Tuesday 26 November 2013

خونی بواسیر کے لیئے مجرب ہے ( مجربات کوثری)


اشیاء ۔۔۔۔ اجوائن ، بکائن ، تارا میرا ، رسونت (ہم وزن)
سب اشیاء کو کوٹ چھان لیں اور زیرہ نمبر کیپسول دن میں تین بار کھلائیں ۔
چالیس روز متواتر استعمال سے اس مرض سے چھٹکارہ ہوجاتا ہے

کشتہ ہڑتال ورقیہ (مجربات کوثری


ہڑتال ورقیہ 5 تولہ کو آب جل نیم کے ایک پاو رس میں کھرل کرکے ٹکیہ بنائیں اور خشک کرلیں 
برادہ بارہسنگھا 10 تولہ کو بھی آب جلنیم ایک پاو سے کھرل کرکے دو ٹکیہ بنائیں اور ان کے درمیان ہڑتال والی ٹکیہ رکھ کر لبوں کو بند کرکے خشک ہونے کے لیئے رکھ دئیں پھر نقدہ جل نیم ایک پاو میں رکھ کر کوزے کوگل حکمت کر لیں ایک من اوپلوں کی آگ دئیں دونوں چیزیں کشتہ ہونگیں احتیاط سے علحدہ کر کے محفوظ کرلیں۔
روزانہ ایک چاول دوا ہمراہ مکھن کھلائیں ۔امراض مزمنہ میں بطور معاون اس کا استعمال جیرت انگیز رزلٹ دیتا ہے ۔

مرہم بے نظیر


(A) سیماب 1 تولہ کو 5 تولہ تیزاب شورہ میں حل کریں ، سوڈا بائی کارب 1 تولہ کو 50 گرام پانی میں حل کرکے پارے والے محلول پر ڈالیں سیماب تہہ نشین ہوگا ،پانی کو نتھار لیں سیماب سرح رنگ پوڈر برآمد ہوگا۔
(B) چربی 10 گرام ، تیل کنجد 40 گرام ، پارہ مذکورہ بالا 10 گرام سب کو ملا کر مرہم تیار کرلیں ۔(نوٹ) چربی کو پگھلا کر تیل شامل کریں اور ٹھنڈا ہونے پر پارے والا پوڈر شامل کریں۔
جملہ اقسام کے زخموں کا شرطیہ علاج ہے

Monday 25 November 2013

حکمائ حضرات کیلیے لاجواب تحفہ


نبض

کیسے چیک کریں
علم نبض طب قدیم میںابتداء ہی سے تشخیص کاروح رواں رہا ہے اور اب بھی علم نبض تشخیص کے جدید وقدیم طبی آلات ووسائل وذرائع پر فوقیت رکھتاہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نبض صرف حرکت قلب کا اظہار کرتی ہے مگر ایسا کہنا درست نہیں ،فن نبض پردسترس رکھنے والے نبض دیکھ کر مرض پہچان لیتے ہیں مریض کی علامات وحالات کوتفصیل سے بیان کردیتے ہیں ۔
سائنس کایہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ قو ت سے حرکت اورحرکت سے حرارت پیداہوتی ہے یہی نظام زندگی میں راوں دواں ہے نبض کے ذریعے بھی ہم مریض کے جسم میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت اس کے جسم میں قوت کی زیادتی ہے یاحرکت کی زیادتی ہے یاحرارت کی زیادتی ہے یا ان میں کس کس کی کمی ہے اسی کے تحت نبض کی باقی جنسیں بھی پرکھی جاسکتی ہیں ۔ جن کا اس مقالہ میں تفصیلاً ذکر ہو گا نبض کی حقیت کو جانچنے کے لیے اسقدر جان لینا ضرروی ہے کہ نبض روح کے ظروف وقلب وشرائین کی حرکت کانام ہے کہ نسیم کو جذب کرکے روح کو ٹھنڈک پہنچائی جائے اورفضلا ت د خانیہ کوخارج کیاجائے اس کا ہر نبضہ ( ٹھو کر یاقرع) دو حرکتوں اور دو سیکونوں سے مرکب ہوتا ہے کیونکہ ہرایک بنضہ انسباط اورانقباص سے مرکب ہوتا ہے یہ دونوں حرکتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں اور ہر دو حرکتوں کے درمیان سکون کاہوناضروری ہے۔

نبض دیکھنے کاطریقہ


طبیب اپنی چاروں انگلیاں مریض کی کلائی کے اس طرف رکھے، جس طرف کلائی کا انگوٹھا ہے، اور شہادت کی انگلی پہنچے کی ہڈی کے ساتھ نیچے کی طرف اور پھر شریان کا مشاہد ہ کریں ۔


اجناس نبض


نبض کی دس اجناس ہیں

1۔مقدار
2۔قرع نبض
3۔زمانہ حرکت
4۔قوام آلہ
5۔زمانہ سکون
6۔مقدارِرطوبت
7۔شریان کی
8۔وزنِ حرکت
9۔استوا واختلا ف نبض
10۔نظم نبض

مقدار


i۔طویل

یہ وہ نبض ہے جس کی لمبائی معتدل و تندرست شخص کی نبض سے نسبتاً لمبائی میں زیادہ ہویعنی اگریہ چارانگلیوں تک یا ان سے میں بھی طویل ہوتو اسے ہم طویل نبض کہیں گے اوریادرکھیں طویل نبض حرارت کی زیادتی کوظاہر کرتی ہے اگر اس کی لمبائی دو انگلیوں تک ہی رہے تو یہ معتدل ہوگی ۔ اوریہ دوانگلیوں سے کم ہوتو یہ قیصر ہوگی اورقیصر نبض حرارت کی کمی کوظاہر کرتی ہے ۔طویل غدی نبض ہے اور قصیر اعصابی ۔
iiعریض
چوڑی نبض جوکہ انگلی کے نصف پور سے زیادہ ہورطوبت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جوکہ نصف پور ہو معتدل ہوگی اورجس کی چوڑائی نصف پور سے کم ہوگی رطوبت کی کمی کا اظہار کرے گی ۔تنگ نبض کو ضیق کہا جاتا ہے ۔عریض نبض اعصابی ہو گی اور ضیق نبض غدی ہو گی ۔
iiiشرف (بلند)
جونبض بلندی میں زیادہ محسوس ہوایسی نبض حرکت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جودرمیان میںہوگی معتدل اورجو نبض نیچی ہوگی اسے منحفض کہتے ہیں ۔ یہ حرکت کی کمی پر دلالت کرتی ہے۔
چاروں انگلیوں کو نبض پر آہستہ سے رکھیں یعنی دبائو نہ ڈالیں ۔ اگر نبض انگلیوں کوبلا دبائو چھونے لگے توایسی نبض مشرف ہوگی اوراگر نبض محسوس نہ ہوتو پھر انگلیوں کو دباتے جائیں اورجائزہ لیتے جائیں اگرنبض درمیان میں محسوس ہوتو یہ معتدل ہوگی اوراگرانگلیاں کلائی پردبانے سے نبض کا احساس کلائی کی ہڈی کے پاس اخیر میں جاکر ہوتو یہ نبض منخفض ہے جوکہ حرکت کی کمی کا اظہارکرتی ہے مشرف نبض عضلاتی اورمنخفض اعصابی ہوگی۔

قرغ نبض -- ٹھوکر نبض


اس میں نبض کی ٹھوکر کوجانچا جاتا ہے چاروں انگلیاں نبض پر رکھ کر غور کریں آہستہ آہستہ انگلیوں کودبائیں اگرنبض انگلیوں کوسختی سے اوپرکی طرف دھکیل رہی ہے توایسی نبض قوی کہلاتی ہے یعنی ذرا زور سے ٹھوکر لگانے والی نبض ہی قوی ہے یہ نبض قوت حیوانی کے قوی ہونے کوظاہر کرتی ہے اوراگر یہ دبائو درمیانہ سا ہو تومعتدل ہوگی ۔اورجونبض دبانے سے آسانی کے ساتھ دب جائے تویہ نبض ضعیف کہلاتی ہے یعنی قوت حیوانی میں صغف کا اظہار ہے قوی عضلاتی ہوگی اورضعیف اگرعریض بھی ہوتو اعصابی ہوگی اورضیق ہوتو غدی ہوگی۔


زمانہ حرکت


اس کی بھی تین ہی اقسام ہیں سریع ۔ متعدل ۔ بطی ۔

سریع نبض وہ ہوتی ہے جس کی حرکت تھوڑی مدت میں ختم ہوجاتی ہے یہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ قلب کو سوئے سردنسیم یعنی اوکسیجن بہت حاجت ہے جسم میں دخان (کاربانک ایسڈ گیس ) کی زیادتی ہے۔
اگر بطی ہے صاف ظاہر ہے کہ قلب کو ہوائے سرد کی حاجت نہیں۔ سریع یعنی تیزتر نبض عضلاتی ہوتی ہے اوربطی(سست) نبض اگرعریض ہوگی تواعصابی ہوگی اورضیق ہوگی توغدی ہوگی بطی سے مراد نبض کی سستی ہے۔

قوام آلہ -- شریان کی سختی ونرمی


اسے بھی تین اقسام میں بیان کیاگیاہے صلب ، معتدل اورلین ،

صلب وہ نبض ہے جسکو انگلیوں سے دبانے میں سختی کااظہار ہویہ بدن کی خشکی کودلالت کرتی ہے ایسی نبض ہمیشہ عضلاتی ہوتی ہے۔
لین نبض صلب کے مخالف ہوتی ہے یعنی نرم ہوتی ہے ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پردلالت کرتی ہے یعنی ایسی نبض اعصابی ہوگی ۔
اورمعتدل اعتدل رطوبت کا اظہار ہے۔

زمانہ سکون


اس کو بھی تین اقسام میں بیان کیاجاتا ہے متواتر ، تفاوت، معتدل ۔

متواترنبض وہ ہے جس میں وہ زمانہ تھوڑا ہوجو دو ٹھوکروں کے درمیان محسوس ہوتاہے ۔ یہ نبض قوت حیوانی کے ضعف کی دلیل ہے قوت حیوانی میں ضعف یاتوحرارت کی زیادتی کی وجہ سے ہوگا یاپھر رطوبت کی زیادتی سے ہوگا۔عموماً ایسی نبض اگر ضیق ہو تَو غدی ہوگی یاپھر اگرعریض ہو تَواعصابی بھی ہوسکتی ہے ۔
نبض دیکھتے وقت اس بات کوخاص طور پر مدنظر رکھیں کہ کتنی دیر کے بعدٹھوکر آکرانگلیوں کو لگتی ہے اورپھر دوسری ٹھوکر کے بعد درمیانی وقفہ کومدنظررکھیں ۔ پس یہی زمانہ سکون ایسازمانہ ہے کہ جس میں شر یان کی حرکت بہت کم محسوس ہوبلکہ بعض اوقات اسکی حرکت محسوس ہی نہیں ہوتی اورایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبض انگلیوں کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے۔

مقدارِ رطوبت


نبض پرانگلیاں رکھ کر جانچنے کی کوشش کریں اس کی صورت یہ ہوگی جیساکہ پانی سے بھری ہوئی ٹیوب کے اند رپانی کی مقدار کااندازہ لگایاجائے کہ ٹیوب کے اند ر پانی اس کے جوف کے اندازے سے زیادہ ہے یاکم بالکل اسی طرح نبض ضرورت سے زیادہ پھولی ہوگی اوردبانے سے اس کا اندازہ پوری طرح ہوسکے گا اگر ممتلی ہوتو اس میں ضرورت سے زیادہ خون اورروح ہوگی جوکہ صحت کے لئے مضرہے اسی طرح اگرنبض خالی ہوگی توخون اورروح کی کمی کی علامت ہے کمزوری کی دلیل ہے اس لئے ممتلی یعنی خون و روح سے بھری ہوئی نبض عضلاتی ہوگی خالی ممتلی کے متضاد ہوگی جوکہ اعصابی ہوگی ۔


شریان کی کیفیت


نبض کی اس قسم سے جسم کی حرارت وبرودت (گرمی وسردی )کوپرکھا جاتاہے اس کوجانچنا بہت آسان ہے اگرنبض چھونے سے حرارت زیادہ محسوس ہوتویہ نبض حارہوگی، گرمی پر دلالت کریگی اورگرم نبض عموماً طویل اور ضیق بھی ہوتی ہے ۔ اگرنبض پرہاتھ رکھنے سے مریض کاجسم سرد محسوس ہوتویہ نبض باردہوگی جوکہ اعصابی عضلاتی کی دلیل ہے۔


وزن حرکت


یہ نبض حرکت کے وزن کے اعتبارسے ہے جس سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ نبض کازمانہ حرکت اورزمانہ سکون مساوی ہے۔

اگریہ زمانہ سکون مساوی ہے تو نبض انقباص وانسباط(پھیلنا اورسکٹرنا)کے لحاظ سے حالت معتدل میں ہوگی اسے جیدالوزن کہاجاتا ہے
ایسی نبض جسکا انقباض وانسباط مساوی نہ ہوبلکہ دونوں میں کمی بیشی پائی جائے یہ نبض صحت کی خرابی کی دلیل ہے۔ اگر دل میںیہ سکیڑ دل کی شریانوں کی بندش کی وجہ سے ہوتو ایسی نبض عضلاتی ہوگی ۔اگریہ ضعف قلب کی وجہ سے ہے توایسی نبض غدی ہوگی اوراگریہ تسکین قلب کی وجہ سے ہے توایسی نبض اعصابی ہوگی۔ ان باتوں کومدنظر رکھنا طبیب کی مہارت ہے۔ ایسی نبض کوخارج الوزن کانام دیا گیا ہے۔
اگر نبض عمرکے مطابق اپنی حرکت وسکون کے وقت کوصحیح ظاہر نہ کرے یعنی بچے ، جوان ،بوڑھے کی نبض کے اوزان ان کی اپنی عمر کے مطابق نہ ہوں تویہ ردی الوزن کہلائے گی۔ اس میں نبض کی انقباضی اورانبساطی صورت کوجانچا جاتاہے۔ نبض جب پھیلے تواس کوحرکت انسباطی کہتے ہیں اورجب اپنے اند ر سکڑے تواسے حرکت انقباص کہتے ہیں ۔ان دونوں کے زمانوں کافرق ہی اسکا وزن کہلاتاہے۔
ایسی نبض پرکھتے وقت عمر کوخاص طور پرمدنظر رکھیں ایسی نبض کوحتمی نبض قرار دینے کے لئے نبض کی دیگراقسام کے مدنظر حکم لگائیں۔

