Thursday 27 November 2014

انجیر:


انجیر:

حضرت ابوالدردأ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے انجیر سے بھرا ہوا تھال آیا۔ انہوں نے ہمیں فرمایا "کھاؤ!"، ہم نے اس میں سے کھایا۔ پھر ارشاد فرمایا "اگر کوئی کہے کہ کوئی پھل جنت سے زمین پر آ سکتا ہے تو میں کہوں گا کہ یہی وہ ہے، کیونکہ بلاشبہ جنت کا میوہ ہے۔ اس میں سے کھاؤ کہ یہ بواسیر ختم کر دیتی ہے اور گنٹھیا (جوڑوں کے درد) میں مفید ہے۔

بہی (سفرجل)


بہی (سفرجل)

حٖضرت طلحٰہ رضی اللہ عنہ بن عبید اللہ روایت فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ اس وقت اپنے اصحاب کی مجلس میں تھے۔ ان کے ہاتھ میں بہی تھا جس سے وہ کھیل رہے تھے۔ جب میں بیٹھ گیا تو انہوں نے اسے میری طرف کر کے فرمایا۔ "اے ابا ذر! یہ دل کو طاقت دیتا ہے سانس کو خوشبودار بناتا ہے اور سینہ سے بوجھ کو اتار دیتا ہے"۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بہی کھاؤ کیونکہ وہ دل کے دورے کو ٹھیک کر کے سینہ سے بوجھ اتار دیتا ہے"۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک روایت فرماتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بہی کھانے سے دل پر سے بوجھ اتر جاتا ہے۔"

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " بہی کھاؤ کہ دل کے دورے کو دور کرتاہے۔ اللہ نے ایسا کوئی نبی نہیں مامور فرمایا جسے جنت کا بہی نہ کھلایا ہو کیونکہ یہ فرد کی قوت کو چالیس افراد کے برابر کر دیتا ہے"۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنی حاملہ عورتوں کو بہی کھلایا کرو کیونکہ یہ دل کی بیماریوں کو ٹھیک کرتا ہے اور لڑکے کو حسین بناتا ہے"۔

حضرت عوف رضی اللہ عنہ بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " بہی کھاؤ کہ یہ دل کے دورے کو ٹھیک کرتا اور دل کو مضبوط کرتا ہے"۔

بہی کو نہار مُنہ کھانا چاہیٔے۔

تربوز (البطیخ)


تربوز (البطیخ)

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ السعدی روایت فرماتے ہیں "نبی صلّی اللہ علیہ وسلم تازہ پکی ہویٔ کھجوروں کے ساتھ تربوز کھایا کرتے تھے"۔

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ السعدی روایت فرماتے ہیں "نبی صلّی اللہ علیہ وسلم تازہ پکی ہوئی کھجوروں کے ساتھ تربوز کھایا کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ اس کی گرمی کو اس کی ٹھندک مار دیتی ہے اور اس کی ٹھنڈک کو اس کی گرمی مار دیتی ہے"۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تربوز کھانا بھی ھے اور مشروب بھی، ریحان کے ساتھ یہ مثانہ کو دھو کر صاف کر دیتا ہے، پیٹ کو صاف کرتا ہے، کمر سے پانی نکال دیتا ہے، باہ میں اضافہ کرتا ہے، چہرے کو نکھارتا ہے اور جسم سے ٹھنڈک کو ختم کرتا ہے"۔

عمّات نبی صلّی اللہ علیہ وسلم ان سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا "کھانے سے پہلے تربوز کھانے سے پیٹ دھل کر صاف ہو جاتا ہے اور یہ بیماریوں کو نکال دیتا ہے"۔

جَو کی روٹی:


جَو کی روٹی:

عہد رسالت میں عام طور پر لوگ جَو کی روٹی کھاتے تھے گندم اور جَو ملا کر روٹی پکائی جاتی تھی۔ خاص گیہوں کی روٹی تقریبات تک محدود تھی۔

حضرت ام المنزر رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم حضرت علی کے ہمراہ تشریف لائے۔ ہمارے یہاں کھجور کے لٹکے ہوئے خوشے موجود تھے، وہ ان کی خدمت میں پیش کئے گئے۔ اس میں سے دونوں نے تناول فرمایا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ تھوڑا کھا چکے تو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے روک دیا اور فرمایا "تم ابھی بیماری سے اٹھے ہو اور کمزور ہو۔ مزید مت کھاؤ"۔ اس کے بعد اس خاتون نے ان کے لئے جَو اور چکندر تیار کئے۔ نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا "تم اس میں سے کھاؤ کہ یہ تمہارے لئے بہتر ہے"۔

مسجد نبوی صلّی اللہ علیہ وسلّم کے دروازے پر ایک خاتون چقندر کی جڑیں اور ثابت جَو ملا کر ان کی شب دیگ پکا کر نمازِ جمعہ کے بعد بیچنے آیا کرتی تھیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو یہ پکوان ایسا پسند تھا کہ لوگ جمعہ والے دن کا انتظار کیا کرتے تھے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک درزی نے نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم کی دعوت کی اور اس نے جَو کی روٹی کے ساتھ کدو گوشت پکایا۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم بڑی محبت کے ساتھ سالن سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے تناول فرماتے رہے۔
حضرت یوسف بن عبن اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم کو دیکھا کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے جَو کی روٹی کا ٹکڑا لیا اس کے اوپر کھجور رکھی اور فرمایا کہ یہ اس کا سالن ہے۔

جَو کا دلیا (تلبینہ):


جَو کا دلیا (تلبینہ):

جَو کوٹ کر انہیں دودھ میں پکانے کے بعد مٹھاس کے لئے اس میں شہد ڈالا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں: "رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے اہل خانہ میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو حکم ہوتا تھا کہ اس کے لئے جَو کا دلیا بنایا جاۓ۔ پھر فرماتے تھے کہ بیمار کے دل سے غم کو اتار دیتا ہے اور اس کی کمزوری کو یوں اتار دیتا ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے چھرے کو پانی سے (دھو کر اس سے غلاظت اتار دیتا ہے)"۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے مطابق جب بیمار کے لئے دلیا پکایا جاتا تھا تو دلیا کی ہنڈیا اس وقت تک چولہے پر چڑھی رہتی تھی جب تک کہ وہ یا تو تندرست ہو جاۓ یا فوت ہو جاۓ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیمار کے لئے جَو کا دلیا تیار کرنے کا حکم دیا کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ "اگر چہ بیمار اس کو ناپسند کرتا ہے لیکن وہ اس کے لئے از حد مفید ہے"۔

پریشانی اور تھکن کے لئے بھی جَو کے دلیے کا ارشاد ملتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتی ہیں کہ جب ان کے گھرانے میں کوئی وفات ہوتی تو دن بھر افسوس کرنے والی عورتیں آتی رہتیں۔ جب باہر کے لوگ چلے جاتے اور گھر کے افراد اور خاص خاص لوگ رہ جاتے تو وہ جَو کا دلیا تیار کرنے کا حکم دیتیں۔ پھر ثرید تیار کیا جاتا۔ جَو کے دلیے کی ہنڈیا کو ثرید کے اوپر ڈال دیتیں اور کہا کرتیں تھیں "میں نے نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم کو فرماتے سنا ہے کہ یہ مریض کے دل کے جملہ عوراض کا علاج ہے اور دل سے غم کو اتار دیتا ہے"۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے مطابق جب کوئی نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم سے بھوک کی کمی کی شکایت کرتا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم اسے جَو کا دلیہ کھانے کا حکم دیتے اور فرماتے "اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ تمہارے پیٹوں سے غلاظت کو اس طرح اتار دیتا ہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کر صاف کر لیتا ہے"۔

نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم کو مریض کے لئے جَو کے دلیے سے بہتر کوئی چیز پسند نہ تھی۔ اس میں جَو کے فوائد کے ساتھ ساتھ شہد کی افادیت بھی شامل ہو جاتی تھی۔ آپ اسے گرم گرم کھانے۔ بار بار کھانے اور خالی پیٹ کھانے کو زیادہ پسند کرتے تھے۔

سَتّو:


سَتّو:

نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم کو سَتّو بہت پسند تھے۔ یوں تو عرب میں سَتّو گندم سے بھی بناۓ جاتے تھے مگر آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کو جَو سے بنے سَتّو پسند تھے۔

غزواتِ نبوی صلّی اللہ علیہ وسلّم میں ایک غزووۃ السویق کے نام سے مشہور ہے۔ غزوۃ احد کے فوراً بعد ابی سفیان ۲۰۰ آدمی لے کر اس غرض کے لئے مدینہ آیا کہ وہ مقامی یہودیوں کی امداد سے مسلمانوں پر شب خون مارے گا۔ یہودی ابھی تزبزب میں تھے کہ دشمن کی آمد اطلاع بارگاہِ نبوی صلّی اللہ علیہ وسلّم میں ہوئی۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم اپنے لشکر کے ساتھ سوار ہو کر مقابلہ کو نکلے تو دشمن مقابلہ کے بغیر بھاگ گیا۔ مارے وحشت کے وہ اپنا سامان حتّٰی کہ راستے کا کھانا بھی چھوڑ گئے۔ یہ کھانا سَتّوؤں کی تھیلوں پر مشتمل تھا۔ اس طرح مسلمانوں کے ہاتھوں سَتّوؤں کی ایک مقدار آئی اور یہ غزوۃ اسی مناسبت سے غزوۃ السویق کہلایا۔

فتح خیبر کے موقعہ پر نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔ اگلے روز حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ لوگوں کو ولیمہ کی دعوت پر بلائیں۔ کچھ روایات کے مطابق ولیمہ میں کھجوریں اور اور سَتّو تھے، اور کچھ روایات کے مطابق سَتّو، کھجور اور مکھن سے حلوہ بنا کر مہمانوں کی تواضع کی گئی۔

روایات کے مطابق نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے روزہ کھولنے میں اکثر ستّوؤں کا شربت نوش فرمایا۔

نیند کے مقابلے میں کسی نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو طعنہ دیا کہ ان کے چچیرے بھائی لوگوں کو شہد، سَتّو اور دودھ پلاتے ہیں۔

ابی بردہ کہتے ہیں "میں مدینہ منّورہ میں داخل ہوا تو میری ملاقات حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ انہوں نے مجھے اپنے پاس اُترنے کی دعوت دے کر فرمایا کہ میں تمہیں اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم نے پیا اور اس مسجد میں نماز پڑھاؤں گا جس میں رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم نے نماز پڑھی۔ پس میں ان کے پاس اُتر گیا اور اُنہوں نے مجھے سَتّو اور کھجور کھلائے۔ اور میں نے اِن کی مسجد میں نماز پڑھی۔

سَتّو کے بارے میں اکیس سے زائد احادیث ہیں۔

جنگ کے موقع پر صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کا راشن ستو اور کھجور پر مشتمل رہا ہے اور اس غذا سے ان کو اتنی تقویت حاصل ہوتی تھی کہ وہ سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کے علاوہ دشمن سے مقابلہ میں جسمانی طور پر بھی برتر ثابت ہوتے تھے۔

