Friday 28 March 2014

گاؤزبان

گاؤزبان
گاؤزبان ایک مشہور و معروف ادویاتی پودا ہے اور شاید ہی کوئی اس سے واقف نہ ہو ۔ گاؤزبان کو اردو، بنگالی اور فارسی زبان میں گاؤزبان ہی کہتے ہیں۔ عربی زبان(Arabic) میں اس پودے کو لسان الثور(Lasanulsaaur)، حَمحَم اور حِمحِم کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں اس کو بوریج(Borage) اور بگلس(Buglos)کہتےہیںفرانسیسی زبان میں اس کو Bourrache، ہسپانوی زبان میں Borrajaاور اٹالین زبان میں اس پودے کو Borranaکہتے ہیں۔ اس پودے کا سائنسی یا نباتاتی نام(Scientific Name) بوریگو آفیشی نیلس(Borago Officinalis)ہے اس کا تعلق بوریجی نے سی(Boraginaceae)خاندان سے ہے ۔ ہمدرد فارما کوپیا آف ایسٹرن میڈیسن(Hamdard Pharmacopae Of Eastern Medicine) میں اس کا نام کیکسینیا گلؤکا(Caccinia glauca)اور انوسما بریکٹیاٹم(Onosma bracteatum) درج ہے ۔ اس کے علاوہ بھی چند پرانی کتب میں یہی نام درج ہیں۔ گاؤزبان کا پودا ایک سے دو فٹ تک اونچا ہوتا ہے ۔ اوراس کے تمام اجزاء روئیں دار اور کھردرے ہوتے ہیں۔ اس کے پتے ۳ انچ تک لمبے اور ڈیڑھ انچ تک چوڑے ہوتے ہیں ۔ اس کے پتے سبزی مائل سفید اور گائے کی زبان (Ox-tongue) کے مشابہ ہوتے ہیں۔ اسی لئے اس کو گاؤزبان کہتے ہیں۔ تازہ گاؤزبان کے پتے گہرے سبز رنگ کے ہوتے ہیں۔ اس کے پھول ایک انچ تک چوڑے پانچ پتوں پر مشتمل نیلے یا جامنی رنگ کے بہت ہی خوبصورت اور چمکدار ہوتے ہیں اور کھلنے پر ستارے کی شکل نظر آتے ہیں اس لئے اس پودے کو سٹار فلاور(Star Flower) بھی کہتے ہیں۔ بعض اوقات اس پر گلابی رنگ کے پھول بھی دیکھے گئے ہیں۔اس کی ایک سفید پھولوں والی قسم بھی کاشت کی جاتی ہے ۔ اس کے پھول موسم گرما میں کھلتے ہیں اور اپریل سے ستمبر تک اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ اس کے پھول سوکھ کر بھی نیلے یا گہرے جامنی رنگ کے ہی ہوتے ہیں۔ پھول آنے پر اس کے پتوں کو بھی اکٹھا کیا جاتا ہے ۔ اس کے بیج سیاہی مائل بیضوی سی شکل کے اور جھری دار ہوتے ہیں۔ اس کے بیج موسم خزاں میں اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ گاؤزبان کے تمام اجزاء بطور دواء استعمال کئے جاتے ہیں۔ زیادہ تر اس کے پھول پتے اور ٹہنیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ بازار میں جو گاؤزبان فروخت کیا جاتا ہے اس میں گاؤزبان کے خشک پتے اور ٹہنیاں موجود ہوتی ہیں اور اس کے پھول علیحدہ فروخت کئے جاتے ہیں اس میں ملے ہوے نہیں ہوتے ہیں۔ گاؤزبان کے بیجوں کا تیل بھی کیپسول کی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ گاؤزبان کا مزہ پھیکا کھیرے کی طرح کا اور لعاب دار ہوتا ہے ۔ اس پودے کو بطور سلاد، پکا کر ، سوپ وغیرہ کو خوشبو دار بنانے کیلئے اور گارنش(Garnish) کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔
اس پودے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی ابتداء ملک شام سے ہوئی اور اب یہ پودا برطانیہ سمیت یورپ ، شمالی امریکہ ، ایشیاء مائز، بحیرہ روم کے آس پاس کے علاقہ اور شمالی افریقہ میں بھی کاشت کیا جاتا ہے ۔
تاریخی پس منظر:
(Brief Historical Background)
فرانسیسی جڑی بوٹیوں کے ماہر جیرارڈ(Gerard) نے قدیم یونانی حکیم بلیناس یا بلینی(Pliny)کا حوالہ دیا ہے ۔ بلینی کے مطابق گاؤزبان انسان کو خوش و خرم اور ہشاش بشاش کرتاہے۔اسکےعلاوہ پہلی صدی کے یونانی حکیم دیسقوریدوس(Pedanius Dioscoride) کے مطابق گاؤزبان دل کو تسکین دیتا ہے،غمگینی اور افسردگی کو دور کرتا ہے اور دیوانگی یا پاگل پن میں مبتلا افراد کو آرام و سکون دیتا ہے ۔ جیرارڈ نے خود بھی اس کے استعمال بطور مفرح ، ذہن کو خوش کرنے کیلئے ، اداسی اور مالیخولیا کو ختم کرنے کیلئے اس کی سفارش کی ہے ۔
شیخ الرئیس بوعلی سینا ؒ(Avicenna) نے اپنی مشہور کتاب ’’الادویہ القلبیہ‘‘(AL-Adviatul Qalbia) میں لکھا ہے کہ گاؤزبان پہلے درجے میں گرم تر ہے اور یہ سوداء(Black Bile) کو خارج کرنے کی اپنی طاقت کی وجہ سے دل کو طاقت اور فرحت(Exhilirant) دینے کی بڑی مضبوط خصوصیت کا حامل ہے اور یہ قلب میں روح اور خون کوصاف(Purifier) بھی کرتا ہے اور بہترین گاؤزبان کے بار ے میں لکھا ہے کہ سب سے بہترین گاؤزبان خراسان سے آتا ہے ۔ اس کے پتے زیادہ موٹے ہوتے ہیں اور اس میں ریشے بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں اور سوکھنے پر اس پر جھریاں نہیں پڑتی ہیں۔
سترہویں صدی کے انگلش ہربلسٹ جون ایویلین کے مطابق یہ مراق میں مبتلا (Hypochondriac) افراد میں دوبارہ زندگی کی لہر پیدا کر دیتاہے ۔ اور اسی کے ایک ہم عصر کلپیپر(Culpepper) اس پودے کو وبائی بخاروں، سانپوں کے زہر، یرقان ، تپ دق، گلے کی سوزش اور جوڑوں میں درد کے لئے استعمال کرتا تھا۔
گاؤ زبان کی کیمیاوی ترکیب:
(Borage Chemistry)
گاؤ زبان میں صابونی اجزاء(Saponins)، لعاب دار مادہ (Mucilage)، ٹے نینز(Tanins) روغن فراری ایک بہت ہی اہم گلو سائیڈ کیکسی نین(Caccinine)پایا جاتاہے جو کہ مدر بول خصوصیت کا حامل ہے اس کو اروڑہ نےعلیحدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ گاؤزبان میں کاربو ہائیڈریٹس ، کیروٹین ( Pro Vitamin A) فیٹس، فائبر، گلو کوز، گلٹوز، نمکیات ، مثلاً فولاد، وٹامن سی ، میگنیشیم، تانبا، سوڈیم ، پوٹاشیم ، زنک ، کوبالٹ، کیلشیم ، فاسفورس وغیرہ اور پائیرو لیزیڈین الکلائیڈز(Pyrrolizidine alkaloids)، مثلاً لائیکو پسمائن(Lycopsamine)انٹرمیڈین(Intermedine) ایمبی لین(Ambiline) سپانین(Supanine) کے ساتھ ان کے ایسیٹائل حاصلات کولین اس کے علاوہ اس میں گاما لینولیک ایسڈ(GLA) بھی پایا جاتاہے جو کہ اومیگا6فیٹی ایسڈ ہے یہ بطور دافع ورم(Anti Inflammatory) کا کام کرتا ہے اور یہ جوڑوں کی صحت (Joints Health)، جلد ، مخاطی یا بلغمی جھلیوں کی حفاظت اور قوت مدافعت (Immunity) کے لئے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ اس میں پایا جانے والا وٹامن سی (Ascorbic Acid) بطور دافع عمل تکسید(Antioxcident)کام کرتا ہے یہ ایک طاقتوراینٹی اوکسی ڈنٹ ہے جو جسم سے نقصان دہ فری ریڈ یکلز کو ختم کرتا ہے ۔ گاؤزبان میں پائی جانے والی کیروٹین (پرو ۔ وٹامن اے ) بھی بطور اینٹی اوکسی ڈنٹ کام کرتی ہے ۔ یہ نقصان دہ فری ریڈیکلز سے بچانے ، عمر رسیدگی(Aging) اور کئی دیگر امراض سے تحفظ کا ذریعہ ہے ۔ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وٹامن اے بینائی اور آنکھوں کی حفاظت، جلد اور بلغمی جھلیوں کی صحت اور حفاظت کے لئے بہت ضروری ہے ۔
ذہنی اور دماغی امراض میں گاؤزبان کا کردار:
(Uses In Mental Diseases)
فلسفہ طب (Basic Principles) یونانی کے مطابق گاؤزبان انسانی جسم سے سوداء یا سوداویت (Black Bile) کو خارج کرتا ہے اور روح کو فرحت تازگی دیتا ہے ۔ طبیعت میں خوشی کا احساس پیدا کرتا ہے ۔ فلسفہ طب کے مطابق جب انسانی جسم میں خلط سوداء بڑھ جائے تو دماغی یا ذہنی امراض(Mental Diseases) پیدا ہوتے ہیں اور گاؤزبان مخرج سوداء ہے یہ مقوی دماغ و اعصاب (Nervine Tonic)ہے ۔ ذہنی دباؤ (Stress)، جنون (Mania)، مالیخولیا(Melancholy)، درمیانے سے لمبے عرصہ کا ڈپریشن(Depression)، اداسی(Sadness) اور پریشانی کو ختم کرتا ہے ۔ اعتماد میں اضافہ کرتا ہے ۔ مسکن اعصاب ہونے کی وجہ سے قدرتی طور پر نیند لاتا ہے ۔ اعضائے رئیسہ کو طاقت دیتا ہے ۔ اسے طبیعت میں خوشی پیدا کرنے والا پودا بھی کہتے ہیں۔
امراض تنفس:
(Respiratiry Diseases)
گاؤزبان اپنی لیسدارانہ خصوصیت کی وجہ سے ، حلق(Pharynx)، حنجرہ(Larynx) اور نظام تنفس کے دیگر بالائی اور زیریں حصوں کی سوزش یا ورم ، خارش اور خشکی کو دور کرنے کے لئے زمانہ قدیم سے ہی استعمال کیا جا رہا ہے یہ بلغم کو نرم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اخراج میں بھی مدد دیتا ہے ۔ جس سے چھاتی کا بلغمی امتلاء (Congestion)ختم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ بخار کو کم (Antipyretic)کرتا ہے ۔ خشک کھانسی (Dry Cough) بلغمی کھانسی (Productive Cough)، دمہ(Asthma)، زکام ، نزلہ(Nasal Catarrh) اور چھاتی کے انفکشنز میں مفید ہے ۔ اسی وجہ سے گاؤزبان اور اس کے پھولوں کو زکام نزلہ اور کھانسی وغیرہ کے تقریباً تمام شربتوں اور خمیروں میں بطور ایک اہم جزو شامل کیا جاتا ہے ۔
امراض قلب:
(Heart Diseases)
زمانہ قدیم سے ہی گاؤزبان کو تفریح و تقویت قلب کیلئے بھی استعمال کیا جاتا رہاہے۔ یہ اختلاج القلب(Palpitation)، تیز دھڑکن(Tachycardia)، گھبراہٹ، بے چینی اور دل ڈوبنے کا احساس(Heart Sinking) کی کیفیت میں بہت مفید ہے۔اسکےمرکبات کا استعمال فشار الدم قوی (Hypertension) میں مفید ہے ۔
امراض جلد:
(Skin Diseases)
یہ جلد پر بڑے اچھے اثرات مرتب کرتا ہے جلد کو نرم کرتا ہے ۔ اندرونی اور بیرونی دونوں طرح سے جلد کو صاف کرتا ہے۔ پسینہ اور پیشاب آور ہونے کی وجہ سے دونوں راستوں سے زہریلے مادوں کو خارج کرتا ہے۔ پسینہ آور(Diaphrotic)ہونے کی وجہ سے جلد میں ٹھنڈک کا احساس پیدا کرتا ہے ۔ گاؤزبان کی چائے یعنی ہربل ٹی یا جوشاندہ جلد کے امراض مثلاً دنبل(Boils)، جلد کی سرخی یا خراش(Rashes) کے لئے مفید ہے ۔ بچوں میں پیدا ہونے والے دانہ دار یا ابھار نما(Eruptive) امراض مثلاً خسرہ(Measles)، لاکڑا کاکڑا(Chicken pox) کیلئے مفید ہے ۔ اس کے پتے جلا کر منہ آنے یا قلاع(Thrush) پر چھڑکنے سے انہیں ٹھیک کر دیتا ہے اور دیگر زخموں کو خشک کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کو بطور پلٹس بھی استعمال کرتے ہیں۔ آنکھوں کی خراش میں بطور آئی لوشن بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔
نظام بول :
(Effects On Urinary System)
مدر بول(Diuretic) خصوصیت کا حامل ہونے کی وجہ سے انسانی جسم سے زہریلے مادوں کو خارج کرنے کا عمل تیز کر دیتا ہے ۔ اس کے علاوہ مثانے کی خراش(Bladder Irritation)، پیشاب کا تکلیف اور رکاوٹ سے آنے(Strangury) اور دیگر کئی تکالیف میں مفید ہے ۔
کلاہ گردہ یا ایڈرینل گلینڈز پر اثرات:
(Effects on Adrenal Glands)
کلاہ گردہ( Adrenal glands) انہیں سپُرا رینل گلینڈز (Suprarenal Galnds)بھی کہتے ہیںیہ دونوں گردوں کے اوپر لگے ہوئے مخروطی شکل کے غدود ہوتے ہیں ان کا وزن 4سے 14گرام تک اور اوسطاً ایک غدود کا وزن 5گرام تک ہوتا ہے عورتوں کی نسبت مردوں کے یہ غدود زیادہ وزنی ہوتے ہیں۔ ان غدودوں کا کام ایڈرینالین (Adrenaline)نار ایڈرینا لین(Nor Adrenaline) جن کو ایپی نیفرین (Epinephrine)اور نار ایپی نیفرین(norepinephrine) بھی کہتے ہیں ان کو پیداکرنا اور ان کے علاوہ کئی قسم کے سٹیرائیڈ ہارمونز پیدا کرنا ہے جو کہ انسانی جسم کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ یہ غدود ہمارے جسم کے لئے ہمہ وقت کام کرتے رہتے ہیں تا کہ ہمارا جسم ہر قسم کی صورت حال سے نپٹنے کیلئے تیار رہے۔یہ لگاتار ایڈرینالین کا افراز کرتے رہتے ہیں۔ جب انسانی جسم زیادہ دباؤ کا شکار ہو جائے تو یہ غدود بھی تھکاوٹ(Fatigue) کا شکار ہو جاتے ہیں۔گاؤ زبان کا استعمال ایڈرینل غدودوں پر مقوی اور شفا ء بخش اثرات مرتب کرتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ گاؤ
زبان مقوی کلاہ گردہ یا ایڈرینل گلینڈز کو طاقت دینے والا پودا ہے ۔ گاؤزبان ان غدودوں کو تحریک دیتا ہے جس کے نتیجے میں ایڈرینالین کا افراز ہوتا ہے اور ہمیں دباؤ (Mental Stress) کا مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ انسانی جسم پر سٹیرائیڈز(Steroids) کے استعمال سے پیدا ہونے والے اثرات یعنی کارٹی سون (Cortisone) یا سٹیرائیڈز سے طبی علاج (Medical Treatment)کروانے کے بعد انسانی جسم پر پیدا ہونے والے اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے یہ پودا بہت ہی مدد گار ثابت ہوتا ہے ۔ یہ پودا ایڈرینل گلینڈز کو تحریک و تقویت دیتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ایڈرینل غدود اپنا کام از سر نو شروع کر دیتے ہیں۔اور اپنے قدرتی سٹیرائیڈز ہارمونز پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
سن یاس(Menopause) کے دوران جب عورتوں میں ایسٹروجن(Estrogen) ہارمون پیدا کرنے کی ذمہ داری بھی ایڈرینل گلینڈز پر ہوتی ہے تو اس دور میں بھی عورتوں کے لئے گاؤزبان کا استعمال بہت مفید ہے ۔ اس کی وجہ گاؤزبان کے ایڈرینل گلینڈ ز کو تحریک دینا ہے ۔ یہی خصوصیت اس کے بیجوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔
اس کے علاوہ گاؤزبان معدہ کی سوزش(Gastritis)اریٹیبل باؤل سینڈروم (Irritable Bowls Syndrome-IBS) اور قبض کیلئے بھی مفید ہے ۔ دودھ پلانے والی ماؤں میں اس کا استعمال دودھ کی پیدا وار بڑھا دیتا(Glatagogue) ہے ۔ جس سے بچے کو بھر پور غذا ملتی ہے ۔ بچے کی پیدائش کے بعد کا ڈپریشن(Postnatal Depression) میں بھی اس کا جوشاندہ استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
طریقہ استعمال اور مرکبات:
(Usage And Its Unani Compounds)
گل گاؤزبان کی مقدار خوراک 3سے 5گرام تک ہے اور برگ گاؤزبان کی مقدار خوراک 5سے 7گرام ہے ۔ اس کے پھولوں کو یا پتوں ،ٹہنیوں کو پانی میں اُبال کر چھان کر اس میں مصری ، چینی یا شہد ملا کر پیا جا سکتا ہے ۔ گاؤزبان کے بیجوں سے نکلا ہوا تیل بھی کیپسول کی شکل میں مل جاتا ہے ۔ اس کے بیجوں کے تیل میں کثیر مقدار میں گاما لینولک ایسڈ پایا جاتا ہے ۔ اس تیل کو ماہواری کے مسائل ، ایگزیما(Eczema) اور دیگر مزمن امراض جلد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ گاؤزبان کے تیل کو ایوننگ پرم روز آئل(Evening primrose oil) کے ساتھ خون میں چکنائی کی مقدار کو کم کرنے میں مفید ہے ۔ اس کا تیل 500ملی گرام کی مقدار میں کیپسول روزانہ صبح شام استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ تیل حداری الہتاب مفصل یا ریٹو میٹائیڈ آرتھرائیٹس کے مریضوں کے لئے بھی مفید ہے ۔ گاؤزبان کے کسی بھی جز کو استعمال کرنے سے پہلے کسی مستند طبیب سے رائے لے لیں تا کہ اس سے مکمل فائدہ حاصل کیا جا سکے ۔
گاؤزبان کے یونانی مرکبات:
اس کے علاوہ گاؤزبان کا پودا طب یونانی کے کثیر مرکبات مثلاً خمیرہ گاؤزبان سادہ(Khameera Gaozaban Sada)، خمیرہ گاؤزبان عنبری جواہر دار، خمیرہ مروارید، خمیرہ گاؤزبان عنبری جدوار عود صلیب والا، خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا(Khameera Abresham Hakeem Arshad Wala)، دوالمسک معتدل جواہر دار،خمیرہ ابریشم شیرہ عناب والا ، شربت گاؤزبان سادہ، شربت احمد شاہی ، شربت دینار، شربت صدر اور دیگر کئی مشہور یونانی مرکبات میں ڈالا جاتا ہے ۔ مذکورہ مرکبات مفرح و مقوی قلب دماغ، مخرج بلغم، مدر بول ، محلل اورام طرز کی خصوصیات کے حامل ہیں اور ان کا استعمال محفوظ بھی ہے ۔ ان کو علامات کے مطابق طبیب کے مشورے سے بے فکر ہو کر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
1.نسخہ جوشاندہ گاؤزبان خاص:
(Borage Decoction For Respiratiry Diseases )
یہ بہت خاص قسم کا جوشاندہ ہے جو میں نے خود ترتیب دیا ہے اور یہ کھانسی، نزلہ، زکام، دمہ، تنگی تنفس میں بہت مفید ہے، بلغم کو خارج کر کے سانس کی نالیوں کو کھول دیتا ہے۔
ہوالشافی
گاؤزبان(Borago Officinalis)،
گل گاؤزبان (Borage Flowers)،
ملٹھی (Glycyrrhiza Glabra)،
زوفا (Hyssopus Officinalis)،
تخم خطمی(Althea Officinalis)،
تخم خبازی(Malva Sylvestris)،
عناب (Zizyphus Vulgaris)،
برگ بانسہ(Adhatoda Vasica)،
اسطوخودوس(Lavendula Stoechas)،
خاکسی یاخوب کلاں(Sisymbrium Irio)،
پرسیاؤشاں(Adiantum Capillus-Veneris)،
سوم کلپا لتا(Ephedra Sineca-Ma huang)**،
طریقہ تیاری اور استعمال:
ہر ایک 3 ، 3 گرام ڈیڑھ پاؤ پانی میں جوش دے کر صبح شام خالص شہد(Pure Honey)* ملا کر پینا چاہئے ۔
2.نسخہ جوشاندہ گاؤزبان برائے دمہ و الرجی وغیرہ ۔
یہ بھی بہت خاص قسم کا جوشاندہ ہے جو میں نے خود ترتیب دیا ہے اور یہ کھانسی، نزلہ، زکام، دمہ، تنگی تنفس، الرجی اور چھنکیں وغیرہ، بالائی اور زیریں تنفسی اعضاءکی سوزش، میں بہت مفید ہے، بلغم کو خارج کر کے سانس کی نالیوں کو کھول دیتا ہے۔
ہوالشافی
گاؤزبان(Borago Officinalis)،
خولنجان (Alpinia Galangal)،
زوفا (Hyssopus Officinalis)،
سپستان یا لسوڑه (Cordia Latifolia)،
تخم میتھی(Trigonella Foenum-Graecum)،
سوم کلپا لتا(Ephedra Sineca-Ma huang)**،
طریقہ تیاری اور استعمال:
ہر ایک 3 ، 3 گرام ڈیڑھ پاؤ پانی میں جوش دے کر صبح شام خالص شہد(Pure Honey)* ملا کر پینا چاہئے ۔
نوٹ:
*زیابیطس کے مریض شہد یا چینی ملائے بغیر نیم گرم پیئں ۔
**ہائی بلڈ پریشر یا فشارلدم قوی کے مریض اس جڑی بوٹی یعنی سوم کلپا لتا (Ephedra Sineca-Mahuang) کو جوشاندہ میں استعمال کرنے سے پہلے اپنے طبیب سے مشورہ ضرور کر لیں ۔