استوا واختلاف نبض


اسکی صرف دوہی اقسام ہیں مستوی اورمختلف ۔

مستوی نبض وہ ہے جس کی تمام اجزاء تمام باتوں میں باقی نبض کے مشابہ ہوں یہ نبض بدن کی اچھی حالت ہونے کی علامت ہے ۔
نبض مختلف وہ نبض ہے جومستوی کے مخالف ہواوراس کے برعکس پردلالت کرے ۔
جانچنے کے لئے نبض پرہاتھ رکھیں جس قدر نبض کی اجناس اوپر بیان کی گئی ہیں کیا یہ ان کے اعتبار سے معتدل ہے اگران میں ربط قائم ہے اورمعتدل حیثیت رکھتی ہیں تووہ مستوی ہے ورنہ مختلف۔

مرکب نبض کی اقسام


تعریف

مرکب نبض اس نبض کو کہتے ہیں جس میں چند مفرد نبضیں مل کرایک حالت پیداکردیں۔ اس سلسلہ میں اطباء نے نبض کی چند مرکب صورتیں بیان کی ہیں ، جن سے جسم انسان کی بعض حالتوں پر خاص طورپر روشنی پڑتی ہے اورخاص امراض میں نبض کی جومرکب کیفیت پیدا ہوتی ہے، ان کااظہارہوتا ہے۔ ان کافائدہ یہ ہے کہ ایک معالج آسانی کے ساتھ متقدمین اطباء اکرام کے تجربات ومشاہدات سے مستفید ہوسکتاہے ۔
وہ چندمرکب نبضیں درج ذیل ہیں
1۔ نبض عظیم
وہ نبض جوطول وعرض وشرف میں زیادہ ہوایسی نبض قوت کی زیادتی کااظہار کرتی ہے اسے ہم عضلاتی یاوموی کہیں گے جونبض تینوں اعتبارسے صغیر ہوگی وہ قوت کی کمی کااظہا ر ہے اوروہ اعصابی نبض ہوگی۔
2۔ نبض غلیظ
غلیظ وہ نبض ہے جوصرف چوڑائی اوربلندی میں زیادہ ہوایسی نبض عضلاتی اعصابی ہوگی۔
3۔نبض غزالی
وہ نبض ہے جوانگلی کے پوروں کوایک ٹھوکر لگانے کے بعد دوسری ٹھوکر ایسی جلدی لگائے کہ اس کا لوٹنا اورسکون کرنا محسوس نہ ہو یہ نبض اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ترویج نسیم کی جسم میں زیادہ ضرورت ہے۔ غزالی کے معنی بچہ ہرن ہیں۔ یہاں اس کی مشابہت چال کی تیزی کی وجہ سے دی گئی ہے ایسی نبض عضلاتی ہوگی۔
4۔موجی نبض
ایسی نبض جس میں شریانوں کے اجزاء باوجودہونے کے مختلف ہوتے ہیں کہیں سے عظیم کہیں سے صغیر کہیں سے بلند اورکہیں سے پست کہیں سے چوڑی اورکہیں سے تنگ گویا اس میں موجیں (لہریں) پیدا ہورہی ہیں جوایک دوسرے کے پیچھے آرہی ہیں ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پردلالت کرتی ہے قانون مفر د اعضا ء میں ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی۔
5نبض دودی
)کیڑے کی رفتار کی مانند ) یہ نبض بلندی میں نبض موجی کے مانند ہوتی ہے لیکن عریض اورممتلی نہیں ہوتی یہ نبض موجی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس کی موجیں ضعیف ہوتی ہیں گویااس کے خلاف صغیر ہوتی ہے ایسی نبض قوت کے ساقط ہونے پردلالت کرتی ہے لیکن سقو ط قوت پورے طورپرنہیں ہوتا اس نبض کودودی اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حرکت میں اس کیڑے کے مشابہ ہوتی ہے جس کے بہت سے پائوں ہوتے ہیں ایسی نبض غدی اعصابی ہوگی بوجہ تحلیل نبض میں ضعف پیداہوتاہے۔
6نبض ممتلی
یہ وہ نبض ہے جونہایت ہی صغیر اورمتواتر ہوتی ہے ایسی نبض اکثر قوت کے کامل طور پرساخط کے ہوجانے اورقربت الموت کے وقت ہوتی ہے یہ نبض دودی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس سے زیادہ صغیر اورمتواتر ہوتی ہے یہ اعصابی غدی کی انتہائی صورت ہوگی۔
7۔نبض منشاری
(آرے کے دندانوں کی مانند)
یہ وہ نبض ہے جوبہت مشرف ،صلب،متواتراورسریع ہوتی ہے اسکی ٹھوکر اوربلندی میںاختلاف ہوتاہے یعنی بعض اجزا سختی سے ٹھوکر لگاتے ہیں بعض نرمی سے اوربعض زیادہ بلندہوتے ہیں اوربعض پست گویا ایسامحسوس ہوتاہے کہ اس نبض کے بعض اجزاء نیچے اترتے وقت بعض انگلیوں کوٹھوکر ماردیتے ہیں ۔یعنی ایک پورے کوجس بلندی سے ٹھوکر لگاتے ہیں اس سے کم دوسرے پورے کو یہ نبض اس امر کوظاہر کرتی ہے کہ کسی عضومیں ورم پیدا ہوگیا ہے خاص طور پر پھیپھڑوں اورعضلات میںصاف ظاہر ہے کہ یہ عضلاتی اعصابی تحریک کی بگڑی ہوئی نبض ہے ۔
نبض ذنب الفار،نبض ذولفترہ ،نبض واقع فی الوسط،نبض مسلی ،مرتعش اورملتوی وغیرہ بھی بیان کی جاتی ہیں، جن سے کسی مزاج کی واضح پہچان مشکل ہے، اس لئے ان کوچھوڑدیاگیاہے۔طبِ قدیم کے تحت نبض کا بیان صرف اس لئے لکھ دیا ہے کہ طبِ قدیم کے اطبا ء بھی اس سے استفا دہ کر سکیں ۔ ساتھ ساتھ تجدیدِ طب کے مطا بق ان کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے کہ تجدیدِ طب کے بھی اس سے مستفیض ہو سکیں ۔
نبض کے با رے تجدیدِ طب کی رہنما ئی مکمل اور کا فی ہے ۔ مجددطب حکیم انقلاب نے علم النبض پر بھی انتہائی محنت کے ساتھ تجدید کی اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں نبض کوانتہائی آسان کرتے ہوئے اسے بھی اعضائے ریئسہ دل ودماغ وجگر کے ساتھ مخصوص کردیا جوکہ فنِ طب میں ایک بہت بڑا کمال و انقلاب ہے۔ اس اعتبار سے قانون مفرداعضا میں مفردنبض کی اقسام صرف تین ہیں، جنہیں اعصابی نبض ،عضلاتی نبض،اورغدی نبض سے موسوم کیاگیا ہے۔ پھرہر ایک مرکب نبض کی اقسام کوانہیںاعضاء رئیسہ کے باہمی تعلق کے مدنظر چھ(۶)اقسام میں تقسیم کردیاہے،جوکہ بالترتیب درج ذیل مقرر ہیں
1۔اعصابی عضلاتی 2۔عضلاتی اعصابی
3۔عضلاتی غدی 4۔غدی عضلاتی
5۔غدی اعصابی 6۔اعصابی غدی
اب پہلے مفردنبض کی شناخت ووضاحت کوبیان کیاجاتاہے۔

اعصابی نبض


ایسی نبض جوقیصر ہومنخفض ہو،عریض ہو،لین ہو، بطی ہو اعصابی کہلاتی ہے ۔ انگلیوں کوزورسے دبانے سے کلائی کے پاس محسوس ہوگی۔ یہ جسم میںبلغم اور رطوبت کی زیادتی کی علامت ہوگی۔


عضلاتی نبض


جب ہاتھ مریض کی کلائی پر آہستہ سے رکھا جائے، نبض اوپرہی بلندی پرمحسوس ہو، ساتھ ہی ساتھ صلب ہو اورسریع ہو اورقوی ہوتوایسی نبض عضلاتی نبض کہلاتی ہے۔ ایسی نبض جسم میں خشکی ،ریاح ،سوداوربواسیری زہرکااظہار کرتی ہے ۔


غدی نبض


مریض کی نبض پرہاتھ رکھیں اورآہستہ آہستہ انگلیوں کردباتے جائیں۔ اگرنبض درمیاں میں واقع ہوتویہ غدی نبض ہوگی۔ ایسی نبض طویل ہوگی ،ضیق ہوگی۔یہ جسم میںحرارت اورصفراء کی زیادتی کا اظہار ہے۔ حرار ت سے جسم میں لاغری وکمزوری کی علامات ہوں گی ۔یادرکھیں ،جب طویل نبض مشر ف بھی اورقوی بھی ہوتوعضلاتی ہوگی۔

خصوصی نوٹ
نبض بالکل اوپربلندی پرعضلاتی ،بالکل کلائی کے پاس پست اعصابی اور درمیان میں غدی ہوگی۔
مرکب نبض
قانون مفرد اعصا میںمرکب نبض کو چھ تحاریک کے ساتھ مخصوص کردیاگیاہے جو کہ درج ذیل ہیں

اعصابی عضلاتی


جو نبض پہلی انگلی کے نیچے حرکت کرے اورباقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے ، اعصابی عضلاتی ہوگی۔یہ نبض گہرائی میںہوگی ۔بعض اوقات فقرالدم کی وجہ سے دل بے چین ہو تو تیزی سے حرکت کرتی محسوس ہوگی مگردبانے سے فوراََدب جائے گی جیسا کہ نبض میں حرکت ہے ہی نہیں۔ عام حالات میں اعصابی عضلاتی نبض سست ہوتی ہے ۔

اس کی تشخیصی علامات یہ ہیں ـ ـ
منہ کاذائقہ پھیکا ،جسم پھولا ہوا ہونا شہوت کم ،دل کاڈوبنا ،رطوبت کا کثرت سے اخراج ،پیشاب زیادہ آنا اور اس کارنگ سفید ہونا ،ناخنوں کی سفیدی اہم علامات ہیں۔

ضلاتی اعصابی


اگر نبض پہلی اوردوسری انگلی کے نیچے حرکت کرے اور باقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے تو یہ نبض عضلاتی اعصابی ہوگی ۔مقامی طورپر مشرف ہوگی قدرے موٹائی میں ہوگی۔ ریاح سے پرہونے کی وجہ سے ذرا تیز بھی ہوگی ۔ رطوبت کااثر اگرباقی ہوتو سست وعریض بھی ہوسکتی ہے۔

تشخیصی علامات
چہرہ سیاہی مائل اور اس پرداغ دھبے ،چہرہ پچکا ہوا،اگر کولسٹرول بڑھ گیا تو جسم پھولا ہوا کاربن کی زیادتی ،ترش ڈکار ،جسم میں ریاح اور خشکی و سردی پائی جائے گی۔

عضلاتی غدی


اگر نبض پہلی دوسری اورتیسری انگلی تک حرکت کرے اور چوتھی انگلی کے نیچے حرکت نہ کرے تویہ نبص عضلاتی غدی ہوگی۔مشرف ہوگی یعنی مقامی طوپر بالکل اوپر ہوگی۔ حرکت میں تیز اورتنی ہوئی ہوگی۔ یاررکھیں نبض، اگرچہ چار انگلیوں تک بھی حرکت کرے، اگروہ ساتھ ساتھ صلب بھی ہواورمشرف وسریع بھی ہوتو عضلاتی غدی شدید ہوں۔

تشخیصی علامات
عضلات وقلب میں سکیٹر ،فشار الدم ،ریاح کا غلبہ ،اختلاج قلب ،جسم کی رنگت سرخی مائل جسم وجلد پر خشکی اورنیند کی کمی ہوگی۔

غدی عضلاتی


اگرنبض چارانگلیوں تک حرکت کرے لیکن وہ مقامی طورپرمشرف اورمنحفض کے درمیان واقع ہو ضیق بھی ہوتوایسی نبض غدی عضلاتی ہوتی ہے۔

تشخیصی علامات
جسم زرد ،پیلا ،ڈھیلا ۔ہاتھ پائوں چہرے پرورم۔یرقان،پیشاب میں جلن ، جگروغدداورغشائے مخاطی میں پہلے سوزش وورم اور بالا خر سکیٹرشروع ہوجانا۔

غدی اعصابی


اگرمقامی طورپرغدی نبض کا رجوع منخفض کی طرف ہوجائے تویہ غدی اعصابی ہوگی یہ نبض رطوبت کی وجہ سے غدی عضلاتی سے قدرے موٹی ہوگی اور سست ہوگی۔

تشخیصی علامات
جگرکی مشینی تحریک ہے۔ آنتوں میں مڑور،پیچش ،پیشا ب میں جلن،عسرالطمت ، نلوں میں درد،بلڈپریشراورخفقان وغیرہ کی علامات ہوںگی۔

اعصابی غدی


اگرنبض منخفض ہوجائے،عریض ہوجائے، قصیر ہوجائے تو ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی انتہائی دبانے سے ملے گی ۔

تشخیصی علامات
جسم پھولا ہوا،چربی کی کثرت ،بار بارپیشاب کاآنا۔
بعض اطباء نے ہرنبض کے ساتھ علامات کی بڑی طویل فہرست لکھ کردی ہے جسکی کہ ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے قانون مفرد اعضاء میں تو ہر تحریک کی جداگانہ علامات کو سرسے لیکر پائوں تک وضاحت وتفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیاہے مثلاََجس طبیب کو اعصابی عضلاتی علامات معلوم ہیں تووہ بخوبی جانتاہے کہ اعصابی عضلاتی نبض کی کیا کیا علامات ہیں اسی طرح دیگر تمام تحاریک کی نبض سے علامات کی تطبیق خود بخود پیدا ہوگئی ہے ۔ان کا یہاں پہ بیان کر نا ایک تو طوالت کا باعث ہوگا ۔اوردوسر ا نفس مضمون سے دوری کاباعث ہوگا ۔

مرداور عورت کی نبض میں فرق


عورت کی نبض کبھی عضلاتی نہیں ہوتی کیونکہ عضلاتی نبض سے خصیتہ الرحم میں اور دیگر غدو میںسکون ہوکر جسم اوربچے کو مکمل غذا نہیں ملتی اگرعورت کی نبض عضلاتی ہوجائے تو اس کو یاحمل ہوگا یااس میں مرد انہ اوصاف پید اہوجائیں گے جیسے آج کل کی تہذیب میں لڑکیاں گیند بلا وغیرہ کھیلتی ہیں یا اس قسم کے دیگر کھیل کھیلتی ہیں یاجن میں شرم وحیاء کم ہوجاتاہے ۔ اس طرح جن عورتوں کے رحم میں رسولی ہوتی ہے ان کی نبض بھی عضلاتی ہوجاتی ہے اورورم کی نبض کا عضلاتی ہونا ضروری ہے۔ )ماہنامہ رجسٹریشن فرنٹ مارچ۱۹۷۰؁ء صفحہ نمبر۹تا۱۰(