دن بھر کے روزہ کی کمزوری کو رفع کرنے کے لئے افطاری کے لئے نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ہمیشہ سَتّو پسند فرمائے۔

حبّ الرشاد (الثفاء)


حبّ الرشاد (الثفاء)

اسے حرف بھی کہا جاتا ہے۔ یہ Lemon Grass بھی کہلاتا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابان بن صالح بن انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: "اپنے گھروں میں حبّ الرشاد، مر اور صعتر کی دھونی دیتے رہا کرو"۔

حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: "اپنے گھروں میں لوبان اور حبّ الرشاد کی دھونی دیتے رہا کرو"۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:
"تمہارے پاس حبّ الرشاد موجود ہے۔ اس میں اللہ تعا لیٰ نے ہر بیماری کی شفا رکھی ہے"۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: "کیا تم نہیں جانتے کہ کن دو کاموں میں شفا ہے۔ حب الرشاد اور صبر میں"۔

کچھ محدثین کا خیال ہے کہ یہاں صبر سے مراد مصبر ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتیں ہیں: "حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو انہوں نے صبر (مصبر) میرے آگے رکھا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کی کہ یہ صبر (مصبر) ہے اور اس میں خشبو نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ چہرے کو نکھارتا ہے۔ لیکن اسے رات کے علاوہ نہ لگانا۔ انہوں نے اسے دن کو لگانے سے منع کیا ہے"۔

مہندی (حِنا)


مہندی (حِنا)

اُمّ المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتی ہیں: "رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کو زندگی میں نہ تو ایسا کویٔ زخم ہُوا اور نہ ہی کانٹا چبھا جس پر مہندی نہ لگائی گئ ہو"۔

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے پاس جب بھی کوئی سر درد کی شکایت لے کر آیا تو آپ نے اسے پچھنے لگوانے کی ہدایت فرمائی، اور جس نے پیروں میں درد کی شکایت کی اسے مہندی لگانے کا مشورہ دیا گیا۔

ایک اور روایت کے مطابق سر درد میں بھی مہندی کا مشورہ دیا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں: "نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ یہودی اور عیسائی خضاب نہیں کرتے۔ تم ان کی مخالفت کرو"۔

عثمان بن عبد اللہ ابن موہم بیان کرتے ہیں: "میرے گھر والوں نے مجھے پانی کا پیالہ دے کر ام المومنین سلمہ رضی اللہ عنہ کےپاس بھیجا۔ اس میں نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم کے بالوں میں سے چند بال تھے۔ اگر کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی اور تکلیف ہوتی تو وہ پیالہ میں پانی ام سلمہ کو روانہ کرتا (جس میں وہ پیالی ڈبو دیتی تھیں) میں نے جھیلے میں جھانک کر دیکھا کہ وہ بال سُرخ تھے"۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک، عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور جابر رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے سر مبارک میں سفید بالوں کی تعداد بیس سے بھی کم تھی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم خضاب لگاتے تھے۔ انہوں نے فرمایا "ہاں"۔

بشیر رضی اللہ عنہ بن خصاصیہ کی بیگم جہزمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں: "میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کو گھر سے نکلتے دیکھا۔ وہ غسل کر کے تشریف لا رہے تھے۔ اس لئے اپنے سر کو جھاڑ رہے تھے۔ آپ کے سر پر مہندی کا رنگ نظر آ رہا تھا"۔

حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: "تمہارے پاس مہندی موجود ہے۔ یہ تمہارے سروں کو پر نور بناتی ہے تمہارے دلوں تو پاک کرتی ہے۔ قوتِ باہ میں اضافہ کرتی ہے اور قبر میں تمہاری گواہ ہو گی"۔

حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اپنا ہاتھ سر پر پھیرتے ہوۓ فرمایا "تمہارے لئے تمام خضابوں کی سردار مہندی ہے۔ جو کہ چہرے کو نکھارتی ہے اور قوتِ باہ میں اضافہ کرتی ہے"۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں: "مہندی لگاؤ کہ یہ جوانی کو بڑہاتی حسن میں اضافہ کرتی اور باہ کو بڑہاتی ہے۔"

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں۔ نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: "بڑھاپے کو بدلنے کی بہترین ترکیب مہندی اور وسمہ ہیں۔ مگر انہوں نے سیاہ رنگ سے نفرت فرمائی"۔

اس سے وہ وسمہ مراد نہیں جو ہمارے یہاں عام طور پر ملتا ہے۔جس سے بالوں کا رنگ بلکل سیاہ ہو جاتا ہے۔ کتم کا ایک حصّہ تین گنا مہندی میں ملا کر خضاب لگایا جاۓ تو مہندی کی سرخی گہرے بادامی رنگ میں تبدیل ہو جاتی ہی۔

ذریرہ


ذریرہ

نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم خوشبو کو پسند فرماتے تھے اور عام طور پر اس غرض کے لئے کستوری زیادہ مقبول تھی۔ ان کے ذاتی استعمال کے سرمہ میں بھی کستوری شامل ہوتی تھی اس لئے وہ اثمد المروح کہلاتا تھا۔ مگر حجۃ الوداع کے اہم موقعہ پر انہوں نے ایک درآمدی خوشبو استعمال فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتی ہیں: "میں نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم کے احرام اور داڑھی پر ذریرہ کی خوشبو لگائی"۔

دوسری روایات سے پتا چلتا ہے کہ ان کو پسا ہوا ذریرہ جسم اور احرام پر جب لگایا گیا تو اس کی سفیدی مائل ذروں کی چمک سر کی مانگ میں نظر آ رہی تھی۔

حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ذریرہ کے سفوف کو خشک خشبو کی صورت میں استعمال کیا۔ ذریرہ میں خشبو کے ساتھ اور بہت سے فوائد ہیں۔

ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما میں سے ایک محترمہ محترمہ نے روایت فرمائی ہے: "میرے پاس رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم تشریف لاۓ۔ میری انگلی پر پھنسی نکلی ہوئی تھی۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا تیرے پاس ذریرہ ہے؟ میں نے کہا۔ ہاں! انہوں نے فرمایا کہ اس پھنسی پر ذریرہ لگاؤ اور یہ دعا پڑھو: "اے اللہ تو بڑوں کو چھوٹا کرتا ہے اور چھوٹوں کو بڑا۔ میرے جو نکلا ہے تو اس کو چھوٹا کر دے۔""

زیتون


زیتون

حضرت اسید الانصاری رضی اللہ عنہ، حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "زیتون کے تیل کو کھاؤ اور اس سے جسم کی مالش کرو کہ ایک مبارک درخت سے ہے"۔

حضرت علقمہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "تمہارے لئے زیتون کا تیل موجود ہے۔ اسے کھاؤ اور بدن پر ما
لش کرو۔ کیونکہ یہ بو اسیر میں فائدہ دیتا ہے"۔

"تمہارے پاس اس مبارک درخت سے زیتون کا تیل موجود ہے۔ اس سے علاج کرو کہ یہ باسور کو ٹھیک کر دیتا ہے"۔ یہ روایت حضرت عقبہ بن عامر سے مروی ہے۔

خالد بن سعد روایت فرماتے ہیں کہ میں غالب بن ابجر کے ہمراہ مدینہ آیا۔ راستے میں غالب بن ابجر بیمار ہو گئے۔ ان کی عیادت کو ابن ابی عتیق آۓ اور بتایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے کلونجی میں شفا بتائی ہے۔ اس لئے کلونجی کے چند دانے کوٹ کر زیتون کے تیل میں ملا کر ناک کی دونوں اطراف میں لکایا جاۓ۔ ہم نے ایسا کیا تو غالب بن ابجر شفایاب ہو گئے۔

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "زیتون کا تیل کھاؤ اور اسے لگاؤ کیونکہ اس میں ستر بیماریوں سے شفا ہے جن میں سے ایک کوڑھ بھی ہے"۔

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "زیتون کا تیل کھاؤ۔ اسے لگاؤ۔ کیونکہ یہ پاک صاف اور مبارک ہے"۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ رویت فرماتے ہیں: "ہمیں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے حکم دیا کہ ہم زلت الجنب (پلسوری) کا علاج قسط البحری (قسط شیریں) اور زیتون کے تیل سے کریں"۔

حضرت زید بن ارقم روایت فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم ذات الجنب کے علاج میں ورس اور ذیتون کے تیل کی افادیت فرمایا کرتے تھے"۔

ذات الجنب کو پرانے طباء نے نمونیہ قرار دیا ہے۔ جبکہ نوعیت کے لحاض سے یہ پلسوری ہے۔ اصحاب علم بیان کرتے ہیں کہ ذات الجنب دراصل تپ دق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی کی تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پلسوری کا عمومی سبب تپ دق ہے یا اسے دق کی ایک قسم قرار دے سے سکتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: "ذیتون کے تیل سے علاج کرو۔ اسے کھاؤ اور لگاؤ۔ کیونکہ یہ ایک مبارک درخت سے ہے"۔

نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "جس نے زیتون کے تیل کی مالش کی، شیطان اس کے قریب نہ جاۓ گا"۔

نوٹ:

ذیتون کے تیل کر رات سونے سے پہلے سر میں لگانے سے شیاطین بھاگ جاتے ہیں۔ ہم نے ذیتون کے تیل سے جنات اور دیگر شیاطینی حملوں کا کامیاب علاج ہوتے دیکھا ہے۔

سرکہ (الخل)


سرکہ (الخل)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بن عبد اللہ روایت فرماتے ہیں: "نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ایک مرتبہ اپنے گھر والوں سے سالن کا پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سرکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے اسے طلب کیا اور فرمایا کہ سرکہ بہترین سالن ہے"۔

حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہ روایت فرماتی ہیں: "ہمارے پاس نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم تشریف لائے اور پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے۔ میں نے کہا نہیں! البتہ باسی روٹی اور سرکہ ہے۔ فرمایا کہ اسے لے آؤ۔ وہ گھر کبھی غریب نہیں ہو گا۔ جس میں سرکہ موجود ہے"۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتی ہیں: "رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا سرکہ بہترین سالن ہے"۔

حضرت ام سعد رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہ گھر میں موجود تھی اور انہوں نے فرمایا: "کیا تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے۔ انہوں نے کہا ہمارے پاس روٹی، کھجور اور سرکہ ہے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "بہتر سالن سرکہ ہے۔" اے اللہ! تو سرکہ میں برکت ڈال کے یہ مجھ سے پہلے نبیوں کا سالن تھا۔ اور وہ گھر غریب نہ ہو گا جس میں سرکہ موجود ہو"۔

نوٹ: آجکل جو Synthetic سرکہ دستاب ہے، ان احادیث میں اس کی بات نہیں ہو رہی۔

سرمہ (اثمد)


