Monday 28 July 2014

ﻏﺰﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟


ﻏﺰﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﻏﺰﮦ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﻨﺎﺯﻋﮧ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﻥ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺣﻘﺎﺋﻖ
ﺳﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﺍﻗﻒ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ۔ ﺗﺎﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺻﻞ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ
ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﯼ ﯾﮑﺴﻮﺋﯽ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮕﺎﻧﮕﺖ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﮨﺮﮦ
ﮐﺮﺳﮑﯿﮟ :
.1 ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻧﮯ 1967 ﮐﯽ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﻏﺰﮦ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ
ﺳﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻏﺰﮦ ﭘﭩﯽ ﮐﯽ ﺳﺮﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰﻗﺒﻀﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔
.2 ﻏﺰﮦ ﮐﮯ ﺗﯿﻦ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺳﺮﺣﺪﯾﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ
ﺑﺮﯼ ﻭ ﺑﺤﺮﯼ ﻓﻮﺝ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﻃﺮﺡ ﻧﺎﮐﮧ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﺮﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺟﺎﻧﺐ
ﻣﺼﺮ ﮐﯽ ﺳﺮﺣﺪ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺳﺮﺣﺪ ﭘﺮ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﮐﮯ ﻣﺒﺼﺮﯾﻦ ﻭ
ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺼﺮ ﮐﯽ ﻓﻮﺝ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ
ﻏﺰﮦ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﺩ ﮐﮯ ﺩﺍﺧﻠﮯ ﯾﺎ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﺎ ﺟﺎﺳﮑﮯ ۔ ﻏﺰﮦ ﺍﯾﮏ
ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﻗﯿﺪ ﺧﺎﻧﮧ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﭘﺮﻧﺪﮦ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﺭﺳﮑﺘﺎ ۔
.3 ﻏﺰﮦ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻨﺪﺭﮔﺎﮦ ﯾﺎ ﺍﯾﺮﭘﻮﺭﭦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ
ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔
.4 ﻏﺰﮦ ﮐﮯ ﻋﻮﺍﻡ ﻏﺰﮦ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺳﮑﺘﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺎﺳﭙﻮﺭﭦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﭼﻮﮐﯿﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺩ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ
ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻏﺰﮦ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ۔ ﺩﺍﺧﻠﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ۔ﻋﺎﻡ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﻮ
ﭼﮭﻮﮌﯾﮯ ﮐﺴﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺍﻋﻠﯽ ﺗﺮﯾﻦ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﻗﺎﺋﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ
ﻏﺰﮦ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﯽ ۔ ﻏﺰﮦ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﻮ
ﺑﺎﻗﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﻃﺮﺡ ﮐﭩﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔
.5 ﺭﻭﺯﻣﺮﮦ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺷﯿﺎﺍﻥ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﭼﻮﮐﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﮨﯽ
ﺁﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺩﻭﺩﮪ ، ﺍﻧﺎﺝ ، ﺩﻭﺍﺋﯿﺎﮞ ﺟﯿﺴﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ
ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮩﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﭼﯿﮏ ﭘﻮﺍﺋﻨﭩﺲ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻥ
ﭼﻮﮐﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺷﯿﺎ ﭘﺮ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﭨﯿﮑﺲ ﻋﺎﺋﺪ
ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔
.6 ﻏﺰﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﺟﯿﻞ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮨﮯ ۔ ﺍﯾﮏ ﭘﻮﺭﺍ ﻣﻠﮏ ﻧﺎﮐﮧ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ
ﮨﮯ۔ ﺧﻮﺩ ﻏﺰﮦ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﮭﯽ ﮐﺌﯽ ﺍﮨﻢ ﮔﺰﺭﮔﺎﮨﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﭼﯿﮏ
ﭘﻮﺳﭩﺲ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺍﻥ ﭼﯿﮏ ﭘﻮﺳﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ
ﻏﺰﮦ ﮐﮯ ﺷﮩﺮﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺗﻨﮓ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔
.7 ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﻧﮯ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺳﮯ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻏﺰﮦ ﮐﯽ ﯾﮧ
ﻏﯿﺮ ﻗﺎﻧﻮﻧﯽ ﻧﺎﮐﮧ ﺑﻨﺪﯼ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﮮ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮﺟﮧ
ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ۔ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ 50 ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ
ﻗﺮﺍﺭﺩﺍﺩﯾﮟ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮐﯽ ﮔﺌﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻣﺮﮐﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﭘﺸﺖ ﭘﻨﺎﮨﯽ
ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻥ ﻗﺮﺍﺭﺩﺍﺩﻭﮞ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ۔
.8 ﻏﺰﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻏﺬﺍﺍﻭﺭ ﺍﺷﯿﺎﺋﮯ ﺿﺮﻭﺭﯾﮧ ﮐﯽ ﻗﻠﺖ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ
ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻏﺰﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺩﺭﺁﻣﺪﺍﺕ ﮐﻮ ﻏﯿﺮ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺭﻭﮎ
ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺷﮑﻨﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻃﺮﯾﻘﻮﮞ ﺳﮯ
ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ﮐﮭﮍﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺩﻭﮐﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺭﺍﺷﻦ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ، ﺍﺳﭙﺘﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻻﺯﻣﯽ ﺩﻭﺍﻭﮞ ﮐﯽ ﻗﻠﺖ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ
ﮐﺎﻓﯽ ﻗﻠﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﭩﺮﻭﻝ ﻭ ﮔﯿﺲ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻗﻠﺖ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ
ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻏﺰﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﮩﻨﮕﺎﺋﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ ۔ ﺍﻭﺭ ﻏﺮﺑﺖ
ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺗﯿﺰﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ۔ﻏﺰﮦ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻏﺬﺍ
ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﯿﮟ ۔
.9 ﯾﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺷﺪﯾﺪ ﺯﺧﻤﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﮐﺎ
ﻋﻼﺝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺎﮨﺮﮈﺍﮐﭩﺮ ﯾﺎ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﺁﻻﺕ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﻓﻮﺝ ﻭﻗﻔﮯ ﻭﻗﻔﮯ ﺳﮯ ﻏﺰﮦ ﭘﺮ ﺑﻤﺒﺎﺭﯼ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ } ﺍﺱ
ﻭﻗﺖ ﺟﺎﺭﯼ ﺷﺪﯾﺪ ﺑﻤﺒﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ { ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﻤﺒﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺷﮩﺮﯼ
ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﯾﮧ ﺯﺧﻤﯽ ﺷﮩﺮﯼ ﭼﯿﮏ ﭘﻮﺳﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯿﻮﮞ
ﺳﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻋﻼﺝ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯼ
ﺟﺎﺋﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﮯ ﺭﺣﻢ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ ۔ ﺍﺱ
ﻃﺮﺡ ﺟﻦ ﺯﺧﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻌﺬﻭﺭﯼ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔
.10 ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﮮ ﮨﯽ ﺧﻮﺷﺤﺎﻝ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﯾﮧ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﺁﺝ
ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺮﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﮐﺲ ﺍﻭﺭ ﻗﯿﺪﯼ ﺑﻦ ﮐﺮﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ﮨﻢ ﺍﻥ
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ، ﺻﺪﻣﮯ ، ﺍﺫﯾﺖ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺳﺮﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ
ﻗﯿﺪﯼ ﻭ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ ۔
ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً 50 ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﺪﻭ ﺟﮩﺪ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﮩﺮﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﻧﺌﯽ ﻧﺌﯽ ﺑﺴﺘﯿﺎﮞ
ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﮨﺮ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﺩﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ
ﻃﺮﺡ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﺩﻡ ﺗﻮﮌﺗﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ
ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﺩﺭﺩ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻏﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﺪﺍﺭ
ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﻣﻦ ﻣﺬﺍﮐﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺩﺭﺣﻘﯿﻘﺖ ﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﻮ
ﻟﯿﺖ ﻭ ﻟﻌﻞ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﻧﺌﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﺑﺴﺘﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﺎﻧﺎﺕ
ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﮐﮯ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮐﺮﺳﮑﮯ ۔
ﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯽ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﭽﮫ ﮐﺮﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ ۔
ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺧﻮﺩ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻥ
ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺪﺳﻠﻮﮐﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﭘﮩﻨﭽﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻼﮎ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺗﻤﺎﺷﺎﺋﯽ
ﺑﻨﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ۔ ﻭﮦ ﻧﮩﺘﮯ ﮐﻤﺰﻭﺭﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺳﺮﻭﺳﺎﻣﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ 50 ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﺍﻥ
ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺑﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﻮﭨﺎﻋﺎﻟﻤﯽ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﺎ
ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﻏﺰﮦ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﮨﻮ ﺍﻭﺭﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ
ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻟﮍﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔ ﯾﺎ ﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯽ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻭ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﺟﺪﻭ ﺟﮩﺪ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔

Sunday 27 July 2014

دماغ مضبوط کرنے والی غذائیں

انسان کی عمر جیسے جیسے بڑھے، اس کی یادداشت کمزور ہو جاتی ہے۔ لیکن ہر شخص احتیاطی تدابیر اپنا کر اپنی یادداشت کو طویل عرصہ تک برقرار رکھ سکتا ہے۔ اِن تدابیر کو اختیار کرنا چنداں مشکل نہیں جو درج ذیل ہیں۔

(1)۔ دماغ مضبوط کرنے والی غذائیں
ان غذائوں میں وہ سرفہرست ہیں جن میں اومیگا3فیٹس‘ گلوکوز (ثابت اناج) اور ضدتکسیدی مادے (Antioxidants)ملتے ہیں۔ مزیدبرآں دن میں پانچ چھ بار کھانا کھائیے۔ وجہ یہ ہے کہ وقفے وقفے سے تھوڑا کھانا کھانے سے خون میں گلوکوز کی سطح برقرار رہتی ہے اور دماغ بنیادی طور پر گلوکوز ہی سے توانائی حاصل کرتا ہے۔
- (2)دماغ کو مصروف رکھیے
ایسی سرگرمیاں اپنائیے جن سے دماغ کی ورزش ہو… مثلاً معمے حل کیجیے اور کراس ورڈ پزل کھیلیں۔ ان سرگرمیوں سے دماغ کی ورزش ہوتی ہے اور وہ چاق چوبند رہتا ہے۔
(3)۔ جسم کو فٹ رکھیے
روزانہ صبح سویرے یا شام کو تیز چہل قدمی کیجیے اور بدن پھیلانے والی ورزش کیجیے۔ ان ورزشوں کے ذریعے نہ صرف دماغ کا سفید مادہ بڑھتا ہے بلکہ مزید نیورون (خلویاتی) کنکشن بھی جنم لیتے ہیں۔
(4)۔ دبائو نہ بڑھنے دیں
ورزش سے ذہنی و جسمانی دبائو کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ دراصل اس دبائو کے باعث جسم میں کورٹیسول کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے جو دماغ کے مراکزِ یادداشت کو سکیڑ دیتا ہے۔ مزیدبرآںعبادت اور مراقبہ بھی یادداشت بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
(5)۔ فولاد کی سطح چیک کریں
ہمارے دماغ کے خصوصی خلییٗ نیوروٹرانسمیٹر ہماری یادداشت عمدہ حالت میں رکھتے ہیں۔ اور یہ خود فولاد کے ذریعے توانا رہتے ہیں۔ لہٰذا اپنے بدن میں اس اہم معدن کی کمی نہ ہونے دیجیے۔ جن مرد و زن میں فولاد کی کمی ہو، وہ عموماً بھلکڑ بن جاتے ہیں۔
- (6)ایک وقت میں ایک کام
کئی مرد و زن ٹی وی پر خبریں سنتے ہوئے کھانا کھاتے اور کبھی کبھی تو اخبار بھی پڑھنے لگتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یوں انہیں سنی گئی خبریں یاد رہتی ہیں اور نہ ہی پڑھا گیا مواد۔ یہ کھانے کا صحت بخش طریقہ بھی نہیں۔
دراصل جب ہم ایک وقت میں دو یا زائد کام کریں، تو دماغ پروسیسنگ کا عمل ایسے علاقوں میں منتقل کر دیتا ہے جو تفصیل سے یادیں محفوظ نہیں کرتے۔ لیکن ایک وقت میں ایک کام کیا جائے، تو دماغ اس کی جزئیات تک محفوظ رکھتا ہے۔

(7)۔ کولیسٹرول پر قابو پائیے
انسانی جسم میں کولیسٹرول کی زیادتی بڑا خطرناک عمل ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف دل کی شریانوں میں چربی جمتی ہے۔ بلکہ دماغ میں بھی خون کی نسوں میں لوتھڑے جنم لیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے دماغ کو قیمتی غذائیت نہیں ملتی اور بتدریج یادداشت جاتی رہتی ہے۔ واضح رہے، دماغ میں تھوڑی سی چربی بھی نسیں بند کر ڈالتی ہے۔ لہٰذا اپنا کولیسٹرول اعتدال پر رکھیے۔
(8)۔ ادویہ پر نظر رکھیں
کئی ادویہ انسانی یادداشت پر منفی اثرات ڈالتی ہیں اور ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ انسان جتنا بوڑھا ہو، دوا اتنی ہی دیر تک اس کے بدن میں رہتی ہے۔ نظام یادداشت پر اثرانداز ہونے والی ادویہ میں اینٹی ڈیپریسنٹ، بیٹابلاکرز، کیموتھراپی، پارکنسن مرض کی دوائیں، نیند آور، دردکش، اینٹی ہسٹامائنز اور سٹاٹینس شامل ہیں۔
(9) – ایک سیب روزانہ کھائیے
سیب میں شامل ضد تکسیدی مادوں کی بلند مقدار زیادہ ایسیٹلکولین (Acetylcholine) کیمیائی مادہ پیدا کرتی ہے ۔ دماغ میں ملنے والا یہ نیورو ٹرانسمیٹر عمدہ یادداشت کے لیے لازمی ہے۔ مزیدبرآں درج بالا ضد تکسیدی مادے دماغ کو مضرصحت آزاد اصلیوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔
مفید اور دلچسپ تحقیقات

انگلیوں کی ساخت سے لے کر لپ اسٹک کے استعمال تک نئی سائنسی تحقیقات، جو آپ کو دم بخود کر دیں گی
ڈاکٹر شائستہ خان

