Sunday, 10 August 2014

دانتوں کے امراض

دانتوں کے امراض
دانتوں کے امراض کا سبب منہ ميں موجود ايسے بيکٹريا ہوتے ہيں جو دانتوں ميں بچ جانے والي خوراک کے ذرات سے ايسڈز (تيزاب) پيدا کرتے ہيں۔ خاص طور پر منہ ميں موجود شکر کے ذرات سے ان کي پيدائش بہت زيادہ ہوتي ہے۔ يہ ايسڈ براہِ راست دانتوں پر حملہ کرتے ہيں۔ جس سے دانتوں کي وہ مخصوص دھات جس سے دانت بنتے ہيں، کمزور پڑنے لگتي ہے۔ اس عمل کو (demineralisation) کہتے ہيں۔ اس صورتحال ميں منہ ميں موجود لعاب اور فلورائيڈ ايسڈز جو دانتوں کي حفاظت کا کام کرتے ہيں الٹے دانتوں کے دشمن بن جاتے ہيں اور يوں دانتوں کي تباہي کا آغاز ہوجاتا ہے۔
دنيا کے ماہرينِ دندان اس بات پر متفق ہيں کہ فلورائيڈ ٹوتھ پيسٹ کے استعمال سے 15 سے 30 فيصد تک دانتوں کے امراض ميں کمي آتي ہے اور بہت ممکن ہے کہ يہ تناسب اس سے بھي زيادہ ہو۔ بالغوں ميں 95 فيصد افراد ايسے ہيں جو مسوڑھوں کي خرابي کے شکار ہيں ليکن صرف 10 فيصد ايسے ہيں جنہيں سنجيدہ نوعيت کے امراض کا سامنا ہے۔ مسوڑھوں کي خرابي يا بيماري کے دوران مسوڑھے سوج جاتے ہيں اور دانتوں کو برش کرتے وقت ان سے خون آتا ہے۔ اس مرض کو طبّي زبان ميں (gaingivtis) کہا جاتا ہے۔ اس بيماري کي ايڈوانس شکل يہ ہے کہ يہ دانتوں کي ہڈي ريشے اور جڑوں پر حملہ کرتي ہے۔
ماہرين کے مطابق لعاب يا تھوک منہ ميں موجود قدرتي دفاعي نظام ہے جو دانتوں کو مختلف امراض سے روکتا ہے۔ يہ دانتوں پر (palque) جمنے نہيں ديتا بلکہ دانتوں کے لئے غسل کا کام ديتا ہے اور غذا کوہضم کرنے ميں بھي نہايت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور مزيد يہ کہ منہ ميں بچ جانے والي شکر کي صفائي بھي کرتا ہے۔ پھل، سبزياں، پنير اور شکر سے پاک چيونگم کے استعمال سے لعاب کے فائدہ مند اثرات مزيد بڑھ جاتے ہيں۔
مسوڑھوں کي خرابي يا سوزش جيسے مرض کي علامات بہت چھپي ہوئي ہوتي ہيں۔ اسي لئے اس کا اندازہ لگانا عام طور پر مشکل ہوتا ہے۔ کيونکہ ابتداء ميں مسوڑھوں کي ظاہري حالت ميں کوئي فرق نہيں آتا ليکن اس دوران بيکٹريا مسوڑھوں کي اندروني بافتوں يا ٹشوز کو تباہ کرنا شروع کرچکا ہوتا ہے مگر يہ نظر نہيں آتا چنانچہ کيسے اندازہ لگايا جائے کہ آپ اس کا شکار ہوچکے ہيں۔ آئيے ہم آپ کي اس ضمن ميں ممکنہ حد تک رہنمائي کرتے ہيں۔
اگر آپ کے مسوڑھے مرض ميں مبتلا ہوچکے ہيں تو برش يا فلاز (floss) کرتے وقت ہوشيار رہيں۔ آپ کے مسوڑھوں کے نيچے کوئي مرض پروان چڑھ رہا ہے جو آہستہ آہستہ تمام مسوڑھوں کو اپني گرفت ميں لے سکتا ہے۔ چنانچہ اس سے پہلے کہ ايسي نوبت آئے آپ ڈاکٹر سے رجوع کريں۔
مسوڑھوں کے مرض کي دوسري قسم زيادہ نماياں ہے۔ بيکٹريا مسوڑھوں کے ريشوں کے انتہائي اندر تک چلا جاتا ہے اور جسم کے دفاعي نظام کو کمزور کر ديتا ہے۔ اس وقت تک کبھي مريض کو کوئي سخت قسم کا دردمحسوس نہيں ہوتا۔ اکثر لوگ اس صورتِ حال کا شکار ہونے کے باوجود اندازہ نہيں کر پاتے کہ ان کے مسوڑھے تباہي کي جانب گام زن ہيں۔ اس دوران دانتوں کے درميان ريشے سوجے ہوئے محسوس ہوتے ہيں اور مسوڑھوں کا نچلا حصہ ہلکا سياہ پڑ جاتا ہے اور بہت ممکن ہے کہ جب برش کيا جائے تو خون پہلے کي نسبت زيادہ آنے لگے۔ يہاں تک کہ بہتر سے بہتر دانتوں کي کريم اور پيسٹ کے استعمال سے بھي خون کي زيادتي ميں کوئي فرق نہيں آتا۔