سرمہ (اثمد)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "تمہارے سرموں میں سب سے بہتر اثمد ہے۔ یہ بینائی کو روشن کرتا ہے۔ اور بال اُگاتا ہے"۔

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "تین چیزیں بینائی میں اضافہ کرتی ہیں، اثمد کا سرمہ، سبزے کو دیکھنا، اور خوبصورت چہروں کا دیدار"۔

حضرت عبد الرحمان بن نعمان بن معبد رضی اللہ عنہ بن ہودہ اپنے والدِ گرامی سے روایت کرتے ہیں: "رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے حکم دیا کہ اثمد کا مروج سرمہ رات سوتے وقت استعمال کیا جائے"۔ ابو عبید اس حدیث کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ مروح سے مراد وہ سرمہ ہے جس میں کستوری ملائی گئی ہو۔

سرمہ لگانے کے بارے میں سنّتِ نبوی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی کیفیت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
"نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی جس میں سے وہ ہر آنکھ میں تین مرتبہ لگایا کرتے تھے"۔ اسی عمل مبارک کی مزید تفصیلات انہی نے ایک دوسری جگہ بیان فرمائی ہے: "رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم جب سرمہ لگاتے تو دائیں آنکھ میں تٰین سلائیاں لگاتے۔ اس کی ترکیب یہ تھی کہ دائیں سے شروع کرتے اور اسی پر ختم ختم کرتے اس طرح بائیں میں دو سلائیاں پڑتیں"۔

سنا (سنامکی)


سنا (سنامکی)

حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیگم تھیں۔ آپ روایت فرماتی ہیں: "مجھ سے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے پوچھا کہ میں کونسا مسہل استعمال کرتی ہوں۔ میں نے عرض کی کہ شبرم، انہوں نے فرمایا کہ وہ تو بہت گرم ہے اس کے بعد سے میں سنا کا استعمال کرنے لگی کیونکہ انہوں نے فرمایا اگر کوئی چیز موت سے شفا دے سکتی ہوتی تو وہ سنا تھی" (ابن ماجہ)۔

حضرت عبد اللہ بن ام حزام رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ساتھ قبلتین والی نماز پڑھی۔ روایت فرماتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم سے سنا۔ وہ فرماتے تھے کہ تمہارے لئے سنا اور سنوت موجود ہیں۔ ان میں ہر بیماری سے شفا ہے سواۓ سام کے۔ میں نے پوچھا کہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم سام کیا ہے۔ فرمایا موت" (ابن ماجہ، حاکم، ابن عساکر)۔

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "شبرم گرم ہے، تمہارے لیے ٹھنڈک سنا اور سنوت میں ہے، ان میں ہر چیز کی دوا ہے، موت کے سوا" (طبری)۔

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "سنا اور سنوت میں ہر بیماری سے شفا ہے" (ابن عساکر)۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "تم جو علاج کرتے ہو ان میں سے بہترین علاج ناک میں دوائی ڈالنا، منہ میں ایک طرف دوائی ڈالنا، پچھنے لگانا اور چلنا ہے" (ترمذی)۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "تیں چیزوں می شفا ہے، سواۓ موت کے۔ سنا اور سنوت۔ پھر کہا کہ سنا کو تم جانتے ہو، سنوت کیا ہے؟ اللہ نے چاہا تو میں تمہیں بتاؤں گا۔ پھر کہا محمد صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے کہ میں تیسری چیز بھول گیا ہوں۔" (نسائی)۔

سنوت کیا ہے؟ اس بارے میں درج ذیل رائے پائی جاتی ہیں:

۱۔سنوت اصل میں ثبت ہے (ابن ابی عیلۃ)۔ یہ سونف کی طرح کے وہ دانے ہیں جن سے بچوں کے لیے گرائپ واٹر بنتا ہے۔

۲۔ سنوت وہ شہد ہے جو گھی کی مشکوں میں رکھا گیا ہو۔

۳۔ سنوت شہد اور سونف ہے۔

۴۔ جب سنا کو ایسے شہد میں ملا لیا جائے جو گھی کی مشکوں میں رکھا گیا ہوگیا ہو تو یہ سنوت ہے۔

۵۔ ابن قیم نے تو آٹھ امکانات بیان کیے ہیں۔

واللہ اعلم !!!

چہرہ کی خوبصورتی کیلئے اورچھائیوں کا علاج

چہرہ کی خوبصورتی کیلئے اورچھائیوں کا علاج
ایک چائے کا چمچہ خالص کلونجی کاتیل اور ایک کھانے کاچمچہ خالص بادام کاتیل ملاکرچہرہ پرملیں۔ایک گھنٹہ بعدصابن سے دھو لیں۔ نماز کی پابندی سے چہرہ پر نور آتا ہے روزانہ پانی کم از کم 10گلاس پئیں، 8 گلاس صحت کیلئے اور آخری 2 گلاس خوبصورتی کیلئے ہوتے ہیں۔ اپنا وزن صحیح رکھیں۔ صبح ایک گھنٹہ خوب تیز تیزپیدل چلیں، ترجیحاً گھاس پر۔
لیموں، نارنگی کا عرق اور شہد کو ملا کر صبح و شام لگائیں۔
10 گلاس پانی روزانہ پئیں ترجیحاً ہر گھنٹہ بعد ایک گلاس۔

چہرہ کے حسن کو بڑھائیے

چہرہ کے حسن کو بڑھائیے
مندرجہ ذیل پھل اور سبزیوں سے چہرہ کے حسن میں اضافہ کریں اور مہنگی کریموں اورادویہ سے چھٹکارا حاصل کریں:
پپیتا جِلد کے مردہ خلیات کا خاتمہ کرتا ہے۔ پکے ہوئے پپیتے کا گودا چہرہ پر لگا ئیے یہ جلد کو چمکا دیتا ہے۔ نارنگی کے چھلکے کودھوپ میں سکھا کر باریک پوڈر بنالیں اور اسے فیشل ماسک مکسچر کے طور پر استعمال کریں۔ یہ جلد کی خوبصورتی کے لئے اکسیر ہے۔
دہی جلد کے لئے بہترین کلینزر (Cleanser) ہے۔ جلد کو صحت مند بناتا ہے۔ چہرہ دھو کر 20 منٹ تک دہی لگائیں پھر نیم گرم پانی سے دھولیں۔ یہ عمل چکنی اور دھبے دار جلد کے لئے مفید ہے۔ بالوں میں شیمپو کرنے سے قبل دہی کو بالوں کی جڑوں میں اچھی طرح مل لیں یہ سر کی صفائی کے ساتھ بالوں کو نئی زندگی دیتاہے اور خشکی کو ختم کرتا ہے۔ شہد چہرہ کو نمی فراہم کرنے والی قدرتی چیزہے ۔
چہرہ کے داغ دھبیّ دور کرنے کے علاوہ بھی بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ چکنی جلد کے لئے انڈہ کی سفیدی میں شہد ملا کر لگائیں جبکہ خشک جلد والی خواتین دودھ کی بالائی میں شہد ملاکر لگائیں۔ جلد فائدہ ہو گا۔ بادام جلد کو چکنائی اور ملائمت فراہم کرنے کے علاوہ جھریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ آنکھوں کے قریب موجود نازک جلد کے لئے یہ بہت اہمیت کا حامل اور آنکھوں کے گرد حلقوں کو بھی ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
رات کو روزانہ7 بادام پانی میں بھگو دیں اور صبح نہار منہ چھلکا اتار کر کھا لیں۔ لیموں بھرپور قدرتی کلینزر (cleanser) کی خاصیت رکھتا ہے۔ جلد کی فطری خاصیت برقرار رکھتے ہوئے جلد کی صفائی کرتا ہے۔ یہ جلد کو شاداب رکھنے کے علاوہ تازگی بھی عطا کرتا ہے۔ مختلف اقسام کی کریم، شیمپو اور ماسک وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔ اس میں چہرہ کے داغ دھبیّ دور کرنے کی خاصیت بھی موجود ہے’انڈہ کی سفیدی میں حسن و صحت کاخزانہ بندہے یہ بہترین کلینزر کا کام کرتا ہے۔ یہ مسامات کو سکیڑتا ہے اور جلد کی افزائش کرتا ہے۔ انڈہ کی سفیدی پھینٹ کر اسے چہرہ اور گردن پر ماسک کے طورپر 20 منٹ کے لئے لگا کر پانی سے د ھو لیں۔پھینٹے ہوئے انڈہ کو آدھے گھنٹے تک شیمپو کرنے سے پہلے بالوں میں لگائیں۔ بہترین کنڈیشنر (Conditioner) ہے۔ خشک اور بے جان بالوں کے لئے ایک انڈہ پھینٹ کر2 چائے کے چمچے دہی میں ملا لیں اور ایک گھنٹہ تک بالوں میں لگائے رکھئیے۔ پھر بال دھولیں۔