لپ اسٹک میں زہریلی دھاتیں
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا،برکلے کے ماہرین نے مختلف کمپنیوں کی لپ اسٹکوں اور لپ گلوسز(Glosses) میں زہریلی دھاتیں مثلاً سیسہ، کیڈمیم، کرومیم اور المونیم دریافت کی ہیں۔ اس سامان آرائش میں دھاتوں کی مقدار زیادہ نہیں ہوتی، مگر ان خواتین کے لیے یہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں جو زیادہ لپ اسٹک یا لپ گلوس لگاتی ہیں۔
دراصل ہونٹوں پر لگی لپ اسٹک کھانے پینے یا زبان پھیرنے سے منہ میں داخل ہوتی رہتی ہے۔ جو خواتین زیادہ لپ اسٹک لگائیں، ان کے بدن میں زہریلی دھاتوں کی زائد مقدار داخل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا وہ ان کی صحت متاثر کرتی ہے۔
یاد رہے کہ سیسہ‘ کرومیم اور دیگر دھاتیں انسان میں پیٹ کی رسولیاں اور نظام اعصاب کی خرابیاں پیدا کرتی ہیں۔ یہ دھاتیں خصوصاً حاملہ خواتین اور بچیوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ لہٰذا لپ اسٹک کے استعمال میں احتیاط کیجیے اور کم سے کم لگائیے۔
اعضائے جسم کے راز
بالوں کے رنگ سے لے کر بازوئوں کی لمبائی اور ناخنوں تک ہمارے جسمانی اعضا کی شکل و صورت ہماری صحت کے کئی راز آشکار کرتی ہے۔ ان رازوں سے شناسائی مفید امر ہے کیونکہ اگر خطرے والی بات ہو، تو آپ بروقت اس کا سدباب کر سکتے ہیں۔
1۔ انگلیوں کی لمبائی
دوران حمل مختلف ہارمونز اور جینز (Genes) کے عمل سے بچے کی انگلیاں لمبی ہوتی ہیں۔ اگر کسی باعث اس عمل میں گڑبڑ ہو جائے، تو انگلیاں زیادہ لمبی یا چھوٹی ہو جاتی ہیں۔
امریکی بفلو یونیورسٹی کے ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جس مرد یا عورت کی انگشت شہادت (Index finger)انگشت حلقہ (Ring finger)سے چھوٹی ہو، وہ عموماً غصیلے، تند مزاج اور جھگڑالو ہوتے ہیں۔ یہ انکشاف ایک ہزار رضاکاروں کی انگلیوں پر تحقیق سے سامنے آیا۔ لیکن اس کی وجہ کیا ہے،ماہرین سائنس یا نفسیات یہ بتانے سے قاصر ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اُدھر برطانیہ کی واروک یونیورسٹی کے محققوں نے ایک تجربے میں دریافت کیا کہ جن مردوں کی انگشت شہادت‘ انگشت حلقہ سے زیادہ لمبی ہو‘ وہ مثانے کے سرطان کا زیادہ بڑی تعداد میں نشانہ بنتے ہیں۔ لہٰذا ان مردوں کو چاہیے کہ مرض سے بچنے کے حفاظتی اقدامات اپنائیں‘ مثلاً کم چکنائی والی غذا کھائیں‘ پھل و سبزی کا استعمال زیادہ کریں‘ ورزش کریں اور شراب نوشی سے دور رہیں۔
2۔سرخ بال اور درد کی شکایت
جرمن سائنس دانوں نے تحقیق و تجربے سے جانا ہے کہ سیاہ اور سنہرے بال رکھنے والوں کی نسبت سرخ بالوں والے مرد و زن زخمی ہونے یا علاج کراتے وقت زیادہ تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا خیال ہے کہ زائد تکلیف کا سبب وہی جین ہے جس میں تبدیلی کی وجہ سے بال سرخ ہوجاتے ہیں۔
3۔پست قامت طویل عمر پاتے ہیں
پچھلے ماہ طبی سائنس کے مشہور رسالے‘ ویسٹرن جرنل آف میڈیسن میں امریکی ماہرین کی ایک دلچسپ تحقیق طبع ہوئی۔ یہ تحقیق 25سال پر مبنی تھی اور اس دوران دنیا بھر کی تحقیقی رپورٹوں اور دستاویزات کا مطالعہ ہوا۔ مدعا یہ جاننا تھا کہ پست قامت مرد و زن لمبی عمر پاتے ہیں یا لمبا قد رکھنے والے؟
تحقیق سے انکشاف ہوا کہ چھوٹے بدن رکھنے والے انسان زیادہ لمبی عمر پاتے ہیں۔ نیز ان میں موذی بیماریاں بھی دیر سے جنم لیتی ہیں۔ واضح رہے‘ جاپانی‘ہانگ کانگ کے چینی اور یونانی طویل عرصہ زندہ رہتے ہیں… اور یہ سب مغربیوں اور دیگر ایشیائیوں کے مقابلے میں چھوٹے جسم رکھتے ہیں۔
طویل عمر پانے میں جسم کے سائز کے علاوہ جسمانی وزن‘ باقاعدگی سے ورزش اور مفید طبی عادات بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ لہٰذاانہیں اختیار کرنے سے طویل القامت مرد و زن بھی لمبی عمر پا سکتے ہیں۔
4۔کان کی لو اور حملہ قلب
کان کی لو میں پڑتی لکیریں‘ کم ہوتے بال‘ گنجا پن اور آنکھوں کے گرد چربی کی تہیں نہ صرف بڑھاپے کی آمد کا پتا دیتی بلکہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ آپ مختلف طبی مسائل میں گرفتار ہو چکے۔ خاص طور پر کان کی ایک یا دونوں لوئوں پر لکیر پڑنا اس امر کی نشانی ہے کہ آپ حملہ قلب (ہارٹ اٹیک) کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
آنکھوں کے نیچے کولیسٹرول استحالہ (میٹابولزم) میں خرابی کی وجہ سے چربی کی تہیں چڑھتی ہیں۔ اسی خرابی کے باعث جسم میں زائد چربی جنم لیتی ہے یا صحیح طرح بدن سے خارج نہیں ہو پاتی۔ اس خرابی سے بچنے کے لیے جسم میں کولیسٹرول کی سطح مسلسل چیک کیجیے اور بلڈ پریشر قابو میں رکھیے۔
5۔بایاں ہاتھ اور گھبراہٹ
کچھ لوگ دائیں اور بعض بائیںہاتھ سے لکھتے ہیں۔ امریکی یونیورسٹی آف لوئس ویل کے محققوں نے بعداز تحقیق یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ بائیں ہاتھ سے لکھنے والے دوسروں کی نسبت زیادہ جلد گھبراہٹ اور بے چینی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبب ان کے دماغ میں ہونے والی اچھوتی وائرنگ ہے۔
تحقیق سے یہ دلچسپ بات بھی سامنے آئی کہ جو مرد و زن لکھتے وقت یا دوران گفتگو دونوں ہاتھ استعمال کریں‘ وہ مثبت طرزفکر رکھتے اور بے چینی میں کم ہی مبتلا ہوتے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دماغ کے دونوں (دائیں و بائیں) حصوں سے مدد لیتے ہیں۔ اس تال میل کے باعث وہ منفی باتوں کی سمت متوجہ نہیں ہوتے۔
6۔چھوٹے بازوئوں والی عورتیں
امریکی طبی ادارے‘ کلیولینڈ کلینک سینٹر فار برین ہیلتھ نے طویل تحقیق کے بعد دریافت کیا ہے کہ جن خواتین کے بازو چھوٹے ہوں‘ یعنی ان کی لمبائی 16انچ سے کم ہو، وہ دوسروں کی نسبت الزائمر مرض کا زیادہ نشانہ بنتی ہیں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ احتیاط کریں اور جب الزائمر مرض کی علامات ظاہر ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

پتھری گردہ، مثانہ

پتھری گردہ، مثانہ
بھکڑا 50گرام،مکئی کے بال50گرام،چھلکا خربوزہ (خشک)50گرام پانی دو کلو
کو آگ پر پکائیں جب پانی 1500 گرام رہ جائے تو چھان کر اس میں ایک گرام
سوڈیم نبزویٹ ڈال کر محفوظ کرلیں
خوارک دوا۔۔۔۔دن میں تین بار ایک گلاس پانی میں ایک اونس ڈال کر پلائیں۔

Saturday 26 July 2014

احتلام


احتلام
جب بچہ بالغ ہوتا ہے تو اس میں منی بننے کی رفتار تیز  ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی جنسی خواھش بڑھ جاتی ہے- کیونکہ منی کو محفوظ نہیں کیا جا سکتا اس وجہ سے جب منی کی تھیلی بھر جاتی ہے تو جو اضافی منی ہوتی ہے وہ رات کو سوتے ہوۓ خواب کے ساتھ  یا بغیر خواب کے پیشاب کے راستے سے خارج ہو جاتی ہے-

لیکن ہمارے ہاں جنسی تعلیم کی کمی ہونے کی وجہ سے جب بچہ بالغ ہوتا ہے تو اسے احتلام کے بارے میں پتا نہیں ہوتا اور جب بچے کو احتلام پہلی بار ہوتا ہے تو اسے کچھ سمجھ نہیں آتا کے یہ ہوا کیا ہے اور نہ ہی وہ اپنے والدین سے پوچھنے کے قابل ہوتا ہے اس لیے یا تو وہ اپنے قریبی دوستوں سے اس بات کا ذکر کرتا ہے یا پھر دیواروں پر لگی نیم حکیموں کے لگے ہوۓ پوسٹرز کا شکار ہو جاتا ہے- آپ خود اندازہ لگائیے کہ ایک ایسا بچہ جو نیا نیا بالغ ہوا ہے وہ اپنے ہم عمر بچے سے کس قسم کی جنسی رہنمائے حاصل کرے گا ؟

مجھے ایک ایسے لڑکے سے ملنے کا اتفاق ہوا جو بہت دبلا پتلا سا تھا اور وہ اپنے اس دبلے پن کی وجہ احتلام کو ہی سمجھتا تھا اور یہ سب حکیموں کی ہی صحبت کا اثر تھا میں نے اسے سمجھانا شروع کیا کہ کیا تم بچپن میں موٹے تھے ؟ اس نے کہا نہیں تو میں نے کہا اگر تم بچپن میں ہی ایسے تھے تو پھر احتلام کو اپنے دبلے پن کی وجہ کیوں سمجھتے ہو ؟ جب کہ احتلام تو ایک فطری عمل ہے نا کے کوئی بیماری.

منی کے اخراج کا دوسرا بہترین ذریعہ احتلام ہے اس کی وجہ سے آپ زنا جیسے حرام کام سے بچ جاتے ہے- جن لوگوں کو کثرت سے مباشرت یا مشت زنی کا موقع نہیں ملتا ان کو احتلام اکثر ہو جایا کرتا ہے اور یہ ایک صحت مند مرد کی نشانی ہے نہ کہ بیماری کی- لیکن آپ جب اس معاملے کو اپنے ذہن پر سوار کر لیتے ہیں اور کسی حکیم وغیرہ کے چکر میں  پھنس جاتے ہیں تو عام طور پر حکیم لوگ بچے کا ذہن اس طرح خراب کرتے ہیں کہ احتلام سے حافظہ کمزور ہو جاتا ہے پڑھنے کا دل نہیں کرتا ( کس طالبعلم کا پڑھنے کو دل کرتا ہے ) بینائی کمزور ہو جاتی ہے چہرے پر سے رونق ختم ہو جاتی ہے- اعصاب کمزور پر جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ جب کے ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی یہ صرف اپنا کاروبار چمکنے کا ایک ذریعہ ہے اور کچھ نہیں-

کیا آپ میری اس بات کا یقین کریں گے کہ ان سب باتوں کا حقیقت سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے- ہاں البتہ کچھ لوگ احتلام کے بعد جسمانی طور  پر تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں- اور اس کی وجہ صرف  منفی سوچ اور وہ مشورے ہیں جو آپ کے دوست یا دیواروں پر لگی پوسٹرز آپ کے ذہن میں دالتے ہیں- آج کی نفسیات یہ ثابت کر چکی ہے انسان جو سوچتا ہے اسے ویسا ہی محسوس ہوتا ہے-

ہاتھ ہلکا اور بھری ہونے کا تجربہ
میں آپ کو اس کی مثال اس طرح سمجھاتا ہوں کے آپ اپنی آنکھیں بند کریں دونوں ہاتھ ہوا میں دائیں بائیں  پھیلا لیں اور سوچیں کے آپ کے ایک ہاتھ کے ساتھ ہوا والا غبارہ بندھا ہوا ہے جو کے آپ کے ہاتھ کو اوپر کی طرف لے جا رہا ہے  اور دوسرے ہاتھ کے پر ایک اینٹ رکھی ہے جس کے وزن سے آپ کا ہاتھ نیچے کو جا رہا ہے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد آپ محسوس کریں  گے کہ آپ کا ایک ہاتھ ہلکا ہے اور دوسرا ہاتھ بھری ہو  رہا ہے-

اس لیے کبھی بھی اپنے ذہن میں منفی خیالات کو جگہ مت دیں مشت زنی کرنے والی لڑکے خود کو گناہ گار محسوس کرتے ہیں اور دوسری طرف خود کو جسمانی اور ذہنی طور پر دن با دن کمزور ہوتا ہوا محسوس کرتے ہیں جب کے ایسا ہوتا کچھ بھی نہیں ہے اس سے انسان بلکل بھی کمزور نہیں ہوتا یہ بس ان منفی سوچوں کا اثر ہوتا ہے جو آپ کے ذہین میں بیٹھا دی گئی ہوتی ہیں-

اور جب لڑکا مشت زنی چھوڑتا ہے تو اسے احتلام شروع ہو جاتا ہے تو بیچارہ لڑکا عجیب پریشانی میں پھنس جاتا ہے کہ مشت زنی چوروں تو احتلام شروع ہو جاتا ہے اور اگر احتلام ہو تو کمزوری ہو جاتی ہے

احتلام کی چند وجوہات
1 : اس کی بری وجہ کسی اور ذریعہ سے منی کا خارج نہ ہونا ہے جب کسی اور ذریعہ سے منی خارج نہیں ہوتی اور تھیلی میں جمع ہوتی رہتی ہے تو اپنی مقدار سے زیادہ ہونے پر منی خارج ہو جاتی ہے کیونکہ کوئی بھی مرد منی کو محفوظ نہیں کر سکتا اس لیے احتلام ہونا ایک فطری عمل ہے

2 : رومانٹک فلمیں یا فحش فلمیں یا تصویریں یا انٹرنیٹ پر sexual sites دیکھنے سے بھی جنسی ہیجان پیدا ہوتا ہے اور جب کسی اور زائریہ سے منی خارج نہیں ہو پاتی تو احتلام ہو جاتا ہے-

3 : کسی لڑکی کے ساتھ رومانی ماحول میں گزرا ہوا وقت جب جنسی ملاپ کی شدید خواھش ہونے کے باوجود مباشرت نہ ہوئی ہو تو پھر وہ مناظر خواب میں آتے ہیں اور احتلام ہو جاتا ہے-

4 : نرم بستر ، تنگ پتلون ، اور under ware بھی احتلام کی ایک وجہ ہے-

ماہرین کا خیال ہے کہ احتلام ایک فطری اور صحت مند عمل ہے اس کا راستہ نہیں روکنا چاہیے ورنہ نوجوان جنسی آسودگی کے حصول کے لیے دوسرے راستے اختیار کری گا جو زیادہ تر حلال نہیں بلکہ حرام هوتے ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن نوجوانوں کو احتلام ہوتا ہے وو جنسی آسودگی کے حصول کے لیے دوسرے راستے اخیار نہیں کرتے-

درد کمر و وجوہات، احتیاط، ورزش اور علاج


درد کمر و وجوہات، احتیاط، ورزش اور علاج 

جوانی میں دل اور بڑھاپے میں کمر ۔ کمر کا درد عام ہوتا جا رہا ہے ہر گھر کا کم از کم ایک فرد تو اس کا شکار نظر آتا ہے ۔ زیادہ تر خواتین اس مرض کا شکار ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین کی کمزوری باربار حمل ہونا ، جھک کے بیٹھے رہنا ، جھک کر جھاڑو صفائی کرنا ، بھاری وزن اٹھانا وغیرہ ۔ اسی وجہ سے کمر درد خواتین میں زیادہ دیکھنے میں آتا ہے ۔ مردوں میں اس کی شکایت زیادہ تر ادھیڑ عمرمیں اور بوڑھوں کو ہوتی ہے لیکن تمام عمر کی خواتین اس درد کا شکار ہوتی ہیں چاہے وہ جوان ہوں ، ادھیڑ عمر یا بوڑ ھی ہوں ۔ درد کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں !

