Tuesday 13 May 2014

بیر


بیر
کے پھل کو ججوُبا(Jujuba)بھی کہتے ہیں۔ اس کا نباتاتی نام (Ziziphus)بیر ہے۔ یہ برصغیر پاک و ہند اور چین کا قدیم ترین پھل ہے۔ یہ پھل پچھلے چار ہزار سال سے کاشت ہورہا ہے۔ اس وقت یہ دُنیا میں برِصغیر پاک و ہند چین، افغانستان، شمالی افریقا، ایران، فلسطین، فرانس اور سپین میں کاشت ہوتا ہے۔ اس کی چین میں چند اقسام ایسی بھی ہیں جو بغیر بیج کے ہیں ان کو خشک بھی کیا جاتا ہے۔
جن کو(Dry Dates)کہتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ تازہ حالت میں ہی کھایا جاتا ہے۔ اس کا درخت بڑا سخت جان اور کافی پھیلائو رکھتا ہے اور شاخوں پر کانٹے بھی ہوتے ہیں ۔ اس کے پتے میت کو غسل دیتے وقت استعمال ہوتے ہیں۔ اس کا پھل موسم بہار ’’فروری، مارچ‘‘ میں پکتا ہے۔ سندھ میں اس کا پھل پنجاب سے پہلے پک کر بازار میں فروخت ہوتا ہے۔ پھل کی برداشت کے بعد اس کے پتے گرجاتے ہیں اور برسات میں دوبارہ نئے شگوفے نکلتے ہیں۔ اس کا پھل غذائیت کے لحاظ سے بہت اعلیٰ ہے۔ اس میں حیاتین ۱، ب اور ج کافی مقدار میں ہوتے ہیں۔ حیاتین ’’ج‘‘ ترشا وہ پھلوں سے بھی وافر مقدار(150-50گرام) میں پایا جاتا ہے۔ ترشا وہ پھلوں میں حیاتین ج صرف 35سے 45ملی گرام ہوتا ہے۔
پھل کا کیمیائی تجزیہ درج ذیل گوشوارے میں واضح کیا گیا ہے۔
پانی 85.1فی صد
روغن0.1فی صد
نشاشتہ 12.8
چونا 0.3
اجزائے لحمیہ0.8
فاسفورس0.3
لوہا 0.8
100گرام میں حرارتی اکائی 55.00
معدنی اجزا0.4
ایک اونس میں 16.00
درج بالا گوشوارہ سے اس کی غذائی خصوصیات بھی نمایاں ہوتی ہیں۔ پہلے اس کے درخت سے لاکھ بھی تیار کی جاتی تھی لیکن آج کل لاکھ کا استعمال زیادہ نہیں۔ دوسرے اس کی لکڑی ہلکی ہونے کی وجہ سے زرعی آلات میں بھی مستعمل ہے اور بطور ایندھن بھی۔
آب و ہوا
بیر کا پودا مختلف آب و ہوا اور زمین میں کامیابی سے کاشت ہوسکتا ہے۔ اس کا پودا سطح سمندر سے 2ہزار فٹ کی بلندی پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔
اس کی جڑیں کافی گہری جاتی ہیں اس طرح یہ خشک علاقے میں خوب پھلتا پھولتا ہے۔ اس کی کاشت گرم خشک علاقوں میں بخوبی ہوسکتی ہے۔ اس کو کم آبپاشی اور بارانی علاقوں میں بھی کاشت کرسکتے ہیں۔
زمین
اس کی کاشت کے لیے ہر قسم کی زمین یعنی زرخیز، غیر کلراٹھی جس میں دیگر پھل دار پودے کامیاب نہ ہوں اس کا پودا کامیابی سے بھرپور بار آوری کرتا ہے۔
افزائش نسل
بیر کے تخمی پودے دوسرے پودوں کی طرح دیر سے پھل لاتے ہیں اور پھل بھی کوالٹی کے لحاظ سے بہتر نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کے تخمی پودوں کو نرسری میں تیار کر کے وہیں ٹی بڈنگ،رِنگ بڈنگ یا ٹی گرافٹنگ کر دی جاتی ہے اور وہیں سے پودوں کو گاچی سمیت نکال کر کھیت میں لگایا جاتا ہے۔ یا تخم کو پہلے گملوں میں اُگا کر کھیت میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ وہیں پر ایک دو سال بعد ٹی بڈنگ کر دی جاتی ہے۔
کاشتی اُمور
اس کے پودے کھیت میں40X40فٹ کے فاصلے پر لگائے جاتے ہیں۔ اس طرح فی ایکڑ 36پودے لگیں گے۔ یہ پودا خشک موسم اور گرمی کو بخوبی برداشت کر لیتا ہے۔ پھل لگنے کے بعد اگر وقفے وقفے سے آبپاشی کر دی جائے تو پھل سے زائد آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ان پودوں کو فی جوان پودا 8-6سال تک2من دیسی کھاد، پھول آنے سے پہلے اگست ستمبر‘‘میں ڈالیں۔ دیسی کھاد میسر نہ ہونے کی صورت میں یوریا 2کلو+سپرفاسفیٹ2/1/2 کلو +پوٹاشیم سلفیٹ 2کلو ملا کر اگست میں ڈالی جائے اس سے پھل خوب لگے گا اور سائز بھی بڑا ہوگا۔
