دس باتوں کے باعث آپ 100 سال کی عمر پا سکتے ہیں
طویل
عمر پانے کا خواب ہر انسان دیکھتا ہے، لیکن کوئی کوئی ہی اسے پورا کر پاتا ہے۔ جدید سائنس کا تازہ انکشاف ہے کہ ہر دس ہزار انسانوں میں سے ”ایک“ تقریباً سو برس زندہ رہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ عمر کی سنچری کرنے والے ان خوش قسمت انسانوں میں کئی مرد و زن بُری عادات رکھتے ہیں۔ مثلاً سگریٹ نوشی کرتے اور ورزش سے منہ موڑے رہتے ہیں۔ پھر بھی وہ طویل عمر پاتے ہیں۔
ظاہر ہے، آپ بھی جاننا چاہیں گے کہ میں کتنے سال زندہ رہوں گا؟ قطعی طور پر یہ امر صرف اللہ تعالیٰ جانتے ہیں تاہم سائنس دانوں نے تحقیق کے ذریعے دس ایسے نشان ضرور تلاش کر لیے جو عمر کے متعلق کچھ نہ کچھ ضرور بتاتے ہیں۔
1۔ آپ کے خاندان میں کتنے بوڑھے شامل ہیں؟
مطلب یہ کہ خاندان میں بوڑھوں کی کثرت عیاں کرتی ہے کہ آپ میں بھی طویل العمریکے جین موجود ہو سکتے ہیں۔ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ پچھلے پچاس برس میں جن مرد و زن نے 100سال کی عمر پائی، ان کے والدین، بہن بھائی یا دادا دادی اور نانا نانی بھی طویل عرصہ زندہ رہے۔ بوڑھوں پر ہوئی تحقیق سے انکشاف ہوا کہ ان کے مرد عزیز خواتین کی نسبت زیادہ طویل عمر پاتے ہیں۔
ایک اور انکشاف یہ ہوا کہ طویل العمری کے جین صرف قریبی عزیزوں تک محدود ہوتے ہیں۔ یعنی اگر کسی کا باپ، ماں، بھائی بہن یا دادا دادی وغیرہ سو سال عمر پائیں تو یہ امکان بڑھ جاتا ہے کہ وہ بھی زندگی کی کئی بہاریں دیکھیں۔
عمر پانے کا خواب ہر انسان دیکھتا ہے، لیکن کوئی کوئی ہی اسے پورا کر پاتا ہے۔ جدید سائنس کا تازہ انکشاف ہے کہ ہر دس ہزار انسانوں میں سے ”ایک“ تقریباً سو برس زندہ رہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ عمر کی سنچری کرنے والے ان خوش قسمت انسانوں میں کئی مرد و زن بُری عادات رکھتے ہیں۔ مثلاً سگریٹ نوشی کرتے اور ورزش سے منہ موڑے رہتے ہیں۔ پھر بھی وہ طویل عمر پاتے ہیں۔
ظاہر ہے، آپ بھی جاننا چاہیں گے کہ میں کتنے سال زندہ رہوں گا؟ قطعی طور پر یہ امر صرف اللہ تعالیٰ جانتے ہیں تاہم سائنس دانوں نے تحقیق کے ذریعے دس ایسے نشان ضرور تلاش کر لیے جو عمر کے متعلق کچھ نہ کچھ ضرور بتاتے ہیں۔
1۔ آپ کے خاندان میں کتنے بوڑھے شامل ہیں؟
مطلب یہ کہ خاندان میں بوڑھوں کی کثرت عیاں کرتی ہے کہ آپ میں بھی طویل العمریکے جین موجود ہو سکتے ہیں۔ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ پچھلے پچاس برس میں جن مرد و زن نے 100سال کی عمر پائی، ان کے والدین، بہن بھائی یا دادا دادی اور نانا نانی بھی طویل عرصہ زندہ رہے۔ بوڑھوں پر ہوئی تحقیق سے انکشاف ہوا کہ ان کے مرد عزیز خواتین کی نسبت زیادہ طویل عمر پاتے ہیں۔
ایک اور انکشاف یہ ہوا کہ طویل العمری کے جین صرف قریبی عزیزوں تک محدود ہوتے ہیں۔ یعنی اگر کسی کا باپ، ماں، بھائی بہن یا دادا دادی وغیرہ سو سال عمر پائیں تو یہ امکان بڑھ جاتا ہے کہ وہ بھی زندگی کی کئی بہاریں دیکھیں۔