1۔ خاص وجوہات جوڑوں کی تکلیف ہو تو مریض کو کمر درد کی شکایت بھی ہوتی ہے اور مریض ہلکا بخار اور کھانسی بھی ہو جاتی ہے دوسرے شدید قبض کی وجہ سے بھی کمر میں درد رہتا ہے حمل رسولی اور خواتین کے خاص امراض میں بھی کمر درد ہوتا ہے اس کے علاوہ وزن کی کمی ، شکم میں درد کیلشیم اور خون کی کمی اور بھوک نہ لگنے سے کمر درد ہو سکتا ہے ۔

2۔ عام وجوہات گھٹنوں یا کمر کے سہارے کے بغیر بیٹھنا ، آگے کو جھک کر بیٹھنا ، اونچی ایڑی والے جوتوں کا استعمال کرنا ، بھاری وزن اٹھانا خاص طور پر ایک ہاتھ سے وزن اٹھانا ، غلط طریقے سے ورزش کرنا ڈھیلی چارپائی یا خراب فوم کے گدوں پر سونے سے بھی کمر درد ہوتا ہے ۔

احتیاط:

ایک ہی پوزیشن مین گھٹنوں پر بیٹھنے سے بچیں کمر کے پیچھے کوئی سہارا استعمال کریں دیوار یا تکیہ کا سہارا لیں ۔ سیدھی پشت والی کرسیوں کی بجائے خم دار پشت والی کرسیاں استعمال کریں براہ راست جھک کر زمین سے کوئی چیز نہ اٹھائیں ۔ پہلے بیٹھں پھر اٹھائیں ۔ اکیلے بھاری وزن نہ اٹھائیں ۔ جس ورزش سے کمر میں درد ہو سکتا ہو وہ نہ کریں ۔ فرش پر سوئیں یا بستر پر تختہ رکھ کر سوئیں ۔ جو خواتین ڈائیٹنگ کرتی ہیں وہ کیشیم استعمال کریں ایک گلاس دودھ روزانہ کافی ہے ۔

ورزش:

آپ بہت سادہ اور سہل ورزشوں کے ذریعے اپنی کمر کو مضبوط بنا سکتے ہیں اور کمر درد سے نجات پا سکتے ہیں ۔ یہ ورزشیں آپ صبح نیند سے بیدار ہونے کے بعد صرف چند منٹ میں مکمل کر سکتے ہیں ۔ فرش پر لیٹ جائیں ، گھٹنوں کو خم کر دیں لیکن اس طرح کے آپ کے پیروں کے تلوے مکمل طور پر فرش پر ہوں ۔ اب اپنی کمر کو آہستگی سے دبائیں کہ یہ فرش کو چھونے لگے اس طرح آپ کے پیٹ کے مسلز میں سختی پیدا ہوگی ۔

٭پیٹ کے بل لیٹ جائیں ، آپ کا چہرہ فرش کی طرف ہونا چاہئے ۔ اب اپنے پیروں کو ایک ساتھ اس طرح دبائیے کہ آپ کے پنجے باہر کو نکلے ہوں ۔ اب اپنے پیٹ کے درمیان والے حصے کو فرش پر دبائیے اس طرح آپ کے لہوں میں بھی سختی پیدا ہوگی ۔

٭اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل فرش پر بلی کی طرح پوزیشن اختیار کر لیجئے ۔ ہتھیلیاں فرش پر اور پیر باہر کو ۔ اب پیٹ کے عضلات میں سختی پیدا کر لیں اور اپنے سر کو نیچے کی طرف جھکا لیں حتیٰ کہ تھوڑی آپ کے سینے کو چھونے لگے ۔پیٹ کے بل فرش پر لیٹ جائیں آپ کا چہرہ فرش کو چھو رہا ہو ۔ گھٹنے کے ساتھ ساتھ جڑے ہوں ۔ اپنے بازوئوں کو جسم کے اوپر کے دھڑکے ساتھ اس طرح سے رکھیں کہ ہتھیلیاں اوپر کی طرف ہوں اور کہنیاں نچلی پسلیوں کو چھو رہی ہوں ۔ اب اپنی کہنیوں کو اٹھائے بغیر اپنے سر کو ممکن حد تک اوپر اٹھائیے لیکن یہ کام آہستگی سے کریں ۔ جب آپ ان ورزشوں کی اچھی طرح پریکٹس کر لیں تو اس کی بعد درج ذیل ورزش انجام دیں ۔

٭ کمر کے بل لیٹ جائیں ٹانگوں کو گھٹنوں سے بل دیں اور پائوں فرش پر رکھیں اس پوزیشن میں اپنے کندھوں کو اٹھا لیں اور آگے کی طرف جھکتے ہوئے گھٹنے پر اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیاں لگادیں ایسا دس مرتبہ کریں ۔

مجرب اور مفید نسخے :

جوڑوں کے درد کی بناء پر کمر میں درد رہتا ہو تو کھانے کے دو چمچے گھیگو ارکا گودا صبح نہار منہ اور رات کو سونے سے قبل استعمال کریں اس کے علاوہ گھیگوار (ALOVERA)کا حلوہ بھی بنایا جاتا ہے جس کے فوائد بے شمار ہیں ۔ اس کے حلوے کی ترکیب یہ ہے کہ گھیگوار کا گودا آدھا پائو کی مقدار میں لیں ۔ ایک پائو اصلی گھی میں اس گودے کو نرم آنچ پر بھون لیں آدھا کلو چینی کا قوام علیحدہ رتیار کر لیں چھوٹی الائچی بڑی الائچی ، مصطگی رومی، گلسرخ اور طباشیر کبود ہر ایک دس دس گرام اور سبز کشمش ، پستہ ، اخروٹ کا مغز کھوپرا، بادام اور سورنجان شیریں بوزیدان ہر ایک بیس بیس گرام لے کر باریک پیس لیں اب یہ پائوڈر قوام اور بھنے ہوئے گھیگوار کو یکجان کر لیں حلوہ تیار ہے بیس بیس گرام صبح وشام دودھ کے ساتھ استعمال کریں ۔

٭ موصلی سفید ، فلفل دراز ، اجوائن دیسی، پیلا مول دس دس گرام کی مقدار میں لیں اور میدہ لکڑی رنجیل آسگندنا گوری بیس بیس کی مقدار میں اس کے ساتھ ساتھ دیسی شکر حسب ذائقہ ملا لیں اب ان اشیاء کو باریک پیس لیں اب ان کی گولیاںبنا لیں دو دود گولیاں صبح و شام آدھے کپ سونف کے عرق کے ساتھ استعمال کریں ۔ یہ نسخہ کسی بھی وجہ سے ہونے والے کمر درد کے لئے مفید ہے ۔

٭ یہ نسخہ بہت آسانی سے تیار کیا جاسکتا ہے اور خواتین و مردوں کے مخصوص امراض کے لئے بہترین ہے پیپل کے تنے سے نکلنے والی گوند لے لیں اور دس گرام کی مقدار کو باریک کر کے کپڑے کی پاٹلی میں باندھ کر آدھا کلو دودھ میں ڈال دیں دودھ خوب اچھی طرح پکائیں پھر پوٹلی کو نکال کر پھینک دیں اب اس دودھ میں شکر ملا کر پی جائیں صبح و شام تین دن تک پینے سے انشاء اللہ کسی بھی مرض یا کمزوری کی وجہ سے کمر میں رہتا ہو اسے آرام آرام آجائے گا ۔

٭کمر کا درد اگر اعصابی جسمانی کمزوری کی وجہ سے رہتا ہو تو یہ نسخہ استعمال کر کے دیکھئے ۔ یہ نہ صرف کمر کے درد کے لئے مفید ہے بلکہ یہ مقوی دماغ و بدن بھی ہے ۔ حافظہ کو تیز کرتا ہے اور نسیان کو دور کرتا ہے ۔ جسمانی کمزوری دور کرتا ہے اور دماغی محنت کرنے الوں کے لئے ایک بیش بہا نعمت ہے ۔

ایک پائو چھوارے لے کر اس کی گٹھلی نکال لیں ایک پائو بھنے ہوئے چنے کا آٹا اور گندم کا نشاستہ بھی ایک پائو چلغوزہ ، بادام اور پستہ 50 گرام ، شکر اور گھی آدھا آدھا کلو ، دودھ دو لیٹر ۔ دودھ میں چھوارے کو اچھی طرح پکا لیں پسا ہوا چھوارا اسی دودھ میں دو بارہ ڈال دیں اب اس قدر پکائیں گاڑھا ہو کر کھوئے میں تبدیل ہو جائے اس کے بعد گھی کو کسی علیحدہ برتن میں گرم کر لیں جب یہ سرخی مائل ہونے لگے تو بھنے ہوئے چنے کا آٹا چھوارے اور دودھ کا کھویا ڈال کر اچھی طرح بھونیں جب خوشبو آنے لگے تو لکڑی کا چمچہ چلاتے رہیں جب گھی علیحدہ ہونے لگے تو تینوں میوے ہلکا کوٹ کر ڈال دیں اب کسی شیشے کے مرتبان میں محفوظ کر لیں دو چائے کے چمچ نہار منہ کھائیں یہ نسخہ مردوں اور عورتوں کے لئے مخصوص امراض کی بناء پر پیدا ہونے والی کمزوری کو بھی دور کر سکتا ہے استعمال کرکے دیکھئے آپ اسے مفید ہی پائیں گے ۔

چنے کھائیے، صحت پائیے

چنے کھائیے، صحت پائیے
دکانوں اور بازاروں میں عام دسیتاب چنے بڑی مفید غذا ہے۔ اسی لیے بحیرہ روم میں ساڑھے سات ہزار سال قبل اِسے بطور اناج بویا گیا۔ یہ دنیا کے قدیم ترین اناجوں میں شامل ہے۔
چنا دالوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی دو بنیادی اقسام ہیں:کالا چنا اور سفید چنا۔ دونوں وٹامن اور معدنیات سے بھرپور غذا ہیں۔ بھارت، پاکستان، ترکی، آسٹریلیا اور ایران میں چنا کثیر تعداد میں پیدا ہوتا ہے۔
چنا ایک دو نہیں کئی طبی فوائد رکھتا ہے۔ اس میں فولاد، وٹامن بی 6، میگنیشم، پوٹاشیم اور کیلشیم کافی مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ فاسفورس، تانبے اور میگنیز کی بھی خامی مقدار ملتی ہے۔ چنے کے طبی فوائد درج ذیل ہیں۔
وزن کم کیجیے
چنے میں ریشہ (فائبر) اور پروٹین کثیر مقدار میں ملتے ہیں۔ پھر اس کا گلائسیمک انڈکس بھی کم ہے۔ اسی بنا پر چنا وزن کم کرنے کے سلسلے میں بہترین غذا ہے۔ کیونکہ عموماً ایک پلیٹ چنے کھا کر آدمی سیر ہوجاتا ہے اور پھر اُسے بھوک نہیں لگتی۔
دراصل چنے کا ریشہ دیر تک آنتوں میں رہتا ہے۔ لہٰذا انسان کو بھوک نہیں لگتی۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو مرد و زن دو ماہ تک چنے کو اپنی بنیادی غذا رکھیں، وہ اپنا آٹھ پونڈ وزن کم کرلیتے ہیں۔ یاد رہے، ایک پیالی چنے عموماً پیٹ بھر دیتے ہیں۔
نظام ہضم کا معاون
چنے میں ریشے کی کثیر مقدار اُسے نظام ہضم کے لیے بھی مفید بناتی ہے۔ یہ ریشہ آنتوں کے جراثیم (بیکٹریا) کو مختلف مفید تیزاب مہیا کرکے انھیں قوی بناتا ہے۔ نتیجتاً وہ آنتوں کو کمزور نہیں ہونے دیتے اور انسان قبض و دیگر تکلیف دہ بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
ضد تکسیدی مادوں کی فراہمی
انسانی جسم میں آزاد ا اصلیے (مضر صحت آکسیجن سالمے) مختلف اعضا کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ضد تکسیدی مادے(Antioxidants)انہی سالمات کا توڑ ہیںجو مختلف صحت بخش غذائوں میں ملتے ہیں۔ ان غذائوں میں چنا بھی شامل ہے۔ چنوں میں مختلف ضد تکسیدی مادے مثلاً مائریسٹین(Myricetin)، کیمفوریل، کیفک ایسڈ، وینلک ایسڈ اور کلوروجینک ایسڈ وغیرہ ملتے ہیں۔ ان کے باعث چنا مجموعی انسانی صحت کے لیے بہت عمدہ غذا ہے۔
کولیسٹرول میں کمی
جسم میں کولیسٹرول بڑھ جائے،تو امراض قلب میں مبتلا ہونے اور فالج گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ چنے اپنے مفید غذائی اجزا کی بدولت فطری انداز میں کولیسٹرول کی سطحکم کرتے ہیں۔ ایک تجربے میں ماہرین نے ان مرد و زن کو ایک ماہ تک آدھی پیالی چنے کھلائے جن کے بدن میں کولیسٹرول زیادہ تھا۔ ایک ماہ بعد ان کے کولیسٹرول میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔
دراصل چنے میں فولیٹ اورمیگنیشم کی خاصی مقدار ملتی ہے۔ یہ وٹامن و معدن خون کی نالیوں کو طاقتور بناتے اور انھیں نقصان پہنچانے والے تیزاب ختم کرتے ہیں۔ نیز حملہ قلب(ہارٹ اٹیک)اِمکان بھی کم ہوجاتا ہے۔
گوشت کا بہترین نعم البدل
چنے میں خاطر خواہ پروٹین ملتا ہے۔ اگر اسے کسی اناج مثلاً ثابت گندم کی روٹی کے ساتھ کھایا جائے، تو انسان کو گوشت یا ڈیری مصنوعات جتنی پروٹین حاصل ہوتی ہے اور بڑا فائدہ یہ ملتا ہے کہ نباتی پروٹین زیادہ حرارے یا سیچوریٹیڈفیٹس نہیں رکھتی۔
ذیابیطس کی روک تھام
چنے اور دیگر دالیں کھانے والے ذیابیطس قسم 2 کا شکار نہیں ہوتے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ غذائیں زیادہ ریشہ اور کم گلائسیمک انڈکس رکھتی ہیں۔ اسی باعث ان میں موجود کاربوہائیڈریٹ آہستہ آہستہ ہضم ہوتے ہیں۔ اسی عمل کے باعث ہمارے خون میں شکر یک دم اوپر نیچے نہیں ہوتی اور متوازن رہتی ہے۔
یاد رہے، انسان جب کم ریشے والی کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور غذا کھائے، تو اُس کے خون میں شکر بہت تیزی سے اوپر نیچے ہوتی ہے۔جب یہ عمل معمول بن جائے، تو انسولین نظام گڑبڑا جاتا ہے۔ یوں ذیابیطس قسم 2جنم لیتا ہے۔
توانائی میں اضافہ
چنے میں شامل فولاد، مینگنیز اور دیگر معدن و حیاتین انسانی قوت بڑھاتے ہیں۔ اسی لیے چنا حاملہ خواتین اور بڑھتے ہوئے بچوں کے لیے بڑی مفید غذا ہے۔ یہ انھیں بیشتر مطلوبہ غذائیت فراہم کرتا ہے۔
مزید برآں چنا ساپونینز (Saponins) نامی فائٹو کیمیکل رکھتا ہے۔ یہ کیمیائی مادے ضد تکسید کا کام دیتے ہوئے خواتین کو سینے کے سرطان سے بچاتے۔ نیز ہڈیوں کی بوسیدگی کے مرض سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔
چنوں کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اُسے کئی ماہ تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے اور ان کی غذائیت کم نہیں ہوتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انھیں بھگونے کے بعد استعمال کیا جائے،تو بہتر ہے۔ یوں وہ جلد ہضم ہوجاتے ہیں۔ چنوں کو چار تا چھ گھنٹے بھگونا کافی ہے۔ بھگونے کے بعد چنے جتنی جلد استعمال کیے جائیں، بہتر ہے۔ چنے بھگوتے ہوئے اُن میں تھوڑا سا نمک اور میٹھا سوڈا ڈال لیا جائے، تو وہ جلد گل جاتے ہیں۔ - 