اہمیت نبض


جولوگ نبض شناسی سے آگاہ ہیںاور پوری دسترس رکھتے ہیں ان کے لیے نبض دیکھ کر امراض کابیا ن کردینا بلکہ ان کی تفصیلات کاظاہر کردینا کوئی مشکل بات نہیں ۔ ایک نبض شناس معالج نہ صرف اس فن پرپوری دسترس حاصل کرلیتا ہے بلکہ وہ بڑی عزت ووقار کا مالک بن جاتاہے یہ کہنا سراسرغلط ہے کہ نبض سے صرف قلب کی حرکا ت ہی کا پتہ چلتاہے بلکہ اس میںخون کے دبائو خون کی رطوبت اورخون کی حرارت کا بھی علم ہوتا ہے ہرحال میںدل کی حرکات بدل جاتی ہیں جس کے ساتھ نبض کی حرکات اس کے جسم اور اس کے مقام میں بھی تبدیلیاں واقع ہوجاتی ہیں جس سے انسانی جسم کے حالات پر حکم لگایا جاسکتاہے۔


راز کی بات


دل ایک عضلاتی عضو ہے مگر اس پردوعددپردے چڑھے ہوئے ہیں دل کے اوپرکا پردہ غشائے مخاطی اور غدی ہے اوراس کے اوپربلغمی اوراعصابی پردہ ہوتاہے۔جوشریانیں دل اوراس کے دونوں پردوںکو غذا پہنچاتی ہیں ۔ان میں تحریک یاسوزش سے تیزی آجاتی ہے جس کا اثر حرکات قلب اور فعال شرائین پر پڑتاہے جس سے ان میںخون کے دبائو خون کی رطوبت اور خون کی حرارت میںکمی بیشی ظاہر ہوجاتی ہے۔

یہ راز اچھی طرح ذہین نشین کرلیںکہ

شریان میںخون کا دبائو قلب کی تحریک سے پید اہوتا ہے جو اس کی ذاتی اور عضلاتی تحریک ہے۔

خون کی رطوبت میں زیادتی دل کے بلغمی اعصابی پردے میںتحریک سے ہوتی ہے ۔
خون کی حرارت قلب کے غشائی غدی پردے میںتحریک سے پید اہوتی ہے اس طرح دل کے ساتھ اعصاب ودماغ اورجگر وغددکے افعال کاعلم ہوجاتا ہے ۔
یہ وہ راز ہے جس کو دنیائے طب میں حکیم انقلاب نے پہلی بارظاہر کیا۔ اس سے نبض کے علم میں بے انتہا آسانیاںپیدا ہوگئی ہیں۔

تشخیص کے چند اہم نکات


(۱)حرکات جسم کی زیادتی سے تکلیف

جسم کے بعض امراض وعلامات میںذرا بھی اِدھر اُدھر حرکت کی جائے توان میںتکلیف پیداہوجاتی ہے یاشد ت ہوجاتی ہے ایسی صورت میںعضلات وقلب میںسوزش ہوتی ہے حرکت سے جسم میںخشکی پیدا ہوتی ہے۔
(۲)آرام کی صورت میں تکلیف
جب آرام کیاجائے توتکلیف جسم بڑھ جاتی ہے اورطبیعت حرکت کرنے سے آرام پاتی ہے ایسی صورت میں اعصاب ودماغ میں سوزش وتیزی ہوتی ہے۔آرام سے جسم میںرطوبت کی زیادتی ہوجاتی ہے
(تحقیات الامراض والعلامات صفحہ نمبر۱۱۱تا۱۱۲)
(۳)خون آنا
اگرمعدے سے لے کراوپرکی طرف سرتک کسی مخرج سے خارج ہوتویہ عضلاتی اعصابی تحریک ہوگی اوراگرجگر سے لے کرپائوں تک کسی مخرج یامجریٰ سے خارج ہوتویہ عضلاتی غدی تحریک ہوگی ۔

ضرور ی نوٹ


تشخیص الامراض میںعضلاتی اعصابی اورعضلاتی غدی یاغدی عضلاتی اورغدی اعصابی وغیرہ تحریکات میں فرق اگروقتی طور پرمعلوم نہ ہوسکے توکسی قسم کافکر کئے بغیر اصول علاج کے تحت عضو مسکن میںتحریک پیداکردینا کافی وشافی ویقینی علاج ہے۔


تشخیص کی مروجہ خامیاں


طب یونانی وطب اسلامی میںتشخیص کاپیمانہ نبض وقارورہ ہے ملک بھر کے لاکھوںمطب کا چکر لگالیں گنتی کے چند مطب ملیں گے جن کو چلانے والے اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اورنہ ہی یہ علم اب طبیہ کالجوںمیں پوری توجہ سے پڑھا یاجاتا ہے شاید ہی ملک کا کوئی طبی ادارہ نبض وقارورہ سے اعضاء کے غیر طبعی افعال اور اخلاط کی کمی بیشی کی پہچان پردسترس کی تعلیم دیتا ہو ۔اب تک تو طب یونانی کا ایسا کوئی ادارہ دیکھا نہیں ،دیکھنے کی خواہش ضرور ہے۔اعتراف ِحقیقت بھی حسن اخلاق کی اصل ہے قانون مفر د اعضاء کے اداروں سے تعلیم وتربیت یافتہ اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص پر کافی حدتک دسترس رکھتے ہیں۔

اس طرح مذاکرہ ،دال تعرف ماتقدم جوکہ مریض و معالج میں اعتماد کی روح رواں ہیں مگر اس دور کے معالجین ان حقائق سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتے۔ مریض نے جس علامت کا نام لیا اسی کو مرض قرار دے کر بنے بنائے مجربات کا بنڈل اس کے ہاتھ میں تھما دیاجاتا ہے۔
اگرکوئی ادارہ تشخیص کا دعویٰ بھی کرتاہے اس کی تشخیص کا جوانداز ہے، ا س پربھی ذرا غور کریں۔ تمام طریقہ بائے علاج میں پیٹ میں نفخ ہو یا قے ،بھوک کی شدت ہو یا بھوک بند ،تبخیرہویا ہچکی بس یہی کہا جائے گا کہ پیٹ میں خرابی ہے ان علامات میں اعضائے غذایہ کی بہت کم تشخیص کی جائے گی۔ اگر کسی اہل فن نے پیٹ کی خرابی میں معدہ ،امعاء ،جگر،طحال اور لبلبہ کی تشخیص کربھی لی تو اس کو بہت بڑا کمال خیال کیاجائے گا۔لیکن اس امر کی طرف کسی کادھیان نہیں جائے گا کہ معدہ امعاء وغیرہ خودمرکب اعضاء ہیں اور ان میں بھی اپنی جگہ پرعضلات ، اعصاب اور غددواقع ہیں مگر یہاں پربھی صرف معدہ کومریض کہا جاتا ہے جو ایک مرکب عضوہے ۔یہاں پر بھی معدہ کے مفرد اعضاء کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا حالانکہ معدہ کے ہر مفرد عضو کی علاما ت بالکل مختلف اور جدا جدا ہیں مگر تشخیص ہے کہ کلی عضو کی کی جارہی ہے اورعلاج بھی کلی طور پر معد ہ کا کیا جارہا ہے نتیجہ اکثر صفر نکلتا ہے ناکام ہوکر نئی مرض ایجاد کردی جاتی ہے ایک نئی مرض معلوم کرنے کا کارنامہ شما ر کرلیا جاتاہے۔
فاعلم، جب معدہ کے اعصاب میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی صورتیں اورعلامات معدہ کے عضلات کی سوزشوں سے بالکل جد اہوتی ہیں اسی طرح جب معدہ کے غدو میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی علامات ان دونوں مفرد اعضاء کی سوزشوں سے بالکل الگ الگ ہوتی ہیں پھر سب کو صرف معدہ کی سوزش شمار کرنا تشخیص اور علاج میں کسی قدر الجھنیں پیداکردیتا ہے یہی وجہ ہے کہ یورپ ،امریکہ کو بھی علاج میں ناکامیاں ہوتی ہیں اوروہ پریشان اور بے چین ہیں اوراس وقت تک ہمیشہ ناکام رہیں گے جب تک کہ علاج اور امراض میں کسی مرکب عضو کی بجائے مفرد عضو کو سامنے نہیں رکھیں گے ۔امراض میں مفرد اعضاء کو مدنظر رکھنا مجد دطب حکیم انقلاب المعالج دوست محمد صابر ملتانی کی جدید تحقیق اور عالمگیر کارنامہ ہے مجدد طب کا یہ نظریہ مفرد اعضا ء (Simple organ theory) فطر ت اور قانون قدرت سے مطابقت رکھتا ہے۔
اس سے نہ صرف تشخیص میں آسانیاں پید اہوگئی ہیں بلکہ ہر مرض کا علاج یقینی صورت میں سامنے آگیاہے۔ اس کاسب سے بڑ ا فائدہ یہ ہے کہ مرکب عضومیں جس قدر امراض پیداہوتے ہیں ان کی جدا جد اصورتیں سامنے آجاتی ہیں۔ ہرصورت میں ایک دوسرے سے ان کی علامات جدا ہیں ،جن سے فوراََ یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اس عضو کا کون سا حصہ بیمارہے پھر صرف اسی حصہ کا آسانی سے علاج ہوسکتا ہے۔
اب ٹی بی ہی کو لیجئے کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے یہ تو اصل بیماری کی ایک علامت ہے ۔انسان میں آخرکونسا پرزہ خراب ہے جب معالج کو پتہ تک ہی نہیں کہ کون سا پرزہ خراب ہے توہ کیسے ٹھیک کرے گا انسانی جسم بھی تو ایک مشین ہے اس میں بھی تو پرزے ہیں جب یہ مشین خراب ہوتی ہے تودراصل کوئی پرزہ ہی توخراب ہوجاتاہے اسی طرح شوگر ،بلڈپریشر وغیرہ کوئی امراض نہیں بلکہ کسی نہ کسی پرزے کی خرابی کی علامات ہیں ۔ اس لئے صحیح اور کامیاب معالج وہی ہوگا جوصرف علامات کی بنیا دپر علاج کرنے کی بجائے اجزائے خون ،دوران خون اور افعال الاعضاء کے بگاڑ کو سمجھ کر تشخیص وعلاج کرے گا ۔ اس کی ایک دوائی ہی سرسے لے کر پائوں تک کی تکلیف دہ علامات کو ختم کردے گی۔ انشاء اللہ

نمونيا ميں مبتلا بچوں کا گھر ميں علاج ممکن


امريکہ کي بوسٹن يونيورسٹي، عالمي ادارہ صحت اور سيو دي چلڈرن نامي فلاحي تنظيم کے محققين کي تيار کردہ رپورٹ کے مطابق نمونيا کا مرض ہر سال پاکستان ميں ايک لاکھ بچوں کو موت کي نيند سلا ديتا ہے-
ان محققين کا کہنا ہے کہ اگر ليڈي ہليتھ ورکز کے سرکاري نيٹ ورک کو چند روز کي مخصوص تربيت فراہم کر کے انھيں ناگزير ادويات سے ليس کر ديا جائے تو ان اموات کي شرح ميں غير معمولي کمي کي جا سکتي ہے-
رپورٹ ميں بتايا گيا ہے کہ صوبہ خيبر پختون خواہ کے ضلع ہري پور ميں محکمہ صحت کي خواتين کارکنوں کي مدد سے تين ہزار ايسے بچوں کا علاج کيا گيا جو نمونيا کے مرض ميں مبتلا تھے اور ان ميں سے91 فيصد متاثرہ بچے صحت ياب ہو گئے-
عالمي ادارہ صحت ’ڈبليو ايچ او‘ کے ايک سينيئر عہديدار ڈاکٹر شميم قاضي نے وائس آف امريکہ کو بتايا کہ پاکستان ميں لگ بھگ 90 ہزار ليڈي ہيلتھ ورکرز صحت کي بنيادي سہولتيں فراہم کر رہي ہيں اور اگر انھيں نمونيا کے علاج سے متعلق چند دن کي تربيت فراہم کر کے اس مرض کے خلاف کارگر دوا فراہم کر دي جائے تو ہزاروں بچوں کي جانوں کو بچايا جا سکتا ہے-
’’شديد نمونيا کے ليے ايک اچھي دوا دستياب ہے جسے ايموکسوسلين (amoxicillin) کہتے ہيں- ہمارے ملک ميں جو ليڈي ہيلتھ ورکز ہيں وہ اتني صلاحيت رکھتي ہيں کہ اگر ان کو تربيت دي جائے اور دوائي فراہم کر دي جائے تو وہ شديد نمونيے کا علاج بھي اپنے گاۆ ں ميں کر سکتي ہيں-‘‘
ڈاکٹر شميم قاضي کا کہنا ہے کہ دور دراز علاقوں ميں نمونيا سے متاثرہ 95 فيصد بچوں کا علاج ان کے گھروں ميں ہي پلانے والي جراثيم کش دوائي سے ممکن ہے اور اس کے ليے اسپتال يا کسي طبي مرکز جانے کي ضرورت نہيں-

