Thursday, 10 April 2014
ؑعضو تناسل کی بیماریاں۔
ؑعضو تناسل کی بیماریاں۔
آتشک کے لفظی معنی آگ کے ہیں جس طرح آگ دوسری چیزوں کا جلا کر راکھ کر دیتی ہے اسی طرح یہ مرض بھی تمام جسمانی قوتوں کوبیکاراور تباہ کر دیتا ہے۔آتشک اس کو انگریزی میں سلفس کہتے ہیں اٹلی کے ایک مشہور شاعر ایف راکسٹر ونے ۱۵۳۰ءمیں لاطینی زبان میں ایک نظم لکھی تھی اس نظم میں اس نے ایک بیماری کی تکالیف اور کوفتوں کو ظاہر کیا اور اسے سلفس کے نام سے پکارا تب سے دنیا بھر کے میڈیکل پر وفیشن نے اس مرض کو سلفس کے نام سے منسوب کر دیا سلفس کے لفظی معنی ”محبت کے ساتھ“ ہیں ۔،یہ جراثیم اسپائرو کیٹیا پلیڈا گروپ سے تعلق رکھتا ہے اسے ڈاکٹر شوڈین نے ۱۹۰۵ ءمیں دریافت کیا تھا ۔ یہ مرض جنسی بے راہ روی،فاحشہ بازاری عورتوں اور طوائفوں کے ساتھ مباشرت کرنے سے پیدا ہوتا ہے مرض سے متا ثرہ عورت سے مبا شرت کرنے کے دوران عورت سے جراثیم مرد کے قضیب کی غشا ءمخاطی یا جسم کے دیگر حصوں میں متقل ہوجاتے ہیں پھر یہی بے خبر اپنی بیوی سے جماع کرتا ہے تو وہ بے چاری بھی اس مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے اور آنے والی نسل کومتاثر کردیتی ہے ۔
امریکہ ،مغربی،جرمنی انگلستان ،اٹلی اور دیگر ترقی یافتہ مغربی ممالک کے علاوہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں جہاں نوجواں لڑکے لڑکیاں آزاد انہ طرز زندگی کی طرف مائل ہورہے ہیں یہ مرض بھی وبائی شکل اختیار کرتا جارہا ہے ۔ نوجوانوں کی بے راہ روی جسے آج کل بڑے فخر سے ہپی از م کا نام دیا جارہا ہے نسل انسانی کے خاتمے اور تباہی کاپیش خیمہ بن رہی ہے عورت اور مرد کے آزادنہ تعلقات کے حامی اور آزادی کے نام پر انسانیت کی رسوائی اور بربادی کا سامان خندہ پیشانی سے فراہم کررہے ہیں ۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں ایسے متعدد رسائل اور جرائد با قاعدگی سے شائع ہورہے ہیں جن میں ہر دوجنس کو بلا خوف و خطر جنسی بے راہ روی کی تلقین کی جاتی ہے اور آئندہ خطرات سے بے فکر رہنے کا مشورہ دیاجاتاہے حیا سوز منظر کے ذریعے قبائے انسانیت تا رتار کرنے پر اکسایا جاتا ہے اب تو نظریاتی ممالک بھی ان بے ہودہ لٹریچرکی زد میں آچکے ہیں۔جدیدیت کے عاشق گھرانوں کے چشم و چراغ بھی اسی انداز میں اپنے شب و روز گذاررہے ہیں اس مسموم طرز زندگی کے زہر نے اپنے اثرات دکھائے ہیں بے راہ روی کا خمیار پوری قوم کو بھگتنا پڑا ہے اس مرض خبیث کے جراثیم ملک کے نوجوانوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔
امریکہ میں شائع ہونے والے ایک ایسے ہی حیا سوز رسالے میں خواتین کو مشورہ دیا گیا کہ وہ بے خوف و خطر جنسی بے راہ روی کو جاری رکھیں کیوں کہ خوش قسمتی سے طب جدید نے اس خبیث مرض کا علاج دریافت کر لیا ہے پینسلین کے ایک سے دو انجکشن انہیں اس عذاب سے نجات دلا دیں گے جس کے بعد وہ پھر سے داد عیش دے سکتی ہیں واضح رہے کہ اندازاً بیس لاکھ امریکی خواتین نے اس رسالے کو پڑھا ہے ۔ اس قسم کے چھپنے والے لٹریچر میں یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ ”پہلے عیش کر لو بعد میں پینسلین کا ٹیلہ لگو الینا “ ایسے ہی رسالے اور کتابیں آ ج کل اپنے قارئین کو سخت دھو کہ دے رہے ہیں کیو ں کہ اس مرض میں مبتلا خواتین اورمرد پینسلین سے کسی بھی شفا یاب نہیں ہو سکتے البتہ وقتی طور پر فائدہ ضرور ہوتا ہے ۔ اس مرض کے جراثیم بڑی خاموشی کے ساتھ جسم میں اپنا زہر پھیلاتے رہتے ہیں پھر یکایک ان کی سمیت نومولود بچوں کی نا بینائی عورتوں کے بانجھ پن مردوں میں بالعموم دورہ ¿ قلب پاگل پن ، بانجھ پن یا نا بینائی کی صورت میں رونما ہوتی ہے ۔
اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کونسل کے کمیشن کے مطابق ۱۹۶۷ءمیں دنیا میں ۳سے ۵کروڑ انسان اس مرض خبیث میںمبتلا تھے ۔
اس مرض خبیث نے ماضی میں بھی بڑا عجیب اور ڈرامائی کر دار ادا کیا ہے اگر چہ یہ کہنا تو ممکن نہیں کہ اس کا آغاز کیسے ہوا لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ مرض صدیوں تک جنسی تعلقات کے ذریعے سے نسل میںمنتقل ہوتا رہاہے انسانی طبقہ کے ہر افراد اس مرض کی لپیٹ میں آتے رہے ہیں ان میں شہنشاہ ، بادشاہ شرفاء، شعرا ، مصور اور علماءنیز نچلے طبقے کے افراد بھی شامل ہیں۔ قدیم ترین تہذیبوں مثلاًچین ، بابل،نیوا مصر ، یونان اور روم دیگر تہذیبوں کے آثار کا مطالعہ اس بات کا شاہد ہے کہ اس مرض اس دور میں بھی انسانی کا بڑی بے دردی سے تباہ کر دیاتھا ان تہذیبوں کے کھنڈرات سے برآمد ہونے والے برتنوں، تصاویر اور مجسموں وغیرہ پر ایسی تحریری ملی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض حسین و خوبصورت عورتوں کی قربت کے بعد لوگوں کو زہریلے زخم ہوجایا کرتے تھے عبرانی زبان کی قدیم کتابوں میں بھی اس قسم کی تنبیہ ملتی ہے کہ ”تمھیں ناجائز تعلقات سے گریز کرنا چاہئے ورنہ تمھیں بطور سزا وہ زخم ملیں گے جو تمھارے گوشت پوست کو چٹ کر جائیں گے “۔
یہ مرض امریکہ کے اصل باشندوں تک ہی محدود تھا ۱۴۹۳ءمیں جب کولمبس نے امریکہ کو دریافت کیا تو اس کے ملاح اس مرض کو وہاں سے اپنے ساتھ لائے اسی سال با رسلونا میں اس مرض نے بڑی تباہی مچائی پھر وہاں سے یہ وباءپورے یورپ میں پھیل گئی ۔صلیبی جنگوں ،مہم جو جماعتوں اور تاجروںکے ذریعے سے یہ مرض مشرق ہندوستان ،چین و جاپان میں پھیل گیا ہمارے ملک ہندوستان میں اس مرض کی تاریخ نہایت قدیم ہے منو سمرتی میں صاف مرقوم ہے ” جو شخص پرائی عورت کے ساتھ مجا معت کرے گا نہ وہ صرف بلکہ اس کے آنے والی ساتھ پشتیں دوزخ میں جائیں گی اور دوزخ کی آگ میں جلیں گیں“۔یہ ایک استعارہ کی شکل ہے مہابھارت میں بھی کہیں کہیں آتشک کا ذکر ملتا ہے ۔
اسباب:
یہ مرض کم و بیش روئے زمین کے تمام ممالک میں پایا جاتا ہے ماہرین صحت معترف ہے کہ جدید طبی سہولتوں کے باوجود یہ مرض آج بھی بے قابو ہے امریکی ماہرین صحت کے مطابق دیگر تمام متعددی امراض کے مقابلے یہ مرض نہایت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے ان کی رائے میں یہ مرض اپنی ہلاکت خیزیوں کے لحاظ سے سب میں آگے نکل چکا ہے ۔ اس مرض کا ایک اہم سبب تو نرمی ٹری پونیما پے لی ڈی نامی جراثیم ہی ہے جو مختلف طریقے سے جسم انسانی میں پہنچ کر اس مرض کانمود کا سبب ہوتا ہے لیکن جس خاص سبب سے اس جراثیم یا سمیت کو جسم میں داخل ہونے کا موقع ملتا ہے ان میں مباشرت ایک خاص سبب ہے خاص طورسے بازاری فاحشہ عورتوں اور طوائفوں سے مباشرت کرنا وغیرہ ۔(یہاں اس غلط فہمی کو بھی خاص طور سے دور کرتا چلوں کہ دنیا کے تمام معا شروں میںاس امراض کو پھیلانے میں یہ عورتیں صرف پانچ فیصد حصہ لیتی ہیں پنیسلین کی دریافت سے پہلے البتہ یہ خواتین اس مرض کی پوری پوری ذمہ دار تھیں لیکن اب صورت حال دیگر ہے آج کل اس مرض کو پھیلانے میں اسیّ فیصد ان نوجوانوں لڑکے لڑکیوں اور مرد خواتین کا ہے جوآزادانہ جنسی تعلقات کے حامی ہیں اس کے علاوہ ہم جنسی کے عادی افراد کا حصہ پندرہ فی صد ہے ۔) جراثیم کا جسم میں داخل ہونے کے لئے مرد کے عضو تنا سل میں خراش یار گڑ کا ہونا ضروری ہے چاہے یہ خراش یارگڑ کتنی ہی ہلکی کیوں نہ ہو پھر یہ اسی جسم میں نہایت آزادی کے ساتھ داخل ہوکر عروق شعریہ کی چھوٹی چھوٹی نہروں میں پہنچ کر بتدریج خون کی رگوں کی بڑی بڑی نہروں میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں تیرتے پھرتے ہیں اور اپنی سمیت آلود زندگی سے تمام خون کی زہر آلود کر دیتے ہیں ۔بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی مریضہ ¿ آتشک سے جماع کرتا ہے لیکن اس شخص میں کسی قسم کی خراش نہ ہونے یااس مرض کی استعداد نہ ہونے کی وجہ سے وہ شخص محفوظ رہتا ہے لیکن جب وہ اپنی بیوی یا کسی تندرست یا صحیح عورت سے مباشرت کرتا ہے تو آتشک عورت میں منتقل ہوجاتے ہیں اور وہ آتشک میں مبتلا ہو جاتی ہے بعض اوقات اس کے برخلاف مریض آتشک صحیح وتندرست عورت جماع کرتا ہے ،لیکن عورت میں اس مرض کی کوئی نمود نہیں ہوتی پھر جب کوئی تندرست مرد اس عورت ست جماع کرتا ہے تو وہ اس مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔
مباشرت کے علاوہ مریض آتشک سے میل جول رکھنے اس کے کپڑے پہنے اس کے ساتھ سونے کھانا کھانے یااس کا جھوٹا پانی پینے یااس کا بوسہ لینے یااس کی تولیہ سے ہاتھ وغیرہ پونچھنے سے بھی یہ مرض ہوجاتا ہے اس صورت میںبھی جسم کے کسی مقام پر یا منہ کے اندر ہلکی سی خراش موجود ہوتی ہے جس سے آتشک کی سمیت جسم میں داخل ہوجاتی ہے ۔اس کے علاوہ حجام بھی اس مرض کو تندرست آدمی میں منتقل کرنے کا سبب بن جاتے ہیں دایا بھی اس مرض کو پھیلانے کا سبب بنتی ہیں کیوں کہ مریضہ آتشک کی زچگی کے وقت آتشک کی سمیت دایا کے ہاتھوںمیں لگ جاتی ہے پھر وہ دوسری تندرست عورت کی زچگی کرتی ہے تو یہی سمیت اس کے جسم میں داخل ہوکر آتشک کا سبب بنتی ہے ۔