ریح ہار… جوڑوں کی ایک انتہائی پیچیدہ بیماری


ریح ہار… جوڑوں کی ایک انتہائی پیچیدہ بیماری
(ریموٹائیڈآرتھرائٹس کو اْردو زبان میں گھٹیا وجع مفاصل کہاجاتاہے۔ اردو،فارسی اور کشمیری زبان میں اس بیماری کو ریح ہار کا نام دیا گیاہے)
ریح ہار کو ڈاکٹری اصطلاح میں ریموٹائیڈ ا?رتھرائیٹس (RHEUMATIOD ARTHRITIS) کہا جاتاہے۔ یہ کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں میں جوڑوں کی سب سے زیادہ اورعام بیماری ہے۔تقریباً ہر سو افراد میں سے ایک فرد اس مرض میں مبتلا ہوتاہے۔ ا?رتھرائٹس کے لغوی معنی ہیں متورم یا ملہتب جوڑ۔آرتھرویونانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں جوڑ اور آئٹس (ITIS)یعنی ورم یا التہاب۔ بطور کْلی آرتھرائٹس کی ایک سو بیس قسمیں ہیں مگر ریح ہار جوڑوں کی سب سے زیادہ عام اور پیچیدہ بیماری ہے۔ یہ بیماری کسی بھی فرد کو بلالحاظ رنگ ونسل ، مذہب وعقیدہ سِن اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے مگر پچیس اور پچاس برس کی عمر کے اشخاص کو زیادہ تر اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔عورتوں میں مردوں کے مقابلے اس بیماری کی شرح تین گنا زیادہ ہے اور یہ بیماری دوسو برس قبل طبی دنیا میں دریافت ہوچکی ہے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جوڑوں کی یہ بیماری ا?غاز سے لیکر دو تین برسوں تک مریض کے جوڑوں کو خاصا ضرر پہنچاتی ہے اسلئے لازمی ہے کہ اس بیماری کا ابتدائی مرحلے میں تشخیص دیا جاسکے تاکہ مریض کو بروقت مناسب وموزوں علاج بہم پہنچا کراسکے جوڑوں کو ناکارہ ہونے سے بچایا جاسکے۔ دنیا کے سبھی سائنس دان ، محقق او ر ڈاکٹر ابھی تک اس تحقیق میں مصروف ہیں کہ اس بیماری کی اصل وجہ کیاہے۔ ابھی تک صرف یہ پتہ چلا ہے کہ یہ ایک خود مصّون(Auto immune) بیماری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے جسم کا نظام مدافعت(جو جسم کو انواع واقسام کی عفونتوں سے بچانے کا کام کرتاہے) کچھ کیمیائی مادے پیدا کرتاہے جو جوڑوں کی اندرونی تہوں پر حملہ آور ہوکر ان میں ورم اور درد پیدا کرتے ہیں ۔ دوسرا تازہ ترین فرضیہ یہ ہے کہ اس بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد کے اجسام میں ایک الگ اور خاص قسم کا نظام مدافعت ہوتاہے اور وہ کسی خاص عکس العمل اور دبائو کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں … باور کیا جاتاہے کہ یہ مرض موروثی ہے لیکن یہ بات بھی ابھی پوری طرح ثابت نہیں ہوسکی ہے۔ یہ بیماری وراثت میں نہیں ملتی ہے لیکن جن خاندانوں میں یہ بیماری پائی جاتی ہے ان کی آئندہ نسل کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جب نظام مدافعت کسی وجہ سے دبائو میں آکر مجبور ہو جاتاہے تو وہ خاص قسم کے لمحیات (انٹی باڈیز) جن کو ریموٹائیڈفیکٹرRheumatiod Factorکہا جاتاہے ،پیدا کرکے جوڑوں کے اندرونی حصوں کو نقصان پہنچاتاہے، اسی لئے خون کے ٹیسٹ میں ا?رفیکٹر مثبت ہوتاہے اور یہ جوڑوں کی اس بیماری کا ایک اہم ٹیسٹ ہے۔
علامات:
اس بیماری کے خاص علائم درج ذیل ہیں ۔
rدرد ، احساس خستگی ، تھکاوٹ ، شدید کمزوری ، چڑچڑا پن اور جوڑوں کے حرکات میں دشواری، جوڑوں میں درد اور ورم خاص کر ہاتھوں او رپیروں کے جوڑوں میں ۔
r جوڑوں میں ''سختی'' خاص کر صبح کے وقت۔
r جوڑوں میں ورم خاص کر ہاتھوں پیروں کے جوڑوں اور گھٹنوں میں ۔
r لگاتار احساسِ کمزوری اور کچھ نہ کرنے کی سکت۔
rجوڑوں کے ارد گرد عضلات اور دیگر نسیجوں کی کمزوری کی وجہ سے کام کرنے میں دشواری۔
rرات کو نیند نہ آنا۔ جوڑوں میں درد کی وجہ سے مریض کی نیند روٹھ جاتی ہے۔
rبعض مریضوں کے جسم میں جلد کی تہہ کے نیچے چھوٹی چھوٹی گٹھلیاں سی ظاہر ہوتی ہیں ۔ جنہیں ریموٹائیڈنوڈول کہا جاتاہے اگر کہنیوں کی ہڈیوں کے ا?س پاس ظاہر ہوتی ہیں تو یہ کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر یہ ا?نکھوں یا پھیپھڑوں میں نمودار ہوتی ہیں تو مریض کے لئے کسی حد تک ضرر رساں ہوسکتی ہیں ۔
کیا ریح ہار قابل علاج ہے ؟
بدقسمتی سے ابھی تک ریموٹائیڈآرتھرائٹس کے لئے کوئی مکمل اور حتمی علاج دریافت نہیں ہواہے۔لیکن پھر بھی دورِ حاضر کے علاج سے مریض کودرد اور ورم سے نجات دلانے کے علاوہ جوڑوں کو ناکارہ ہونے سے بچایا جاسکتاہے۔ چونکہ اس بیماری میں مبتلا مریض کے جوڑوں کو ابتدائی دو برسوں میں زبردست نقصان پہنچتاہے ، اسلئے ابتدائی مرحلے میں تشخیص اور علاج ومعالجہ بے حد ضروری ہے۔ اگر صحیح ڈھنگ سے علاج نہ کیا گیا تومریض کے جوڑ ہمیشہ کے لئے ناقص یا ناکارہ ہو کر رہ جاتے ہیں اور اگر بیماری اندرونی اعضائ کو متاثر کرتی ہے تو یہ مریض کو موت سے بھی ہمکنار کروا سکتی ہے۔ اب جب کہ یہ بات عیاں ہے کہ اس بیماری کا کوئی حتمی علاج میسر نہیں ہے ، پھر معالج کے پاس جانے کا فائدہ کیا ہے ؟ معالج کی تجویز کردہ ادویات سے مرض پرقابو پایا جاسکتاہے اور مریض کسی خاص مدت تک ایک ا?رام دہ زندگی گذار سکتاہے۔ بعض مریضوں کے علائم ادویات کے بغیر بھی ناپید ہو جاتے ہیں اور پھر کچھ وقفے کے بعد کسی خاص موسم میں کسی خاص وجہ سے دوبارہ ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ بیماری کا حملہ دس ماہ کے بعد ہوتاہے۔ اس دوران مریض بیماری کے علائم سے بے خبر رہتاہے…اور وہ سوچتا ہے کہ اسکی بیماری نے اسکا پیچھا چھوڑ دیا مگر کچھ ماہ کے بعد وہ دوبارہ بیماری کے چنگل میں پھنس جاتاہے۔
شاید یہی وجہ ہے یا نامعلوم وجوہات کی بنائ پر ، یا پھر مریضوں کی عدم واقفیت کی وجہ سے کشمیر میں اس بیماری میں مبتلا مریض (خاص کر عورتیں ) اپنے ہاتھوں میں ، وزنی تھیلے( جن میں ڈاکٹروں کے نسخے، لیبارٹری کی رپورٹیں اور ایکسرے ، سی ٹی اسکین اور ایم ا?ر ا?ئی کی رپورٹیں بھی ہوتی ہیں )لئے ایک کلینک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے پھرتے رہتے ہیں اور ہر ایک دو ماہ بعد معالج بدلتے رہتے ہیں ۔ جہاں بھی سنا کہ فلاں جگہ اس بیماری کا ''علاج'' ہوتاہے وہاں حاضری دینا اپنا اوّلین فرض سمجھتے یا سمجھتی ہیں (آخر صحت کا سوال ہے اور انسان مجبور ہے) … نہ صرف ڈاکٹروں کے مطّبوں میں بلاناغہ حاضری دی جاتی ہے بلکہ نقلی پیروں ،فقیروں ، نیم حکیموں کی تجویز کردہ ہر ممکن دوائیاں ، جڑی بوٹیاں وغیرہ بھی استعمال کی جاتی ہیں … ہمارے سماج میں بے شمار نقلی پیر صاحبان اس بیماری کا علاج ''شیرینی '' اور ''مٹی کے دانوں '' سے کرتے ہیں … حیرت کی بات یہ ہے کہ مریض کے جوڑوں کے درد اور ورم میں خاصا فرق پڑتاہے اور مریض '' پیر صاحب'' کے معجزہ کے قائل ہوجاتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ مریض شیرینی اور مٹی میں ملائے گئے ''سٹیرائیڈ (STEROID)دوائی '' سے بے خبر ہوتاہے۔ جی ہاں ہمارے نقلی پیر فقیر اور رنگے سیار ایسے مریضوں کو مختلف ''چیزوں ''میں دوائیاں ملا کر کھلاتے ہیں اور اپنی مہارت اور تجربے کاسکہ بٹھاتے ہیں ۔ اگر مریض کو تشخیص کے وقت ہی معالج اس مرض کے بارے میں مفصل اور مکمل جانکاری دے دے تو وہ مریض پر احسان کرتاہے ، وہ اس کا قیمتی وقت اور اسکا خون پسینہ بہاکر کمایا ہوا پیسہ برباد ہونیسے بچا سکتاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مریض اس بیماری کے متعلق مکمل واقفیت رکھتا ہو تاکہ وہ اپنی زندگی ا?رام سے گذار سکے۔
تشخیص:
lمریض اپنا شرح ِحال (History) مفصل طور معالج کے سامنے بیان کرے اور اسے نہ صرف اپنی جسمانی حالت سے بلکہ ذاتی ،نجی ، سماجی ، اقتصادی حالات سے بھی باخبر کرے…اور کوئی بھی بات اْس سے پوشیدہ نہ رکھے۔
lمعالج مریض کا تفصیلی معائنہ کرے۔ نہ صرف جوڑوں کا بلکہ جسم کے ہر حصّے کا بغور معائنہ کرے۔
lخون کے ٹیسٹ جن میں خون کی مکمل جانچ CBCاور ESRکے علاوہ آرفیکٹر (RـFactor) لازمی ہیں ۔
lمتاثر شدہ جوڑوں کا ایکسرے کروانا لازمی ہے۔
یاد رہے کہ صرف آرفیکٹر مثبت ہونے سے اس بیماری کا تشخیص نہیں دیا جاسکتاہے۔ کیونکہ کچھ اور بیماریاں بھی ہیں جن میں مبتلا اشخاص کا یہ Test مثبت ہوتاہے اسلئے معالج کا فرض ہے کہ ان بیماریوں کی طرف بھی خصوصی توجہ دے۔ جب بیماری کا تشخیص ہو تو مریض کا یہ پیدائشی حق ہے کہ وہ اپنے معالج سے اپنی بیماری اور علاج کے متعلق پوری پوری جانکاری حاصل کرے اور اسی طرح معالج کا بھی یہ اولین فرض ہے کہ وہ مریض کو اس بیماری اور دوائیوں کے متعلق مفصل جانکاری فراہم کرے تاکہ مریض یہ تسلیم کرلے کہ یہ بیماری ہمیشہ کے لئے اسکے ساتھ رہنے والی ہے۔ دوائیوں سے صرف وہ علائم پر قابو پاسکتاہے یا کچھ دوائیوں سے بیماری کا رْخ موڑا جاسکتاہے۔
علاج :
Eادویات ـ ضدِ درد اور ضدِ التہاب ادویات۔ کچھ دوائیاں ایسی ہیں جن سے مریض کے جوڑوں کے درد اور ورم میں افاقہ ہوتاہے اور وہ درد کی تڑپ سے آزاد زندگی گذارنے کا اہل ہوجاتاہے۔ ان دوائیوں کا انتخاب بھی مریض کی جسمانی اور ذہنی حالت کو مدنظر رکھ کر کیا جاتاہے۔ مختلف مریضوں میں مختلف قسم
کی ادویات تجویز کی جاتی ہیں کیونکہ ان دوائیوں کے اثراتِ جانبی ہر مریض کے لئے جداگانہ ہوتے ہیں ۔ اسلئے ادویات کے مثبت ومنفی اثرات کے بارے میں پوری پوری جانکاری رکھنا ہر مریض کے لئے لازمی ہے۔
Eدوسری قسم کی ادویات وہ ہیں جن سے بیماری کا رْخ موڑا جاسکتاہے یعنی مرض کی شدت کوحتی الامکان کم تر کیا جاتاہے۔ ایسی دوائیاں صرف ان معا لجین کی زیر نگرانی لینی چاہئیں جنہوں نے اس بیماری کے علاج ومعالجہ میں کمال مہارت حاصل کی ہو… کچھ مدت تک ادویات کا استعمال کرنے کے بعد کچھ خاص قسم کی ا?زمائشات انجام دینا اشد ضروری ہے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ان ادویات سے جسم کا کوئی اور عضو متاثر تو نہیں ہواہے۔مریض کو ہر دوائی کے بارے میں مفصل جانکاری ہونی چاہئے۔ اگر معالج جلد بازی میں جانکاری فراہم کرنے میں ناکام رہے تو مریض خود دوائیوں کے ساتھ رکھا ہوا لٹریچر پڑھ لے یا کسی تعلیم یافتہ فرد سے جانکاری حاصل کرے اور احتیاطی تدابیر پر پوری طرح عمل کرے۔
ادویات کا بلاناغہ اور طبق دستورِ معالج استفادہ کرنے کے علاوہ مریض ہلکی پھلکی ورزش کرنے کو اپنا معمول بنائے۔ اگر جوڑوں میں کوئی خاص خرابی شروع نہیں ہوئی ہو تو وہ روزانہ پیدل چلنے کو اپنا معمول بنائے یا کوئی اور ایسی ورزش باقاعدگی سے انجام د ے جس سے اسکے متاثرہ جوڑوں کو کوئی ضرر نہ پہنچے۔ ورزش کیلئے کسی ''فیزیوتھراپسٹ''سے مشورہ کرنا زیادہ بہترہے۔
پرہیز:
کشمیر میں رائج خرافات اور باطل عقائد کے برعکس اس مرض میں کسی ''خاص قسم کا پرہیز'' نہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جوڑوں کی اس عام اور پیچیدہ بیماری میں مبتلا مریض ایک بہترین مناسب وموزون غذا کھائے۔ مریض اپنی غذا میں تازہ سبزیوں اور میوہ جات کی وافر مقدار استعمال کرے۔ سالم اناج اور ریشہ والی غذائیں ،گوشت ، پنیر ، انڈے ،خشک میوے اپنی غذا میں شامل کرے۔ چربی ، نمک اور کھانڈ کا استعمال کم کرے۔سگریٹ نوشی ،شراب نوشی سے مکمل پرہیز لازمی ہے۔ جن اشیائ میں کیلشیم زیادہ ہو انہیں اپنی غذا میں شامل کرے ، اپنا وزن اعتدال میں رکھے۔ ہر مریض کوشش کرے کہ ایک صاف ستھرا ،پاکیزہ ،منظم ومرتب طرزِ زندگی گذارے۔ اپنے ذہن کو سکون بخشنے کے لئے روزانہ عبادت کرے کیونکہ ایسے مریض ہر وقت ذہنی دبائو ، تنائو اور کچھائو کے شکار ہوتے ہیں جس سے مرض کی شدت بڑھنے کا احتمال ہوتاہے۔
یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ ریح ہار(وجع مفاصل ، گٹھیا) کیلئے ابھی تک طبی دنیا میں کوئی ایسی دوائی دریافت نہیں ہوئی ہے جس سے یہ بیماری جڑ ہی سے ختم ہولیکن پھر بھی وہ دوائیاں موجود ہیں جن کے استعمال سے مریض ایک آرام دہ زندگی گذار سکتاہے۔بشرطیکہ وہ اپنے مرض کے بارے میں صد درصد جانکاری رکھتاہو بصورت دیگر اسکی زندگی عذاب بن جاتی ہے

