Sunday 5 October 2014

آلو کے کمالات


آلو کے کمالات

یہ ایک معصوم، پُرخلوص، باوفا اور سدا بہار ترکاری ہے۔ اسی معصومیت کی بنا پر ساری دنیا آلو کے ساتھ استحصالی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، یعنی اسے ہر جگہ ہر شکل میںکھایا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں بھی تو بے چارہ کبھی چپس اور سموسے کی لذت بنتا ہے، کبھی بھجیا کی شکل میں خوشبو اور ذائقے کا منبع ہوتا ہے، یا اپنے پُرخلوص ہونے کی صلاحیت کی بنا پر کسی نہ کسی سبزی سے رواداری نبھاتا ہے۔ یعنی اس بے چارے معصوم آلو کو کسی بھی سبزی کے ساتھ پکائیں، تو یہ اخوت و بھائی چارے کا مظاہرہ کرکے لذتِ کام و دہن بڑھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی آلو گوشت پکتا ہے تو کبھی آلو بینگن، کبھی آلو گوبھی… غرض اس سبزی کے بے شمار روپ ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ہر بار نئی لذت ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ سارا سال خاطر و خدمت میں مصروف رہتا ہے اور دیگر نازک مزاج سبزیوں کی طرح جلد خراب نہیں ہوتا۔
یورپ والے تو جیتے ہی آلو کے سر پر ہیں۔ برصغیر میں اسے اگر ہم ترکاری کے طور پر استعمال کرتے ہیں، تو یورپی اسے اناج کی جگہ کھاتے ہیں اور خوب کھاتے ہیں۔ ان کے غذائی نقشے کا مطالعہ کیا جائے تو کچھ اس قسم کا ہوگا: ابلے ہوئے آلو، تلے ہوئے آلو، کچلے ہوئے آلو یعنی آلو ہی آلو۔ بعد اس کے ساتھ ان کے ماکولات و لوازمات۔ بے چارے پاکستانی بھی جن میں زیادہ تر طالب علم یا سیاح ہوتے ہیں، اسی آلو کی رفاقت کے سہارے پردیس کاٹتے ہیں، یعنی پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ یوں یہ آلو کے پُرخلوص ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔
محتاط اعداد و شمار کے مطابق صرف امریکہ میں آلو کی سالانہ پیداوار 32 کروڑ من ہے، یعنی وہاں کا ہر باشندہ سالانہ 96 کلو آلو کھاتا ہے۔ یہی حال باقی یورپ کا ہے۔ آلو میں حد درجہ غذائیت پائی جاتی ہے، اس لیے بطور خوراک بھی اگر صرف اسے ہی کھایا جائے تو کسی قسم کی کمزوری واقع نہیں ہوتی۔ اس کاغذائی تعارف کچھ اس طرح ہے: سو گرام آلو میں 74.7رطوبت، 1.6فیصد پروٹین، 0.1 فیصد چکنائی، 0.6فیصد معدنی اجزا، 0.4 فیصد ریشہ اور 22.6 فیصد کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اس کے معدنی اور حیاتینی اجزا میں کیلشیم 10 ملی گرام، فاسفورس 40 ملی گرام، فولاد .7 ملی گرام، وٹامن سی 17 ملی گرام اور کچھ مقدار میں وٹامن بی کمپلیکس شامل ہیں۔ آلو کے سو گرام کی غذائی صلاحیت 97 حرارے (کیلوری) ہے۔
کچھ لوگ اس ڈر سے آلو کھانا چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ موٹاپا پیدا کرتا ہے۔ حالانکہ یہ اس پر سراسر الزام ہے۔ چونکہ آلو میں چکنائی یا چربی جیسی چیز کا فقدان ہے اس لیے یہ موٹاپے کا باعث نہیں بن سکتا۔ موٹے آپ کسی اور وجہ سے ہوں گے یا ہوسکتے ہیں۔