جو بچے موروثی طورپر اس مرض میںمبتلا ہوتے ہیں وہ والد یا والدہ میں سے کسی ایک کے مبتلا ہونے سے مریض ہوجاتے ہیں اور گاہے دونوں کے مبتلا ہونے کی وجہ سے یا اگر حاملہ اس مرض میں مبتلا ہے تو جنین میں بھی یہ مرض ہوجاتاہے کیوں کہ جنین کی غذا میں جوخون صرف ہوتا ہے وہ مریضہ کا زہریلا خون ہوتا لہذا اس کا مبتلا ہونا یقینی امر ہے چنانچہ جب یہ مرض ماں کی طرف سے ہوتا ہے تو نہایت شدید ہوتا ہے یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ بچہ توموروثی آتشک میں مبتلا ہے اور اس کی ماں بظاہراس میں مبتلا نہیں ہے لیکن درحقیقت اس کا ماں کا خون آتشک کی سمیت سے آلودہ ہے ۔ جب یہ مرض ایک قوم سے دوسری قوم یا ایک افراد سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے تو اس کی علامات بہت شدید ہوتی ہے اس مرض سے جب مریض بالکل شفایاب ہوجاتا ہے تو پھر کم ہی دوبارہ اس میں مبتلا ہوتا ہے اگر ہو بھی جا ئے تو مرض بہت کمزور اور اس کی علامات زیادہ تکلیف دہ نہیں ہوتیں ۔ اس مرض کی دوقسمیں ہیں ۔
(۱)خود حاصل کردہ آتشک :
اس قسم میں براہ راست ناپاک مباشرت کے بعد اس کا مواد کسی خراش کے ذریعے بدن میں داخل ہوکر دوران خون میں شامل ہوجاتا ہے اس قسم کے چار درجات ہوتے ہیں ۔
(۱)درجہ اول: اسے پرائمری سلفس بھی کہتے ہیں اس درجہ میں بیمار شخص سے ملوث ہونے کے فوری بعد رونما نہیں ہوتا اس کی پہلی اور واضح علامت باالعموم ایک ابھاریا پھنسی ہوتی ہے یہ تین طرح کی ہوتی ہے ہن ٹرین ،پارچی منٹ، جو جراثیم کے جسم میں داخل ہونے کے دس سے نوے دن بعد ظاہر ہوتی ہے اس پھنسی یا ابھار کی جڑ سخت ہوتی ہے ۔ یہ رفتہ رفتہ بڑھ کر پھٹ جاتی ہے اور وہاں ایک زخم بن جاتا ہے جو صرف تعداد میں ایک ہی ہوتا ہے اس کے آس پاس کی جلد کس قدر اونچی ہوتی ہے زخم کو دبا یا جائے تو یوںمحسوس ہوتا ہے گویا کوئی سخت کری جلد کے اندر پیداہو گئی ہے اس زخم میں درد بالکل نہیں ہوتا اور مواد بھی بہت کم نکلتا ہے اس زخم کو ڈاکٹری اصطلاح میں شینکر (Shaucers)کہتے ہیں ۔ بعض اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ صرف عضو تنا سل کے کسی حصے کی جلد موٹی اور اور سرخ ہوجاتی ہے جس پر کہ آتشک کا گمان بھی نہیں ہوتا اس درجے کے ظاہر ہونے سے چھ ماہ بعد مرض کا دوسرا درجہ شروع ہوجات ہے ۔
(۲) درجہ دوم : اسے سکینڈری سلفس بھی کہتے ہیں اس درجہ میںمریض بے چین پست ہمت اورکمزور ہوجاتا ہے جسم پر گلابی رنگ کے دانے نکل آتے ہیںساتھ ہی جسم کے تمام غدو د بڑھ جاتے ہیں گوشت اور ہڈیوں میں درد ہونے لگتا ہے جورات میں شدید ہوجاتا ہے کبھی ہلکا اور کبھی شدید بخار بھی ہوتا ہے گلابی رنگ کے دانے جسم کے تمام حصوں پرنکل جاتے ہیں پھر دو ماہ کے ہوتے ہوئے مرجھا کر بالکل غائب ہوجاتے ہیں صرف انکے سیاہ داغ باقی رہ جاتے ہیں بعض اوقات ان میں ذرا سی پیپ وغیرہ بھی پڑجاکرتی ہے لیکن ان میں نہ جلن ہوتی ہے اور نہ ہی درد ہوتی ہے ۔