پودینہ ۔ ایک معجزاتی پودا


پودینہ ۔ ایک معجزاتی پودا
کھانوں کو خوش ذائقہ اور خوشبو دار بنانے کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔پودینہ کی چائے‘ دوائی کے لحاظ سے بہت مفید ہے۔ اس کا استعمال بد ہضمی‘ کھانسی‘ زکام میں کیا جاتا ہے ‘ دن بھر کی تھکن ختم کر دیتی ہے‘ گیس کی شکایت ختم اور آنتوں کو صاف کرتی ہے‘ بہت لذیذ اور خوشبو دار ہوتی ہے۔
پودینہ جسے ہمارے ہاں عام طور پر کھانوں کو خوش ذائقہ اور خوشبو دار بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور پودینہ کی چٹنی کو بطور ہاضم و لذت موسم گرما میں متوسط و غریب گھرانوں میں بطور سالن استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پودینہ قدرت کی عطا کردہ بہت سی خصوصیات سے مالا مال ہے۔
افعال و خواص
اطباءنے پودینہ پر بہت تحقیقات کی ہیں اور اس کے درج ذیل غذائی و دوائی فوائد کی نشاندہی کی ہے۔ پودینہ نظام ہضم سے متعلقہ امراض میں مفید ہے۔ غذا کو ہضم کرتا ہے اور ریاح کو خارج کرتا ہے۔ بھوک لگاتا ہے۔ پیٹ پھولنا‘ درد ہونا‘ کھٹی ڈکاریں آنا‘ جی متلانا اور قے ہونا میں فائدہ مند ہے۔ پودینہ الرجی( زود حساسیت) میں بہت موثر تدبیر ہے ‘ پتی اچھلنا(چھپاکی) الرجی کی ایک قسم ہے جس میں جسم میں کسی جگہ یا کئی جگہ خارش ہوتی ہے پھر سرخ دھبے( دھپڑ) بن جاتے ہیں جو تھوڑی دیر بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس تکلیف میں پودینہ سبز دس پتے ایک کپ پانی میں جوش دے کر چھان کر روزانہ رات سونے سے قبل‘ بیس یوم تک استعمال کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ پودینہ خون سے فاسد مواد کو خارج کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یرقان میں بھی استعمال کرایا جاتا ہے ۔ جن لوگوں کو جی متلانے یا قے آنے کی شکایت و جگر کا فعل سست ہو اور اس سبب بھوک اچھی طرح نہ لگتی ہو ‘ رنگت زرد رہتی ہو یا ان عوامل کے سبب خون کا دباﺅ( بلند فشار خون) بڑھ جاتا ہو۔ ان کے لئے یہ جوشاندہ بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ یہ نسخہ محترم شہید پاکستان حکیم محمد سعید کا معمول مطب بھی تھا۔
ہوالشافی
ریان (سونف) چھ گرام‘ پودینہ خشک چھ گرام‘ مویز منقی نو گرام‘ آلو بخارا خشک پانچ دانہ‘ آدھے گلاس پانی میں ڈال کر جوش دے کر چھان کر صبح نہار منہ پی لیا جائے۔ اگر موسم گرما ہو تو یہ نسخہ رات کو پانی میں بھگو دیں صبح مل چھان کر نوش جاں کریں۔ یہ عمل بیس یوم تک کافی رہے گا۔
اسہال (دست آنا) اور ہیضہ میں پودینہ کے پتوں کو نمک لگا کر کھانا یا اس کی چٹنی کا استعمال مفید ہے اور اس کا جوشاندہ بھی اچھی تدبیر ثابت ہوا ہے۔ پودینہ سبز 60 گرام یا پودینہ خشک 10 گرام‘ دارچینی 3 گرام ‘ الائچی کلاں 3 گرام ایک کپ پانی میں جوش دے کر چھان کر پی لیا جائے۔
پودینہ میں تریاقی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔ خصوصاً بچھو‘ بھڑ‘ چوہے وغیرہ کے کاٹنے پر پودینہ پیس کر لیپ کیا جا سکتا ہے۔ جو خواتین ماہانہ ایام کی کمی کے عارضہ میں مبتلا ہوں وہ پودینہ کی چائے استعمال کریں۔پودینہ بلغم کو پتلا کرتا ہے اور مسکن ہے۔ پودینہ سے طب کے کئی مرکبات تیار کئے جاتے ہیں جن میں جوارش پودینہ‘ قرص پودینہ‘ جوارش انارین اور عرق پودینہ شامل ہیں۔ یہ مرکبات اور ادویہ معدہ کی خرابی کے امراض میں بہت موثر ہیں۔
پودینہ کی چائے
پودینے کی چائے دوائی کے لحاظ سے بہت مفید ہے۔ اس کا استعمال بد ہضمی‘ کھانسی‘ زکام میں کیا جاتا ہے۔ دن بھر کی تھکن ختم کر دیتی ہے۔ گیس کی شکایت ختم اور آنتوں کو صاف کرتی ہے۔ بہت لذیذ اور خوشبو دار ہوتی ہے۔ نظام ہضم کی اصلاح کرتی ہے۔ متلی کی صورت میں تھوڑا سا لیموں کا رس ملا لیں۔ پودینہ کی چائے سانس کی نالی کی سوجن‘ برونکائٹس ‘ درد سر اور کھانسی زکام میںمفید ہے۔ ایک کپ چائے دن بھر کی تھکن ختم کر دیتی ہے‘ آنتوں کو صاف کرتی ہے جس سے سانس میں ناگوار بو کی شکایت ختم ہو جاتی ہے۔
جی متلانا یا قے آنا
جن لوگوں کو جی متلانے یا قے آنے کی شکایت ہو جائے وہ پودینہ دس پتے اور چھوٹی الائچی دو عدد کے ساتھ پانی میں جوش دے کر چھان کر پی لیں، شکایت جاتی رہے گی(انشاءاللہ)روغنی اور دیر ہضم ثقیل اشیاءکے استعمال کے بعد ٹھنڈی بوتلوں کی جگہ پودینہ اور لیموں کی چائے مفید ہے۔
بد ہضمی
بد ہضمی‘ اپھارہ‘ ریاحوں کی صورت میں پودینہ کا رس پانی میں ملا کر پینے سے فائدہ ہوتا ہے۔
پتھری گردہ و مثانہ
بتھوے کی سبزی میں پودینہ ڈال کر کھانے سے پتھری کا مرض ختم ہو جاتا ہے۔ ایسا ایک ماہ تک کریں یا فائدہ ہونے تک۔
پودینہ کا شربت
پودینہ کی بڑی گڈی دھو لیں۔ اس کے بعد ایک کپ شکر اور پانچ عدد لیموں کا رس نچوڑ لیں اور اس آمیزے کو دو گھنٹہ تک اسی طرح رکھارہنے دیں پھرجگ میں بھر لیں اور برف ڈال کر اس میں ادرک کا سرکہ20گرام اور پودینہ کی چند پتیاں ڈال کر پیس لیں یہ نہایت خوش ذائقہ شربت ہوگا جو دل و دماغ کیلئے مفید ہے۔
گیس ریاح
بو علی سینا نے پودینہ کا کھانا اور چبانا ریاح و گیس کیلئے مفید قرار دیا ہے۔
ایک حکایت
پودینہ کے متعلق درج ذیل حکایت سے اس کی تاریخی حیثیت واضح ہوتی ہے نیز یہ کہ قدیم حکماءبھی اس سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ قدیم یونانیوں کاعقیدہ تھا کہ نتھا ایک یونانی دوشیزہ کا نام تھا جس کا حسن و جمال قابل رشک تھا وہ یونانی دولت کے دیوتا (پلوٹو) کی محبوبہ تھی اور اسے پلوٹو کی اہلیہ پروسہ پائن ( ہندو عقائد کے مطابق دولت کی دیوی) نے حسد اور رشک کی بناءپر ایک نبات میں بدل دیا تھا اور اسی نبات کو لاطینی میں نتھا جبکہ اردو میں پودینہ کہتے ہیں۔ یونانی اطباءمیں سے حکیم ساﺅ فرطس نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ اہل چین و جاپان بھی دو ہزار سال سے پودینہ کے خواص سے واقف ہیں۔ ماہرین طب نے جو تحقیقات کی ہیں اس کے مطابق یہ ایک اہم نبات ہے جو دوائی کے اعتبار سے استعمال ہوتی ہے اور بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں کثیر مقدار میں غذائی استعمال ہے اور اس کا سالن و سلاد خوشبود ار اور ہاضم چٹنی کے طور پر موسم گرما کی دوپہرو ں میں عام طور پر کیا جاتا ہے۔
محافظ حسن
پودینہ حسن کا محافظ بھی ہے۔ چہرے کے داغ دھبے‘ کیل مہاسوں سے نجات کیلئے تازہ پودینہ خالص سلاد کے ساتھ پیس کر متاثرہ مقامات پر لیپ کیا جاتا ہے۔ چند دنوں میں داغ دھبے ‘ کیل مہاسے صاف ہو کر جلد کا رنگ نکھار دیتے ہیں۔
-------------------------------------------------------------------------------

Thursday 24 July 2014

ميں ليموں ہوں

ميں ليموں ہوں
ليمن ڈارپس، ليموں کا شربت اور ليموں کا اچار، ان کا تصور آتے ہي منہ ميں پاني بھر آتا ہے اور اس کي خوشبو کے تصور ہي سے آپ ايک قسم کي راحت اور تازگي محسوس کرتے ہيں۔ جي ہاں! ميں پھل ہي ايسا ہوں۔۔ تازگي بخش، توانائي اور صحت دينے والا!
ميں پوري دنيا ميں ہوتا ہوں اور ہر علاقے کے لوگ مجھے اپنے رسم و رواج کے مطابق کھانوں ميں ذائقہ پيدا کرنے اور مختلف امراض کے علاج کے لئے استعمال کرتے ہيں۔
ميري يوں تو کئي قسميں ہوتي ہيں، ليکن ان ميں کاغذي ليموں سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے، کيونکہ اس کي لذت، رس اور مہک زيادہ ہوتي ہے۔ ميري ايک قسم ميٹھے ليموں کے نام سے بھي ہوتي ہے، ليکن ترش کے مقابلے ميں اس کے فائدے کم ہوتے ہيں۔ ميري ترشي اس ميں موجود سٹرک ايسڈ کي وجہ سے اور خوشبو چھلکے ميں پائے جانے والے روغن ليموں (آئل اوف ليمن) کا نتيجہ ہوتي ہے۔
قدرت نے مجھے جراثيم ہلاک کرنے کي صلاحيت دي ہے۔ ميرا رس زخموں اور چھوت سے متاثر حصوں کے جراثيم ہلاک کر ديتا ہے۔ آپ ڈيٹول يا کاربالک ايسڈ کے محلول کے بجائے ايک گلاس پاني ميں آدھے ليموں کا رس شامل کر کے اس سے بھي زخم وغيرہ دھونے کا کام پورے بھروسے کے ساتھ لے سکتے ہيں، ليکن اگر زخم کي وجہ سے ورم ہو تو پھر احتياط کيجئے کيونکہ اس سے تکليف بڑھ سکتي ہے۔
کيل مہاسوں سے نجات کے لئے آپ ميرا خالص رس لگا سکتے ہيں۔ جلن زيادہ محسوس ہو تو پھر اس ميں گلاب کا عرق اور تھوڑي سي گلسرين يا شہد ملا ليجئے۔ اس کے علاوہ داد (اگزيما) پر يہ رس لگانے سے اس کے جراثيم بھي ہلاک ہوجاتے ہيں۔
مجھ ميں آنتوں کي سستي دور کرنے والے ريشے کے علاوہ معدني نمکيات، نشاستے دار اجزائ، فاسفورس اور معمولي مقدار ميں فولاد بھي ہوتا ہے۔ مجھ ميں اور پھلوں کے مقابلے ميں حياتين ج (وٹامن سي) سب سے زيادہ ہوتا ہے۔ يہ وہ حياتين ہے جس کي وجہ سے جسم ميں بيماريوں سے مقابلہ کرنے کي طاقت بہت مضبوط رہتي ہے۔ يوں ميرا استعمال کر کے آپ خود کو کئي امراض سے محفوظ رکھ سکتے ہيں۔
مجھ ميں غذا جلد ہضم کرنے کي صلاحيت بھي بہت ہوتي ہے۔ اس لئے مختلف کھانوں کے ساتھ مختلف صورتوں ميں استعمال کرتے ہيں۔ ميں خاص طور پر جگر کو چست اور توانا رکھتا ہوں۔ بھوک نہ لگتي ہو، طبيعت ميں گراوٹ اور پستي ہو، سستي نے گھير رکھا ہو تو ايسي صورت ميں صبح منہ دھونے کے بعد ايک گلاس تازہ پاني ميں آدھا ليموں نچوڑ کر پي ليجئے۔ چند ہي دنوں ميں يہ شکايات دور ہو جائيں گي۔ آپ کا جي چاہے تو اس ميں شہد يا پھر تھوڑي سي چيني بھي شامل کر سکتے ہيں۔ بعض لوگ ايک چٹکي ميٹھا سوڈا بھي ڈال ديتے ہيں۔ اس سے سينے ميں جلن کي شکايت بھي دور ہوجاتي ہے۔
جب لو چل رہي ہو اور پاني پي کر پيٹ مشکيزہ بن گيا ہو، ميرا شربت پي ليجئے، گرمي اور لو کے اثرات بہت جلد دور ہو جائيں گے۔ ہاں! اس ميں ايک دو چٹکي نمک ملانا نہ بھولئے۔
اکثر لوگ دعوتوں ميں روغن اور مسالے دار غذائيں کھانے کے بعد پياس اور بے چيني محسوس کرتے ہيں۔ انھيں کھولتے پاني ميں ايک دو چٹکي چائے کي پتي کے ساتھ تازہ يا خشک پودينہ ڈال کر چائے کي طرح دم دينے کے بعد اس ميں چيني اور ليموں کا رس ملاکر پي لينا چاہيے، کھانا آساني سے ہضم ہوجائے گا۔
گرميوں ميں نکسير کي شکايت بھي عام ہوتي ہے۔ ايسے لوگوں کو ميرا باقاعدہ استعمال کرنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مجھ ميں موجود حياتين ج ناک کے نازک ريشے کو مضبوط کرکے نکسير کي شکايت ختم کرديتا ہے۔
گرميوں اور خاص طور پر بارش کے موسم ميں متلي اور قے کي شکايت عام ہوتي ہے۔ اس موسم ميں ليموں کي چٹني اور اس کا شربت بہت مفيد ثابت ہوتا ہے۔ صرف ليموں کے چاٹتے رہنے سے بھي متلي دور ہو جاتي ہے۔ آپ نے اس موسم ميں روح افزائ ميں ميرا رس شامل کر کے پيا تو ہوگا، کتني فرحت ہوتي ہے اس سے! ہاں! ميں بتانا بھول ہي گيا کہ ميرا ايک ثابت بيج نگلنے سے بھي قے فوراً رک جاتي ہے۔
مسوڑھوں ميں ورم اور ان سے خون اور پيپ آنے کي تکليف، پائيوريا ماسخورہ کہلاتي ہے۔ يہ زيادہ تر ان لوگوں کو ہوتي ہے جو گوشت بہت کھاتے ہيں اور دانت صاف نہيں کرتے۔ يہ تکليف حياتين ج کي کمي سے بھي ہوتي ہے۔ منہ سے بدبو آتي ہے تو لوگ منہ پھير ليتے ہيں۔ ميں اس کا بھي بہترين علاج ہوں۔ ليموں کي پتلي سي قاش کاٹ کر اسے مسوڑھوں اور دانتوں پر ملئے اور ميرا رس بھي نچوڑ کر کھانوں وغيرہ ميں استعمال کيجئے۔ ايک بہتر طريقہ يہ بھي ہے کہ ايک پيالي عرقِ گلاب ميں ميرا رس ملاکر اس سے صبح و شام کلياں کيجئے۔ ميرا رس دانتوں پر ملنے سے وہ سفيد بھي ہوجاتے ہيں ۔ آپ چاہيں تو ميرا رس تھوڑا سا نمک ملاکر برش سے دانتوں پر لگائيے، آپ کے دانت چمک اٹھيں گے۔
مٹاپے سے نجات کے لئے بھي ميں استعمال ہوتا ہوں۔ صبح نہار منہ نيم گرم پاني ميں ميرے رس کے ساتھ تھوڑا سا نمک ملاکر پينے سے جسم ہلکا ہونے لگتا ہے۔
بعض لوگوں کو ترشي نہيں بھاتي، ان کے حلق اور گلے ميں تکليف ہوجاتي ہے۔ انھيں ميرے استعمال سے بچنا چاہيے يا پھر اسے دو سري چيزوں کے ساتھ استعمال کرنا چاہيے۔