دمہ کا باعث بننے والي عام وجوہات


دمہ کا باعث بننے والي کچھ عام وجوہات مندرجہ ذيل ہيں :
انفيکشنز ،جيسے سردي لگ جانا يا زکام ہونا
 سگرٹ يا تمباکو کا دھواں
لکڑي اور تيل کا دھواں
ايسي چيزيں جو الرجي کا باعث بنتي ہيں
پالتو جانور
 ہوائي آلودگي
 نم دار موسم
 سرد موسم
 ادويات، جيسے کہ اے ايس اے (اسپرين) يا آئبيو بروفين
 تيز خوشبو يا اسپرے
 ورزش
دمہ کي ادويات
دمہ کي ادويات آپکے بچے کے پھيپھڑوں کو صحت مند بھي بنا سکتي ہے اور بچے کا دمہ مزيد بگڑنے سے روکتي ہيں- يہ ادويات دمہ کا علاج نہيں کرتيں، بلکہ يہ بچے کے پھيپھڑوں کو صحت مند رکھ سکتي ہيں-
دمہ ميں لي جانے والي زيادہ تر ادويات بچہ سانس کے ذريعے اندر لے جاتا ہے- ايسي ادويات جو سانس کے ذريعے اندر لے جائي جاتي ہيں اُنکو ادويات کہا جاتا ہے -دمہ کے لئے استعمال ہونے والي سانس کے ذريعےاندر لے جائي جانے والي کچھ سب سے اچھي ادويات کو کورٹيکاسٹيروئڈز کہا جاتا ہے-
سانس کے ذريعے اندر لے جائي جانے والي ادويات بچے کے لئے بے حد محفوظ بتائي جاتي ہي -بچہ ان کو سالہا سال تک استعمال کرکے نارمل افراد کي قد و قامت تک پہنچ سکتا ہے-
سانس کے ذريعے اندر لے جائي جانے والي دواکے بعد، آپ کے بچے کو کُلي کرني چاہيئے يا تھوڑا سا پاني يا جوس پينا چاہيئے- يہ تدبير منہ ميں کسي بھي طرح کے سفيد چھالوں کو روکنے ميں معاون ثابت ہوتي ہے-
سانس کے راستے لي جانے والي زيادہ تر ادويات جو بچہ دمہ سے بچاۆ کے لئے ليتا ہے اُنہيں کنٹرولرز اور ريليورز کہتے ہيں-
دمہ کيلئے کنٹرولر ادويات
کنٹرولر ايک ايسي دوائي ہے جو سانس کي ناليوں کو سوجنے سے روکتي ہے- جب بچہ ہر روز ان ادويات کا استعمال کرتا ہے تو پھر اُسے کم سوجن ہوتي ہے اور کم رطوبت بنتي ہے- سانس کے ذريعے اندر لے جائي جانے والي کنٹرولر ادويات کي مثاليں مندرجہ ذيل ہيں بيوڈيسٹونائڈ  پلس [پلميکورٹ اور فلوٹيکازوں  ), سيمبائ کورٹ [ايلييسکو]   سيسليسونائد[ ايلوسکو], فلو وينٹ يا ايڈويئر، مانٹيليوکاسٹ يا سينگوليئر وغيرہ- کنٹرولر دوا کي گولي کي شکل ميں ايک مثال ہے-
بچے کو ايک کنٹرولر دوا ہر روز لينا چاہيئے، چاہے وہ بہتر ہي کيوں نہ لگ رہا ہو- اس بات کي اچھي طرح يقين دہاني کر ليں کہ بچہ اُس وقت تک باقاعدگي سے اس دوائي کا استعمال کرتا رہے جب تک کہ آپ کا ڈاکٹر خود اُسے روکنے کے لئے نہ کہہ دے-

دمہ سے بچاۆ کےلئے سکون دينے والي ادويات

دمہ سے بچاۆ کےلئے سکون دينے والي ادويات

دمہ
دمہ سے سکون دينے والي ادويات دمہ کي علامات جيسے کھانسي يا سانس سے آوازوں کے نکلنے کي علامات کا علاج کرتي ہيں-
ايک ريليور(سکون پہنچانے والي دوا) سانس کي ناليوں کے عضلات کو سکون فراہم کرتي ہے- جيسے ہي عضلات کو سکون ملتا ہے، تو سانس کي نالياں کھل جاتي ہيں- جب سانس کي نالياں کھلتي ہيں، تو بچہ باآساني سانس لينے کے قابل ہوتا ہے- ريليور ادويات کي مثاليں اس طرح ہيں. ائرمور يا وينٹولين يا برائکيني[سيلبيٹامول اور ٹيربولئن] 
بچے کو ريليور اُسي وقت استعمال کرني چاہيئے جب اُس پر دمہ حملہ آور ہو- جب آپ کا ڈاکٹر خود يہ کہہ دے کہ آپ کا بچہ اب بہتر ہے، تو اُسے روازانہ ان ريليورز (سکون فراہم کرنے والي ادويات) کے استعمال کو روک دينا چاہيئے- آپ کا ڈاکٹرآپ کے بچے کو يہ ورزش سے قبل ريليور استعمال کرنے کي ہدايت کر سکتا ہے-
ابتدائي تنبيہي علامات جن سے يہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کے بچے کا دمہ بگڑ رہا ہے
دمے کے مسائل دن يا گھنٹوں ميں آہستہ آہستہ شروع ہوتے ہيں- بچے کے جسم ميں رونما ہونے والي چھوٹي چھوٹي تبديلياں جو اُس وقت رونما ہونے لگتي ہيں جب اُس پر دمہ حملہ آور ہونے والا ہو اُنہيں ابتدائي تنبيہي علامات کہا جاتا ہے-
ابتدائي تنبيہي علامات ہر بچے ميں مختلف ہوتي ہيں- انہيں سمجھنا اتنا آسان نہيں ہوتا - يہاں پر آپ کو کچھ ابتدائي تنبيہي علامات کے حوالے سے آگاہي ديتے ہيں-
ايسي چيزيں جنہيں آپ اپنے بچے ميں ديکھ يا سُن سکتے ہيں
ختم نہ ہونے والي کھانسي
  قے ہونے تک کھانسي ہوتے چلے جانا
  رات کے وقت کھانسي
 سانس سے سيٹيوں کي آوازيں نکلنا
سانس لينے ميں مشکل پيش آنا
کھيل يا ورزش کے بعد بہت جلدي تھک جانا 
  معمول سے زيادہ تيزي سے سانس لينا
 چڑچڑا،غصيلا،غير مستقل مزاجي
 زکام کي علامات
   چھيينکيں آنا
کچھ ايسي باتيں جو ممکن ہے کہ آپ کا بچہ آپ کو بتا سکتا ہے
•  "ميں تھک رہا ہوں- "
•  "ميرے سينے ميں درد ہو رہا ہے- "
•    "سانس لينا مشکل ہو رہا ہے- "
•   " جب ميں سانس ليتا ہوں تو عجيب مضحکہ خيز آواز (خرخراہٹ) نکلتي ہيں-"
اگر آپ کے بچے ميں ابتدائي تنبيہي علامات ميں سے کوئي بھي ظاہر ہونے لگے تو آپ کو کيا کرنا چاہيئے
اگر آپ کو ان ابتدائي تنبيہي علامات ميں سے کوئي بھي علامت نظر آئے، تو اس ايکشن پلان پر عمل کريں جو آپ نے اپنے ڈاکٹر کے ساتھ مل کر تشکيل ديا ہے-
اگر آپ کے پاس کوئي ايکشن پلان نہيں ہے، تو ڈاکٹر سے اس حوالے سے ايک ايکشن پلان تيار کروانے کے بارے ميں بات کريں-

خطرناک علامتيں جن سے يہ پتہ چلتا ہے کہ بچے کا دمہ بگڑ رہا ہے

اگر آپ کے بچے ميں ذيل ميں درج خطرناک علامتيں ظاہر ہو رہي ہوں، تو اس بات کو يقيني بنائيں کہ اس ايکشن پلان پر فوري عمل شروع کريں جو آپ نے اپنے ڈاکٹر کے ساتھ مل کر تشکيل ديا ہے-
• کھانسي اور قے کو روکنے ميں ناکامي
•  بات چيت کرنے ميں مشکل پيش آنا
• غير معمولي غنودگي، اور آپ کو اُسے بيدار کرنے ميں دشواري ہو
• ہونٹ يا جلد نيلي لگے
• جب آپ کا بچہ سانس لے تو گردن يا سينے کي جلد اندر کي طرف جائے (اندر کي طرف کھنچنا)
اپنے بچے کو ڈاکٹر کے تجويز کردہ ايکشن پلان کے مطابق ريليور دوا ديں-
قريبي ايمرجينسي ڈيپارٹمينٹ ميں جائيں، يا ايمبولينس کال کريں-
دمہ اور ورزش
اگر آپ کے بچے کو دمہ کي شکايت ہے تو بھي وہ چست و چوبند ہو سکتا ہے اور کھيلوں ميں حصہ لے سکتا ہے- سب بچوں کو کھيلنا چاہيئے اور ورزش کرني چاہيئے-آپ کے بچے کو فٹ رہنے اور دوسرے بچوں کے ساتھ کھيلنے کي ضرورت ہوتي ہے-
ورزش کچھ بچوں کے دمہ کو بگاڑ سکتي ہے
ہم جانتے ہيں کہ ورزش کچھ بچوں کے دمہ کو بگاڑ سکتي ہے- بچوں ميں ورزش کے دوران يا ورزش کے بعد ميں دمہ کي تنبيہي علامات ظاہر ہو سکتي ہيں-
ورزش کے دوران بچہ اپنے دمے کيلئے مندرجہ ذيل اقدامات کر سکتا ہے:
•  اگر بچہ باقاعدگي سے کنٹرولر ادويات کا استعمال کر رہا ہے تو پھر اُسے دوران ورزش کم مسائل ہوں گے-
•  اس بات کي اچھي طرح يقين دہاني کر ليں کہ آپ کا بچہ کسي بھي ورزش کو ہميشہ آسان، ہلکي پھلکي ورزش سے شروع اور ختم کرے- انہيں وارم-اپ يا کوُل-ڈاۆن ورزشيں کہا جاتا ہے-
• آپ کا ڈاکٹر آپ کے بچے کو بتا سکتا ہے کہ ورزش سے پہلے وہ دمہ سے ريليف دينے والي دوا کا استعمال کرے- ياد رکھيں کہ ايک ريليف ميڈيسن دمہ کي علامات کے علاج ميں معاون ثابت ہوتي ہے جيسے کھانسي اور سانس ميں خرخراہٹ وغيرہ- اگر آپ کا بچہ ورزش سے 15 يا 20 منٹ پہلے اس دوا کا استعمال کرتا ہے تو اس سے دمہ کي علامات کے عود آنے کا خطرہ کم ہو جائے گا-
•  اگر ورزش کے دوران آپ کے بچے کا دمہ بگڑ جاتا ہے، تو آپ کے بچے کو ورزش کا دورانيہ کم کر دينا چاہيئے اور ورزش کے دوران وقفہ لينا چاہيئے-
• اگر ورزش کے دوران آپ کے بچے کے سانس سے خرخراہٹ کي آوازيں نکلنے لگتي ہيں، تو اسے ورزش روک ديني چاہيئے- آپ کے بچےکو پھر اس ايکشن پلان کے مطابق عمل کرنا چاہيئے جو آپ نے اپنے بچے کے ڈاکٹر کے ساتھ مل کر تشکيل ديا ہے-

دمہ کے بارے ميں اہم باتيں جنہيں ياد رکھنا ضروري ہے


چاہے آپ کا بچہ بہتر لگ رہا ہو، پھر بھي اس کي سانس کي نالياں دمہ کے حملے کے بعد 6 سے 8 ہفتوں يا اس سے زيادہ عرصہ کے لئے سوجي ہوئي ہو سکتي ہيں- آپ کے بچے کو کنٹرولر دوا کا استعمال جاري رکھنا چاہيئے-
آپ کو اس ايکشن پلان پر عمل کرنا چاہيئے جو آپ نے اپنے ڈاکٹر کے ساتھ مل کر بنايا ہو - ايکشن پلان ڈاکٹر کا ديا ہوا وہ تحريري پلان ہوتا ہے جو آپ اور آپ کے بچے کي رہنمائي کرتا ہے کہ دمے پر قابو پانے کيلئے روزانہ کيا کرنا ہے- اس پلان سے آپ کو يہ جاننے ميں بھي مدد ملتي ہے کہ بچے کا دمہ بگڑنے کي صورت ميں کيا کيا جانا چاہيئے-
آپ دمہ سےمنسلک ايک اور مسئلے کو روکنے ميں مدد کر سکتے ہيں اگر آپ اپنے بچے کو ان چيزوں سے دور رکھيں جو اُسکے دمہ کو بگاڑنے موجب بنتي ہيں ( دمہ کو جاري کرنے والي چيزيں)-
اگر بچہ 6 سال يا اس سے زيادہ عمر کا ہے تو ڈاکٹر سے اپنے بچے کے دمہ کے لئے "پھونک مارنے يعني بلوئنگ"ٹسٹ کا کہيں جسے" پلمونري فنکشن ٹسٹنگ " کہا جاتا ہے -يہ ٹسٹ دمہ کي تشخيص اور نگراني کے لئے کيا جاتا ہے-
ہنگامي صورت حال ميں
فوري طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کريں اگر:
•   دمہ سے سکون پہنچانے والي دوا اپنا اثر نہيں کر رہي، يا اس کا اثر 4 گھنٹوں تک ہي رہتا ہے يا
•   آپ کا بچہ 2 يا 3 دن کے بعد بھي بہتر محسوس نہيں کر رہا،يا
•    آپ کے بچے کي حالت بگڑ رہي ہو
قريبي ايمرجينسي ڈيپارٹمينٹ ميں جائيں اگر:
•    آپکا بچہ دمہ کي علامات کے باعث کھانے، سونے، يا بات کرنے ميں دشواري محسوس کر رہا ہو، يا
•    بچے کو سانس ليتے ہوئے جھٹکے لگ رہے ہوں، يا نگلتے ہوئےگلے اور پسليوں ميں درد ہو، يا
•   دمہ سے سکون پہنچانے والي دوا اپنا اثر نہيں کر رہي
اہم نکات
•  دمہ کي عام علامتوں ميں سانس سے خرخراہٹ کي آوازيں نکلنا،کھانسي اور سانس لينے ميں دشواري ہے-
•   جب آپکے بچے کا دمہ بگڑ جاتا ہے تو اُسکي سانس کي نالياں بہت تنگ ہو جاتي ہيں اور اُسے پھيپڑوں سے ہوا اندر باہر لے جانے ميں بہت مشکل پيش آتي ہے-
•  اس بات کي اچھي طرح توثيق کرليں کہ آپ کا بچہ تمام ادويات ڈاکٹر کي ہدايات کے عين مطابق استعمال کر رہا ہے-
•  اُن وجوہات کو تلاش کرنے کي کوشش کريں جن کي وجہ سے آپ کے بچے پر دمہ حملہ آور ہوتا ہے اور اپنے بچے کي ان سے دور رہنے ميں مدد کريں-
•  اگر آپ ابتدائي تنبيہي علامات ميں سے کوئي ايک بھي محسو س کريں کہ آپ کے بچے کا دمہ بگڑ رہا ہے، تو فوري طور پر اس ايکشن پلان پر عمل کريں جو آپ نے اپنے ڈاکٹر کے ساتھ مل کر تشکيل ديا ہے-
•   دمہ کي خطرناک ترين علامتوں ميں بات کرنے ميں دشواري،غير معمولي غنودگي،بيدار ہونے ميں دشواري، ہونٹوں يا جلد کي رنگت نيلي پڑ جانا يا بچے کے گردن يا سينے پر سے جلد اندر کي طرف کھنچنا شامل ہيں-

