Sunday 5 October 2014

اٹھراہ

اٹھراہ
اٹھراہ عورتوں کا ایک مشہور مرض ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ طب کی قدیم کتابوں میں اس کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ میں نے طب اکبر، شرح اسباب، ذخیرہ خوارزم شاہی وغیرہ بے شمار کتب دیکھیں، عورتوں کی دیگر امراض کا ذکر تو ان میں ہے مگر اٹھراہ یا اس سے ملتی جلتی بیماری کا کہیں ذکر نہیں۔ ایلوپیتھی کی جدید ترین کتب کو دیکھا بھالا مگر ان میں بھی تذکرہ نہیں ملا۔جیسے یہ مرض عام ہے ویسے ہی اطباء اس کے ذکر سے خاموش ہیں۔
یہ سخت نامراد مرض ہے جس کی وجہ سے عورتوں کے بچے دوران حمل یا پیدائش کے کچھ عرصے بعد ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس مرض میں عورتوں کو حمل ٹھہرتے ہی جلد اسقاط ہو جاتا ہے یا مردہ بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر بچہ زندہ پیدا ہو، تو طرح طرح کے امراض میں مبتلا ہو کر آخر چل بستا ہے مثلاً سوکھے کی حالت میں، ام الصبیان (بچوں کی مرگی)، فساد خون یا سرخبادہ وغیرہ۔
اس بیماری میں بعض عورتوں کے رحم میں ایسی خرابی جنم لیتی ہے کہ آٹھویں ماہ حمل گر پڑتا ہے اور بچہ مرا ہوا پیدا ہوتا ہے۔ حمل کے ساتویں ماہ پیدا ہونے والا بچہ زندہ تو رہتا ہے لیکن طبعاً کمزور ہوتا ہے مگر آٹھویں ماہ والے کے بچنے کے آثار بہت کم ہوتے ہیں۔ اگر بچہ پوری مدت کے بعد پیدا ہو، تو بھی پیدائش کے آٹھویں دن، آٹھویں ہفتے، آٹھویں ماہ یا آٹھویں سال فوت ہو جاتا ہے۔
یہ بیماری اسقاط حمل کی طرح عورتوں کے لیے نہایت تکلیف دہ ہے۔ توہم پرستوں کا خیال ہے کہ جس عورت کا بچہ اس مرض سے بچ جائے، اگر اس کا سایہ دوسری عورت پر پڑے، تو اسے بھی یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ یہ بات خلافِ حقیقت ہے۔ دراصل اس بیماری کی اصل وجہ مرد کے مادہ کا کمزور ہونا ہے۔ اس وجہ سے حمل گر جاتا ہے۔ بالفرض نہ بھی گرے، تو بچہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ زندہ نہیں رہ پاتا۔
یہ مرض جنم لینے کے اہم اسباب میں سؤ مزاج رحم، ضعف رحم، رقت اور قلتِ خون، عام جسمانی کمزوری یا دماغی خرابی، مرگی، جنون، مالیخولیا یا فساد خون کی وجہ سے پیدا ہونے والے امراض شامل ہیں۔ خون کی قلت، رقت یا عام کمزوری کی وجہ سے چہرہ زردی مائل یا بالکل سفید ہو جاتا ہے۔ بعض عورتوں کی پسلی کے نیچے ہلکا سا درد ہوتا ہے چاہے حمل ہو یا نہ ہو۔ ایسی خواتین کا تو حمل گر جاتا ہے یا خاص عمر میں پہنچ کر اولاد فوت ہو جاتی ہے یا پیٹ کے اندر بچہ سوکھ جاتا ہے۔
’’مخزن حکمت کے مصنف حکیم اور ڈاکٹر غلام جیلانی لکھتے ہیں ’’بعض عورتوں کے گھر اولاد نہیں ہوتی اور کچھ کے ہاں جنم لے کر فوت ہو جاتی ہے اور عمر طبعی کو نہیں پہنچتی۔ بعض کے لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں اور نرینہ اولاد جنم نہیں لیتی۔ اس حالت کو اٹھراہ کہتے ہیں۔
علاج یہ ہے کہ دوران حمل مصفی خون اشیاء کا استعمال بہ کثرت کیا جائے، اس سے بچہ تندرست پیدا ہوتا ہے، لیکن بچے کی پیدائش کے بعد قلیل مقدار میں وہی دوا بچے کو بھی کھلانی چاہیے۔ بعض اوقات سوزاک یا آتشک کے زہریلے مادے اٹھراہ کا سبب ہوتے ہیں، تب ان کا علاج کرنا چاہیے۔
اٹھراہ کا شروع میں تو علم ہی نہیں ہوتا، جب دو تین بچے مر جائیں تب پتا چلتا ہے کہ اس کا سبب کیا ہے۔ جدید سائنس اور ڈاکٹروں کے پا س اس کا علاج نہیں کیونکہ کوئی ڈاکٹر اس مرض کے جراثیم تلاش نہیں کر سکا۔
حکیم انقلاب دوست، محمد صابر ملتانی کی رائے یہ ہے کہ اٹھراہ کا مرض ان خاندانوں میں پایا جاتا ہے جن میں کسی نہ کسی شکل میں سوزاک کا اثر ہو۔ یہ اثر باپ کی طرف سے اولاد میں منتقل ہوتا ہے۔ تاہم پہلے بیوی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایسے میاں بیوی کو اول تو اولاد ہی پیدا نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو زندہ نہیں رہتی۔ اگر انتہائی جدوجہد سے بچ جائے، تو اس کی آئندہ نسلوں میں اٹھراہ کا مرض ضرور جنم لیتا ہے۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ عورتوں میں یہ خرابی مردوں کی طرف سے آتی ہے، اس لیے لازم ہے کہ مردوں کا بھی علاج کرایا جائے۔
اٹھراہ میں مبتلا عورتوں کا جب معائنہ کیا گیا تو ان میں درج ذیل علامات پائی گئیں:
پیشاب کے دوران جلن، ہاتھ پاؤں یا بغلوں میں جلن اور وہاں زخم ہونے کا احساس، شدید قسم کی قبض یا خشکی، یوں محسوس ہو کہ رحم کے گرد کسی نے کس کر پٹی باندھ دی، چہرے پر دانے، خارش یا پھوڑے پھنسی، گلے میں زخم، مستقل نزلہ رہنا، آنکھوں میں جلن، باؤ گولہ، اختناق الرحم، طبیعت میں چڑچڑاہٹ، غصہ کسی کی بات برداشت نہ کرنا اور گھر کے ہر فرد سے ناراضی کی کیفیت۔
ایسی خواتین کے بچے ہو بھی جائیں، تو سوکھے سڑے اور خلقی طور پر بیمار ہوتے ہیں۔ جسم پر دانے، زخم یا پھنسیاں اور ہاتھ پائوں ٹیڑھے میڑھے۔ بعض بچوں میں پیدائشی طور پر سوزاک کی علامتیں موجود ہوتی ہیں۔ بعض عورتوں کے اندھے بچے پیدا ہوئے اور بعض کے آٹھ دن، آٹھ ہفتے یا آٹھ ماہ میں اندھے ہو گئے۔ ضروری نہیں کہ اٹھراہ کی تمام مریضاؤں میں سبھی درج بالا علامتیں موجود ہوں، کسی میں ایک، کسی میں دو اور کسی میں زیادہ علامتیں بھی پائی گئی ہیں۔