2۔ آپ کتنا تیز اور کہاں تک چل سکتے ہیں؟
مطلب یہ کہ کیا آپ کی جسمانی حالت اتنی اچھی ہے کہ آپ طویل فاصلہ تیزی سے طے کر سکیں۔
یورپی محققین نے 65سال سے زیادہ عمر کے مردوزن میں طویل تحقیق کی۔ اسی دوران 35 ہزار سے زیادہ لوگوں پر مختلف تجربات کیے گئے۔ اس طویل تحقیق کا ماحصل یہ ہے: تیز چلنے والے انسان طویل عرصہ جیتے ہیں۔ ماہرین نے یہ بھی دریافت کیا: چلتے ہوئے 0.1میٹر فی سیکنڈ کا فاصلہ جتنی تیزی سے طے ہو، مرنے کا امکان اتنا ہی گھٹ جاتا ہے۔
چلنے کے دوران بوڑھوں کی اوسط رفتار تین فٹ فی سیکنڈ (تقریباً دو میل فی گھنٹا) رہی۔ جو بوڑھے مر و زن آہستہ چلے، یعنی ان کی رفتار 2فٹ فی سیکنڈ (1.36میل فی گھنٹا) رہی تو ان میں جلد مرنے کا خطرہ بڑھ گیا۔ دوسری طرف جو بوڑھے 3.3فٹ فی سیکنڈ (2.25میل فی گھنٹا) کی رفتار سے زیادہ تیز چلے، ان کے متعلق محققین کاکہنا تھا کہ وہ طویل عمر پائیں گے۔
اُدھر امریکی ماہرین نے 70 سے 79سال کے مرد و زن پہ تحقیق سے معلوم کیا کہ اس عمر کے انسانوں میں جو پون میل تک نہ چل سکیں، وہ اگلے پانچ، چھے سال میں اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ وہ موت سے قبل بیماری یا معذوری میں مبتلا ہو جائیں۔
اسی طرح ایک اور تجربے سے انکشاف ہوا کہ 71 تا 93سال کی عمر کے جو مرد روزانہ دو میل چل سکیں، وہ بہت کم امراض قلب کا شکار بنتے ہیں۔ جب کہ پون میل چلنے والے جلد نشانہ بن جاتے ہیں۔
3۔ آپ کے دوست احباب
کیا مناسب تعداد میں ہیں؟
مطلب یہ کہ معاشرتی میل جول عمر دراز کرتا ہے۔
پچھلے ایک عشرے میں کئی تجربات بتا چکے کہ غیرفطری تنہائی اور معاشرے سے کٹ کر رہنا نقصان دہ ہے۔ حال ہی میں تحقیق سے یہ چشم کشا انکشاف ہوا ہے کہ مذہبی مرد و خواتین زیادہ عرصہ جیتے ہیں۔ اس امر کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ معاشرتی طور پر عموماً سرگرم ہوتے اور مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اسی طرح وہ مرد و زن بھی لمبی عمر پاتے ہیں جو سماجی خدمات سے لے کر دوست احباب، سبھی کو مناسب وقت دیں۔
4۔ کیا آپ خاتون ہیں؟
مطلب یہ کہ اس صورت میں آپ مردوں کی نسبت طویل عمر پاتی ہیں۔
ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ دنیا بھر کے تمام ممالک میں آباد بوڑھے انسانوں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ شاید یہ خبر ان مردوں کے لیے حیرت انگیز ہو جو عورت کو اہمیت نہیں دیتے۔ مثلاً 2010ء میں امریکا میں 80ہزار مرد و خواتین کی عمر 100 سال سے زیادہ تھی اور ان میں 85فیصد خواتین تھیں۔
ماہرین اس فرق کی واضح وجوہ نہیں جان سکے۔ بہرحال خیال ہے کہ زنانہ ہارمون اور حیض کا عمل خواتین کی صحت کی حفاظت کرتا ہے۔ پھر زیادہ تر عورتیں تمباکو نوشی نہیں کرتیں اور ان میں امراض قلب جنم لینے کی شرح بھی کم ہے۔ پھر مردوں میں سڑک کے حادثات اور خودکشی سے مرنے کی شرح بھی زیادہ ہے۔