Tuesday 25 November 2014

انٹی بائیؤ ٹک ادویات کے بارے انتہائی تلخ حقائق

انٹی بائیؤ ٹک ادویات کے بارے انتہائی تلخ حقائق
انٹی بائیؤ ٹک ادویات کے بارے انتہائی تلخ حقائق
برطانوی محکمہٴصحت کی چیف آفیسر نے دنیا کو آنے والےوقتوں میں اینٹی بایوٹک ادویات کے بے اثر ہوجانے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ایسی اینٹی بایوٹک ادویات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جن کے خلاف بیکٹریا نے مزاحمت پیدا کرلی ہے، اس لیے دوران علاج یہ ادویات انسانی جسم پر اپنا اثر کھوتی جا رہی ہیں۔
حکومت برطانیہ کی چیف میڈیکل افسر، ڈیم سیلی ڈیوس کے مطابق، ‘اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت اختیار کرلینے والے بیکٹریا کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا علاج نہیں کیا جاسکے گا، جو مستقبل میں اقوام عالم کے لیے ایک سنگین خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔’
ڈیوس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا کہ دنیا کو درپیش دہشت گردی کا مسئلہ اور موسمی تغیرات جیسے اہم مسائل کی طرح یہ بھی ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ کیونکہ، مستقبل میں دنیا کو دہشت گردی سے زیادہ بڑا نقصان اینٹی بایوٹک دواؤں کے بے اثر ہو جانے سے پہنچے گا۔ کئی اقسام کے انفیکشن کا علاج نہ ہونے سے دنیا میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں واقع ہو سکتی ہیں۔
ڈیوس نے مستقبل کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ،’وہ ایک ایسی صورت حال کا تصور کر رہی ہیں جب 20 برس بعد ایک معمولی آپریشن کرنے پر موت کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اعضا کی پیوندکاری جیسے بڑےآپریشن کے دوران کوئی معمولی انفیکشن مریض کی جان لے سکتا ہے، کیونکہ اس وقت زیادہ تر اینٹی بایوٹک ادویات اپنا اثر کھو چکی ہوں گی۔ اگر حکومت نے بروقت اس مسئلے کی سنگینی پر غور نہیں کیا تو مجھے ڈر ہے کہ برطانیہ ایک بار پھر سے 200 برس پرانے طب کے دور میں لوٹ جائے گا جب بیماریوں کے علاج کے لیے ادویات موجود نہیں تھیں ۔’
جبکہ اینٹی بایوٹک کے خلاف بیکٹریا کا مزاحمت اختیار کرنے کا عمل نیا نہیں ہے، یہ عمل اس وقت سے ہی شروع ہو گیا تھا جب پہلی بار اس دوا کا استعمال کیا گیا تھا۔ مگر موجودہ دور میں اینٹی بایوٹک ادویات کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ مزاحمتی بیکٹریا پیدا ہو رہے ہیں، جو کہ ایک جسم سے دوسرے جسم میں آسانی سے منتقل ہو رہے ہیں۔ اس طرح یہ ایک گھمبیر نوعیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔
اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف بیکٹریا کی (Resistance ) مزاحمت کے عمل کو اس طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔ انفیکشن کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج اینٹی بایوٹک ادویات کے ذریعے کیا جاتا ہے جب دوا بیمار جسم میں داخل ہوتی ہے تو بیماری پھیلانے والے حساس بیکٹریا کو ختم کر دیتی ہے۔ مگر تمام بیکٹریا کو مارنے میں ناکام رہتی ہے ایسے میں بچ جانے والے بیکٹریا مزاحمت اختیار کرلیتے ہیں اور زیادہ تعداد میں سارے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ لہذا، اب اس جسم میں اس دوا کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔ جبکہ، اسی اینٹی بایوٹک کا بار بار استعمال جسم میں مزاحمتی بیکٹریا کو مضبوط کردیتا ہے۔ اب یہ دوا اس بیکٹیریا کے خلاف اپنا اثر کھوتی جاتی ہے ۔ نتیجتاً بے اثر ہو جاتی ہے۔
برطانیہ میں سال 2003 ء میں صرف تین دوائیوں کے خلاف مزاحمت کے کیس سامنے آئے تھے۔ لیکن، ہیلتھ پروٹیکشن ایجنسی کی گذشتہ برس کی رپورٹ کے مطابق، ایسی اینٹی بایوٹک ادویات کی تعداد800 تک جا پہنچی جو ان مزاحمتی بیکٹریا پر اثرانداز نہیں ہو رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ، ‘ماضی میں مریضوں کو گھبرانے کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کیونکہ، طب کی دنیا میں تحقیق کا سلسلہ جاری تھا اور موٴثر اینٹی بایوٹک ادویات طب کے ہر شعبے کے لیے ایجاد ہو رہی تھیں۔ مگر، اب حالات مختلف ہیں۔ آج بہت سی اینٹی بایوٹک ادویات کا اثر زائل ہوجانے کی وجہ سے ہمیں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ نئی دواؤں کی ضرورت ہے۔ مگر، مشکل یہ ہے کہ دواساز کمپنیوں کی نظر ان کے منافع پر ہوتی ہے۔ وہ زیادہ تر لمبی اور مستقل بیماریوں، جیسے کے دل کی بیماریوں میں استعمال کی جانے والی دوائیں بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس وقت، طب کا ہر شعبہ ان ادویات پر مکمل انحصار کرتا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ ہماری طب کی دنیا میں تحقیق کی پائپ لائن مکمل سوکھ چکی ہے۔’
اس وقت بہت سی ادویات انفیکشن کے علاج کے لیے غیر موثر ہو چکی ہیں جبکہ حال یہ ہے کہ بیماروں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اگرچہ” سپر بگ ‘یا” ایم آر ایس اے ” نامی مزاحمتی بیکٹریا جو بہت سی بیماریاں پھیلانے کا باعث تھا، اس پر قابو پا لیا گیا ہےلیکن کئی دیگر اقسام کے بیکٹریا جن میں E Coli اور Kelebsiellaجیسے بیکٹریا مزاحمت اختیار کر رہے ہیں جو کہ نمونیہ کی بیماری پھیلانے کا سبب ہیں۔
اسی طرح ٹیٹرا سائکلین نامی اینٹی بایوٹک کے خلاف Gonorrhea نامی بیکٹریا 80 فیصد مزاحمت اختیار کرچکا ہے،جس سے ٹی بی جیسی بیماری پھیلنے کا خطرہ بڑھ ریا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سی ایسی بیماریاں جن پر اس وقت کچھ اینٹی بایوٹک اثر نہیں کر رہی ہیں ہم اس کا علاج متبادل اینٹی بایوٹک ادویات کے ذریعے کر رہے ہیں۔ تاہم، مستقبل قریب میں یہ صورتحال بدلنے والی ہےجب ہمارے پاس اس کمی کو پورا کرنے کے لیے نئی متبادل ادویات موجود نہیں ہوں گی۔
انھوں نے کہا کہ اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف جسم میں مزاحمت پیدا ہونے کے مسئلے کو بین الاقومی سظح پر حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ادارے، دوا سازکمپنیوں، ڈاکٹر اور مریضوں سے لے کر عام افراد کو اس مسئلے کی سنجیدگی پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ہیلتھ ایجنسی کے سربراہ پروفیسر انتھونی کیسل نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اینٹی بایوٹک ادویات کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے وائرل بیماری کے لیے بھی اینٹی بایوٹک دوا تجویز کرنے کی وجہ سے اس مسئلے کی سنگینی میں اضافہ ہوا ہے۔
اس سلسلے میں، ڈاکٹر کے کلینک اور مریض دونوں کو مکمل آگاہی کی ضرورت ہے، تاکہ وہ صرف ضرورت پڑنے پر ہی اینٹی بایوٹک دوا کا استعمال کریں۔ جو ادویات انھیں علاج کے لیے تجویز کی جارہی ہیں ان کے بارے میں اپنے معالج سے مشورہ کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ان دواؤں کو ٹھیک مقدار اور مناسب وقفے کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے، تاکہ جسم میں قوت مدافعت کمزور نہ پڑے۔

حمل ٹھہرنے کے بہترین دن۔۔۔ ؟؟

حمل ٹھہرنے کے بہترین دن۔۔۔ ؟؟
مفصل جواب !
جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے کہ پریگنسیی (حمل ) یا امید ہونے کے کون سے دن مناسب سمجھے جاتے ہیں جن کے دوران میاں بیوی کو مباشرت کرنی چاہئیے ؟۔
۔
ایک مرد کی منی اور خاتون کے انڈہ کے ملاپ سے اللہ تعالٰی سے نئی زندگی کی امید لگاتے ہیں۔
۔
میڈیکل سائنس کے مطابق عام طور پہ ۔
خواتین کو ایک ماہ میں یعنی ایام ختم ہونے کے بعد اگلی بار ایام شروع ہونے تک عام طور پہ خواتین کے جسم میں ایک بار بیضہ بنتا اور خارج ہوتا ہے۔
مرد کا مادہ منویہ یعنی اسپیرم خاتون کے اندر 3 تین سے 5 پانچ دن تک زندہ رہتا ہے ۔
جبکہ خاتون کے انڈہ کی عمر عام طور پہ 4 چارگھنٹے سے 12 بارہ گھنٹے ہوتی ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق اگر خاتون کا انڈہ اور مر د کی منی چار سے چھ گھنٹے تک ساتھ رہیں تو حمل یعنی امید کے لگنے کے لئیے یہ نہائت ہی مناسب اور تقریباً یقینی مانا جاتا ہے۔ لیکن اگر مادہ منویہ یعنی مرد کے اسپریم کے جرثومہ اور خاتون کا بیضہ اس سے کم وقت بھی ساتھ رہیں تو بھی امید یعنی پریگننسی ہونے کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔
۔
امید لگنے یا پریگننسی کے لئیے مباشرت کرنے کے مفید دن ۔
اگر ایک خاتون کے ایام 28 اٹھائیس دن کا مکمل دائرہ ہو تو 11 گیارہویں دن سے لیکر 14 چودہویں دن کے ایام میں بیضہ خاتون کے جسم میں سے خارج ہو گا۔ لیکن سو فیصد درست بتانا ممکن نہیں۔ اس لئیے ڈاکٹرز عام طور پہ میاں بیوی کے لئے خاتون کے ایام ختم ہونے کے بعد 7 ساتویں دن سے لیکر 20 بیسویں دن تک اس عرصے میں مباشرت کرنے کو امید لگنے یعنی پریگننسی ہونے کو مفید سمجھتے ہوئے ان دنوں مباشرت تجویز کرتے ہیں۔
۔
خواتین کے بیضہ کے اخراج کے دن جاننے کی علامتیں۔
ایام گزر جانے کے بعد وجائنا خشک ہو جاتی ہے۔ اور اس میں سیرویکل فلوئڈ بلکل نہیں ہوتا۔ پھر
پھر کچھ دنوں بعد وجائنا میں ایک طرح کا ربڑی سا فلوئڈ یعنی گُم کی طرح کا چپکنے والا مواد یا سیال سا ظاہر ہوتا ہے۔ پھر
پھر یہ سیال بہت زیادہ نمدار اور کریم کی طرح سفید سا ہو جاتا ہے۔ ان دنوں مباشرت پریگننسی کے لئیے مفید ہوتی ہے۔پھر ۔۔۔۔ مفید
اسکے بعد وجائنا میں یہ سیرویکل فلوئڈ ۔ مرغی کے کچے انڈے کی سفیدی کی طرح صاف اور پھسلنے والی سی ہوجاتی ہے ۔ یہ دن پریگننسی کے لئیے انتہائی مفید اور پر امید ہوتے ہیں۔۔۔۔ انتہائی مفید
بیضہ کی مدت پوری ہوجانے کے بعد وجائنا ایک بار پھر سے خشک ہوجاتی ہے ۔ یعنی اس میں سرویکل فلوئد یا سیال نہیں رہتا۔
یہ فلوئڈ چیک کرنے کے لئیے خواتین اپنے انگھوٹے اور شہادت والی انگلی کو وجائنا کے نچلے حصے میں اندر کر کے باہر نکال کر فلوئڈ چیک کرسکتیں ہیں ۔ اور اسکی رنگت اور ماہئیت سے اندازہ لگا سکتیں ہیں کہ بیضہ کا اخراج نزدیک ہے ۔
۔
میڈیکل سائنس کے مطابق ۔باڈی ٹمپریچر سے بیضہ کے اخراج کا دن جاننے کا طریقہ ۔
جس دن خواتین کا بیضہ جونہی خارج ہوتا ہے انکے جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے ۔اور امید لگنے یا پریگننسی ہونے کا وقت گزرنے کے بعد جسم کا درجہ حرارت پھر سے نارمل ہو جاتا ہے۔
اسکے لئیے ضروری ہے کہ خاتون ایک ہی تھرمامیٹر استعمال کرے جو اسکے بیڈ کے پاس ہاتھ کی پہنچ میں ہو اور خاتون کو کسی طور اسکے لئیے اٹھنا نہ پڑے اور نہ ہلنا جلنا پڑے ورنہ جسم کا درجہ حرارت ہلنے جلنے سے ہی بڑھ جائیگا اور اور مطلوبہ نتیجے کا پتہ نہیں چلے گا ۔اور لازمی ہے کہ ایک قلم اور کا غذ پہ روزانہ کا درجہ حرارت لکھا جائے ۔
تھرما میٹر ڈیجیٹل ہو یا پارہ والا مگر پورے ماہ میں ایک ہی تھرما میٹر ہو ۔ مختلف تھرما میٹرز سے درجہ حرارت کا درست پتہ نہ چلنے کا امکان رہتا ہے۔
۔
درجہ حرارت ماپنے کا طریقہ یہ ہے ۔
صبح کے وقت رو زانہ ایک ہی وقت پہ بستر سے اٹھے بغیر سب سے پہلے تھرما میٹر سے خاتون اپنا درجہ حرارت چیک کرے اور اسے روز لکھتی جائے ۔یوں ایام کے بعد سے ایام کے آنے تک لکھتی جائے ۔، اور اس چارٹ میں جس دن جسم کا درجہ حرارت اعشاریہ دو درجہ یا اس سے زائڈ بڑھا ہوا ہو تو اس دن مباشرت کرنے پریگننسی کا امکان ہوتا ہے ۔ یو ں لگاتارتین ماہ کرنے سے سے ایک خاتون کو پریگننسی کے لئیے اپنے بیضہ کے خارج ہونے کا اندازہ ہو جاتا ہے یہ طریقہ کار نہائت مفید جانا جاتا ہے ۔ اور ان دنوں میں پریگننسی کے لئیے مباشرت مفید جانی جاتی ہے ؛۔
۔
اولیشن پریڈیکٹر کٹ۔
جن خواتین کے ایام ریگولر نہیں۔ یعنی ان کے دن مقرر نہیں ان کے لئیے یوروپ اور امریکہ میں عام طور پہ ”اولیشن پریڈیکٹر کٹ “ نامی میڈیکل اسٹورز پہ دستیاب ہے ۔ یہ ایک ایک ٹیسٹ ہے جو خواتین ایام کے ختم ہونے کع بعد گیارویں دن سے گھر پہ کر سکتی ہیں ۔ اگر وہ پازٹو ہو تو اسکا مطلب یہ بنتا ہے کہ اگلے 24 چوبیس سے 36 چھتیس گھنٹے تک انکے بیضہ کے اخراج ہونے کا امکان ہے۔

