Sunday 24 November 2013

ڈینگو dengue بخار


1775کے عشرے میں جب ایشیاء،افریقہ اور شمالی امریکہ میں ایک ایسی بیماری پھیلی کہ جس میں مریض کو یکدم تیز بخار ہو جاتا اور ساتھ ہی س میں درد اور جوڑوں میں درد شروع ہو جاتاجبکہ بعض مریضوں کے پیٹ میں درد ،خونی الٹیاں اورخونی پیچس کی بھی شکایت ہو گئی۔یہ مریض سات سے دس دن تک اسی بیماری میں مبتلا رہے اور آخر کار مر گئے۔لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ان علاقوں سے لوگوں نے ہجرت کرنا شروع کر دی ۔جب اس وقت کے طبیبوں اور ڈاکٹروں نے اس بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے جس سے کے کاٹنے سے یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے۔1979میں اس بیماری کی شناخت ہوئی اور اسے ڈینگو بخار(Dengue fever) کا نام دیا گیا۔ڈینگو “dengue”سپینی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی cramp یا seizure کے ہیں جبکہ اسے گندی روح کی بیماری بھی کہا جاتا تھا ۔1950میں یہ بیماری جنوب مشرقی ایشیاءکے ممالک میں ایک وبا کی صورت میں نمودار ہوئی جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ خصوصاً بچے ہلاک ہو گئے ۔1990کے آخر تک اس بیماری سے ایک اندازے کے مطابق 40لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔1975سے1980تک یہ بیماری عام ہو گئی۔2002میں برازیل کے جنوب مشرق میںواقع ریاست Rio DE Janeiro میں یہ بیماری وبا کی صورت اختیار کر گئی اور اس سے دس لاکھ سے زائد افراد جن میں 16سال سے کم عمر کے بچے زیادہ تھے ہلاک ہو گئے۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ یہ بیماری تقریباً ہر پانچ سے چھ سال میں پھیلتی رہتی ہے۔سنگا پور میں ہر سال چار ہزار سے پانچ ہزار افراد اس وائرس کا شکار ہو تے ہیںجبکہ 2003میں سنگاپور میں اس بیماری سے چھ افراد کی ہلاکت بھی ہوئی۔ اور جو افراد ایک مرتبہ اس بیماری میں مبتلا ہو جائیں وہ اگلی مرتبہ بھی اس بیماری کا جلد شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی ملیریا نامی بیماری کی اگلی صورت کہی جا سکتی ہے اس بیماری کے مچھر کی ٹانگین عام مچھروں سے لمبی ہوتی ہیں اور یہ مچھر قدرے رنگین سا ہوتا ہے۔یہ بھی دیگر مچھروں کی طرح گندی جگہوں اور کھڑے پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ابھی تک اس بیماری کی کوئی پیٹنٹ دوا یا ویکسین ایجاد نہیں ہوئی تاہم2003سے( Pediatric Dengue Vaccine Initiative (PDVI) پروگرام کے تحت اس کی ویکسین تیار کی جانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔تھائی لینڈ کے سائنسدانوں نے ڈینگو وائرس کی ایک ویکسین تیار کی ہے جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اگرچہ اس ویکسین کے تین ہزار سے پانچ ہزار افراد اور مختلف جانوروں پر تجربے کیے جا چکے ہے جس کے ابھی تک قدرے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔2002میںسوئس فارما کمپنی اورSingapore Economic Development board نے مشترکہ طور پر اس وائرس کے خاتمے کی دوا تیار کرنے پر کام شروع کیا ہوا ہے ۔ اس وبا سے نجات کا واحد حل یہی ہے کہ صفائی کا خیال رکھا جائے اور گندے پانی کے جوہڑوں ، گلی کوچوں میں جراثیم کش ادویات کا مسلسل سپرے کیا جائے تاکہ ڈینگو مچھر کی افزائش گاہیں ختم ہو جائے۔جبکہ انفرادی طور پر رات کو مچھر دانی کا استعمال کیا جائے اور گھروں میںمچھر کش ادویات سپرے کی جائے۔