تاہم یہ فرق رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہے۔ کیونکہ اب کئی
مطلب یہ کہ کیا آپ کی جسمانی حالت اتنی اچھی ہے کہ آپ طویل فاصلہ تیزی سے طے کر سکیں۔
یورپی محققین نے 65سال سے زیادہ عمر کے مردوزن میں طویل تحقیق کی۔ اسی دوران 35 ہزار سے زیادہ لوگوں پر مختلف تجربات کیے گئے۔ اس طویل تحقیق کا ماحصل یہ ہے: تیز چلنے والے انسان طویل عرصہ جیتے ہیں۔ ماہرین نے یہ بھی دریافت کیا: چلتے ہوئے 0.1میٹر فی سیکنڈ کا فاصلہ جتنی تیزی سے طے ہو، مرنے کا امکان اتنا ہی گھٹ جاتا ہے۔
چلنے کے دوران بوڑھوں کی اوسط رفتار تین فٹ فی سیکنڈ (تقریباً دو میل فی گھنٹا) رہی۔ جو بوڑھے مر و زن آہستہ چلے، یعنی ان کی رفتار 2فٹ فی سیکنڈ (1.36میل فی گھنٹا) رہی تو ان میں جلد مرنے کا خطرہ بڑھ گیا۔ دوسری طرف جو بوڑھے 3.3فٹ فی سیکنڈ (2.25میل فی گھنٹا) کی رفتار سے زیادہ تیز چلے، ان کے متعلق محققین کاکہنا تھا کہ وہ طویل عمر پائیں گے۔
اُدھر امریکی ماہرین نے 70 سے 79سال کے مرد و زن پہ تحقیق سے معلوم کیا کہ اس عمر کے انسانوں میں جو پون میل تک نہ چل سکیں، وہ اگلے پانچ، چھے سال میں اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ وہ موت سے قبل بیماری یا معذوری میں مبتلا ہو جائیں۔
اسی طرح ایک اور تجربے سے انکشاف ہوا کہ 71 تا 93سال کی عمر کے جو مرد روزانہ دو میل چل سکیں، وہ بہت کم امراض قلب کا شکار بنتے ہیں۔ جب کہ پون میل چلنے والے جلد نشانہ بن جاتے ہیں۔
3۔ آپ کے دوست احباب
کیا مناسب تعداد میں ہیں؟
مطلب یہ کہ معاشرتی میل جول عمر دراز کرتا ہے۔
پچھلے ایک عشرے میں کئی تجربات بتا چکے کہ غیرفطری تنہائی اور معاشرے سے کٹ کر رہنا نقصان دہ ہے۔ حال ہی میں تحقیق سے یہ چشم کشا انکشاف ہوا ہے کہ مذہبی مرد و خواتین زیادہ عرصہ جیتے ہیں۔ اس امر کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ معاشرتی طور پر عموماً سرگرم ہوتے اور مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اسی طرح وہ مرد و زن بھی لمبی عمر پاتے ہیں جو سماجی خدمات سے لے کر دوست احباب، سبھی کو مناسب وقت دیں۔
4۔ کیا آپ خاتون ہیں؟
مطلب یہ کہ اس صورت میں آپ مردوں کی نسبت طویل عمر پاتی ہیں۔
ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ دنیا بھر کے تمام ممالک میں آباد بوڑھے انسانوں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ شاید یہ خبر ان مردوں کے لیے حیرت انگیز ہو جو عورت کو اہمیت نہیں دیتے۔ مثلاً 2010ء میں امریکا میں 80ہزار مرد و خواتین کی عمر 100 سال سے زیادہ تھی اور ان میں 85فیصد خواتین تھیں۔
ماہرین اس فرق کی واضح وجوہ نہیں جان سکے۔ بہرحال خیال ہے کہ زنانہ ہارمون اور حیض کا عمل خواتین کی صحت کی حفاظت کرتا ہے۔ پھر زیادہ تر عورتیں تمباکو نوشی نہیں کرتیں اور ان میں امراض قلب جنم لینے کی شرح بھی کم ہے۔ پھر مردوں میں سڑک کے حادثات اور خودکشی سے مرنے کی شرح بھی زیادہ ہے۔
