Sunday 2 March 2014

خواتین میں پرکشش دکھائی دینے کا شوق جنون کی حدوں کو پارکرچکا ہے


خواتین میں پرکشش دکھائی دینے کا شوق جنون کی حدوں کو پارکرچکا ہے۔افزائش حسن کیلئے جہاں دیگر مصنوعات مثلا مصنوعی بال‘ پلکیں‘پتلیوں کا رنگ بدلنے کیلئے مختلف رنگوں کے لینس‘ہونٹوں اور چہرے کو پرکشش بنانے کیلئے خنزیر کی چربی سے لبریزلپ اسٹک اور کریمیں حتی کہ اپنے جسمانی حسن میں اضافے کی خاطرسینے کے قدرتی ابھار میں اضافے کیلئے امپلانٹس کروا رکھے ہیں جبکہ دین دار خواتین نہ صرف مذکورہ آلائشوں سے پاک ہیں بلکہ اپنے محرموں کے سامنے بھی ہنسلی کی ہڈی بھی ظاہر نہیں ہونے دیتیں۔تعمیل ارشادباری تعالی میں منہمک رہتی ہیں۔ انھیں ہدایت ہے کہ اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو...جب عورت کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنے سینے پر دوپٹہ ڈال کر رکھے تو چہرہ ڈھانپنا بھی فرض ہو گا کیونکہ یا تو چہرہ لازما اس حکم میں داخل ہو جاتا ہے یا پھر قیاس صحیح اس کا تقاضا کرتا ہے۔وہ اس طرح کہ جب گردن و سینہ کو ڈھانپنا فرض ہے تو چہرے کے پردے کی فرضیت تو بدرجہ اولیٰ ہونی چاہئے کیونکہ وہی خوبصورتی کا مظہر اور فتنے کا موجب ہے۔اور ظاہری حسن کے متلاشی صرف چہرہ ہی دیکھتے ہیں۔ چہرہ خوبصورت ہو تو باقی اعضاءکو زیادہ اہمیت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔جب کہا جاتا ہے یہ ہے کہ فلاں خوبصورت ہے تو اس سے بھی چہرے کا جمال ہی مراد ہوتا ہے۔اس سے واضح ہوا کہ چہرے کا حسن و جمال ہی پوچھتے اور بتانے والوں کی گفتگو کا محور ہوتا ہے۔
دین سے دوری کے سبب اپنے جسمانی حسن میں اضافے کیلئے دنیا بھر میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بریسٹ امپلانٹس کرواتی ہے بالخصوص مغربی ممالک میں یہ رحجان کافی زیادہ پایا جاتا ہے۔محض فرانس میں30 ہزار سے زائد خواتین کو اپنے بریسٹ امپلانٹس نکلوانے کیلئے مالی امداد کی پیشکش کی گئی ہے کیونکہ اس بات کے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ یہ امپلانٹس پھٹنے سے ان میں موجود زہریلا سیلیکون مادہ جسم میں پھیل سکتا ہے۔یوروپ اور بعض دیگر ملکوں میں اس معاملے نے سنگین رخ اختیار کر لیا ہے کیونکہ کئی خواتین نے اپنے جسمانی حسن میں اضافے کی خاطر یہ امپلانٹس کروا رکھے ہیں۔ گزشتہ دنوں اپنے پرکشش پستانوں کے ذریعے شہوت ابھارنے کے شوق میں مبتلا امپلانٹس کروانے والی ایک خاتون کی ہلاکت نے عالمی ذرائع ابلاغ کی تشویش میں اضافہ کر دیا جس کے بارے میں صحت عامہ سے متعلق امریکی محکمے کے حکام نے ایک دہائی قبل ہی اپنے تحفظات ظاہر کر دئے تھے جس سے آج کل اسکینڈل میں گھری فرانسیسی بریسٹ امپلانٹ کمپنی پولی امپلانٹ پروتھیس دشواریوں میں گھر گئی تھی۔نہ جانے وطن عزیز میں بھی کتنی آئٹم گرل اور چمک دمک کی دنیا سے وابستہ خواتین بھی اس عمل سے گذر چکی ہوں گی۔
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب فرانسیسی کمپنی پولی امپلانٹ پروتھیس نے گزشتہ سال یورپ اور جنوبی امریکہ کی منڈیوں سے اپنے فروخت شدہ امپلانٹس واپس منگوا لئے۔فرانس میں صحت کے تحفظ کے ذمہ دار محکمے کا کہنا ہے کہ اس کمپنی کے تیار کردہ امپلانٹس دیگر مصنوعات کے مقابلے میں پھٹنے کے خطرے سے کہیں زیادہ دوچار ہیں۔ اس کے علاوہ تفتیش کاروں کا یہ کہنا ہے کہ ان امپلانٹس کی تیاری میں رقم بچانے کی خاطر طبی لحاظ سے محفوظ مواد استعمال کرنے کے بجائے صنعتی سیلیکون استعمال کیا گیا ہے۔اس اسکینڈل کے بعد پولی امپلانٹ پروتھیس کمپنی کے چیف ایگزیکیٹو افسر ڑاں کلود ماس منظر عام سے غائب ہو گئے ہیں اور حکام ان کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ہفتے کو بین الاقوامی پولیس کے ادارے انٹرپول نے ڑاں کلود ماس کے خلاف ایک ’ریڈ نوٹس‘ جاری کر دیا۔ فرانس کی قومی ہیلتھ انشورنس کمپنی نے بھی دھوکہ دہی اور بدعنوانی پر مبنی کاروبار کے الزام میں کمپنی پر مقدمہ دائر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ کمپنی 2001 سے امپلانٹس کی تیاری میں مضر صحت صنعتی سیلیکون مواد استعمال کر رہی تھی کیونکہ طبی لحاظ سے محفوظ مواد کے مقابلے میں اس کی لاگت انتہائی کم تھی۔اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ تمام بریسٹ امپلانٹس کمزور ہو کر پھٹ سکتے ہیں مگر سیلیکون مواد والے امپلانٹس اس لحاظ سے زیادہ حساس ہیں۔ ان کے پھٹنے سے جسم کے اندرونی اعضاءکو نقصان پہنچ سکتا ہے۔فرانس کی حکومت کی جانب سے متاثرہ خواتین کو مالی امداد کی پیشکش سے ملک کے خزانے پر 60 ملین یورو کا بوجھ پڑا جبکہ برطانیہ میں 40 ہزار کے قریب خواتین نے یہ امپلانٹس کروا رکھے ہیں۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں اس خطرے کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد تین لاکھ کے قریب بنتی ہے۔مذکورہ کمپنی کی مصنوعات جنوبی امریکہ کے کئی ملکوں میں بھی فروخت ہوتی رہی ہیں اور وہاں بھی اس معاملے پر سنسنی پھیل چکی ہے۔
واضح رہے کہ یوایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے)نے 2000میں اپنی ایک خصوصی ٹیم فرانس روانہ کی تھی تاکہ وہ پولی امپلانٹ پروتھیس پی آئی پی نامی اس کمپنی کی طرف سے بنائے گئے بریسٹ امپلانٹس کے ممکنہ طور پر مضر صحت ہونے کے بارے میں تحقیقات کر سکے۔اس ٹیم نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں ان امپلانٹس کو مضر صحت قرار دیا تھا اور اس کمپنی کے بانی ڑاں کلود ماس کو ایک وارننگ بھی ارسال کی گئی تھی کہ ان بریسٹ امپلانٹس کی تیاری کے دوران غیر معیاری اجزاء کی ملاوٹ روک دی جائے۔ ساتھ ہی اس بارے میں یہ تجاویز بھی دی گئی تھیں کہ یہ کمپنی کس طرح اپنی مصنوعات کو بہتر بنا سکتی تھی۔یہ کمپنی کاروباری منافع کی خاطر 2000سے امپلانٹس کی تیاری میں مبینہ طور پر مضر صحت صنعتی سیلیکون استعمال کر رہی تھی۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ تمام بریسٹ امپلانٹس کمزور ہو کر پھٹ سکتے ہیں مگر سیلیکون والے امپلانٹس اس لحاظ سے زیادہ حساس اور پرخطر ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کے پھٹنے سے انسانی جسم میں زہر پھیل سکتا ہے۔ طبی ماہرین کے بقول غیر معیاری طریقے سے بنائے گئے ان امپلانٹس کی جسم کے اندر پھٹنے کی شرح دیگر معیاری امپلانٹس کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک انتہائی اہم سوال نے جنم لیا ہے کہ اگر امریکی حکام نے ان بریسٹ امپلانٹس کے مضر صحت ہونے سے متعلق وارننگ جاری کی تھی تو فرانسیسی حکام نے اس بارے میں احتیاطی تدابیر کیوں نہ اختیار کیں۔ پیرس حکومت نے ابھی تک اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم یہ بات واضح ہے کہ(ایف ڈی اے) نے 2000میں ہی پی آئی پی کو ارسال کردہ وارننگ کو عوامی سطح پر بھی جاری کر دیا تھا۔فرانسیسی حکومت نے 2010میں اس کمپنی کو بند کروا کے تحقیقات شروع کر دی تھیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دیوالیہ پن کا شکار ہو جانے والی پی آئی پی کمپنی کی طرف سے بنائے گئے تین لاکھ بریسٹ امپلانٹس فروخت کیے جا چکے ہیں۔
معروف خبر رساں ادارے روئٹرز نے پیرس حکومت کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شاید جلد ہی پی آئی پی کے چھ اعلیٰ اہلکاروں پر فراڈ کے باقاعدہ الزامات عائد کر دیے جائیں گے۔ ابھی تک اس اسکینڈل میں ملوث ہونے کی بنیاد پر کسی کو نہ تو گرفتار کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی عدالتی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔اس بریسٹ امپلانٹ کمپنی پی آئی پی کے بانی ڑاں کلود ماس کے وکیل نے بتایا ہے کہ ان کا 72 سالہ موکل انتہائی علیل ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے خلاف عائد الزامات کا سامنا کرنے کو تیار ہے۔ ماس کے وکیل نے ایسی خبروں کو بھی مسترد کر دیا کہ ماس مفرور ہو چکے ہیں۔دریں اثناءڈچ ہیلتھ حکام نے کہا ہے کہ اسی کمپنی کے بنائے گئے قریب ایک ہزار بریسٹ امپلانٹس ہالینڈ میں ایک مختلف نام کے تحت فروخت کیے جا چکے ہیں۔ ہالینڈ کی وزارت صحت کی ترجمان ڈیانا بوہوجس نے بتایا کہ ہالینڈ کی ایک کمپنی نے پی آئی پی کے بریسٹ امپلانٹس خریدے تھے تاہم اس ڈچ کمپنی نے غیر ملکی سپلائی کمپنی کا نام ظاہر نہیں کیا تھا۔