بڑی عمر کے لوگ خصوصاً خواتین کے لیے کیلشیم کا استعمال‘ ورزش اور احتیاط بہت ضروری ہے
انسان جب جوان ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ پائوں بخوبی کام کررہے ہوتے ہیں تو اسے خیال بھی نہیں آتا کہ وہ وقت بھی آئے گا جب اس کی کمر جھکنے لگے گی‘ توانائی ساتھ چھوڑ جائے گی اور ہڈیاں چٹخنے لگیں گی۔ بڑھاپے میں کمزور اور بوسیدہ ہڈیاں بھی جان کا عذاب بن جاتی ہیں‘ لیکن مختلف طریقوں سے ہم اپنی ہڈیوں کی مضبوطی کو قائم رکھ سکتے ہیں اور بوسیدہ ہڈیوں کی بیماری یعنی بوسیدگیِ استخواں (Osteoporosis) سے بچ سکتے ہیں۔ اگر جوانی ہی میں ہڈیوں کی مضبوطی کا خیال رکھا جائے اور ضروری احتیاط برتی جائے تو بڑھاپے میں اس کا پھل ملتا ہے۔
بوسیدگیِ استخواں میں ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں اور بہ آسانی ٹوٹ جاتی ہیں۔ جب اس مرض کی ابتدا ہوتی ہے تو اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی ہڈی کے ٹوٹنے پر اس بیماری کا پتا چلتا ہے۔ بوسیدہ ہڈیوں کے باعث زیادہ تر کلائی‘ کولھے اور ریڑھ کی ہڈی میں شکستگی ہوتی ہے۔ ریڑھ کے ستون میں جو معمولی شکستگی ہوتی ہے اس سے اس کی شکل بگڑنے لگتی ہیے اور کمر میں خمیدگی پیدا ہوجاتی ہے جو بوسیدگی استخواں کی نشانی ہے۔
ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ہماری ہڈیوں میں پچیس سال کی عمر تک نشوونما جاری رہتی ہے اور عمر کے تیسری دہائی کی ابتدا میں یہ ہڈیاں عمر کے دوسرے تمام ادوار کے مقابلے میں مضبوط ہوتی ہیں۔ اس وقت اگر ہڈیوں کا استحکام کو قائم رکھنے کی تدبیر کرلی جائے تو بڑی عمر میں یہ استحکام کم ہوجانے کے باوجود بوسیدگی استخواں کی نوبت نہیں آتی۔
آیئے اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ ہڈیوں کو مضبوط بنانے اور بوسیدگی استخواں کا راستہ روکنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین اس سلسلے میں ہدایات دیتے ہیں:
١۔ مچھلی کھایئے اور دودھ پیجیئے۔ ان دونوں چیزوں میں کیلشیئم ہوتا ہے جو ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے۔ چکنائی نکلا یا کم چکنائی والا دودھ استعمال کیجئے۔ اس میں چکنائی سے بچت ہے‘ لیکن کیلشیم کی مقدار اس میں اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ بالائی والے دودھ میں۔ مچھلی میں روغنی مچھلی کا انتخاب کیجئے‘ کیوں کہ اس میں پایا جانے والا کیلشیم جسم میں بہتر طرح سے جذب ہوتا ہے۔ کیلشیم کے حصول کا ایک اچھا ذریعہ ہرے پتوں والی سبزیاں بھی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ٠٢ سے ٥٤ سال کی عورتوں کو روزانہ ٠٠٨ گرام کیلشیم کھانا چاہیے۔ اس مقدار کا ایک تہائی کیلشیم ناشتے کے دلیے اور آدھی بالائی والے دودھ اور دو توس سے حاصل ہوجاتا ہے۔
٢۔ اگر غذا سے کیلشیم کی مطلوبہ مقدار حاصل نہ ہوسکے تو اسے گولیوں یا دیگر مصنوعات سے پورا کیجیے‘ لیکن یہ خیال رکھیے کہ دن بھر میں یہ مقدار دو ہزار ملی گرام سے نہ بڑھے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ میگ نیزئیم بھی ہڈیوں کے لیے مفید بلکہ ضروری ہے۔ اس کے علاوہ وٹامن ڈی اور جست بھی اہم ہے۔
٣۔ وٹامن ڈی دھوپ سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ اسے حاصل کرنے کے دیگر ذرائع روغنی مچھلی‘ انڈا اور مارجرین ہیں۔ انہیں اپنی غذا میں مناسب طریقے سے شامل کیجیے۔
