Saturday 26 July 2014

ریح ہار… جوڑوں کی ایک انتہائی پیچیدہ بیماری


ریح ہار… جوڑوں کی ایک انتہائی پیچیدہ بیماری
(ریموٹائیڈآرتھرائٹس کو اْردو زبان میں گھٹیا وجع مفاصل کہاجاتاہے۔ اردو،فارسی اور کشمیری زبان میں اس بیماری کو ریح ہار کا نام دیا گیاہے)
ریح ہار کو ڈاکٹری اصطلاح میں ریموٹائیڈ ا?رتھرائیٹس (RHEUMATIOD ARTHRITIS) کہا جاتاہے۔ یہ کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں میں جوڑوں کی سب سے زیادہ اورعام بیماری ہے۔تقریباً ہر سو افراد میں سے ایک فرد اس مرض میں مبتلا ہوتاہے۔ ا?رتھرائٹس کے لغوی معنی ہیں متورم یا ملہتب جوڑ۔آرتھرویونانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں جوڑ اور آئٹس (ITIS)یعنی ورم یا التہاب۔ بطور کْلی آرتھرائٹس کی ایک سو بیس قسمیں ہیں مگر ریح ہار جوڑوں کی سب سے زیادہ عام اور پیچیدہ بیماری ہے۔ یہ بیماری کسی بھی فرد کو بلالحاظ رنگ ونسل ، مذہب وعقیدہ سِن اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے مگر پچیس اور پچاس برس کی عمر کے اشخاص کو زیادہ تر اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔عورتوں میں مردوں کے مقابلے اس بیماری کی شرح تین گنا زیادہ ہے اور یہ بیماری دوسو برس قبل طبی دنیا میں دریافت ہوچکی ہے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جوڑوں کی یہ بیماری ا?غاز سے لیکر دو تین برسوں تک مریض کے جوڑوں کو خاصا ضرر پہنچاتی ہے اسلئے لازمی ہے کہ اس بیماری کا ابتدائی مرحلے میں تشخیص دیا جاسکے تاکہ مریض کو بروقت مناسب وموزوں علاج بہم پہنچا کراسکے جوڑوں کو ناکارہ ہونے سے بچایا جاسکے۔ دنیا کے سبھی سائنس دان ، محقق او ر ڈاکٹر ابھی تک اس تحقیق میں مصروف ہیں کہ اس بیماری کی اصل وجہ کیاہے۔ ابھی تک صرف یہ پتہ چلا ہے کہ یہ ایک خود مصّون(Auto immune) بیماری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے جسم کا نظام مدافعت(جو جسم کو انواع واقسام کی عفونتوں سے بچانے کا کام کرتاہے) کچھ کیمیائی مادے پیدا کرتاہے جو جوڑوں کی اندرونی تہوں پر حملہ آور ہوکر ان میں ورم اور درد پیدا کرتے ہیں ۔ دوسرا تازہ ترین فرضیہ یہ ہے کہ اس بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد کے اجسام میں ایک الگ اور خاص قسم کا نظام مدافعت ہوتاہے اور وہ کسی خاص عکس العمل اور دبائو کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں … باور کیا جاتاہے کہ یہ مرض موروثی ہے لیکن یہ بات بھی ابھی پوری طرح ثابت نہیں ہوسکی ہے۔ یہ بیماری وراثت میں نہیں ملتی ہے لیکن جن خاندانوں میں یہ بیماری پائی جاتی ہے ان کی آئندہ نسل کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جب نظام مدافعت کسی وجہ سے دبائو میں آکر مجبور ہو جاتاہے تو وہ خاص قسم کے لمحیات (انٹی باڈیز) جن کو ریموٹائیڈفیکٹرRheumatiod Factorکہا جاتاہے ،پیدا کرکے جوڑوں کے اندرونی حصوں کو نقصان پہنچاتاہے، اسی لئے خون کے ٹیسٹ میں ا?رفیکٹر مثبت ہوتاہے اور یہ جوڑوں کی اس بیماری کا ایک اہم ٹیسٹ ہے۔
