشمیر میں خودروانار بھی ہوتا ہے۔ سرد اور معتدل دونوں مقامات پر اس کی پیداوار ہو سکتی ہے۔ گہرائی اور چکنی زمین میں اس کی کاشت زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ اس کی پیداوار ستمبر میں ہوتی ہے۔ انار کے درخت کی اونچائی زیادہ سے زیادہ بیس فٹ ہوتی ہے اس کا تناپتلا اور گولائی میں تین سے چار فٹ کا ہوتا ہے انار کی کھال یا چھال کا رنگ پیلا یا گہرا بھورا ہوتا ہے۔ انار کی تین بڑی قسمیں نمبر ایک شیریں انار ، نمبر دو کھٹ مٹھا انار، تین، ترش انار، جدید تحقیق کے مطابق شیریں انار جراثیم کش ہوتے ہیں۔ اس لئے ٹی بی کے مریضوں کے لئے مفید ہوتے ہیں۔ آ ج کل انار کی اچھی اقسام ترکی، ایران، افغانستان، شام، مراکش اور اسپین میں پیدا کی جاتی ہیں۔ عام اناروں میں ناقابل خوراک حصے 27سے 49فیصد کے درمیان اورجوس 57فیصد سے 71فیصد کے درمیان پایا گیا ہے۔ ایک سو گرام انار میں کیمیاوی اجزا کاتناسب یہ ہے۔
پروٹین وہ فیصد، کاربوہائیڈریٹ 11.6فیصد، کیلوریز48فیصد، سوڈیم1.1فیصد، پوٹاشیم2.4،کیلثیم2.9فیصد، مینگنیشیم 3.1، فیٹس1.5فیصد، کوپر7فیصد، فاسفورس7.5فیصد، سلفر4.2فیصد اور کلورائیڈ52.5فیصد ہوتے ہیں۔
اس کیمیاوی تجزیے کی توضیح پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد غزنوی لکھتے ہیں” ان تجربوں سے دو اہم باتیں سامنے آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ نبی کریمﷺکی پسندیدہ غذاؤں اور دواؤں کے ایک خصوصی اصول کے مطابق اس میں سوڈیم کی مقدات بہت کم اور پوٹاشیم زیادہ ہے جس کا اہم فائدہ یہ ہے کہ دل اور گردوں کی بیماریوں میں انار بے کھٹکے دیا جا سکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس میں مٹھاس کی ایسی قسم موجود نہیں جو زیابیطس کے مریضوں کے لئے مضر ہو اس لئے شوگر کے مریض کھلے دل سے انار کا جوس پی سکتے ہیں۔ اس میں چکنائی نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے انار کھانے سے خون کی نالیوں کو نقصان ہو گا نہ کولیسٹرول میں اضافہ ہو گا اور یہ وزن کم کرنے کے لئے مفید ہے۔“
طبی افادیت
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا ”انار کھاؤ اس کے اندرونی چھلکے سمیت کہ یہ معدے کو حیات نوعطا کرتا ہے“
انار کے چھلکے میں کرم کش عنصر زیادہ مقدار میں ہونے کے باعث پیٹ کے کیڑوں کی تمام اقسام کے لئے موثر دو اکا کام کرتا ہے۔ بہت ممکن ہے اسی حکمت کے پیش نظر نبی کریم ﷺنے انار کے اندرونی چھلکے سمیت کھانے کی تاکید فرمائی ہے۔ یرقان کے مریض انار کے دانوں کا ایک چھٹانک رس لے کر لو ہے کے صاف بر تن میں رکھ دیں صبح تھوڑی سی مصری ملا کر پی لیں کچھ ہی دنوں میں یرقان ختم ہو جائے گا۔ غالباَ اسی پس منظر کی بنا پر طائف کے مشہور باغ” ہوا پا کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کے انار اور چشموں کا پانی دل کو طاقت دیتا ہے۔ مکہ معظمہ میں عرصہ دراز سے مقیم ایک فاضل ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے دل کے مریض جب طائف کا انار کھاتے ہیں تو ان میں بشاشت آجاتی ہے“۔اطبائے قدیم کے مطابق انار، دل اور جگر کے لئے قوت بخش ہے۔ پرانی کھانسی، یرقان اور سینے کے درد کے لئے مفید ہے۔ پیٹ کی سوزش اور بھوک کی کمی کے لئے یہ نسختہ اکسیر ہے۔
انار کا سواسیر پانی تھوڑی دیر رکھیں تو کچھ بھاری اجزا نیچے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کو چھان کر نکال دیں اس کے بعد اس میں ایک پاؤ کھانڈ اور ایک تولہ سونف پیس کر ملا لیں اور بوتل میں ڈال دیں پھر اس کو دھوپ میں رکھیں یہ بوتل لبالب بھری ہوئی نہ ہو، ایک چوتھائی خالی ہو۔ ایک ہفتہ یوں ہی پڑے رہنے دیں اور ہلاتے رہیں۔ اس سیال کے تین سے نوتولے روزانہ کھانے سے افاقہ ہو گا۔ وید کے مطابق ” انار کا پانی صفرزائل کرتا ہے، دل او رجگر کو طاقت دیتا ہے، بھوک بڑھاتا ہے، مقوی ہے اور بلغم کو ختم کرتا ہے“۔
