Friday 31 October 2014

گاجر ۔ ایک بہترین سبزی


گاجر ۔ ایک بہترین سبزی
آلو کے بعد گاجر دنیا کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی سبزی ہے۔چین کا مقام گاجر اگانے والے ممالک میں سب سے اوپر ہے۔ سال 2004 میں دنیا کی تمام پیداوار کی 35 فیصد گاجر صرف چین میں اگائی گئی روس کا مقام بالترتیب دوسری اور امریکہ کا تیسرا رہا۔پاکستان میں پائی جانے والی عام ترکاری ی اور پھل ہےگاجرایک سستی اور مقبول سبزی ہے بعض لوگ اس کا شمار پھلوں میں بھی کرتے ہیں شائد اسی لئے اس کو غریبوں کا سیب بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں متوازن کھانے کے بہت سے عناصر پائے جاتے ہیں۔آج کل گاجر پیلے ،سرخ، بینگنی، اورینج اور سیاہ رنگ میں ملتی ہے لیکن پاکستان میں سب سے زیادہ گاجر سرخ رنگ کی ہی ہوتی ہے۔
ایشیا کے لوگوں نے تقریبا سب سے پہلے گاجر کی کاشت شروع کی اور وہیں سے یہ دنیا کے دیگر ممالک میں پہنچی ماہرین کی رائے ہے کہ گاجر کا اصل پیدائش سائٹ افغانستان، پنجاب اور کشمیر کی پہاڑیاں ہیں، جہاں آج بھی اس کی جنگلی اقسام پائی جاتی ہیں پہلے گاجر اپنی خوشبودار پتیوں اور بیجوں کی وجہ سے بڑی ہ مقبول تھی جن کا استعمال ادویات میں ہوتا تھا لیکن بعد میں اسے ایک سبزی کے طور پر بھی استعمال کیا جانے لگادسویں صدی تک یورپ میں لوگ گاجر کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔لیکن جب ایشیائی مسافروں نے یورپ کی طرف جانا شروع کیا تو یورپ نے بھی گاجر کے متعلق جان لیا اور اس کی کاشت اور استعمال شروع کردیا۔ یونانی ڈاکٹروں نے گاجر کی پتیوں کو کینسر کے علاج میں استعمال کرنے کے ذکر کیا ہے۔
پھل کی طرح کچی بھی کھائی جاتی ہے دیگر ترکاریاں کے ساتھ بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے اسے پکا کر سالن بھی بنایا جاتا ہے، گاجر کی کھیر اور گاجر کا حلوہ بھی کم دلچسپ نہیں ہوتے گاجر کا رس بہت مفید ہوتا ہے اس سے کیک، اچار، سوپ، جام، چٹنی، رائتہ وغیرہ بھی بنایا جاتا ہے۔خشک کی گئی گاجر جرمنی میں بہت مقبول ہے گاجر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر سکھا لئے جاتے ہیں پھر اسے دودھ اور چینی کے ساتھ ابال كر کافی بنا لی جاتی ہے جومزےداراور متناسب رہتی ہے فرانس کی خواتین گاجر کوسامان حسن کے کام لاتی تھیں کہا جاتا ہے کہ قدیم دور میں اسے صرف منشیات کے لیے اگایا جاتا تھا بطور غذا اس کا استعمال بہت بعد میں شروع ہوا۔
تقریبا 100 گرام گاجر میں پانی - 90.8 ملی لیٹر، پروٹین - 0.6 گرام، چکنائی - 0.3 گرام، معدنی نمک - 1.2 گرام، کاربوہائیڈریٹ - 6.8 گرام. ریشا - 0.6 گرام، کیلوری - 32 گرام، کیلشیم - 50 ملی گرام، سوڈیم - 63.5 ملیگرام، پوٹاشیم - 10.0 ملیگرام، تانبہ - 0.07 ملی گرام، سلكن - 2.5 ملی گرام، وٹامن اے (بین الاقوامی یونٹ) - 3150، تھايومن - 0.07 ملی گرام، ربوپھلیون - 0.02 ملی گرام، ناسن - 0.5 ملی گرام، وٹامن سی - 17 ملی گرام پایا جاتا ہے. ایک پیالی کٹی ہوئی کچی گاجر میں تقریبا 52 كیلریز ہوتی ہیں تین گاجروں سے ہمیں اتنی طاقت مل جاتی ہے جتنی ہمیں تین میل چلنے کے لئے ضروری ہوتی ہے گاجر میں كیلشيم کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے 9 گاجرو ں سے ہمیں اتنی كیلشيم حاصل ہو جاتی ہے جتنی ایک گلاس دودھ سےاوسط سائز کی 20 گاجرو ں سے ہمیں 10 ملی گرام وٹامن اے ملتا ہے۔
گاجر میں وٹامن اے زیادہ ہونے سے یہ آنکھوں کی کمزوری دور کرتی ہے آنکھ کی بینائی بڑھاتی ہے. گاجر میں وٹامن كامپلیكس ہوتا ہے، جو نظام انہضام کے عمل کو مضبوط بناتا ہے اس سے بھوک لگتی ہے اور منہ کی بدبو دور ہوتی ہے۔کھاناہضم نہ ہونا، پیٹ میں گیس، زخم وغیرہ یہ دور کرکے دست لاتی ہے۔ گاجر خون پاک کرکے، پیٹ ٹھیک رکھ کر کئی بیماریوں سے بچاتی ہے یہ معدہ کے السر کے لئے بھی مفید ہوتی ہے کچی گاجر کھانے سے قبض دور ہوتی ہے پیشاب صاف آتا ہے. کچی گاجر چبانے یا اس کا رس پینے سے بواسیر کے مریضوں کو آرام ملتا ہے بچوں کو باقاعدگی سے گاجر کا رس پلانا بہتر نشوونما کی ضمانت ہے۔ گاجر جگر کو طاقت دیتی ہے جگر کے مریض کو گاجر کا باقاعدہ استعمال کرنا چاہئے گاجر کا رس پ یرقان میں مفید رہتا ہے گاجر کا رس روزانہ پینے سے مسوڑھے اور دانتوں کے امراض میں فائدہ ہوتا ہے۔ گاجر رحم سے آلودہ مادہ نکالنے میں معاون ہے اسقاط حمل کے بعد گاجر کا رس پینے سے بچہ دانی کے آلودہ مادہ نکل جاتے ہیں روز صبح بادام کھا کر، ایک کپ گاجر کا رس پینے سے جسم میں خون کی اضافہ ہوتا ہے اور دماغ کو تقویت ملتی ہے یادداشت تیز ہوتی ہے۔ گاجر کے رس میں شہد ملا کر پینے سے سینے کا درد دور ہوتا ہےگاجر کے رس میں مشری اور کالی مرچ ملا کر استعمال کرنے سے کھانسی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ جن خواتین کو زچگی کے بعد دودھ کم آتا ہو انہیں گاجر اور گاجر کا رس زیادہ استعمال کرنا چاہئے اس سے ان کے دودھ کی مقدار میں اضافہ ہو جائے گا۔

Tuesday 28 October 2014

وٹامنس اور ہماری صحت

وٹامنس اور ہماری صحت
وٹامن بی:
وٹامن بی کی تمام اقسام عام طور پر دودھ ، انڈوں ، مغز ، دل کلیجی ، گردوں ، خمیری روٹی ، اناج ، دال ٹماٹر اور پتے والی سبزیوں میں ہوتی ہیں۔
بچوں اور بڑوں دونوں کے لئے یہ وٹامن بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر بچوں میں اس وٹامن کی کمی سے ان کی نشوونما پر اثر پڑتا ہے۔ ہڈیوں کی صحت کے لئے بچوں پر ڈاکٹر کی مدد سے نظر رکھنی چاہئے۔ جلد مسوڑھوں اور عام صحت کے لئے بھی یہ وٹامن ضروری ہے۔
وٹامن سی:
اس وٹامن سی بہت بڑی مقدار میں آملہ میں ہوتی ہے ، جبکہ پھلوں میں خاص طور پر سنگترے ، مالٹے ، اور لیموں میں پائی جاتی ہے۔
وٹامن ڈی :
اس وٹامن کی کمی سب سے زیادہ ان ایشیائی لوگوں میں ہوتی ہے جو سورج کی روشنی کی کمی والے ممالک میں رہتے ہیں۔ انسانی جلد کے ذریعہ سورج کی روشنی سے خود بخود بن جاتی ہے۔ اس کی کمی سے ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں اور جسم کے کیلشیم کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ تھکن اور ہڈیوں کا درد اس وٹامن کی کمی کی نشانی ہے۔
وٹامن ای :
مچھلی ، انڈے ، دودھ اور مکھن میں بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے۔ یہ ایک بہت ضروری وٹامن ہے۔ یہ تیل ، بادام ، انڈے کی زردی اور خشک میوؤں میں پایا جاتا ہے ۔ اس کی کمی قوت تولید میں کمی کا باعث بنتی ہے ۔ اگر حاملہ ماں کی خوراک صحیح نہ ہوتو بچے خون کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وٹامن ای کینسر سے بھی بچاتا ہے اور اینٹی آکسی ڈینٹ کہلاتا ہے۔ وٹامن ای اناج ، سبزیوں میں پائی جاتی ہے۔
وٹامن کے:
اگر محسوس ہوکہ کسی بچے یا بڑی عمر کے فرد کو ، گلے یا ناک سے بار بار خون آئے تو وٹامن "کے" کا چیک کروانا ضروری ہوتا ہے۔
وٹامن "کے" پتے والی سبزیوں ، مثلا پالک ، ساگ ، گوبھی ، بند گوبھی وغیرہ میں ہوتا ہے اور خون کو پتلا ہوکر بہنے سے روکتا ہے۔

Sunday 26 October 2014

لوبلڈپریشر، وجوہات ،علائم ، علاج اور احتیاطی تدابیر


لوبلڈپریشر، وجوہات ،علائم ، علاج اور احتیاطی تدابیر

بلڈ پریشر، فشارِ خون یا خون کا دبائو ، انسانی جسم میں خون کی نالیوں (شریانوں )میں وہ ''پریشر'' ہے جس سے خون پورے جسم میں دورہ کرتاہے۔ یہ ملی میٹر مرکری میں ناپا جاتاہے اور دو نمبروں میں لکھاجاتاہے۔

بالائی دبائوسیسٹولک(Systolic) پریشر(جب دل کی دھڑکن شروع ہوتی ہے) اور پائنی دبائو ڈائسٹولک (Diastolic) پریشر (جب دھڑکنوں کے درمیان دل Relax کرتاہے۔ دونوں نمبرات اہمیت کے حامل ہیں ۔ ایک بالغ فرد میں نارمل بلڈ پریشر 120/80ملی میٹر مرکری اس سے ذرا کم ہوتاہے جب کہ 140/90ملی میٹر مرکری سے زیادہ ہائی بلڈ پریشر (ہائپر ٹینشن)سمجھاجاتا ہے۔ لوبلڈپریشر کو ڈاکٹری اصطلاح میں ہائپوٹینشن (Hypotension)(ہائپو کم ٹینشن دبائو)کہاجاتاہے۔ ہائی بلڈ پریشر ایک خاموش قاتل ہے اگر کنٹرول نہ کیا جائے تو مختلف قسم کی پیچیدگیوں کا باعث بنتاہے۔لوبلڈ پریشر گرچہ خاموش قاتل نہیں ہے مگر پھر بھی اکثر مریض کے لئے ایک پریشان کن مسئلہ ہے۔ بعض مریضوں میں طویل مدت تک لو بلڈ پریشر کچھ پیچیدگیوں کو دعوت دے سکتاہے ، جب کوئی فرد ''لو بلڈپریشر'' میں مبتلا ہوتاہے تو اس کے جسم کے خون کی نالیوں (شریانوں )یا پورے نظامِ دوران خون میں بڑی سست رفتاری سے خون گردش کرتاہے جس سے جسم کے مخصوص اورحساس اعضائ (دماغ ،دل ،پھیپھڑوں ،گردوں ،جگر)کو خون کی کمی اور پھر آکسیجن کی کمی کا سامنا کرناپڑتاہے جس سے اْن کی کارکردگی پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔



سوال یہ ہے کہ لو بلڈپریشر کیاہے ؟ یعنی کس نمبر پر ہم کہہ سکتے ہیں کوئی فرد لوبلڈپریشر کا مریض ہے۔ اس سوال کا جواب متضادہے کیونکہ بعض افراد کا بلڈ پریشر بہت کم ہوتاہے لیکن وہ بے خبر ہوتے ہیں یعنی ان کی ''صحت '' پر کوئی اثر نہیں پڑتاہے۔ ہمارے ہاں بہت لوگوں (خاص کر عورتوں )کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان کا ''پریشرکم رہتاہے ''۔ اکثر عورتیں ڈاکٹروں کے سامنے کہتی ہیں میرا پریشر کم رہتاہے۔مجھے پریشر ہی نہیں ہوتا…ہمارے سماج میں لوبلڈ پریشر عورتوں کے لئے ایک پریشان کن مسئلہ ہے۔ مرد حضرات اس کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں انہیں ہائی بلڈ پریشر کی فکر لاحق رہتی ہے۔