حکماء قدیم کے حیرت انگیز کارنامے

حکماء قدیم کے حیرت انگیز کارنامے
خلیفہ متوکل عباسی کی ایک کنیز بیت خوبصورت تھی خلیفہ اس پر جان دیتا تھا ایک دن وہ حمام سے نکلی تو اسے کچھ سستی معلوم ہوئی اور دونوں ہاتھ اٹھا کر تن گئی لیکن جب ہاتھ نیچے کرنا چاہا تو ایسا نہ کر سکی۔دونوں ہاتھ اٹھے کے اٹھے رہ گئے خلیفہ کو یہ دیکھ سخت رنج ہوا فوراً اطباء جمع کئے گئے سب نے دیکھ یہی کہا کہ اسکا کوئی علاج نہیں ہےوزیر نے عرض کیا کہ کوفے میں ابن صاعد نام کا ایک حازق طبیب ہے جو اسکا علاج کر سکتا ہے چنانچہ ابن صاعد کو طلب کیا گیا اس نے کنیز کی جب یہ حالت تو خلیفہ سے کہا کہ یہ اچھی تو ہو جائے گی مگر ایک شرط ہے خلیفہ نے شرط پوچھی تو اس نے کہا کہ میرا ایک شاگرد ہے وہ اسکے پورے بدن پر تیل ملے گا جو میں نے خود تیار کیا ہے خلیفہ نے خفگی سے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ میری کنیز کے بدن پر کوئی غیر مرد مالش کرے ابن صاعد نے کہا کہ صرف اسی طریقے سے ہی اسکا علاج ہو سکتا ہے خلیفہ کو مجبوراً یہ شرط منظور کرنا پڑی
ابن صاعد کے حکم سے کنیز برہنہ کر دی گئی اور دفعۃً اسکے سامنے ابن صاعد کا شاگرد بلایا گیا کنیز نے جب اجنبی مرد کو دیکھا تو شرم سے پانی پانی ہو گئی رگوں میں خون نے جوش مارا اور وہ اپنے کپڑوں کی طرف دوڑی اور جلدی سے ستر پوشی کی اب اسکے ہاتھ ٹھیک ہو چکے تھے خلیفہ کو بہت خوشی ہوئی اس نے ابن صاعد کو انعام دینے کا حکم دیا مگر ابن صاعد نے کہا کہ میں اس وقت انعام لونگا جب کہ میرے شاگرد کو بھی انعام دیا جائے کیونکہ اصلی انعام کا مستحق وہی ہے خلیفہ کے بلانے پر شاگرد حاضر ہوا اسکی لمبی داڑھی کو دیکھ کر خلیفہ کو تعجب ہوا ابن صاعد نےآگے بڑھ کر شاگر کے منہ پر لگی داڑھی کو کھینچ لیا داڑھی الگ ہوگئی خلیفہ نے دیکھا کہ اب اسکے سامنے مرد نہیں عورت کھڑی ہے خلیفہ یہ جان کر بہت خوش ہوا کہ ابن صاعد نے ایک عورت کے چہرے پر مصنوعی داڑھی لگوا کر اسکی عزت رکھی ہے اور کنیز کو اجنبی مرد کے سامنے نہیں کیا ۔ ابن صاعد اور اس عورت کو خلیفہ کی طرف سے بہت سا انعام عطا کیا گیا