کالا یرقان یعنی ہیپاٹائٹس سی

کالا یرقان یعنی ہیپاٹائٹس سی
اس موذی مرض کا ابھی تک انگریز یطریقہ علاج سے مکمل کنٹرول نہیں کیا جا سکا لیکن قدرت نے قدرتی طریقہ علاج جڑی بوٹیوں میں پنہاں رکھا ہے اس موذی مرض کو آسانی سے دفع کیا جا سکتا ہے اس کا علاج قدرت نے مولی کے سبز پتوں میں پوشیدہ کر رکھا ہے اگر کوئی انسان کالے یرقان میں مبتلا ہو تو وہ مولی کے پتوں کا رس نکال کر آدھا کپ چودہ دن استعمال کرے تو چودہ دن کے بعد اسے افاقہ ہو جائے گا۔
ALT جو اس بیماری کا ٹیسٹ ہے مولی کا پانی استعمال سے قبل کرائیں اور بعد میں ہونے والے ٹیسٹ میں حیرت انگیز نتیجہ پائیں گے اس مرض میں مبتلا وہ لوگ جو اس موذی مرض کے سو ٹیکے لگوا چکے تھے جب انہیں بھی یہ معمولی نسخہ استعمال کرایا گیا تو یہ لوگ بھی حکمت کے گرویدہ ہو گئے لہزا سب سے پہلے تو احتیاط کیجیے کیونکہ پرہیز علاج سے بہتر ہے کھانا ہمیشہ صاف ستھرا اور تازہ کھائی یاپنی زندگی کو دین اسلام کے راستے پر گامزن کیجیے۔
ایک جدید ترین سروے کے مطابق جو شخص صبح پانچ بجے بستر چھوڑ دیتا ہے اور ہلکی پھلکی ورزش کرتا ہے تو وہ 82 فیصد بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اسی لئے تو ہم پر نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ ہم صبح سویرے ایک بہترین ورزش سے مستفید ہو سکیں اور پاکیزگی اور روحانی سکون بھی حاصل کر سکیں ہم جتنا فطرت کے قریب ہوتے جائیں گے بیماریاں اتنی ہی ہم سے دور ہوتی جائیں گی۔