آلو کی عوام دوستی کے باوجود زیادہ تر لوگ اس کے مکمل خواص سے آگاہی نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس معصوم سبزی کو کبھی توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھا۔ دراصل قدر اُس چیز کی ہوتی ہے جس کے لیے تگ و دو اور تردد کرنا پڑے۔ مثلاً نئے موسم کی مہنگی سبزیاں، مرغی، مچھلی یا بکرے کا گوشت۔ آلو بے چارہ تو گھر کی مرغی دال برابر ہے کہ مندرجہ بالا غذائوں سے کہیں زیادہ افادیت، بے شمار استعمال اور ٹوٹکوں کے باوجود اسے وہ مقام حاصل نہیں جو ان کے حصے میں آیا ہے۔ آئیے آج ہم آپ کو بطور غذا اور دوا آلو کے کرشموں سے متعارف کرواتے ہیں۔ امید ہے کہ اس سے آلو صاحب کی عزت میںکافی اضافہ ہوگا۔
آلو بطور غذا
آلو میں معدنی نمک اور وہ وٹامن باقی ترکاریوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتے ہیں جو بچوں کی نشوونما کرتے ہیں، اس لیے بچوں کے لیے یہ نہایت مفید اور مقوی غذا ہے۔ اس میں چونا کم ہوتا ہے مگر یہ کمی دیگر سبزیوں اور میوہ جات سے پوری ہوجاتی ہے۔ یاد رہے کہ بچوں کو آلو کا شوربا یا اُبلا ہوا آلو مسل کر دیں۔
آلو کے اہم ترین غذائی اجزا اس کے چھلکے میں اور نیچے ہوتے ہیں، یعنی آلو کی زیادہ تر غذائیت چھلکے کے نزدیک ہوتی ہے۔ اس لیے اگر آلو کو چھیلے بغیر استعمال کیا جائے تو یہ بہترین طریقہ ہے۔ اگر کسی سالن یا اور چیز میں آلو کے بڑے بڑے ٹکڑے استعمال کیے جائیں تو چھلکے سمیت پکائیں، بعد میں ان کے پتلے پتلے چھلکے اتارے جا سکتے ہیں۔ اگر چھیلنا مقصود ہو تو اسے ہمیشہ کھرچ کر چھیلیں تاکہ زیادہ سے زیادہ غذائی اجزا بچا سکیں۔ آلو ابالنے کا طریقہ بھی یہ ہے کہ انہیں دیگچی میں ٹھنڈے پانی میں ڈال کر تیز آنچ پر رکھ دیں۔ پانی ابلنے لگے تو چولہا آہستہ کردیں تاکہ آلو آہستہ آہستہ گل جائیں۔ وہ پانی جس میں آلو ابالتے ہیں، وہ بھی خاصی غذائیت رکھتا ہے۔ کوشش کریں کہ اس پانی کو نتھار کر سالن میں استعمال کرلیں۔ دم پخت طریقے سے پکانے پر آلو کی غذائیت سب سے زیادہ برقرار رہتی ہے۔
بھنا ہوا آلو بھی مزے کی چیز ہوتا ہے۔ جیسے کہ شکر قندی بھوبل میں بھونی جاتی ہے اسی طرح آلو بھی بھونے جاتے ہیں جن کا ذائقہ لاجواب ہوتا ہے۔ اگر آلوئوں کی سطح کو بھوننے سے پہلے گھی یا مکھن سے چپڑ دیں، تو بھننے پر ان کا چھلکا نہایت نرم اور مزیدار ہوگا اور اتارنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ خصوصاً بچوں کے لیے بہترین غذا ہے بلکہ غذائیت کا سربمہر خزانہ۔
آلو بطور دوا:
ریح:… بعض لوگ کہتے ہیں کہ آلو دیر ہضم اور بادی یعنی ریاح پیدا کرنے والا ہے۔ لیکن یہ خیال غلط ہے۔ آلو جلد ہضم ہونے والی غذا ہے، چونکہ اس میں قدرتی کھار ہوتی ہے اس لیے جسم میں کھٹائی اور یورک ایسڈ کو زائل کرتا ہے، لہٰذا یہ ریاح پیدا نہیں کرتا بلکہ ہر قسم کی ریح کو دور کرتا ہے۔
تیزابیت:… آلو سب غذائوں سے زیادہ الکلی رکھتا ہے۔ اس لیے یہ بدن میں الکلی کا ذخیرہ برقرار رکھنے اور اضافی تیزابیت کے خلاف تریاق کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ یورک ایسڈ کو تحلیل کرکے خارج کرتا ہے۔ اس کے علاوہ انتڑیوں میں غذائی تخمیر کی معاونت اور اعضائے ہضم میں موافق جراثیم کی نشوونما کرتا ہے۔
قبض:… طبی طور پر آلو قبض کشا اور پیشاب آور ہے۔ طبیعت کو آرام دیتا ہے۔ دودھ پیتے بچے کے لیے آلو کا شوربہ اور آلو کا بھرتہ مفید ہے۔