شروع کے سالوں میں پھل والی شاخوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے سہارا دینا پڑتا ہے۔ پھل کی برداشت کے بعد سُوکھی اور ٹوٹی ہوئی شاخیں کاٹ دینی چاہئیں۔ جب زیادہ سوکھی ہوئی شاخیں نظر آئیں تو سارے پودے کی شاخ تراشی ضروری ہے۔ بیر کے پودے کو اس قدر پھل لگتا ہے کہ شاخیں جُھک کر زمین پر لگ جاتی ہیں اور پودا چھتری کی مانند نظر آتا ہے۔ چین میں بیر کا پودا بہار میں پھول لاتا ہے اور موسم خزاں کے اوائل میں پھل پکتا ہے۔
پیدوار
اس کی پیداوار مختلف اقسام میں کم و بیش ہوتی ہے۔ جو کم از کم 2من اور زیادہ سے زیادہ 5من تک ہوتی ہے۔ اس کے پکے ہوئے بیروں کو سیڑھی لگا کر توڑا جاتا ہے۔ پھل کو منڈی میں کریٹوں یا بوریوں میں بھیجا جاتا ہے۔ ہمارے بیر کی مانگ سعودی عرب، افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں ہے۔ صوبہ سندھ میں بیر کا پھل جنوری میںپک جاتاہے۔ جبکہ پنجاب میں فروری کے آخر سے اپریل تک ہوتا ہے۔
اقسام
ہمارے ملک میں اس کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں موٹی اقسام کو پیوندی یا فارمی کہا جاتا ہے۔ یعنی عمران15-13-9 ۔ کریلا،دوسری کاٹھی اقسام ہیں جن کا پھل گول ہوتا ہے اور یہ سائز میں چھوٹی ہوتی ہیں اور کھانے میں بھی لذیذ نہیں ہوتیں۔ ایک اور قسم کے جنگلی بیر ہوتے ہیں۔ ان کا پودا جھاڑی نما ہوتا ہے جن کو ملھے بیر کہتے ہیں یہ زیادہ تر بارانی علاقوں اور پہاڑی علاقوں میںہوتے ہیں۔ بھیڑ بکریاں ان کے پتوں کو بطور خوراک کھاتی ہیں اور ان پودوں میں جنگلی پرندے بٹیر، تیتر اور خرگوش اپنا ڈیرہ بنا کر رہتے ہیں۔
سندھ کی ایک قسم جس کا نام سفید دہلی (White Delhi)ہے۔ اس کا پھل کافی موٹا اور میٹھا ہوتا ہے۔ اور پیدوار اور آمدن بھی فی ایکٹر زیادہ ہوتی ہے۔ باغبانوں کو یہ قسم لگانے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اس کے پودے حیدرآباد، ٹنڈوآدم، خیرپور خاص اور پتوکی سے مل سکتے ہیں۔
کیڑے اور بیماریاں
بیر کے پودے پر بھی کیڑے اور بیماریاں حملہ کرتی ہیں۔ جن میں بال دار سنڈی، پھل کی مکھی اور پڈرلی مِلڈیو(P.Mildew)پودوں اور پھل کو کافی نقصان پہنچاتی ہیں۔ بال دار سنڈی پتوں کو کھاتی ہے۔ اور یہ انسانی جسم پر خارش اور سُرخ دھبے کا باعث بن جاتی ہے اور جو کافی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پھل کی مکھی انڈے دے کر کیرے (Drop)کا سبب بنتی ہے۔ پھل میں کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں اور پھل کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے۔ اور کھانے کے قابل نہیں رہتا۔
سدرة المنتہٰی‘ یعنی آسما نو ں پر بیری کے درخت والا وہ آخری مقام ہے جس سے آگے فرشتے بھی نہیں جا سکتے۔ لیکن ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلممعراج کے موقع پر اس مقام سے بھی آگے گئے تھے۔ جنت کی خوبصورتی اور دلنوازی کا نقشہ ہمارے سامنے رکھتے ہو ئے مالک الملک نے بیری کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے وہ زبان زد عام محاورہ بھی سنا ہو گاکہ ، جس گھر میںبیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں ، یا بیر بیر جتنے آنسو ‘ یہ باغ و بہار قسم کا درخت برصغیر میں عام پا یا جا تا ہے۔ خوب گھنااور تناور ہونے کی خوبی کے سا تھ ساتھ اس کا پیڑ خاردار اور سدابہار ہوتا ہے۔ اس کے پھول سبزر نگ کے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں جن کی شکل بالکل ناک میں بہنے والے زیور لونگ جیسی ہو تی ہے۔ برصغیر پاک وہند میں اگنے والے بیری