٤۔ ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ورزش بھی اہم ہے۔ ٹینس‘ اسکواش‘ باسکٹ بال اور تیز دوڑ سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔ وزن اٹھانے سے ہڈیوں پر بوجھ پڑتا ہے جو اچھا اثر ڈالتا ہے۔ ہفتے میں تین چار بار آدھے آدھے گھنٹے ورزش کیجیے۔
٥۔ تمباکو نوشی ترک کردیجیے۔ عورتوں میں تمباکو نوشی اکثر جلد سن یاس کا باعث بن سکتی ہے جس کی وجہ سے بوسیدگیِ استخواں کا خطرہ ان کے لیے بڑھ جاتا ہے۔
٦۔ شراب نوشی سے بھی ہڈیاں کم زور ہوجاتی ہیں۔
٧۔ نمک اور کیفین کا استعمال کم کیجیے۔ ہمارا جسم کیلشیم کی جو مقدار جذب کرتا ہے یہ دونوں اشیاءاس پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔
٨۔ بہت زیادہ دبلا ہونے کی کوشش نہ کیجیے۔ سویڈن کے ایک اسپتال میں ایک تحقیقی مطالعے سے پتا چلا ہے کہ سن بلوغ کو پہنچنے کے بعد وزن کم کرنے اور دبلا ہونے کی جو کوشش کی جاتی ہے اس کا نتیجہ اکثر بوسیدگیِ استخواں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ دبلی عورتوں کے لیے کولھے کی شکستگی کا خطرہ ان عورتوں کی بہ نسبت زیادہ پایا گیا جنہوں نے اٹھارہ سال کی عمر کے بعد ڈیڑھ اسٹون یا اس سے کچھ زیادہ وزن بڑھایا تھا۔ نسبتاً دبیز جسم والی عورتوں میں ایسٹروجن ہارمون کی سطح زیادہ ہوتی ہے اور عضلات بڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہڈی کا ٹھوس پن ہے لہٰذا وزن کم کرنے کے چکر میں غذا کی مقدار میں غیر ضروری کمی نہیں کرنی چاہیے۔
سن یاس کے بعد بوسیدگیِ استخواں کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ سن یاس سے قبل بیضہ دانی میں پیدا ہونے والا ایسٹروجن ہارمون ہڈیوں کی نشوونما کے لیے بہت اہم ہے۔ جب اس کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے تو اچانک ہڈیوں کی دبازت میں کمی آسکتی ہے۔ یہ امکان ان عورتوں میں بڑھ جاتا ہے جو جلد سن یاس کو پہنچ گئیں یا جنہوں نے رحم براری کرالی ہے۔ ان عورتوں کے لیے بھی بوسیدگیِ استخواں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جنہیں بے اشتہائی یا بہت ورزش کے باعث چھے ماہ یا اس سے بھی زیادہ دن تک ماہواری نہیں ہوتی۔
بوسیدگیِ استخواں میں موروثی اثرات کا بھی دخل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ جن عورتوں کی ہڈیاں چھوٹی اور کم گنجان ہوتی ہیں یا جن کے خاندان میں یہ بیماری چلی آرہی ہو ان کے لیے اس کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ہڈیوں کی صحت پر کچھ دوائیں بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر جو لوگ دمہ‘ الرجی یا جوڑوں کی تکلیف کے لیے بہت زیادہ مقدار میں کورٹی کو سٹیرائڈز (Corticosteroids)استعمال کرتے ہیں ان کے لیے بوسیدگیِ استخواں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
بوسیدگی استخواں سے محفوظ رہنے میں ہمارے طرزِ زندگی کو بھی بڑا دخل ہے۔ بہرحال زندگی میں اعتدال قائم رکھ کر ہم اس بیماری سے بچ سکتے ہیں۔
علاج: بوسیدہ ہڈیوں اور جسمانی کمزوری کے لئے عام طور پر ہم جو میڈیکیٹڈ کیلشیم استعمال کرتے ہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ اس کا زیادہ تر حصہ بذریعہ پیشاب خارج ہوجاتا ہے اور اس کا بیشتر حصہ گردوں میں جاکر پتھری کا باعث بنتا ہے۔ میں ذاتی طور پر دوسری کمپنیوں سے سستے اور زیادہ مؤثر غذائی مرکب کا قائل ہوں۔ اس کا نام Spirolina ہے۔ اور اسے ایک انٹرنیشنل کمپنی نے تیار کیا ہے اس کی تیار کردہ سپائرولینا میں کیلشیم کے علاوہ بہت سے غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں جو جسم کی بہت سی ضروریات کو پورا کردیتے ہیں۔ اللہ آپ کو شفا سے ہمکنار کرے۔