گردے کی پتھری:… یورپ کے ایک ڈاکٹر کا قول ہے کہ گردے کی پتھری میں اگر اور علاج نہ کیا جائے، تو آلو کا باقاعدہ استعمال پتھری کو توڑ کر نکال دیتا ہے۔ اس کے ساتھ وافر مقدار میں پانی پینا بھی سودمند ہے۔
سکروی:… اس مرض کا علاج بھی آلو میں پوشیدہ ہے۔ ماہرین نے تحقیق کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ یورپ میں سکروی کا مرض کم سے کم ہورہا ہے اور اس کی وجہ آلو کی کاشت میں اضافہ ہے۔ جن دنوں آلو کی فصل تباہ ہوجائے، تو سکروی کا مرض بڑھ جاتا ہے۔ یورپی معالجین اس مرض کا علاج آلو سے بنائی گئی کریم سے کرتے ہیں۔ کچھ معالج تو اس مقصد کے لیے محض آلو کا ملیدہ استعمال کرتے ہیں۔
گٹھیا کا مرض:… کچے آلو کا رس گٹھیا کے مرض کا کامیاب علاج سمجھا جاتا ہے۔ کدوکش کیے ہوئے تازہ آلو نچوڑ کر رس نکالیں اور کھانے سے پہلے ایک یا دو چمچ پئیں۔ بدن میں یورک ایسڈ ختم کرنے اور گھٹیا کے مرض کی شدت کم کرنے میں فائدے مند ہے۔ آلو کا چھلکا بھی اس مرض کا عمدہ علاج ہے، کیونکہ اس میں اہم معدنی نمکیات ہوتے ہیں، چنانچہ آلو کے چھلکوں کو دھوکر چند منٹ تک پانی میں ابالیں، اب اس جوشاندے کو چھان کر دن میں تین چار بار ایک گلاس مریض کو پلائیں۔
نظام ہضم:… کچے آلو کا رس معدے اور انتڑیوں کی بے قاعدگی میں مفید ہے۔ معدے کے السر کا علاج سرخ آلو کے رس سے کیا جاتا ہے۔ یہ معدے کے ورم کو بھی ٹھیک کرتا ہے۔ مناسب خوراک یہ ہے کہ دن میں دو یا تین دفعہ کھانا کھانے سے آدھا گھنٹہ پہلے آدھی پیالی رس پی لیجیے۔ آلو کا نشاستہ غذائی نالیوں کے امراض اور زہریلے پن کے سبب پیدا ہونے والی سوجن بھی تحلیل کرتا ہے۔
جلد کے داغ دھبے:… کچے آلو کا رس جلد کے داغ دھبے دور کرنے میں بھی آزمودہ کار ہے۔ اس کی یہ مصفی تاثیر پوٹاشیم، گندھک، فاسفورس اور کلورین کی وجہ سے ہے۔ لیکن یہ اجزا اُسی وقت تک مؤثر رہتے ہیں جب تک آلو کچی حالت میں رہے۔ آگ پر پکانے کی صورت میں یہ نامیاتی جوہر ضائع ہوجاتے ہیں اور ان کی افادیت کم ہوجاتی ہے۔
کچے اور کچلے ہوئے آلو کا رس دار گودا جلد پر لگائیں اور دس یا پندرہ منٹ بعد سادے پانی سے دھو لیں، تو جھریاں اور بڑی عمر کے سبب پڑنے والے داغ دھبے صاف ہوجاتے ہیں۔ ایک آلو درمیان سے کاٹ لیں اور کٹے ہوئے آلو کو سونے سے پہلے کچھ دیر چہرے پر رگڑیں، یہ جھریاں اور داغ دھبے دور کرنے کے ساتھ ساتھ رنگت بھی نکھارتا ہے۔
سوجن:… کچے آلو کا رس بیرونی استعمال کے ذریعے سوجن، جوڑوں اور پٹھوں کا درد دور کرتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ رس کو اتنا پکایا جائے کہ اگر یہ ایک گلاس ہے، تو پون گلاس رہ جائے۔ ٹھنڈا ہونے پر اس میں تھوڑی مقدار میں گلیسرین شامل کرلیں۔ یہ اسے محفوظ بنانے میں مدد دیتی ہے۔ متاثرہ حصے کو ٹکور کرنے کے بعد رس کی مالش کی جائے۔ ہر تین گھنٹے بعد کی مالش سوجن اور درد کو دور کردے گی۔
جلنے کا زخم:… اگر جسم کا کوئی حصہ جھلس جائے تو کچا آلو کدوکش کرکے، رس دار گودے کو جلے ہوئے حصے پر لگا دیں، فوراً آرام آجائے گا اور جلن دور ہوگی۔
زنگ کا داغ:… اگر کسی کپڑے پر زنگ کا داغ پڑ جائے تو داغ والی جگہ پر کچا آلو کاٹ کر رگڑیں اور فوراً دھو لیں، داغ دور ہوجائے گا۔