نبض

نبض 
علم نبض طب قدیم می بتداء ہی سے تشخیص کاروح رواں رہا ہے اور اب بھی علم نبض تشخیص کے جدید وقدیم طبی آلات ووسائل وذرائع پر فوقیت رکھتاہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نبض صرف حرکت قلب کا اظہار کرتی ہے مگر ایسا کہنا درست نہیں ،فن نبض پردسترس رکھنے والے نبض دیکھ کر مرض پہچان لیتے ہیں مریض کی علامات وحالات کوتفصیل سے بیان کردیتے ہیں ۔ 
سائنس کایہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ قو ت سے حرکت اورحرکت سے حرارت پیداہوتی ہے یہی نظام زندگی میں راوں دواں ہے نبض کے ذریعے بھی ہم مریض کے جسم میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت اس کے جسم میں قوت کی زیادتی ہے یاحرکت کی زیادتی ہے یاحرارت کی زیادتی ہے یا ان میں کس کس کی کمی ہے اسی کے تحت نبض کی باقی جنسیں بھی پرکھی جاسکتی ہیں ۔ جن کا اس مقالہ میں تفصیلاً ذکر ہو گا نبض کی حقیت کو جانچنے کے لیے اسقدر جان لینا ضرروی ہے کہ نبض روح کے ظروف وقلب وشرائین کی حرکت کانام ہے کہ نسیم کو جذب کرکے روح کو ٹھنڈک پہنچائی جائے اورفضلا ت د خانیہ کوخارج کیاجائے اس کا ہر نبضہ ( ٹھو کر یاقرع) دو حرکتوں اور دو سیکونوں سے مرکب ہوتا ہے کیونکہ ہرایک بنضہ انسباط اورانقباص سے مرکب ہوتا ہے یہ دونوں حرکتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں اور ہر دو حرکتوں کے درمیان سکون کاہوناضروری ہے۔
نبض دیکھنے کاطریقہ
طبیب اپنی چاروں انگلیاں مریض کی کلائی کے اس طرف رکھے، جس طرف کلائی کا انگوٹھا ہے، اور شہادت کی انگلی پہنچے کی ہڈی کے ساتھ نیچے کی طرف اور پھر شریان کا مشاہد ہ کریں ۔
اجناس نبض
نبض کی دس اجناس ہیں 
1۔مقدار 
2۔قرع نبض 
3۔زمانہ حرکت 
4۔قوام آلہ 
5۔زمانہ سکون 
6۔مقدارِرطوبت 
7۔شریان کی 
8۔وزنِ حرکت 
9۔استوا واختلا ف نبض 
10۔نظم نبض
مقدار
i۔طویل 
یہ وہ نبض ہے جس کی لمبائی معتدل و تندرست شخص کی نبض سے نسبتاً لمبائی میں زیادہ ہویعنی اگریہ چارانگلیوں تک یا ان سے میں بھی طویل ہوتو اسے ہم طویل نبض کہیں گے اوریادرکھیں طویل نبض حرارت کی زیادتی کوظاہر کرتی ہے اگر اس کی لمبائی دو انگلیوں تک ہی رہے تو یہ معتدل ہوگی ۔ اوریہ دوانگلیوں سے کم ہوتو یہ قیصر ہوگی اورقیصر نبض حرارت کی کمی کوظاہر کرتی ہے ۔طویل غدی نبض ہے اور قصیر اعصابی ۔ 
iiعریض 
چوڑی نبض جوکہ انگلی کے نصف پور سے زیادہ ہورطوبت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جوکہ نصف پور ہو معتدل ہوگی اورجس کی چوڑائی نصف پور سے کم ہوگی رطوبت کی کمی کا اظہار کرے گی ۔تنگ نبض کو ضیق کہا جاتا ہے ۔عریض نبض اعصابی ہو گی اور ضیق نبض غدی ہو گی ۔ 
iiiشرف (بلند) 
جونبض بلندی میں زیادہ محسوس ہوایسی نبض حرکت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جودرمیان میںہوگی معتدل اورجو نبض نیچی ہوگی اسے منحفض کہتے ہیں ۔ یہ حرکت کی کمی پر دلالت کرتی ہے۔ 
چاروں انگلیوں کو نبض پر آہستہ سے رکھیں یعنی دبائو نہ ڈالیں ۔ اگر نبض انگلیوں کوبلا دبائو چھونے لگے توایسی نبض مشرف ہوگی اوراگر نبض محسوس نہ ہوتو پھر انگلیوں کو دباتے جائیں اورجائزہ لیتے جائیں اگرنبض درمیان میں محسوس ہوتو یہ معتدل ہوگی اوراگرانگلیاں کلائی پردبانے سے نبض کا احساس کلائی کی ہڈی کے پاس اخیر میں جاکر ہوتو یہ نبض منخفض ہے جوکہ حرکت کی کمی کا اظہارکرتی ہے مشرف نبض عضلاتی اورمنخفض اعصابی ہوگی۔
قرغ نبض -- ٹھوکر نبض
اس میں نبض کی ٹھوکر کوجانچا جاتا ہے چاروں انگلیاں نبض پر رکھ کر غور کریں آہستہ آہستہ انگلیوں کودبائیں اگرنبض انگلیوں کوسختی سے اوپرکی طرف دھکیل رہی ہے توایسی نبض قوی کہلاتی ہے یعنی ذرا زور سے ٹھوکر لگانے والی نبض ہی قوی ہے یہ نبض قوت حیوانی کے قوی ہونے کوظاہر کرتی ہے اوراگر یہ دبائو درمیانہ سا ہو تومعتدل ہوگی ۔اورجونبض دبانے سے آسانی کے ساتھ دب جائے تویہ نبض ضعیف کہلاتی ہے یعنی قوت حیوانی میں صغف کا اظہار ہے قوی عضلاتی ہوگی اورضعیف اگرعریض بھی ہوتو اعصابی ہوگی اورضیق ہوتو غدی ہوگی۔
زمانہ حرکت
اس کی بھی تین ہی اقسام ہیں سریع ۔ متعدل ۔ بطی ۔ 
سریع نبض وہ ہوتی ہے جس کی حرکت تھوڑی مدت میں ختم ہوجاتی ہے یہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ قلب کو سوئے سردنسیم یعنی اوکسیجن بہت حاجت ہے جسم میں دخان (کاربانک ایسڈ گیس ) کی زیادتی ہے۔ 
اگر بطی ہے صاف ظاہر ہے کہ قلب کو ہوائے سرد کی حاجت نہیں۔ سریع یعنی تیزتر نبض عضلاتی ہوتی ہے اوربطی(سست) نبض اگرعریض ہوگی تواعصابی ہوگی اورضیق ہوگی توغدی ہوگی بطی سے مراد نبض کی سستی ہے۔
قوام آلہ -- شریان کی سختی ونرمی
اسے بھی تین اقسام میں بیان کیاگیاہے صلب ، معتدل اورلین ، 
صلب وہ نبض ہے جسکو انگلیوں سے دبانے میں سختی کااظہار ہویہ بدن کی خشکی کودلالت کرتی ہے ایسی نبض ہمیشہ عضلاتی ہوتی ہے۔ 
لین نبض صلب کے مخالف ہوتی ہے یعنی نرم ہوتی ہے ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پردلالت کرتی ہے یعنی ایسی نبض اعصابی ہوگی ۔ 
اورمعتدل اعتدل رطوبت کا اظہار ہے۔
زمانہ سکون
اس کو بھی تین اقسام میں بیان کیاجاتا ہے متواتر ، تفاوت، معتدل ۔ 
متواترنبض وہ ہے جس میں وہ زمانہ تھوڑا ہوجو دو ٹھوکروں کے درمیان محسوس ہوتاہے ۔ یہ نبض قوت حیوانی کے ضعف کی دلیل ہے قوت حیوانی میں ضعف یاتوحرارت کی زیادتی کی وجہ سے ہوگا یاپھر رطوبت کی زیادتی سے ہوگا۔عموماً ایسی نبض اگر ضیق ہو تَو غدی ہوگی یاپھر اگرعریض ہو تَواعصابی بھی ہوسکتی ہے ۔ 
نبض دیکھتے وقت اس بات کوخاص طور پر مدنظر رکھیں کہ کتنی دیر کے بعدٹھوکر آکرانگلیوں کو لگتی ہے اورپھر دوسری ٹھوکر کے بعد درمیانی وقفہ کومدنظررکھیں ۔ پس یہی زمانہ سکون ایسازمانہ ہے کہ جس میں شر یان کی حرکت بہت کم محسوس ہوبلکہ بعض اوقات اسکی حرکت محسوس ہی نہیں ہوتی اورایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبض انگلیوں کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے۔
مقدارِ رطوبت
نبض پرانگلیاں رکھ کر جانچنے کی کوشش کریں اس کی صورت یہ ہوگی جیساکہ پانی سے بھری ہوئی ٹیوب کے اند رپانی کی مقدار کااندازہ لگایاجائے کہ ٹیوب کے اند ر پانی اس کے جوف کے اندازے سے زیادہ ہے یاکم بالکل اسی طرح نبض ضرورت سے زیادہ پھولی ہوگی اوردبانے سے اس کا اندازہ پوری طرح ہوسکے گا اگر ممتلی ہوتو اس میں ضرورت سے زیادہ خون اورروح ہوگی جوکہ صحت کے لئے مضرہے اسی طرح اگرنبض خالی ہوگی توخون اورروح کی کمی کی علامت ہے کمزوری کی دلیل ہے اس لئے ممتلی یعنی خون و روح سے بھری ہوئی نبض عضلاتی ہوگی خالی ممتلی کے متضاد ہوگی جوکہ اعصابی ہوگی ۔
شریان کی کیفیت
نبض کی اس قسم سے جسم کی حرارت وبرودت (گرمی وسردی )کوپرکھا جاتاہے اس کوجانچنا بہت آسان ہے اگرنبض چھونے سے حرارت زیادہ محسوس ہوتویہ نبض حارہوگی، گرمی پر دلالت کریگی اورگرم نبض عموماً طویل اور ضیق بھی ہوتی ہے ۔ اگرنبض پرہاتھ رکھنے سے مریض کاجسم سرد محسوس ہوتویہ نبض باردہوگی جوکہ اعصابی عضلاتی کی دلیل ہے۔
وزن حرکت
یہ نبض حرکت کے وزن کے اعتبارسے ہے جس سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ نبض کازمانہ حرکت اورزمانہ سکون مساوی ہے۔ 
اگریہ زمانہ سکون مساوی ہے تو نبض انقباص وانسباط(پھیلنا اورسکٹرنا)کے لحاظ سے حالت معتدل میں ہوگی اسے جیدالوزن کہاجاتا ہے 
ایسی نبض جسکا انقباض وانسباط مساوی نہ ہوبلکہ دونوں میں کمی بیشی پائی جائے یہ نبض صحت کی خرابی کی دلیل ہے۔ اگر دل میںیہ سکیڑ دل کی شریانوں کی بندش کی وجہ سے ہوتو ایسی نبض عضلاتی ہوگی ۔اگریہ ضعف قلب کی وجہ سے ہے توایسی نبض غدی ہوگی اوراگریہ تسکین قلب کی وجہ سے ہے توایسی نبض اعصابی ہوگی۔ ان باتوں کومدنظر رکھنا طبیب کی مہارت ہے۔ ایسی نبض کوخارج الوزن کانام دیا گیا ہے۔ 
اگر نبض عمرکے مطابق اپنی حرکت وسکون کے وقت کوصحیح ظاہر نہ کرے یعنی بچے ، جوان ،بوڑھے کی نبض کے اوزان ان کی اپنی عمر کے مطابق نہ ہوں تویہ ردی الوزن کہلائے گی۔ اس میں نبض کی انقباضی اورانبساطی صورت کوجانچا جاتاہے۔ نبض جب پھیلے تواس کوحرکت انسباطی کہتے ہیں اورجب اپنے اند ر سکڑے تواسے حرکت انقباص کہتے ہیں ۔ان دونوں کے زمانوں کافرق ہی اسکا وزن کہلاتاہے۔ 
ایسی نبض پرکھتے وقت عمر کوخاص طور پرمدنظر رکھیں ایسی نبض کوحتمی نبض قرار دینے کے لئے نبض کی دیگراقسام کے مدنظر حکم لگائیں۔
استوا واختلاف نبض
اسکی صرف دوہی اقسام ہیں مستوی اورمختلف ۔ 
مستوی نبض وہ ہے جس کی تمام اجزاء تمام باتوں میں باقی نبض کے مشابہ ہوں یہ نبض بدن کی اچھی حالت ہونے کی علامت ہے ۔ 
نبض مختلف وہ نبض ہے جومستوی کے مخالف ہواوراس کے برعکس پردلالت کرے ۔