تاہم یہ فرق رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہے۔ کیونکہ اب کئی
خواتین مردوں سے مخصوص کردار ادا کرنے لگی ہیں۔ چناں چہ ان میں بھی ذہنی و جسمانی دباؤ، سگریٹ نوشی وغیرہ کی صحت دشمن عادات بڑھ رہی ہیں۔
ویسے مردوں کے لیے یہ خوش خبری ہے کہ جو سو سالہ زندگی پا لیں، وہ عورتوں کی نسبت عمدہ صحت رکھتے ہیں۔ جب کہ بیشتر بوڑھی عورتیں بیماریوں کے باعث بستر سے لگی ہوتی ہیں۔
5۔ کیا آپ (خاتون) کے ہاں
35سال بعد بچے نے جنم لیا؟
اس کا مطلب ہے کہ آپ سست رفتاری سے بڑھاپے کی سمت گامزن ہیں۔
عام خیال یہ ہے کہ زیادہ عمر کی عورتوں کو بچے نہیں پیدا کرنے چاہئیں کیونکہ یوں ان کی صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ تاہم برطانوی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جو خواتین 40سال کی عمر کے بعد قدرتی انداز میں بچہ جنیں، ان میں دیگر عورتوں کی نسبت چار گنا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ وہ سو سال تک جییں گی۔ 35سال کی عمر کے بعد بچہ جننے والی خواتین بھی بڑی لمبی عمر پاتی ہیں۔
تاہم یاد رہے کہ درازیئ عمر دیر سے ہونے والے حمل سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو خاتون 40سال بعد حاملہ ہو جائے اور پھر کامیابی سے بچہ بھی جن دے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اس کا تخلیقی نظام سست رفتاری سے بوڑھا ہو رہا ہے۔ چناں چہ قدرتاً دیگر جسمانی نظام بھی دیر سے ضعیف ہوں گے۔
6۔ آپ کب پیدا ہوئے؟
مطلب یہ کہ دنیا بھر میں بڑھتی اوسط عمر بچوں اور نوجوانوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
صحت کی بہتر سہولیات اور غربت میں کمی کے باعث بیشتر ممالک میں شہریوں کی اوسط عمر بڑھ رہی ہے۔ چناں چہ حالیہ برسوں میں جنم لینے والے بچے قدرتاً بڑے بوڑھوں کی نسبت زیادہ عمر پائیں گے۔ مثلاً اس سال برطانیہ یا امریکا میں پیدا ہونے والے ہر تین بچوں میں سے ایک بچہ 100سال کی عمر پا سکتا ہے۔ مگر بڑی عمر کے شہری یہ امکان نہیں رکھتے۔
7۔ کیا آپ پریشان ہوتے ہیں
مگر زیادہ نہیں؟
مطلب یہ کہ پریشانی بھی ”صحت مندانہ“ سطح رکھتی ہے۔
آج کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں پریشانی روزمرہ کا حصہ بن چکی لیکن بعض لوگ پریشانی کو سر پر سوار کر لیتے ہیں۔ وہ آدھا بھرا گلاس دیکھ کر اظہار مایوسی کرتے اور ہر وقت اپنے پرائے کو کوستے رہتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے ہی پریشان مرد و زن جلد مر جاتے ہیں۔
لیکن ماہرین نے یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ ”معتدل پریشانی“ صحت کے لیے مفید ہے۔ گویا آپ پریشان ضرور ہوئیے، مگر حد سے زیادہ نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ معتدل پریشانی والے انسان خواہ مخواہ خطرات مول نہیں لیتے، جذباتی ہیجان میں کم مبتلا ہوتے اور متبادل منصوبے بنا کر زندگی گزارتے ہیں۔ چناں چہ ان کی تمام سرگرمیاں صحت پر مثبت اثرات ڈالتی ہیں۔