Thursday 27 March 2014

اداسی کی قیمت

اداسی کی قیمت
خوشی اور اداسی ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے لیکن شاید آپ کو یہ علم نہ ہو کہ اداسی کی حالت میں کیے گئے فیصلے اکثر اوقات مہنگے پڑتے ہیں اور بسا اوقات ان کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔
کہاجاتا ہے کہ موسم اور مزاج پر کسی کا اختیار نہیں چلتا ہے۔ انسان کبھی بلاوجہ خوش ہوسکتا ہے اور کبھی مسرت کے لمحات میں بھی اس پر ادسی طاری ہوسکتی ہے۔
کئی سائنسی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خوشی اور اداسی کی کیفیت دماغ کے مخصوص حصوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تابع ہے جو اپنے خاص سگنلز کے ذریعے انسان پر اداسی یا خوشی طاری کردیتے ہیں۔
مارکیٹ میں بعض ایسی دوائیں اور کیمیکلز دستیاب ہیں جو دماغ کے احساسات پیدا کرنے والے حصوں کو متاثر کرتی ہیں اور ان استعمال سے پر انسان خوشی یا غمی کی عارضی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
نفسیات کے ماہرین کا کہناہے کہ گردو پیش کا ماحول اور حالات و واقعات بھی انسان میں خوشی یا اداسی کے احساسات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
موسموں میں تبدیلی بھی انسان کے مزاج پر اثرانداز ہو کر اس پر خوشی یا افسردگی کی کیفیت طاری کردیتی ہے۔ چنانچہ خودکشی کے اکثر واقعات سردیوں کے ان ایام میں رونما ہوتے ہیں جب کئی دنوں تک سورج نہیں نکلتا اور آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔
لیکن ایک حالیہ سائنسی مطالعے سے پتا چلا ہے بعض اوقات انسان کو اپنی اداسی کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑ سکتی ہے۔
امریکہ کے معروف اور قدیم تعلیمی ادارے ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک ٹیم نے اداسی کی حالت میں کیے گئے فیصلوں پر تحقیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اداسی کی حالت میں مالیاتی امور سے کیے جانے والے اکثرفیصلے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
سائیکاجیکل سائنس جنرل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہارورڈ یورنیورسٹی کے ماہرین اپنی تحقیق کے لیے رضاکاروں کا چناؤ کر کے انہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا اور پھر ایک گروپ کو اداس اور افسردہ کرنے والی ویڈیوز تواتر کے ساتھ دکھائیں، حتی کہ ان پر اداسی طاری ہوگئی۔ جب کہ دوسرے گروپ کو ویڈیوز سے دور رکھا گیا۔
ہر گروپ میں شامل رضاکاروں کو سوال ناموں پر مبنی پراجیکٹ دیا گیا، جس کے صحیح جوابات سے انہیں مالی فوائد حاصل ہو سکتے تھے۔
ماہرین کو معلوم ہوا کہ جن افراد نے اپنے پراجیکٹس پر کام شروع کرنے سے پہلے اداس کرنے والی ویڈیوز دیکھی تھیں، انہوں نے ایسے جوابات کا انتخاب کیا جن سے انہیں فوری فوائد تو مل سکتے تھے لیکن عمومی طور پر ان میں منافع کی شرح کم تھی اور لمبے عرصے تک اس پر کام جاری رکھنے سے نمایاں مالی نقصان ہو سکتا تھا۔
ویڈیوز نہ دیکھنے والے گروپ نے، ویڈیوز دیکھ کر اداس ہونے والے گروپ کے مقابلے میں، نمایاں طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے اپنے پراجیکٹس کے ایسے پہلو چنے جن سے انہیں بھاری منافع حاصل ہو سکت اتھا۔
اس گروپ میں شامل افراد کا انفرادی اسکور عمومی طورپر افسردہ افراد کے مقابلے میں 13 سے 34 فی صد تک زیادہ تھا۔
اس سائنسی مطالعے کی قیادت ڈاکٹر جینفر لیرنر نے کی۔ ان کا کہناہے کہ اس سائنسی مطالعے کے لیے ایک ایسا پراجیکٹ ترتیب دیا گیا جس میں نفسیات اور معاشیات کے مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا تھا۔
نتائج سے پتا چلا کر افسردگی اور اداسی کی حالت میں عمومی طور پر انسان مالیات سے متعلق دانشمندانہ فیصلے نہیں کرسکتا۔
ڈاکٹر جینیفر کا کہناتھا کہ مطالعے سے یہ معلوم ہوا کہ اداسی طاری ہونے کے بعد عمومی طور پر انسان مستقبل میں زیادہ فائدے کی بجائے وقتی اور فوری طور کم فائدے کے حصول کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ افسردگی اور اداسی کی کیفیت اسے اپنے مستقبل سے لاتعلق سا بنا دیتی ہے اور اس کے لیے لمحہ موجود ہی سب سےا ہم بن جاتا ہے۔
رپورٹ میں مشورہ دیا گیا ہے کہ اداسی کی حالت میں ایسے فیصلوں سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے جن کا تعلق مالی معاملات سے ہو۔

Monday 24 March 2014

انٹی بائیؤ ٹک ادویات کے بارے انتہائی تلخ حقائق


انٹی بائیؤ ٹک ادویات کے بارے انتہائی تلخ حقائق
برطانوی محکمہٴصحت کی چیف آفیسر نے دنیا کو آنے والےوقتوں میں اینٹی بایوٹک ادویات کے بے اثر ہوجانے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ایسی اینٹی بایوٹک ادویات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جن کے خلاف بیکٹریا نے مزاحمت پیدا کرلی ہے، اس لیے دوران علاج یہ ادویات انسانی جسم پر اپنا اثر کھوتی جا رہی ہیں۔
حکومت برطانیہ کی چیف میڈیکل افسر، ڈیم سیلی ڈیوس کے مطابق، ‘اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت اختیار کرلینے والے بیکٹریا کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا علاج نہیں کیا جاسکے گا، جو مستقبل میں اقوام عالم کے لیے ایک سنگین خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔’
ڈیوس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا کہ دنیا کو درپیش دہشت گردی کا مسئلہ اور موسمی تغیرات جیسے اہم مسائل کی طرح یہ بھی ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ کیونکہ، مستقبل میں دنیا کو دہشت گردی سے زیادہ بڑا نقصان اینٹی بایوٹک دواؤں کے بے اثر ہو جانے سے پہنچے گا۔ کئی اقسام کے انفیکشن کا علاج نہ ہونے سے دنیا میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں واقع ہو سکتی ہیں۔
ڈیوس نے مستقبل کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ،’وہ ایک ایسی صورت حال کا تصور کر رہی ہیں جب 20 برس بعد ایک معمولی آپریشن کرنے پر موت کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اعضا کی پیوندکاری جیسے بڑےآپریشن کے دوران کوئی معمولی انفیکشن مریض کی جان لے سکتا ہے، کیونکہ اس وقت زیادہ تر اینٹی بایوٹک ادویات اپنا اثر کھو چکی ہوں گی۔ اگر حکومت نے بروقت اس مسئلے کی سنگینی پر غور نہیں کیا تو مجھے ڈر ہے کہ برطانیہ ایک بار پھر سے 200 برس پرانے طب کے دور میں لوٹ جائے گا جب بیماریوں کے علاج کے لیے ادویات موجود نہیں تھیں ۔’
جبکہ اینٹی بایوٹک کے خلاف بیکٹریا کا مزاحمت اختیار کرنے کا عمل نیا نہیں ہے، یہ عمل اس وقت سے ہی شروع ہو گیا تھا جب پہلی بار اس دوا کا استعمال کیا گیا تھا۔ مگر موجودہ دور میں اینٹی بایوٹک ادویات کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ مزاحمتی بیکٹریا پیدا ہو رہے ہیں، جو کہ ایک جسم سے دوسرے جسم میں آسانی سے منتقل ہو رہے ہیں۔ اس طرح یہ ایک گھمبیر نوعیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔
اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف بیکٹریا کی (Resistance ) مزاحمت کے عمل کو اس طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔ انفیکشن کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج اینٹی بایوٹک ادویات کے ذریعے کیا جاتا ہے جب دوا بیمار جسم میں داخل ہوتی ہے تو بیماری پھیلانے والے حساس بیکٹریا کو ختم کر دیتی ہے۔ مگر تمام بیکٹریا کو مارنے میں ناکام رہتی ہے ایسے میں بچ جانے والے بیکٹریا مزاحمت اختیار کرلیتے ہیں اور زیادہ تعداد میں سارے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ لہذا، اب اس جسم میں اس دوا کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔ جبکہ، اسی اینٹی بایوٹک کا بار بار استعمال جسم میں مزاحمتی بیکٹریا کو مضبوط کردیتا ہے۔ اب یہ دوا اس بیکٹیریا کے خلاف اپنا اثر کھوتی جاتی ہے ۔ نتیجتاً بے اثر ہو جاتی ہے۔
برطانیہ میں سال 2003 ء میں صرف تین دوائیوں کے خلاف مزاحمت کے کیس سامنے آئے تھے۔ لیکن، ہیلتھ پروٹیکشن ایجنسی کی گذشتہ برس کی رپورٹ کے مطابق، ایسی اینٹی بایوٹک ادویات کی تعداد800 تک جا پہنچی جو ان مزاحمتی بیکٹریا پر اثرانداز نہیں ہو رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ، ‘ماضی میں مریضوں کو گھبرانے کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کیونکہ، طب کی دنیا میں تحقیق کا سلسلہ جاری تھا اور موٴثر اینٹی بایوٹک ادویات طب کے ہر شعبے کے لیے ایجاد ہو رہی تھیں۔ مگر، اب حالات مختلف ہیں۔ آج بہت سی اینٹی بایوٹک ادویات کا اثر زائل ہوجانے کی وجہ سے ہمیں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ نئی دواؤں کی ضرورت ہے۔ مگر، مشکل یہ ہے کہ دواساز کمپنیوں کی نظر ان کے منافع پر ہوتی ہے۔ وہ زیادہ تر لمبی اور مستقل بیماریوں، جیسے کے دل کی بیماریوں میں استعمال کی جانے والی دوائیں بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس وقت، طب کا ہر شعبہ ان ادویات پر مکمل انحصار کرتا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ ہماری طب کی دنیا میں تحقیق کی پائپ لائن مکمل سوکھ چکی ہے۔’
اس وقت بہت سی ادویات انفیکشن کے علاج کے لیے غیر موثر ہو چکی ہیں جبکہ حال یہ ہے کہ بیماروں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اگرچہ” سپر بگ ‘یا” ایم آر ایس اے ” نامی مزاحمتی بیکٹریا جو بہت سی بیماریاں پھیلانے کا باعث تھا، اس پر قابو پا لیا گیا ہےلیکن کئی دیگر اقسام کے بیکٹریا جن میں E Coli اور Kelebsiellaجیسے بیکٹریا مزاحمت اختیار کر رہے ہیں جو کہ نمونیہ کی بیماری پھیلانے کا سبب ہیں۔
اسی طرح ٹیٹرا سائکلین نامی اینٹی بایوٹک کے خلاف Gonorrhea نامی بیکٹریا 80 فیصد مزاحمت اختیار کرچکا ہے،جس سے ٹی بی جیسی بیماری پھیلنے کا خطرہ بڑھ ریا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سی ایسی بیماریاں جن پر اس وقت کچھ اینٹی بایوٹک اثر نہیں کر رہی ہیں ہم اس کا علاج متبادل اینٹی بایوٹک ادویات کے ذریعے کر رہے ہیں۔ تاہم، مستقبل قریب میں یہ صورتحال بدلنے والی ہےجب ہمارے پاس اس کمی کو پورا کرنے کے لیے نئی متبادل ادویات موجود نہیں ہوں گی۔
انھوں نے کہا کہ اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف جسم میں مزاحمت پیدا ہونے کے مسئلے کو بین الاقومی سظح پر حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ادارے، دوا سازکمپنیوں، ڈاکٹر اور مریضوں سے لے کر عام افراد کو اس مسئلے کی سنجیدگی پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ہیلتھ ایجنسی کے سربراہ پروفیسر انتھونی کیسل نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اینٹی بایوٹک ادویات کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے وائرل بیماری کے لیے بھی اینٹی بایوٹک دوا تجویز کرنے کی وجہ سے اس مسئلے کی سنگینی میں اضافہ ہوا ہے۔
اس سلسلے میں، ڈاکٹر کے کلینک اور مریض دونوں کو مکمل آگاہی کی ضرورت ہے، تاکہ وہ صرف ضرورت پڑنے پر ہی اینٹی بایوٹک دوا کا استعمال کریں۔ جو ادویات انھیں علاج کے لیے تجویز کی جارہی ہیں ان کے بارے میں اپنے معالج سے مشورہ کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ان دواؤں کو ٹھیک مقدار اور مناسب وقفے کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے، تاکہ جسم میں قوت مدافعت کمزور نہ پڑے۔

دل کی بھڑاس نکالنا اچھا ہوتا ہے


دل کی بھڑاس نکالنا اچھا ہوتا ہے
جرمنی میں تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جو منفی جذبات کو دل میں چھپاتے ہیں انھیں اپنے دل کی بھڑاس نکال دینی چاہیے کیونکہ غصے کی کیفیت کو دبانے سے نبض کی رفتار میں اضافہ ہو جاتا ہے جو کہ دل کی صحت کے لیے اچھا نہیں ۔
ایسے لوگ جو اپنے منفی رویے کا اظہار نہیں کرتے ہیں ان میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو ان کی صحت پر برا اثر ڈالتی ہے اور انھیں کئی بیماریوں میں مبتلا کر سکتی ہے۔
جبکہ دوسری طرف وہ لوگ جنھیں گرم مزاج کا حامل سمجھا جاتا ہے وہ عموماً اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاتے ہیں اور دل کی بھڑاس نکالنے میں دیر نہیں کرتے ہیں ان کی زندگی میں دو برس کا اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ، ایسا کرنا ان کی صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے۔
جرمنی کی ایک یونیورسٹی جینا میں 6000 مریضوں میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ ، انسان کا منفی رویہ کس حد تک اس کی صحت کو متاثر کرتا ہے ۔
تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ گرم مزاج رکھنے والےاٹالین اور اسپینش باشندوں کی عمریں ایک تحمل مزاج برطانوی باشندے کے مقابلے میں لمبی ہوتی ہیں۔
اس تحقیق کے روح رواں مارکس منڈ اور کرسٹین مٹ کا کہنا تھا کہ تحقیق میں پتا چلا کہ ’’جو مریض غصے کی کیفیت پر قابو پانا چاہتے تھے ان کی نبض کی رفتار بڑھ گئی اور ساتھ ہی ان کی طبیعت میں ایک بے چینی کا عنصر نظر آیا۔‘‘
جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مریضوں میں بلند فشار خون بھی دیکھا گیا جس سے ان میں کورنری ہارٹ کی بیماریاں، کینسر اور گردے کے ناکارہ ہونے جیسی بیماریوں کے پیدا ہونے کے امکانات میں بھی اضافہ ہو رہا تھا ۔
جنرل ہیلتھ سائیکلوجی میں چھپنے والی اس ریسرچ میں منڈ نے بتایا کہ اپنے غصے کو دبا لینے والوں کی صحت کو زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے نسبتاً ان لوگوں کے جو خلاف مزاج باتوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں ۔
مسٹر منڈ نے اس تحقیق کے نتیجےمیں ایسے افراد کو جو کبھی دوسروں کے سامنے اپنے غصے کا اظہار نہیں کرتے ہیں انھیں جذبات کو دبانے والا یا ’ریپریسرز‘ کا نام دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’ان لوگوں کو باآسانی شناخت کیا جاسکتا ہے یہ اپنے محتاط رویے سے بیرونی خوف کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے ہیں اور اسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ وہ خود بھی لڑائی جھگڑے سے بچیں اور ماحول کو بھی خراب نہ کریں۔‘‘
مثال کے طور پر جب کبھی ان پر کوئی ایسی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے جو بہت اہم ہو تو ان کی دل کی رفتار کے ساتھ ان کی نبض کی رفتار میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے نسبتاً اس شخص کے جو منفی جذبات کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتا ہے۔
لیکن تحقیق دانوں کو کہنا ہے کہ یہ تحقیق مکمل طور پر ایسے لوگوں کے لیے بری نہیں ہے جو اپنے خفیہ راز بند بوتل میں چھپا کر رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان میں ممکنہ بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے تاہم ان کی یہ مضبوط قوت ارادی ان کی بیماری میں جلد ہی سدھار پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔

Tuesday 18 March 2014

سرکہ کے فوائد

سرکہ کے فوائد
سرکہ کو اسلام میں اہم مقام حاصل ہے جبکہ وہ متعینہ طریقہ پر تیار کیا گیا ہو۔بالکل اسی طرح جیسے سخاوت محبوب عمل ہے جبکہ فضول خرچی مبغوض ہے۔بہادری مستحسن جبکہ شیخی خوری قابل نفریں ہے۔ احتیاط برتنا اچھی چیز جبکہ بزدلی بری چیز ہے۔ماہرین کی آراء میں سب سے عام قسم ہے جو قدیم زمانے سے مستعمل ہے جبکہ شراب میں خمض الخلیکAcetic acid کے بیکٹیریا تخسیدoxidation کے ذریعہ اسے شراب کو سرکہ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ سب سے بہترین قسم کئی سال میں تیار ہوتی ہے جو لکڑی کے بڑے برتنوں میں تیار ہوتی ہے جبکہ یہ قسم مشرق وسطیٰ میں زیادہ استعمال ہوتی ہے۔
غربت اور افلاس کا حل:
ایک مشہور انگریزی کہاوت ہے کہ’دن بھر میں محض ایک سیب کا استعمال ڈاکٹر سے دور رکھتا ہے‘ وکٹوریائی عہد میں لوگوں کو انتہائی واضح اور سہل انداز میں صحت عامہ کا شاندار مشورہ دیا گیا تھاجبکہ وہ اپنے مشورے میں بہت درست تھے کہ ڈاکٹروں کو دور رکھنے کیلئے روزانہ ایک سیب کھائیں۔یہی کچھ سیب سے تیار سرکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سیب کا سرکہ نئی ایجاد ہے جبکہ اس کا استعمال کافی پرانا ہے۔ایسے میں جبکہ ہر کس و ناکس غدائی اشیاء کی گرانی ‘غربت اور افلاس کا رونا رورہا ہے ‘ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یوں فرمایاکہ’ سرکہ کتنا اچھا سالن ہے۔‘ حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا روایت فرماتی ہیں کہ ہمارے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا کہ’ کیا تمہارے پاس کھانے کیلئے کچھ ہے ؟‘تو میں نے کہاکہ’نہیں، البتہ باسی روٹی اور سرکہ ہے۔‘ فرمایا کہ’اسے لے آؤ۔ وہ گھر کبھی غریب نہ ہوگا جس میں سرکہ موجود ہے۔‘مسلمانوں کیلئے سرکہ کی بطور غذا اور دوا کافی اہمیت ہے۔ اس کا ذکر احادیث میں آیا ہے۔
کیاہوتا ہے سرکہ؟
سوال یہ پید اہوتا ہے کہ آخر یہ سرکہ کیا چیز ہے؟عربی‘فارسی اور اردومیں بیک وقت ایک ہی نام سے معروف سرکہ یاVinegarایک تیزابی مادہ ہوتا ہے جو عام طور پر ایتھنول یاشراب کی تبخیر سے تیار کیا جاتا ہے۔ اسے آپ شراب کی اگلی شکل کہہ سکتے ہیں۔ انگور، گنا، جامن، سیب وغیرہ میں سے کسی کو برتن میں رکھ کر دھوپ میں رکھ کر بھی تیار ہو سکتا ہے جس میں اصل میں پھل سڑ کر سرکہ بنتا ہے۔ طب اسلامی، چینی طب وغیرہ میں فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔ بعض احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعہ اس کے فوائد بیان کئے جاتے ہیں۔ یہ مسامات میں آسانی سے نفوذ کرتا ہے اس لئے بعض ادویہ کو سرکہ میں ملا کر دیا جاتا ہے۔
سرکہ کی اہمیت:
حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکہ عقل کو تیز کرتا ہے اور اس سے مثانہ کی پتھری گل جاتی ہے۔اس کے علاوہ مسلم اطبانے اس کے بارے میں بہت لکھا ہے۔ مثلاً بو علی سینا کہتے ہیں کہ روغن گل میں ہم وزن سرکہ ملا کر خوب ملائیں۔ پھر موٹے کپڑے کیساتھ سرکہ کو رگڑ کر سر کے گنج پر لگائیں۔ انہی کے ایک نسخہ میں کلونجی کو توے پر جلا کر سرکہ میں حل کرکے لیپ کرنے سے گنج ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اسی مقصد کیلئے ادرک کا پانی اور سرکہ ملا کر لگانا بھی مفید ہے۔ بال اگانے کیلئے کاغذ جلا کر اس کی راکھ سرکہ میں حل کرکے لگانے کے بارے میں بھی حکمانے ذکر کیا ہے۔
کیسے اور کہاں بنا؟
اور ہزاروں سال سے اس کو کیسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سرکہ بنی نوع انسان کیلئے ایک تحفہ ہے کیونکہ یہ قدرتیطور پر بننا ہے۔ سرکہ کی تاریخ دس ہزار10000 سال پرانی ہے موجودہ دور کی طرح اس زمانے میں بھی سرکہ چیزوں کو محفوظ کرنے، حسن کی حفاظت، گھریلو صفائی اور ادویات بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ سرکہ کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ vinum سے ماخوذ ہے جس کے معنی کھٹائی ‘‘Khatai’’ ہیں۔ BC 5000 میں Babylonians نے کھجور کا مربہ اور پھر کھجور کا سرکہ بنایا۔ بعد میں Romans نے انگور، انجیر اور کھجور سے سرکہ تیار کیا۔ اس کی مدافعتی خوبیوں کی وجہ سے Julius Caesar اور اس کی فوج پانی میں سرکہ ملا کر پیا کرتیتھے۔ BC 400 میں قدیم یونانی Hippocrates جس کو ‘The father of modern medicine’ کہا جاتا ہے اس نے سیب کے سرکہ اور شہد کو ملا کے بہت سی بیماریوں کی دوا بنائی۔
اجزا اور تیاری:
اس کے بنیادی اجزامیں خمض الخلیک Acetic acidشامل ہوتا ہے۔ قدرتی طور پر بنائے ہوئے سرکہ میں تارتارک تیزابTartaric acid اور سیٹرک تیزابCitric acid بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کی کثافت 0.96 گرام فی ملی لیٹر ہوتی ہے۔ قدرتی طور پر اسے شراب سے تیار کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں میں شراب حرام ہے مگر سرکہ کو حلال کیا گیا ہے۔ اصل میں شراب میں خمض الخلیک Acetic acid کے بیکٹیریا تخسید oxidationکے ذریعے اسے شراب کو سرکہ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ شراب کی جگہ سڑے ہوئے پھلوں کا رس بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ شراب شراب نہیں رہتی اور سرکہ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس میں نہ نشہ رہتا ہے نہ شراب کی خبیث خصوصیات۔ اسے مصنوعی طریقہ سے بھی بنایا جا سکتا ہے جس میں ایک سست عمل کہلاتا ہے اور ایک تیز رفتار طریقہ بھی ہے۔ سست عمل سے بہتر اور روائتی سرکہ تیار ہوتا ہے لیکن اس کیلئے بھی کچھ سرکہ یا محلول ملانا پڑتا ہے جس میں خمض الخلیک Acetic acid کے بیکٹیریا شامل ہوں۔اس کی قسمیں ہوتی ہیں:
جو کا سرکہ:
اسے جو سے تیار کیا جاتا ہے۔ جو میں موجود نشاستہ کو مالٹوز میں تبدیل کیا جاتا ہے جس سے سرکہ بنتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے جو کی شراب سے تیار کیا جا سکتا ہے
گنے کا سرکہ:
سرکہ گنے کے رس سے بھی تیار کیا جاتا ہے۔ یہ قسم ہند‘ پاک میں عام طور پر میسر ہے۔
پھلوں کا سرکہ:
سرکہ کو بے شمار پھلوں سے بھی تیار کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر کھجوریں، سیب، ناریل، کشمش وغیرہ استعمال ہوتی ہیں۔ سادہ الفاظ میں مختلف پھلوں کی شراب کو سرکہ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ شراب شراب نہیں رہتی اور سرکہ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس میں نہ نشہ اور شراب کی بری خصوصیات باقی نہیں رہتیں۔
شہد کا سرکہ:
یہ قسم کمیاب ہے۔ زیادہ تر فرانس اور اطالیہ میں ملتی ہے۔
سیب کا سرکہ :
سیب کے سرکہ میں پوٹاشیم، کیلشیم، میگنیشیم، فاسفورس، کلورین، سوڈیم، کاپر، آئرن اور وٹامن کی کافی مقدار پائی جاتی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سیب کے سرکہ میں موجود پوٹاشیم دل کی بیماری اور بلڈپریشر میں مفید ہے۔ روزانہ ایک گلاس پانی میں ایک چائے کا چمچ سیب کا سرکہ ملا کر پی لیا جائے تو اس میں موجود پوٹاشیم خون کو پتلا کر کے بلڈپریشر کو کنٹرول رکھتی ہے۔
ہارٹ اٹیک سے تحفظ:
اکثر ہارٹ اٹیک خون میں کولیسٹرول اور چکنائی کی زیادتی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ AV میں پائے جانے والا فائبر کولیسٹرول اور چکنائی کو جذب کر کے فاسد مادے کے طور پر جسم سے خارج کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ AV میں موجود Dietary Fiber خون میں Glucose لیول کو بھی کنٹرول رکھتا ہے اس لحاظ سے یہ ذیابطیس میں بھی فائدہ دیتا ہے۔نبی کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سیب کے سرکہ کے استعمال کو فائدہ مند قرار دیا ہے اور اس کے بے شمار فائدے بیان فرمائے ہیں۔ کچھ لوگوں کو رات کو سوتے ہوئے ٹھنڈا پسینہ آتا ہے ایسے افراد سونے سے پہلے اپنے جسم پر سیب کے سرکہ کا مساج کریں تو پسینہ کی شکایت دور ہوجائے گی۔ Vomiting اور Diarrhea سے بچاؤ کیلئے چار دن تک دو چمچ سیب سرکہ ایک گلاس پانی میں ملا کے کھانے سے پہلے پی لیں۔ انسونیمیا کیلئے3 چمچہ سیب کا سرکہ ایک کپ خالص شہد میں حل کریں اور سونے سے قبل اور ہر آدھا گھنٹہ بعد ایک چائے کا چمچ استعمال کریں۔ جل جانے کی صورت میں متاثرہ حصہ پر دن میں دو مرتبہ سرکہ لگائیں۔ گلے میں خراش کی صورت میں پانی میں ڈال کر غرارے کرنے سے افاقہ ہوتا ہے۔
رکھیں احتیاط:
سیب کا سرکہ چونکہ ترش ہوتا ہے سو یہ دانتوں کیلئے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے اس کے استعمال کے بعد دانتوں کو برش کرنا بہتر ہے۔
دوران خون:
سرکہ کے فوائد ہزاروں سال سے معلوم ہیں۔ جدید طب میں اس پر کچھ تحقیق بھی ہوئی ہے۔ جدید طب میں اسے واضح طور پر کولسٹرول اور ٹرائیگلیسرائیڈ Triglyceride کم کرنے کیلئے فائدہ مند مانا گیا ہے۔ یہ بھی پایا گیا کہ دل کے امراض میں ایک واضح کمی اس گروپ میں ہوئی جو سلاد میں سرکہ اور زیتون کے تیل کا استعمال کرتے تھے۔
ذیابیطس:
سرکہ کا استعمال جدید تحقیق میں ذیابیطس اور خون میں گلوکوز کی مقدار کو درست کرنے کیلئے فائدہ مند پایا گیا ہے۔ انسولین کی دریافت سے پہلے اسے اس مرض کیلئے استعمال کروایا جاتا تھا۔ جدید طبی تحقیق کے کئی تجربات میں اسے خون میں گلوکوز کی مقدار Triglycerideکم کرنے کیلئے واضح طور پر موثر مانا گیا ہے۔ یہ اثر نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں میں نہیں پایا گیا بلکہ تندرست افراد میں بھی پایا گیا۔ بعض دیگر جدید طبی تجربات میں یہ پایا گیا کہ سرکہ کا کھانے میں کچھ عرصہ مسلسل استعمال خون میں شکر کی مقدار کو 30 فی صد تک کم کر کے ذیابیطس کو بہتر کرتا ہے اور یہ اثر قائم رہتا ہے۔
قدرتی حسن کا ذریعہ:
سیب کا سرکہ قدرتی خوبصورتی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ کم وقت میں چہرے کو نرم و ملائم کرنے کیلئے اپنے چہرے پر چند قطرے سیب کے سرکہ سے مساج کریں۔ نہاتے ہوئے ایک کپ سیب کا سرکہ باتھ پانی میں شامل کر لیں یہ جسمانی تھکاوٹ دور کرنے میں مدد کرتا ہے، جلد کو نرم و ملائم کرتا ہے اور بالوں میں چمک آتی ہے۔ ہربل ماہرین کے مطابق فیشل میں بھاپ لیتے ہوئے پانی میں چند قطرے سیب کا سرکہ ڈالیں یہ جلد کی گہرائی تک صفائی کر کے اسے چمکدار اور صحت مند کرتا ہے۔ زمانہ قدیم میں وزن کم کرنے کیلئے سیب کا سرکہ Egyptians کی خوراک کا اہم جزو رہا ہے۔ نہار منہ ایک چمچ سیب کا سرکہ ایک گلاس پانی میں ملا کر پینا، یا ہر کھانے سے پہلے پینا وزن کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ کیونکہ یہ حراروں کو جلاتا ہے اگر سیب کا سرکہ ترشی کی وجہ سے پینا مشکل لگے تو اس میں مٹھاس کیلئے ایک چائے کا چمچ شہد بھی ڈالا جا سکتا ہے۔
نظام انہضام:
طبی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سرکہ کا کھانے میں استعمال اس احساس کو بڑھا دیتا ہے کہ اب بھوک نہیں یعنی انسان کم کھاتا ہے اور اس طرح نظام انہضام بہتر رہتا ہے۔

