اونٹنی کے دودھ کے فائدے
قرآن پاک میں اکثر مقامات پر اونٹ کی اہمیت اور اسکی تخلیق پر غور و فکر کرنے کی تلقین کی گئی ہے حضرت صالحؑ کی قوم کو اونٹنی ایک تحفے کے طور پر عطا کی گئی تھی، ہمارے پیغمبر ﷺ اونٹنی سواری کو پسند فرماتے تھے اور اونٹنی کا دودھ شوق سے استعمال کرتے تھے کیونکہ صحرا میں بسنے والے لوگوں کے لیے اونٹ ایک نعمت سے کم نہیں ہے ، صحرا کے سخت ترین موسم میں بھی اونٹ کئی دن بغیر کھائے پئے گزارا کر لیتا ہے قحط اور خشک سالی کے موسم میں یہ جانور اپنے دودھ کی پیداواری صلاحیت برقرار رکھتا ہے جبکہ ان ناموافق حالات میں بقیہ لائیو سٹاک کی پیداواری صلاحیت قریباً ختم ہو جاتی ہے اس شدید خشک سالی کے دوران جب پانی کی کمی ہو تب بھی اس کے دودھ میں ایسی کمیائی تبدیلیاں آتی ہیں جو وہاں بسنے والے افراد کی غذائی ضوریات کو پورا کرنے کے کام آتی ہیں۔ افریقہ میں 93۔1990 شد ید قحط کے زمانے میں ہر سم کی لائیوسٹاک کو نصان پہنچا اور اموات ہوئیں مگر اس صورت حال میں بھی اونٹ وہ واحد جانور ہے جو اس قحط میں بھی وہاں کے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں معاون ثابت ہوا۔ اونٹ صحرا کی شدید گرمی میں اپنے جسم میں پانی کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ پانی عمل تبغیر کے ذریعے کم سے کم اس کے جسم سے خارج ہوتا ہے جب اونٹ کو پانی کی کمی کا سامنا ہو تو اس وقت بھی اس کے دودھ میں پانی کی خاصی مقدار خارج ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ دوسرے نمکیات جیسا کہ سوڈیم کلورائیڈ کی مقدار دودھ میں 10 ملی ایکولنٹ فی لیٹرسے بڑھ کر 23 ملی ایکولنٹ فی لیٹر تک پہنچ جاتی ہے ۔ یاد رہے کہ یہ نمک انسان کی جسمانی ضروریات کے لیے بہت ضروری ہے خاص طور پر صحرا جہاں پر گرمی کی وجہ سے پسینے کا اخراج زیادہ ہو، پسینے کے ساتھ ساتھ سوڈیم کلورائیڈ بھی ہمارے جسم سے خارج ہوتا ہے نمکیات کی یہ کمی ہمارے جسم میں کئی بیماریوں کا موجب بن سکتی ہے تو اس صورتحال میں اونٹ کا دودھ استعمال کر کے سوڈیم کلورائیڈ کی کمی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔
وٹامن سی جو عموماً ترش پھلوں اور سبزیوں میں پایا جاتا ہے اس کی بھی خاصی مقدار اونٹنی کے دودھ میں پائی جاتی ہے ، یہ وٹامن گرمی اور خشک سالی کے دنوں میں اونٹ کے دودھ میں اور زیادہ بڑھ جاتی ہے صحرا میں چونکہ سبز یاں اور پھل اتنے زیادہ میسر نہیں ہوتے اس لیے اونٹنی کے دودھ کا استعمال وٹامن سی کی کمی کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ وٹامن سی قوت مدافعت کو بہتر کرنے میں استعمال ہوتا ہے شدید گرمی کے موسم میں وٹامن سی دھوپ کی حدت اور لو لگنے سے بھی بچاتا ہے ۔ اونٹنی کے دودھ میں وٹامن سی 23 ملی گرام فی لیٹر ہوتا ہے ۔
اونٹنی کے دودھ سے بننے والی مصنوعات:
پاکستان میں پائی جانے والی بریلا اور تھلوچا نسل کے اونٹ روزانہ دس سے بارہ لیٹر دودھ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس نسل کے اونٹ زیادہ تر ملگدا نسل کے خانہ بدوشوں کے پاس پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مڑیچہ نسل کے اونٹ کی دودھ دینے کی پیداواری صلاحیت بھی کافی زیادہ ہے اس نسل کے اونٹ چولستان میں پائے جاتے ہیں جہاں پر صحرا کی سخت گرمی ، پانی اور غذائی اجناس کی کمی ہونے کے باوجود یہ نسل اپنی پیداواری صلاحیت اور خوبصورتی کے لحاظ سے کافی مشہور ہے ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں 23 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اونٹنی کا دودھ غذائی اعتبار سے کافی صلاحیت کا حامل اور لذید ہوتا ہے اگر دور دراز اسکولوں میں اونٹنی کا دودھ اور اس سے بننے والی دوسری مصنوعات جیسا کہ قلفی وغیرہ بچوں کو فراہم کی جائے تو ان میں غزائی قلت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اونٹنی کا دودھ پاسچرائزیشن کے بعد مارکیٹ میں دستیاب ملتا ہے ، اونٹنی کے دودھ سے بننے والی مصنوعات میں پنیر ، لفی، گلاب جامن اور دوسرے بہترین آئیٹم لذید ہونے کے ساتھ ساتھ غذائیت سے بھی بھرپور ہوتی ہیں۔ اونٹنی کے دودھ سے بننے والی پنیر خاصی لذید ہوتی ہے اور اس کی مانگ مشرق وسطی اور یورپی ممالک میں کافی زیادہ ہے ہمارے ملک میں بھی بیکری سازی کی صنعت میں اونٹنی کا دودھ مٹھائیاں بنانے کے لیے بہترین نعمل البدل ہے
طبی افادیت :
اونٹنی کے دودھ میں وٹامن ، نمکیات ، پروٹین اور چکنائی کی ایک خاصی مقدار موجود ہوتی ہے ، چھوٹے بچوں میں عموماً دودھ سے ایک خاص قسم کی الرجی اور اسہال کی سی شکایت پائی جاتی ہے تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اونٹنی کے دودھ کے استعمال سے یہ الرجی بچوں میں ناہونے کے برابر ہوتی ہے اس لیے چھوٹی عمر کے بچوں میں اونٹنی کے دودھ کا استعمال اس شکایت کے قابو پانے میں مفید ہے ۔ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی اونٹنی کا دودھ قدرت کی طرف سے ایک انمول عطیہ ہے کیونکہ اس میں انسولین کی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے جو گائے کے دودھ کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے ۔ انسولین ایک ہارمون ہے جو ذیابیطس کے مریضوں میں کم مقدار میں بنتا ہے اور انہیں یہ ہارمون دوائیوں کی شکل میں لینا پڑتا ہے ۔ ذیا بیطس کے ان مریضوں میں اونٹنی کے دودھ کا استعمال ایک شافی علاج کے طور پر اکسیر ہے ۔ زمانہ قدیم سے ہندوستان میں وید ک طریقہ علاج کے طور پر اونٹنی کا دودھ یرقان ، اطحالِ تلی ، ٹی بی، دمہ اور باسیر کے امراض کے علاج میں ادویاتی طور پر استعمال ہوتا آرہا ہے ۔ اونٹنی کے دودھ میں پائے جانے والے نیوٹرسیوٹیکل اجزاء میں سب سے اہم لیکٹو فیران ہیں جو یرقان کے مریضوں میں جگر کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بہت مفید ہے ۔
یرقان اور جگر کے کینسر کی حالت میں جگر کی فعالی حالت بہت کمزور ہو جاتی ہے اس صورت میں اونٹنی کا دودھ جگر کی نشو ونما اور اس کو کارآمد بنانے میں مفید سمجھی جاتی ہے ۔ اونٹنی کے دودھ میں کولسٹرول مناسب مقدار میں پایا جاتا ہے جو دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے غذائی متبادل ہے ، اونٹنی کے دودھ میں ٹی بی کا جرثومہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ گائے اور بھینس کے دودھ میں یہ پایا جاتا ہے اگر اونٹنی کا دودھ غذائی متبادل کے طور پر استعمال سے اس مہلک اور متعدی مرض س بچا جا سکتا ہے ۔
