Tuesday, 8 April 2014

ہائی بلڈ پریشر سے کیسے بچاجائے


ہائی بلڈ پریشر سے کیسے بچاجائے

چالیس سالہ یاسر کئی ماہ سے سر درد محسوس کر رہا تھا۔ کبھی کبھی بے وجہ اس پر سُستی بھی چھا جاتی۔ وہ کسی ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتا تھا مگر مصروفیت اور سستی کی وجہ سے نہ جاسکا۔
ایک دن سر کے پچھلے حصے میں اتنا شدید درد ہوا کہ اُسے دن میں تارے نظر آگئے۔ اگلے دن تکلیف کم ہوئی، تو وہ ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ معالج تجر بہ کار تھا۔ اس نے یاسر سے علاماتِ مرض سنیں، تو اُسے شک ہوا کہ وہ ’’ہائپر ٹینشن‘‘ میں مبتلا ہوچکا ہے۔ یہ بیماری عرف عام میں ’’ہائی بلڈ پریشر‘‘ یا ’’بلند فشار خون‘‘ کہلاتی ہے۔ جب یاسر کے خون کا دبائو چیک ہوا، تو ڈاکٹر کا شک یقین میں بدل گیا۔ جب یاسر کو علم ہوا کہ وہ ہائی بلڈ پریشر کا مریض بن چکا، تو اُسے بڑی حیرانی ہوئی۔ کیونکہ اس بیماری نے چپکے چپکے اُسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
یاسر کو معلوم نہ تھا، ہائی بلڈ پریشر کا شمار ان گنی چنی بیماریوں میں ہوتا ہے جو خاموشی سے انسان کو اپنی گرفت میں لیتی ہیں۔ یہ ایک خطرناک مرض ہے کہ انسان کو بہت سی بیماریوں مثلاً امراض قلب، امراض گردہ، فالج وغیرہ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس کے باوجود ہائی بلڈ پریشر کے شکار ’’50فیصد‘‘ مریض اپنے مرض سے بر وقت واقف نہیں ہوپاتے۔ جب ان کا کسی وجہ سے طبی معاینہ ہو تبھی بلڈ پریشر چیک کرنے پر اس موذی مرض کا پتا چلتا ہے۔
خون کا دبائو کیا ہے؟
ہمارا دل دھڑکنے کے عمل کی مدد سے خون پورے جسم میں پھینکتا ہے۔ خون میں موجود غذائیات اور آکسیجن کے ذریعے ہی ہم توانائی پاتے اور روز مرہ کام انجام دیتے ہیں۔ دورانِ حرکت یہ خون شریانوں کی دیواروں سے ٹکراتا ہے۔ اس ٹکرانے کی شدت ہی ’’خون کا دبائو‘‘ یا ’’بلڈ پریشر‘‘ کہلاتی ہے۔
ٹکرائو کی شدت اگر بڑھ جائے، تو یہی حالت ہائی بلڈ پریشر کہلاتی اور مضرِ صحت ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اوّل پورے بدن میں خون پہنچانے کے لیے دل کو زیادہ سرگرمی سے کام کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے شریانوں پر غیر ضروری دبائو پڑ جاتا ہے۔
ہائی بلڈ پریشر کی علامات
روز مرہ زندگی میں مگن انسان کو پتا نہیں چلتا کہ وہ ہائپرٹینشن کا شکار ہوچکا ہے۔ یہ حقیقت صرف بلڈ پریشر چیک کرنے سے عیاں ہوتی ہے۔
بلڈ پریشر ’’ملی میٹرز آف مرکری‘‘ (MMHG) کے ذریعے ناپا اور دو عدد میں لکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کا فشار خون 120/80ایم ایم ایچ جی ہے، تو اس کے معنی ہوئے، آپ کے خون کا دبائو 120پہ 80ہے۔
عدد سے کیا ظاہر ہے؟
بلڈپریشر بتانے والا پہلا عدد انقباضی (Systolic)کہلاتاہے۔ جب دل دھڑکے، تو یہ وہ سب سے بلند عد دہے جس پہ ہمارا بلڈ پریشر پہنچتا ہے۔ دوسرا عدد انبساطی (Diastolic)کہلاتا ہے۔ دو دھڑکنوں کے درمیان ہمارا دل آرام کرے، تو وہ سب سے نچلی سطح ہے جس پہ ہمارا فشار خون پہنچ سکتا ہے۔
خون کا دبائو کم رکھیے