زیادہ سراہنا بچوں کی شخصیت کو بگاڑ سکتا ہے: رپورٹ

زیادہ سراہنا بچوں کی شخصیت کو بگاڑ سکتا ہے: رپورٹ

بزرگوں کے تجربات بچوں کی پرورش کرنے میں ہمیشہ سےمددگار ثابت ہوئے ہیں اور ساتھ ہی بچوں کے ماہر ڈاکٹر اور اساتذہ کے مشورے اس فرض کی ادائیگی میں والدین کے کام آتے ہیں۔ ادھر، کچھ ترقی یافتہ ملک، جن میں برطانیہ بھی شامل ہے، حکومت کی جانب سے والدین کو مثبت رویہ اپنانے کا پابند بنایا گیا ہے، جہاں بچوں کی تربیت کرنے میں سزا کا حربہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

گذشتہ ہفتے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ‘لندن اسکول آف اکنامکس’ کی ایک تجزیہ کار نے کہا ہے کہ بچوں کی بہتر تربیت کرنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر سے دادی اور نانی کے آزمائے ہوئے مشوروں کی ضرورت ہے۔

فیملی لا کی ماہر، ہیلن رییس اپنی رپورٹ میں کہتی ہیں کہ غلطیاں کرنے پربچوں کو سزا نہ دینے کا رویہ بچوں کی تربیت کو متاثر کر رہا ہے، تو دوسری جانب، ہر چھوٹی بات پر والدین سے تعریف وصول کرنے والے بچے کی شخصیت کو بے جا ستائش نقصان پہنچا رہی ہے، جس سے بچے کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھنے کا موقع نہیں مل رہا، جبکہ، اُن کے خیال میں، سزا بچے کو اپنی غلطی کا احساس دلاتی ہے۔

رییس کہتی ہیں کہ بچوں کی تربیت کرنے کے لیے دیا جانے والا حکومتی فارمولا ‘پازیٹیو پیرنٹنگ’ مفروضے پر مبنی ہدایت نامہ ہےجس کے مطابق، ایک مثبت ماحول میں پرورش پانے والے بچے میں بری عادتیں پیدا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بچوں کے منفی پہلو کو نظر انداز کرکےصرف مثبت پہلو کو سراہنے کا رویہ والدین کی مشکلات میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے،جہاں وہ صرف اس مفروضے کی کامیابی کی امید کر سکتے ہیں۔

انھوں نےحکومت کی جانب سے والدین کو دی جانے والی معلومات (اچھے والدین بننےکا کتابچہ) پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ والدین ہر وقت خود کو اچھے والدین کی صورت میں پیش نہیں کر سکتے۔ انھیں بعض اوقات بچوں کو’نا’بھی کہنا پڑتا ہے جس کی بچوں کو عادت ہونی چاہیئے،جبکہ اس ہدایت نامے پر عمل کرنا والدین کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بنتا جا رہا ہے اور والدین اس کشمکش میں بچوں کی اچھی تربیت کرنے میں بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔

‘دا جرنل ایتھیکس اینڈ ایجوکیشن’ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں مسسز رییس نے تجویز پیش کی ہے کہ بچوں کی تربیت کا معاملہ والدین کی سمجھ بوجھ پر چھوڑ دینا چاہیے، کیونکہ وہ اپنے بچے کی فطرت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔انھیں خود ہی طے کرنا ہوگا آیا انھیں اپنے بچے کو سزا دینی چاہیئے یا نہیں۔ اس سلسلے میں ان پر کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہیئے۔ جبکہ، ان کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زیادہ نرمی دراصل بچوں کی شخصیت میں بگاڑ کا باعث بن رہی ہے، جس کا الزام والدین کی تربیت پر لگایا جاتا ہے۔ بلکہ، کئی بار ایسے والدین کو مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے جو اپنے بچوں کو بہت زیادہ نہیں سراہتے۔

اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے چلڈرن اینڈ یوتھ کے وائس چیرمین ایرک ہیسٹر کہتے ہیں کہ والدین کو سمجھنا ہوگا کہ بچوں کی بہتر تربیت کرنے کے لیے دنیا میں ان سے زیادہ مناسب شخص کوئی نہیں ہے۔

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی ؟

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی ؟
— نیند نہ آنے کی شکایت کو رات میں تارے گننے سے تشبہیہ دی جاتی جو عام طور پرمحبوب کی یاد میں گننے جاتے ہے۔ لیکن طبی ماہرین رات میں تارے گننے کی سائنسی توجہیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دور حاضر میں اس مرض کےعام ہونےکی سب سے بڑی وجہ الیکٹریکل لائٹس ( مصنوعی روشنی) خصوصاً اسکرین لائٹس کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔
نیند کی دواؤں کے ایک ماہر پروفیسر ‘چارلس زیسلر’ کہتے ہیں کہ برقی بلب اور الیکٹریکل مصنوعات مثلاً ٹیلی وژن ،کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فونزکی اسکرین سے خارج ہونے والی مصنوعی روشنیاں دراصل ہماری نیند کی خرابی کی ایک بڑی وجہ ہیں ۔
‘ہارورڈ میڈیکل اسکول’ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر زیسلرکا کہنا ہے کہ انسانی جسم کی قدرتی گھڑی Circadian Rhythm اسے دن کے آغاز پر جگاتی ہے اور رات کا اندھیرا پھیلنے پرنیند کی طرف راغب کرتی ہے لیکن، مصنوعی روشنیاں انسانی دماغ میں موجود اس قدرتی گھڑی کےتوازن کو بگاڑ دیتی ہیں جس سے ہمارے سونے اورجاگنےکا قدرتی عمل متاثر ہوتا ہے۔
‘جرنل نیچرل ‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کا مقصد مصنوعی روشنی کے استعمال سے لوگوں کے سونے کی عادت پر پڑنے والے مضراثرات سےبچاؤ کے لیئے انسانی رویےمیں تبدیلی لانا اور تکنیکی طریقوں کی مدد سے اس کا حل تلاش کرنا تھا ۔
پروفیسر زیسلرکا کہنا ہے کہ، وہ لوگ جو ہر روز رات میں نیند پوری نہیں کرتے ہیں ،ان میں فربہ ہونا، یاسیت، اسٹروک اور دل کے امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جبکہ نیند کی کمی بچوں میں توجہ میں کمی کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ مصنوعی روشنیاں انسانی دماغ میں نیند کے لیے بننے والے ہارمون Melatonin)) کے اخراج میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں جو انسانی جسم کو سونے میں مدد فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف اعصابی خلیہ Neurons)) (پیغام رسانی کا خلیہ )کو فعال بنا دیتی ہے جس سے جسم مزید چوکنا ہو جاتا ہے اور اس طرح یہ مصنوعی روشنیاں دماغ کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں کہ ابھی دن کا سماں ہے لہذا سونے کے عمل کو مزید ٹالا جا سکتا ہے ۔
وہ لکھتے ہیں کہ ، برقی بلب کی روشنی سے کہیں زیادہ کمپیوٹر اوراسمارٹ فونز کی ‘ایل ای ڈی ‘ لائٹس سونے کے قدرتی نظام کو متاثر کرتی ہیں ،جو دماغ میں موجود کمیکلز پرکیفین کی طرح اثرکرتی ہیں اور رات دیرتک جاگنے پر اکساتی ہیں۔
” لوگوں کی نیند پوری نہ ہونے کے پیچھےکئی عوامل کار فرما ہیں جن میں صبح سویرے کام پر جانا، ثقیل غذائیں، مشروبات اور کیفین لینے کی عادت شامل ہے لیکن ہم اکثر جاگنےکی سب سے بڑی وجہ الیکٹریکل لائٹس کو بالکل نظر اندازکر دیتے ہیں جو جسم کی قدرتی گھڑی کو کسی دوا سے بھی زیادہ متاثر کرتی ہیں ۔”
پروفیسر زیسلر کے مطابق، 1950 سے 2000 کے عرصے میں ایک عام برطانوی باشندے کی زندگی میں مصنوعی روشنیوں کا استعمال چار گنا زیادہ بڑھ گیا ہے ،جس کےساتھ نیند نہ آنے کے مرض کی شکایت بھی عام ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ، ماڈرن دورمیں لوگوں کی مصروفیات کا سلسلہ دن کے بعد رات میں بھی جاری رہتا ہےبہت سے لوگوں کو رات میں کئی بار ای میل چیک کرنے کی عادت ہوتی ہے تو کچھ لوگ رات میں ٹی وی پروگرام دیکھنا پسند کرتے ہیں اور اس دوران انھیں آدھی رات بیت جانے کا احساس تک نہیں ہوتا ہے ۔
ایک امریکی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 30 فیصد کام کرنے والے امریکی اور 44 فیصد رات کی شفٹ میں کام کرنے والے افراد اوسطاً 6 گھنٹے سے کم نیند لیتے ہیں جبکہ پچاس برس قبل صرف 3 فیصد امریکیوں میں یہ شکایت پائی جاتی تھی اسی طرح دنیا بھرکے بچوں میں بھی 1 یا 2 گھنٹے نیند کم لینے کا رجحان نظر آتا ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ ” ٹیکنالوجی نے ہمارے دن کے 24 گھنٹوں میں سونے اور جاگنے کے معاملات کو بدل کر رکھ دیا ہے رات میں دیر سے بیڈ پر جانا اورصبح سویرے اٹھتے ہی خود کو جگائے رکھنے کے لیے چائے اور کافی پینے کی عادت سے ہماری نیند کا دورانیہ مزید سکڑتا جا رہا ہے۔”

Monday 17 March 2014

پڑھائی میں بہترین نتائج کے لیے ورزش ضروری ہے: تحقیق


پڑھائی میں بہترین نتائج کے لیے ورزش ضروری ہے: تحقیق

— طلبہ کے لیے صرف کتابوں میں سر دینا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک نئی تحقیق کے مطابق وہ طلبہ جو باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں، پڑھائی میں اپنے دیگر ہم عصر طالبعلموں کی نسبت کلاس روم میں ذہنی طور پر زیادہ چاق و چوبند اور مستعد رہتے ہیں۔

انگلستان کی دو یونیورسٹیوں میں ہونے والی اس تحقیق میں اس بات پر زور دیا گیا کہ جتنی دباؤ والی ورزش کی جائیگی، اس کے نتائج اتنے ہی بہتر ثابت ہوں گے اور سخت ورزش کرنے والے طالبعلم انگریزی، ریاضی اور سائنس جیسے مضامین میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔

اس تحقیق کے لیے 5,000 بچوں پر مشتمل ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔ ان بچوں کی جسمانی سرگرمیوں کو مانیٹر کیا گیا اور پھر انہیں انگریزی، ریاضی اور سائنس پر مشتمل ٹیسٹ کرنے کو دئیے گئے۔

تحقیق دانوں کے مطابق ایک بچے کی تعلیمی کارکردگی میں بہت سے دیگر عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں جیسا کہ پیدائش کے وقت اس کا وزن، پیدائش کے وقت بچے کی ماں کی عمر، آیا ماں نے دوران ِ حمل سگریٹ نوشی کی یا نہیں، کیا بچہ بلوغت کو پہنچ گیا ہے، بچے کا وزن وغیرہ وغیرہ۔

تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ 11 سال کی عمر میں طالبعلموں کی سکول میں کارکردگی کا براہ ِ راست تعلق اس جسمانی ورزش کی روٹین سے تھا۔ بطور ِ خاص جو طالبات ورزش کرتی تھیں، ان میں سائنسی مضامین میں اچھے نمبر لینے کا رجحان نوٹ کیا گیا۔