بواسیر خونی اور بواسیر بادی ۔

بواسیر خونی اور بواسیر بادی ۔
بواسیر ( Piles ) کا مرض عام ہے ۔ جلد توجہ نہ دینے اور ٹوٹکے کرنے سے اکثر مریض مرض کو پیچیدہ کر لیتے ہیں یہاں تک کہ معاملہ عمل جراحی تک جا پہنچتا ہے ۔ اگر بر وقت علاج معالجہ کیا جائے اور حفاظتی تدابیر و احتیاط کر لی جائے تو مرض پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے ۔
بواسیر کی اقسام
بواسیر کی دو اقسام ہیں ۔
بواسیر خونی اور بواسیر بادی ۔
پہلی قسم میں خون آتا ہے جبکہ ثانی الذکر میں خون نہیں آتا ، جبکہ باقی علامات ایک جیسی ہوتی ہے ۔
بواسیر کس طرح ہوتی ہے ؟
گردش خون کے نظام میں دل اور پھیپھڑوں سے تازہ خون شریانوں کے ذریعے جسم کے تمام اعضاءکو ملتا ہے ، اس کے ساتھ آکسیجن فراہم کرتا ہے ۔ پھر ان حصوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ والا خون واپس دل اور پھیپھڑوں تک وریدوں کے ذریعے پہنچتا ہے ۔ مقعد میں خاص قسم کی وریدوں میں راستہ ( Valves ) نہ ہونے کی وجہ سے ان وریدوں میں خون اکٹھا ہو کر سوزش پیدا ہو جاتی ہے جو کہ بواسیر کہلاتی ہے ۔ اس طرح یہ مرض ہو جاتا ہے اور مناسب تدابیر نہ کی جائیں تو وریدیں اس قدر کمزور ہو جاتی ہیں کہ تھوڑی سے رگڑ سے بھی پنکچر ہو کر خون خارج کرنے لگتی ہیں ۔ مقعد کے اوپر والے حصے کے اندر خاص قسم کے خلیوں کی چادر ہوتی ہے جو کہ بہت حساس اور ( Painless ) ہوتی ہے ۔ جب کہ مقعد کا نچلے والا حصہ جلد کا ہوتا ہے اور اس میں درد محسوس کرنے والے خ لیے ہوتے ہیں ۔ مقعد میں بڑی اور چھوٹی وریدوں کے باعث موہکے ( مسے ) بھی ان کی پوزیشن پر ہوتے ہیں ۔ بواسیر کے تین چھوٹے اور تین بڑے موہکے ہوتے ہیں ۔
بواسیر کے اسباب :
عموما یہ مرض موروثی ہوتا ہے ۔ مستقل قبض کا رہنا بھی اس کا اہم سبب ہوتا ہے ۔ خواتین میں دوران حمل اکثر قبض کا عارضہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ مقعد کے پٹھوں میں کھچاؤ ، گرم اشیاءمصالحہ جات کا بکثرت استعمال ، خشک میوہ جات کی زیادتی ، غذا میں فائبر ( ریشہ ) کی کمی سے بھی مقعد میں دباؤ بڑھ کر وریدوں میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے ۔ وہ لوگ جو دن بھر بیٹھنے کا کام کرتے ہیں اور قبض کا شکار ہو جاتے ہیں وہ بھی عموماً بواسیر کے مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔
علامات :
مقعد میں خارش ، رطوبت اور درد کا ہونا ، اجابت کا شدید قبض سے آنا ، رفع حاجت کے دوران یا بعد میں خون کا رسنا ، قبض کی صورت تکلیف کا بڑھ جانا اور مقعد پر گاہے گاہے موہکوں کا نمایاں ہونا شامل ہے ۔ موہکے بعض دفعہ باہر نہیں آتے صرف اندر ہوتے ہیں بعض مریضوں میں رفع حاجت کے وقت باہر آ جاتے ہیں جس سے درد ، جلن بڑھ جاتی ہے پھر یہ موہکے از خود اندر چلے جاتے ہیں یا اندر کر دئیے جاتے ہیں ۔ بعض لوگوں میں کبھی یہ موہکے باہر ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی اندر نہیں جاتے اور شدید اذیت کا سبب بنتے ہیں ۔
علاج :
طب مشرقی کا اصول علاج یہ ہے کہ اسباب مرض پر توجہ دی جائے ۔ عموماً یہ مرض دائمی قبض کے باعث ہوتا ہے ۔ لہٰذا اول قبض کو دور کیا جائے ۔ دیکھا گیا ہے کہ قبض نہ ہونے سے مریض کو آدھا افاقہ ہو جاتا ہے ۔ درج ذیل نسخہ مفید ہے ۔ صبح نہار منہ حب بواسیر خونی دو عدد تازہ پانی سے اگر خون نہ آتا ہو تو پھر حب بواسیر بادی دو عدد ۔
بعد غذا دوپہر شام نیموٹیب دو دو عدد رات سونے سے قبل اند مالی ایک عدد ۔
پرہیزو غذا :
بواسیر میں پرہیز و غذا کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔
1 بڑے جانور کا گوشت ، چاول ، مصالحہ جات ، تلی ہوئی اشیاءسے مکمل احتیاط کی جائے ۔
2 گرم اشیاءانڈا ، مچھلی ، مرغ اور کڑاہی گوشت نہ کھایا جائے ۔ اس طرح خون آ جاتا ہے ۔
3 فائبر ( ریشہ دار اشیاء ) کا استعمال زیادہ کیا جائے ۔ فائبر پھلوں اور سبزیوں کی کثرت کی صورت لیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح قبض نہ ہو گی اور بواسیر میں افاقہ ہوگا ۔
4 آٹا ، چوکر والا ( بغیر چھنا ) استعمال کریں اس طرح بھی آنتوں کا فعل درست ہو کر قبض رفع ہوگی اور بواسیر میں فائدہ ہوگا ۔
5 جو لوگ بیٹھے رہنے کا کام کرتے ہیں وہ صبح نماز فجر کے بعد اور شام کھانے کے بعد سیر کو معمول بنائیں ۔
6 پانی کا استعمال زیادہ کیا جائے ۔
7 پھلوں کا جوس بھی مناسب ہے ۔

صبح جلدی اٹھیں ،خوش و خرم زندگی پائیں

صبح جلدی اٹھیں ،خوش و خرم زندگی پائیں
برازیل کے ماہرین نے ڈیپریشن کے مریضوں کے سونے اور جاگنے کے اوقات پر تحقیق کے بعد یہ پتا چلایا کہ وہ پرسکون نیند سے محروم تھے۔ پوٹو ایلگرے کی ایک یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کار ڈاکٹر ماریا پاز لوائی زا ہڈالگو کہتی ہیں کہ
اس سے قبل کے جائزوں سے یہ معلوم ہوا تھا کہ کہ ڈیپریشن کے مریضوں کا علاج روشنی کی تھراپی سے ممکن ہے۔ اس طریقہ علاج کے تحت وہ مریض جن کی نیند تیز روشنی ، مثلاً ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر وغیرہ کے سامنے بیٹھنے کے باعث متاثر ہوتی ہے، اپنے معمولات کو تبدیل کرکے سونے کے اوقات میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس نئے جائزے میں 200 ایسے لوگوں کو شماریاتی طریقے سے منتخب کیا گیا جو پہلے کبھی کسی ذہنی بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے تھے اور ان سے ان کے سونے کی عادات اور ڈیپریشن کی علامات کے بارے میں پوچھا گیا۔ ماہرین کو معلوم ہوا کہ رات کو دیر تک جاگنے والوں میں ڈیپریشن کی سنگین علامات ان لوگوں سے تقریباً تین گنا زیادہ تھیں جو صبح جلد اٹھتے تھے۔
ان کے سونے کے اوقات میں اوسطاً کوئی بڑا فرق نہیں تھا۔ رات کو جاگنے والے لگ بھگ رات 12بجے بستر پر چلے جاتے تھے جب کہ صبح اٹھنے والے لگ بھگ گیارہ بجے سوجاتے تھے۔ اسی طرح رات کو دیر تک جاگنے والے صبح جلدی اٹھنے والوں سے اوسطاً صرف چالیس منٹ کے بعد سو کر اٹھتے تھے۔ ان دونوں کی نیند کا دورانیہ تقریباً ایک ہی تھا۔ لیکن ان کے سونے کے اوقات کا فرق ان کے مزاج میں بہت زیادہ فرق کا باعث دکھائی دیا۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف سائیکیٹری اور یونیورسٹی کے ڈیپریشن ریسرچ اینڈ کلینک پروگرام کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ایان اے کک کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے انتہائی مفید معلومات سامنے آئیں۔ کسی بھی اچھے مطالعاتی جائزے کی طرح اس کے نتیجے میں جوابات کی نسبت کہیں زیادہ سوالات سامنے آئے۔
ڈاکٹر کک کا کہنا ہے کہ :
انہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ آیا سونے کا معمول ڈیپریشن کی علامات کی وجہ بنتا ہے یا ڈیپریشن کی وجہ سے لوگوں کی نیند متاثر ہوتی ہے اور وہ رات کو دیر تک جاگتے ہیں۔
تاہم ڈاکٹر کک کا کہنا ہے کہ :
ایک حالیہ جائزے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ اگر آپ اپنے سونے کا معمول تبدیل کرکے رات کو جلد سونے کی عادت ڈالیں تو اس کے آپ کے مزاج پر خوش گوار اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
نیویارک کے پریسبائٹیرین اسپتال اور ویل کارنل میڈیکل سینٹر کے ایک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ایلن مینی وٹز کا کہنا ہےکہ اگر آپ رات کو جلد سونے کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں تو سونے کے وقت سے کچھ دیر پہلے ہی ایسی سرگرمیاں ترک کردیں جو آپ کے دماغ کو فعال کردیتی ہیں۔ مثال کے طورپر سونے سے پہلے کمپیوٹر پر اپنی ای میلز چیک کرنا۔ ڈاکٹر ایلن کا کہنا ہے کہ رات دیر گئے کوئی پریشان کن ای میلز پڑھنے سے آپ فکر مند ہوجاتے ہیں جس سے آپ کی نیند اڑسکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رات دیر تک کمپیوٹر آن رکھنے سے اس کی سکرین سے خارج ہونے والی روشنی بھی آپ کی نیند کی راہ میں حائل ہوسکتی ہے۔
تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سونے کے اوقات اور ڈیپریشن کے رجحان میں کوئی خاص تعلق نہیں ہوسکتا۔
پٹس برگ یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن میں نیند پر تحقیق شعبے کے ڈائریکٹر اور پروفیسر آف سائیکیٹری ، ڈاکٹر ایرک نوف زنگر کہتے ہیں کہ سائنس دانوں نے ایسے جینز کا پتا لگایا ہے جن کی وجہ سے کچھ لوگ صبح جلد اٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور کچھ رات دیر سے سونے کو۔
ڈاکٹر نوف زنگر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ ہمیں رات دیر تک جاگنے والوں کے دماغ میں کچھ ایسی مخصوص خصوصیات کا سراغ ملے چلے جو انہیں رات دیر تک جگائے رکھتی ہوں اور انہیں ڈیپریشن کی طرف زیادہ مائل کرتی ہوں۔
ڈاکٹر نوف زنگر نے ڈیپریشن کے کچھ مریضوں کے سروں کا سکین کرکے یہ معلوم کیا ہے کہ ان کے دماغ نیند کے دوران دوسرے لوگوں کے دماغوں کی نسبت مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نوف زنگر کا کہناہے کہ انہیں اپنے تجربات سے یہ معلوم ہوا کہ ڈیپریشن کے مریضوں کے جذبات سے متعلق دماغ کے حصوں میں بہت زیادہ فعالیت موجود تھی۔ جس کی وجہ سے وہ رات کو پرسکون نیند نہیں لے سکتے تھے۔
بحوالہ وائس اوف امریکا