’دل کے علاج ميں سٹيم سيلز کي مدد‘


دل کے عارضے ميں مبتلا مريضوں کے ليے يہ ايک بڑي خبر ہے
امريکہ ميں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دل کے دورے سے اسے پہنچنے والے نقصان پر مريض کے دل سے ہي حاصل کيے گئے سٹم سيلز کي مدد سے قابو پايا جا سکتا ہے-
لانسيٹ ميڈيکل جنرل ميں شائع ہونے والي رپوٹ ميں کہا گيا ہے کہ اس سلسلے ميں چھوٹے پيمانے پر کيے گئے تجربے کے بعد سکارز ٹشوز کي مقدار آدھي رہ گئي تھي-      
اس رپورٹ کے مصنف کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ غير يقيني طور پر دل کے نئے پٹھے بھي تيزي سے بڑھنے لگے -
برٹش ہارٹ فاۆنڈيشن کے حکام کا کہنا ہے کہ يہ ابھي ابتدائي مراحل ہيں ليکن دل کے عارضے ميں مبتلا مريضوں کے ليے يہ ايک بڑي خبر ہے-
انسان کو دل کا دورہ اس وقت پڑتا ہے جب خون کے بہاۆ ميں کسي لوتھڑے کي وجہ سے پيدا ہونے والي رکاوٹ دل ميں آکسيجن کي مقدار ميں کمي کا باعث بنتي ہے جس سے دل کام کرنا چھوڑ ديتا ہے-
جب دورے کا نشانہ بننے والے دل کا علاج شروع ہوتا ہے تو مردہ پٹھوں کي جگہ پر سکارز ٹشو استعمال کيے جاتے ہيں جو چونکہ دل کے اپنے پٹھوں کي طرح کام نہيں کرتے اس ليے دل کي جسم ميں خون پمپ کرنے کي صلاحيت کم ہو جاتي ہے-
دنيا بھر ميں ڈاکٹروں کو ايسے پٹھے چاہيے تھے جو دل کے اپنے پٹھوں کي طرح کام کريں اور خون کا بہاۆ معمول کے مطابق ہو سکے-
اس نئي تحقيق کے بعد اب دل کے مريضوں کا ان کے اپنے دل سے حاصل کے گئے سٹم سيلز سے ہي تندرست کيا جا سکے گا-

امراض قلب کي دوائيں


اختلاج قلب ميں بے حد مفيد ہے
اجزاء: طبا شير، تودري سفيد، بہيمن سفيد، صندل سفيد، کشنيز خشک، برگ گاو زبان، ہيل خرد، گل سرخ، گا گاو زبان- ہر ايک 10 گرام- ورق نقرہ 10 عدد
ترکيب تياري: سفوف بنا کر ورق نقرہ ملا ليں-
مقدار خوراک: 5 گرام سفوف شہد ميں ملا کر عرق باديان کے ساتھ ديں-
دواء المسلک معتدل
ضعف قلب اور اختلاج ميں مفيد ہے مفرح قلب ہے
اجزاء: قرنفل، بہمن سفيد و سرخ، دانہ الائچي خرد، بسد احمر، ہم وزن ليں
ترکيب تياري: کوٹ چھان کر سفوف تيار کر ليں-
مقدار خوراک: 5 گرام سفوف ہمراہ شہد ديں-
دوائے فشار الدم
امتلاء الدم اور فشار الدم قوي ميں مفيد ہے
اجزاء: برادہ صندل سفيد، خس ہندي مقرص، گل سرخ، زہرہ مہرہ خطائي، گل سيوتي، گشنيز خشک، اسرول ہم وزن ليں-
ترکيب تياري: تمام دواۆ ں کو کوٹ چھان ليں-
مقدار خوراک: 3 گرام سفوف شربت سيب يا شرب انار کے ساتھ صبح و شام ديں-
مفرح قلب
قلب کو فرحت پہنچاتا ہے مقوي دماغ ہے اور تمام حاد امراض ميں مفيد ہے-
عرق گلاب 1 ليٹر
عرق کيوڑا 1 ليٹر
زرشک 100 گرام
ليموں 12 عدد
آب انار 1 ليٹر
ترکيب تياري: پہلے زرشک کو سادے پاني ميں جوش دے کر چھان ليں- پھر جملہ عروق ملائيں-
مقدار خوراک: 10 سے 25 ملي ليٹر بقدر ضرورت شکر ملا کر پلائيں-
مفرح سادہ
گھبراہٹ اور اختلاج ميں مفيد ہے اور اتساع قلب ميں کارآمد ہے
اجزاء: باديان، برگ گاوزبان، دارچيني، تيز پات ہموزن ليں
ترکيب تياري: سفوف بناليں-
مقدار خوراک: ايک گرام سے 3 گرام صبح و شام ہمراہ شہد ديں-
مفرح خاص
مقوي و مفرح قلب ہے
اجزاء: کشنيز خشک، برگ گاوزبان، طباشير، صدق صادق، نارجيل دريائي، دانہ الائجي خرد ہم وزن ليں-
ترکيب تياري: سفوف بناليں-
مقدار خوراک: 1 تا 3 دودھ يا شہد کے ہمراہ صبح و شام ديں-

امراض اطفال کی مفید تجویزات


سوگھا روگ ميں مفيد ہے- بچوں کي يڈيوں کي پرورش کرنے ميں بے حد مفيد ہے-
اجزاء:
فلفل سياہ 10 گرام
 گوند ببول 5 گرام
زعفران 2 گرام
باليدہہ ببول 20 گرام
ترکيب تياري: زعفران کے علاوہ بقيہ دواۆ ں کا سفوف بنا ليں بعد ميں زعفران عرق گلاب ميں گھس کر ملا کر مونگ کے برابر گولي بناليں-
مقدار خوراک: ايک ايک گولي ماں کے دودھ کے ساتھ صبح شام ديں-
سفوف اطفال
بچوں کے اکثر امراض ميں مفيد و مجرب ہے
اجزاء:
حلتيت 10 گرام
کتھ سفيد 15 گرام
سفيد مرچ 5 گرام
برگ نيم 22 عدد
ترکيب تياري: آب باران ميں سحق بليغ کرکے حب بقدر مونگ بناليں-
مقدار خوراک: ايک ايک گولي ماں کے دودھ ميں ديں-
حب اسہال اطفال
بچوں کے دست ميں مفيد ہے
اجزاء:
نرکچور 10 گرام
زہر مہرہ 4 گرام
صمغ عربي 4 گرام
ترکيب تياري: خوب باريک سفوف کرکے نخودي گولياں بنائيں-
مقدار خوراک: ايک ايک گولي ئن ميں دو بار يا تين بار ديں
حب اسہال اطفال (نمبر دو)
دست آۆ ں اور خوني پيچش کے ليے تير بہدف ہے-
اجزاء:
شنگرف، سہاگہ برياں، مصطگي (ہم وزن)
ترکيب تياري: دواۆ ں کو عرق گلاب ميں حل کرکے بقيہ دوائيں سفوف کرکے مونگ کے برابر گولياں بناليں-
مقدار خوراک: ايک گولي صبح و شام ديں-

علم طب ميں مسلمان طبيبوں کا حصّہ ( حصّہ سوّم )


رازي طب کي تعليم حاصل کرنے کے ليے بغداد چلے گئے- بغداد ميں "فردوس الحکمت " سے طب کے تمام رموز سيکھے-908ء   ميں بغداد کے مرکزي شفا خانے ميں، جو اس زمانے ميں عالم اسلام کا سب سے بڑا شفا خانہ تھا، انہيں اعليٰ افسر کا عہدہ پيش کيا گيا- اس عرصے ميں انہوں نے طبي تحقيقات کي اور بہت سارے تصانيف لکھے- ان کي سب سے مشہور کتاب کا نام "حاوي" ہے جو اسي زمانے ميں لکھي گئي -ان کي  ديگر تصانيف حسب ذيل ہيں:
"المنصوري"، "الجدري والحصبہ"،  " المرشد" ، "دفع مضار الاغذيه"، " الابدال" و غيرہ
رازي کي تصانيف کو سترہويں صدي عيسوي تک يورپ ميں علم طب کے ليے بہت ہي اہم  مانا جاتا تھا ، ان  کي تصانيف کے انگريزي ميں بھي  ترجمے ہوئے  اور يورپ کي درسگاہوں ميں بطور نصاب پڑھائي جاتي رہي ہيں-
شيخ ابو علي سينا (980ء – 1037ء)
ابو علي سينا دنيائے اسلام کے ممتاز طبيب ، فلسفي ، عالم اور عظيم مفکر تھے - ان کا لقب “الشيخ الرئيس”‌ تھا-  ابن سينا  مشرق کے مشہور ترين فلاسفروں اور اطباء ميں سے تھے- 980ء  کو فارس کے ايک چھوٹے سے گاۆں ميں پيدا ہوئے- قرآن کي تعليم پانے کے بعد  فقہ، ادب، فلسفہ اور طبي علوم ميں کمال حاصل کيا- کہا جاتا ہے کہ اٹھارہ سال کي عمر ميں انہوں نے سلطان نوح بن منصور کے ايک ايسے مرض کا علاج کيا تھا جس سے تمام تر اطباء عاجز آ چکے تھے، خوش ہوکر انعام کے طور پر سلطان نے انہيں ايک لائبريري کھول کر دي تھي- انہوں نے اپني ساري زندگي سفر کرتے گزاري-  1037ء کو ہمدان ميں ان کا انتقال ہوا- ابن سينا نے علم ومعرفت پر بہت ساري تصانيف لکھيں- طب سے متعلق ان کي تصانيف حسب ذيل ہيں: 
کتاب القانون، کتاب  الشفاء،  الادويہ القلبيہ، کتاب دفع المضار الکليہ عن الابدان الانسانيہ، کتاب القولنج، رسالہ في سياسہ البدن وفضائل الشراب، رسالہ في تشريح الاعضاء، رسالہ في الفصد، رسالہ في الاغذيہ والادويہ، ارجوزہ في التشريح، ارجوزہ المجربات في الطب، الالفيہ الطبيہ
ابن سينا کي سب سے مشہور طبي تصنيف “کتاب القانون”‌ ہے جو نہ صرف کئي زبانوں ميں ترجمہ ہوکر شائع ہوچکي ہے بلکہ انيسويں صدي عيسوي کے آخر تک يورپ کي جامعات  ميں پڑھائي جاتي رہي - ( ختم شد )

قديم دور ميں ايراني طب ( حصّہ دوّم )


جديد و قديم  تحريروں سے ہميں پتہ چلتا ہے کہ قديم ايراني لوگ بھي  طب سے واقف تھے- پرانے زمانے ميں ايراني لوگ جڑي بوٹيوں  کي خصوصيات کو جانتے تھے اور سرجري  بھي کيا کرتے تھے - طب کا ذکر زرتشتيوں کي مذہبي  کتاب  "  اوستا"  ميں پايا جاتا ہے- جس ميں ميں بتايا گيا ہے کہ انسان اور اس دنيا کے نظام کے بيچ ميں مشابہت  موجود ہے اس چھان بيني کے بنا پر انسان کے مزاج کے عناصر اربعہ کا نظريہ ، دنيا کے عناصر اربعہ  ( پاني، مٹي، آگ، بادل) سے ملتا جلتا ہے- بعد ميں يہ اصيل ايراني نظريہ بقراط کے آثار ميں جلوہ گر ہوا-
ان  باتوں پر ہم کہہ سکتے ہيں کہ اب طب ميں جو ترقي ہوئي ہے وہ قديم ايرانيوں کي مرہون منت ہے -
ايران ميں طب کے کچھ اہم ادوار ہيں ، ان ميں سے سب سے اہم مندرجہ ذيل ہيں:
ہخامنشي دور
ساساني دور
اسلامي دور
1- ہخامنشي دور :  يہ دور   ايران کي طب ميں سب سے نماياں اور روشن دور تھا- 2500 سال قبل بھي طب کي اہميت موجود تھي اور  زرتشت کي مذہبي کتابوں ميں بھي اسي کے بارے ميں لکھا گيا ہے-
2-  ساساني دور: طب ہخامنشي دور سے ساساني دور ميں منتقل ہوا- ساساني دور ميں  تومشرقي روم کي سلطنت کے  بادشاہ وقت  (امراء) اور  دانشمندوں  اور طبيبوں کے بيچ ميں کسي حد تک مذہبي اختلافات پيدا ہوئے- ان اختلافات کي بنا پر امراء و دانشمندوں  اور مشہور طبيبوں نے  مشرقي روم کي سرحدوں سے ايران ميں ہجرت  کي اور اپني دانش  دوسروں کو منتقل کر دي اور ان ہي کے ذريعے سے ايران ميں شفا خانہ اور جندي شاپور کے سکول بناۓ گئے  -اسي طرح ايران ميں طب کي تاريخ  کا  نيا دور شروع ہوا -
نوشيروان کے دور ميں طب ميں ايک بہت بڑا  انقلاب نمودار ہوا- اسي دور ميں طب کي پہلي کانفرنس منعقد ہوئي جس ميں طبيبوں نے ايک دوسرے سے فلسفہ اور طب کے بارے ميں مباحثے اور مناظرے کيے-
بروزيہ طبيب اس دور کے مشہور طبيب تھے جو  نوشيرواں کے دربار سے منسلک تھے -   )

روايتي طب کي تاريخ ( حصّہ اوّل )