ناشتہ کریں اور دل کے دورے سے بچیں

ناشتہ کریں اور دل کے دورے سے بچیں
ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ صحت مند رہنے کے لیے صبح کا ناشتہ بہت ضروری ہے۔ لیکن، نئی تحقیق میں ناشتے کی افادیت کی ایک اہم وجہ بتائی گئی ہےکہ ناشتہ ہمارے دل کی صحت کے لیے بہت مفید ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ باقاعدگی سے صبح کا ناشتہ چھوڑنے کی عادت رکھنے والے مردوں میں دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
‘ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ ‘ کے ماہرین کہتے ہیں کہ ‘سولہ برس’ پر مبنی ایک مطالعاتی مشاہدے کا نتیجہ بتاتا ہے کہ جن مردوں کو باقاعدگی سےصبح کا ناشتہ کرنے کی عادت نہیں تھی ان میں دل کے دورہ پڑنے کا خطرہ 27 گنا زیادہ پایا گیا نسبتا ان مردوں کے جو پابندی سے صبح کا ناشتہ کرنے کی عادت رکھتے تھے۔
ماہرین کی رائے میں صبح کا ناشتہ چھوڑنا اور رات میں دیر سے کھانا کھانا ہمارے جسم کے میٹا بولزم میں تبدیلیاں پیدا کرتا ہے جس سے کورونری ہارٹ کی بیماری کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
طبی رسالے’سرکولیشن’ میں شائع ہونے والی تحقیق میں 45 برس سے 82 برس کے 27 ہزار مردوں کو شامل کیا گیا اور ان کےدن بھرمیں کھانے پینے کے معمولات اور لائف اسٹائل سے متعلق معلومات کا ریکارڈ تیار کیا گیا ۔
ماہرین کے مطابق ، مشاہدے کے دوران 15,72 مردوں کو دل کا دورہ پڑا اور دل کے رکنے کے واقعات پیش آئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ناشتہ چھوڑنے سے دل کے دورے کا خطرہ 27 گنا بڑھ جاتا ہے لیکن خطرے کی اس شرح میں لوگوں کی صحت پر اثرا نداز ہونے والے دیگر عوامل مثلا سگریٹ نوشی، ورزش اور صحت کے مسائل کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔
اسی طرح، جو لوگ رات میں دیر سے کھانا کھانے کی عادت رکھتے تھے ان میں دل کی شریانوں کی بیماری کا خطرہ 55 گنا زیادہ پایا گیا ان لوگوں کے مقابلے میں جو یہ عادت نہیں رکھتے تھے۔
تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ ناشتہ چھوڑنے سے دن میں شدید بھوک لگتی ہے اور عام طور پر ایسی حالت میں خوراک کی زیادہ مقدار کھالی جاتی ہے جس سے جسم پر اضافی دباؤ پڑتا ہے جو ہارمون کی سطح اور خون میں موجود گلوکوز کی سطح پر اثر انداز ہوتا ہے اور یہی وجہ آگے چل کردل کی رگوں کوبند کرنے کا سبب بنتی ہے۔
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ناشتہ چھوڑنے والے زیادہ تر افراد غیر شادی شدہ اور سگریٹ نوشی کرنے کی عادت رکھتے تھے اور ان مردوں سے نسبتا کم عمر تھے جو پابندی سے ناشتہ کرنے کی عادت رکھتے تھے۔
تحقیق کی سربراہ’ لیا کیحل ‘کا کہنا تھا کہ ،” ناشتہ چھوڑنا بلند فشار خون، ہائی کولیسٹرول ،فربہ ہونا اور ذیا بیطس جیسی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے اور یہ عوامل آگے چل کر دل کی بیماری میں مبتلا کر سکتے ہیں۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ ،تحقیق میں پابندی سےصبح کا ناشتہ کرنے والے مردوں میں دن بھر میں ایک اضافی کھانا کھانے کی عادت نظر آئی نسبتاً ان لوگوں کے جو صبح کا ناشتہ چھوڑ دیتے ہیں جبکہ جو لوگ ناشتہ نہیں کرتے وہ دن بھر کے کھانوں سے بھی ناشتے جیسی غذائیت حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔
ہارورڈ اسکول کی پروفیسر، ایرک ریم کے مطابق، ‘مشاہدے کا نتیجہ یہ تجویز پیش کرتا ہے کہ صحت کے حوالے سے یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ کیا کھایا جائے لیکن یہ بھی بہت ضروری ہے کہ خوراک کو دن بھرکے مختلف اوقات میں تقسیم کر کے کھایا جائے۔’
‘برطانوی ہارٹ فاونڈیشن’ سے منسلک وکٹوریہ ٹیلر نے تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ،’صبح سویرے ناشتہ چھوڑنا بہت آسان ہے لیکن تحقیق کا نتیجہ ثابت کرتا ہے کہ اس عادت کا ہماری صحت پر گہرا اثر پڑتا ہے، جس کے بارے میں ہمیں سوچنا چاہیے۔’
تحقیق کی سربراہ لیا کیحل کہتی ہیں کہ پیغام بہت سادہ ہے کہ،’ناشتہ نہ چھوڑا جائے کیونکہ ناشتہ کھانے سے دل کے دورے کا خطرے کم ہو جاتا ہے’۔

Sunday 16 March 2014

دانتوں کے امراض وجوہات

دانتوں کے امراض وجوہات
دانتوں کے امراض کا سبب منہ ميں موجود ايسے بيکٹريا ہوتے ہيں جو دانتوں ميں بچ جانے والي خوراک کے ذرات سے ايسڈز (تيزاب) پيدا کرتے ہيں۔ خاص طور پر منہ ميں موجود شکر کے ذرات سے ان کي پيدائش بہت زيادہ ہوتي ہے۔ يہ ايسڈ براہِ راست دانتوں پر حملہ کرتے ہيں۔ جس سے دانتوں کي وہ مخصوص دھات جس سے دانت بنتے ہيں، کمزور پڑنے لگتي ہے۔ اس عمل کو (DEMINERALISATION) کہتے ہيں۔ اس صورتحال ميں منہ ميں موجود لعاب اور فلورائيڈ ايسڈز جو دانتوں کي حفاظت کا کام کرتے ہيں الٹے دانتوں کے دشمن بن جاتے ہيں اور يوں دانتوں کي تباہي کا آغاز ہوجاتا ہے۔
دنيا کے ماہرينِ دندان اس بات پر متفق ہيں کہ فلورائيڈ ٹوتھ پيسٹ کے استعمال سے 15 سے 30 فيصد تک دانتوں کے امراض ميں کمي آتي ہے اور بہت ممکن ہے کہ يہ تناسب اس سے بھي زيادہ ہو۔ بالغوں ميں 95 فيصد افراد ايسے ہيں جو مسوڑھوں کي خرابي کے شکار ہيں ليکن صرف 10 فيصد ايسے ہيں جنہيں سنجيدہ نوعيت کے امراض کا سامنا ہے۔ مسوڑھوں کي خرابي يا بيماري کے دوران مسوڑھے سوج جاتے ہيں اور دانتوں کو برش کرتے وقت ان سے خون آتا ہے۔ اس مرض کو طبّي زبان ميں (GAINGIVTIS) کہا جاتا ہے۔ اس بيماري کي ايڈوانس شکل يہ ہے کہ يہ دانتوں کي ہڈي ريشے اور جڑوں پر حملہ کرتي ہے۔
ماہرين کے مطابق لعاب يا تھوک منہ ميں موجود قدرتي دفاعي نظام ہے جو دانتوں کو مختلف امراض سے روکتا ہے۔ يہ دانتوں پر (PALQUE) جمنے نہيں ديتا بلکہ دانتوں کے لئے غسل کا کام ديتا ہے اور غذا کوہضم کرنے ميں بھي نہايت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور مزيد يہ کہ منہ ميں بچ جانے والي شکر کي صفائي بھي کرتا ہے۔ پھل، سبزياں، پنير اور شکر سے پاک چيونگم کے استعمال سے لعاب کے فائدہ مند اثرات مزيد بڑھ جاتے ہيں۔
مسوڑھوں کي سوزش کيا ہے
مسوڑھوں کي خرابي يا سوزش جيسے مرض کي علامات بہت چھپي ہوئي ہوتي ہيں۔ اسي لئے اس کا اندازہ لگانا عام طور پر مشکل ہوتا ہے۔ کيونکہ ابتدائ ميں مسوڑھوں کي ظاہري حالت ميں کوئي فرق نہيں آتا ليکن اس دوران بيکٹريا مسوڑھوں کي اندروني بافتوں يا ٹشوز کو تباہ کرنا شروع کرچکا ہوتا ہے مگر يہ نظر نہيں آتا چنانچہ کيسے اندازہ لگايا جائے کہ آپ اس کا شکار ہوچکے ہيں۔ آئيے ہم آپ کي اس ضمن ميں ممکنہ حد تک رہنمائي کرتے ہيں۔
اگر آپ کے مسوڑھے مرض ميں مبتلا ہوچکے ہيں تو برش يا فلاز (FLOSS) کرتے وقت ہوشيار رہيں۔ آپ کے مسوڑھوں کے نيچے کوئي مرض پروان چڑھ رہا ہے جو آہستہ آہستہ تمام مسوڑھوں کو اپني گرفت ميں لے سکتا ہے۔ چنانچہ اس سے پہلے کہ ايسي نوبت آئے آپ ڈاکٹر سے رجوع کريں۔
مسوڑھوں کے مرض کي دوسري قسم زيادہ نماياں ہے۔ بيکٹريا مسوڑھوں کے ريشوں کے انتہائي اندر تک چلا جاتا ہے اور جسم کے دفاعي نظام کو کمزور کر ديتا ہے۔ اس وقت تک کبھي مريض کو کوئي سخت قسم کا دردمحسوس نہيں ہوتا۔ اکثر لوگ اس صورتِ حال کا شکار ہونے کے باوجود اندازہ نہيں کر پاتے کہ ان کے مسوڑھے تباہي کي جانب گام زن ہيں۔ اس دوران دانتوں کے درميان ريشے سوجے ہوئے محسوس ہوتے ہيں اور مسوڑھوں کا نچلا حصہ ہلکا سياہ پڑ جاتا ہے اور بہت ممکن ہے کہ جب برش کيا جائے تو خون پہلے کي نسبت زيادہ آنے لگے۔ يہاں تک کہ بہتر سے بہتر دانتوں کي کريم اور پيسٹ کے استعمال سے بھي خون کي زيادتي ميں کوئي فرق نہيں آتا۔
بيماري کي تيسرے مرحلے پر مسوڑھوں کي سوجن اور ان کي سرخ رنگت زيادہ واضح ہوکر سامنے آجاتي ہے۔ ہر شخص آساني سے اندازہ لگاسکتا ہے کہ وہ مسوڑھوں کي خرابي سے دوچار ہے۔ نہ صرف وہ خود بلکہ گفتگو کے دوران متعلقہ شخص کے منہ سے ناگوار بو بھي محسوس کي جاسکتي ہے۔ اس سطح پر اگر علاج نہ کرايا جائے تو دانتوں کے مکمل ضائع ہوجانے کا احتمال بڑھ جاتا ہے کيونکہ اس دوران بيکٹريا مکمل طور پر مسوڑھوں کے اندر اور باہر پھيل چکا ہوتا ہے اور ايسے ايسڈز انتہائي تيز رفتاري سے پيدا کر رہا ہوتا ہے جو دانتوں کو مکمل طور پر تباہ کرديں۔
مناسب احتياط
يہ سچ ہے کہ اکثر بيکٹريا مسوڑھوں کے نيچے پرورش پاتے ہيں اور اکثر اوقات مہنگے سے مہنگے پيسٹ کي بھي پہنچ سے دور رہتے ہيں اور ان کي غذا کا بڑا ذريعہ دانتوں ميں پھنسي ہوئي خوراک ہوتي ہے۔
يہ بيکٹريا ايسے مادے خارج کرتے ہيں جو مسوڑھوں کے نرم ريشوں کو تباہ کر کے رکھ ديتے ہيں۔ اس کے علاوہ يہ مسوڑھوں کے اندروني ريشوں کو بھي شديد نقصان پہنچاتے ہيں۔ مسوڑھوں کے اندروني ريشے بھي بيروني ريشوں کي طرح نرم ہوتے ہيں اور بيکٹريا سے خارج ہونے والے خطرناک کيميکل سے خود کو بچانے ميں ناکام رہتے ہيں۔ بيکٹريا مسوڑھوں اور دانتوں ميں موجود درزوں کو جائے پناہ بناتے ہيں اور يہ ان کي سب سے محفوظ پناہ گاہ ہوتي ہے۔ ان ميں سے بعض بيکٹريا کي افزائش نسل اس قدر تيزي سے ہوتي ہے کہ وہ چند گھنٹوں ميں لاکھوں کي تعداد تک پہنچ جاتے ہيں۔
ہارمونل تبديل (HORMONAL CHANGE) ايسے افراد جو وبائي يا دائمي امراض کا شکار ہوں جيسے ايڈز، ذيابيطس وغيرہ ان ميں بيکٹريا کے بڑھنے کي رفتار عام لوگوں سے کہيں زيادہ ہوتي ہے جس سے ان کے مسوڑھے جلد خراب ہوجاتے ہيں۔ چند خواتين ميں حمل کے دوران يا دورانِ حيض بھي ہارمونز کي تبديلي مسوڑھوں کي سوزش اور ان کي رنگت گہري سرخ ہوجاتي ہے۔ تاہم عام طور پر اس دوران عام احتياط سے ہي مسئلہ حل ہوجاتا ہے ليکن بدستور غفلت سنگين مسائل سے دوچار کرسکتي ہے۔
دانتوں کے ماہرين کي رائے ميں اگر دانتوں پر پليک (PLAQUE) مسوڑھوں کي بيماري پيدا کرنے والے مکلس جرثومے اور (TARTAR) کيلشيم فاسفيٹ پر مبني زردي مضبوطي سے جم گئي ہو اور وہ کسي پيسٹ سے دور نہ ہوتي ہو تو ڈينٹسٹ کے پاس جانا ضروري ہوجاتا ہے۔
اگر بچہ دانت کے درد کي شکايت کرتا ہے تو اسے فوراً ماہر کے پاس لے جائيں۔ جو بچہ انگوٹھا چوستا ہو اسے اس عادت سے بہرطور نجات دلائيں۔ داتوں ميں اگر کوئي خلا پيدا ہوجائے تو کسي ماہر سے فوراً پُر کرائيں اور اسے بڑھنے نہ ديں۔
آرتھوڈونٹسٹ اور ڈينٹسٹ سے آپ کا رابطہ رہنا چاہيے۔ وقتاً فوقتاً دانتوں کا چيک اپ کراتے رہيں۔ ہميں يقين ہے کہ ہماري بتائي ہوئي تجاويز پر عمل کر کے نہ صرف آپ دانتوں اور مسوڑھوں کے مسائل سے ہميشہ دور رہ سکتے ہيں ان کے باعث لاحق ہونے والے ديگر امراض سے بھي محفوظ رہيں گے بلکہ زندگي ميں زيادہ اعتماد اور باوقار دکھائي ديں گے۔