لوز تین (ٹانسلز) میںسوجن آجاتی ہے ان میں زخم پڑجاتے ہیں جس سے آواز میں بھاری پن پیدا ہوجاتا ہے یہ اس امراض کی خاص علا مت ہے ۔تلی بڑھ جاتی ہے ۔بھنوو ¿ں پلکوں اور سر کے بال گرجاتے ہیں کلائی اور پاو ¿ں کی ہڈیوں میں درد ہونے لگتا ہے جو رات میں شدید ہوجاتا ہے جو ڑوں میں سوجن آجاتی ہے کبھی بہرے پن کی شکایت ہوجاتی ہے مریض کا خون ناقص اور کمزور ہوکر اسے اینمیا یعنی بھس کی شکایت ہوجاتی ہے ۔ ۶ ۱گست ۱۹۲۱ ءکو ڈاکٹر ایسن نے سفلس پر برٹش میڈیکل ایسو سی یشن کے سامنے لکچر دیتے ہوئے بتایا کہ آج کل کے ڈاکٹر کمی خون یعنی اینمیا کو آتشک کی نمودقرار نہیں دیتے وہ ان کے علاج کی طرف مائل ہوجاتے ہیں یہ سخت غلطی ہے کیوں کہ تجربہ بتاتا ہے کہ جب تک آتشک کے زہر کو دبانہ دیا جائے یا اس کو شفا نہ دی جائے اس وقت خون کی کمی کا کامیاب علاج نہیں ہو تا ۔ ڈاکٹر ایسن نے بتایا کہ خون کی کمی آتشک ثانوی کی ایک نمود جو اکثر ہو اکرتی ہے اور بعض وقت یہ خطر ناک حالت اختیار کرلیتی ہے مندرجہ بالا علامات بعض مریضوں میں چھ یا آٹھ ماہ بعض اوقات اٹھارہ ماہ بعد بالکل رفع ہو جاتی ہےں ۔
(۳) درجہ سوم: اسے ٹرثری سفلس بھی کہتے ہیں اس درجہ کی علامت ظاہر ہونے کا کوئی خاص وقت نہیں ہے ان کے ظاہر ہونے کا انحصار مریض کی صحت اورمناسب علاج پر موقوف ہوتا ہے اس درجہ کی علامت درجہ دوم کی علامت کے رفع ہوجانے کے مہینوں یا برسوں بعد نمایاں ہوتی ہیں چنانچہ مختلف اعضاءو احشاءمیں ابھار یا گلٹیاں پیدا ہو کر بعض اوقات وہ نرم اور متقرح ہوجاتی ہیں اس قسم کی گلٹیاں جلد ، عضلات ، زبان حلق ،آنت ، دماغ ، نخاع ، اعصاب دل ، پھیپھڑے ،جگر ،تلی ،گردوں اور ہڈیوں میں پیدا ہوجاتی ہیں ہڈیوں میں جوابھار ہوتے ہیں ان میںرات سخت درد ہوتا ہے تالو گل جاتے ہیں کبھی ناک کی ہڈی بھی گل جاتی ہے مریض انتہائی درجہ لاغرور کمزور ہا جاتا ہے۔
(۴)درجہ چہارم:بعض عصبی امراض ٹپس ڈراسلس (نخاع کی کمزوری) لوکو موٹر ا ٹیکسی) (لڑکھڑا چلنا)، فالج ، جنون وغیر ہ پرانے آتشک اور اس کے زہریلے اثر کا نتیجہ ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسی فی صد مریض ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں کسی نہ کسی وقت آتشک ضرور ہو چکا ہوتا ہے۔
(۲) پیدائشی آتشک:
یہ آتشک کی دوسری قسم ہے اس میں حمل ٹھہرتے وقت یہ مرض بذریعہ نطفہ والد کی طرف سے یا والدہ کی طرف سے یا دونوں کی طرف سے ہوجایا کرتا ہے یہ بات یاد رہے کہ والدین کی آتشک کااثر ہر حال میں ماں کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے کو حمل ہونے کے وقت ہی ورثہ میںمل جاتا ہے باپ کی بہ نسبت ماں کی طرف سے ہوئے آتشک کی علامت بچہ میں زیادہ شدید ہو اکرتی ہیں۔