لوبلڈ پریشر کے لئے کوئی نمبر مخصوص یا مقرر شدہ نہیں ہے۔بسا اوقات مریض کا بلڈ پریشر 80/50ملی میٹر مرکری ہوتب بھی اسے کسی ناراحتی کا احساس نہیں ہوتاہے لیکن یہی نمبرات دوسرے مریض کے لئے بے ہوشی کا سبب بن سکتے ہیں ۔ محققین کی رائے ہے کہ دنیا میں اکثر لوگوں کا نارمل بلڈ پریشر 90/60ملی میٹر مرکری سے 130/80ملی میٹر مرکری کے درمیان ہوتاہے اور جن افراد میں 20یا 30ملی میٹر مرکری پریشر گرجاتاہے ان کو کچھ مسائل یا پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

لو بلڈ پریشر کی تین قسمیں ہوتی ہیں :

lـاورتھوسٹیک (Orthostatic) لوبلڈپریشر یعنی کچھ ساعت کے لئے بیٹھے یالیٹے رہنے کے بعد اچانک کھڑا ہوجانے سے خون کا دبائو کم ہوجاتاہے۔ اس قسم کا لوبلڈ پریشر کچھ منٹوں تک رہتاہے اور پھر خود بخود نارمل ہوجاتاہے۔

lـغذا (خاص کر پْرخوری) کے بعد خون کا دبائو کم ہوتاہے اسے ڈاکٹری اصطلاح میں پوسٹ پرانڈئیل ہائپوٹینشن (Post Prandial Hypotension)کہتے ہیں یعنی غذا لینے کے بعد خون کا دبائو کا کم ہونا۔ اس قسم کے لو بلڈ پریشر کی شرح عمر رسیدہ افراد میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ان مریضوں میں بھی اس کی شرح کچھ زیادہ ہوتی ہے جو ہائی بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لئے ''ضد فشارِخون'' ادویات استعمال کرتے ہوں یا پھر کسی اعصابی مرض مثلاً پارکنسن بیماری (Parkinson's Disease ) میں مبتلا ہوں ۔



lـاعصابی لوبلڈ پریشر جو نظام اعصاب (Nervous System) سے وابستہ ہے۔ اس قسم کا لوبلڈ پریشر نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں یا کمسن بچوں کو اپنی گرفت میں لیتاہے۔ اس قسم کا مسئلہ اْس وقت درپیش ا?تاہے، جب کوئی نوجوان لڑکا یا لڑکی یا سکولی بچہ بہت دیر تک کسی مخصوص کام(کلاس روم میں ،لیبارٹری میں یا کسی گھر کے کام کے لئے یا پھر ''سزا''بھگتنے کے لئے بہت دیر تک کھڑا رہے۔ اسے اچانک چکر سا محسوس ہونے کے بعد اْبکائی اور پھر اْلٹی ا?تی ہے اور اسے پیٹ میں درد(بدہضمی)کی شکایت محسوس ہوتی ہے او ر وہ اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھتا ہے /بیٹھتی ہے۔ ایسے نوجوان لڑکے لڑکیاں غذاکی طرف بہت کم توجہ دیتے /دیتی ہیں اور پانی یا دیگر مائع جات بہت کم مقدار میں استعمال کرتے/کرتی ہیں ۔

lـجسم سے اچانک کسی وجہ سے کافی مقدار میں خون،پانی یا نمکیات ضائع ہوں (جیساکہ حادثات میں ہوتاہے)تو خون کا دبائو اچانک اتنا کم ہوجاتاہے کہ مریض کو ہسپتال میں بستری کرنا پڑتاہے۔ مریض حالت بے ہوشی میں ہوتاہے۔ اس حالت کو ڈاکٹر ی اصطلاح میں شاک (Shock) کہاجاتاہے اوراس کا علاج ماہرمعالج کی نگرانی میں صرف کسی ہسپتال میں ہوناچاہئے ورنہ مریض کی جان جاسکتی ہے۔ اس حالت میں خون کا دبائو اس حدتک گرجاتاہے کہ جسم کے سبھی اعضائ کے خلیات ا?کسیجن کے لئے ترستے ہیں (جیسے کہ ایک سچاعاشق معشوق کے دیدارکے لئے ترستاہے) اورتازہ ا?کسیجن کی کمی سے دماغ، دل ،گردوں ، جگر پھیپھڑوں ، ا?نکھوں اوردوسرے اعضائ پر انتہائی مضر اثرات پڑتے ہیں او راپنا کام اچھی طرح انجام نہیں دے سکتے ہیں اس لئے اس قسم کا لوبلڈ پریشر جان لیوا بھی ثابت ہوسکتاہے۔

وجوہات:

لوبلڈ پریشرکی وجوہات درج ذیل ہیں :

ادویات جوقبل ازیا دورانِ جراحی استعمال کی جاتی ہیں ۔

پریشانی ،ذہنی دبائو (ٹینشن) کے لئے استعمال کی جانے والی ادویات۔

ادرارا?وردوائیاں (جن دوائیوں کے استعمال سے بار بار پیشاب پھیرنے کی حاجت محسوس ہو)۔

ہائی بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لئے استعمال کی جانے والی دوائیاں ۔

کچھ مخصوص ضدڈپریشن ادویات

ضد درد ادویات (پین کلرز)

نشہ ا?ورادویات کی لت۔

شراب نوشی۔

نابیدگی (بدن میں کسی وجہ سے پانی کی کمی)۔

ناکامی دل (ہارٹ فیلیئر)

ہارٹ اٹیک۔

دل کی دھڑکوں میں بے اعتدالی

کسی انجکشن کے بعد الرجی (Reaction)

کسی جانور یا حشرہ کے کاٹنے سے اچانک حساسیت (الرجی)شروع ہونے سے۔

شاک (Shock) جسم سے اچانک بہت زیادہ مقدار میں خون، پانی او رنمکیات کا ضائع ہونا۔(جیسے کہ سڑک پر حادثہ ، گولی لینے سے ،شدید دست ، بار بار اْلٹیاں )۔

جسم کا تیس فیصد حصہ ا?گ میں جلنے سے۔

شدید عفونت (انفکشن)۔

خونریزی ? دماغ (برین ہمریج)

جسم پر بہت سارے زخم لگنا۔

کوئی خاص ناقابل برداشت روحانی صدمہ۔



علامات:

جب بلڈپریشر بہت ہی کم ہو تو اکثر مریض درج ذیل علامات محسوس کرتے ہیں :۔

سردرد۔

بے حد جسمانی وذہنی کمزوری۔

ا?نکھوں کے سامنے اندھیرا چھاجانا۔

اضطراب ، بے چینی ، بے قراری ، تضاد (کنفیوڑن)۔

کانوں میں شورسابپا ہونا۔

سرکا بالکل خالی خالی لگنا۔

خمار،عالم خواب جیسا طاری ہونا۔

بہت زیادہ کمزوری کا احساس۔

ہاتھوں پیروں کا سْن ہوجانا۔

بے ہوشی۔

کسی وقت خون کا دبائو اچانک بہت ہی کم ہونے سے مریض پر بے ہوشی کا دورہ پڑسکتاہے اور اسے کوئی حادثہ پیش ا?سکتاہے (خاص کر عمررسیدہ افراد میں کوئی ہڈی ٹوٹ سکتی ہے)اور اس طرح ان کی زندگی کا رْخ ہی بدل سکتاہے اس لئے عمر رسیدہ بزرگوں کو بلڈ پریشر چیک کرواناچاہئے۔



طبی معائنہ او رجانچ :۔

اگرا?پ کا بلڈ پریشر نارمل سے کم رہتاہے تو کسی ماہر معالج سے مشورہ کریں ۔ڈاکٹر ا?پ کا طبّی معائنہ کرے گا اور وہ نشانیاں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرے گا جو خون کا دبائو بہت ہی کم ہونے کی وجہ سے ظاہر ہوسکتی ہیں ۔وہ ا?پ کا ''معائنہ عمومی'' کرے گا اور اس کے علاوہ نبض کی رفتار، درجہ حرارت ،شمارِ تنفس اور بلڈپریشر چیک کرے گا۔

ڈاکٹرآپ سے درج ذیل سوالات پوچھے گا :۔

ا?پ کانارمل بلڈپریشر کیا ہے ؟

ا?پ کون کون سی دوائیاں لے رہے ہیں ؟

کیا ا?پ کی بھوک نارمل ہے ؟

کیا ا?پ اچھی طرح ،مناسب ومقررہ مقدار میں ہر قسم کی غذا کھاتے ہیں ۔

آپ دن میں کتنا پانی (اور دیگر مشروبات )پیتے ہیں ؟

کیا گزشتہ ایام میں آپ کسی بیماری میں مبتلاتھے ؟

حالیہ ایام میں کوئی حادثہ تو پیش نہیں آیا ؟

کیا آپ اپنے آپ میں کسی قسم کا بدلائو محسوس کرتے ہیں ؟

کہیں ا?پ کو کوئی ''خاص صدمہ'' تو نہیں ''پہنچاہے''؟

کیا آپ جسمانی اور ذہنی کمزوری محسوس کرتے ہیں ؟

کیا ا?پ کچھ اور قسم کی علامات (سرد رد،چکر،اْبکائی ، ا?نکھوں کے سامنے اندھیرا ، کانوں میں شور ، دل کی دھڑکنوں میں بے اعتدالی وغیرہ) محسوس کرتے ہیں ۔

کیا بہت دیر تک بیٹھے رہنے یا لیٹنے کے بعد کھڑا ہوتے وقت ا?پ کے سر میں اچانک درد ہوتاہے اورخالی خالی سالگتاہے اور ا?نکھوں کے سامنے تاریکی سی چھاجاتی ہے ؟



احتیاطی تدابیر:۔

لوبلڈ پریشر صرف اس وقت ایک ایمرجنسی ہے جب کسی حادثہ کی وجہ سے جسم سے بہت زیادہ مقدار میں خون ضائع ہویا پے درپے دست وقے سے جسم سے وافر مقدار میں پانی ضائع ہو۔ایسی صورتحال میں کسی ہیلتھ سینٹر یا ہسپتال کارْخ کرناضروری ہے۔اگرآپ کا بلڈپریشر کم رہتاہو (مثلاً 70/40 ملی میٹر مرکری)اور آپ کسی قسم کی ناراحتی محسوس نہیں کرتے ہوں تو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اکثر افراد بلڈپریشر کم ہونے کی صورت میں فوری کسی ''لوکل میڈیکل شاپ '' کے پاس جاکر گلوکوزکی بوتلیں ''چڑھاتے '' ہیں ۔کسی غیر سند یافتہ نیم حکیم یا دوافروش کی دکان پر جاکر ''گلوکوزچڑھانا'' غیر سائنسی ،غیر اخلاقی ، غیر قانونی او رجہالت کی حد ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک گناہ ہے کیونکہ مریض اپنے ا?پ پر ظلم کرتاہے۔ لوبلڈ پریشر کا علاج صرف یہ ہے کہ اس کی بنیادی وجہ تلاش کی جائے اور اس وجہ کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

اگرا?پ کابلڈ پریشرنارمل سے کم رہتاہے تو درج ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کی بھر پور کوشش کریں ۔

دن میں دس گلاس پانی پینے کی عادت ڈالیں ۔

دن میں کم مقدار میں چھ بار غذاکھایا کریں (اپنا معدہ چارگھنٹے سے زیادہ خالی نہ رکھیں )۔

اپنی غذا میں تازہ سبزیاں ، تازہ اور خشک میوہ جات شامل کریں ۔

شراب نوشی سے مکمل پرہیز کریں ۔

غذا کھانے کے بعد ایک دم کھڑا نہ ہوجائیں ۔

دیر تک بیٹھنے یالیٹے رہنے کے بعد دھیرے دھیرے کھڑا ہوجائیں ۔

ٹانگوں میں مخصوص جرابیں لگائیں ۔ (کسی ماہرمعالج سے مشورہ کے بعد )۔

ایک ہی جگہ بہت دیر تک کھڑا رہنے سے گریز کریں ۔ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اِدھراْدھر حرکت کریں اور بیچ بیچ میں چند منٹوں کے لئے بیٹھ جائیں ۔

جب علامات ظاہرہوں او را?پ کو لگے کہ ان کی شدت میں اضافہ ہوجاتاہے تو کسی ماہر معالج سے مشورہ کریں ،تب تک پانی اور دیگر مشروبات کا استعمال جاری رکھیں …یاد رکھیں لوبلڈپریشر کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ کسی مخصوص بیماری کی ایک علامت ہے۔

اگر ا?پ کا بلڈ پریشر اکثر کم رہتاہے تو درج ذیل علامات ظاہرہونے کی صورت میں فوری طور کسی ماہر معالج، نرسنگ ہوم یا ہسپتال کا رْخ کریں ۔