علامات:
اس بیماری کے خاص علائم درج ذیل ہیں ۔
rدرد ، احساس خستگی ، تھکاوٹ ، شدید کمزوری ، چڑچڑا پن اور جوڑوں کے حرکات میں دشواری، جوڑوں میں درد اور ورم خاص کر ہاتھوں او رپیروں کے جوڑوں میں ۔
r جوڑوں میں ''سختی'' خاص کر صبح کے وقت۔
r جوڑوں میں ورم خاص کر ہاتھوں پیروں کے جوڑوں اور گھٹنوں میں ۔
r لگاتار احساسِ کمزوری اور کچھ نہ کرنے کی سکت۔
rجوڑوں کے ارد گرد عضلات اور دیگر نسیجوں کی کمزوری کی وجہ سے کام کرنے میں دشواری۔
rرات کو نیند نہ آنا۔ جوڑوں میں درد کی وجہ سے مریض کی نیند روٹھ جاتی ہے۔
rبعض مریضوں کے جسم میں جلد کی تہہ کے نیچے چھوٹی چھوٹی گٹھلیاں سی ظاہر ہوتی ہیں ۔ جنہیں ریموٹائیڈنوڈول کہا جاتاہے اگر کہنیوں کی ہڈیوں کے ا?س پاس ظاہر ہوتی ہیں تو یہ کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر یہ ا?نکھوں یا پھیپھڑوں میں نمودار ہوتی ہیں تو مریض کے لئے کسی حد تک ضرر رساں ہوسکتی ہیں ۔
کیا ریح ہار قابل علاج ہے ؟
بدقسمتی سے ابھی تک ریموٹائیڈآرتھرائٹس کے لئے کوئی مکمل اور حتمی علاج دریافت نہیں ہواہے۔لیکن پھر بھی دورِ حاضر کے علاج سے مریض کودرد اور ورم سے نجات دلانے کے علاوہ جوڑوں کو ناکارہ ہونے سے بچایا جاسکتاہے۔ چونکہ اس بیماری میں مبتلا مریض کے جوڑوں کو ابتدائی دو برسوں میں زبردست نقصان پہنچتاہے ، اسلئے ابتدائی مرحلے میں تشخیص اور علاج ومعالجہ بے حد ضروری ہے۔ اگر صحیح ڈھنگ سے علاج نہ کیا گیا تومریض کے جوڑ ہمیشہ کے لئے ناقص یا ناکارہ ہو کر رہ جاتے ہیں اور اگر بیماری اندرونی اعضائ کو متاثر کرتی ہے تو یہ مریض کو موت سے بھی ہمکنار کروا سکتی ہے۔ اب جب کہ یہ بات عیاں ہے کہ اس بیماری کا کوئی حتمی علاج میسر نہیں ہے ، پھر معالج کے پاس جانے کا فائدہ کیا ہے ؟ معالج کی تجویز کردہ ادویات سے مرض پرقابو پایا جاسکتاہے اور مریض کسی خاص مدت تک ایک ا?رام دہ زندگی گذار سکتاہے۔ بعض مریضوں کے علائم ادویات کے بغیر بھی ناپید ہو جاتے ہیں اور پھر کچھ وقفے کے بعد کسی خاص موسم میں کسی خاص وجہ سے دوبارہ ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ بیماری کا حملہ دس ماہ کے بعد ہوتاہے۔ اس دوران مریض بیماری کے علائم سے بے خبر رہتاہے…اور وہ سوچتا ہے کہ اسکی بیماری نے اسکا پیچھا چھوڑ دیا مگر کچھ ماہ کے بعد وہ دوبارہ بیماری کے چنگل میں پھنس جاتاہے۔