میٹھا انار معدے اور اس میں موجود اشیاء کے لئے بے حد مفید ہے۔ حلق کے ورم، پھیپھڑوں کی سوزش میں اکسیر ہے۔ اس کا عرق پیٹ کو نرم کرتا ہے۔ شیریں انار کے پھولوں کو کوٹ کر کپڑے میں رکھ کر نچوڑ لیں اور رس نکال لیں۔ اسی مقدار میں مصری ملا لیں۔ ٹھنڈا ہونے پر شربت شیشی میں نکال کر رکھ دیں۔ چھ ماشے سے مریض کو دینا شروع کر یں اور دو تولہ تک دیں۔ یہ دواچٹائی بھی جا سکتی ہے۔ اور پانی یا دودھ لسی کے ساتھ پی بھی جا سکتی ہے۔ ٹی بی کے علاوہ دل کی بیماری میں بھی یہ نسخہ بے حد مفید ہے۔ انار کے چاشنی دار رس سے بدن کو غذائیت ملتی ہے۔ وہ مریض جنہیں کسی بھی سبب غذا نہیں دی جا سکتی ، ان کی توانائی برقرار رکھنے کے لئے صحت بخش غذا کے طور پر انار کا جوس دیا جاتا ہے۔ بھارتی ماہرین کے نزدیک بچوں کے سوکھا اور آنتوں کی دق میں انار کا جوشاندہ مفید ہے۔ بنگال کے اطباء انار کے جوس میں لونگ، ادرک اور مازو ملا کر بواسیر کے مریضوں کو دیتے ہیں۔ملیر یا اور پرانے بخاروں میں جب مریض کو کمزوری کے ساتھ ہر وقت پیاس لگتی ہے توانا رکا جوس بہترین علاج ہے۔
بخار کی حالت میں چھلکے سمیت انار کا جوس شہد میں ملا کر نہار منہ پینا بے حد مفید ہے۔ اس کے علاوہ یہ جوس پیٹ کی تمام خرابیوں کو دور کرتا ہے۔ دائمی بخار کے مریض کے لئے انار کا جوس اکسیر ہے۔ منہ کے اندر کی خشکی اور باربارپیاس لگنے کی شکایت انار کا جوس پینے سے دور ہوتی ہے۔ ملیر یا بخار میں انار کا جوس مفید ہے۔ بواسیر کے مریض کو ادرک اور لونگ باریک پیس کر انار کے جوس ملا کر پلانے سے مرض سے نجات مل جاتی ہے۔
ہضم کی درستگی کے لئے انار کا دانا پانچ تولے، سونٹھ، سفید زیرہ ، سیاہ نمک ایک ایک تولہ لے کر کوٹ کر سفوف بنا کر دوپہر اور رات کو کھانے کے بعد چھ، چھ ماشے استعمال کر یں۔
بطور میوہ انار بکثرت استعمال ہوتا ہے۔کیونکہ اس سے لطیف خون پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے گرم مزاجوں کے لئے انار کا استعمال بے حد مفید ہے۔ یہاں کے جگر اور قلب کے لئے تقویت کا باعث بنتا ہے۔ طب یونانی میں شربت انار، جوارش انارین اور جوارش پو دینہ نامی مشہورمرکبات مدتوں سے استعمال ہو رہے ہیں۔ انار کے پتوں کو خشک کر کے پیس کر اس سفوف کو منجن کے طور پر استعمال کرنے سے دانت مضبوط اور صاف ہوتے ہیں۔
انار دانہ ایک تولہ، سفید زیرہ ، چھ ماشہ، پو دینہ چھ ماشہ، املی چھ ماشہ، سیاہ مرچ تین ماشہ، نمک اور سرکہ حسب ذائقہ لے کر پہلے تمام اجزاء کو سر کے میں ملائیں اور سل بٹے پر باریک پیس لیں۔ یہ چٹنی سانس کے مریضوں کے لئے مفید ہے۔ انار کا پانی چھلکوں سمیت نکال کر مرہم کی طرح گاڑھا کر کے آنکھوں میں بالائی کے ساتھ لگایا جائے آنکھ سے سرخی کاٹ دیتا ہے۔ یہی مرہم مسوڑھوں پر لیپ کرنے سے پائیریا کے لئے فائدہ مند ہے۔
جلد سے بار بار خون نکلنے کی صورت میں انار کے دانے بہت مفید ہیں۔ انار کے پتوں کا پانی ناک میں ڈالنے سے نکسیر بند ہو جاتی ہے۔ کھانا کھانے کے فورا بعد انار استعمال کر نا چاہیے۔ انار کھانے کے دوران تمبا کونوشی سے گریز کر یں کیونکہ انتڑیوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس سے اپنڈ کس ہو سکتا ہے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد انار کے دانے پر نمک اور سیاہ مرچ چھڑک کر اس کا رس چوسنے سے کھانا ہضم ہو جائے گا کھٹا انار سرد مزاج لوگوں کو سردی کے موسم میں نہیں کھانا چاہیے۔
زیبائش حسن
موٹاپا کم کرنے کے لئے خواتین انار کا جوس پی کر اسمارٹ بن سکتی ہیں۔ انار کا رس پینے سے چہرے کی رنگت سرخ گلاب کے مانند ہو جاتی ہے اور جسمانی اعضاء میں بھی توانائی آجاتی ہے۔