جانچنے کے لئے نبض پرہاتھ رکھیں جس قدر نبض کی اجناس اوپر بیان کی گئی ہیں کیا یہ ان کے اعتبار سے معتدل ہے اگران میں ربط قائم ہے اورمعتدل حیثیت رکھتی ہیں تووہ مستوی ہے ورنہ مختلف۔
مرکب نبض کی اقسام
تعریف 
مرکب نبض اس نبض کو کہتے ہیں جس میں چند مفرد نبضیں مل کرایک حالت پیداکردیں۔ اس سلسلہ میں اطباء نے نبض کی چند مرکب صورتیں بیان کی ہیں ، جن سے جسم انسان کی بعض حالتوں پر خاص طورپر روشنی پڑتی ہے اورخاص امراض میں نبض کی جومرکب کیفیت پیدا ہوتی ہے، ان کااظہارہوتا ہے۔ ان کافائدہ یہ ہے کہ ایک معالج آسانی کے ساتھ متقدمین اطباء اکرام کے تجربات ومشاہدات سے مستفید ہوسکتاہے ۔ 
وہ چندمرکب نبضیں درج ذیل ہیں 
1۔ نبض عظیم 
وہ نبض جوطول وعرض وشرف میں زیادہ ہوایسی نبض قوت کی زیادتی کااظہار کرتی ہے اسے ہم عضلاتی یاوموی کہیں گے جونبض تینوں اعتبارسے صغیر ہوگی وہ قوت کی کمی کااظہا ر ہے اوروہ اعصابی نبض ہوگی۔ 
2۔ نبض غلیظ 
غلیظ وہ نبض ہے جوصرف چوڑائی اوربلندی میں زیادہ ہوایسی نبض عضلاتی اعصابی ہوگی۔ 
3۔نبض غزالی 
وہ نبض ہے جوانگلی کے پوروں کوایک ٹھوکر لگانے کے بعد دوسری ٹھوکر ایسی جلدی لگائے کہ اس کا لوٹنا اورسکون کرنا محسوس نہ ہو یہ نبض اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ترویج نسیم کی جسم میں زیادہ ضرورت ہے۔ غزالی کے معنی بچہ ہرن ہیں۔ یہاں اس کی مشابہت چال کی تیزی کی وجہ سے دی گئی ہے ایسی نبض عضلاتی ہوگی۔ 
4۔موجی نبض 
ایسی نبض جس میں شریانوں کے اجزاء باوجودہونے کے مختلف ہوتے ہیں کہیں سے عظیم کہیں سے صغیر کہیں سے بلند اورکہیں سے پست کہیں سے چوڑی اورکہیں سے تنگ گویا اس میں موجیں (لہریں) پیدا ہورہی ہیں جوایک دوسرے کے پیچھے آرہی ہیں ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پردلالت کرتی ہے قانون مفر د اعضا ء میں ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی۔ 
5نبض دودی 
)کیڑے کی رفتار کی مانند ) یہ نبض بلندی میں نبض موجی کے مانند ہوتی ہے لیکن عریض اورممتلی نہیں ہوتی یہ نبض موجی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس کی موجیں ضعیف ہوتی ہیں گویااس کے خلاف صغیر ہوتی ہے ایسی نبض قوت کے ساقط ہونے پردلالت کرتی ہے لیکن سقو ط قوت پورے طورپرنہیں ہوتا اس نبض کودودی اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حرکت میں اس کیڑے کے مشابہ ہوتی ہے جس کے بہت سے پائوں ہوتے ہیں ایسی نبض غدی اعصابی ہوگی بوجہ تحلیل نبض میں ضعف پیداہوتاہے۔ 
6نبض ممتلی 
یہ وہ نبض ہے جونہایت ہی صغیر اورمتواتر ہوتی ہے ایسی نبض اکثر قوت کے کامل طور پرساخط کے ہوجانے اورقربت الموت کے وقت ہوتی ہے یہ نبض دودی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس سے زیادہ صغیر اورمتواتر ہوتی ہے یہ اعصابی غدی کی انتہائی صورت ہوگی۔ 
7۔نبض منشاری 
(آرے کے دندانوں کی مانند) 
یہ وہ نبض ہے جوبہت مشرف ،صلب،متواتراورسریع ہوتی ہے اسکی ٹھوکر اوربلندی میں اختلاف ہوتاہے یعنی بعض اجزا سختی سے ٹھوکر لگاتے ہیں بعض نرمی سے اوربعض زیادہ بلندہوتے ہیں اوربعض پست گویا ایسامحسوس ہوتاہے کہ اس نبض کے بعض اجزاء نیچے اترتے وقت بعض انگلیوں کوٹھوکر ماردیتے ہیں ۔یعنی ایک پورے کوجس بلندی سے ٹھوکر لگاتے ہیں اس سے کم دوسرے پورے کو یہ نبض اس امر کوظاہر کرتی ہے کہ کسی عضومیں ورم پیدا ہوگیا ہے خاص طور پر پھیپھڑوں اورعضلات میں صاف ظاہر ہے کہ یہ عضلاتی اعصابی تحریک کی بگڑی ہوئی نبض ہے ۔ 
نبض ذنب الفار،نبض ذولفترہ ،نبض واقع فی الوسط،نبض مسلی ،مرتعش اورملتوی وغیرہ بھی بیان کی جاتی ہیں، جن سے کسی مزاج کی واضح پہچان مشکل ہے، اس لئے ان کوچھوڑدیاگیاہے۔طبِ قدیم کے تحت نبض کا بیان صرف اس لئے لکھ دیا ہے کہ طبِ قدیم کے اطبا ء بھی اس سے استفا دہ کر سکیں ۔ ساتھ ساتھ تجدیدِ طب کے مطا بق ان کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے کہ تجدیدِ طب کے بھی اس سے مستفیض ہو سکیں ۔ 
نبض کے با رے تجدیدِ طب کی رہنما ئی مکمل اور کا فی ہے ۔ مجددطب حکیم انقلاب نے علم النبض پر بھی انتہائی محنت کے ساتھ تجدید کی اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں نبض کوانتہائی آسان کرتے ہوئے اسے بھی اعضائے ریئسہ دل ودماغ وجگر کے ساتھ مخصوص کردیا جوکہ فنِ طب میں ایک بہت بڑا کمال و انقلاب ہے۔ اس اعتبار سے قانون مفرداعضا میں مفردنبض کی اقسام صرف تین ہیں، جنہیں اعصابی نبض ،عضلاتی نبض،اورغدی نبض سے موسوم کیاگیا ہے۔ پھرہر ایک مرکب نبض کی اقسام کوانہیںاعضاء رئیسہ کے باہمی تعلق کے مدنظر چھ(۶)اقسام میں تقسیم کردیاہے،جوکہ بالترتیب درج ذیل مقرر ہیں 
1۔اعصابی عضلاتی 2۔عضلاتی اعصابی 
3۔عضلاتی غدی 4۔غدی عضلاتی 
5۔غدی اعصابی 6۔اعصابی غدی 
اب پہلے مفردنبض کی شناخت ووضاحت کوبیان کیاجاتاہے۔
اعصابی نبض
ایسی نبض جوقیصر ہومنخفض ہو،عریض ہو،لین ہو، بطی ہو اعصابی کہلاتی ہے ۔ انگلیوں کوزورسے دبانے سے کلائی کے پاس محسوس ہوگی۔ یہ جسم میں بلغم اور رطوبت کی زیادتی کی علامت ہوگی۔
عضلاتی نبض
جب ہاتھ مریض کی کلائی پر آہستہ سے رکھا جائے، نبض اوپرہی بلندی پرمحسوس ہو، ساتھ ہی ساتھ صلب ہو اورسریع ہو اورقوی ہوتوایسی نبض عضلاتی نبض کہلاتی ہے۔ ایسی نبض جسم میں خشکی ،ریاح ،سوداوربواسیری زہرکااظہار کرتی ہے ۔
غدی نبض
مریض کی نبض پرہاتھ رکھیں اورآہستہ آہستہ انگلیوں کردباتے جائیں۔ اگرنبض درمیاں میں واقع ہوتویہ غدی نبض ہوگی۔ ایسی نبض طویل ہوگی ،ضیق ہوگی۔یہ جسم میں حرارت اورصفراء کی زیادتی کا اظہار ہے۔ حرار ت سے جسم میں لاغری وکمزوری کی علامات ہوں گی ۔یادرکھیں ،جب طویل نبض مشر ف بھی اورقوی بھی ہوتوعضلاتی ہوگی۔ 
خصوصی نوٹ 
نبض بالکل اوپربلندی پرعضلاتی ،بالکل کلائی کے پاس پست اعصابی اور درمیان میں غدی ہوگی۔ 
مرکب نبض 
قانون مفرد اعصا میں مرکب نبض کو چھ تحاریک کے ساتھ مخصوص کردیاگیاہے جو کہ درج ذیل ہیں
1. اعصابی عضلاتی
جو نبض پہلی انگلی کے نیچے حرکت کرے اورباقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے ، اعصابی عضلاتی ہوگی۔یہ نبض گہرائی میں ہوگی ۔بعض اوقات فقرالدم کی وجہ سے دل بے چین ہو تو تیزی سے حرکت کرتی محسوس ہوگی مگردبانے سے فوراََدب جائے گی جیسا کہ نبض میں حرکت ہے ہی نہیں۔ عام حالات میں اعصابی عضلاتی نبض سست ہوتی ہے ۔ 
اس کی تشخیصی علامات یہ ہیں ـ ـ 
منہ کاذائقہ پھیکا ،جسم پھولا ہوا ہونا شہوت کم ،دل کاڈوبنا ،رطوبت کا کثرت سے اخراج ،پیشاب زیادہ آنا اور اس کارنگ سفید ہونا ،ناخنوں کی سفیدی اہم علامات ہیں۔
2. ضلاتی اعصابی
اگر نبض پہلی اوردوسری انگلی کے نیچے حرکت کرے اور باقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے تو یہ نبض عضلاتی اعصابی ہوگی ۔مقامی طورپر مشرف ہوگی قدرے موٹائی میں ہوگی۔ ریاح سے پرہونے کی وجہ سے ذرا تیز بھی ہوگی ۔ رطوبت کااثر اگرباقی ہوتو سست وعریض بھی ہوسکتی ہے۔ 
تشخیصی علامات 
چہرہ سیاہی مائل اور اس پرداغ دھبے ،چہرہ پچکا ہوا،اگر کولسٹرول بڑھ گیا تو جسم پھولا ہوا کاربن کی زیادتی ،ترش ڈکار ،جسم میں ریاح اور خشکی و سردی پائی جائے گی۔
3. عضلاتی غدی
اگر نبض پہلی دوسری اورتیسری انگلی تک حرکت کرے اور چوتھی انگلی کے نیچے حرکت نہ کرے تویہ نبص عضلاتی غدی ہوگی۔مشرف ہوگی یعنی مقامی طوپر بالکل اوپر ہوگی۔ حرکت میں تیز اورتنی ہوئی ہوگی۔ یاررکھیں نبض، اگرچہ چار انگلیوں تک بھی حرکت کرے، اگروہ ساتھ ساتھ صلب بھی ہواورمشرف وسریع بھی ہوتو عضلاتی غدی شدید ہوں۔ 
تشخیصی علامات 
عضلات وقلب میں سکیٹر ،فشار الدم ،ریاح کا غلبہ ،اختلاج قلب ،جسم کی رنگت سرخی مائل جسم وجلد پر خشکی اورنیند کی کمی ہوگی۔
4. غدی عضلاتی
اگرنبض چارانگلیوں تک حرکت کرے لیکن وہ مقامی طورپرمشرف اورمنحفض کے درمیان واقع ہو ضیق بھی ہوتوایسی نبض غدی عضلاتی ہوتی ہے۔ 
تشخیصی علامات 
جسم زرد ،پیلا ،ڈھیلا ۔ہاتھ پائوں چہرے پرورم۔یرقان،پیشاب میں جلن ، جگروغدداورغشائے مخاطی میں پہلے سوزش وورم اور بالا خر سکیٹرشروع ہوجانا۔
5. غدی اعصابی
اگرمقامی طورپرغدی نبض کا رجوع منخفض کی طرف ہوجائے تویہ غدی اعصابی ہوگی یہ نبض رطوبت کی وجہ سے غدی عضلاتی سے قدرے موٹی ہوگی اور سست ہوگی۔ 
تشخیصی علامات 
جگرکی مشینی تحریک ہے۔ آنتوں میں مڑور،پیچش ،پیشا ب میں جلن،عسرالطمت ، نلوں میں درد،بلڈپریشراورخفقان وغیرہ کی علامات ہوںگی۔
6. اعصابی غدی
اگرنبض منخفض ہوجائے،عریض ہوجائے، قصیر ہوجائے تو ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی انتہائی دبانے سے ملے گی ۔ 
تشخیصی علامات 
جسم پھولا ہوا،چربی کی کثرت ،بار بارپیشاب کاآنا۔ 