شاید یہی وجہ ہے یا نامعلوم وجوہات کی بنائ پر ، یا پھر مریضوں کی عدم واقفیت کی وجہ سے کشمیر میں اس بیماری میں مبتلا مریض (خاص کر عورتیں ) اپنے ہاتھوں میں ، وزنی تھیلے( جن میں ڈاکٹروں کے نسخے، لیبارٹری کی رپورٹیں اور ایکسرے ، سی ٹی اسکین اور ایم ا?ر ا?ئی کی رپورٹیں بھی ہوتی ہیں )لئے ایک کلینک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے پھرتے رہتے ہیں اور ہر ایک دو ماہ بعد معالج بدلتے رہتے ہیں ۔ جہاں بھی سنا کہ فلاں جگہ اس بیماری کا ''علاج'' ہوتاہے وہاں حاضری دینا اپنا اوّلین فرض سمجھتے یا سمجھتی ہیں (آخر صحت کا سوال ہے اور انسان مجبور ہے) … نہ صرف ڈاکٹروں کے مطّبوں میں بلاناغہ حاضری دی جاتی ہے بلکہ نقلی پیروں ،فقیروں ، نیم حکیموں کی تجویز کردہ ہر ممکن دوائیاں ، جڑی بوٹیاں وغیرہ بھی استعمال کی جاتی ہیں … ہمارے سماج میں بے شمار نقلی پیر صاحبان اس بیماری کا علاج ''شیرینی '' اور ''مٹی کے دانوں '' سے کرتے ہیں … حیرت کی بات یہ ہے کہ مریض کے جوڑوں کے درد اور ورم میں خاصا فرق پڑتاہے اور مریض '' پیر صاحب'' کے معجزہ کے قائل ہوجاتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ مریض شیرینی اور مٹی میں ملائے گئے ''سٹیرائیڈ (STEROID)دوائی '' سے بے خبر ہوتاہے۔ جی ہاں ہمارے نقلی پیر فقیر اور رنگے سیار ایسے مریضوں کو مختلف ''چیزوں ''میں دوائیاں ملا کر کھلاتے ہیں اور اپنی مہارت اور تجربے کاسکہ بٹھاتے ہیں ۔ اگر مریض کو تشخیص کے وقت ہی معالج اس مرض کے بارے میں مفصل اور مکمل جانکاری دے دے تو وہ مریض پر احسان کرتاہے ، وہ اس کا قیمتی وقت اور اسکا خون پسینہ بہاکر کمایا ہوا پیسہ برباد ہونیسے بچا سکتاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مریض اس بیماری کے متعلق مکمل واقفیت رکھتا ہو تاکہ وہ اپنی زندگی ا?رام سے گذار سکے۔
تشخیص:
lمریض اپنا شرح ِحال (History) مفصل طور معالج کے سامنے بیان کرے اور اسے نہ صرف اپنی جسمانی حالت سے بلکہ ذاتی ،نجی ، سماجی ، اقتصادی حالات سے بھی باخبر کرے…اور کوئی بھی بات اْس سے پوشیدہ نہ رکھے۔
lمعالج مریض کا تفصیلی معائنہ کرے۔ نہ صرف جوڑوں کا بلکہ جسم کے ہر حصّے کا بغور معائنہ کرے۔
lخون کے ٹیسٹ جن میں خون کی مکمل جانچ CBCاور ESRکے علاوہ آرفیکٹر (RـFactor) لازمی ہیں ۔
lمتاثر شدہ جوڑوں کا ایکسرے کروانا لازمی ہے۔
یاد رہے کہ صرف آرفیکٹر مثبت ہونے سے اس بیماری کا تشخیص نہیں دیا جاسکتاہے۔ کیونکہ کچھ اور بیماریاں بھی ہیں جن میں مبتلا اشخاص کا یہ Test مثبت ہوتاہے اسلئے معالج کا فرض ہے کہ ان بیماریوں کی طرف بھی خصوصی توجہ دے۔ جب بیماری کا تشخیص ہو تو مریض کا یہ پیدائشی حق ہے کہ وہ اپنے معالج سے اپنی بیماری اور علاج کے متعلق پوری پوری جانکاری حاصل کرے اور اسی طرح معالج کا بھی یہ اولین فرض ہے کہ وہ مریض کو اس بیماری اور دوائیوں کے متعلق مفصل جانکاری فراہم کرے تاکہ مریض یہ تسلیم کرلے کہ یہ بیماری ہمیشہ کے لئے اسکے ساتھ رہنے والی ہے۔ دوائیوں سے صرف وہ علائم پر قابو پاسکتاہے یا کچھ دوائیوں سے بیماری کا رْخ موڑا جاسکتاہے۔
علاج :
Eادویات ـ ضدِ درد اور ضدِ التہاب ادویات۔ کچھ دوائیاں ایسی ہیں جن سے مریض کے جوڑوں کے درد اور ورم میں افاقہ ہوتاہے اور وہ درد کی تڑپ سے آزاد زندگی گذارنے کا اہل ہوجاتاہے۔ ان دوائیوں کا انتخاب بھی مریض کی جسمانی اور ذہنی حالت کو مدنظر رکھ کر کیا جاتاہے۔ مختلف مریضوں میں مختلف قسم