قديم زمانے سے اب تک  طب انسان کي زندگي کے ساتھ ساتھ چل رہي ہے-  انسان اپني پيدا‏ئش کے ساتھ ہي بيماري اور درد کو محسوس کرتا  آ رہا   ہے اسي ليے  ان کو دور کرنے کے ليے کوئي راستہ ڈھونڈتا  رہا - ايران ، يونان، چاڈ ، آشور، مصر اور تمام مہذب دنيا کو طب سے واقفيت ضرور تھي اور وہ لوگ جو طبيب  تھے پنڈتوں کي صورت ميں مندروں ميں بھي  کام کرتے تھے-اس زمانے ميں طب ايک علم کي صورت ميں نہيں تھا- 460 قبل مسيح  سے پہلے طب  نے علم کي شکل اپنا لي  اور يوناني طب سامنے آئي- يوناني طب کے دو بڑے  اہم طبيب  "بقراط "اور" جالينوس "تھے -
 بقراط  (قبل مسيح 460 سے 375 تک)
 بقراط ايک مشہور يوناني سائنس دان تھا ، انہوں نےطبابت ميں بہت کام کيا اور اسي ميں نام بھي خوب بنايا  - بقراط طب کو  خرافاتي روپ اور مندروں سے باہر لانے ميں کسي حد تک کامياب ہوا- انھوں نے ثابت کرديا کہ جينا اور مرنا دنيا کے باضابطہ قاعدوں کي بنا پر ہوتا ہے-   يوں بقراط نے سائنسي علاج کي بنياد ڈالي اور اسي وجہ سے بقراط کو" بابا‏ئے طب"  کا نام  بھي ديا گيا ہے -  بقراط نے مصر اور بين النہرين کي قديم ترين تہذيبوں  اور وہاں پيدا ہونے  والے خيالات سے بھي استفادہ کيا  (بين النہرين  موجودہ عراق ، شام اور ترکي پر مشتمل وہ علاقہ ہے جو دريائے دجلہ  اور فرات کے مابين واقع ہے ، اس ميں پروان چڑھنے والي تہذيب  دنيا کي چند قديم ترين تہذيبوں ميں سے ہے-)
بقراط نے ايک سوگند نامہ لکھا ہے  يہ سوگند نامہ  طبيبوں کے ليے ابھي تک بہت اہم ہے - اس سوگند نامہ کے ايک حصے ميں لکھا گيا ہے :
"ميں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو لوگوں کي خدمت اور انسانيت پر قربان کروں گا اور  اپنا کام شرافت اور وجدان سے کروں گا -  ميرا پہلا فرض بيماروں کي تندرستي ہے-"
بقراط  نے پہلے سے موجود علم ميں بے پناہ اضافہ کر کے اپنے خيالات ، تصورات  اور اصلاحات  کے ذريعے  اس کو اس مقام تک پہنچايا   اور آنے والے زمانوں ميں تحقيق اور ترقي کي بنياديں فراہم کر ديں-
جالينوس  (130ء  - 200ء )
جالينوس بھي ايک يوناني طبيب و فلسفي تھے - سولہ برس کي عمر ميں طب کا مطالعہ شروع کيا -  جالينوس ايک حکيم يا طبيب ہونے کے ساتھ ساتھ علم الہيئت ، نجوم اور فلسفہ کے بھي  ماہر تھے- انہوں نے قديم يوناني نظريات کو ايک شفاف شکل دي اور اس کو عملي طور پر سمجھنے کي کوشش کي- جالينوس کي تقريبا ڈيڑھ سو تصانيف ہيں جو طب، منطق ، صرف و نحو ، اخلاقيات ، فلسفہ اور ادب کے متنوع مضامين سے تعلق رکھتي ہيں- انہوں نے ارسطو اور افلاطون کي بعض کتابوں کي شرح بھي لکھي-    )

جسم کی ساخت اور وراثت


جينيٹکس کے بارے ميں تفصیلي جانکاري اور سمجھ بوجھ کے ليۓ ضروري ہے کہ ہميں اس کے بنيادي اجزاء اور عناصر کے بارے ميں بھي علم ہو - اس کے ليۓ ضروري ہے کہ ہميں خليے ، کروموسومز اور ڈي اين اے کي ساخت  کے بارے ميں معلومات ہوں -
ہم يہ جانتے ہيں کہ ہماري زندگي کي بنيادي اکائي سيل ہے اور اس خليے سے ہمارے ارد گرد کي ہر جاندار شے بني ہوتي ہے - اس کائنات ميں مختلف انواع کي جاندار مخلوقات ہيں - بعض يک خليائي ہوتي ہيں يعني وہ ايک ہي سيل کي بني ہوتي ہيں جبکہ بعض کثير خليائي ہوتي ہے يعني ان کا جسم  ايک سے زيادہ خليوں پر مشتمل ہوتا ہے - ايک خليائي جاندار کي مثال ميں ہمارے سامنے اميبا جيسے  جاندار موجود ہيں جبکہ کثير خليائي جانداروں ميں انسان  اور دوسرے اس طرح کے مماليا جانور شامل ہيں -  انسان کے جسم ميں کروڑوں کي تعداد ميں خليے ہوتے ہيں -  بہت خليے آپس ميں مل کر بافت بناتے ہيں اور جب کسي خاص کام کے ليۓ بہت ساري بافتيں ايک ساتھ مل کر کام کرتي ہيں تب وہ عضو کے وجود ميں آنے کا باعث بنتي ہيں - ان اعضاء کے باہمي ملاپ سے ايک نظام تشکيل پاتا ہے -
خليہ کي ساخت بہت ہي چھوٹي ہوتي ہے اور اسے ہم ايک عام آنکھ سے نہيں ديکھ سکتے ہيں - اس کے ليۓ ہميں مائيکروسکوپ کي ضرورت ہوتي ہے - خليے مختلف طرح کے ہوتے ہيں اور ان کا کام بھي مختلف ہوتا  ہے - اگر ہم ايک  خليے کي بنيادي ساخت پر نظر ڈاليں تو  ہم ديکھيں گے کہ خليے کا ايک مرکزي حصہ ہوتا ہے جسے " مرکزہ " کہا جاتا ہے - يہ خليے کا سب سے اہم حصہ ہوتا ہے  جو کسي خليہ ميں کنٹرول سيسٹم کا کام کرتا ہے -  يہ حصہ ساري جينيائي معلومات کو کروموسومز کي صورت ميں محفوظ کرکے رکھتا ہے -  اس حصے ميں ساري معلومات ہوتي ہے  کہ انسان کے اندر  پائي جانے والي مخصوص قسم کي خصوصيات کس نوعيت کي ہوني چاہيۓ  يعني کسي خاص انسان کے بال کيسے ہوتے ہيں ، ان کا رنگ کيا  ہوتا ہے  اور يہاں تک کہ آپ کا غالب ہاتھ کونسا ہے يعني آپ دائيں ہاتھ سے کام زيادہ کرتے ہيں يا بائيں ہاتھ سے -   )

  

بنیادی وراثتی عناصر اور جنسیت

بنیادی وراثتی عناصر اور جنسیت

بنیادی وراثتی اثرات اور جنسیت
کروموسومز دراصل  ڈي اين  اے  سے بنا ہوتا  ہے - اس کا پورا نام  Deoxyribonucleic acid  یعنی DNA ہوتا ہے - اس کي ساخت ميں چار پروٹين بنيادي کردار ادا کرتي ہيں - ان کے نام ايڈانين, تهامين, سائٹوسين اور گوانين ہيں - ان کو A, T,C اور G کے مخفف سے ظاہر کيا جاتا ہے - ڈي- اين- اے  2 دهاگوں سے بنا ہوا ہے جو ايک دووسرے سے جڑے ہيں جيسه کہ ايک گھومتي ہوئي سيڑھي - اس  کو ہم  ڈبل ہيلکس کے نام سے پکار تے ہيں - ہمارے جسم  کے ہر سيل ميں 46 کروموسومز ہوتے  ہيں جو  23 جوڑوں  پر مشتمل ہيں - دو جنسي کروموسومز  x اور y   ہوتے ہيں - مرد کے پاس جنسي کروموسوم کي جو جوڑي ہوتي ہے وہ xy    پر مشتمل ہوتي ہے   جبکہ ماں کے پاس دونوں xx  ہي ہوتے ہيں - اس ليۓ ماں کي طرف سے ہميشہ x   ہي آتا ہے جبکہ باپ کي طرف سے ممکن ہے کہ x  آۓ اور يہ بھي ممکن ہے کہ y  آۓ - جب بچے کي پيدائش کے ليۓ زائیگوٹ بنتا ہے تو اس ميں ايک کروموسوم ماں کي طرف سے آتا ہے اور ايک باپ کي طرف سے - يہي وجہ ہے کہ بچے ميں ماں اور باپ دونوں کي کچھ  خصوصيات پائي جاتي ہيں -  باپ کي طرف سے آنے والا کروموسوم  يہ چيز مشخص کرتا  ہےکہ  پيدا ہونے والا بچہ نر ہے يا مادہ - اگر باپ کي طرف سے x آۓ تو وہ ماں کي طرف سے آنے والے x  سے مل کر xx  بناتا ہے يعني  يہ بچہ مادہ ہو گا  اور اگر باپ کي طرف سے y  آۓ تب  وہ ماں کي طرف سے آنے والے x  سے مل کر xy  بناتا ہے يعني  يہ بچہ نر ہو گا - اس  ليۓ معاشرے ميں لڑکے اور لڑکي کي  پيدائش ميں ماں کا کوئي عمل دخل  نہيں ہوتا ہے - يہ مرد پر منحصر ہے کہ اس سے کونسے کروموسومز  آتے ہيں -
انسان   کے اندر پائي جانے والي خصوصيات دراصل  وراثتي اثرات کي وجہ سے ہوتي ہيں مگر  ماحول ، غذا اور ورزش جيسے عوامل بھي اس پر اثر انداز ہوتے ہيں - ( جاری ہے )

پاني کب پينا چاہيۓ ؟


پاني خدا کي ايک عظيم نعمت ہے جو کائنات ميں ايک طرح سے توازن قائم رکھنے ميں ايک کليدي کردار ادا  کر رہا ہے - ہم يہ بھي کہہ سکتے ہيں کہ پاني کي بدولت زندگي رواں دواں ہے - انساني جسم ميں بھي زيادہ تر پاني ہي ہے  اور اس مقدار کو قائم رکھنے کے ليۓ ہميں روزانہ پاني کي ايک خاص مقدار پينے کي ضرورت ہوتي ہے - وہ لوگ جو زيادہ کام نہيں کرتے انہيں دن ميں چھ سے آٹھ گلاس پاني کي ضرورت نہيں ہوتي ہے - روزانہ آٹھ گلاس يا دو ليٹر پاني پينے کا مشورہ بہت عرصے سے ديا جا رہا ہے مگر ڈاکٹر کرس وين ٹيلکين پوچھتے ہيں کہ کيا اس کي کوئي سائنسي بنياد بھي ہے؟
اس سال کے شروع ميں آسٹريليا ميں کھيل پر تحقيق کرنے والے سائنسدانوں نے يہ جاننے کے ليے ايک غير معمولي تجربہ کيا کہ پاني کي کمي کھلاڑي کے کھيل پر کس طرح اثر انداز ہوتي ہے-
اس تجربے کے ليے انہوں نے سائيکل سواروں کے ايک گروپ کو اس وقت تک ورزش کرائي جب تک پسينے کے ذريعے ان کے جسم کا تين فيصد وزن کم نہيں ہوگيا-
اس کے بعد ان کي کارکردگي کو مزيد دو طريقوں سے پرکھا گيا- پہلے تب جب ان ميں دو فيصد پاني بحالي ہوگيا اور دوسرا تب جب ان ميں پاني کي مقدار بالکل متوازن تھي-
يہ اپني نوعيت کا پہلا تجربہ تھا کيونکہ اس ميں کھلاڑيوں کو پاني ڈرپ کے ذريعے ديا گيا اور انہيں يہ معلوم نہيں تھا کہ انہيں کتنا پاني ديا جا رہا ہے- يہ کرنا نہايت اہم تھا کيونکہ ہم سب کو اور خصوصاً کھلاڑيوں پر پاني پينے کا نفسياتي اثر ہوتا ہے-
انساني جسم پاني کي کمي کو تو برداشت کر ليتا ہے مگر پاني کي زيادتي خطرناک ثابت ہو سکتي ہے- حيرت انگيز طور پر وہ کھلاڑي جن ميں پاني کي مقدار متوازن تھي اور وہ جن ميں پاني کي کمي تھي ان سب کي پرفارمنس ايک جيسي تھي-
يہ تجربہ ’پياس ميں پيو‘ نامي ايک تحقيق کا حصہ ہے جس کي مدد سے کھلاڑيوں ميں اس بات کي آگاہي پيدا کي جا رہي ہے کہ وہ اپنے جسم ميں پاني کي مقدار کو غير ضروري طور پر نہ بڑھائيں کيونکہ اس سے ان ميں سوڈيم کي مقدار کم ہو جاتي ہے جس سے ’ہائي پون ايٹريميا‘ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے- مگرشايد يہ نتائج اتنے حيران کن نہيں ہيں- انساني ارتقا شديد دھوپ اور گرمي ميں ہي سخت ورزش سے ہوا ہے-
مگر آج کل ہميں کہا جاتا ہے کہ روزانہ آٹھ گلاس پاني پينا صاف جلد، تھکن ميں کمي اور ذہانت ميں اضافے کا باعث ہے- تو يہ بات کہاں سے آئي؟
حقيقت تو يہ ہے کہ وہ لوگ جو زيادہ کام نہيں کرتے انہيں دن ميں چھ سے آٹھ گلاس پاني کي ضرورت نہيں ہوتي اور صرف روز مرہ کے کھانے، شربت اور چائے سے ہي يہ اپني پاني کي ضرورت پوري کر ليتے ہيں-
اس بات کي کوئي سائسني حقيقت نہيں ہے کہ ہميں روزانہ آٹھ گلاس پاني کي ضرورت ہوتي ہے- اس تحقيق نے يہ بھي ثابت کيا ہے کہ انساني جسم خود اس بات کا تعين بہترين طريقے سے کر سکتا ہے کہ اسے کتنے پاني کي ضرورت ہے- اس ليے پاني اور آکسيجن کي مثال ايک جيسي ہے- آپ صرف اتني آکسيجن ليتے ہيں جتني کي آپ کو ضرورت ہوتي ہے- بالکل اسي طرح اگر آپ ضرورت سے زيادہ پاني پيئيں گے تو اُس کا آپ کو کوئي فائدہ نہيں ہوگا اور وہ آپ کے جسم سے خارج ہو جائے گا - بعض بيماريوں کي صورت ميں مريض کو زيادہ پينے کا مشورہ ديا جاتا ہے مثلا جن افراد کو گردے ميں پتھري ہوتي ہے - ايسي صورت ميں پاني کے زيادہ استعمال سے مريض کا نظام اخراج زيادہ کام کرتا ہے ، پاني کي زيادہ ترسيل ہوتي ہے اور پتھري کو باہر نکالنے ميں معاون ثابت ہو سکتا ہے -

