Saturday, 2 August 2014

فاسٹ فوڈ کا بڑھتا کاروبار، شہریوں کی گرتی صحت


فاسٹ فوڈ کا بڑھتا کاروبار، شہریوں کی گرتی صحت

آج کل کے جدید دور میں جہاں زمانہ بدلتا جا رہا ہے وہیں کھانے پینے کی پرانی روایات بھی بدلتی جا رہی ہیں۔ اب لوگ گھر کے بنے ہوئے سادہ کھانوں کے بجائے بازار کے بنے ہوئے کھانے زیادہ شوق سے کھاتے ہیں۔ کراچی شہر کے جس علاقے اور حصے میں جائیں وہاں ہر گلی، محلے میں مختلف ٹھیلوں، اسٹالز اور ڈھابوں پر کھانے کی اشیا فروخت ہوتی نظر آئیں گی۔

محمدعلی نامی کراچی کے شہری ایک کالج کے کینٹین میں برگر اور فاسٹ فوڈ کی دکان پر پارٹ ٹائم نوکری کرتے ہیں جنہوں نے حال ہی میں کالج ٹائمنگ کے بعد شہر کی مشہور مارکیٹ میں اپنا خود کا ایک ‘برگر’ کا ٹھیلا لگایا ہے۔

وائس آف امریکہ کی نمائندہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ، ’آجکل شہر میں چلنے والا سب سے اچھا کاروبار کھانے پینے کی اشیا کا ہے شہر کی جس دکان اور ٹھیلے ہر دیکھیں گاہکوں کا رش ہی نظر آئے گا کئی دکانوں والوں نے دوسرا کام کرتے تھے انھوں نے کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنی شروع کردی ہیں جسمیں سب سے زیادہ فاسٹ فوڈ بکتا ہے‘۔

شہریوں میں فاسٹ فوڈ کی پسندیدگی کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ، ’میں گزشتہ کئی سالوں سے اجس کالج کینٹین میں کام کر رہا ہوں وہاں برگر بنانے میں ہمارا ہاتھ نہیں رکتا آپ خود اندازہ کرلیں یہ چیزیں کتنی بکتی ہیں‘۔

شہر میں فاسٹ فوڈ کے نام پر بکنے والے چکن اور بیف برگرز، بن کباب، فرنچ فرائز، حلیم چنا چاٹ رولز اور دیگراشیا شامل ہیں اکثر اوقات دفتروں اور دیگر اداروں میں کام کرنےوالے افراد لنچ ٹائم میں بھی اسی طرح کے کھانے کھانا پسند کرتے ہیں۔ چھٹی کا دن یو یا ویک اینڈ شہریوں کی ایک بڑی تعداد ان کھانوں کیلئے شہر کے مختلف ریستورانوں اور ہوٹلں کا رخ کرتی ہے مگر شہری حفظان ِصحت کے اصولوں کے خلاف تیار کئےگئے ان کھانوں کے مضر اثرات سے بالکل ناواقف ہیں۔

بازار کے کھانوں میں مضر صحت مصالحے، غیر معیاری تیل و گھی، گوشت کو جلد گلانے کے لیے مختلف کیمیائی اجزا، اور گلی سڑی سبزیاں انسانی صحت کو تباہ کردیتے ہیں کیوں کہ
یہ چیزیں معیاری چیزوں سے کہیں سستے داموں مل جاتی ہیں۔ فاسٹ فوڈ کا کاروبار کرنےوالے ان اشیا کی تیاری حفظان صحت کے اصولوں کو پس پشت ڈال کر اپنا کاروبار چمکانے میں مگن ہیں۔ان اشیا کو خریدنے کر کھانے والے شہری یہ نہیں جانتے کہ زبان کے چٹخارے انھیں کئی بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔

کراچی کے سول اسپتال کےجنرل فزیشن ڈاکٹر سلیم مصطفیٰ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتاتے ہیں کہ، ’اسٹریٹ فوڈ کے انسانی صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں جس میں تیل کی زیادتی کے باعث جسم میں کولیسٹرول بڑھ جاتا ہے اگر ان اشیا کا استعمال روزانہ کی بنیاد پر کیاجائے تو انسان بیماریوں میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جنک فوڈ سے جسم میں توانائی کے بجائے کیلوریز میں اضافہ اور پروٹین کی مقدار کم ہوجاتی ہے جس سے جسم فربہ ہونا شروع ہوجاتا ہے اور دیگر بیماریاں جنم لیتی ہیں‘۔

ڈاؤ میڈیکل ہیلتھ سائنس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر زمان شیخ نے وائس آف امریکہ کی نمائندہ سے گفتگو میں بتایا کہ، ’فاسٹ فوڈ میں کیلیوریز کی بھرمار ہے ایک چھوٹے سے بن کباب میں نمک اور چکنائی کی بھرپور مقدار موجود ہوتی ہےجس سے انسانی جسم میں کولیسٹرول میں اضافہ، موٹاپا اور دیگر بیماریاں جنم لیتی ہیں جو صحت کیلئے خطرناک ہیں‘۔

جبکہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ، ’ان کھانوں کو جانچنے کا کوئی پیمانہ کوئی نہیں ہے اگر شہری ان اشیا کی بناوٹ دیکھ لیں تو ان کا دل لرز جائے کہ کس گندگی دے اسکو تیار کیاجاتا ہے شہریوں کو فاسٹ فوڈ جیسے کھانوں کا چسکا منہ کو لگ گیا ہے‘
۔

ایسے کھانوں کو متاثر کن بنانے کیلئے ان میں فوڈ کلر کے بجائے کپڑا رنگنے کا رنگ استعمال ہو رہاہےجو بہت سستا ہوتا ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ’فوڈ ڈیپارٹمنٹ اوردیگر انتظامیہ کو فعال ہونے کی ضرورت ہے حکومت کو چاہئے کہ ان اداروں میں کام کرنےوالے افسران کو غیر متوازن اشیا کا پیمانہ کرنے اور ان چیزوں کی فروخت کرنےوالوں سے سختی سے نمٹیں تو ان بیماریوں پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔‘

ٹھیلوں، ڈھابوں اور دکانوں اور روسٹورنٹ میں حفظان ِصحت کے اصولوں کیخلاف بننے والے ان کھانوں کی جانچ پڑتال کے لیے کوئی سرکاری ادارہ بھی سرگرم نہیں ہے۔ کئی پاکستانی نجی چینلز کے کئی پروگرامز کی کئی چھاپہ مار ٹیموں نے فاسٹ فوڈ کا گندا کاروبار کرنےوالے ایسے کئی چہرے بے نقاب کرکے افسران بالا کی توجہ اس جانب دلانے کی کوشش بھی کی مگر سب عارضی رہا، کھانے والے کھا رہے ہیں بیچنے والے کاروبار کررہے ہیں اور اپنی جیبیں بھر ر رہے ہیں۔

آئیے گرین ہیلتھ ٹیم کا حصہ بنیئے اور بیماریوں کے خلاف جہاد میں ہمارے ساتھ شامل ہو کر اپنی اور اپنی فیملی اور دوستوں کی صحت کی حفاظت کیجیئے۔