بعض اطباء نے ہرنبض کے ساتھ علامات کی بڑی طویل فہرست لکھ کردی ہے جسکی کہ ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے قانون مفرد اعضاء میں تو ہر تحریک کی جداگانہ علامات کو سرسے لیکر پائوں تک وضاحت وتفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیاہے مثلاََجس طبیب کو اعصابی عضلاتی علامات معلوم ہیں تووہ بخوبی جانتاہے کہ اعصابی عضلاتی نبض کی کیا کیا علامات ہیں اسی طرح دیگر تمام تحاریک کی نبض سے علامات کی تطبیق خود بخود پیدا ہوگئی ہے ۔ان کا یہاں پہ بیان کر نا ایک تو طوالت کا باعث ہوگا ۔اوردوسر ا نفس مضمون سے دوری کاباعث ہوگا ۔
مرداور عورت کی نبض میں فرق
عورت کی نبض کبھی عضلاتی نہیں ہوتی کیونکہ عضلاتی نبض سے خصیتہ الرحم میں اور دیگر غدو میںسکون ہوکر جسم اوربچے کو مکمل غذا نہیں ملتی اگرعورت کی نبض عضلاتی ہوجائے تو اس کو یاحمل ہوگا یااس میں مرد انہ اوصاف پید اہوجائیں گے جیسے آج کل کی تہذیب میں لڑکیاں گیند بلا وغیرہ کھیلتی ہیں یا اس قسم کے دیگر کھیل کھیلتی ہیں یاجن میں شرم وحیاء کم ہوجاتاہے ۔ اس طرح جن عورتوں کے رحم میں رسولی ہوتی ہے ان کی نبض بھی عضلاتی ہوجاتی ہے اورورم کی نبض کا عضلاتی ہونا ضروری ہے۔ )ماہنامہ رجسٹریشن فرنٹ مارچ۱۹۷۰؁ء صفحہ نمبر۹تا۱۰(
اہمیت نبض
جولوگ نبض شناسی سے آگاہ ہیں اور پوری دسترس رکھتے ہیں ان کے لیے نبض دیکھ کر امراض کابیا ن کردینا بلکہ ان کی تفصیلات کاظاہر کردینا کوئی مشکل بات نہیں ۔ ایک نبض شناس معالج نہ صرف اس فن پرپوری دسترس حاصل کرلیتا ہے بلکہ وہ بڑی عزت ووقار کا مالک بن جاتاہے یہ کہنا سراسرغلط ہے کہ نبض سے صرف قلب کی حرکا ت ہی کا پتہ چلتاہے بلکہ اس میں خون کے دبائو خون کی رطوبت اورخون کی حرارت کا بھی علم ہوتا ہے ہرحال میں دل کی حرکات بدل جاتی ہیں جس کے ساتھ نبض کی حرکات اس کے جسم اور اس کے مقام میں بھی تبدیلیاں واقع ہوجاتی ہیں جس سے انسانی جسم کے حالات پر حکم لگایا جاسکتاہے۔
راز کی بات
دل ایک عضلاتی عضو ہے مگر اس پردوعددپردے چڑھے ہوئے ہیں دل کے اوپرکا پردہ غشائے مخاطی اور غدی ہے اوراس کے اوپربلغمی اوراعصابی پردہ ہوتاہے۔جوشریانیں دل اوراس کے دونوں پردوںکو غذا پہنچاتی ہیں ۔ان میں تحریک یاسوزش سے تیزی آجاتی ہے جس کا اثر حرکات قلب اور فعال شرائین پر پڑتاہے جس سے ان میں خون کے دبائو خون کی رطوبت اور خون کی حرارت میں کمی بیشی ظاہر ہوجاتی ہے۔ 
یہ راز اچھی طرح ذہین نشین کرلیں کہ
1. شریان میں خون کا دبائو قلب کی تحریک سے پید اہوتا ہے جو اس کی ذاتی اور عضلاتی تحریک ہے۔
2. خون کی رطوبت میں زیادتی دل کے بلغمی اعصابی پردے میں تحریک سے ہوتی ہے ۔
3. خون کی حرارت قلب کے غشائی غدی پردے میں تحریک سے پید اہوتی ہے اس طرح دل کے ساتھ اعصاب ودماغ اورجگر وغددکے افعال کاعلم ہوجاتا ہے ۔
یہ وہ راز ہے جس کو دنیائے طب میں حکیم انقلاب نے پہلی بارظاہر کیا۔ اس سے نبض کے علم میں بے انتہا آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔
تشخیص کے چند اہم نکات
(۱)حرکات جسم کی زیادتی سے تکلیف 
جسم کے بعض امراض وعلامات میں ذرا بھی اِدھر اُدھر حرکت کی جائے توان میں تکلیف پیداہوجاتی ہے یاشد ت ہوجاتی ہے ایسی صورت میں عضلات وقلب میں سوزش ہوتی ہے حرکت سے جسم میں خشکی پیدا ہوتی ہے۔ 
(۲)آرام کی صورت میں تکلیف 
جب آرام کیاجائے توتکلیف جسم بڑھ جاتی ہے اورطبیعت حرکت کرنے سے آرام پاتی ہے ایسی صورت میں اعصاب ودماغ میں سوزش وتیزی ہوتی ہے۔آرام سے جسم میں رطوبت کی زیادتی ہوجاتی ہے 
(تحقیات الامراض والعلامات صفحہ نمبر۱۱۱تا۱۱۲) 
(۳)خون آنا 
اگرمعدے سے لے کراوپرکی طرف سرتک کسی مخرج سے خارج ہوتویہ عضلاتی اعصابی تحریک ہوگی اوراگرجگر سے لے کرپائوں تک کسی مخرج یامجریٰ سے خارج ہوتویہ عضلاتی غدی تحریک ہوگی ۔
ضرور ی نوٹ
تشخیص الامراض میں عضلاتی اعصابی اورعضلاتی غدی یاغدی عضلاتی اورغدی اعصابی وغیرہ تحریکات میں فرق اگروقتی طور پرمعلوم نہ ہوسکے توکسی قسم کافکر کئے بغیر اصول علاج کے تحت عضو مسکن میں تحریک پیداکردینا کافی وشافی ویقینی علاج ہے۔
تشخیص کی مروجہ خامیاں
طب یونانی وطب اسلامی میںتشخیص کاپیمانہ نبض وقارورہ ہے ملک بھر کے لاکھوںمطب کا چکر لگالیں گنتی کے چند مطب ملیں گے جن کو چلانے والے اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اورنہ ہی یہ علم اب طبیہ کالجوںمیں پوری توجہ سے پڑھا یاجاتا ہے شاید ہی ملک کا کوئی طبی ادارہ نبض وقارورہ سے اعضاء کے غیر طبعی افعال اور اخلاط کی کمی بیشی کی پہچان پردسترس کی تعلیم دیتا ہو ۔اب تک تو طب یونانی کا ایسا کوئی ادارہ دیکھا نہیں ،دیکھنے کی خواہش ضرور ہے۔اعتراف ِحقیقت بھی حسن اخلاق کی اصل ہے قانون مفر د اعضاء کے اداروں سے تعلیم وتربیت یافتہ اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص پر کافی حدتک دسترس رکھتے ہیں۔ 
اس طرح مذاکرہ ،دال تعرف ماتقدم جوکہ مریض و معالج میں اعتماد کی روح رواں ہیں مگر اس دور کے معالجین ان حقائق سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتے۔ مریض نے جس علامت کا نام لیا اسی کو مرض قرار دے کر بنے بنائے مجربات کا بنڈل اس کے ہاتھ میں تھما دیاجاتا ہے۔ 
اگرکوئی ادارہ تشخیص کا دعویٰ بھی کرتاہے اس کی تشخیص کا جوانداز ہے، ا س پربھی ذرا غور کریں۔ تمام طریقہ بائے علاج میں پیٹ میں نفخ ہو یا قے ،بھوک کی شدت ہو یا بھوک بند ،تبخیرہویا ہچکی بس یہی کہا جائے گا کہ پیٹ میں خرابی ہے ان علامات میں اعضائے غذایہ کی بہت کم تشخیص کی جائے گی۔ اگر کسی اہل فن نے پیٹ کی خرابی میں معدہ ،امعاء ،جگر،طحال اور لبلبہ کی تشخیص کربھی لی تو اس کو بہت بڑا کمال خیال کیاجائے گا۔لیکن اس امر کی طرف کسی کادھیان نہیں جائے گا کہ معدہ امعاء وغیرہ خودمرکب اعضاء ہیں اور ان میں بھی اپنی جگہ پرعضلات ، اعصاب اور غددواقع ہیں مگر یہاں پربھی صرف معدہ کومریض کہا جاتا ہے جو ایک مرکب عضوہے ۔یہاں پر بھی معدہ کے مفرد اعضاء کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا حالانکہ معدہ کے ہر مفرد عضو کی علاما ت بالکل مختلف اور جدا جدا ہیں مگر تشخیص ہے کہ کلی عضو کی کی جارہی ہے اورعلاج بھی کلی طور پر معد ہ کا کیا جارہا ہے نتیجہ اکثر صفر نکلتا ہے ناکام ہوکر نئی مرض ایجاد کردی جاتی ہے ایک نئی مرض معلوم کرنے کا کارنامہ شما ر کرلیا جاتاہے۔ 
فاعلم، جب معدہ کے اعصاب میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی صورتیں اورعلامات معدہ کے عضلات کی سوزشوں سے بالکل جد اہوتی ہیں اسی طرح جب معدہ کے غدو میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی علامات ان دونوں مفرد اعضاء کی سوزشوں سے بالکل الگ الگ ہوتی ہیں پھر سب کو صرف معدہ کی سوزش شمار کرنا تشخیص اور علاج میں کسی قدر الجھنیں پیداکردیتا ہے یہی وجہ ہے کہ یورپ ،امریکہ کو بھی علاج میں ناکامیاں ہوتی ہیں اوروہ پریشان اور بے چین ہیں اوراس وقت تک ہمیشہ ناکام رہیں گے جب تک کہ علاج اور امراض میں کسی مرکب عضو کی بجائے مفرد عضو کو سامنے نہیں رکھیں گے ۔امراض میں مفرد اعضاء کو مدنظر رکھنا مجد دطب حکیم انقلاب المعالج دوست محمد صابر ملتانی کی جدید تحقیق اور عالمگیر کارنامہ ہے مجدد طب کا یہ نظریہ مفرد اعضا ء (Simple organ theory) فطر ت اور قانون قدرت سے مطابقت رکھتا ہے۔ 
اس سے نہ صرف تشخیص میں آسانیاں پید اہوگئی ہیں بلکہ ہر مرض کا علاج یقینی صورت میں سامنے آگیاہے۔ اس کاسب سے بڑ ا فائدہ یہ ہے کہ مرکب عضومیں جس قدر امراض پیداہوتے ہیں ان کی جدا جد اصورتیں سامنے آجاتی ہیں۔ ہرصورت میں ایک دوسرے سے ان کی علامات جدا ہیں ،جن سے فوراََ یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اس عضو کا کون سا حصہ بیمارہے پھر صرف اسی حصہ کا آسانی سے علاج ہوسکتا ہے۔ 
اب ٹی بی ہی کو لیجئے کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے یہ تو اصل بیماری کی ایک علامت ہے ۔انسان میں آخرکونسا پرزہ خراب ہے جب معالج کو پتہ تک ہی نہیں کہ کون سا پرزہ خراب ہے توہ کیسے ٹھیک کرے گا انسانی جسم بھی تو ایک مشین ہے اس میں بھی تو پرزے ہیں جب یہ مشین خراب ہوتی ہے تودراصل کوئی پرزہ ہی توخراب ہوجاتاہے اسی طرح شوگر ،بلڈپریشر وغیرہ کوئی امراض نہیں بلکہ کسی نہ کسی پرزے کی خرابی کی علامات ہیں ۔ اس لئے صحیح اور کامیاب معالج وہی ہوگا جوصرف علامات کی بنیا دپر علاج کرنے کی بجائے اجزائے خون ،دوران خون اور افعال الاعضاء کے بگاڑ کو سمجھ کر تشخیص وعلاج کرے گا ۔ اس کی ایک دوائی ہی سرسے لے کر پائوں تک کی تکلیف دہ علامات کو ختم کردے گی۔ انشاء اللہ