دہی کا باقاعدہ استعمال اچھی صحت اور درازی عمر کا سبب بنتا ہے


دہی کا باقاعدہ استعمال اچھی صحت اور درازی عمر کا سبب بنتا ہے
دہی
دہی کو عربی میں ”لبن“ فارسی میں ”ماست“ اور انگریزی میں یوگرٹ (yogurt) کہتے ہیں ۔ صدیوں سے یہ انسانی خوراک کا حصہ رہا ہے ۔ زمانہ قبل از تاریخ کا انسان بھی گائے‘ بکری‘ بھینس‘ اونٹ اور بھیڑ کے دودھ کو بطور غذا استعمال کیا کرتا تھا۔ ان کے مویشیوں کے دودھ کی مقدار کم ہوتی تھی اس لیے وہ اسے جانوروں کی کھالوں یا کھردرے مٹی کے برتنوں میں جمع کرلیتے تھے تاکہ بہ وقت ضرورت آسانی سے استعمال میں آجائے۔
شروع شروع میں اسے جانوروں سے حاصل کرنے کے بعد اسی طرح کچی حالت میں رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن کچے دودھ کو محفوظ حالت میں رکھنا‘ وہ بھی اس طرح کہ اس کی غذائیت بھی برقرار رہے ناممکن سی بات ثابت ہوئی۔ اس مسئلے کا حل اتفاقی طور پر دریافت ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنوب مغربی ایشیا کے وسیع علاقوں میں سفر کرنے والے ”نوماد“ قبیلے والے دودھ کی شکل میں اپنی رسد کو بھیڑ کی کھال سے بنے ہوئے تھیلے میں رکھا کرتے اور اسے اپنے جانوروں کی پیٹھ پر باندھ دیا کرتے تھے۔ ایام سفر میں وہ تھیلے مسلسل ہلتے رہتے اس پر سورج کی تپش بھی اپنا اثر دکھاتی رہتی۔ نتیجتاً ہ دودھ خمیر بن کر نیم ٹھوس شکل اختیار کرلیتا۔ وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ بھیڑ کی کھال کے اندرونی حصے میں چھپے ہوئے بیکٹریا نے دودھ کو خمیر کرکے دہی کی شکل دے دی ہے۔
ابتداء میں دودھ کی اس شکل کو بہت کم مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا کیوں کہ نو ماد قبیلے والے اسے زہریلا سمجھتے تھے پھر آہستہ آہستہ تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ دودھ کی یہ نئی شکل مضر صحت نہیں معجزاتی غذا ہے ۔ جب اس کی افادیت سامنے آئی تو اسے بنانے کا طریقہ دریافت کیا گیا۔ دودھ کو جمانے کے لیے انہوں نے اس میں تھوڑا سا دہی ملالیا ۔ اس تجربے نے کامیابی عطا کی اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ کھٹا اور خمیر کیا ہوا دودھ تازہ دودھ سے بہت زیادہ فائدے مند ہے ۔ یہ نہ صرف زیادہ عرصے تک اچھی حالت میں رہتا ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی مزیدار ہوجاتا ہے۔
بلغاریہ کے لوگوں کی طبعی عمر دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ سائنسدانوں نے مسلسل تجربوں اور تجزیہ کے بعد پتا چلایا کہ اس کی ایک وجہ دہی بھی ہے۔ وہاں کے لوگ دہی کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں۔
فرانس میں اسے ”حیات جاوداں“ کا نام دیا گیا ہے۔ 1700ء میں فرانس کا کنگ فرسٹ کسی بیماری میں ایسا مبتلا ہوا کہ کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ سوکھ کا کانٹا ہوگیا تھا۔ نقاہت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ بیٹھنے کی قوت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے علاج کے لیے مشرق بعید کے ایک معالج کو بلایا گیا۔ اس نے بادشاہ کو صرف دہی کا استعمال کرایا اور کنگ فرسٹ صحت یاب ہوگیا۔
فرانس ہی کے ایک ماہر جراثیم پروفیسر میچسنٹکو لکھتے ہیں کہ دہی درازی عمر کی چابی ہے۔ اس کے استعمال سے نہ صرف انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ عمر بھی طویل پاتا ہے۔
Live longer look younger نامی کتاب میں مصنف نے اسے معجزاتی غذا کہا ہے۔
1908ءکے نوبل انعام یافتہ ایلی میٹ ٹنگوف وہ پہلا ماہر تھا جس نے برسوں کی تحقیق کے بعد اس کے خواص پر تحقیق کی اور بتایا کہ یہی وہ غذا ہے جو انسان کو طویل عمرگزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
آنتوں کے نظام کے اندر ایک خاص تعداد میں بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جنہیں فلورا کہا جاتا ہے۔ دہی فلورا کی پرورش میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ انٹی بایوٹک ادویات فلورا کو ختم کردیتی ہیں اسی لیے بعض ڈاکٹر صاحبان اینٹی بائیوٹک ادویات کے ساتھ دہی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دہی بیکٹیریا کے انفیکشن کو بھی روکتا ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق دہی میں پروٹین‘ کیلشیم اور وٹامن بی اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ البتہ آئرن اور وٹامن سی اس میں بالکل نہیں ہوتا۔ گائے کے دودھ کے مقابلے میں بھینس کے دودھ سے بنا ہوا دہی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی پروٹین اور دوسرے غذائی اجزاءزیادہ پائے جاتے ہیں۔ دہی کے اوپر جو پانی ہوتا ہے اس میں وٹامن اورمنرلز وغیرہ اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہیں کیوں کہ وہ دودھ کا ہی پانی ہوتا ہے۔ جب دودھ جمتا ہے تو پانی اس کے اوپر آجاتا ہے جسے دہی میں ملالیا جاتا ہے۔
دہی نہ صرف کھانوں کو لذت بخشتا ہے بلکہ غذائیت بھی فراہم کرتا ہے۔ جسم کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف بہ آسانی ہضم ہوجاتا ہے بلکہ آنتوں کے نظام پر بھی خوشگوار اثر ڈالتا ہے۔ اسے صحت مند بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی اور حرارے انتہائی کم مقدار میں ہوتے ہیں۔ ایک کپ دہی کے اندر صرف 120حرارے (کلوریز) پائے جاتے ہیں۔ اتنی کم مقدار میں کلوریز کے حامل دہی میںایسے کئی اقسام کے غذائی اجزاءہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ مثلاً پروٹین‘ مکھن نکلے دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 8 گرام پروٹین ہوتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 7 گرام۔ دہی کی اتنی ہی مقدار میں (مکھن نکلے ہوئے دودھ سے بنائے گئے دہی میں) ایک ملی گرام آئرن‘ 294 ملی گرام کیلشیم‘ 270 گرام فاسفورس‘ 50 ملی گرام پوٹاشیم اور 19 ملی گرام سوڈیم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وٹامن اے (A) 170 انٹرنیشنل یونٹ۔ وٹامن بی (B) ایک ملی گرام۔ تھیا مین 44 ملی گرام۔ وٹامن بی (ریبوفلاوین) 2 ملی گرام اور وٹامن سی (ایسکور بک ایسڈ) بھی 2 ملی گرام پایا جاتا ہے۔
ڈائٹنگ کرنے اور وزن کرنے والوں کے لیے دہی ایک آئیڈیل خوراک ہے کیوں کہ اس کے اندر حراروں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے جس کی مقدار اوپر لکھی جاچکی ہے۔ مندرجہ بالا مقدار میں 13 گرام کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح چکنائی کی مقدار بھی بہت کم ہوتی ہے۔ دہی کے ایک کپ میں 4 گرام چکنائی پائی جاتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی میں یہ مقدار بڑھ کر 8 گرام ہوجاتی ہے۔
دہی میں ایک خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا ایک خاص درجہ حرارت پر رکھے جانے والے دودھ کے اندر بڑی تیزی سے پیدا ہوکر بڑھتے چلے جاتے اور دودھ کو نصف ٹھوس حالت میں لادیتے ہیں جسے دہی کہا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا بہت بڑی مقدار میں وٹامن بی مہیا کرتے ہیں جو آنتوں کے نظام کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
دودھ کے کھٹا ہوتے ہی لیکٹوز خمیر ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک شفاف مایہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے جسے لیکٹک ایسڈ کہتے ہیں ۔ یہ نظام ہضم کو قوت فراہم کرنے کے علاوہ غذا کو ہضم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وزن کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ دہی کے بیکٹیریا کی زندگی کا انحصار لیکٹوز پر ہے۔ وہی اسے لیٹک ایسڈ میں تبدیل کرتی ہیں۔ لیکٹوز کی خاصیت ہے کہ وہ توانائی کی بڑی مقدار فراہم کرنے کے ساتھ آنتوں کی صحت کا بھی ضامن ہے۔

مرچ کے استعمالات

مرچ کے استعمالات
معدے کے لیے:
کھانوں میں ہری مرچوں کا استعمال معدے کے درد گیس اور مروڑ کے لیے انتہائی مفید ہے۔
آیورودیدک اور چینی ادویات مناسب عملِ انہضام کے لیے مرچ کے استعمال کی تجویز کرتی ہیں ، کیونکہ یہ معدے سے نکلنے والی رطوبتوں کے بہاؤ کو بہتر بناتی ہے اور انہیں متحرک کرتی ہے۔ اس کے علاوہ مرچیں ، کھانا ہضم کرنے اور بھوک بڑھانے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ قدیم زمانے کے لوگ مرچوں کو باقاعدہ ادویات کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
زکام اور گلے کی بیماریوں کے لیے:
نزلہ و زکام میں مرچوں کا استعمال بے حد فائدہ مند ہے ، کیوں کہ مرچوں کی تیزی اور تیکھا پن ناک اور گلے سے نکلنے والی رطوبتوں کو متحرک کرتا ہے ، جس سے ناک کی سانس لینے والی نالیاں صاف ہوجاتی ہیں اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
ہندوستان میں اکثر گاؤںکے لوگ پھپپھڑوں ، ناک یا سینے کی بندش یا جکڑ جانے کی صورت میں مرچوں کو باقاعدہ طور پر سبزی میں استعمال کرتے ہیں۔
خون کے بہاؤ کو بہتر بنانا:
جب جسم کا کوئی حصہ بیمار ہوتا ہے تو اس کا دوران خون بھی متاثر ہوتا ہے۔ مرچوں کے باقاعدہ استعمال سے منجمد خون ہلکا ہوجاتا ہے اور اس کے بہاؤ میں تیزی آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مرچوں میں موجود معدنیات جیسا کہ کیلشیم اور آئرن جو انسانی سیلز اور جسم کے سیال کا اہم حصہ ہوتے ہیں ، وہ دل کی شرح اور بلڈ پریشر کو بہتر طریقے سے کنٹرول کرتے ہیں۔
دل کی بیماریوں کے لئے:
حالیہ تحقیق سے بھی ثابت ہوگیا ہے کہ مرچ کا استعمال مریض کو ہارٹ اٹیک سے بچاتا ہے ، کیوں کہ مرچیں خون میں کولیسٹرول کی مقدار کو کم کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ مرچ فاسد مادوں کو تحلیل خون کو منجمد کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
مرچوں کا استعمال جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے اور اس میں موجود وٹامن سی سنگترے میں موجود وٹامن سے 6 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

Tuesday 22 July 2014

ایڈز HIV اور میڈیکل سائنس کی لغزش


ایڈز HIV اور میڈیکل سائنس کی لغزش

چونکہ اِس بیماری کی پوری تفصیل اور مخففات Abbreviationsکی تشریح محض وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہے لہٰذا بات وہاں سے شروع کی جا رہی ہے جو ہمارا اصل موضوع ہے۔

اِس ضمن میں میڈیکل سائنس نے جو شواہد مرتب کیے ہیں ان میں ایک نکتہ ایسا ہے جو میڈیکل سائنس کی ایک سنگین لغزش کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ عارضہ ایک وائرس کا مرہون منت ہے۔ اِس وائرس کو ایچ آئی وی HIV کا نام دیا گیا ہے جبکہ اِس کی درجہ بندی کی قسم کو آر این اے کہا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اِس وائرس کے اِنسانی جسم میں ملٹی پلائی کرنے سے پیدا ہونے والا انفیکشن اِنسانی جسم میں موجود قدرتی مدافعتی نظام کو "چند" سال میں بے اثر کر دیتا ہے لیکن اِس میں قابل توجہ امر یہ ہے کہ اِس وائرس کی اثر پذیری کی مدت کا کوئی پیمانہ آج تک میڈیکل سائنس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ HIVکا کوئی مریض تو محض سات سال میں ہی ایڈز سے مر گیا اور کسی مریض کا بارہ سال تک یہ وائرس خون میں رہنے کے باوجود کچھ نہ بگاڑ سکا یعنی اُس میں ایڈز کی کوئی علامت نمودار نہ ہوئی۔

یہاں دو اہم سوالات اور HIV کے دیگر کسی بھی وائرس سے مختلف ہونے کے بارے میں ذکر ضروری ہے جس سے میڈیکل سائنس کی اِس بیماری کے بارے میں ناقص تھیوری کو سمجھنے میں آسانی ہو گی، اِس لیے کہ اِن دونوں سوالات کا تسلی بخش جواب میڈیکل سائنس میں نہیں ملتا۔

1۔ اِنسانی جسم کے لیے ضرر رساں وائرس کی فہرست میں یہ واحد وائرس ہے جو اگر ایک دفعہ بدن میں داخل ہو جائے تو مرتے دم تک پیچھا نہیں چھوڑتا جبکہ عارضہ پیدا کرنے والے دیگر وائرس اِنسانی جسم میں طویل عرصہ تک رہ نہیں پاتے،۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ اِس کی کوئی توجیہ میڈیکل سائنس میں مسلمہ نہیں ہے۔

2۔ یہ واحد وائرس ہے جس کے خلاف اِنسانی بدن میں اِس کے ملٹی پلائی ہوتے وقت بھی کوئی مزاحمت نہیں ہوتی جبکہ دیگر وائرس میں سے جب بھی کوئی وائرس اپنی نشوونما اور انفیکشن کا عمل شروع کرتا ہے، اِنسانی جسم اِس پر فوراً خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے اور آبلے، بخار، سوزش، درد، پھپھولے، بلغم وغیرہ، از قسم مختلف علامات ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اِس فرق کی توجیہ Justification کیا ہے؟۔۔۔۔ کوئی نہیں۔

اِس ضمن میں ہمارے رفقائے کار نے جس تجزیئے کی طرف راہنمائی دی ہے اُس کی تفاصیل و جزئیات کا احاطہ تو یہاں ممکن نہیں، البتہ اُس کا ماحصل آسان زبان میں پیش خدمت ہے۔

یہ دونوں حقائق اگر غور کیا جائے تو ایک ہی سمت نشاندہی کرتے ہیں کہ کوئی ایسی وجہ ضرور ہے جس کی بنیاد پر اِنسانی جسم اِس وائرس کے خلاف مزاحمت نہیں کرتا اور یوں وائرس کو Multiply کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔۔۔ اور وہ وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ اِنسانی جسم میڈیکل سائنس کے پراپیگنڈے سے دھوکا نہیں کھاتا اور اِس بیرونی اور اجنبی قرار دیئے جانے والے وائرس کو اپنے لیے اجنبی ہی نہیں سمجھتا جبکہ میڈیکل سائنس کی تھیوری کے مطابق یہ اِنسانی جسم کیلئے ایک اجنبی آر این اے ہے، بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ یہ وائرس چمپینزی یعنی بندر سے اِنسان میں منتقل ہوا ہے۔

چونکہ اِنسانی جسم کا اپنے دشمن کو پہچان نہ سکنا قانون فطرت کے خلاف ہے لہٰذا وائرس کو اجنبی قرار دینے کی یہ میڈیکل سائنس کی تھیوری ایک قابل یقین تھیوری نہیں ہو سکتی چنانچہ یہ کہنا کہ یہ وائرس کسی دوسری مخلوق سے بنی نوع اِنسان میں آیا، غیر منطقی بات ہے اور ٹامک ٹوئیاں قرار دی جا سکتی ہے۔ اِس صورت میں صرف ایک گوشہ ایسا ملتا ہے جس کے ممکن العمل ہونے کے بارے میں ابھی تک میڈیکل سائنس میں غور ہی نہیں کیا گیا اور وہ گوشہ ہے وائرس کا بیرونی یا اجنبی نہ ہونا بلکہ خود اِنسان کے اندر ہی وجود حاصل کرنا۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایچ آئی وی کوئی ایسا خارجی وائرس نہیں ہے جو اِنسانی جسم کیلئے اجنبی ہو اور دیگر وائرس کی طرح باہر سے اِنسانیت پر حملہ آور ہوا ہو بلکہ یہ اِنسان کے اندر ہی وجود حاصل کرتا ہے اور اسی پروٹین کا جزو ہے جس سے اِنسان کے دیگر خلیات نمود حاصل کرتے ہیں۔

