Thursday 27 November 2014

سنا (سنامکی)


سنا (سنامکی)

حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیگم تھیں۔ آپ روایت فرماتی ہیں: "مجھ سے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے پوچھا کہ میں کونسا مسہل استعمال کرتی ہوں۔ میں نے عرض کی کہ شبرم، انہوں نے فرمایا کہ وہ تو بہت گرم ہے اس کے بعد سے میں سنا کا استعمال کرنے لگی کیونکہ انہوں نے فرمایا اگر کوئی چیز موت سے شفا دے سکتی ہوتی تو وہ سنا تھی" (ابن ماجہ)۔

حضرت عبد اللہ بن ام حزام رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ساتھ قبلتین والی نماز پڑھی۔ روایت فرماتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم سے سنا۔ وہ فرماتے تھے کہ تمہارے لئے سنا اور سنوت موجود ہیں۔ ان میں ہر بیماری سے شفا ہے سواۓ سام کے۔ میں نے پوچھا کہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم سام کیا ہے۔ فرمایا موت" (ابن ماجہ، حاکم، ابن عساکر)۔

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "شبرم گرم ہے، تمہارے لیے ٹھنڈک سنا اور سنوت میں ہے، ان میں ہر چیز کی دوا ہے، موت کے سوا" (طبری)۔

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "سنا اور سنوت میں ہر بیماری سے شفا ہے" (ابن عساکر)۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "تم جو علاج کرتے ہو ان میں سے بہترین علاج ناک میں دوائی ڈالنا، منہ میں ایک طرف دوائی ڈالنا، پچھنے لگانا اور چلنا ہے" (ترمذی)۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: "تیں چیزوں می شفا ہے، سواۓ موت کے۔ سنا اور سنوت۔ پھر کہا کہ سنا کو تم جانتے ہو، سنوت کیا ہے؟ اللہ نے چاہا تو میں تمہیں بتاؤں گا۔ پھر کہا محمد صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے کہ میں تیسری چیز بھول گیا ہوں۔" (نسائی)۔

سنوت کیا ہے؟ اس بارے میں درج ذیل رائے پائی جاتی ہیں:

۱۔سنوت اصل میں ثبت ہے (ابن ابی عیلۃ)۔ یہ سونف کی طرح کے وہ دانے ہیں جن سے بچوں کے لیے گرائپ واٹر بنتا ہے۔

۲۔ سنوت وہ شہد ہے جو گھی کی مشکوں میں رکھا گیا ہو۔

۳۔ سنوت شہد اور سونف ہے۔

۴۔ جب سنا کو ایسے شہد میں ملا لیا جائے جو گھی کی مشکوں میں رکھا گیا ہوگیا ہو تو یہ سنوت ہے۔

۵۔ ابن قیم نے تو آٹھ امکانات بیان کیے ہیں۔

واللہ اعلم !!!