سرچکرانا،سرمیں شدید درد ، سرکا خالی خالی سا لگنا۔

کانوں میں شور سنائی دینا۔

بلیک موشن (فضلہ کا رنگ سیاہ ہو)۔

چھاتی (خاص کر وسط میں )درد۔

سانس پھولنے لگے، دَم گھٹنے لگے۔

1010F سے زیادہ بخارہو۔

کھانسی اور بلغم (خاص کر زردیا سرخی مائل ہو)

کھانسی کے ساتھ خون کی آمیزش۔

مسلسل دست وقے۔

پیشاب کا بار بار اور رْک رْک کر آنا۔

پیشاب پھیرتے وقت سوزش ،پیشاب کا رنگ سرخ ہو۔

بے ہوشی کا دورہ پڑے۔

معدے کا زبردست علاج

معدے کا زبردست علاج
سفوف ہاضم
اجزا :
دھنیا ( 1 تولہ ) تخم الائچی خورد ( 1 تولہ ) تخم الائچی کلاں ( 1 تولہ ) سونف ( 1 تولہ ) پودینہ ( 1 تولہ ) اجوائن ( 1 تولہ ) پپیتہ خشک شدہ ’تازہ پپیتہ لے کر چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیں اور دھوپ میں خشک کر لیں ( 5 تولہ ) فلفل دراز ( 6 ماشہ) ست لیموں ولایئتی "فرانس" (6 ماشہ)
زیرہ سفید ( 6ماشہ) امچور (6 ماشہ)
تمام اشیا کو اچھی طرح صاف کر کے پیس لیں ( اگر قبض رہتی ہو تو موٹا پیسیں اور اگر نا رہتی ہو تو باریک پیسیں )
خوراک: 1 سے 2 گرام ( یا چھوٹا چائے کا چمچ آدھا کھانا کھانے کے بعد استعمال کر لیں )، 2 ماہ کھائیں اور اس کے بعد جب کبھی ضرورت محسوس ہو تو استعمال کر سکتے ہیں۔
پرہیز: تمام تلی ہوئی چیزیں ، بازاری، معدہ میں بوجھ ڈالنے والی اور زیادہ گھی سے پرہیز فرمائیں۔

عورتوں میں دودھ کی کمی کا مسئلہ


عورتوں میں دودھ کی کمی کا مسئلہ

بعض عورتوں میں بچوں کی پیدائش کے بعد دودھ کم آتا ہے یا بالکل نہیں آتا۔ اس مسئلے کے حل کے لئے نسخہ پیش خدمت ہے۔


ھوالشافی

تودری سرخ، تودری سفید، خشخاش سفید، بادام شیریں، مغزچلغوزہ، مغز چرونجی، مغز پنبہ دانہ، مغز فندق، مغز حبۃ الحضر 5 تولہ ہر ایک۔

تیاری: تمام اجزا کو باریک پیس لیں اور گائے کے گھی میں چرب کرلیں۔ تمام دواؤں کے وزن کا تین گنا چینی کا قوام تیار کریں اور اجزاء کو اس میں مکس کرلیں۔

مقدار خوراک: ایک تولہ دن میں تین مرتبہ دودھ کے ساتھ۔

فوائد: صحت بہترکرتی ہے۔ رنگت نکھارتی ہے۔ جسمانی کمزوری کو دور کرتے ہوئے دودھ کی افزائش کرتی ہے۔ بے ضرر اور لاجواب چیز ہے۔
 

مالٹا کے چھلکوں سے شفاءیابی

مالٹا کے چھلکوں سے شفاءیابی
موسم سرما کے تمام پھل لوگوں کے ہاں مرغوب ہوتے ہیں۔ اس موسم کے پھلوں میں سے ایک اہم پھل مالٹا ہے۔ اس پھل کے چھلکے‘ بیج اور درخت پتے معالجاتی طور پر استعمال ہوتے ہیں جب کہ اس کا جوس نکال کر لوگ عام طور پر لذت کام و دہن کیلئے پیتے ہیں اور پھل بھی چھیل کر کھاتے ہیں۔
مالٹا کے پھل کے جوس میں بہت غذائی مواد پایا جاتا ہے۔ فرکٹوز‘ گلوکوز اور دوسرے کئی سکری مواد سے یہ پھل مالامال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں کئی دوسرے نمکیاتی مواد بھی اس میں موجود ہوتے ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مالٹے میں موجود ترش رس جسم کے اندر تیزابیت اور محرفت کو بڑھا دیتے ہیں لہٰذا زیادہ مقدار میں مالٹے نہیں کھانے چاہئیں۔ ان لوگوں کا یہ خیال غلط اور غیرصحیح ہے کیونکہ مالٹے کا جوس اور پانی تو جسمانی تیزابیت کا خاتمہ کرتا ہے۔
مالٹا کے جوس میں بہت سے مفید وٹامنز بھی پائے جاتے ہیں مثلاًاس میں وٹامن سی ہوتا ہے جس میں بہت سے امراض کے خلاف مدافعت کی طاقت ہوتی ہے۔ مسوڑھوں سے خون نکلنے کو روکتا ہے۔ یومیہ ایک مالٹا کا جوس جسم میں متعلقہ وٹامنز کو پورا رکھتا ہے۔ لہٰذا ہر ایک شخص کو یومیہ ایک مالٹے کا جوش نوش کرنا چاہیے تاکہ جسم کی ضرورت وٹامنز کے حوالے سے پوری ہوتی رہے۔
مالٹا کے جوس میں غذائیت بھی بھرپور پائی جاتی ہے جب بچہ تیسرے ہفتہ کا ہوجائے تو مالٹا کے جوس کا ایک چمچ اسے دینا اس کی غذائیت کو پورا کردیتا ہے۔ پھر جیسے جیسے عمر بڑھتی چلی جائے اس مقدار سے اسے مالٹا کا جوس بھی زیادہ دیا جائے۔ جوس کے پینے سے بچہ دانت بھی جلدی نکالتا ہے۔ اس لیے اطباءلکھتے ہیں کہ بچہ جب ایک سال کا ہوجائے تو اسے روزانہ ایک مالٹا کا جوس دیا جائے۔
مالٹا نظام انہضام کو تیز کرتا ہے اگرچہ بعض اطباءکے نقطہ نظر کے مطابق اس کا کثرت سے استعمال قرحہ معدی تک پہنچا دیتا ہے لہٰذا یومیہ ایک یا ایک سے زیادہ مالٹے لینے چاہئیں۔
مالٹا کے پھل کے بیج ضعف معدہ کے علاج میں مستعمل ہیں۔ یہ بھوک کو تیز اور جسم کو توانا و طاقتور کرتے ہیں۔
مالٹا کے پھل کے چھلکے کے فوائد
مالٹا کے پھل کا چھلکا موٹا‘ دبیز اور زرد رنگت کا ہوتا ہے۔ اس کی اندرونی جانب ایک سفید پردے کی تہہ بھی ہوتی ہے۔ یہ چھلکا بیرونی طور پر سخت اور کھردرا ہوتا ہے اس میں بعض آئل بھی پائے جاتے ہیں۔ جنہیں عطریات اور معدے کے مقوی مشروبات میں استعمال کیا جاتا ہے۔
قدیم عرب کے اطباءتحریر فرماتے ہیں کہ مالٹا کے خشک چھلکے اسہال‘ معدی درد‘ قے اورمتلی میں بطور علاج استعمال ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض اطباءمالٹا کے چھلکے کو گرم بخاروں میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ مالٹا کے چھلکوں کو بعض مرکبات میں بھی ڈالا جاتا ہے اور انفرادی طور پر سفوف بناکر استعمال کیا جاتا ہے۔
مالٹا کے درخت کے پتے
مالٹا کے درخت کے پتے درمیانے‘ خوشبودار اور رنگت کے سبز ہوتے ہیں۔ یہ پتے زیادہ تر عصبی امراض میں بطور علاج مستعمل ہوتے ہیں۔ ان کے استعمال سے سر کے بھاری پن کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ کھانے سے قبل اس کے پتوں کا قہوہ پینا معدے کو طاقتور اور نظام ہضم کو تیز کردیتا ہے۔
مالٹا کے پتوں کے استعمال میں وہ اشخاص نہایت احتیاط کریں جن کا نظام عصبی نہایت حساس ہو۔ ایسی صورت میں یہ فائدے کی بجائے نقصان دہ ہوں گے۔ مالٹا کے درخت کے پتے دل کے خفقان‘ دل بیٹھنے‘ قلبی گھبراہٹ اور درد معدہ میں مستعمل ہیں۔ علاوہ ازیں مرگی‘ التہاب دماغ‘ ورم جمجمہ اور دوسری سر کی کئی بیماریوں میں بھی ان سے استفادہ کیا جاتا ہے۔

Friday 17 October 2014

لیمو ں صحت کے لئے بے حد مفید


لیمو ں صحت کے لئے بے حد مفید

سنترے اور چکوترے کی قبیل سے ہی تعلق رکھنے والا لیموں جسے عرف عام میں نیبو بھی کہا جاتا ہے اسی قدر خوبیوں کا مالک ہے کہ اس کا اگر پابندی سے استعمال کیا جائے تو اس کے بے شمار فوائد حاصل ہوں گے۔عربی و فرانسیسی لفظلیم سے جنم لینے والا لفظ لیمو کے بارے میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اگر لیمو میں بیج نہ ہوتے تو یہ آب حیات ہوتا ۔ یہ پھل شاید سب سے زیادہ اقسام لئے ہوئے ہے۔ لیمو چھوٹا یا بڑا ہوسکتا ہے۔ اس کا چھلکا پتلا یا موٹا ، نرم یا سخت بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے سینٹر میں بہت ہی خوشبودار ضروری تیل ہوتے ہیں۔ ایک اچھے لیمو کی خوشبوبہت عمدہ ہوتی ہے اور اردگرد کے ماحول کو مہک دار بناتی ہے ۔ اس کا ہلکا پیلا، رسیلا، کھٹا گودا کسی بھی کھانے کے ذائقہ کو بڑھاتا ہے۔ اس کا تعلق رسیلے پھلوں سے ہے۔ اس کی مختلف قسمیں ہیں۔ دیگر تمام رس دار پھلوں کی طرح اس کے گودے میں پیلا رسدار کھٹا جز شامل ہوتا ہے۔ یہ وٹامن سی سے بھرپور ہوتا ہے۔
غذائی اقدار اور خصوصیات
لیمو کا پودہ ایک درمیانے سائز والا پودہ ہے۔ یہ سمندر کی سطح سے 5,577,43فٹ اوپر گرم موسم والے علاقوں میں اگایا جاتا ہے۔ اس کے پتے پھول اور چھلکا تیل سے بھر پور ہوتا ہے۔ اس میں لیمن بام، میں چینگ اور فلیونائڈرز موجود ہوتے ہیں اس میں پیکٹن اور بیجوں میں لیمونن پایا جاتا ہے۔
غدائی حقیقت
غدائی حقیقت لیمو کی قسم کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ اس کے گودے میں 5فیصد تک سڑک ایسڈاور 90فیصد تک پانی ہو سکتا ہے۔ اس کے نائٹر و جینس جز بہت کم ہیں۔ حالانکہ کسی ایک میں یہ دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو سکتے ہیں۔ شوگر ایک کمپوزیشن میں بھی اس خاص خصوصیات ہیں۔ شوگر اس میں سکروز کے طور پر موجود رہتی ہے۔ اس کے کھانے کے قابل حصے کا 8فیصد گلوکوز ہوتا ہے اور اس کے اہم غدائی اجزا ءمیں وٹا من سی اور پوٹا شیم شامل ہیں۔
فوائد
٭گلے کے انفکشن کے لئے گرم پانی میں ملائے گئے لیمو کے رس سے ہر 2گھنٹے کے بعد غراراے کریں۔
٭اپنے جسمانی عمل کو شدہ کرنے اور وزن کم کرنے کے لئے لیمو پانی میں چینی ڈال کر پئیں۔
٭جن لوگوں کے برشنگ کے بعد مسوڑھوں سے خون نکلتا ہے وہ اس ٹپ کا استعمال کر سکتے ہیں ۔ لیمو کے چھلکے کو کاٹیں اور اس کے اندرونی سفید حصے سے مسوڑھوں کو رگڑیں۔ روزانہ ایسا کچھ منٹوں کے لئے کریں۔ کچھ ہی دنوں میں اس کا اچھا نتیجہ آپ کے سامنے ہوگا۔
٭اضافی کیلور یز کے لئے 3لیموو ¿ں کے رس میں شہد ملا کر ہر کھانے سے پہلے پئیں۔ کیلوریز برن ہوں گی۔
٭ معمولی قبض سے چھٹکار ہ پانے کےلئے آدھے لیمو کے رس کو ایک گلاس گنگنے پانی میں ملا کر صبح صبح پئیں۔
٭لیمو تازہ اجوائن اور پودینے سے تیار ایک فیئشیل سونا سے آپ مہانسے کے مسائل کو دور کر سکتی ہیں۔ اڑھائی لٹر پانی میں 20گرام تازہ اجوائن 10گرام کٹا ہوا پودینہ اور ایک لیمو ٹکڑوں میں کٹا ہوا ابالیں۔ ابلنے کے بعد اسے آنچ پر سے اتار لیں اور 10منٹ کے لئے اس کی بھانپ چہرے پر لیں۔
٭بخار کم کرنے کے لئے لیمو کو ٹکڑوں میں کاٹیں اور انہیں پاو ¿ں کے نیچے لگائے رکھیں۔
٭لیمو آنتوں کو صاف کرتاہے ۔ اس لئے یہ بخار کے معاملات میں بہت اہم ہے کیونکہ یہ ٹائفس اور کولیرا کے جراثیموں کو تباہ کرتا ہے۔
٭بخار والے مریضوں کو لیمو پانی دیں۔ اس سے پیاس بجھتی ہے اور ٹمپریچر کم ہوتا ہے۔
٭ڈائریا روکنے کے لئے لیمو کے 2ٹکڑوں میں چینی ملائیں اور ایک کپ ابلے ہوئے پانی میں ڈالیں ۔ کچھ دیر تک اسے انفیوزن میں رکھیں اور ہر آدھے گھنٹے پر اس کا استعمال کریں۔ ڈائریا کے لئے یہ فائدہ مند ہے۔
٭لیمو کا ست دل کو طاقت دیتا ہے اوریہ ہماری خون کے نظام کے لئے بہت بڑھیا ہے۔ یہ اسے صاف کرتا ہے۔ دن کے تینوں کھانوں کے بعد لیمو پانی کے استعمال سے آرٹیریوسکلیروسس میں بھی بہت فائدہ ملتا ہے۔
٭لیمو کے پھولوں میں پراگ ذرہ بھر پور مقدار میں ہوتے ہیں۔ ان ہار موٹل میں و یجٹیبلز ، وٹامنس اور قیمتی معدنیات موجود ہوتے ہیں۔ ایک کپ پانی میں لیمو کے پھولوں کا ایک چمچہ ڈال کر چائے تیار کریں۔ اسے 2منٹ تک ابلنے دیں۔یہ ٹانک آپ کی ناڑیوں کو شانتی دیتا ہے اگر آپ سونے سے پہلے اس کا استعمال کریں گے تو آپ کو اچھی نیند میں مدد ملے گی۔