اِس نقطہ نظر کو ان شواہد سے مزید تقویت ملتی ہے کہ کئی مریضوں میں میڈیکل ٹسٹ کے دوران HIV پازیٹو نکلا لیکن وہ بارہ چودہ برسوں کے بعد بھی ایڈز کے شکار نہیں ہوئے حالانکہ اِس دوران وائرس ان کے خون میں موجود بھی رہا۔ اِس کا سیدھا سادہ مطلب یہ تھا کہ وہ HIV جو ان مریضوں کے خون میں ہے، ان کیلئے مہلک نہیں ہے۔ گویا ہر HIV ہر اِنسان کیلئے مہلک نہیں ہوتا بلکہ اسی شخص کیلئے مہلک ہوتا ہے جس سے اُس کی پروٹین مماثل ہوتی ہے۔۔۔ لیکن میڈیکل سائنس نے اس وائرس کے غیر مہلک ہونے کے جواز میں یہ غیر منطقی اور بے بنیاد مفروضے قائم کر لیے کہ یہ وائرس جو مہلک نہیں نکلا، یہ وائرس ہی کوئی دوسرا ہے اور یہ ایڈز پیدا ہی نہیں کرتا۔۔۔ یا یہ کہ ہر شخص میں اِس وائرس کی اثر پذیری کی شدت مختلف ہوتی ہے چنانچہ کچھ مریض دس بارہ سال تک بھی اِس کے انفیکشن کے شکار نہیں ہوئے اور کبھی نہ کبھی وہ ضرور ہوں گے، وغیرہ۔

بچپن میں ایک چٹکلہ سنا کرتے تھے کہ کوئی سائنسدان مینڈک پر تحقیق کر رہا تھا۔ اُس نے مینڈک کو میز پر بٹھا کر اُس کے عقب میں پٹاخا چھوڑا۔ مینڈک زور سے اچھلا۔ سائنسدان نے اُس کی ایک ٹانگ کاٹ دی اور پھر پٹاخا پھوڑا۔ اِس دفعہ مینڈک کم اچھلا۔ سائنسدان نے اُس کی دوسری ٹانگ بھی کاٹ دی۔ اِس دفعہ پٹاخا پھوڑا تو وہ بالکل نہ اچھلا۔ اِس سے سائنسدان نے یہ محققانہ نتیجہ اخذ کیا کہ مینڈک کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی جائیں تو وہ بہرا ہو جاتا ہے۔

کچھ اِسی قسم کی واردات میڈیکل سائنس کے ساتھ بھی ہوئی چنانچہ اب وہ مینڈک کو بہرا تصور کرنے پر مصر ہے اور اِن ممکنات پر غور کرنے کیلئے تیار ہی نہیں کہ ہر H.I.Vہر شخص کیلئے مہلک نہیں ہوتا بلکہ صرف اُنہی کیلئے مہلک ہوتا ہے جن سے مماثل Compatibleہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر دو افراد کے ڈی این اے باہم فیوز ہو جائیں تو اِن میں سے ایک کی مثبت دھاری Strand دوسرے کی منفی دھاری کے ساتھ اِس طرح مخلوط ہو سکتی ہے کہRNA بنا سکے۔ اب چونکہ یہ دونوں Strands مختلف افراد کے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہیں اِس لیے اِن کی پیوستگی عدم توازن کی شکار رہے گی چنانچہ ایسا RNA جو پروٹین جمع کرے گا وہ ان دو افراد کے جسم سے نیم ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے انہی دو افراد کے Tخلیات پر چپک کر ایڈز کا باعث بنے گی جن کے ڈی این اے باہم فیوز ہوئے تھے۔ اِسی غیر متوازنRNA کا نام HIV ہے۔ یہ HIV چونکہ صرف انہی دو افراد کے جسم سے نیم ہم آہنگ ہے لہٰذا صرف ان کے اور ان کی اولاد کیلئے مہلک ہے، باقی اِنسانوں کیلئے نہیں۔

یہ ایک ایسی تھیوری ہے جو میڈیکل سائنس میں زیر غور ہی نہیں لائی گئی اور وہاں مینڈک کے بہرا ہونے کی رٹ لگائی جاتی رہی یعنی جان چھڑانے کیلئے یہی کہا جاتا رہا کہ جو وائرس مہلک نہیں نکلا وہ HIV تھا ہی نہیں بلکہ وہ اسی قبیل کا کوئی دوسرا وائرس تھا، یا یہ بے سروپا مفروضہ قائم کر لیا گیا کہ ہر HIV کے ہر اِنسان کیلئے مہلک بن جانے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے جس کا کوئی پیمانہ بھی ممکن نہیں ہے، وغیرہ۔

ہماری تھیوری میں یہ سوال ابھی تشنہ ہے کہ دو مختلف افراد کے ڈی این اے کو باہم فیوز ہونے کا موقع کہاں اور کیسے مل سکتا ہے .؟

میڈیکل سائنس HIV کے عمل اِنتقال کے جن ذرائع کا ذکر کرتی ہے ان میں ایک Multiple Sexual Partners یعنی ایک وقت میں ایک سے زیادہ، مختلف اصناف کے افراد کا باہمی فطری جنسی تعلق ہے۔

یہ انتہائی مبہم بات ہے جو ایک جسم فروش عورت کی زندگی اور دو بیویاں رکھنے والے شوہر کی عائلت کو ایک ہی صف میں کھڑا کر رہی ہے۔ مزید یہ کہ اِس میں لفظ "وقت" کی کوئی حد بندی نہیں ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی پیشہ ور عورت خود کو ہر شب ایک نئے مرد کے سامنے پیش کرتی ہے تو بھی یہ Multiple ہو گا اور اگر کوئی عورت بیوہ ہو جائے اور پھر دوسری شادی کرے تو بھی یہ Multiple ہو گیا۔ گویا میڈیکل سائنس کی اِس Definition کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عمر بھر میں جب بھی کبھی کسی اِنسان کا Sexual Partner تبدیل ہوا، یہ عمل ملٹی پل کی تعریف میں آ گیا یعنی اُس کے لیے اِس انفیکشن کا امکان پیدا ہو گیا، خواہ یہ امکان بہت موہوم سا ہی ہو۔

یہ تصور اگر درست مان لیا جائے تو پوری اِنسانیت کے لیے اِس بیماری سے بچاؤ تقریباً ناممکن بن جاتا ہے کیونکہ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ دنیا کے "ہر ایک" مرد کے لیے غیر فطری ضبط کیے بغیر زندگی بھر ایک ہی عورت تک محدود رہنا ممکن نہیں ہے۔ گویا جب تک ہم مرد اور عورت میں فطری تولیدی عمل کے تناظر میں Multiple کے مفہوم کی درستگی اور اِس کے ضمن میں لفظ "وقت" کا تعین نہ کر لیں، نہ تو ہم وائرس کے فیوژن کے عمل کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اِنسانیت کو اِس مہلک مرض سے حتمی طور پر محفوظ رہنے کا یقینی راستہ فراہم کر سکتے ہیں چنانچہ لازم ہے کہ اِس ضمن میں "وقت" کے تصور کی تعریف مرتب کر لی جائے۔

ہر عورت کو قدرت نے ایام یعنی Menstrual Cycles کی صورت میں خود کار صفائی کے بے مثل نظام کا عطیہ دیا ہے۔ جب کسی عورت کا ایک مرد کے ساتھ عمل مجامعت وقوع پذیر ہوتا ہے تو اُس مرد کے اثرات عورت کے تولیدی اعضاء میں سرایت کر جاتے ہیں۔ اگر اِس عمل کے نتیجے میں عورت کا پاؤں بھاری نہ بھی ہو تو بھی وہ اُس مرد سے تب تک Impregnated رہتی ہے جب تک اُس کا اگلا دورۂ ایام خاطر خواہ طریقے سے مکمل نہ ہو جائے۔

ایک دو یا زیادہ سے زیادہ تین Cycles کے مکمل ہو جانے کے بعد وہ آئینے کی طرح شفاف ہو جاتی ہے اور اِس میں اُس مرد کے کوئی اثرات باقی نہیں رہتے جس سے اِس کی سابقہ Intramenstrual Clean Period کے دوران مجامعت واقع ہوئی تھی یا ہوتی رہی تھی۔ ایام کا یہی نظام عورت کے لیے قدرت کی طرف سے خود کار صفائی کا عطیہ ہے اور اِسی تصور پر Multiple کا درست مفہوم اُستوار ہوتا ہے کہ اگر کسی عورت کی ایک طہر Intramenstrual Clean Period کے دوران ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ مجامعت وقوع پذیر ہو تو یہ Multiple کے مفہوم پر پورا اترے گا اور اِس وائرس کے لیے Culture Media فراہم کرنے کا باعث بنے گا کیونکہ اِس صورت میں کہ جب اُس عورت کے اندر پہلے سے ہی ایک مرد کے اثرات موجود ہںف یعنی وہ پہلے ہی ایک مرد سے Impregnated ہے، اگر کسی دوسرے مرد کے اثرات بھی اُس میں سرایت کرتے ہیں تو وائرس کے لیے سازگار ماحول جسے میڈیکل کی اصطلاح میں کلچر میڈیا کہا جاتا ہے، دستیاب ہو جاتا ہے۔ چونکہ اُس وقت دو مختلف مردوں کے ڈی این اے اُس کے رحم میں بیک وقت موجود ہوں گے لہٰذا یہ امر "قرین قیاس" ہے کہ وہ باہم فیوز ہو جائیں اور ان کے Strands کے اختلاط کے ذریعے ایک ایسا آر این اے تشکیل پا جائے جو ان تینوں افراد یعنی دونوں مرد اور کلچر میڈیا فراہم کرنے والی اُس عورت کے لیے مہلک HIV کی شکل میں نشوونما حاصل کرنے لگے۔ تب یہ HIV اگرچہ ان کی اولادوں کے لیے بھی مہلک ہو گا تاہم اگر یہ کسی چوتھے فرد کو خون کی Transfusion کے ذریعے منتقل ہو گا تو اُس کے لیے غیر مہلک ہو گا، باوجودیکہ اُس کے خون میں موجود رہے گا۔

اب اِس لفظ "قرین قیاس" کی تفصیل کا جائزہ بھی لینا مناسب ہو گا یعنی ایسے دو افراد کونسے ہو سکتے ہیں جن کے ڈی این اے اِس قدر مماثل ہوں کہ ان کے باہم فیوز ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہو سکتے ہوں۔ اِس سوال کا جواب ہے "خون کا رشتہ"۔ جب جنسی تعلق قائم کرنے والے افراد کے مابین کوئی ایسا جینیاتی مشابہت کا تعلق ہو جیسا ایک ہی خاندان کے افراد میں ہوتا ہے، تو ان کے ڈی این اے کے باہم فیوز ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی معاشرے میں جنسی تعلق کی اُستواری پر نگاہ احتساب نہ رہے یعنی زنا عام ہو تو چونکہ افراد کی ولدیت مشکوک ہوتی ہے لہٰذا ایسے معاشرے میں اِس امر کے امکانات بہت زیادہ ہو سکتے ہیں کہ جو افراد جسمانی تعلق قائم کریں وہ ایک ہی جینیاتی فریم کے مالک ہوں، بالفاظ دیگر ان کے درمیان خون کا رشتہ موجود ہو خواہ انہیں اِس حقیقت کا علم ہی نہ ہو۔ اِس صورت میں ان کے ڈی این اے کے فیوز ہونے کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔

اِس نظریے کی صداقت کے لیے یہ مشاہدہ کافی ہے کہ ایڈز سے مرنے والوں کی زیادہ تعداد انہی معاشروں میں ہے جہاں ایک عورت کے ایک وقفہ طہر یعنی Intramenstrual Period کے دوران دو یا زیادہ مردوں سے جسمانی تعلق یعنی زنا کی آزادی ہے۔

Transfusion کے ذریعے منتقل ہونے والے HIV کے غیر مہلک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ایڈز کی تاریخ میں ایسے بچوں کی کوئی تعداد مرقوم نہیں ہے جو سات برس کی عمر میں ایڈز سے مر گئے ہوں اور ان کی ماؤں کو ایڈز نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں ان بچوں کو ایچ آئی وی موروثی طور پر نہیں بلکہ خون کے ذریعے منتقل ہوا ہو۔ اگر Transfusion کے ذریعے منتقل ہونے والا ایچ آئی وی مہلک ہوتا تو ایسے بچوں کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ہوتی۔

اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی عورت اِس امر کو ملحوظ رکھے کہ وہ ایک طہر کے دوران خود کو ایک ہی مرد تک محدود کرے گی تو خواہ اُس کی زندگی میں بیسیوں Sexual Partners بھی کیوں نہ تبدیل ہوں، یہ عمل کسی صورت بھی Multiple کی تعریف میں نہیں آئے گا۔ اِسی طرح اگر ہر مرد یہ امر ملحوظ رکھے کہ وہ کسی ایسی عورت کے ساتھ مجامعت نہ کرے جو اِس وقفہ طہر کے دوران پہلے ہی کسی دوسرے مرد سے Impregnated ہو چکی ہو تو خواہ اُس مرد کا بیک وقت ایک سے زیادہ عورتوں سے بھی جسمانی تعلق کا سلسلہ اُستوار ہو، یہ عمل نہ تو آر این اے کو مہلک ایچ آئی وی کی ہیئت اِختیار کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے اور نہ ہی Multiple کی تعریف میں آ سکتا ہے

اِسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مرد اگر صرف انہی عورتوں سے تعلق رکھے جو ایک طہر کے دوران صرف اسی تک محدود رہنے والی ہوں اور ان عورتوں کے درمیان کوئی جینیاتی مشابہت، کوئی خون کا رشتہ نہ ہو تو اُس کا یہ عمل نہ تو Multiple کی تعریف میں آ سکتا ہے اور نہ ہی اِس سے کوئی Culture Media ڈیویلپ ہو سکتا ہے چنانچہ کوئی ایچ آئی وی، کوئی انفیکشن وقوع پذیر نہیں ہو سکتا۔

مردوں کی ہم جنس پرستی (لواطت) بھی اِسی ذیل میں آتی ہے کیونکہ اِس سے دو مردوں کے ڈی این اے کو باہم فیوز ہونے یعنی ایچ آئی وی بننے کیلئے ایسا کلچر میڈیا دستیاب ہو جاتا ہے جس میں عورت کی کوئی شراکت یا ضرورت نہیں ہوتی۔

اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہمیں اُس اِنسانیت کو جو اِس انفیکشن کی ابھی شکار نںیا ہوئی، ایک محفوظ اور یقینی راستہ فراہم کرنا ہے تو ہمیں اِس تجزیئے کو قانون کی شکل میں ڈھالنا ہو گا یعنی ایک عورت کے دو مختلف مردوں کے ساتھ اِس تعلق کیلئے تین طہر کے درمیانی وقفے کی شرط کو جس کا نام عدت ہے، پوری دنیا میں قانون کا درجہ دیا جائے تاکہ نسل اِنسانی کی پیدائش کا محفوظ عمل معاشرے کی نگرانی اور ضمانت کے ساتھ جاری رہ سکے۔