علامت : چونکہ آتشکی نطفہ عموماً ناقص اور کمزور ہوتا ہے اس لئے رحم مادر میں ٹھیک طور سے نشونما نہیں پاتا جس کی وجہ سے حمل باربار ساقط ہوجاتا ہے بعض حالتوں میں بچہ اپنی طبعی مدت میں پیدا ہوتا ہے لیکن جلد مرجاتا ہے لیکن بعض اوقات طبعی ،مدت میں پیدا ہو کر بظاہر تندرست رہتا ہے مگر اس میں موروثی آتشک کی علامت جلد نمایاں ہوجاتی ہیں ۔پیدا ئش سے آٹھ ہفتے بعد مرض کا ظہور شروع ہوجاتا ہے ابتداءمیں بچہ موٹا تازہ اور تندرست معلوم ہوتا ہے مگر علامت کے ظاہر ہوتے ہی کمزور اور دبلا پتلا ہونا شروع ہو جاتا ہے بدن کی رنگت سفید اور تمام بدن پر جھریاں پڑنے لگ جاتی ہیں بچے کو زکام ہوتا ہے سانس رک رک کر آتی ہے منہ یا حلق میں چھالے پڑجاتے ہیں ناک کے اندر زخم ہوکر ہڈی خراب ہو جاتی ہے ،زیر ناف تمام حصے پھنسیاں پیدا ہوجاتی ہیں بال باریک ہوجاتے ہیں اور پھر جلد ہی جھڑ جاتے ہیںدودھ کے دانت دیر سے نکلتے ہیں جو کہ نہایت کمزور اور بد شکل ہوتے ہیں اور جلد ہی گر جاتے ہیں بچہ ہمیشہ روتا ہے مزاج چڑ چڑا پن ہوتا ہے قے اور دست آتے ہیں کبھی یرقان بھی ہوجاتا ہے دودھ کے دانت گرجاتے ہیںوہ بھی بد شکل اور کرم خور دہ ہوتے ہیں آنکھیں؟ دکھتی ہیں اونچا سنائی دینے لگتا ہے ٹانگوں کی ہڈیاں مڑجاتی ہیں اور بہت جلد ان بچوں کا ٹی۔ بی۔ میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔
تشخیص :
آتشک کی دونوں قسموں کی تشخیص واسر مین ری ایکشن ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے یہاںیہ بات یادرکھنے کی ہے واسر مین ری ایکشن کے مثبت ہونے پر ہر وقت مریض کو آتشک میں مبتلا نہ سمجھ لینا چاہئے کیوں کہ ایسی مستشنیات بھی دنیا میں موجود ہیں جس سے خون میں واسر ری ایکشن مثبت ہوتا ہے تا ہم وہ کبھی آتشک میں مبتلا ہوئے اور نہ کبھی ہوئے تھے مندرجہ ذیل مستشنیات یاد رکھنے کے قابل ہیں ۔
(۱)وقتاًفوقتاً خون کی جانچ کرنے کے بعد اس ٹیسٹ کے مستقل طور پر مثبت رہنے سے ثابت ہوتا کہ آتشک کا زہر جسم کے کسی خاص حصہ میں نہایت تیز ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مریض کی موجود ہ بیماری آتشک ہی ہے گوہو سکتا ہے مریض میں آتشک موجود ہواس حالت میں علامت کومد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے اس کے علاوہ کینسر کے مریض کے خون کی جانچ میں واسر مین ری ایکشن ہمیشہ مثبت ہوتا ہے تو اس کابھی یہ مطلب نہیں کہ مریض کر آتشک لاحقہ ہے ۔ بوڑھاپے میں حاصل کردہ آتشک یا آتشک کے آخری مرحلہ میں واسر مین ری ایکشن ہمیشہ منفی ہوتا ہے ان تمام مستشنیات کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ ٓخذ کیا جاسکتا ہے کہ محض اس ٹیسٹ پر بھروسہ کرلینا آتشک کی صحیح تشخیص نہیں ہے ۔
انجام مرض
اس مرض میں خود بخود آرام ہوجانا محال ہے البتہ اگر مناسب اور معقول علاج پابندی اور مستقل مزاج ساتھ جارہ رکھا جائے تو اس صورت میں مرض میں کمی یا اس خاتمہ ہوسکتا ہے اور اگر مرض پوری طور پر زائل نہ بھی ہوتو اس کے عوارضات کی شدت ضرور ختم ہوجاتی ہے البتہ اگر علاج مناسب اور معقول نہ کیا گیا تو مرض انتہائی مہلک صورت اختیار کر لیتا ہے اس کے علاوہ حنجرہ ، اعصاب ،جگر ، تلی ، گردہ اور آنتوں کا کوئی بھی مرض لاحق ہو کر مریض انتقال کر جاتا ہے بعض اوقات مرض کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی مگر اس مرض کی سمیت بدن میں