لمبے قد کا جیون ساتھی۔ عورتوں کی ترجیح


لمبے قد کا جیون ساتھی۔ عورتوں کی ترجیح

محقیقین کہتے ہیں کہ بات جب شادی کی ہو تومرد اور عورت دونوں آئیڈیل جیون ساتھی کی خصوصیات میں قد کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ عورتیں اپنے شریک حیات کو خود سے لمبا دیکھنا پسند کرتی ہیں اور مرد جیون ساتھی کے طور پر خود سے چھوٹے قد کی لڑکی کا انتخاب کرنا پسند کرتا ہے۔

”جرنل پبلک لائبریری آف سائنس ون ”میں اسی برس شائع ہونے والے تحقیقی مطالعےمیں پہلی بار قد کےعلاوہ دیگر خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے شریک حیات کا انتخاب کرنے کے حوالےسے دونوں جنسوں کی ترجیحات پر تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔

برطانوی اور ڈچ محقیقین کی اس تحقیق میں ایک طویل مدتی صحت کے مطالعے میں شامل 12 ہزار 500 شادی شدہ برطانوی جوڑوں کےقد سے متعلق اعداوشمار کو استعمال کیا گیا۔

محقیقین نے کہا کہ ان کے لیے تحقیق کا نتیجہ حیرت انگیز نہیں تھا۔ تحقیق میں شامل اکثریتی جوڑوں میں مرد کا قد لمبا تھا یعنی کل 11 ہزار 500 یا 92.5 فیصد جوڑوں میں شوہر کا قد اپنی شریک حیات کے مقابلے میں لمبا تھا جن میں مردوں کا اوسطا قد 5 فٹ 10 انچ اورعورتوں کا قد 5 فٹ ساڑھے 4 انچ تھا اور دونوں کے قد میں ساڑھے 5 انچ کا فرق موجود تھا۔

تحقیق کاحصہ بننے والے 511 یا صرف 4 فیصد جوڑوں میں بیویوں کا قد اپنے شوہروں کے مقابلےمیں زیادہ تھا جبکہ ایک ہی قد کے حامل جوڑوں کی تعداد 425 یا 3.5 فیصد تھی۔

محقیقین نےاندازہ لگایا گیا ہے کہ عام طور پر بلند قامت افراد اپنے شریک حیات کو لمبا دیکھنا پسند کرتے ہیں لیکن یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ عورتیں قد کے معاملے میں زیادہ حساس ہوتی ہیں اور اپنے شریک حیات کو خود سے بہت زیادہ لمبا دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی ہیں جبکہ اس نظریہ کے بر خلاف بہت زیادہ لمبے مردوں کی بیویاں چھوٹے قد کی تھیں۔

محقیقین نے بتایا کہ، اگرچہ شریک حیات کا انتخاب کرنے میں بہت زیادہ لمبا قد پسند نہیں کیا جاتا ہے اور ایسے جوڑوں کی تعداد صرف 14 فیصد تھی جن میں شوہروں کا قد بیوی کے مقابلے میں 10 انچ لمبا تھا تاہم شوہر اور بیوی کے درمیان 7 انچ کا فرق ایک قابل قبول فرق سمجھا جاتا ہے۔

محقیقین کا کہنا تھا کہ ، تحقیق میں شامل ایسےجوڑے جن میں شوہرکا قد اپنی بیوی کے مقابلے میں کم تھا ان کے قد میں بہت ہی معمولی نوعیت کا فرق تھا اسی طرح زیادہ تر برطانوی جوڑے جن میں شوہر اپنی بیوی سے لمبی قامت رکھتے تھے ان کا قد اپنی شریک حیات سے 2 انچ سے 8 انچ تک اونچا تھا ۔

‘نیو کاسل یونیورسٹی’ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈینیئل لیٹن نے کہا کہ،” عام طور پر بہت زیادہ لمبے مردوں کے پاس شریک حیات کا انتخاب کرنے کے لیے چوائس کم ہوتی ہے ۔”

نیدرلینڈ کی’ یونیورسٹی گروننگن ‘ سے منسلک تحقیق کے مصنف ماہر نفسیات گرٹ اسٹیلپ نے کہا کہ ، ”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ،عورتیں قدرتی طور پر اپنے شوہر کو خود سے زیادہ لمبا دیکھنا پسند کرتی ہیں جبکہ ، مرد شریک حیات کے قد کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں چاہے بیوی ان سے قد میں بہت زیادہ چھوٹی کیوں نہ ہو لیکن اس معاملے میں عورتوں کی ترجیح خود سے لمبا مرد ہوتی ہے ”۔

سنا مکی کا کمال


سنا مکی کا کمال 

8 سنا کی پتیاں چن لیں اس میں پھلی یا اس کی ڈنڈیاں اور تنکے نہ آنے دیں اور ان کو حسب ضرورت لے کر چار گنا پانی ڈال کر ہلکی آگ پر پکائیں کہ پانی اس میںجذب ہو جائے۔ اس وقت نکال کر گھوٹنا شروع کر دیں اور گولیوں کے قوام پر آنے کے بعد دو، دو رتی کی گولیاں بنا لیں ۔ایک ایک گولی صبح و شام کسی بھی چیز سے لیں، اس سے قبل از وقت پڑی ہوئی جھریاں مٹ جاتی ہیں اور قبل از وقت آیا ہو بڑھاپا دور ہو کر جوانی عود کر آتی ہے

کیلے کا چھلکا۔ ہے بڑے کام کا


کیلے کا چھلکا۔ ہے بڑے کام کا

یوں تو کیلے کا چھلکااِدھر اُدھر پھینکنا اخلاقی اور سماجی طور پر انتہائی بُری عادت ہے، لیکن ہمیں امید ہے کہ اس کارآمد تحریر کو پڑھنے کے بعد کوئی بھی کیلے کھا کر اس کے چھلکے کو جگہ جگہ پھینکنے کی اپنی عادت تبدیل کرلے گا، کیونکہ اس کے چھلكوں میں حسن و صحت کے حوالے سے کمال کی خوبیاں موجود ہیں۔

چین میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق کیلے کے چھلکے میں سیروٹونن ہارمون کی انسانی جسم میں سطح کو برقرار رکھنے کے خصوصیات موجود ہیں۔

واضح رہے کہ یہ ہارمون خوش رہنے کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے، ایسے لوگ جن میں اس ہارمون کی کمی ہوجاتی ہے، وہ بلاوجہ اُداس، مایوس اور پریشان رہنے لگتے ہیں۔

کیلے کے چھلكوں میں بھرپور غذاییت اور کاربوہائیڈریٹس ہوتے ہیں۔ اس میں وٹامن بی -6، بی -12، میگنیشیم کاربوہائیڈریٹ، اینٹی آکسیڈینٹ، پوٹاشیم اور مینگنیز جیسے بھرپور غذائی مادّے موجود ہوتے ہیں جو غذا کے جزوِبدن بننے کے لیے انتہائی مفید ہیں۔

ماہرین کے مطابق کیلے کے چھلکے کو پيس كر اس کا پیسٹ درد کی جگہ 15 منٹ تک لگائے رکھنے سے سر درد دور ہوسکتا ہے۔ دراصل سر کے درد کا سبب خون کی شریانوں میں پیدا ہونے والا تناؤ ہوتا ہے اور کیلے کے چھلکے میں موجود میگنیشیم شریانوں میں سرائیت کرکے درد کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

کیلے کے چھلکے کو روزانہ دانتوں پر رگڑنے سے ان میں چمک پیدا ہوتی ہے کیونکہ اس میں موجود پوٹاشیم، میگنیشیم اور مینگنیز دانتوں پر جمے پيلے پن کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔ باقاعدگی کے ساتھ یہ عمل کیا جائے تو کچھ دنوں میں دانتوں میں قدرتی چمک آ جاتی ہے۔ دن میں دو بار کیلے کے چھلکے دانتوں پر رگڑنے سے فائدہ ہوتا ہے.

پیروں یا ہاتھوں میں مسّے نکل آئیں تو ان پر کیلے کے چھلکے رگڑنے اور رات بھر ایسے ہی چھوڑ دینے سے دوبارہ اس جگہ پر مسّے نہیں نکلتے۔

چہرے کے مہاسوں پر کیلے چھلکے کو مسل كر پانچ منٹ تک لگانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کیلے کے چھلکے کی جلد میں پانی کی کمی کو بھی پورا کرتے ہیں۔ انڈے کی زردی میں کیلے کے چھلکے کو پيس كر ملا کر چہرے پر لگانے سے جھرّیاں دور ہوتی ہیں۔

ہائی بلڈ پریشر کیا ہے ؟ علامات و وجوہات

ہائی بلڈ پریشر کیا ہے ؟ علامات و وجوہات
جب آپ کا دل دھڑکتا ہے تو خون آپ کے جسم میں گردش کرتا ہے اور اسے مطلوب توانائی اور آکسیجن مہیا کرتا ہے۔ خون گردش کے دوران نسوں کی دیواروں پر دباؤ ڈالتا ہے۔ اس دباؤ کو ہی بلڈ پریشر کہا جاتا ہے۔ بلڈ پریشر کو جاننے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کی پیمائش کی جائے۔ جب BP کی پیمائش ہوتی ہے تو اسے دو اعداد میں لکھا ہے مثلا HB 120/80mm یا 80 نیچے اور 120 اوپر۔

ہائی بلڈ پریشر

اگر آپ کا BP 90 اوپر اور 140 یا اس سے زیادہ ہو اور یہ کیفیت کئی ہفتوں تک برقرار رہے تو آپ کو ہائی BP ہوسکتا ہے یا اگر دونوں میں سے ایک عدد بھی زیادہ ہو تو آپ کو ہائی BP ہوسکتا ہے۔ HBP سے آپ اپنے آپ کو بیمار تو محسوس نہیں کریں گے لیکن یہ صحت کے لئے انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔ اگر اس کو کم نہ کریں تو یہ دل، خون کی نسوں اور دوسرے اعضاء کو برباد کرسکتا ہے۔ یہ آپ کی صحت کے لئے سنگین مسائل پیدا کرسکتا ہے۔

اگر آپ کو ذیابیطس ہو تو ہائی BP آپ کے دل اور خون کی نسوں کو اور بھی زیادہ برباد کرسکتا ہے۔ اس لئے آپ کو چاہئے کہ اپنا BP 80 نیچے اور 130 اوپر سے کم رکھیں۔
HBP کس طرح جسم کے حصوں کو متاثر کرتا ہے؟