(Indian Jujube)
کی دو قسمیں ہیں۔ ایک جنگلی بیری جو عمو ماً جھاڑی کی شکل کی ہوتی ہے اور دوسری عام یعنی گھریلو پیڑ۔ جنگلی بیری کو جھڑبیری بھی کہتے ہیں ۔ یہ خودرو ہوتی ہے ا س کا پھل عام طور پر چھوٹا او ر گول ہو تا ہے۔ دوسری قسم کاشت کی جاتی ہے۔ اس کا پھل بیضوی، گداز گودا اور جسامت میں بڑا ہو تاہے ۔ یہ چھوٹی قسم کے برعکس شیریں ہو تا ہے۔ قدرت نے اس خوبصورت پیڑ کے پھل ، چھال اور پتوں میں غذائی اور ادویا تی خواص رکھے ہیں ۔ اس کا پھل یعنی بیر وٹا من بی کا خزانہ ہے۔ اس کے علاوہ اے اور ڈی وٹامن بھی اس کے حصے میںآئے ہیں ۔ معدنیات میں فولا د، کیلشیم ، پوٹاشیم اور فلو رین اس میں شامل ہیں۔ طب یونانی کے مطابق اس کا مزاج سرد ہے اور یہ جسم میں گوشت بنانے کی صلا حیت سے مالا مال ہے ۔ ان خواص کی روشنی میںآپ اس کی تعمیری افعال کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ جو یہ جسم کے اندر سر انجام دیتا ہے۔ آج ہم اس کے چیدہ چیدہ خواص پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ڈھائی سو گرام بیروں میں ایک بڑی چپاتی کے مساوی غذائیت ہو تی ہے ۔ ایک کلو بیروں میں دو اونس مکھن جتنی چکنائی ہوتی ہے۔ آدھ کلو بیر وں کی مقدار ایک وقت کے کھانے کا نعم البدل ہے۔
بلند فشار خون
ترش (جنگلی )بیری کے ایک تولہ پتے صبح کو ایک گلاس پانی میں بھگو دیں۔ شام کو مل چھان کر، چینی ملا کر پینے سے انشاءاللہ شر یا نو ں کی لچک بحال ہو جا ئے گی اور مرض دور ہو گا۔
معدے کی خرابیا ں
بیری کی چھال اسہال ، پیچش او ر قولنج کے علاج میں نہایت موثر ہے۔ اندرونی چھال کا جو شاندہ قبض کی حالت میں جلا ب کے طورپر دیا جاتاہے ۔
دماغی امراض
ایسے ذہنی مریض جن کا دما غ بہت سست ہو، ان کے علا ج کے لیے مٹھی بھر خشک بیر آدھ لیٹر پانی میں اس وقت تک ابالے جا ئیں جب پانی آدھا رہ جا ئے۔ پھر اس آمیزے میں شہد یا چینی ملا کر روزانہ رات سونے سے قبل مریض کو کھلایا جائے۔ یہ علاج دما غ کی کارکر دگی بڑھا کر مریض کو فعال بنا دے گا۔
منہ کے امراض
بیری کے تازہ پتوں کا جوشاندہ نمک ملا کر غراروں کے لیے استعمال کرنا، گلے کی خراش ، منہ کی سوزش، مسوڑھو ں سے خون بہنا اور زبان پھٹ جا نے کے امراض میں شافی ہے ۔
آشوب ِ چشم
دکھتی آنکھو ں کے لیے بیری کے پتے بہت مفید ہیں۔ پتوں کا جو شاندہ آنکھوں میںڈالنے والی دوا کی طرح استعمال کرنا صحت دیتا ہے۔
جلد کی بیماریا ں
بیری کی ٹہنیوں اور پتوں کا لےپ پھوڑوں ، پھنسیو ں وغیرہ پر لگانے سے پےپ جلد پک کر خارج ہو جا تی ہے ۔ پلٹس کو ایک چھوٹا چمچہ لیموں کے رس میں ملا کر بچھو کے ڈنگ پر لگانے سے تسکین ملتی ہے۔زخم اورناسور دھونے کے لیے بھی بیری کے پتوں کا جوشاندہ بہترین ہے۔
با لوں کے امرا ض
سر پر بیری کے پتوں کا لےپ لگانا بالوں کو صحتمند اور خوشنما بناتا ہے۔ اس کے استعمال سے سر کی جلد کے امراض دور رہتے ہیں اور بال سیا ہ ہو تے ہیں۔