کھڑے ہو کر کام کرنا اور اچھي صحت


انساني جسم ايک مشين کي مانند ہوتا ہے اور اس مشين کو آپ جتنا استعمال ميں رکھيں گے يہ اتنا ہي فعال  رہے گي - اگر اس مشين سے کام لينا چھوڑ ديں يا کم کام ليں تب اس ميں مختلف طرح کے نقائص سامنے آنا شروع ہو جاتے ہيں - آج کے جديد دور ميں جب نت نئي سائنسي ايجادات نے  انساني زندگي ميں بہت آسائشيں لا دي ہيں وہيں کم مشقت کي وجہ سے ہمارا جسم مختلف طرح کي مشکلات کا شکار ہو رہا ہے - ايک تحقيق ميں دعويٰ کيا گيا ہے کہ دن ميں زيادہ وقت بيٹھے رہنے کے مقابلے ميں کھڑے رہنا صحت کے ليے بہت مفيد ہے-
کيا آپ نے کبھي اندازہ لگايا ہے کہ آپ دن ميں کتنے گھنٹے بيٹھے رہتے ہيں؟ آٹھ سے کم يا دس سے زيادہ؟
ايک سروے کے مطابق ہم دن ميں تقريباً بارہ گھنٹے کمپيوٹر يا ٹي وي کے آگے بيٹھ کر گزارتے ہيں- اگر اس ميں نيند کے سات گھنٹے بھي شامل کر ليں تو اس کا مطلب ہوا کہ ہم انيس گھنٹے بيٹھے رہتے ہيں- اتنے زيادہ گھنٹے بيٹھے رہنا ہمارے ليے اچھا نہيں ہے- ايک تحقيق کے مطابق جو افراد پورا دن بيٹھے رہتے ہيں ان کي زندگي ان افراد سے دو سال کم ہوتي ہے جو نسبتاً زيادہ چست ہوتے ہيں-
ہم ميں سے کئي زيادہ تر بيٹھے رہنے کے قصوروار ہيں- کام پر، گاڑي ميں، گھر پر اور بس اسي وقت اٹھتے ہيں جب ايک سيٹ سے اٹھ کر دوسري سيٹ پر جانا ہو- کھڑے ہو کر کام کرنا عجيب تو لگتا ہے ليکن يہ ايک پراني روايت ہے- آج کل کي ٹيکنالوجي نے ہميں تاريخ ميں سب سے زيادہ بيٹھے رہنے والے انسان بنا ديا ہے- تو آخر بيٹھے رہنا کس طرح اتنا نقصان دے ہے؟ بيٹھے رہنا اس بات پر اثر انداز ہوتا ہے کہ ہمارا جسم شوگر سے کس طرح نمٹتا ہے- جب ہم کھاتے ہيں تو ہمارا جسم اس خوارک کو توڑ کر گلو کوز ميں تبديل کر ديتا ہے جو خون کے ذريعے دوسرے خليوں تک پہنچتا ہے-
گلو کوز اہم ہے اور ہمارے ليے ايندھن مہيا کرتا ہے ليکن اس کي سطح ميں اضافے سے ذيابطيس اور دل کي بيماريوں کا خدشہ ہوتا ہے- لبلبہ ايسي انسولين پيدا کرتا ہے جس سے گلو کوز کي مقدار کو دوبارہ معمول کي سطح پر لانے ميں مدد ملتي ہے ليکن اس عمل کے مۆثر ہونے کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ جسماني طور پر کتنے چست ہيں-
دس لوگوں کے ايک ايسے گروہ کو اس تجربے ميں شامل کيا گيا جو اپنے دن کا زيادہ وقت بيٹھ کر گزارتے ہيں اور ان سے کہا گيا کہ وہ کچھ گھنٹے کھڑِے ہو کر گزاريں- ( جاري ہے )

کھڑے ہو کر کام کرنے ميں افاديت


ہمارے معاشرے ميں جو لوگ محنت مشقت کرتے ہيں وہ دوسرے لوگوں کي نسبت زيادہ ہشاش بشاش رہتے ہيں - مشقت کرنے والے افراد دل کي بيماريوں ميں بھي مبتلا نہيں ہوتے ہيں - يہ ممکن ہے کہ ايک محنت کش کسي ايسي فيکٹري ميں کام کرتا ہو جہاں پر کيميائي مادے کي وجہ سے اس کي صحت خراب ہو مگر يہ ايک الگ بات ہے - ايک محنت کرنے والے فرد کو اگر صاف ستھرا ماحول ميسر ہو تب وہ آرام طلب زندگي گزارنے والے فرد سے صحت مند اور جسماني طور پر مضبوط رہتا ہے -
پانچ دن تک روزانہ تين گھنٹے کھڑے رہنا ايک سال ميں دس ميراتھنز ميں حصہ لينے کے مترادف؟
يونيورسٹي آف جيسٹر کے ڈاکر جان بکلے اور تحقيق کاروں کي ايک ٹيم نے ايک عام سا تجربہ کيا- پراپرٹي کا کام کرنے والے دس افراد کو ايک ہفتے تک دن ميں تين گھنٹے کھڑے ہو کر کام کرنے کو کہا گيا- اس تجربے کے دوران ان کي حرکت، دل کي دھڑکن اور گلو کوز کي سطح کو مسلسل مانيٹر کيا گيا-
اس بات کے شواہد کم از کم سنہ انيس سو پچاس سے موجود ہيں کہ کھڑے ہونا بيٹھنے سے بہتر ہے- اس وقت ايک ايسي تحقيق کي گئي تھي جس ميں بس کے کنڈيکٹر (جو کھڑے رہتے ہيں) اور ڈرائيور (جو بيٹھے رہتے ہيں) کا موازنہ کيا گيا تھا- اس تحقيق سے پتہ چلا کہ بس ڈرائيوروں کے مقابلے ميں کنڈکٹروں ميں دل کي بيماري ہونے کا خطرہ آدھا تھا-
برطانيہ ميں اس قسم کي تحقيق پہلي مرتبہ کي گئي ليکن تحقيق کاروں کو ايک فکر يہ تھي کہ کيا اس تجربے ميں شامل افراد ايک ہفتے تک ايسا کر سکيں گے؟
انہوں نے ايسا کيا يہاں تک کہ جوڑوں ميں سوجن کي ايک مريض نے کھڑے رہنے سے اپني صحت ميں بہتري محسوس کي-
کن باتوں سے فرق پڑتا ہے ؟
چھوٹي موٹي حرکت جيسے فون پر بات کرتے ہوئے کھڑے ہونا، کام پر کسي کو اي ميل بھيجنے کے بجائے ان کے پاس جا کر بات کرنا يا سيڑھيوں کا استعمال بھي بہت مۆثر ہو سکتا ہے -
اس تحقيق سے معلوم ہوا کہ کھانے کے بعد بيٹھنے کے بجائے کھڑے رہنے سے خون ميں گلو کوز کي مقدار جلد معمول پر آ گئي-
دل کي دھڑکن کو مانيٹر کرنے سے يہ معلوم ہوا کہ کھڑے رہنے سےان کي کيلوريز کي مقدار ميں تيزي سے کمي ہو رہي تھي-
ڈاکٹر جان بکلے کے مطابق ’اگر ہم ان کے دل کي دھڑکن کو ديکھيں تو وہ معمول سے تيز ہے- اوسطاً ہر منٹ ميں معمول سے دس دھڑکنيں زيادہ اور اس سے في منٹ 0.7 کيلوري کا فرق پڑتا ہے-
يہ زيادہ نہيں ليکن مجموعي طور پر اس سے في گھنٹہ پچاس کيلوريز کم ہوتي ہيں- اگر آپ پانچ دن تک روزانہ تين گھنٹے کھڑے رہيں تو اس کا مطلب ہے 750 کيلوريز کي کمي- اس حساب سے ايک سال ميں تيس ہزار کيلوريز-
ہم سب کام پر کھڑے نہيں رہ سکتے ليکن تحقيق کاروں کا ماننا ہے کہ چھوٹي موٹي حرکت جيسے فون پر بات کرتے ہوئے کھڑے ہونا، کام پر کسي کو اي ميل بھيجنے کے بجائے ان کے پاس جا کر بات کرنا يا سيڑھيوں کا استعمال بھي بہت مۆثر ہو سکتا ہے- مارکيٹ  ميں جب کوئي چيز لينے جائيں تو کوشش کريں کہ اپني گاڑي مارکيٹ سے ذرا فاصلے پر کھڑي کريں تاکہ آپ کو چل کر مارکيٹ تک جانا پڑے - دفتر ميں کام کرتے وقت اپنے کسي ساتھي سے کام ہو تو کوشش کريں کہ خود چل کر اس کے پاس جائيں تاکہ آپ کا جسم حرکت ميں رہے

ڈرائی فرو ٹس جسم کے درجہ حرارت کو بڑھانے اور موسم سرما کے مضر اثرات سے بچائو میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: معالجن کہتے ہیں کہ سردی کا موسم جسم میں تازہ خون بنانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے اور سردیوں میں کھائے جانےوالے خشک میوے اپنے اندر وہ تمام ضروری غذائیت رکھتے ہیں جو جسم میں توانائی اور تازہ خون بنانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔

یہ میوے معدنیات اور حیاتین سے بھرپور ہوتے ہیں اور اسی غذائی اہمیت کے پیشِ نظر معالجین انہیں ’’قدرتی کیپسول‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اطباء بھی خشک میوہ جات کی غذائی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اکثر کو مغزیات کا درجہ دیتے ہیں۔ معالجین کے مطابق سردیوں میں جو کچھ کھاؤ، وہ جسم کو لگتا ہے کیوں کہ اس موسم میں نظامِ ہضم کی کارکردگی تیز ہوجاتی ہے اور گرمیوں کے مقابلے میں زیادہ کام کرنے کو دل چاہتا ہے لیکن دن چھوٹے ہوجائیں اور راتیں لمبی تو پھر ان لمبی راتوں کو گزارنے کے لیے خشک میوے نہایت اچھے رفیق ثابت ہوتے ہیں۔ خشک میوہ جات قدرت کی جانب سے سردیوں کا انمول تحفہ ہیں جو خوش ذائقہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار طبی فوائد کے حامل بھی ہیں۔ خشک میوہ جات مختلف بیماریوں کے خلاف مضبوط ڈھال کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈرائی فرو ٹس جسم کے درجہ حرارت کو بڑھانے اور موسم سرما کے مضر اثرات سے بچائو میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اعتدال کے ساتھ ان کا استعمال انسانی جسم کو مضبوط اور توانا بناتا ہے۔ حکماء کہتے ہیں جب سردیاں جسم میں تازہ خون بنانے کا موقع فراہم کرتی ہیں تو ایسے میں خشک میوے وہ تمام ضروری غذائیت فراہم کرتے ہیں جو جسم میں توانائی اور تازہ خون بنانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ اسی غذائی اہمیت کے پیشِ نظر معالجین انہیں ’’قدرتی کیپسول‘‘ بھی کہتے ہیں اور اکثر کو مغزیات کا درجہ دیتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ خشک میوے اپنے اندر کیا کیا غذائی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس موسم میں ہم ان سے صحت کے کون کون سے فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔

اخروٹ:سردیوں میں اخروٹ کی گری یعنی اس کا مغز نہایت غذائی بخش میوہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ماہرینِ غذائیت کے مطابق ایک سو گرام اخروٹ کی گری میں فولاد 2.1 ملی گرام اور حرارے 656 ہوتے ہیں۔ اس کی بھنی ہوئی گری سردیوں کی کھانسی کو دور کرنے کے لئے نہایت مفید ہے۔ اخروٹ کو کشمش کے ساتھ استعمال کیا جائے تو منہ میں چھالے اور حلق میں خراش ہوسکتی ہے۔ یہ دماغی قوت کے لیے بہت ہی فائدہ مند تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے استعمال سے دماغ طاقت ور ہوجاتا ہے۔ اخروٹ کو اعتدال سے زیادہ کھانے سے منہ میںچھالے اور حلق میں خراش پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک حالیہ امریکی تحقیق کے مطا بق اخر وٹ کا استعمال ذہنی نشونما کے لیے نہایت مفید ہے، اوراس کے تیل کا استعما ل ذہنی دبائو اور تھکان کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ امریکا کی ریاست پنسلوانیا میں کی جا نیوالی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اخروٹ میں موجود اجزاء خون کی گردش کو معمول پر لاکر ذہن پر موجود دبائو کوکم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ حضرات جو زیادہ کام کرتے ہیں ان کے ذہنی سکون کے لئے اخرو ٹ اور اس کے تیل کا استعما ل نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اخرو ٹ کا استعما ل بلڈپریشر پر قابو پانے اور امراض ِقلب کی روک تھام کے لیے بھی نہایت مفید ہے۔

اخروٹ بالوں کو سیاہ کرنے کے لیے بھی معروف ہے اس سے جو خضاب بنایا جاتا ہے وہ بازار میں دست یاب بال رنگنے کے پاؤڈر اور محلولوں سے بہ درجہ ہا بہتر ہے کیوں کہ اُن میں مختلف کیمیکل شامل کیے جاتے ہیں جب کہ اخروٹ کا خضاب یک سر محفوظ ہے جو با لو ں کو صرف سیاہ ہی نہیں، ان میں چمک بھی پیدا کرتا ہے، اس کی تیاری کا طریقہ ہے کہ اخروٹ کا سبز چھلکا ایک کلو لے کر اسے آٹھ کلو دودھ میں جوشائیں بعد میں اتار کر اس دودھ کا دہی جمائیں، اب اس دہی کو بلو کر گھی حاصل کرلیں اور مناسب مقدار میں بالو ں پر لگا ئیں۔

بادام:بادام صدیوں سے قوتِ حافظہ، دماغ اور بینائی کے لئے نہایت مفید قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس میں وٹامن اے، وٹامن بی کے علاوہ روغن اور نشاستہ بھی موجود ہوتا ہے۔ یہ اعصاب کو طاقت ور بناتا ہے اور قبض کو ختم کرتا ہے۔ دماغی کام کرنے والوں کے لئے اس کا استعمال ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ ماہرین غذائیت کے مطابق ایک سو گرام بادام کی گری میں کیلشیم کی مقدار 254 ملی گرام، فولاد 2.4 ملی گرام، فاسفورس475ملی گرام اور حرارے 597 ہوتے ہیں۔ بادام قوت حافظہ‘ دماغ اور بینائی کیلئے بے حد مفید ہے اس میں حیاتین الف اور ب کے علاوہ روغن اور نشاستہ موجود ہوتا ہے۔ اعصاب کو طاقت فراہم کرتا ہے اور قبض کو ختم کرتا ہے۔بادام خشک پھلوں میں بے پناہ مقبولیت کا حامل ہے۔ بادام کے بارے میں عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چکنائی سے بھرپور ہونے کے سبب انسانی صحت خصوصاً عارضہ قلب کا شکار افراد کیلئے نقصان دہ ہے تاہم اس حوالے سے متعدد تحقیقات کے مطابق بادام خون میں کولیسٹرول کی سطح کم کرتا ہے اور یوں اس کا استعمال دل کی تکالیف میں فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے نیز اس کی بدولت عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک تحقیق کے مطابق 3 اونس بادام کا روزانہ استعمال انسانی جسم میں کولیسٹرول لیول کو 14فیصد تک کم کرتا ہے۔ بادام میں 90 فی صد چکنائی’’ نان سیچوریٹڈ فیٹس‘{‘{ پر مشتمل ہوتی ہے نیز اس میں پروٹین وافر مقدار میں پایا جاتا ہے دیگر معدنیات میں فائبر کیلشیم، میگنیٹیم، پوٹاشیم، وٹامن ای اور دیگر اینٹی آکسیڈنٹس بھی وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔

تل:تل بھی موسمِ سرما کی خاص سوغات میں سے ایک ہے۔ جن بڑوں یا بچوں کو کثرت پیشاب کا مرض ہو اور سردیوں میں بوڑھے افراد اس کی زیادتی سے تنگ ہوں یا پھر جو بچے سوتے میں بستر گیلا کر دیتے ہوں، ان کو تل کے لڈو کھلانے چاہئیں۔ اس سے کثرتِ پیشاب کی شکایت دور ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ جسم میں گرمی پیدا کرتے ہیں۔ جن بوڑھوں کو بہت زیادہ سردی لگتی ہو ان کے لئے تو بہت ہی مفید ہیں۔ ماہرین غذائیت کے مطابق تل بہت توانائی بخش میوہ ہے۔ اس میں معدنی نمک اور پروٹین کے علاوہ ’’لیسی تھین‘{‘{ بھی کافی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ فاسفورس آمیز چکنائی دماغ اور اعصاب کے لئے بہت ہی مفید ہے۔ واضح رہے کہ لیسی تھین تل کے علاوہ انڈے کی زردی، گوشت اور ماش کی دال میں بھی پایا جاتا ہے۔ موسم سرما میں بوڑھوں اور بچوں کے مثانے کمزور ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر بستر پر پیشاب کردیتے ہیں۔ اس شکایت سے نجات کیلئے تل کے لڈو بہترین غذا اور دوا ہیں۔

چلغوزہ :چلغوزے گردے، مثانے اور جگر کو طاقت دیتے ہیں۔ سردیوں میں اس کے کھانے سے جسم میں گرمی بھر جاتی ہے۔ چلغوزے کھانا کھانے کے بعد کھائیں۔ اگر کھانے سے پہلے انہیں کھایا جائے تو بھوک ختم ہوجاتی ہے۔چلغوزے گردہ‘مثانہ اور جگر کو طاقت دیتے ہیں اس کے کھانے سے جسم میں گرمی اور فوری توانائی محسوس ہوتی ہے۔ چلغوزہ کھانے سے ’’میموری سیلز‘{‘{ میں اضافہ یعنی یادداشت میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔اگر کوئٹہ سے قلعہ عبداللہ کے راستے ژوپ(فورٹ سنڈے من)کی طرف جائیں تو تقریباً پانچ گھنٹے کی مسافت کے بعد ژوب کا علاقہ آتا ہے۔یہ علاقہ 2500سے 3500میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 37سینٹی گریڈ جب کہ سردیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 15سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ مزید بلندی پر یہ درجہ حرارت مزید کم ہو جاتا ہے،یہ ہی وہ علاقہ ہے جہاں چلغوزے کے دنیا کے سب سے بڑے باغات واقع ہیں۔ یہ باغات تقریباً 1200مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔اس علاقے میں پیدا ہونے والا چلغوزہ دنیا بھر میں نہایت معیاری اور پسند کیا جاتا ہے۔ اس کی مناسب پیکنگ وغیرہ کر کے اس کو بیرون ملک ایکسپورٹ کر دیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں پیدا ہونے والے اس چلغوزے کی زیادہ تر مارکیٹ دبئی‘انگلینڈ‘ فرانس‘مسقط اور دیگر ممالک ہیںجہاں کے خریدار اس علاقے کے پاکستانی چلغوزے کو منہ مانگی قیمت پر خریدنے کو تیار رہتے ہیں۔

کشمش:کشمش دراصل خشک کئے ہوئے انگور ہوتے ہیں۔ چھوٹے انگوروں سے کشمش اور بڑے انگوروں سے منقیٰ بنتا ہے۔ کشمش اور منقیٰ قبض کا بہترین توڑ ہیں۔ یہ نزلہ کھانسی میں مفید اور توانائی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔ ماہرینِ غذائیت کے مطابق ایک سو گرام کشمش میں پوٹاشیئم 275 ملی گرام جب کہ فولاد 1.3 ملی گرام ہوتا ہے۔کشمش دراصل خشک کیے ہوئے انگور ہیں۔ چھوٹے انگوروں کو خشک کرکے کشمش تیار کی جاتی ہے جب کہ بڑے انگوروں کو خشک کرکے منقی تیار کیا جاتا ہے۔ کشمش اور منقی قبض کا بہترین علاج ہے۔ نیزہڈیوں کے بھربھرے پن کی مرض میں مفید ہے۔ بہت قوت بخش میوہ ہے۔

مونگ پھلی: مونگ پھلی تو سردیوں میں سب کا من بھاتا سستا میوہ ہے۔ اس میوے کی ایک خاصیت اس میں بہت زیادہ تیل کا ہونا ہے لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ مونگ پھلی میں موجود تیل یا چکناہٹ جسم کے کولسٹرول کو نہیں بڑھاتی ہے۔ ماہرین غذائیت کے مطابق ایک سو گرام مونگ پھلی میں 37.8 فی صد نشاستہ اور 31.9 فی صد پروٹین موجود ہوتا ہے۔ اس میں وٹامن بی 1 کے علاوہ کیلشیم اور فاسفورس بھی پایا جاتا ہے۔ غذائیت میں مونگ پھلی اخروٹ کی ہم پلہ ہے۔مونگ پھلی ہردل عزیز میوہ ہے۔ سردیوں میں مونگ پھلی کھانے کا اپنا ہی مزا ہے تاہم اس کا باقاعدہ استعمال دبلے افراد اور باڈی بلڈنگ کرنے والوں کے لئے انتہائی غذائیت بخش ثابت ہوتا ہے۔ مونگ پھلی میں قدرتی طور پر ایسے اینٹی آکسی ڈنٹ پائے جاتے ہیں جو غذائیت کے اعتبار سے سیب‘ گاجر اور چقندر سے بھی زیادہ ہوتے ہیں جو کم وزن افراد سمیت باڈی بلڈنگ کرنے والوں کے لئے بھی نہایت مفید ثابت ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بل کہ اس کے طبی فوائد کئی امراض سے حفاظت کا بھی بہترین ذریعہ ہیں۔ مونگ پھلی میں پایا جانے والا وٹامن ای کینسر کے خلاف لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے جب کہ اس میں موجود قدرتی فولاد خون کے نئے خلیات بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔کینیڈا میں کی جانے والے ایک تحقیق کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذیابطیس کے مریضوں کے لئے مونگ پھلی کا استعمال نہایت مفید ہے۔ ماہرین کے مطابق دوسرے درجے کی ذیابطیس میں گرفتار افراد کے لئے روزانہ ایک چمچہ مونگ پھلی کا تیل بہت مثبت نتا ئج مرتب کرسکتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مونگ پھلی کا استعمال انسولین استعمال کرنے والے افراد کے خون میں انسولین کی سطح برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مونگ پھلی میں تیل کافی مقدار میں ہوتا ہے لیکن آپ خواہ کتنی بھی مونگ پھلی کھا جائیں اس کے تیل سے آپ کا وزن نہیں بڑھے گا۔

پستہ:پستے کا شمار بھی مغزیات میں کیا جاتا ہے۔ یہ جسم میں حرارت بھی پیدا کرتا ہے جب کہ قوتِ حافظہ، دل، معدے اور دماغ کے لیے بھی مفید ہے۔ اس کے متواتر استعمال سے جسم ٹھوس اور بھاری ہو جاتا ہے۔ مغز پستہ سردیوں کی کھانسی میں بھی مفید ہے اور پھیپھڑوں سے بلغم خارج کر کے انہیں صاف رکھتا ہے۔ پستے میں کیلشیم، پوٹاشیئم اور حیاتین بھی اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ ایک سو گرام پستے کی گری میں 594 حرارے ہوتے ہیں۔ پستہ کا استعمال مختلف سویٹس کے ہم را ہ صدیوں سے مستعمل ہے۔حلوہ‘زردہ اور کھیر کا لازمی جز ہے۔ نمکین بھنا ہوا پستہ انتہائی لذت دار ہوتا ہے اور دیگر مغزیات کی طرح بھی استعمال کیا جا تا ہے۔ جدید طبی تحقیق کے مطابق دن میں معمولی مقدار میں پستہ کھانے کی عادت انسان کو دل کی بیماری سے دور رکھ سکتی ہے۔ پستہ خون میں شامل ہو کر خون کے اندر کولیسٹرول کی مقدار کو کم کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ خون میں شامل مضر عنصر لیوٹین کو بھی ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔اس تحقیق کے دوران ماہرین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ پھل اور پتے دار ہری سبزیاں کھانے سے شریانوں میں جمے کولیسٹرول کو پگھلایا جاسکتاہے۔ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ پستہ عام خوراک کی طرح کھانا آسان بھی ہے اور ذائقے دار غذا بھی اگر ایک آدمی مکھن‘ تیل اور پنیر سے بھرپور غذائوں کے بعد ہلکی غذائوں کی طرف آنا چاہتا ہے تو اسے پستہ کھانے سے آغاز کرنا چاہیے۔ پستہ کا روزانہ استعمال کینسر کے امراض سے بچائو میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ایک جدید تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزانہ منا سب مقدار میں پستہ کھانے سے پھیپھڑوں اور دیگر کینسرز کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ کینسر پر کام کر نے والی ایک امریکی ایسوسی ایشن کے تحت کی جانے والی ریسرچ کے مطا بق پستہ میں وٹامن ای کی ایک خاص قسم موجود ہو تی ہے جو کینسر کے خلاف انتہائی مفید ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پستہ میں موجود اس خاص جزو سے نہ صرف پھیپھڑوں بل کہ دیگر کئی اقسام کے کینسر سے لڑنے کے لیے مضبوط مدا فعتی نظام حاصل کیا جا سکتا ہے۔

کاجو: کاجو انتہائی خوش ذائقہ میوہ ہے ۔اس میں زنک کی کافی مقدار پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے استعمال سے اولاد پیداکرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔کینیڈا میں کی گئی ایک حالیہ طبی تحقیق کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کاجو کا استعمال ذیابطیس کے علاج میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کاجو کے بیج میں ایسے قدرتی اجزا پائے جاتے ہیں جو خون میں موجود انسولین کو عضلات کے خلیوں میں جذب کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کاجو میں ایسے ’’ایکٹو کمپاونڈز‘‘ پائے جاتے ہیں جو ذیابطیس کو بڑھنے سے روکنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں لہذا ذیابطیس کے مریضوں کے لئے کاجو کا باقاعدہ استعمال انتہائی مفید ہے۔

دمہ کيا ہے ؟


دمہ ايک ايسي کيفيت کا نام ہے جو آپ کے پھيپڑوں پر اثر انداز ہوتي ہے- دمہ کي عام علامت سانس سے سيٹي کي آوازوں کا نکلنا ،کھانسي ہونا اور سانس لينے ميں دشواري پيش آنا ہے،يہ علامتيں صحت کے کسي اور مسئلے کے باعث بھي ہو سکتي ہيں- اس لئے پہلي مرتبہ آپکے ڈاکٹر کے لئے اس مرض کي تشخيص تھوڑي مشکل ہو گي،بالخصوص شير خوار اور بہت چھوٹے بچوں ميں-
دمہ آپ کے بچے کے پھپھڑے عمر بھر کے لئے متاثر کر سکتا ہے- کبھي تو آپ کا بچہ اس سے نجات پرسکون محسوس کرے گا اور کبھي آپ کے بچے کي حالت دمہ کے باعث بہت خراب ہو جائے گي-
آپکے بچے کے لئے دمہ کب پريشاني کا باعث بنتا ہے
جب آپکے بچے کا دمہ ايک مسئلہ کي شکل اختيار کرتا ہے تو اُسکي سانس کي نالياں بہت سُکڑ جاتي ہيں- جب ايسا ہوتا ہے، تو آپ کے بچےکو اپنے پھيپھڑوں سے سانس اندر باہر لے جانے ميں دقت کا سامنا ہوتا ہے-
دمہ ميں ہوا کي ناليوں کو تنگ کرنا
دمہ کے حملہ کے دوران ہوا دار ناليوں کے گرد پٹھے سخت ہو جاتے ہيں- ہوا دار نالياں تنگ ہو جاتي ہيں جو سانس لينے ميں دقت کرتي ہيں-
جب آپکے بچے کو دمے کا مسئلہ ہوتا ہے تو تين چيزيں سانس کي ناليوں کے سکڑنے کا سبب بنتي ہيں:
1.  سانس کي ناليوں کي تہہ موٹي ہو جاتي ہے اور سُوج جاتي ہے- آپ سنيں گے کہ اس کو سوزش کہتے ہيں-
2.  سانس کي ناليوں کےگرد عضلات سخت ہو جاتے ہيں- آپ سنيں گے کہ اس کو ہوائي ناليوں کا کھنچاۆ يا برونکوکنسٹرکشن کہتے ہيں-
3. سانس کي نالياں بہت سا صاف، گاڑھا مائع بناتے ہيں جسے بلغم کہتے ہيں- يہ بلغم نارمل سے زيادہ گاڑھي ہو تي ہے جس سے سانس کي ناليوں ميں رکاوٹ پيدا ہو سکتي ہے-
اپنے بچے کو بہتر محسو س کرنے ميں مدد کريں
کچھ ايسے طريقے موجود ہيں جن سے آپ اپنے بچے کو بہتر محسوس کرنے مي معاونت کر سکتے ہيں:
•   يہ صفحہ پڑھ کر، دمہ کے بارے ميں ديگر ذرائع پڑھنے کے ذريعے، اور اپنے ڈاکٹر سے اس بارے ميں جانکاري حاصل کرکے اپنے بچے کے دمہ کے بارے ميں مزيد معلومات حاصل کريں-
•  اس بات کي اچھي طرح يقين دہاني کرليں کہ آپ کا بچہ تمام ادويات بالکل اسي طرح لے رہا ہے جس طرح آپ کے بچے کے ڈاکٹر نے ہدايات دي ہيں-
•  يہ جاننے کي کوشش کريں کہ کيا چيز آپ کے بچے کے دمے کو جاري کرنے کا باعث بنتي ہے اور ان چيزوں سے حتي الا مکان بچے کو بچائيں- ٹريگرزايسي چيزيں ہوتي ہيں جن سے الرجي کے باعث آپ کے بچے پر دمہ کا حملہ ہوتا ہے-
ٹريگرز آپ کے بچے کے دمہ کو مذيد بگاڑ سکتے ہيں
ٹريگرز ايسي چيزيں ہو تي ہيں جن سے بچے کا دمہ مذيد بگڑ سکتا ہے -دمہ کا شکار ہر بچہ مختلف نوعيت کے ٹريگرز کے ہاتھوں پريشان ہوتا ہے- اپنے ڈاکٹر کے ساتھ مل کر اُن وجوہات کو تلاش کرنے کي کوشش کريں جن کے باعث بچے پر دمہ حملہ آور ہوتا ہے، اور يہ کہ آپکا بچہ ان ٹريگرز سے کس طرح دور رہ سکتا ہے-