دل: HBP دل کے دوروں کا ایک بڑا سبب ہے۔ دل کا دورہ اس وقت پڑتا ہے جب آپ کے دل کو خون پہنچانے والی نسیں بند ہوجاتی ہیں یا پھٹ جاتی ہیں۔ HBP کے سبب دل کی دھڑکن بن ہوسکتی ہے یا دل پھیل کر بڑا ہوسکتا ہے۔

گردے:HBP گردوں کو خون سپلائی کرنے والی نسوں کو برباد کرکے گردوں کی بیماریاں پیدا کرسکتا ہے۔

دماغ: HBP فالج کا بھی ایک بڑا سبب ہے۔ فالج اس وقت لاحق ہوتا ہے جب آپ کے دماغ کو خون پہنچانے والی نسیں بند ہوجاتی ہیں۔

پیر: HBP آپ کے پیروں کی خون کی نسوں کو تنگ کردیتا ہے جس سے ان میں خون کا بہائو مشکل ہوجاتا ہے اس کی وجہ سے چلنے میں تکلیف ہوتی ہے۔

HBPکی علامات: عام طور پرHBP کی کوئی خاص علامات نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے اسے Silent Killer یعنی خاموش قاتل کہتے ہیں۔ بعض اوقات سالوں کسی کو یہ بیماری رہتی ہے لیکن اسے خود احساس نہیں ہوتا۔ پھر بھی اگر مندرجہ ذیل حالتیں محسوس ہوں تو آپ کو اپنا معائنہ کروانا ضروری ہے۔

٭ سر درد٭ چکر آنا ٭ آنکھوں کو دھندلا پن محسوس ہونا ٭ قے ٭ سانس آنے میں تکلیف ہو ٭تھکن محسوس ہو

HBP کی دوائیں: اپنی خوراک میں تبدیلی اور اپنے آپ کو زیادہ سرگرم عمل بنانے کے ذریعے آپ اپنے BP کو حقیقی معنوں میں کنٹرول کرسکتے ہیں لیکن محض یہ چیزیں BP کو کم کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ BP کو مزید کم کرنے کے لئے آپ کو دوائوں کی ضرورت ہوگی۔

HBPکے لئے بہت سی ادویات دستیاب ہیں۔ آپ کو موزوں دوا کے انتخاب میں ڈاکٹر مددگار ثابت ہوں گے۔ ہر شخص کا مزاج جداگانہ ہوتا ہے۔ اس لئے محض دوائیں خاص لوگوں کے مزاج کے لئے زیادہ مفید ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے جو دوا آپ کے دوست یا عزیز کو راس آئے، وہ آپ کے لئے مفید نہ ہو۔
LOW بلڈ پریشر: جب انسان کا سسٹولک دباؤ (Systolic Pressure) نارمل حد سے کم ہوجاتا ہے تو BP گر جاتا ہے اور جب BP گرجاتا ہے تو خون جسم کے وائٹل آرگنز (Vital Organs) مثلا دل، دماغ اور گردے کو مناسب مقدار میں سپلائی نہیں ہوتا ہے۔ اسے B.P. Low کہتے ہیں۔


LBP کی علامات

1۔ مریض کو سستی اور کمزوری محسوس ہوتی ہے۔
2۔ نبض کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔
3۔ متلی اور بے چینی کی صورت حال پیش آتی ہے۔
4۔ تھکاوٹ اور گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔
5۔ ہلکا ہلکا سر درد اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔
وجوہات

1۔ جب شوگر کے مریض کا مرض شدت اختیار کرجائے تو بلڈ پریشر خطرناک حد تک گر جاتا ہے۔
2۔ اینٹی ایزائٹی (Anti-Anxiety) ادویات کے استعمال سے بھی بلڈ پریشر کم ہوجاتا ہے۔ کیونکہ یہ ادویات نروس سسٹم کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جس سے خون پورے جسم کے اعضاء کو مناسب مقدار میں نہیں ملتا۔
3۔ بعض گردوں کے مریض پیشاب آور ادویات کا استعمال زیادہ کرتے ہیں جس سے پانی کی کمی ہونے سے BP گرجاتا ہے۔
علاوہ ازیں عام جسمانی کمزوری اور دیگر کئی بیماریاں LBP کا سبب بنتی ہے۔ LBP کے علاج کے لئے سب سے پہلے BP کے کم ہونے کی وجہ معلوم کریں پھر اس کے مطابق علاج کریں۔
٭LBP کا عام بہترین حل یہ ہے کہ سادہ پانی زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ خصوصا Dehydration کی صورت میں زیادہ استعمال کریں۔ پانی میں قدرے نمک ڈال لیا جائے تو بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
٭ وٹامنز اور نمکیات کے علاوہ پروٹین سے بھرپور غذا کو ترجیح دیں۔ اس سے BP کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔
٭ شدید بیماری کی صورت میں ورید کے ذریعے فلوئیڈ (Fluid) دینا موثر ثابت ہوتا ہے۔
٭ سگریٹ نوشی ترک کردیں کیونکہ تمباکو میں موجود نکوٹین نہ صرف دل اور دوران خون کو متاثر کرتی ہے بلکہ اعصابی نظام بھی بے ترتیبی کا شکار ہوجاتا ہے۔

صحت مند خوراک اور BP

نمک: نمک کا بہت زیادہ استعمال آپ کے BP کو بڑھاتا ہے۔ بالغ افراد کو ہر روز 6 گرام سے زیادہ نمک نہیں کھانا چاہئے۔ خریداری کرتے وقت لیبل کو غور سے پڑھیں۔ انہی چیزوں کو خریدیں جن میں نمک کی مقدار کم ہو۔
پھل اور سبزیاں: پھلوں اور سبزیوں میں پوٹاشیم ہوتا ہے جو BP کو کم کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ بالغ افراد کو ہر روز پھلوں اور سبزیوں کا بھی استعمال کرنا چاہئے۔

چکنائی: زیادہ چکنائی والی غذائوں کے کھانے سے آپ موٹے ہوتے ہیں۔ جس سے آپ کا BP بڑھتا ہے۔ چکنائی والی غذائیں آپ کے کولیسٹرول کی سطحوں میں بھی اضافہ کرتی ہیں جن سے دورہ قلب یا فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ زیتون کا تیل، سورج مکھی کا تیل بہتر ہے لیکن اس کو بھی کم مقدار میں استعمال کرنے کی کوشش کریں۔

وزن: اگر آپ کا وزن کم ہے تو آپ کے لئے BP کو کم کرنے میں معاون ہوگا۔ اس سے دل، جسم، دونوں صحت مند رہیں گے۔ وزن کم کرنے کا مطلب خوراک سے پرہیز ہرگز نہیں ہے۔ اس کا مطلب آپ کی طرز زندگی میں وہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہیں جنہیں آپ لاسکتے ہیں۔

تمباکو نوشی: تمباکو نوشی امراض دل اور فالج کا بڑا سبب ہے۔ تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کی نسبت تمباکو نوشوں کو دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ دوگنا ہوتا ہے۔ تمباکو چبانا اور نسوار لینا اسی طرح خطرناک ہے۔
اسکا علاج پہلے سے وال پر کئی دفعہ شئر کیا جاچکا ہے اس لئے علاج کے لئے کومنٹ نہ کریں۔

Monday 13 October 2014

رعشہ کیوں ہوتاہے؟

رعشہ کیوں ہوتاہے؟
انسانی دماغ ڈوپامائن نامی ایک کیمیائی مادہ پیدا کرتا ہے، جو پٹھوں اور عضلات کو لچک دار بناتا ہے اور جسمانی حرکات میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ تاہم پارکنسنز سے متاثرہ افراد کا دماغ ڈوپامائن پیدا کرنا بند کردیتا ہے، جس کی وجہ سے مریض کے بازوؤں، ہاتھوں اور ٹانگوں میں رعشہ، حرکت میں سست روی، اعصاب میں اکڑاؤ اور توازن کی خرابی جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر مرض شدت اختیار کرجائے تو خوراک نگلنے، چلنے پھرنے اور بات کرنے میں بھی مشکل پیش آسکتی ہے۔ گوکہ یہ مرض کسی بھی شخص کو متاثر کرسکتا ہے۔ تاہم ساٹھ برس سے زائد عمر کے افراد عام طور پر اس کا شکار ہوتے ہیں۔
عضلاتی انحطاط کے اس مرض کا مکمل علاج ممکن نہیں لیکن درست اور بروقت علاج سے اس کو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔ ادویات ، جسمانی ورزش اور اگر ضرورت ہو تو آپریشن کی مدد سے مریض کی حالت میں استحکام لایا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات دیگر اعصابی مسائل یا سر کی چوٹ کی وجہ سے بھی اس قسم کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔ اس لیے ڈاکٹرز ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین تجویز کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے
ایسا کوئی لیبارٹری ٹیسٹ دستیاب نہیں جو اس مرض کی تشخیص کرسکے۔ اس لیے تفصیلی اعصابی معائنے پر انحصار کیا جاتا ہے۔
چوں کہ یہ مرض حرکات و سکنات کو متاثر کرتا ہے، اس لیے فزیو تھیراپی کی مدد لی جاتی ہے، تاکہ مخصوص ورزشوں کی مدد سے مریض کسی مدد کے بغیر روزمرہ سرگرمیاں انجام دے سکے۔ توازن یا چال میں ہونے والی تبدیلی مریضوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے اور ان کے گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
گرنے کا نتیجہ ہڈیاں ٹوٹنے اور عارضی یا مستقل معذوری کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ چلنا، جسمانی قوت میں اضافے کی تربیت اور مخصوص جسمانی ورزشیں مریضوں کی چال کو متوازن بناتی ہیں اور انھیں گرنے کے خطرے سے محفوظ رکھتی ہیں۔ چلنا ایک ایسی محفوظ ورزش ہے جو نہ صرف توازن کو بہتر بناتی ہے بلکہ جسم میں آکسیجن کے انجذاب میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ تاہم اگر کسی اور طبی مسئلے کی وجہ سے مریض کو چلنے میں مسئلہ ہو تو ڈاکٹر اور فزیوتھراپسٹ کوئی متبادل ورزش تجویز کرسکتے ہیں۔ ورزش کے دورانیے میں رفتہ رفتہ اضافہ کرنا چاہیے۔
یہ موروثی مرض نہیں ہے اور نہ ہی اب تک اس کی وجہ کا تعین کیا جاسکا ہے۔ پارکنسنز کا پچاس فی صد علاج ادویات سے اور بقیہ پچاس فی صد ایکسرسائز سے ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں اضافہ ہی ہوتا ہے تاہم درست علاج اور اچھی دیکھ بھال سے اس کی رفتا ر میں کمی آجاتی ہے۔
اس مرض کے تین اہم نتائج نکلتے ہیں: پہلے عضلات سخت ہوجاتے ہیں پھر کم زور اور آخر میں ان کی حرکت محدود ہوجاتی ہے اور یوں مریض روزمرہ سرگرمیاں انجام نہیں دے پاتا۔ اگر ادویات کے ذریعے ڈوپامائن درست سطح پر آ بھی جائے تو یہ مسائل برقرار رہتے ہیں۔ تاہم فزیوتھراپی سے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اس مرض کی ایک اہم بات یہ ہے کہ نہ تو ایک ہی دوا زندگی بھر استعمال کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ایک قسم کی ایکسرسائز ہمیشہ کروائی جاسکتی ہے۔ پارکنسنز کی ایک عام علامت یہ ہے کہ مریض چلتے چلتے یا بستر سے اٹھتے وقت آگے یا پیچھے کی طرف گرجاتا ہے، جب کہ دوسری اہم علامت ’فریزنگ گیٹ ‘ ہے یعنی جب وہ بستر سے اٹھتا ہے اور چلنا چاہتا ہے اس کا پہلا قدم نہیں اٹھتا۔ مریض آہستہ چلتا ہے ، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہے۔ تاہم اس کے لیے رک کر مڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘‘
ایک عام صحت مند شخص کی فزیکل فٹنس کی جانچ درج ذیل عوامل سے کی جاتی ہے:
دل اور شریانوں کی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت، عضلات کی طاقت، عضلات کی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت، جسمانی لچک کی جانچ اور جسمانی ساخت (باڈی ماس انڈیکس اور جسم میں چکنائی کا تناسب)
تاہم پارکنسنز کے مریضوں کی فزیوتھیراپی میں تین اجزا بہت اہم ہوتے ہیں: عضلات کی کم زوری کو ختم کرنے اور عضلات کی طاقت میں اضافے کی کوشش، رعشے کی وجہ سے عضلات کی لچک میں کمی کا تدارک اور چال کی درستی۔
پارکنسنز کے مریضوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حرکت کرنا ہی ان کے مسئلے کا حل ہے۔ اگر وہ یہ سوچ کر اپنی سرگرمیاں محدود کردیں کہ اس طرح ان کی حالت بہتر ہوجائے گی، تو یہ غلط ہے۔ ایک تجرباتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کوئی صحت مند فرد بھی تین ہفتے تک بستر پر رہے اور حرکت نہ کرے تو عضلات کی طاقت میں ایک تہائی کمی آجاتی ہے۔ مریض اگر جسمانی سرگرمی میں کمی کردے تو وہ معذوری کی حد کو پہنچ سکتا ہے۔
دورانِ معائنہ فزیوتھیراپسٹس اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ مریض کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھر نے، کھڑے رہنے، وزن اٹھانے کا طریقہ اور توازن کیسا ہے۔ توازن کی خرابی کی وجہ سے مریض کی چال متاثر ہوتی ہے اور اس کے آگے یا پیچھے کی طرف گرنے کا خطر ہ ہوتا ہے۔ چوںکہ مریض عام انسانوں کی طرح اپنے ہاتھ سیدھے نہیں رکھ پاتا اور گرتے وقت اپنا بچاؤ نہیں کرپاتا، جس کی وجہ سے سر پر چوٹ لگتی ہے۔ ایسے مریضوں کو ایکسرسائز کرواتے وقت ان کی چال کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ اگر مریض آگے گرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے جسم کے اگلے حصے کے عضلات سخت ہوچکے ہیں۔ اس لیے پشت کے عضلات کو مضبوط کرنے کی کوشش کروائی جاتی ہے تاکہ توازن برقرار رہ سکے۔ تاہم اگر چال پیچھے گرنے والی ہے تو آگے والے عضلات کو مضبوط کرنے کے لیے ورزشیں کروائی جاتی ہیں۔
دورانِ تربیت مریض کو یہ تمام جسمانی ورزشیں سکھائی جاتی ہیں، تاکہ وہ ان کو گھر پر بھی جاری رکھ سکیں۔ تاہم اگر انھیں یہ محسوس ہو کہ ان کا توازن خراب ہوگیا ہے یا کوئی اور مسئلہ درپیش ہے تو انھیں باقاعدگی سے فزیو تھراپسٹ سے ملنا چاہیے، تاکہ ان کی موجودہ حالت کے مطابق ورزش میں تبدیلی کی جاسکے۔
پارکنسنز میں مجموعی دیکھ بھال بہت اہمیت رکھتی ہے اور دوا، ورزش اور طرز زندگی میں تبدیلی اس نظام کا حصہ ہیں۔ صحت یابی یا بہتر صحت کے حصول کے لیے ان تینوں پہلوؤں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ طرز زندگی میں تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ مرض کی شدت کی وجہ سے مریض ایسے بہت سے کام نہیں کرپاتا جو وہ پہلے کررہا تھا۔ اس لیے فزیوتھراپسٹس اسے متبادل طریقے بتاتے ہیں مثلاً گرفت خراب ہونے کی وجہ سے عام قلم کے بجائے موٹا قلم، بڑے دانوں والی تسبیح یا موٹے دستے والا چمچہ استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ مریض کو اپنے کام خود کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ دوسروں پر اس کا انحصار کم سے کم ہو۔