اونٹنی کا دودھ ایک بہترین قبض کشا دوائی کے طور پر بھی استعمال بھی کیا جاتا ہے ، اونٹنی کا دودھ اگر تازہ اور گرم حالت میں استعمال کیا جائے تو یہ اسہال کی سی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ ایتھوپیا اور افریقہ میں اونٹنی کا دودھ مردانہ کمزوری کے لیے شافی علاج کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔
ایک مشہور افریقی کہاوت ہے \”اگر آپ رات کو ایک پیاسی اونٹنی کا دودھ پیءں تو آپ کے پاؤں سے وہ کانٹا بھی نکل جاتا ہے جو بچپن میں چبھا ہو اور وہ آپ کے پاؤں میں رہ گیا ہو\”۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اونٹنی کا دودھ آپ کے جسم میں موجود کافی بیماریوں کیخلاف قوت مدافعت پیدا کرتا ہے اور انسان کو متعدی اور مہلک امراض سے بچانے میں مفید سمجھا جاتا ہے ۔ اونٹنی کا دودھ اگر ایک بیمار آدمی کو پلایا جائے تو اس سے وہ نہ صرف شفا یاب ہو گا بلکہ یہ دودھ اس کی ہڈیوں کی بڑھوتری میں بھی مددگار ثابت ہو گا ۔ اونٹ چونکہ صحرا میں موجود مختلف جھاڑیاں، ادویاتی بوٹیاں اور درختوں سے چرائی کر کے اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرتا ہے لہٰذا یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے دودھ میں وہ ادویاتی خصوصیات شامل ہیں۔ جن کو طلبِ یونانی برسوں سے مختلف امراض کے علاج کے طور پر استعمال کرتی چلی آ رہی ہے ۔
چولستان اور روہی کے لوگ اونٹ کو ایک فرشتہ گردانتے ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ اونٹ کے دودھ کا ستعمال جسم سے ہر طرح کے امراض کو ختم کرنے میں معاون اور مددگار ثابت ہوتا ہے ۔
—
قرآن پاک میں اکثر مقامات پر اونٹ کی اہمیت اور اسکی تخلیق پر غور و فکر کرنے کی تلقین کی گئی ہے حضرت صالحؑ کی قوم کو اونٹنی ایک تحفے کے طور پر عطا کی گئی تھی، ہمارے پیغمبر ﷺ اونٹنی سواری کو پسند فرماتے تھے اور اونٹنی کا دودھ شوق سے استعمال کرتے تھے کیونکہ صحرا میں بسنے والے لوگوں کے لیے اونٹ ایک نعمت سے کم نہیں ہے ، صحرا کے سخت ترین موسم میں بھی اونٹ کئی دن بغیر کھائے پئے گزارا کر لیتا ہے قحط اور خشک سالی کے موسم میں یہ جانور اپنے دودھ کی پیداواری صلاحیت برقرار رکھتا ہے جبکہ ان ناموافق حالات میں بقیہ لائیو سٹاک کی پیداواری صلاحیت قریباً ختم ہو جاتی ہے اس شدید خشک سالی کے دوران جب پانی کی کمی ہو تب بھی اس کے دودھ میں ایسی کمیائی تبدیلیاں آتی ہیں جو وہاں بسنے والے افراد کی غذائی ضوریات کو پورا کرنے کے کام آتی ہیں۔ افریقہ میں 93۔1990 شد ید قحط کے زمانے میں ہر سم کی لائیوسٹاک کو نصان پہنچا اور اموات ہوئیں مگر اس صورت حال میں بھی اونٹ وہ واحد جانور ہے جو اس قحط میں بھی وہاں کے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں معاون ثابت ہوا۔ اونٹ صحرا کی شدید گرمی میں اپنے جسم میں پانی کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ پانی عمل تبغیر کے ذریعے کم سے کم اس کے جسم سے خارج ہوتا ہے جب اونٹ کو پانی کی کمی کا سامنا ہو تو اس وقت بھی اس کے دودھ میں پانی کی خاصی مقدار خارج ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ دوسرے نمکیات جیسا کہ سوڈیم کلورائیڈ کی مقدار دودھ میں 10 ملی ایکولنٹ فی لیٹرسے بڑھ کر 23 ملی ایکولنٹ فی لیٹر تک پہنچ جاتی ہے ۔ یاد رہے کہ یہ نمک انسان کی جسمانی ضروریات کے لیے بہت ضروری ہے خاص طور پر صحرا جہاں پر گرمی کی وجہ سے پسینے کا اخراج زیادہ ہو، پسینے کے ساتھ ساتھ سوڈیم کلورائیڈ بھی ہمارے جسم سے خارج ہوتا ہے نمکیات کی یہ کمی ہمارے جسم میں کئی بیماریوں کا موجب بن سکتی ہے تو اس صورتحال میں اونٹ کا دودھ استعمال کر کے سوڈیم کلورائیڈ کی کمی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔
وٹامن سی جو عموماً ترش پھلوں اور سبزیوں میں پایا جاتا ہے اس کی بھی خاصی مقدار اونٹنی کے دودھ میں پائی جاتی ہے ، یہ وٹامن گرمی اور خشک سالی کے دنوں میں اونٹ کے دودھ میں اور زیادہ بڑھ جاتی ہے صحرا میں چونکہ سبز یاں اور پھل اتنے زیادہ میسر نہیں ہوتے اس لیے اونٹنی کے دودھ کا استعمال وٹامن سی کی کمی کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ وٹامن سی قوت مدافعت کو بہتر کرنے میں استعمال ہوتا ہے شدید گرمی کے موسم میں وٹامن سی دھوپ کی حدت اور لو لگنے سے بھی بچاتا ہے ۔ اونٹنی کے دودھ میں وٹامن سی 23 ملی گرام فی لیٹر ہوتا ہے ۔
اونٹنی کے دودھ سے بننے والی مصنوعات:
پاکستان میں پائی جانے والی بریلا اور تھلوچا نسل کے اونٹ روزانہ دس سے بارہ لیٹر دودھ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس نسل کے اونٹ زیادہ تر ملگدا نسل کے خانہ بدوشوں کے پاس پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مڑیچہ نسل کے اونٹ کی دودھ دینے کی پیداواری صلاحیت بھی کافی زیادہ ہے اس نسل کے اونٹ چولستان میں پائے جاتے ہیں جہاں پر صحرا کی سخت گرمی ، پانی اور غذائی اجناس کی کمی ہونے کے باوجود یہ نسل اپنی پیداواری صلاحیت اور خوبصورتی کے لحاظ سے کافی مشہور ہے ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں 23 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اونٹنی کا دودھ غذائی اعتبار سے کافی صلاحیت کا حامل اور لذید ہوتا ہے اگر دور دراز اسکولوں میں اونٹنی کا دودھ اور اس سے بننے والی دوسری مصنوعات جیسا کہ قلفی وغیرہ بچوں کو فراہم کی جائے تو ان میں غزائی قلت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اونٹنی کا دودھ پاسچرائزیشن کے بعد مارکیٹ میں دستیاب ملتا ہے ، اونٹنی کے دودھ سے بننے والی مصنوعات میں پنیر ، لفی، گلاب جامن اور دوسرے بہترین آئیٹم لذید ہونے کے ساتھ ساتھ غذائیت سے بھی بھرپور ہوتی ہیں۔ اونٹنی کے دودھ سے بننے والی پنیر خاصی لذید ہوتی ہے اور اس کی مانگ مشرق وسطی اور یورپی ممالک میں کافی زیادہ ہے ہمارے ملک میں بھی بیکری سازی کی صنعت میں اونٹنی کا دودھ مٹھائیاں بنانے کے لیے بہترین نعمل البدل ہے
طبی افادیت :
اونٹنی کے دودھ میں وٹامن ، نمکیات ، پروٹین اور چکنائی کی ایک خاصی مقدار موجود ہوتی ہے ، چھوٹے بچوں میں عموماً دودھ سے ایک خاص قسم کی الرجی اور اسہال کی سی شکایت پائی جاتی ہے تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اونٹنی کے دودھ کے استعمال سے یہ الرجی بچوں میں ناہونے کے برابر ہوتی ہے اس لیے چھوٹی عمر کے بچوں میں اونٹنی کے دودھ کا استعمال اس شکایت کے قابو پانے میں مفید ہے ۔ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی اونٹنی کا دودھ قدرت کی طرف سے ایک انمول عطیہ ہے کیونکہ اس میں انسولین کی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے جو گائے کے دودھ کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے ۔ انسولین ایک ہارمون ہے جو ذیابیطس کے مریضوں میں کم مقدار میں بنتا ہے اور انہیں یہ ہارمون دوائیوں کی شکل میں لینا پڑتا ہے ۔ ذیا بیطس کے ان مریضوں میں اونٹنی کے دودھ کا استعمال ایک شافی علاج کے طور پر اکسیر ہے ۔ زمانہ قدیم سے ہندوستان میں وید ک طریقہ علاج کے طور پر اونٹنی کا دودھ یرقان ، اطحالِ تلی ، ٹی بی، دمہ اور باسیر کے امراض کے علاج میں ادویاتی طور پر استعمال ہوتا آرہا ہے ۔ اونٹنی کے دودھ میں پائے جانے والے نیوٹرسیوٹیکل اجزاء میں سب سے اہم لیکٹو فیران ہیں جو یرقان کے مریضوں میں جگر کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بہت مفید ہے ۔
یرقان اور جگر کے کینسر کی حالت میں جگر کی فعالی حالت بہت کمزور ہو جاتی ہے اس صورت میں اونٹنی کا دودھ جگر کی نشو ونما اور اس کو کارآمد بنانے میں مفید سمجھی جاتی ہے ۔ اونٹنی کے دودھ میں کولسٹرول مناسب مقدار میں پایا جاتا ہے جو دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے غذائی متبادل ہے ، اونٹنی کے دودھ میں ٹی بی کا جرثومہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ گائے اور بھینس کے دودھ میں یہ پایا جاتا ہے اگر اونٹنی کا دودھ غذائی متبادل کے طور پر استعمال سے اس مہلک اور متعدی مرض س بچا جا سکتا ہے ۔
اونٹنی کا دودھ ایک بہترین قبض کشا دوائی کے طور پر بھی استعمال بھی کیا جاتا ہے ، اونٹنی کا دودھ اگر تازہ اور گرم حالت میں استعمال کیا جائے تو یہ اسہال کی سی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ ایتھوپیا اور افریقہ میں اونٹنی کا دودھ مردانہ کمزوری کے لیے شافی علاج کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔
ایک مشہور افریقی کہاوت ہے \”اگر آپ رات کو ایک پیاسی اونٹنی کا دودھ پیءں تو آپ کے پاؤں سے وہ کانٹا بھی نکل جاتا ہے جو بچپن میں چبھا ہو اور وہ آپ کے پاؤں میں رہ گیا ہو\”۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اونٹنی کا دودھ آپ کے جسم میں موجود کافی بیماریوں کیخلاف قوت مدافعت پیدا کرتا ہے اور انسان کو متعدی اور مہلک امراض سے بچانے میں مفید سمجھا جاتا ہے ۔ اونٹنی کا دودھ اگر ایک بیمار آدمی کو پلایا جائے تو اس سے وہ نہ صرف شفا یاب ہو گا بلکہ یہ دودھ اس کی ہڈیوں کی بڑھوتری میں بھی مددگار ثابت ہو گا ۔ اونٹ چونکہ صحرا میں موجود مختلف جھاڑیاں، ادویاتی بوٹیاں اور درختوں سے چرائی کر کے اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرتا ہے لہٰذا یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے دودھ میں وہ ادویاتی خصوصیات شامل ہیں۔ جن کو طلبِ یونانی برسوں سے مختلف امراض کے علاج کے طور پر استعمال کرتی چلی آ رہی ہے ۔
چولستان اور روہی کے لوگ اونٹ کو ایک فرشتہ گردانتے ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ اونٹ کے دودھ کا ستعمال جسم سے ہر طرح کے امراض کو ختم کرنے میں معاون اور مددگار ثابت ہوتا ہے ۔