8۔ آپ کا وزن نارمل ہے یا
آپ تھوڑا سا زائد وزن رکھتے ہیں؟
مطلب یہ کہ بڑھاپے میں وزن کا تھوڑا سا بڑھنا عمر میں اضافہ کر سکتا ہے۔
ویسے مردوں کے لیے یہ خوش خبری ہے کہ جو سو سالہ زندگی پا لیں، وہ عورتوں کی نسبت عمدہ صحت رکھتے ہیں۔ جب کہ بیشتر بوڑھی عورتیں بیماریوں کے باعث بستر سے لگی ہوتی ہیں۔
5۔ کیا آپ (خاتون) کے ہاں
35سال بعد بچے نے جنم لیا؟
اس کا مطلب ہے کہ آپ سست رفتاری سے بڑھاپے کی سمت گامزن ہیں۔
عام خیال یہ ہے کہ زیادہ عمر کی عورتوں کو بچے نہیں پیدا کرنے چاہئیں کیونکہ یوں ان کی صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ تاہم برطانوی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جو خواتین 40سال کی عمر کے بعد قدرتی انداز میں بچہ جنیں، ان میں دیگر عورتوں کی نسبت چار گنا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ وہ سو سال تک جییں گی۔ 35سال کی عمر کے بعد بچہ جننے والی خواتین بھی بڑی لمبی عمر پاتی ہیں۔
تاہم یاد رہے کہ درازیئ عمر دیر سے ہونے والے حمل سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو خاتون 40سال بعد حاملہ ہو جائے اور پھر کامیابی سے بچہ بھی جن دے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اس کا تخلیقی نظام سست رفتاری سے بوڑھا ہو رہا ہے۔ چناں چہ قدرتاً دیگر جسمانی نظام بھی دیر سے ضعیف ہوں گے۔
6۔ آپ کب پیدا ہوئے؟
مطلب یہ کہ دنیا بھر میں بڑھتی اوسط عمر بچوں اور نوجوانوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
صحت کی بہتر سہولیات اور غربت میں کمی کے باعث بیشتر ممالک میں شہریوں کی اوسط عمر بڑھ رہی ہے۔ چناں چہ حالیہ برسوں میں جنم لینے والے بچے قدرتاً بڑے بوڑھوں کی نسبت زیادہ عمر پائیں گے۔ مثلاً اس سال برطانیہ یا امریکا میں پیدا ہونے والے ہر تین بچوں میں سے ایک بچہ 100سال کی عمر پا سکتا ہے۔ مگر بڑی عمر کے شہری یہ امکان نہیں رکھتے۔
7۔ کیا آپ پریشان ہوتے ہیں
مگر زیادہ نہیں؟
مطلب یہ کہ پریشانی بھی ”صحت مندانہ“ سطح رکھتی ہے۔
آج کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں پریشانی روزمرہ کا حصہ بن چکی لیکن بعض لوگ پریشانی کو سر پر سوار کر لیتے ہیں۔ وہ آدھا بھرا گلاس دیکھ کر اظہار مایوسی کرتے اور ہر وقت اپنے پرائے کو کوستے رہتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے ہی پریشان مرد و زن جلد مر جاتے ہیں۔
لیکن ماہرین نے یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ ”معتدل پریشانی“ صحت کے لیے مفید ہے۔ گویا آپ پریشان ضرور ہوئیے، مگر حد سے زیادہ نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ معتدل پریشانی والے انسان خواہ مخواہ خطرات مول نہیں لیتے، جذباتی ہیجان میں کم مبتلا ہوتے اور متبادل منصوبے بنا کر زندگی گزارتے ہیں۔ چناں چہ ان کی تمام سرگرمیاں صحت پر مثبت اثرات ڈالتی ہیں۔
8۔ آپ کا وزن نارمل ہے یا