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اچھی صحت کے لیے ضروری ہے، آپ کے خون کا دبائو 120/80سے نیچے رہے۔ گویا یہ نارمل بلڈ پریشر ہے۔ لیکن اس عدد سے بلڈ پریشر جتنا بلند ہوگا، امراض چمٹنے کا خطرہ اتنا ہی بڑھے گا۔
ڈاکٹر مزید کہتے ہیں کہ اپنا بلڈ پریشر کم سے کم رکھیے۔ وجہ یہی ہے کہ بلند فشار خون انسان کو متفرق بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جس انسان کا بلڈ پریشر 135/85ہو، اُسے یہ خطرہ درپیش رہتا ہے کہ وہ 115/75والے کی نسبت زیادہ آسانی سے امراض قلب و فالج کا نشانہ بن جائے گا۔
عام طور پر جس انسان کا انقباضی عدد 140یا اس سے بلند اور انبساطی فشار خون 90یا زیادہ ہو، ڈاکٹر اُسے ادویہ دینے لگتے ہیں تاکہ وہ اپنے ہائی بلڈ پریشر کو قابو کر سکے۔
تاہم ہائپر ٹینشن کی اکثر ادویہ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ خاصے ضمنی اثرات رکھتی ہیں۔ مثلاً انھیں کھانے سے انسان ٹانگوں کی اکڑن، بے خوابی اور سُستی کا شکار بن جاتا ہے۔
خوش قسمتی سے ادویہ کے بغیر بھی ہائی بلڈ پریشر پر قابو پاناممکن ہے۔ اُس ضمن میں طرز زندگی (Lifestyle) کا کردار بہت اہم ہے۔ اگر انسان طرز زندگی میں مثبت تبدیلیاں لے آئے، تو نہ صرف ادویہ کی ضرورت سے بے نیاز ہوسکتا ہے بلکہ صحت بھی پا لیتا ہے۔ ذیل میں ایسی تبدیلیوں کا ذکر پیش ہے جو ہائپرٹینشن سے بچنے کی خاطر عمل میں لانی چاہئیں۔
(1) وزن کم کیجیے
جوں جوں انسان کا وزن بڑھے، ہائی بلڈ پریشر بھی بڑھتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے، انسان اگر چار پانچ کلو بھی اپنا وزن کم کرلے، تو اس کا بلڈ پریشر گر جاتا ہے۔ طبی اصول یہ ہے کہ جتنا وزن کم ہوگا، بلڈ پریشر بھی اتنا ہی گھٹ جائے گا۔ مزید برآں وزن کم ہونے سے ادویہ کا مؤثر پن بھی بڑھ جاتا ہے۔ تاہم اپنا وزن قد کے حساب سے رکھیے۔ کیونکہ حد سے زیادہ وزن گرنا صحت کے لیے مفید نہیں۔
مزید برآں اپنی کمر کو بھی فربہ نہ ہونے دیجیے۔ کمر کے گرد چربی چڑھنے سے بلڈ پریشر میں اضافے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ سو مردوں کو چاہیے کہ وہ اپنی کمر 40 اِنچ(102سینٹی میٹر)سے نہ بڑھنے دیں۔جبکہ خواتین کی کمر 32اِنچ (81سینٹی میٹر) سے نہیں بڑھنی چاہیے۔
(2)ورزش باقاعدگی سے کیجیے
انسان اگر باقاعدگی سے ہفتے میں چار پانچ دن 30تا 60منٹ ورزش کرے، تو اس کا بلڈ پریشر 4تا 9 ایم ایم ایچ جی کم ہوسکتا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ نتیجہ برآمد ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔ صرف چند ہفتوں کی ورزش بلڈ پریشر گھٹا ڈالتی ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ سخت ورزش کریں، تیز چلنا بھی اس ضمن میں مفید سرگرمی ہے۔
تاہم ہفتے کے دو تین دن سخت ورزش نہ کیجیے۔ بعض لوگ ہفتہ اتوار کو سخت ورزش کرکے سمجھتے ہیں کہ مطلوبہ سرگرمی کا حق ادا ہوگیا۔ مگر اچانک سخت ورزش کرنا اُلٹا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
(3)صحت مند غذا کھائیے