بيماري کي تيسرے مرحلے پر مسوڑھوں کي سوجن اور ان کي سرخ رنگت زيادہ واضح ہوکر سامنے آجاتي ہے۔ ہر شخص آساني سے اندازہ لگاسکتا ہے کہ وہ مسوڑھوں کي خرابي سے دوچار ہے۔ نہ صرف وہ خود بلکہ گفتگو کے دوران متعلقہ شخص کے منہ سے ناگوار بو بھي محسوس کي جاسکتي ہے۔ اس سطح پر اگر علاج نہ کرايا جائے تو دانتوں کے مکمل ضائع ہوجانے کا احتمال بڑھ جاتا ہے کيونکہ اس دوران بيکٹريا مکمل طور پر مسوڑھوں کے اندر اور باہر پھيل چکا ہوتا ہے اور ايسے ايسڈز انتہائي تيز رفتاري سے پيدا کر رہا ہوتا ہے جو دانتوں کو مکمل طور پر تباہ کرديں۔
مناسب احتياط
يہ سچ ہے کہ اکثر بيکٹريا مسوڑھوں کے نيچے پرورش پاتے ہيں اور اکثر اوقات مہنگے سے مہنگے پيسٹ کي بھي پہنچ سے دور رہتے ہيں اور ان کي غذا کا بڑا ذريعہ دانتوں ميں پھنسي ہوئي خوراک ہوتي ہے۔
يہ بيکٹريا ايسے مادے خارج کرتے ہيں جو مسوڑھوں کے نرم ريشوں کو تباہ کر کے رکھ ديتے ہيں۔ اس کے علاوہ يہ مسوڑھوں کے اندروني ريشوں کو بھي شديد نقصان پہنچاتے ہيں۔ مسوڑھوں کے اندروني ريشے بھي بيروني ريشوں کي طرح نرم ہوتے ہيں اور بيکٹريا سے خارج ہونے والے خطرناک کيميکل سے خود کو بچانے ميں ناکام رہتے ہيں۔ بيکٹريا مسوڑھوں اور دانتوں ميں موجود درزوں کو جائے پناہ بناتے ہيں اور يہ ان کي سب سے محفوظ پناہ گاہ ہوتي ہے۔ ان ميں سے بعض بيکٹريا کي افزائش نسل اس قدر تيزي سے ہوتي ہے کہ وہ چند گھنٹوں ميں لاکھوں کي تعداد تک پہنچ جاتے ہيں۔
ہارمونل تبديل (hormonal change) ايسے افراد جو وبائي يا دائمي امراض کا شکار ہوں جيسے ايڈز، ذيابيطس وغيرہ ان ميں بيکٹريا کے بڑھنے کي رفتار عام لوگوں سے کہيں زيادہ ہوتي ہے جس سے ان کے مسوڑھے جلد خراب ہوجاتے ہيں۔ چند خواتين ميں حمل کے دوران يا دورانِ حيض بھي ہارمونز کي تبديلي مسوڑھوں کي سوزش اور ان کي رنگت گہري سرخ ہوجاتي ہے۔ تاہم عام طور پر اس دوران عام احتياط سے ہي مسئلہ حل ہوجاتا ہے ليکن بدستور غفلت سنگين مسائل سے دوچار کرسکتي ہے۔
دانتوں کے ماہرين کي رائے ميں اگر دانتوں پر پليک (plaque) مسوڑھوں کي بيماري پيدا کرنے والے مکلس جرثومے اور (tartar) کيلشيم فاسفيٹ پر مبني زردي مضبوطي سے جم گئي ہو اور وہ کسي پيسٹ سے دور نہ ہوتي ہو تو ڈينٹسٹ کے پاس جانا ضروري ہوجاتا ہے۔
اگر بچہ دانت کے درد کي شکايت کرتا ہے تو اسے فوراً ماہر کے پاس لے جائيں۔ جو بچہ انگوٹھا چوستا ہو اسے اس عادت سے بہرطور نجات دلائيں۔ داتوں ميں اگر کوئي خلا پيدا ہوجائے تو کسي ماہر سے فوراً پُر کرائيں اور اسے بڑھنے نہ ديں۔
آرتھوڈونٹسٹ اور ڈينٹسٹ سے آپ کا رابطہ رہنا چاہيے۔ وقتاً فوقتاً دانتوں کا چيک اپ کراتے رہيں۔ان تجاويز پر عمل کر کے نہ صرف آپ دانتوں اور مسوڑھوں کے مسائل سے ہميشہ دور رہ سکتے ہيں ان کے باعث لاحق ہونے والے ديگر امراض سے بھي محفوظ رہيں گے بلکہ زندگي ميں زيادہ اعتماد اور باوقار دکھائي ديں گے۔