آپ تھوڑا سا زائد وزن رکھتے ہیں؟
مطلب یہ کہ بڑھاپے میں وزن کا تھوڑا سا بڑھنا عمر میں اضافہ کر سکتا ہے۔
برطانیہ کے البرٹ آئن سٹائن کالج آف میڈیسن سے تعلق رکھنے والے محققوں نے چھے ماہ تک 477 ایسے بوڑھے مرد و زن کی عادات کا مطالعہ کیا جن کی عمر 95سے 110سال کے درمیان تھی۔ معلوم ہوا کہ بیشتر بوڑھے دوسروں کی نسبت زیادہ صحت مند عادات نہیں رکھتے تھے۔ البتہ ایک فرق ضرور پایا گیا…… وہ یہ کہ طویل عمر پانے والے بیشتر بوڑھے زائد وزن رکھتے تھے۔
دیگر ممالک میں ہونے والی تحقیقات سے بھی انکشاف ہوا کہ اگر مرد و زن 65سال سے کم عمر میں فربہ ہو جائیں تو ان کی موت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اس سے بڑی عمر میں تھوڑا سا زائد وزن صحت کو فائدہ پہنچاتا اور عمر طویل کرتا ہے۔ لہٰذا اوائل زندگی میں خود کو سمارٹ رکھیے، لیکن بڑھاپے میں تھوڑا سا وزن بڑھنے دیجیے۔
9۔ آپ کے ٹیلومیریس (Telomeres)
کتنے لمبے ہیں؟
مطلب یہ کہ جو مرد و زن طویل عمر پائیں، ان کے خلیوں میں ٹیلومیریس لمبے ہوتے ہیں۔
ٹیلومیریس ہر انسانی خلیے کے کنارے پر واقع ایک خاص مادے کا نام ہے جو اسے حد سے زیادہ نہیں بڑھنے دیتا۔ لیکن جب خلیہ تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزر کر نئے خلیے پیدا کرے تو ہر نئے خلیے میں ٹیلومیریس پہلے کی نسبت چھوٹا ہوتا ہے۔
خلیوں کی تقسیم ہوتے ہوتے آخر ایسا خلیہ جنم لیتا ہے جس کا ٹیلومیریس بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ جب یہ مرحلہ آ پہنچے تو خلیہ مزید تقسیم نہیں ہوتا اور یوں خلیوں کی پیدائش کا سلسلہ رک جاتا ہے۔ بس اسی لمحے ہمارے اعضا کی شکست و ریخت کا آغاز ہوتا ہے اور ہم بوڑھے ہونے لگتے ہیں۔سائنسی اصطلاح میں یہ عمل ”سینسینس“ (Senescesnce) کہلاتا ہے۔
سائنس دان اب ٹیلومیریس کی خوبیاں اور خامیاں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ایک امر طے ہے…… جس انسان میں خلیوں کے ٹیلومیریس جتنے لمبے ہوں وہ اتنی ہی طویل عمر پاتا ہے۔ مزید برآں حال ہی میں اطالوی ماہرین نے بذریعہ تحقیق دریافت کیا ہے کہ جو مرد و زن چھوٹے ٹیلومیریس رکھیں، وہ لمبے ٹیلومیریس والوں کی نسبت جلد کینسر کا نشانہ بنتے ہیں۔
بعض تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ جو لوگ ذہنی و جسمانی دباؤ سے دور رہیں، سگریٹ نوشی نہ کریں اور اومیگا۔3،فیٹی ایسڈز والی غذائیں کھائیں تو ان میں ٹیلومیریس کی لمبائی بڑھ جاتی ہے۔
10۔ کیا آپ مثبت طرز فکر
رکھنے والے ہیں؟
مطلب یہ کہ مثبت جذبات صحت پر عمدہ اثر ڈالتے ہیں اور صحت اچھی ہو تو قدرتاً عمر بھی بڑھ جاتی ہے۔
پچھلے ایک برس سے مشہور امریکی یونیورسٹی سانفورڈ میں ماہرین یہ جائزہ لے رہے تھے کہ مثبت و منفی رویے اور جذبات انسانی صحت خصوصاً طویل العمری پر کس قسم کے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ حال ہی میں اس تحقیق کے نتائج سامنے آئے۔