چھپی رہتی ہے اور جیسے ہی انسان زیادہ کمزور اور ضعیف ہوتا ہے یا بداعتدالی کی زندگی گذارتا ہے مرض فوراً حملہ آور ہو جاتا ہے ۔
تحفظ:
اس مرض سے محفوظ رہنے کے لئے صفائی اور پرہیزگاری کی زندگی بسر کرنا نہایت ضروری ہے اس مرض کو زنا کا ری یا بد کاری کی قدرتی سزا سمجھنا چاہئے ۔
میاں کو آتشک بیوی کو بد ہے
نتیجہ کار بد کاکار ہے
چنانچہ سب سے بہتر تدبیر فسق و فجور جنسی بے راہ روی اور بد کاریوں سے پر ہیز سے تا کہ دنیا میں جسمانی مصائب سے محفوظ رہے اور عقبیٰ میں گنہگار اور مستوجب سزا قرار نہ پائے ۔مریض آتشک کے میل جول ، بوس و کنار ، ساتھ میں کھانا کھانے ، جھوٹا پانی پینے اس کے کپڑے اور رومال استعمال کرنے اس کے بستر پر سونے سے قطعی پرہیز کرنا چاہئے ورنہ ممکن ہے کہ اگر ہاتھ منہ یا جسم پر کہیںہلکی سی بھی خراش ہوگی تو وہاں آتشک کے جراثیم آسانی سے سرایت کر جائیں گے خود ایسے مریضان آتشک کو بہت محتاط رہنا چا ہئے ۔ شراب سے پرہیزکرنا لازم کیوں کہ اس کے استعمال سے آتشک کے جرا ثیم کو بہت جلد تمام بدن میں پھیلنے کا موقع مل جاتا ہے ۔
اصول علاج :
مریض کو صاف اور کشادہ مکان میںرکھیں اور اس کی ہر چیز علیحدہ رکھیں ورزش اور محنت کرنے سے منع کریں بدن کو سردی لگنے اور پانی میں بھیگنے سے بچانا چاہئے گرم کپڑے پہنانے چاہئے اگر مریضہ حاملہ ہے اس صورت میں علاج کے لئے جلدی کر نا چاہئے ۔
امریکی ماہرین صحت کی رائے میں اس مرض کا علاج بے حدمشکل اور پیچیدہ ہے وہ اسے ایک لاحاصل کوشش سمجھنے لگے ہیں ان کی اکثریت اس بات کی قائل ہے اس مرض کو پھیلانے میں ان کے معاشرہ کی موجودہ اقدار بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہےں ماہرین صحت معترف ہیں کہ اس مرض کی روک تھام صر ف اس صورت میں ممکن ہے کہ دنیا اخلاقی کے دائرے میں آجائے بے لگام اور کھلے عام جنسی اختلاط کا خاتمہ ہو یہی ماہرین صحت اجتماعی سطح پر ایک اخلاقی تحریک چلانے کے حامی ہیں تا کہ عورت اور مرد دونوں ہی ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھیں ضبط نفس کی ترتیب حاصل کریں اور صرف جائز وسائل پر انحصارکریں۔
آج مغرب میں از خرابی بسیار انہیں ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ عورت کے تعلقات میں حدود کا تعین کیا جائے بے حیائی اور آزادانہ جنسی تعلقات کو ختم کردیا جائے ورنہ بصورت دیگر آج کی ترقی یافتہ اقوام کی آئندہ نسلوں کو مرض کے جراثیم اس قدر کھوکھلا کر دیں گے کہ پھر ان میں موجود تما م صلاحیتوں کا ہمیشہ ہمیشہ خاتمہ ہو جائے گا ترقی کے نام پر فریب کھانے والے ہم مسلمانوں کوبھی اندھی تقلید سے گریز کر کے تباہی کی طرف بڑھنے کی کوشش ختم کر دینی چاہئے ۔