اپنی غذا میں سالم اناج، پھل، سبزیاں اور کم چکنائی والی ڈیری مصنوعات شامل رکھیے۔ چکنائی کی نقصان دہ قسم (سیچوریٹیڈ) اور کولیسٹرول سے پرہیز کیجیے۔ صحت مند غذا کھانے سے انسان اپنا بلڈ پریشر 14ایم ایم ایچ جی تک گھٹا سکتا ہے۔
غذا میں آلو، ساگ اور کیلا شامل رکھیے۔ ان میں پوٹاشیم موجود ہوتا ہے۔ یہ معدن نمک کے مضر اثرات دور کرتا اور خون کی بند نالیاں کشادہ کرتا ہے۔ کوشش کیجیے کہ روزانہ کم از کم 1000ملی گرام پوٹاشیم لیجیے۔
دہی کھائیے۔ ایک حالیہ تحقیق سے اِنکشاف ہوا کہ جو مرد و زن روزانہ باقاعدگی سے دہی کھائیں، ان کا بلڈ پریشر نہ کھانے والوں کی نسبت معمول پر رہتا ہے۔ اس ضمن میں ڈیری کی دیگر غذائیں بھی مفید ہیں۔
(4)نمک کم استعمال کیجیے
وہ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ غذا میں معمولی نمک کم کرنے سے بھی بلڈ پریشر 2تا 8ایم ایم ایچ جی گھٹ جاتا ہے۔ سو روزانہ زیادہ سے زیادہ 2300ملی گرام نمک استعمال کیجیے۔ جبکہ 51سال سے زیادہ عمر کے لوگ یہ حد 1500ملی گرام تک پہنچا دیں۔ یاد رہے، ایک چھوٹا چمچ نمک2300ملی گرام نمک رکھتا ہے۔
(5)تمباکو سے پرہیز کیجیے
سگریٹ نوشی کے نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُسے پینے کے ایک گھنٹے بعد تک انسان کا بلڈ پریشر 10ایم ایم ایچ جی تک بڑھا رہتا ہے۔ گویا جو شخص مسلسل سگریٹ نوش کرے، وہ مسلسل ہائپرٹینشن کا شکار رہتا ہے۔ سو اس مرض میں مبتلا حتی الامکان سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔
(6)کیفین کا استعمال گھٹائیے
بلڈپریشر بڑھانے میں کیفین کے کردار پر تحقیق جاری ہے۔ دراصل کیفین کے حامل مشروبات پینے سے دفعتہً ہمارا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے، لیکن یہ اثر بعض مرد و زن میں عارضی رہتا ہے۔ جن لوگوں میں کیفین والا مشروب پینے سے بلڈ پریشرمسلسل بڑھا رہے، تو وہ اس سے پرہیز کریں۔
(7)ذہنی و جسمانی دبائو(Stress)سے بچییے
آج کی تیز رفتار اور تھکا دینے والی زندگی میں انسان ذہنی و جسمانی دبائو سے بچ نہیں پاتا۔ مسائل اور پریشانیاں اُسے گھیرے رہتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ دبائو بلڈ پریشر بڑھا کر انسان کو بیمار کر سکتا ہے۔ اس لیے سعی کیجیے کہ ذہنی و جسمانی دبائو کم سے کم آپ کو متاثر کرے۔
دبائو کم کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ مثلاً کوئی مزاحیہ ڈراما یا فلم دیکھیے، پُرخلوص دوست سے باتیں کیجیے۔ صبح کھلی فضا میں گہرے سانس لیجیے۔ اہل خانہ سے خوش گپیاں کیجیے۔
نماز پڑھنا بھی دبائو کم کرنے کا سہل طریقہ ہے۔ دورانِ نماز خدا کو یاد کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ پھر قیام، رکوع اور سُجُودسے ورزش ہوتی اور خون کی روانی تیز ہوجاتی ہے۔ سو بصورت نماز رب کریم کی عنایت سے بھرپور فائدہ اُٹھائیے۔
(8)کام کو سر پر سوار نہ کیجیے
بعض لوگ روزانہ 15تا 18گھنٹے کام کرتے ہیں۔ یہ جسم پر حد سے زیادہ بار ڈالنے والی بات ہے۔ اس کثرتِ کار کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ بلڈ پریشر بڑھا دیتا ہے۔ سو ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ ہفتے میں زیادہ سے زیادہ 48گھنٹے ہی کام کیجیے۔ :