Sunday 12 October 2014

انگور…. !چھوٹی چیز بڑے فائدے


انگور…. !چھوٹی چیز بڑے فائدے
انگور کا رنگ زرد اور سیاہ ہوتا ہے۔ کچا انگور ترش ہوتا ہے جبکہ پکا ہوا شیریں ہوتا ہے۔ اس کا مزاج پختہ کا گرم تر درجہ اول اور کچا خشک درجہ اول ہوتا ہے۔ اس کی مقدار خوراک بقدر ہضم ہے۔ دوا کے طور پر دو چھٹانک سے ایک پاؤ تک روزانہ ہے۔ انگور کے حسب ذیل فائدے ہیں :۔
انگور کے فائدے
انگور کثیر الغذا اور زود ہضم ہوتا ہے۔
٭ خون صالح پیدا کرتا ہے اور مصفیٰ خون بھی ہے۔
٭ جسم کو موٹا کرتا ہے۔
٭ پختہ انگور زیادہ کھانے سے اسہال آنے لگتے ہیں۔
٭ کچا انگور قابض ہوتا ہے اور اسہال کے مرض میں مفید ہوتا ہے۔
٭ انگور میں کاربوہائیڈریٹس، پروٹین، وٹامن اے ، وٹامن سی،کیلشیم اور آئرن پائے جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لئے بہت مفید ہوتے ہیں۔
٭ جن لوگوں کا معدہ اکثر خراب رہتا ہے ان کے لئے انگور پختہ کا استعمال بے حد مفید ہے۔
٭ پسینہ زیادہ آنے کی صورت میں مازو ایک تولہ، انگور کا رس چھ تولے ، ٹھنڈا پانی دو تولے ، ان تمام اشیاء کو ملا کر بدن پر لیپ کرنے سے فوری فائدہ ہوتا ہے۔
٭ گیس یا بوجھل معدہ والے حضرات انگور کا ناشتہ کرنے سے اس مرض سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔
٭ انگور دل، جگر، دماغ اور گردوں کو طاقت دیتا ہے
٭ گرمی کے سر درد یا پھر آنکھ جو سرخ ہو کر درد کرنے لگے تو انگور کے پتے پیس کر پیشانی پر لیپ کرنے سے صحت ہو جاتی ہے۔
٭ لاغری اور کمزوری میں اس کا استعمال مفید ہے۔
٭ پرانے بخار میں انگور کا استعمال مفید پایا گیا ہے۔
٭ انگور کا بکثرت استعمال گردہ کی چربی بڑھاتا ہے۔
٭ چہرے کا رنگ نکھارتا ہے۔
٭ اگر انگور کو تخم خطمی کے ہمراہ پکا کر روم پر لگائیں تو ورم جلدی تحلیل ہو جاتا ہے اور صحت ہو جاتی ہے۔
٭ سینے کے جملہ امراض میں انگور بے حد مفید ہے۔
٭ پھیپھڑوں سے بلغم کے اخراج کے لئے انگور بہترین دوا ہے۔ ٭ کھانسی کو ختم کرنے کے لئے انگور کے رس میں شہد ملا کر چٹانا مفید ہوتا ہے۔ ٭ انگور کا جوس یا رس پینے کے بعد پانی ہرگز نہیں پینا چاہیے۔ ٭ عورتوں کے زمانہ حمل میں انگور کا رس پینے سے حاملہ عورت غشی، چکر، اپھارہ اور در وغیرہ سے محفوظ رہتی ہے اور بچہ بھی صحت مند اور توانا پیدا ہوتا ہے۔
٭ جسمانی طور پر کمزور انسان ایک پاؤ شیریں انگور صبح و شام کھائیں اور رات کو سوتے وقت دودھ میں ایک چمچہ شہد ملا کر پینے سے بالکل صحت مند ہو جائیں گے۔
٭ لیکوریا کی صورت میں خواتین کو چاہیے کہ وہ انگور کے اسی میں ایک چمچہ شہد ملا کر پئیں تو یقیناً مرض دور ہو جائے گا۔ یہ خوراک دس دن کی ہے۔
٭ بندش حیض میں انگور کے جوس میں ایک چمچہ شہد اور دو عدد پسے ہوئے چھوہارے ملا کر استعمال کرنا بے حد مفید ہوتا ہے۔
٭ گردے اور مثانے کی جملہ بیماریوں کو دور رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک پاؤ انگور روزانہ کھائے جائیں۔
٭ مرگی کے مریض کو انگور کا رس پانچ تولہ متواتر تین ماہ تک دن میں تین بار پلانے سے مرگی کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے۔
٭ انگور کا رس ایک چمچہ صبح و شام پلانے سے جن بچوں کے منہ اور حلق میں چھالے پڑے ہوں فائدہ ہوتا ہے۔
٭ قطرہ قطرہ پیشاب آنے کی صورت میں ایک پاؤ انگور روزانہ کھانا مفید ہے۔
٭ ضعف گردہ اور سخت زکام میں انگور کا استعمال بے حد مفید ہے۔
٭ تین سال کے بچوں کی قبض دور کرنے کے لئے ایک چھوٹا چمچہ چائے والا انگور کا رس پلانا مفید ہوتا ہے۔
٭ جو بچے دانت نکال رہے ہوں اگر انہیں ایک چمچہ انگور کا رس روزانہ پلایا جائے تو دانت بالکل آسانی سے نکل آتے ہیں اور سیدھے بھی رہتے ہیں۔
٭ جن چھوٹے بچوں کو سوکھے پن کی بیماری ہوتی ہے ان کو ایک چھٹانک انگور کا رس روزانہ پلانا مفید ہوتا ہے۔
٭ گردے کی پتھری کے لئے دو تولے انگور کے پتے رگڑ کر دن میں دو بار پلانے سے پتھری ریزہ ریزہ ہوکر نکل جاتی ہے ایسے مریض کو سادہ پانی بھی وافر مقدار میں پیتے رہنا چاہیے۔
٭ انگور کے رس میں ایک چوتھائی چینی ملا کر رِب تیار کر کے کھانے سے دل کو طاقت ہوتی ہے اور مفرح بھی ہوتا ہے۔
٭ مردانہ کمزوری کو دور کرنے کے لئے ایک ہفتہ تک ہر روز ایک گھنٹہ کے ساٹھ منٹوں میں ایک دانہ انگور فی منٹ روز کھانے سے بے حد فائدہ ہوتا ہے۔
٭ انگور جگر اور آنتوں کے امراض میں بہت مفید ہوتا ہے۔
٭ انگور دوا بھی ہے اور غذا بھی۔ اس لیے اس کو کھانے میں مکمل احتیاط کی جائے ، ترش انگور سے پرہیز کیا جائے اور تازہ اور اچھے انگور کھائے جائیں تو یقیناً صحت اچھی رہے گی۔

Tuesday 7 October 2014

ذی الحج کے پہلے عشرہ (دس دن) کی اہمیت اور احکام و مسائل:


مکمل پڑھیے اور زیادہ سے زیادہ شیر کریں جزاک الله خیر 
ذی الحج کے پہلے عشرہ (دس دن) کی اہمیت اور احکام و مسائل:
ذی الحجہ کا پہلا عشره برکت کے لحاظ سے سب سے زیادہ اہم وقت ہے۔ کیونکہ اللہ کے نزدیک اس کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اس عشرہ س
ے محبت کرتا اور اس کی قدر کرتا ہے تویہ دس مبارک دن ہیں۔ یہ بھرپور نیکیوں والے، برائيوں سے بچے جانے والے، بلند درجات حاصل کیے جانے والے اور طرح طرح کی کی نیکیاں کیے جانے والے دن ہیں
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
الله کو کوئی نیک عمل کسی دن میں اتنا پسندیدہ نہیں، جتنا ان دنوں میں محبوب ہوتا ہے، یعنی ذی الحج کے پہلے عشرہ (دس دن) میں.
صحیح بخاری 969 سنن ابوداؤد 2438
رسول الله صلى الله عليه وسلم ذی الحج کے پہلے 9 دن روزہ رکھا کرتے تھے.
سنن ابو داؤد 2437 سنن نسائی 2374
عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل :
دنیا کے تمام دنوں میں دس دن سب سے افضل ہیں :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں انجام دیے گئے اعمال سال بھر کے تمام دنوں میں انجام دیے جانے والے اعمال کی بہ نسبت زیادہ فضیلت والے ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا:جہاد بھی اس سے افضل نہیں؟ فرمایا:جہاد بھی نہیں، ہاں البتہ اگر کوئی شخص جان ومال سے نکلے ،پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہ آئے،یعنی شہید ہوجائے۔
(رواہ البخاری:969)
اسی حدیث کے بعض الفاظ کچھ مزید وضاحت کے ساتھ مروی ہیں ،چنانچہ امام احمد نے اپنی مسند:1968، اور امام ابوداود نے اپنی سنن:2438 میں یہ الفاظ درج فرمائے ہیں:
"نیک اعمال ان دس دنوں کی بہ نسبت کسی بھی دن میں اللہ رب العالمین کے نزدیک محبوب نہیں ہیں صحابہ نے عرض کیا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا :جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، مگر کوئی شخص اپنی جان ومال کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے ، پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہ آئے یعنی شہید ہوجائے۔"
"ذی الحجہ کے یہ دس دن دنیا کے دنوں میں سب سےافضل ہیں۔"
(رواه البزار وصححہ الألبانی کما فی صحیح الجامع الصغیر: 1133)
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:
الله کے نزدیک کوئی عمل اتنا با عظمت اور محبوب نہیں, جتنا وہ عمل ہے جو ان دس دنوں (عشرہ ذی الحج) میں کیا جائے, تم ان دنوں میں کثرت سے تہلیل (لا اله), تکبیر (الله اكبر) اور تمحيد(الحمد لله) کہو.
مسند احمد: 5446
جلد 3
"حضرت عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سال کے تمام ایام میں کوئی دن ایسا نہیں جس میں عمل صالح اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ عظیم اور محبوب ہو۔ اس لیے ان دنوں میں کثرت سے "لا إلہ إلا اللہ، اللہ أکبر" اور "الحمد للہ" کہنا چاہئے۔"
(رواہ أحمد: 2/75، 131)
ان ایام میں بہت سے اعمال مشروع ہیں، جن میں نماز ، زکوۃ صدقات کے علاوہ روزه خصوصاً یوم عرفہ کا روزہ رکھنا مسنون ہے۔ بلکہ اس ایک دن(يوم عرفه) کا روزہ دوسال کے گناہوں کے کفارہ کا موجب ہے۔
حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:
"عرفہ کے دن کا روزہ سابقہ اور لاحقہ سال کے گناہوں کوختم کردیتا ہے۔"
(مسلم: 1162)
القرآن:
قسم ہے فجر کی.
اور دس راتوں کی.
اور جفت اور طاق کی.
اور رات کی جب وہ گزر جاتی ہے.
یقینا اس میں صاحب عقل کے لیے بہت بڑی قسم ہے.
سورۃ الفجر (89)
آیت 1-5
نوٹ: مختلف تفاسیر کے مطابق دس راتوں سے ذی الحج کا پہلا عشرہ مراد ہے. جفت سے مراد یوم النحر 10 ذی الحج (قربانی کا دن) اور طاق سے مراد یوم عرفہ 9 ذی الحج (عرفات کا دن) ہے.
اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم کھائی ہے اور اور وہ اہم چیزوں ہی کی قسم کھاتا ہے۔فرمان تعالیٰ ہے:
(وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْر) )الفجر:1
"قسم ہے فجر کی! اور دس راتوں کی!۔"
جمہور مفسرین کے نزدیک فجر سے مراد یوم عرفہ کی نماز فجر ہے ۔ اور دس راتوں سے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔
رب العالمین کا ان ایام کی قسم کھانا درحقیقت ان کی بلندیِ عظمت کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ وہ عظیم چیز ہی کی قسم کھاتا ہے۔ جیسے عظیم ترین مخلوقات میں، آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، ہوائيں، نیز عظیم اوقات میں فجر، عصر، چاشت، رات دن نیز عظیم ترین جگہوں میں، مکہ مکرمہ کی قسم کھا کر ان کی عظمت اور بلندیِ مرتبہ پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس لیے ہمیں چاہئے کہ ان عظمت والے ایام میں کثرت سے نیک اعمال انجام دیں۔ برائیوں سے بچیں اور کمال محبت اور انکساری کے ساتھ رب کی اطاعت وبندگی بجالائیں۔ اور میدان عمل میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی پوری جد وجہد کریں تاکہ دونوں جہان میں کامیابی سے ہمکنار ہو تے ہوئے اس کے عظیم عفو وکرم،رحم ومغفرت کے حقدار بن سکیں اور زبان حال سے گنگناتے ہوئے اقرار کریں
بالاختصاریہ دس دن نہایت ہی مبارک ایام ہیں جن میں رب العالمین نے جملہ عبادات قلبیہ وبدنیہ اکٹھا کردیا ہے۔ جنہیں انجام دے کر بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہوئے وسیع جنتوں کا مستحق قرار پاسکتا ہے۔ اللہ رب العالمین ہم سب کو اس کا اہل بنائے، آمین۔

Sunday 5 October 2014

یاداشت بڑھانے کے 9 آسان طریقے


یاداشت بڑھانے کے 9 آسان طریقے

انسان کی عمر جیسے جیسے بڑھے، اس کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے ۔ لیکن ہر شخص احتیاطی تدابیر اپناکر اپنی یادداشت کو طویل عرصہ تک برقرار رکھ سکتا ہے ۔ اِن تدابیر کو اختیار کرنا چنداں مشکل نہیں جو درج ذیل ہیں:
(1) دماغ مضبوط کرنے والی غذائیں
ان میں وہ غذائیں سرفہرست ہیں جن میں اومیگا3 فیٹس‘ گلوکوز (ثابت اناج) اور ضدتکسیدی مادے (Antioxidants) ملتے ہیں۔ مزید برآں دن میں پانچ چھ بار کھانا کھائیے۔ وجہ یہ ہے کہ وقفے وقفے سے تھوڑا کھانا کھانے سے خون میں گلوکوز کی سطح برقرار رہتی ہے اور دماغ بنیادی طور پر گلوکوز ہی سے توانائی حاصل کرتا ہے۔
(2)دماغ کو مصروف رکھیے
ایسی سرگرمیاں اپنائیے جن سے دماغ کی ورزش ہو… مثلاً معمے حل کیجیے اور کراس ورڈ پزل کھیلیں۔ ان سرگرمیوں سے دماغ کی ورزش ہوتی ہے اور وہ چاق وچوبند رہتا ہے۔
(3) جسم کو فٹ رکھیے
روزانہ صبح سویرے یا شام کو تیز چہل قدمی کیجیے اور بدن پھیلانے والی ورزش کیجیے۔ ان ورزشوں کے ذریعے نہ صرف دماغ کا سفید مادہ بڑھتا ہے بلکہ مزید نیورون (خلویاتی) کنکشن بھی جنم لیتے ہیں۔
(4) دبائو نہ بڑھنے دیں
ورزش سے ذہنی و جسمانی دبائو کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ دراصل اس دبائو کے باعث جسم میں کورٹیسول کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے جو دماغ کے مراکزِ یادداشت کو سکیڑ دیتا ہے۔ مزید برآں عبادت اور مراقبہ بھی یادداشت بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
(5) فولاد کی سطح چیک کریں
ہمارے دماغ کے خصوصی خلیے نیوروٹرانسمیٹر ہماری یادداشت عمدہ حالت میں رکھتے ہیں۔ اور یہ خود فولاد کے ذریعے توانا رہتے ہیں۔ لہٰذا اپنے بدن میں اس اہم معدن کی کمی نہ ہونے دیجیے ۔ جن مرد و زن میں فولاد کی کمی ہو، وہ عموماً بھلکڑ بن جاتے ہیں۔
(6)ایک وقت میں ایک کام
کئی مرد و زن ٹی وی پر خبریں سنتے ہوئے کھانا کھاتے اور کبھی کبھی تو اخبار بھی پڑھنے لگتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یوں انہیں سنی گئی خبریں یاد رہتی ہیں اور نہ ہی پڑھا گیا مواد۔ یہ کھانے کا صحت بخش طریقہ بھی نہیں۔
دراصل جب ہم ایک وقت میں دو یا زائد کام کریں، تو دماغ پروسیسنگ کا عمل ایسے علاقوں میں منتقل کردیتا ہے جو تفصیل سے یادیں محفوظ نہیں کرتے۔ لیکن ایک وقت میں ایک کام کیا جائے تو دماغ اس کی جزئیات تک محفوظ رکھتا ہے۔
(7) کولیسٹرول پر قابو پائیے
انسانی جسم میں کولیسٹرول کی زیادتی بڑا خطرناک عمل ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف دل کی شریانوں میں چربی جمتی ہے بلکہ دماغ میں بھی خون کی نسوں میں لوتھڑے جنم لیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے دماغ کو قیمتی غذائیت نہیں ملتی اور بتدریج یادداشت جاتی رہتی ہے۔ واضح رہے دماغ میں تھوڑی سی چربی بھی نسیں بند کر ڈالتی ہے۔ لہٰذا اپنا کولیسٹرول اعتدال پر رکھیے۔
(8) ادویہ پر نظر رکھیں
کئی ادویہ انسانی یادداشت پر منفی اثرات ڈالتی ہیں اور ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ انسان جتنا بوڑھا ہو، دوا اتنی ہی دیر تک اس کے بدن میں رہتی ہے۔ نظام یادداشت پر اثرانداز ہونے والی ادویہ میں اینٹی ڈیپریسنٹ، بیٹابلاکرز، کیموتھراپی، پارکنسن مرض کی دوائیں، نیند آور، دردکش، اینٹی ہسٹامائنز اور اسٹاٹینس شامل ہیں۔
(9) ایک سیب روزانہ کھائیے
سیب میں شامل ضد تکسیدی مادوں کی بلند مقدار زیادہ ایسیٹلکولین (Acetylcholine) کیمیائی مادہ پیدا کرتی ہے۔ دماغ میں ملنے والا یہ نیورو ٹرانسمیٹر عمدہ یادداشت کے لیے لازمی ہے۔ مزید برآں درج بالا ضد تکسیدی مادے دماغ کو مضرصحت آزاد اصلیوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔

آلو کے کمالات


آلو کے کمالات

یہ ایک معصوم، پُرخلوص، باوفا اور سدا بہار ترکاری ہے۔ اسی معصومیت کی بنا پر ساری دنیا آلو کے ساتھ استحصالی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، یعنی اسے ہر جگہ ہر شکل میںکھایا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں بھی تو بے چارہ کبھی چپس اور سموسے کی لذت بنتا ہے، کبھی بھجیا کی شکل میں خوشبو اور ذائقے کا منبع ہوتا ہے، یا اپنے پُرخلوص ہونے کی صلاحیت کی بنا پر کسی نہ کسی سبزی سے رواداری نبھاتا ہے۔ یعنی اس بے چارے معصوم آلو کو کسی بھی سبزی کے ساتھ پکائیں، تو یہ اخوت و بھائی چارے کا مظاہرہ کرکے لذتِ کام و دہن بڑھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی آلو گوشت پکتا ہے تو کبھی آلو بینگن، کبھی آلو گوبھی… غرض اس سبزی کے بے شمار روپ ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ہر بار نئی لذت ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ سارا سال خاطر و خدمت میں مصروف رہتا ہے اور دیگر نازک مزاج سبزیوں کی طرح جلد خراب نہیں ہوتا۔
یورپ والے تو جیتے ہی آلو کے سر پر ہیں۔ برصغیر میں اسے اگر ہم ترکاری کے طور پر استعمال کرتے ہیں، تو یورپی اسے اناج کی جگہ کھاتے ہیں اور خوب کھاتے ہیں۔ ان کے غذائی نقشے کا مطالعہ کیا جائے تو کچھ اس قسم کا ہوگا: ابلے ہوئے آلو، تلے ہوئے آلو، کچلے ہوئے آلو یعنی آلو ہی آلو۔ بعد اس کے ساتھ ان کے ماکولات و لوازمات۔ بے چارے پاکستانی بھی جن میں زیادہ تر طالب علم یا سیاح ہوتے ہیں، اسی آلو کی رفاقت کے سہارے پردیس کاٹتے ہیں، یعنی پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ یوں یہ آلو کے پُرخلوص ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔
محتاط اعداد و شمار کے مطابق صرف امریکہ میں آلو کی سالانہ پیداوار 32 کروڑ من ہے، یعنی وہاں کا ہر باشندہ سالانہ 96 کلو آلو کھاتا ہے۔ یہی حال باقی یورپ کا ہے۔ آلو میں حد درجہ غذائیت پائی جاتی ہے، اس لیے بطور خوراک بھی اگر صرف اسے ہی کھایا جائے تو کسی قسم کی کمزوری واقع نہیں ہوتی۔ اس کاغذائی تعارف کچھ اس طرح ہے: سو گرام آلو میں 74.7رطوبت، 1.6فیصد پروٹین، 0.1 فیصد چکنائی، 0.6فیصد معدنی اجزا، 0.4 فیصد ریشہ اور 22.6 فیصد کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اس کے معدنی اور حیاتینی اجزا میں کیلشیم 10 ملی گرام، فاسفورس 40 ملی گرام، فولاد .7 ملی گرام، وٹامن سی 17 ملی گرام اور کچھ مقدار میں وٹامن بی کمپلیکس شامل ہیں۔ آلو کے سو گرام کی غذائی صلاحیت 97 حرارے (کیلوری) ہے۔
کچھ لوگ اس ڈر سے آلو کھانا چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ موٹاپا پیدا کرتا ہے۔ حالانکہ یہ اس پر سراسر الزام ہے۔ چونکہ آلو میں چکنائی یا چربی جیسی چیز کا فقدان ہے اس لیے یہ موٹاپے کا باعث نہیں بن سکتا۔ موٹے آپ کسی اور وجہ سے ہوں گے یا ہوسکتے ہیں۔
آلو کی عوام دوستی کے باوجود زیادہ تر لوگ اس کے مکمل خواص سے آگاہی نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس معصوم سبزی کو کبھی توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھا۔ دراصل قدر اُس چیز کی ہوتی ہے جس کے لیے تگ و دو اور تردد کرنا پڑے۔ مثلاً نئے موسم کی مہنگی سبزیاں، مرغی، مچھلی یا بکرے کا گوشت۔ آلو بے چارہ تو گھر کی مرغی دال برابر ہے کہ مندرجہ بالا غذائوں سے کہیں زیادہ افادیت، بے شمار استعمال اور ٹوٹکوں کے باوجود اسے وہ مقام حاصل نہیں جو ان کے حصے میں آیا ہے۔ آئیے آج ہم آپ کو بطور غذا اور دوا آلو کے کرشموں سے متعارف کرواتے ہیں۔ امید ہے کہ اس سے آلو صاحب کی عزت میںکافی اضافہ ہوگا۔
آلو بطور غذا
آلو میں معدنی نمک اور وہ وٹامن باقی ترکاریوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتے ہیں جو بچوں کی نشوونما کرتے ہیں، اس لیے بچوں کے لیے یہ نہایت مفید اور مقوی غذا ہے۔ اس میں چونا کم ہوتا ہے مگر یہ کمی دیگر سبزیوں اور میوہ جات سے پوری ہوجاتی ہے۔ یاد رہے کہ بچوں کو آلو کا شوربا یا اُبلا ہوا آلو مسل کر دیں۔
آلو کے اہم ترین غذائی اجزا اس کے چھلکے میں اور نیچے ہوتے ہیں، یعنی آلو کی زیادہ تر غذائیت چھلکے کے نزدیک ہوتی ہے۔ اس لیے اگر آلو کو چھیلے بغیر استعمال کیا جائے تو یہ بہترین طریقہ ہے۔ اگر کسی سالن یا اور چیز میں آلو کے بڑے بڑے ٹکڑے استعمال کیے جائیں تو چھلکے سمیت پکائیں، بعد میں ان کے پتلے پتلے چھلکے اتارے جا سکتے ہیں۔ اگر چھیلنا مقصود ہو تو اسے ہمیشہ کھرچ کر چھیلیں تاکہ زیادہ سے زیادہ غذائی اجزا بچا سکیں۔ آلو ابالنے کا طریقہ بھی یہ ہے کہ انہیں دیگچی میں ٹھنڈے پانی میں ڈال کر تیز آنچ پر رکھ دیں۔ پانی ابلنے لگے تو چولہا آہستہ کردیں تاکہ آلو آہستہ آہستہ گل جائیں۔ وہ پانی جس میں آلو ابالتے ہیں، وہ بھی خاصی غذائیت رکھتا ہے۔ کوشش کریں کہ اس پانی کو نتھار کر سالن میں استعمال کرلیں۔ دم پخت طریقے سے پکانے پر آلو کی غذائیت سب سے زیادہ برقرار رہتی ہے۔
بھنا ہوا آلو بھی مزے کی چیز ہوتا ہے۔ جیسے کہ شکر قندی بھوبل میں بھونی جاتی ہے اسی طرح آلو بھی بھونے جاتے ہیں جن کا ذائقہ لاجواب ہوتا ہے۔ اگر آلوئوں کی سطح کو بھوننے سے پہلے گھی یا مکھن سے چپڑ دیں، تو بھننے پر ان کا چھلکا نہایت نرم اور مزیدار ہوگا اور اتارنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ خصوصاً بچوں کے لیے بہترین غذا ہے بلکہ غذائیت کا سربمہر خزانہ۔
آلو بطور دوا:
ریح:… بعض لوگ کہتے ہیں کہ آلو دیر ہضم اور بادی یعنی ریاح پیدا کرنے والا ہے۔ لیکن یہ خیال غلط ہے۔ آلو جلد ہضم ہونے والی غذا ہے، چونکہ اس میں قدرتی کھار ہوتی ہے اس لیے جسم میں کھٹائی اور یورک ایسڈ کو زائل کرتا ہے، لہٰذا یہ ریاح پیدا نہیں کرتا بلکہ ہر قسم کی ریح کو دور کرتا ہے۔
تیزابیت:… آلو سب غذائوں سے زیادہ الکلی رکھتا ہے۔ اس لیے یہ بدن میں الکلی کا ذخیرہ برقرار رکھنے اور اضافی تیزابیت کے خلاف تریاق کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ یورک ایسڈ کو تحلیل کرکے خارج کرتا ہے۔ اس کے علاوہ انتڑیوں میں غذائی تخمیر کی معاونت اور اعضائے ہضم میں موافق جراثیم کی نشوونما کرتا ہے۔
قبض:… طبی طور پر آلو قبض کشا اور پیشاب آور ہے۔ طبیعت کو آرام دیتا ہے۔ دودھ پیتے بچے کے لیے آلو کا شوربہ اور آلو کا بھرتہ مفید ہے۔
گردے کی پتھری:… یورپ کے ایک ڈاکٹر کا قول ہے کہ گردے کی پتھری میں اگر اور علاج نہ کیا جائے، تو آلو کا باقاعدہ استعمال پتھری کو توڑ کر نکال دیتا ہے۔ اس کے ساتھ وافر مقدار میں پانی پینا بھی سودمند ہے۔
سکروی:… اس مرض کا علاج بھی آلو میں پوشیدہ ہے۔ ماہرین نے تحقیق کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ یورپ میں سکروی کا مرض کم سے کم ہورہا ہے اور اس کی وجہ آلو کی کاشت میں اضافہ ہے۔ جن دنوں آلو کی فصل تباہ ہوجائے، تو سکروی کا مرض بڑھ جاتا ہے۔ یورپی معالجین اس مرض کا علاج آلو سے بنائی گئی کریم سے کرتے ہیں۔ کچھ معالج تو اس مقصد کے لیے محض آلو کا ملیدہ استعمال کرتے ہیں۔
گٹھیا کا مرض:… کچے آلو کا رس گٹھیا کے مرض کا کامیاب علاج سمجھا جاتا ہے۔ کدوکش کیے ہوئے تازہ آلو نچوڑ کر رس نکالیں اور کھانے سے پہلے ایک یا دو چمچ پئیں۔ بدن میں یورک ایسڈ ختم کرنے اور گھٹیا کے مرض کی شدت کم کرنے میں فائدے مند ہے۔ آلو کا چھلکا بھی اس مرض کا عمدہ علاج ہے، کیونکہ اس میں اہم معدنی نمکیات ہوتے ہیں، چنانچہ آلو کے چھلکوں کو دھوکر چند منٹ تک پانی میں ابالیں، اب اس جوشاندے کو چھان کر دن میں تین چار بار ایک گلاس مریض کو پلائیں۔
نظام ہضم:… کچے آلو کا رس معدے اور انتڑیوں کی بے قاعدگی میں مفید ہے۔ معدے کے السر کا علاج سرخ آلو کے رس سے کیا جاتا ہے۔ یہ معدے کے ورم کو بھی ٹھیک کرتا ہے۔ مناسب خوراک یہ ہے کہ دن میں دو یا تین دفعہ کھانا کھانے سے آدھا گھنٹہ پہلے آدھی پیالی رس پی لیجیے۔ آلو کا نشاستہ غذائی نالیوں کے امراض اور زہریلے پن کے سبب پیدا ہونے والی سوجن بھی تحلیل کرتا ہے۔
جلد کے داغ دھبے:… کچے آلو کا رس جلد کے داغ دھبے دور کرنے میں بھی آزمودہ کار ہے۔ اس کی یہ مصفی تاثیر پوٹاشیم، گندھک، فاسفورس اور کلورین کی وجہ سے ہے۔ لیکن یہ اجزا اُسی وقت تک مؤثر رہتے ہیں جب تک آلو کچی حالت میں رہے۔ آگ پر پکانے کی صورت میں یہ نامیاتی جوہر ضائع ہوجاتے ہیں اور ان کی افادیت کم ہوجاتی ہے۔
کچے اور کچلے ہوئے آلو کا رس دار گودا جلد پر لگائیں اور دس یا پندرہ منٹ بعد سادے پانی سے دھو لیں، تو جھریاں اور بڑی عمر کے سبب پڑنے والے داغ دھبے صاف ہوجاتے ہیں۔ ایک آلو درمیان سے کاٹ لیں اور کٹے ہوئے آلو کو سونے سے پہلے کچھ دیر چہرے پر رگڑیں، یہ جھریاں اور داغ دھبے دور کرنے کے ساتھ ساتھ رنگت بھی نکھارتا ہے۔
سوجن:… کچے آلو کا رس بیرونی استعمال کے ذریعے سوجن، جوڑوں اور پٹھوں کا درد دور کرتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ رس کو اتنا پکایا جائے کہ اگر یہ ایک گلاس ہے، تو پون گلاس رہ جائے۔ ٹھنڈا ہونے پر اس میں تھوڑی مقدار میں گلیسرین شامل کرلیں۔ یہ اسے محفوظ بنانے میں مدد دیتی ہے۔ متاثرہ حصے کو ٹکور کرنے کے بعد رس کی مالش کی جائے۔ ہر تین گھنٹے بعد کی مالش سوجن اور درد کو دور کردے گی۔
جلنے کا زخم:… اگر جسم کا کوئی حصہ جھلس جائے تو کچا آلو کدوکش کرکے، رس دار گودے کو جلے ہوئے حصے پر لگا دیں، فوراً آرام آجائے گا اور جلن دور ہوگی۔
زنگ کا داغ:… اگر کسی کپڑے پر زنگ کا داغ پڑ جائے تو داغ والی جگہ پر کچا آلو کاٹ کر رگڑیں اور فوراً دھو لیں، داغ دور ہوجائے گا۔

دارچینی


دارچینی (Cinnamon) کو کون نہیں جانتا مگر اکثریت یہی جانتی ہے کہ یہ پلاؤ میں استعمال ہوتی ہے یا گرم مصالحہ کا ایک جزو ہے ۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ ایک خاص قسم کے قہوہ میں بھی ڈالی جاتی ہے ۔ درست لیکن اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے دارچینی کو ایک خطرناک انسانی بیماری کا تریاق بنایا ہے ۔ فی زمانہ کھانے یا قہوہ میں دارچینی کے استعمال کی وجہ اس کی مہک ہے ۔

امریکہ کے ماہرینِ طب اس بات پر بہت پریشان تھے کہ مشرقی دنیا میں بسنے والے روکھی سوکھی کھانے کے باوجود زیادہ صحتمند ہوتے ہیں اور ان کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہیں جبکہ یورپی اور امریکی باشندے جنہیں اُن کے خیال کے مطابق ہر نعمت میسّر ہے وہ بیماریوں مین مبتلا رہتے ہیں اور ان کی عمریں بھی کم ہوتی جا رہی ہیں ۔ گذشتہ ایک صدی میں جب مشرق قریب کے لوگوں نے کھانے پینے میں یورپ اور امریکہ کی نقل شروع کی تو ان میں یورپ اور امریکہ کی بیماریاں بڑھیں اور اور ان کی عمریں بھی کم ہونا شروع ہوئیں ۔

ان حالات کے زیرِ اثر امریکہ کے سائینسدانوں نے مشرقِ بعید کے لوگوں کے خورد و نوش کی اشیاء پر تحقیق شروع کی ۔ سالہا سال کی تحقیق سے واضح ہوا کہ مشرق بعید کے لوگوں کی صحت اور لمبی عمر کا راز اُن جڑی بوٹیوں میں ہے جو وہ روز مرّہ خوراک میں استعمال کرتے ہیں ۔ اس سے قبل میں سبز چائے یا قہوہ ۔ سؤنف ۔ سفید زیرہ اور کالی مرچ کے متعلق لکھ چکا ہوں ۔ آج اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی دی ہوئی ایک اور مسلّم نعمت دارچینی کا ذکر ۔ میرا خیال ہے کہ میں زکام اور حساسیت کا عام خوراک سے علاج بھی لکھ چکا ہوں

دارچینی اِنسُولِین کا بہترین اور زیادہ مؤثر نعم البدل ہے ۔ اس لئے دارچینی کا مناسب استعمال ذیابیطس پر قابو رکھتا ہے ۔ ذیابیطس کی دو قسمیں بتائی جاتی ہیں ۔ قسم 1 جو عام ذیابیطس ہے اور اس کا علاج اِنسُولِین سے کیا جاتا ہے ۔ اور قسم 2 جس کا علاج ایلوپیتھی میں ابھی تک صحیح دریافت نہیں ہوا ۔ دارچینی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف ذیابیطس قسم 1 بلکہ قسم 2 کا بھی مؤثر علاج ہے ۔

دارچینی زکام کے علاج کیلئے مجرب نسخہ ہے اور آرتھرائٹس میں بھی مفید ہے ۔ اگر دارچینی کو پانی میں ڈال کر خُوب اُبال لیا جائے پھر اس میں سبز چائے جسے عام طور پر چائینیز ٹی کہا جاتا ہے ڈال کر چولہے سے اُتار لیا جائے ۔ یہ قہوہ روزانہ رات کے کھانے کے بعد پیا جائے تو نہ صرف معدے میں گیس بننے سے روکتا ہے بلکہ کولیسٹرال کو اعتدال میں لاتا ہے اور کئی قسم کے سرطان سے بچاتا ہے ۔

آج کی ترقی یافتہ دنیا میں 170 ملین یعنی 17 کروڑ لوگ ذیابیطس کے مرض میں مبتلاء ہیں جو یورپ اور امریکہ کی بہت مہنگی دوائیاں استعمال کرتے وہ اس سادہ اور سستے نسخہ سے فیضیاب ہو سکتے ہیں