Friday 14 March 2014

خون عطیہ کرنے کے بعد جسم میں خون کی بحالی کیسے ممکن بنائیں؟


خون عطیہ کرنے کے بعد جسم میں خون کی بحالی کیسے ممکن بنائیں؟

ہر سال ہزاروں نیک دل لوگ خون کا عطیہ دے کر انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ خیرات کے دیگر کاموں کے برعکس خون عطیہ کرنا ایسے ہے جیسے خود کا ایک حصہ دے کر کسی کی جان بچانا۔ بلکہ خون عطیہ کرنا ، اپنا گردہ عطیہ کرنے سے زیادہ اہم اور مشکل کام ہے۔ خون عطیہ کرنے کے بعد جسم کو خون کی مقدار بحال کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ پلازما لیول تو ۲۴ گھنٹے تک بحال ہو جاتا ہے تاہم خون کے سرخ ذرات کو بحال ہونے میں پانچ ہفتے لگ سکتے ہیں، علاوہ ازیں خون میں آئرن کی مقدار بحال ہونے کے لیے آٹھ ہفتے تک لگ سکتے ہیں۔ نیچے چند اہم تجاویز دی گئیں ہیں جو خون عطیہ کرنے کےبعد جسمانی نظام کی بحالی میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔

ایک
خون عطیہ کرنے سے ایک گھنٹہ قبل ایک سے دو گلاس پانی پی لیں۔ ایسا کرنے سے عطیہ کرنے کے دوران خون کے بہاو اور دباو کو متعدل درجہ پر رکھنا ممکن ہو تا ہے۔

دو
خون عطیہ کرنے کے بعد اسی دن میں مشروبات کے استعمال میں اضافہ کر دیں۔ غیر مسلم الکوحل والے مشروبات سے پرہیز کریں۔ اس سلسلے میں پیشاب کا رنگ ایک بنیادی پیمانہ رکھا جا سکتا ہے۔ اگر اس کا رنگ گہرا ہو تو اس کا مطلب ہے جسم میں پانی کی مزید ضرورت ہے۔

تین
خون عطیہ کرنے کے چند گھنٹے بعد مکمل کھانا کھائیں۔ کھانے میں موجود صحت بخش اجزاء جسم کو پلازما مقدار بڑھانے اور خون میں آئرن کی مقدار بڑھانے میں مدد کریں گے ۔

چار
خون عطیہ کرنے کے بعدکئی ہفتوں تک آئرن سے بھرپور غذا کا استعمال کریں۔ جیسے گوشت، گہرے سبز رنگ کے پتوں والی سبزیاں اور خشک میوہ جات اور خالص گندم۔ پروٹین سے بھرپور غذا بھی جسم کی بحالی میں بہت مفید ہے۔

پانچ
خون عطیہ کرنے کے بعد دو دن تک بھاری وزن اٹھانے سے گریز کریں۔ اور ذرا سی تھکن کی صورت میں فوری آرام کریں۔ انسانی جسم زیادہ تر پیداوری کام نیند کے دوران کرتا ہے، چنانچہ نیند کے معاملے میں لاپرواہی نہ کریں۔

بیٹے کی خواہش مند خواتین

بیٹے کی خواہش مند خواتین

اگر آپ بیٹے کی پیدائش کی خواہش مند ہیں تو کیلے اور آلو کو غذا کا حصہ بنائیں اور اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کے ہاں بیٹی پیدا ہو تو پھر سبزیوں کواپنی غذا کا حصہ بنائیں۔ ڈچ سائنس دانوں کی تحقیق کے مطانق سبزیاں کھانے سے بیٹی پیدا ہو تی ہے ۔عورتوں کا سبزیاں کھانا لڑکیوں کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔سائنس دانوں کا دعوٰی ہے کہ سبز سبزیوں میں کیلشیم اور میگنشیم کی بہت زیادہ مقدار سے لڑکی کی پیدائش کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔بیٹے کی خواہش مند خواتین کو پوٹاشیم اور سوڈیم سے بھرپور غذائیں کھانی چاہییں اور اس میں کیلا اور آلو کو غذا کا حصہ بنانا چاہیے۔غذا کا انتخاب بچے کی جنس کا تعین کرتا ہے۔یہ تحقیق برطانوی جریدے ’ری پروڈکٹو بائیو میڈیسن‘ میں شائع کی گئی۔

اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کیا ہیں؟


اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کیا ہیں؟
بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
یہ ادویات ڈپریشن کی علامات کودور کرتی ہیں۔یہ سب سے پہلےبیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں دریافت کی گئ تھیں اور تب سے مسلسل زیر استعمال ہیں۔آجکل تقریباً تیس کے قریب ادویات مو جود ہیں جو چار بڑی اقسام میں تقسیم کی گئ ہیں.
۱۔ ٹرائی سائکلک اینٹی ڈپریسنٹس
۲۔ مونوامیں آ کسیڈیز انہبٹرز
۳۔ سیلیکٹو سیروٹونن ری اپٹیک انہبٹرز
۴۔ سیروٹونن نارایڈرینلین ری اپٹیک انہبٹرز
یہ ادویات کس طرح کام کر تی ہیں؟
ہم یقینی طور پر تو نہیں جانتے لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ ادویات دماغ میں موجود بعض کیمیکلز کی کارکردگی کو بڑھاتی ہیں جنہیں نیورو ٹرانسمیٹرز کہتے ہیں۔ نیورو ٹرانسمیٹرز دماغ کے ایک خلیے سے دوسرے خلیے تک سگنل پہنچاتے ہیں۔ عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ دو کیمیکلز نارایڈرینلین اور سیروٹونین کا ڈپریشن سے گہرا تعلق ہے۔
اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کن بیماریوں میں استعمال کی جانی چاہیئیں؟
درمیانے درجے سے شدید درجے کا ڈپریشن
شدید گھبراہٹ اور گھبراہٹ کے دورے (اینگزائٹی اور پیَنک اٹیک)
وہم کی بیماری (آبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر)
طویل عرصےرہنے والے درد
ایٹنگ ڈس آرڈرز (وہ بیماریاں جن میں مریض بہت کم یا بہت زیادہ کھانا کھانے لگتے ہیں)
پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر ( شدید صدمےکے بعد پیدا ہونے والی نفسیاتی بیماری)
اگر آپ کو واضح نہ ہو کہ آپ کو اینٹی ڈپریسنٹ دوا کیوں تجویز کی گئی ہے تو اپنے ڈاکٹر سے رجوع کیجیے۔
یہ ادویات کس حد تک کار آمد ہیں؟
تین مہینے کے علاج کے بعد ڈپریشن کے جن مریضوں کو؛
اینٹی ڈپریسنٹ دوا دی جائے ان میں سے پچاس سے پینسٹھ فیصد تک لوگ بہت بہتر ہو جاتے ہیں
اسی رنگ کی لیکن اینٹی ڈپریسنٹ اثر نہ رکھنے والی گولی دی جائے ان میں سے پچیس سے تیس
فیصد تک لوگ بہت بہتر ہوتے ہیں
یہ حیران کن بات لگتی ہے کہ جن لوگوں کو بے اثر دوا دی جائے ان میں سے بھی کچھ لوگ بہتر ہو جاتے ہیں لیکن ایسا ان تمام ادویات کے ساتھ ہوتا ہے جو ہمارے جذبات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔درد کم کرنے والی ادویات کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔اینٹی ڈپریسنٹ ادویات فائدہ مند تو ہیں لیکن اور بہت ساری ادویات کی طرح ان سے کچھ فائدہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ ہم ان سے فائدے کی امید رکھتے ہیں۔
کیا اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے مضر اثرات ہوتے ہیں؟
جی ہاں۔ آپ کے ڈاکٹر کو اس بارے میں آپ کو معلومات دینی چاہیئیں۔ اگر آپ کو کوئی جسمانی بیماری ہو یا ماضی میں رہی ہو تو اپنے ڈاکٹر کو ضرور بتائیں۔مختلف طرح کی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے ساتھ مختلف مضر اثرات ہوتے ہیں۔
ٹرائی سائکلکس (مثلا ایمی ٹرپٹیلین، امیپرامین، ڈوتھائیپن، کلومپرامین وغیرہ)
اس گروپ کی ادویات کےعام مضر اثرات میں گلے کی خشکی، ہاتھوں میں کپکپاہٹ، دل کی دھڑکن تیز ہو جانا، قبض، نیند آنا اور وزن کا بڑھ جانا شامل ہیں۔عمر رسیدہ لوگوں میں یہ ادویات سوچنے میں دشواری، پیشاب کرنے میں رکاوٹ، بلڈ پریشر کم ہو جانے کی وجہ سے چکر آنا اور گر جانے کا سبب بن سکتی ہیں۔اگر آپ کو دل کی بیماری ہے تو بہتر ہو گا کہ آپ اس گروپ کی اینٹی ڈپریسنٹ نہ لیں۔مردوں کو ان ادویات سے جنسی کمزوریاں ہو سکتی ہیں۔ ٹرائی سائکلک اینٹی ڈپریسنٹ ادویات زیادہ مقدار میں لے لینے کی صورت میں خطرناک ہوتی ہیں۔
اسپیسیفک سیروٹونن ری اپٹیک انہیبیٹرز (ایس ایس آر آئیز) (مثلا فلو آسٹین، پیرآکسٹینِ ، سرٹرالین، سٹالوپرام وغیرہِ)
جب آپ ان ادویات کو لینا شروع کریں تو ہو سکتا ہے کہ پہلے چند ہفتوں میں آپ کو متلی محسوس ہو اور گھبراہٹ بڑھ جائے۔ اس گروپ کی بعض ادویات سے پیٹ خراب ہو سکتا ہے لیکن اگر آپ ان ادویات کو کھانے کے ساتھ لیں تو اس کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ یہ آپ کے جنسی عمل کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔بعض لوگوں میں یہ رپورٹ ہوا ہے کہ وہ ان ادویات کو لینے سے جھگڑے کرنے لگے لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوا ہے۔
سیروٹونن نار ایڈرینلین ری اپٹیک انہیبیٹرز (ایس این آر آئیز) (مثلا وینلافیکسین)
ان ادویات کے مضر اثرات بھی ایس ایس آر آئیز سے ملتے جلتے ہیں، لیکن اگر آپ کو دل کی شدید بیماری ہو تو آپ کو وینلافیکسین نہیں استعمال کرنی چاہیے۔اس سے بلڈ پریشر بھی بڑھ سکتا ہے اس لیے بلڈ پریشر کو چیک کرتے رہنے کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔
مونو امین آکسیڈیز انہیبیٹرز (ایم اے اوآ ئیز)
اس طرح کی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات آجکل بہت کم استعمال ہوتی ہیں۔ اگر ایم اے او آئیز ایک چیز ٹائرامین کے ساتھ لے لی جائیں تو بلڈ پریشر خطرناک حد تک بڑھ سکتا ہے۔اگر آپ ایم اے او آئی لینا شروع کریں تو آپ کا ڈاکٹر آپ کو کھانوں کی ایک فہرست دے گا جو آپ ان ادویات کے ساتھ نہیں کھا سکتے۔
مضر اثرات کی یہ فہرست پریشان کن لگتی ہے لیکن بیشتر لوگوں کو بہت کم مضر اثرات ہوتے ہیں یا ہوتے ہی نہیں۔ عام طور سے یہ مضر اثرات ہوں بھی تو چند ہفتوں میں ختم ہو جاتے ہیں۔لیکن آپ کو ان مضر اثرات کے بارے میں پتہ ہونا چاہیے تا کہ اگر آپ کو یہ ہوں تو آپ ان کو پہچان سکیں اور اپنے ڈاکٹر کو ان کے بارے میں بتا سکیں۔سب سے شدید مضر اثرات مثلا پیشاب میں رکاوٹ ہونا، یاد داشت کمزور ہو جانا ، گرنا،سوچنے میں دشواری ہونا، عام طور سے صحتمند جوان لوگوں میں نہیں ہوتے۔ بہت سے لوگوں کو ڈپریشن میں اپنے آپ کو نقصان پہنچانے یا اپنی جان لے لینے کے خیال آتے ہیں۔ اپنے ڈاکٹر کو بتائیے، جب آپ کا ڈپریشن ٹھیک ہوگا تو یہ خیالات خود ہی ختم ہو جائیں گے۔
کیا میں اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینے کے ساتھ گاڑی چلا سکتا ہوں یا مشینری آپریٹ کر سکتا ہوں؟
بعض اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینے سے نیند آتی ہے اور آپ کا ردَ عمل سست ہو جاتا ہے۔ پرانی ادویات سے ایسا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن بعض اینٹی ڈپریسنٹ ادویات ایسی ہیں جن کو لینے کے ساتھ آپ گاڑی چلا سکتے ہیں۔یاد رکھیے، ڈپریشن کی بیماری سے بھی لوگوں کی توجہ متاثر ہوتی ہے اور حادثات ہونے کے خطرے کو بڑھا دیتی ہے۔ اپنے ڈاکٹر سے اس سلسلے میں ضرور مشورہ کریں۔
کیا انسان اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا عادی ہو جاتا ہے؟
انسان اس طرح سے اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا عادی نہیں ہو سکتا جیسے کہ شراب، سکون آور ادویات یا نکوٹین کا عادی ہوجاتا ہے، مثلا یہ کہ
۔آپ کو فائدے کو برقرار رکھنے کے لیے مقدار کو بڑھاتے رہنے کی ضرورت نہیں پڑتی
۔ اگر آپ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کو لینا بند کر دیں تو آپ کو ان کی طلب پیدا نہیں ہو گی
لیکن جو لوگ ایس ایس آر آئیز کو لینا بند کرتے ہیں ان میں سے تقریبا ایک تہائی کو پیٹ کی خرابی، زکام کی طرح کی علامات، گھبراہٹ، چکر آنا، ۔گہرے یا ڈراؤنے خواب آنا، بدن میں بجلی کے شاک جیسی حسیات پیدا ہونا جیسی تکلیف دہ علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو ایس ایس آر آئیز بند کرنے سے بہت ہی کم تکلیف دہ علامات پیدا ہوتی ہیں، لیکن کچھ لوگوں کے لیے یہ بہت تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔دوا بند کرنے پہ ان تکلیف دہ علامات کا سب سے زیادہ امکان پیروکسیٹین اور وینلافیکسین کے استعمال سے ہوتا ہے۔ عام طور سے اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کو آہستہ آہستہ بند کرنا اچانک بند کرنے سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
ایس ایس آر آئیز، خود کشی کے خیالات اور کم عمر لو گ
اس بات پہ کچھ ریسرچ موجود ہے کہ بعض اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینے سے بچوں او ر ٹین ایج لوگوں میں خود کشی کے خیالات بڑھ جاتے ہیں(گو کہ خود کشی کے واقعات نہیں بڑھتے) اسی لیے بعض ممالک میں اٹھارہ سال سے کم عمر لوگوں کو ایس ایس آر آئیز دینے کی اجازت نہیں ہے۔ برطانیہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کلینیکل ایکسی لینس کا کہنا ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر لوگوں کو ایس ایس آر آئیز میں سے صرف فلو آکسٹین دی جا سکتی ہے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں ایس ایس آر آئیز لینے سے اپنے آپ کو نقسان پہنچانے کا خطرہ یا خود کشی کے خیالات بڑھتے ہیں۔
کیا حاملہ خواتین اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لے سکتی ہیں؟
بہتر ہوتا ہے کہ حمل کے زمانے میں، خصوصا پہلے تین مہینے میں کم از کم دوائیں لی جائیں۔ حال ہی میں کچھ ریسرچ آئی ہے کہ جن ماؤں نے حمل کے زمانے میں اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لی تھیں ان کے بچوں میں لچھ پیدائشی نقص تھے۔لیکن کچھ ماؤں کے لیے حمل کے زمانے میں اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینا ضروری ہوتا ہے اوریہ دیکھنا پڑتا ہے کہ دوائیں لینے میں زیادہ خطرات ہیں یا نہ لینے میں زیادہ خطرات ہیں۔ اس بات کا بھی ریسر چ سے کچھ ثبوت ملتا ہے کہ وہ نوزائدہ بچے جن کی مائیں حمل کے دوران اینٹی ڈپریسنٹ ادویات استعمال کرتی رہی ہیں انھیں پیدائش پر دوا اچانک بند ہونے کے مضر اثرات ہو سکتےہیں۔ان تکلیف دہ اثرات کا امکان پارآ کسیٹین نامی دوا سے زیادہ ہونے کا امکان ہے۔جب تک کہ ہمیں اس بارے میں اور زیادہ پتہ چلے بہتر ہے کہ ڈاکٹر حاملہ خواتین کے ڈپریشن کے علاج کے لیے متبادل طریقہ کار پر غور کریں۔
کیا بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لے سکتی ہیں؟
بہت سی خواتین کو بچوں کی پیدائش کے بعد ڈپریشن ہوجاتا ہے جسے پوسٹ نیٹل ڈپریشن (بچے کی ولادت کے بعد ڈپریشن) کہا جاتا ہے۔ عام طور سے یہ ڈپریشن کونسلنگ اور عملی مدد سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ ڈپریشن شدید ہو جائے تو مائیں تھکی تھکی رہتی ہیں، بچوں کو دودھ پلانا چھوڑ سکتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ نوزائیدہ بچے کے ساتھ ان کا تعلق صحیح طور سے نہ جڑے اور ہو سکتا ہے کہ بچے کی نشو نما صحیح رفتار سے نہ ہو۔ایسی صورت میں اینٹی ڈپریسنٹ ادویات فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔
دودھ پینے والے بچے پہ اس کی ماں کے اینٹی ڈپریسنٹ دوا لینے کا کیا اثر ہو سکتا ہے؟
دودھ پینے والے بچے میں ماں کے دودھ سے اینٹی ڈپریسنٹ دوا کی بہت ہی کم مقدار منتقل ہوتی ہے۔ چند ہفتوں سے زیادہ عمر والے بچوں کے جگر اور گردے بالکل صحیح کام کرنے لگتے ہیں۔ چونکہ وہ دوا کو اپنے بدن سےخارج کرنےکے قابل ہوتے ہیں اس لیے انھیں دوا سے بہت کم خطرہ ہوتا ہے۔ بعض اینٹی ڈپریسنٹ ادویات اس معاملے میں بعض دوسری ادویات سے زیادہ محفوظ ہیں اس لیے اپنے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کر لیں۔ ماؤں کے بچوں کو دوھ پلانے سے جتنے فائدے ہوتے ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے بہتر یہی ہے کہ مائیں اینٹی ڈپریسنٹ دوا لینے کے ساتھ دودھ پلانا جاری رکھیں۔
اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ کس طرح لی جانی چاہیئیں؟
اپنے ڈاکٹر کو دکھاتے رہیں۔ٹرائی سائکلکس کو عام طور سے کم مقدار سے شروع کر کےشروع کے
چند ہفتوں میں آہستہ آہستہ بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ پہلی دفعہ کے بعد ڈاکٹر کو دوبارہ نہ دکھائیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ بہت کم دوا لے رہے ہوں۔ ایس ایس آر آئیز کو آہستہ آہستہ بڑھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ جس مقدار میں دوا شروع کرتے ہیں عام طور سے بعد میں بھی اسی مقدار کو لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوا کو بتائی گئی مقدار سے زیادہ مقدار میں لینے سے فائدہ نہیں ہوتا۔
اگر آپ کو شروع میں دوا سے کچھ تکلیف دہ اثرات ہوں تو زیادہ پریشان نہ ہوں۔
زیادہ تر تکلیف دہ اثرات چند دنوں میں ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر تکلیف دہ اثرات برداشت کے قابل ہوں تو دوا بند نہ کریں۔ لیکن اگر یہ ناقابل برداشت ہوں تو اپنے ڈاکٹر سے فورا مشورہ کریں۔اگر آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہونے لگے تو اپنے ڈاکٹر کو بتانا ضروری ہے تا کہ وہ یہ فیصلہ کر سکے کہ یہ دوا آپ کے لیے مناسب ہے کہ نہیں۔اگر آپ کی بے چینی یا گھبراہٹ بڑھ رہی ہو تو اپنے ڈاکٹر کو ضرور بتائیں۔
دوا روزانہ لیں۔ اگر آپ دوا روزانہ نہیں لیں گے تو آپ کو اس کا فائدہ بھی نہیں ہو گا۔
دوا کا فائدہ شروع ہونے کا انتظار کریں۔ یہ دوائیں پہلی خوراک لیتے ہی کام شروع نہیں کر دیتیں۔زیادہ
تر لوگوں کا تجربہ یہ ہے کہ اینٹی ڈپریسنٹ کو شروع کرنے کے بعد ان کا فائدہ شروع ہونے میں ایک سے دو ہفتے لگتے ہیں اور مکمل فائدہ ہونے میں چھ ہفتے تک بھی لگ سکتے ہیں۔دوا جلدی بند کر دینا اکثر لوگوں میں اینٹی ڈپریسنٹ دوا کا فائدہ نہ ہونےیا فائدہ شروع ہونے کے بعد ڈپریشن واپس آ جانے کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے۔
الکحل پینے سے گریز کریں۔الکحل ڈپریشن کو اور زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ اگر آپ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات
لینے کے ساتھ الکحل پی لیں تو آپ کو سستی ہونے لگے گی اور نیند آنے لگے گی۔ اس سے گاڑی چلانے میں یا کوئی اور ایسا کام کرنے میں جس میں توجہ دینے کی ضرورت ہو خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔
کیا آپ کو اپنے آپ کو نقصان پہنچانے یا اپنی زندگی کو ختم کرنے کے لیے دوائیں زیادہ مقدار میں
لے لینے کے خیالات آتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اپنے ڈاکٹر کو فورا بتائیں اوراپنی دوائیں اپنے پاس رکھنے کے بجائے گھر میں کسی اور شخص کے حوالے کردیں۔
دوا کا ڈوز بدلنے کے بعد اگر آپ کو اپنے آپ کے اندر کوئی بڑی تبدیلی محسوس ہو تو اپنے ڈاکٹر کوضرور بتائیں۔
مجھے اینٹی ڈپریسنٹ دوا کتنے عرصے کے لیے لینی پڑے گی؟
اینٹی ڈپریسنٹ ادویات ڈپریشن کو جڑ سے نہیں ختم کرتیں یا ڈپریشن ہونے کی وجہ کو نہیں دور کرتیں۔ اگر کوئی دوا نہ بھی دی جائے تو اکثر لوگوں میں ڈپریشن تقریبا آٹھ مہینے کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔اگر آپ دوا شروع کرنے کے بعد آٹھ نو مہینوں سے پہلے بند کردیں گے تو تو ڈپریشن کی علامات واپس آنے کا کافی زیادہ خطرہ ہوگا۔ جہاں سے آپ دوبارہ صحیح محسوس کرنا شروع کریں اس وقت سے کم از کم مزید چھ مہینوں تک دوا جاری رکھنی چاہیے۔ اگر آپ کو ڈپریشن دو یا اس سے بھی زیادہ دفعہ ہو چکا ہے تو علاج کم از کم دو سال تک جاری رہنا چاہیے۔
اس بات پر غور کریں کہ آپ کا ڈپریشن شروع ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ ایسے اقدامات کر پائیں جن کی وجہ سے ڈپریشن دوبارہ ہونے کا خطرہ کم ہو جائے۔
اگر مجھے دوبارہ ڈپریشن ہو جائے تو؟
بعض لوگوں کو ڈپریشن بار بار ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بالکل ٹھیک ہونے کے بعد بھی انھیں کئی سال تک دوا لینے کی ضرورت ہو تا کہ ان کا ڈپریشن واپس نہ آ جائے۔بڑی عمر کے لوگوں میں کئی کئی بار ڈپریشن ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔بعض لوگوں کوڈپریشن کو واپس آنے سے روکنے کے لیے اور دواؤں مثلا لیتھیم کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ باتوں کے ذریعے علاج (سائیکو تھراپی) بھی اس سلسلے میں سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔
میری زندگی پہ ان دوائیوں کو لینے سے کیا اثر پڑے گا؟
ڈپریشن کی بیماری کافی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس سے انسان کے کام کرنے کی استطاعت اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت بہت حد تک متاثر ہو سکتی ہے۔ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات آپ کو جلدی ٹھیک ہونے میں مدد دے سکتی ہیں۔تھوڑے بہت تکلیف دہ اثرات کے علاوہ ان کا زندگی پہ کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لوگ ان دواؤں کو لینے کے ساتھ ساتھ اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں، لوگوں سے ملنا جلنا بھی رکھ سکتے ہیں اور زندگی کی تمام خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
اگر میں ان دواؤں کو نہ استعمال کروں تو کیا ہوگا؟
یہ کہنا مشکل ہے۔ اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ ڈاکٹر نے آپ کے لیے اینٹی ڈپریسنٹ دوا کیوں تجویز کی ہے، آپ کا ڈپریشن کتنا شدید ہے اور کتنے عرصے سے ہے۔زیادہ تر لوگوں کا ڈپریشن اگر وہ کوئی دوا نہ بھی لیں تو تقریبا آٹھ مہینے کے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کا ڈپریشن ہلکے درجے کا ہو تو ہو سکتا ہے کہ دوا کے علاوہ علاج سے ٹھیک ہو جائے۔ اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
دوا کے علاوہ ڈپریشن کے اور کیا علاج موجود ہیں؟
یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ آپ کن باتوں یا چیزوں سے بہتر محسوس کرتے ہیں تا کہ آپ کو آئندہ ڈپریشن ہونے کا خطرہ کم ہو سکے۔ کسی بااعتماد شخص سے بات کرنے سے، باقاعدگی سے ورزش کرنے سے، الکحل کم پینے سے، مناسب غذا کھانے سے، اپنی مدد آپ کے اصولوں کے تحت اپنے آپ کو پرسکون کرنے کے طریقوں سے اور اپنے مسائل کو حل کرنے سے جن کی وجہ سے ڈپریشن شروع ہوا ہو، آئندہ ڈپریشن نہ ہونے میں مدد ملتی ہے۔
باتوں کے ذریعے علاج
ڈپریشن کا باتوں کےذریعے علاج کرنے کے کئی موثر طریقے موجود ہیں۔ ہلکے درجے کے ڈپریشن میں کونسلنگ کارآمد ہوتی ہے۔ اگر ڈپریشن زندگی کے مسائل کی وجہ سے شروع ہوا ہو تو مسائل کو حل کرنے کے طریقہ علاج (پرابلم سولونگ تھراپی) سے مدد ملتی ہے۔کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی ڈپریشن کا علاج کرنے کے لیےشروع کی گئی تھی اور اس سے انسان کو اپنے بارے میں، دنیا کے بارے میں اوردوسرے لوگوں کے بارے میں اپنے خیالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
اینٹی ڈپریسنٹ دوا زیادہ موثر ہے یا یہ دوسرے علاج؟
حالیہ ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ ایک سال کے عرصے کے اوپر باتوں کے ذریعے علاج کے کئی طریقے اینٹی ڈپریسنٹ ادویات جتنے ہی موثر ہیں۔ ادویات کا فائدہ زیادہ جلدی ہوتا ہے۔ بعض ریسرچ کہتی ہے کہ بیک وقت اینٹی ڈپریسنٹ اور سائیکو تھراپی دونوں کے استعمال سےمریض کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
درج بالا تحریر ڈاکٹر سید احمر (ایم آر سی سائیک)، ڈپارٹمنٹ آف سائکائٹری، آغا خان یونیورسٹی کراچی،کے مرتب کئے گئے کتابچے سے لیا گیا ہے.