Sunday 24 November 2013

معدے کے علاج میں طریقہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم


معدے کے علاج میں طریقہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

مسند اور دوسری کتابوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کسی خالی برتن کو بھرنا اتنا برا نہیں ہے جتنا کہ آدمی کا خالی شکم بھرنا انسان کے لیے چند لقمہ کافی ہے‘ جو اس کی توانائی کو باقی رکھیں‘ اگر پیٹ بھرنے کا ہی خیال ہے‘ اور اس سے مفر نہ ہو تو ایک تہائی کھانا ایک تہائی پانی اور ایک تہائی حفاظت نفس کے لیے رکھے“۔
مرض کی دو قسمیں ہیں امراض مادی جو زیادت مادہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں یہ مادے بدن میں زائد ہوکر افعال طبعی کو ضرر پہنچاتے ہیں‘ اور عموماً انسان کو اسی مادی مرض سے ہی سابقہ پڑتا ہے۔
ان مادی امراض کا سبب ہضم اول سے پہلے معدہ میں دوسری غذاﺅں کا داخل کرنا ہوتا ہے یعنی کھانے کے ہضم سے پہلے کھانا دوبارہ کھالینا اور بدن کی ضرورت سے زیادہ مقدار میں کھانے کا استعمال‘ بدن کو معمولی نفع پہنچانے والی غذا کا استعمال دیر ہضم غذا متنوع غذائیں جو مختلف طریقوں سے بنائی گئی ہوں‘ بکثرت استعمال اس قسم کی غذا سے جب آدمی اپنا شکم بھر لیتا ہے اور اس کو عادت بنالیتا ہے تو پھر بیماریوں کا تانتا بندھ جاتا ہے مثلاً دیر ہضم اور زود ہضم غذا کے درمیانی جب اس کی غذا ہوتی ہے‘ اور ضرورت کے مطابق ہی کھاتا ہے‘ جو کمیت اور کیفیت دونوں حیثیت سے درمیانی ہوتی ہے‘ تو اس کے بدن کو بڑی مقدار میں غذا کھانے سے زیادہ نفع پہنچتا ہے۔
غذا کے بھی تین مدارج ہیں درجہ ضرورت‘ درجہ کفایت‘ درجہ زیادت انہی کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہدایت میں رہنمائی فرمائی ہے‘ کہ انسان کو وہی لقمے کافی ہیں جن سے اس کی پشت مضبوط ہو‘ اس کی قوت کو زوال نہ ہو‘ اور جس سے ضعف بدن نہ ہونے پائے اگر اس سے زیادہ کھانا چاہتا ہے تو اپنے شکم کا ایک تہائی کھانا کھائے‘ اور دوسرے تہائی پانی کے لئے چھوڑ دے‘ اور تیسری تہائی خود اپنے لیے باقی رکھے‘ یہی وہ انداز خوردونوش ہے جس سے بدن اور قلب دونوں ہی کی تقویت ہوتی ہے‘ اس لیے کہ اگر کھانے سے شکم میں تنگی ہوجائے تو پھر پانی کے لیے جگہ کم ہوجائے گی‘ اس پر اسی مقدار سے اس نے پانی پی لیا تو پھر اس کے نفس کو تنگی ہوگی‘ اور اس سے بے چینی اور تھکان کا احساس ابھرے گا اور شکم پر ایک ایسا بوجھ ہوگا‘ جس کی گرانی سے طبعیت تھک جائے گی‘ اس سے دل میں خرابی پیدا ہوگی اور جوارح میں ماندگی کے سبب پھرتی جاتی رہے گی جو کام کرے گا اس میں سستی پیدا ہوجائے گی‘ اور بدن میں غیر ضروری خواہشات کا ابھار ہوگا‘ جو ہمیشہ پر خوری (شکم سیری) کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے‘ اس طرح امتلاءشکم سے بدن اور قلب دونوں ہی کو ضرر ہوگا یہ پر خوری اگر ہمیشہ ہو یا اکثر اتفاق پڑتا ہوتو مضر ہے‘ مگر کبھی اتفاقی طور سے یہ صورت پیش آجائے تو کچھ حرج نہیں‘ اس لیے کہ روایات میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دودھ پیا اور وافر مقدار میں پی گئے‘ حتیٰ کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا‘ اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو سچائیوں کا پیامبر بناکر بھیجا اب مزید دودھ پینے کی گنجائش ہی نہیں رہی آپ کی موجودگی میں صحابہ نے بارہا اتنا کھایا کہ آسودہ ہوگئے‘ آگے کھانے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔
شکم سیر ہوکر کھانا بدن اور بدن کی تمام قوتوں کو کمزور کردیتا ہے یہ ممکن ہے کہ سیر خوری سے بدن میں تازگی اور شادابی پیدا ہوجائے مگر بدن کی قوت کا دارومدار بدن کی غذا کوقبول کرنے پر ہوتا ہے جس سے وہ غذا جزو بدن ہوجائے اس کی کثرت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
انسان میں چونکہ قدرتی طور پر تین اجزاءپائے جاتے ہیں جزا رضی‘ جزءہوائی‘ جزءمائی ان تینوں اجزاءکی رعایت فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا اپنی اور نفس کے لیے انسانی خوارک کو تین اجزاءمیں تقسیم فرمایا تاکہ تینوں کا حصہ جسم انسانی میں پورا ہوجائے