Thursday 29 May 2014

کریلا صحت کیلئے کڑوا نہیں

کریلا موسم گرما کی لذیذ ترین ترکاریوں میں سے ایک ہے۔ یہ ترکاری سب کی دل پسند ہے۔
اس مشہور عام ترکاری کا رنگ سبز‘ زردی مائل‘ شکل لمبوتری اور بیرونی سطح دھاری دار ہوتی ہے۔ اس کے اندر بیضوی چپٹے بیج ہوتے ہیں جن کا ذائقہ تلخ اور مزاج گرم و خشک ہوتا ہے۔ بیرونی جلد کو چھیل کر اور درمیان میں سے سخت بیجوں کو نکال کر سالن تیار کیا جاتا ہے۔ سالن تیار کرتے وقت اگر انہیں صرف گھی میں بھونا جائے اور پانی کی آمیزش نہ کریں تو اس کا ذائقہ بہت ہی لذیذ اور دل پسند ہوتا ہے۔ لذت کام و دہن کیلئے ثابت کریلوں سے سخت بیج نکال کر گوشت کا قیمہ ابال کر نمک مرچ کے اضافہ سے ان میں بھر کر گھی میں تل کر کھانا لطف بیکراں دیتا ہے۔
کریلے صرف لذیذ ترکاری ہی نہیں بلکہ ایک ایسی مفید غذا بھی ہے جس کے جسم انسانی پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کڑوے ہونے کی وجہ سے کریلے مشتہی‘ ہاضم اور مصفی خون ہوتے ہیں اور ان کے کھانے سے پیٹ میں پیدا ہونے والے ریاح تحلیل ہوتے ہیں۔ اس سے نظام انہضام کے خصوصی اعضاءمثلاً معدہ اور امعاءوغیرہ کو تقویت بھی حاصل ہوتی ہے۔ یہ کڑوے اور تلخ ہونے کی وجہ سے امعاءکے کیڑوں کو بھی ختم کرتے ہیں۔ اس عمل کیلئے اس پائے کی کوئی بھی دوسری سبزی یا ترکاری نہیں ہوتی۔ کریلوں کا پانی امعاءکے امراض میں بہت ہی نافع ہے۔ خصوصی طور پر ہیضہ جو عالمگیر مرض کی حیثیت رکھتا ہے اس کا جرثومہ انتڑیوں میں ہی نشوونما پاتا ہے اور کریلوں کا پانی ایک چمچہ سے دو چمچہ کی مقدار میں پلانا ان جرثوموں کو ختم کردیتا ہے۔ پیٹ میں پانی پڑجانے اور استسقاءلحمی میں بھی یہ بہت ہی نافع ہے۔
عام جسمانی امراض میں بھی کریلے بطور غذائے دوائی مستعمل ہیں۔ ان کا پابندی سے کھانا وجع المفاصل کے مریضوں کیلئے بہت فائدہ مند ہے۔ اسی طرح نقرس اور گنٹھیا کے مریض بھی اس سے بہت استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ ان امراض میں کریلوں کا سالن بہت مفید ہے۔ علاوہ ازیں فالج اور لقوہ ودیگر اعصابی امراض میں بھی کریلے کے فوائد بہت نمایاں ہوتے ہیں ان کے استعمال سے اعصاب میں تحریک ہوتی ہے اور کریلے اعصاب کی قوت کی بحالی کیلئے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گرم وخشک تاثیر کے باعث جسم میں اجتماع بلغم کیلئے مانع اور رطوبات کو تحلیل کرتا ہے۔ پراگندہ خیالی میں سود مند اور اعصاب کیلئے عمدہ غذائی ٹانک ہے۔
اعضائے جنسی کو بھی کریلے تقویت بخشتے ہیں کیونکہ بہت کم ادویہ اور اغذیہ ایسی ہیں جو جریان اور ضعف باہ کیلئے مفید ہوں۔ ان ہی میں سے ایک کریلا ہے جس سے جریان کے مریض بھی مستفید ہوتے ہیں۔ شرط صرف اتنی ہے کہ جریان اور ضعف باہ کا باعث کوئی گرم خلط نہ ہو۔ کیونکہ اگر اس کا باعث خلط صفرا ہوگی تو بجائے فائدہ کے نقصان کا اندیشہ ہے اور اگر یہ بلغم کے سبب لاحق ہونے والے عارضوں میں سے ہوگا تو کریلا بہت مفید ثابت ہوگا۔
امراض جگر و مرارہ میں سے استسقاءاور یرقان دو ایسے امراض ہیں جن میں کریلوں کا پانی بطور دوا اور سالن بطور غذا بہت نافع ہے کریلوں کا پانی یرقان کی تمام حالتوں کے علاوہ یرقان سدہی میں بھی بہت ہی مفید اور موثر ہے۔ استسقاءمیں بھی کریلوں کا پانی صبح دوپہر اور شام دو دو چمچے پلانا اور غذا میں اس کا سالن استعمال کرانا بہت جلد افاقہ کی صورت پیدا کرتا ہے۔ جگر کے سبب لبلبہ کی رطوبت انسولین یا دماغی نقص کی وجہ سے گلوکوز کے استحار میں خرابی لاحق ہوجائے یا خون میں گلوکوز کا طبعی تناسب متاثر ہوکر زیادہ ہوجائے تو کریلوں کا پانی سالن اور خشک کریلوں کا سفوف بہت ہی مفید وموثر دوا اور غذا ہیں۔
امراض گردہ مثانہ میں سے سنگ گردہ و مثانہ بہت ہی اذیت ناک امراض ہیں۔ ان کے علاج کیلئے ہسپتال میں آپریشن کروا کر ہفتوں بستر پر لیٹنا پڑتا ہے۔ کریلوں میں قادر مطلق نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ گردہ و مثانہ کی پتھری کو اپنی خاصیت سے ریزہ ریزہ کردیتے ہیں اور اس کے ساتھ مدر ادویات کا استعمال ان کے بہت جلد اخراج کا باعث بنتا ہے۔
کریلے گرم مزاج افراد کیلئے مضر اورنقصان دہ ہیں۔ خصوصاً ایسے افراد جن میں کریات حمرہ کی تعداد کم ہو۔ بخاروں میں اکثر بطور سالن اس کا استعمال مضر ثابت ہوتا ہے۔ مناسب گھی‘ سبز دھنیا اور دہی کے ملانے سے اس کی اصلاح ہوجاتی ہے