ان سے عیاں ہوا کہ رویے سے زیادہ جذبات انسانی صحت پہ مثبت اثر کرتے ہیں۔ (تحقیق میں 19جذبات کا مطالعہ ہوا) ماہرین کا کہنا ہے کہ مثبت جذبات و خیالات کی وجہ سے جسم میں مضر صحت مادے و ہارمون جنم نہیں لیتے۔ لہٰذا صحت عمدہ رہتی ہے اور یوں انسان طویل عمر پاتا ہے۔
دیگر ممالک میں ہونے والی تحقیقات سے بھی انکشاف ہوا کہ اگر مرد و زن 65سال سے کم عمر میں فربہ ہو جائیں تو ان کی موت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اس سے بڑی عمر میں تھوڑا سا زائد وزن صحت کو فائدہ پہنچاتا اور عمر طویل کرتا ہے۔ لہٰذا اوائل زندگی میں خود کو سمارٹ رکھیے، لیکن بڑھاپے میں تھوڑا سا وزن بڑھنے دیجیے۔
9۔ آپ کے ٹیلومیریس (Telomeres)
کتنے لمبے ہیں؟
مطلب یہ کہ جو مرد و زن طویل عمر پائیں، ان کے خلیوں میں ٹیلومیریس لمبے ہوتے ہیں۔
ٹیلومیریس ہر انسانی خلیے کے کنارے پر واقع ایک خاص مادے کا نام ہے جو اسے حد سے زیادہ نہیں بڑھنے دیتا۔ لیکن جب خلیہ تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزر کر نئے خلیے پیدا کرے تو ہر نئے خلیے میں ٹیلومیریس پہلے کی نسبت چھوٹا ہوتا ہے۔
خلیوں کی تقسیم ہوتے ہوتے آخر ایسا خلیہ جنم لیتا ہے جس کا ٹیلومیریس بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ جب یہ مرحلہ آ پہنچے تو خلیہ مزید تقسیم نہیں ہوتا اور یوں خلیوں کی پیدائش کا سلسلہ رک جاتا ہے۔ بس اسی لمحے ہمارے اعضا کی شکست و ریخت کا آغاز ہوتا ہے اور ہم بوڑھے ہونے لگتے ہیں۔سائنسی اصطلاح میں یہ عمل ”سینسینس“ (Senescesnce) کہلاتا ہے۔
سائنس دان اب ٹیلومیریس کی خوبیاں اور خامیاں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ایک امر طے ہے…… جس انسان میں خلیوں کے ٹیلومیریس جتنے لمبے ہوں وہ اتنی ہی طویل عمر پاتا ہے۔ مزید برآں حال ہی میں اطالوی ماہرین نے بذریعہ تحقیق دریافت کیا ہے کہ جو مرد و زن چھوٹے ٹیلومیریس رکھیں، وہ لمبے ٹیلومیریس والوں کی نسبت جلد کینسر کا نشانہ بنتے ہیں۔
بعض تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ جو لوگ ذہنی و جسمانی دباؤ سے دور رہیں، سگریٹ نوشی نہ کریں اور اومیگا۔3،فیٹی ایسڈز والی غذائیں کھائیں تو ان میں ٹیلومیریس کی لمبائی بڑھ جاتی ہے۔
10۔ کیا آپ مثبت طرز فکر
رکھنے والے ہیں؟
مطلب یہ کہ مثبت جذبات صحت پر عمدہ اثر ڈالتے ہیں اور صحت اچھی ہو تو قدرتاً عمر بھی بڑھ جاتی ہے۔
پچھلے ایک برس سے مشہور امریکی یونیورسٹی سانفورڈ میں ماہرین یہ جائزہ لے رہے تھے کہ مثبت و منفی رویے اور جذبات انسانی صحت خصوصاً طویل العمری پر کس قسم کے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ حال ہی میں اس تحقیق کے نتائج سامنے آئے۔
ان سے عیاں ہوا کہ رویے سے زیادہ جذبات انسانی صحت پہ مثبت اثر کرتے ہیں۔ (تحقیق میں 19جذبات کا مطالعہ ہوا) ماہرین کا کہنا ہے کہ مثبت جذبات و خیالات کی وجہ سے جسم میں مضر صحت مادے و ہارمون جنم نہیں لیتے۔ لہٰذا صحت عمدہ رہتی ہے اور یوں انسان طویل عمر پاتا ہے۔