کی ادویات تجویز کی جاتی ہیں کیونکہ ان دوائیوں کے اثراتِ جانبی ہر مریض کے لئے جداگانہ ہوتے ہیں ۔ اسلئے ادویات کے مثبت ومنفی اثرات کے بارے میں پوری پوری جانکاری رکھنا ہر مریض کے لئے لازمی ہے۔
Eدوسری قسم کی ادویات وہ ہیں جن سے بیماری کا رْخ موڑا جاسکتاہے یعنی مرض کی شدت کوحتی الامکان کم تر کیا جاتاہے۔ ایسی دوائیاں صرف ان معا لجین کی زیر نگرانی لینی چاہئیں جنہوں نے اس بیماری کے علاج ومعالجہ میں کمال مہارت حاصل کی ہو… کچھ مدت تک ادویات کا استعمال کرنے کے بعد کچھ خاص قسم کی ا?زمائشات انجام دینا اشد ضروری ہے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ان ادویات سے جسم کا کوئی اور عضو متاثر تو نہیں ہواہے۔مریض کو ہر دوائی کے بارے میں مفصل جانکاری ہونی چاہئے۔ اگر معالج جلد بازی میں جانکاری فراہم کرنے میں ناکام رہے تو مریض خود دوائیوں کے ساتھ رکھا ہوا لٹریچر پڑھ لے یا کسی تعلیم یافتہ فرد سے جانکاری حاصل کرے اور احتیاطی تدابیر پر پوری طرح عمل کرے۔
ادویات کا بلاناغہ اور طبق دستورِ معالج استفادہ کرنے کے علاوہ مریض ہلکی پھلکی ورزش کرنے کو اپنا معمول بنائے۔ اگر جوڑوں میں کوئی خاص خرابی شروع نہیں ہوئی ہو تو وہ روزانہ پیدل چلنے کو اپنا معمول بنائے یا کوئی اور ایسی ورزش باقاعدگی سے انجام د ے جس سے اسکے متاثرہ جوڑوں کو کوئی ضرر نہ پہنچے۔ ورزش کیلئے کسی ''فیزیوتھراپسٹ''سے مشورہ کرنا زیادہ بہترہے۔
پرہیز:
کشمیر میں رائج خرافات اور باطل عقائد کے برعکس اس مرض میں کسی ''خاص قسم کا پرہیز'' نہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جوڑوں کی اس عام اور پیچیدہ بیماری میں مبتلا مریض ایک بہترین مناسب وموزون غذا کھائے۔ مریض اپنی غذا میں تازہ سبزیوں اور میوہ جات کی وافر مقدار استعمال کرے۔ سالم اناج اور ریشہ والی غذائیں ،گوشت ، پنیر ، انڈے ،خشک میوے اپنی غذا میں شامل کرے۔ چربی ، نمک اور کھانڈ کا استعمال کم کرے۔سگریٹ نوشی ،شراب نوشی سے مکمل پرہیز لازمی ہے۔ جن اشیائ میں کیلشیم زیادہ ہو انہیں اپنی غذا میں شامل کرے ، اپنا وزن اعتدال میں رکھے۔ ہر مریض کوشش کرے کہ ایک صاف ستھرا ،پاکیزہ ،منظم ومرتب طرزِ زندگی گذارے۔ اپنے ذہن کو سکون بخشنے کے لئے روزانہ عبادت کرے کیونکہ ایسے مریض ہر وقت ذہنی دبائو ، تنائو اور کچھائو کے شکار ہوتے ہیں جس سے مرض کی شدت بڑھنے کا احتمال ہوتاہے۔
یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ ریح ہار(وجع مفاصل ، گٹھیا) کیلئے ابھی تک طبی دنیا میں کوئی ایسی دوائی دریافت نہیں ہوئی ہے جس سے یہ بیماری جڑ ہی سے ختم ہولیکن پھر بھی وہ دوائیاں موجود ہیں جن کے استعمال سے مریض ایک آرام دہ زندگی گذار سکتاہے۔بشرطیکہ وہ اپنے مرض کے بارے میں صد درصد جانکاری رکھتاہو بصورت دیگر اسکی زندگی عذاب بن جاتی ہے