Sunday, 2 March 2014
کیڑے مار ادویات سرطان، اسقاط حمل اور سانس کی بیماریوں کی وجہ
کیڑے مار ادویات سرطان، اسقاط حمل اور سانس کی بیماریوں کی وجہ
امریکا کے بائیو یا حیاتیاتی ٹکنالوجی کے ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ بہت سے ممالک میں استعمال ہونے والے پیسٹی سائڈز یا کیڑے مار کیمیاوی اجزا سرطان، اسقاط حمل، سانس کی بیماریاں اور دل کے عارضوں میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
جن معاشروں میں زرعی صنعت کے شعبے میں بہت زیادہ ایگرو کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں وہاں انسانوں میں گوناگوں بیماریاںتیزی سے بڑھ رہی ہیں اور اس کے سبب اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ارجنٹائن کے ایک کسان فابیان ٹوماسی کو کبھی بھی یہ تربیت نہیں دی گئی کہ پیسٹی سائیڈز یا کیڑے مار ادویات کے استعمال میں کس طرح احتیاط کی جاتی ہے اور اس کا استعمال کیسے کیا جانا چاہیے۔ اُس کا کام یہ تھا کہ فصلوں کو کیڑوں سے بچانے کے لیے زہریلے کیمیائی مادے فضا سے برسانے والے ہوائی جہازوں کے ٹینک کو بلا تاخیر بھرتا رہے۔ اس عمل میں وہ سر تا پا اس زہریلے مادے سے شرابور رہا کرتا تھا۔ اپنی نوکری بچانے کے لیے اُسے یہ کام جاری رکھنا پڑتا تھا۔ 47 سالہ کسان فابیان اب ہڈی کے ڈھانچوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ نہ تو وہ کچھ نگل سکتا ہے نہ ہی اپنی رفع حاجت کے لیے خود سے ٹوائلٹ تک جا سکتا ہے۔
ارجنٹائن کے سویابین کی کاشت کے مرکزی علاقے سانتا فے پرووینس کی ایک اسکول ٹیچر آندریا درویتا کے بچے اپنے گھر کے سوومنگ پول میں تیراکی کر رہے تھے کہ ان پر فضا سے زہریلی ادویات کا چھڑکاؤ ہوا، جس کے نتیجے میں ان کی صحت کو سخت نقصانات پہنچے۔ یہ ایگرو کیمیکل اسپرے ایک ایسے رہائشی علاقے پر برسایا گیا، جو گنجان آباد تھا۔ سویابین کے کھیت آندریا کے گھر سے محض 30 کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ اس ایگرو کیمیکل اسپرے کا چھڑکاؤ آبادی والے علاقے سے کم از کم 500 کلومیٹر دور چھڑکنے کی اجازت ہے۔ تاہم بہت سے دیگر زرعی معاشروں کی طرح ان شرائط کا کوئی دھیان نہیں رکھا جاتا اور زہریلے کیمیاوی اسپرے بے دھڑک استعمال کیے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں متاثرین کو مختلف مضر بیماریوں، یہاں تک کے موت کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
صوفیا گاٹیسا کا ایک نومولود بچہ گردے کے ناکارہ ہونے کے سبب موت کے مُنہ میں چلا گیا۔ اُس نے اس موت پرعدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ ارجنٹائن کی تاریخ میں پہلی بار کسی نے کیڑے مار اسپرے کے استعمال کے خلاف مجرمانہ سزایابی کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں عدالتی کارروائی کا قدم بہت دیر سے اٹھایا گیا۔ ارجنٹائن کے ایک سرکاری مطالعاتی جائزے کی رپورٹ کے مطابق ایتو زینگو آنکس نامی ایک علاقے کی مٹی اور پینے کے پانی میں مضر صحت ایگرو کیمیکل مادے کی آلودگی بے تحاشا لوگوں کی صحت و زندگی کو برباد کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ اس علاقے کے 80 فیصد بچوں کے خون میں کیڑا مار زہریلے مادے کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔
ترقی پذیر معاشروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں پیسٹی سائیڈز کے استعمال کے لیے طے شدہ شرائط اور احتیاط کے بارے میں عوام میں کوئی شعور نہیں پایا جاتا ہے۔ اکثر ان کیمیاوی ادویات کے ڈبوں پر احتیاطی تدابیر کو پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے جب کہ کچھ تو پڑھنا بھی نہیں جانتے ہیں۔ سرکاری سطح پر اس بارے میں عوامی شعور بیدار کرنے یا کسی قسم کے انتباہی پروگرام چلانے کی کوئی منصوبہ بندی تک نہیں نظر آتی۔
زہریلے مادوں اور ماحولیاتی آلودگی بچوں تک میں کینسر کا سبب بن سکتی ہے
ارجنٹائن کی نیشنل یونیورسٹی آف روسیرو میڈیکل اسکول کے ماحولیات اور صحت کے پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ڈامیان ویرسینازی نے اس ملک میں کینسر، اسقاط حمل، اور پیدائشی طور پر بچوں میں پائی جانے والی گوناگوں معذوری کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ جاننے کے لیے ریسرچ کا فیصلہ کیا۔ 2010ء سے وبائی امراض کے ماہرین نے سانتا فے پرووینس میں گھر گھر جا کر سروے کیا۔ اس کے نتائج سے پتہ چلا کہ اس علاقے کے 65 ہزار افراد میں کینسر یا سرطان قومی اوسط شرح کے مقابلے میں چار گنا زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس میں چھاتی، غدود مثانہ اور پھیپھڑوں کا سرطان شامل ہے۔ اس کے علاوہ محققین کو تھائی رائیڈ یا غدہ ورقیہ کے نقائص اور سانس سے متعلق بیماریاں بھی پیسٹی سائیڈز یا زہریلی کیڑے مار ادویات کی آلودگی کے سبب تیزی سے پھیل رہی ہیں۔