حال ہی میں یہ بیماری ایک مرتبہ پھر وبا کی صورت میں دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے۔میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اگست سے اکتوبر2006میں Dominican Republic میں ڈینگو بخار پھیلا جس سے44سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ستمبر سے اکتوبر2006میں کیوبا میں اس بیماری سے اموات ہوئیں۔جبکہ ساوتھ ایسٹ ایشیاءمیں بھی یہ وائرس پھیل رہا ہے۔فلپائن میں جنوری سے اگست2006کے دوران اس مرض کے13468مریض پائے گئے جن میں 167افراد ہلاک ہو گئے۔مئی2005میں تھائی لینڈ میں اس وائرس سے 7200افراد بیمار ہو گئے جن میں 21سے زائد ہلاک ہو گئے۔2004میں انڈونیشیا میں 80000افراد ڈینگو کا شکار ہو ئے جن میں800سے زائد ہلاک ہو گئے۔جنوری2005میں ملائیشیا میں33203افراد اس بیماری کا شکار ہوئے۔سنگا پور میں 2003میں4788افراد اس مرض کا شکار ہوئے جبکہ2004میں9400افراد اور2005اس مرض سے 13افراد کی ہلاکت ریکارڈ کی گئیں۔15مارچ2006کو آسٹریلیا میں اس مرض کے پھیلنے کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی۔ستمبر2006میں چین میں اس مرض میں70افراد مبتلا ہوئے۔ستمبر2005میں کمبوڈیا میںڈینگو سے38افراد ہلاک ہوئے۔ 2005میںکوسٹا ریکا میں19000افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے جن میں سے ایک فرد کی موت ریکارڈ ہوئی۔2005میں بھارت کے صوبے بنگال میں900افراد بیمار ہوئے جبکہ15افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔2005میں انڈونیشیا میں80837افراد اس بخار میں مبتلا ہوئے جبکہ1099افراد کے مرنے کی تصدیق ہوئی۔2005میں ملائشیا میں32950افراد اس بیماری کا شکار ہوئے اور83افرادہلاک ہو گئے۔2005میں Martinique میں6000افراد ڈینگو کا شکار ہوئے جبکہ2ستمبر کو اس مرض سے دو افراد ہلاک ہو گئے۔2005میں ہی فلپائن میں 21537افراد اس بیماری کا شکار ہوئے جن میں سے280افراد ہلاک ہو گئے۔2005میں سنگاپور میں12700افراد اس بیماری کا شکار ہوئے جبکہ19افراد کی اس مرض کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔2005میں سری لنکا میں 3000سے زائد افراد اس موذی مرض کا شکار ہوئے ۔2005میں تھائی لینڈ میں 31000افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے جبکہ58کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی جبکہ2005میں ویتنام میں اس مرض کا شکار 20000سے زائد افراد پائے گئے جن میں28افراد ہلاک ہو گئے۔
8اکتوبر2006تک بھارت کے شہر دہلی میںاس مرض کے886مریض پائے گئے جبکہ کیرالہ میں713،گجرات میں424،راجستھان میں326،مغربی بنگال میں 314،تامل ناڈو میں 306،مہارشٹر میں226،اترپردیش میں79،ہریانہ میں 65کرناٹک میں59اور اندھیراپردیش میں 70افراد اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔جبکہ بھارت کی حکومت نے ڈینگو کو وباءقرار دینے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ مچھروں سے پھیلنے والی اس بیماری پر پوری طرح سے قابو پانے کے لیئے تمام ترضروری اقدامات کر رہی ہے۔ صحت کے مرکزی وزیر امبو منی رام دوس کا کہنا ہے کہ اب تک ڈینگو وائرس سے ہندوستان بھر میں 38 اموات واقع ہوئی ہیں۔انہوں نے بتایا ہے کہ ملک میں دو ہزار نوسو افراد ڈینگو وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 673 افراد کا تعلق دلی سے ہے۔ ان کے مطابق ڈینگو سے ہونے والی 38 میں سے پندرہ اموات دارالحکومت دلی میں ہوئیں جبکہ گجرات میں تین ، راجستھان میں سات، مغربی بنگال میں تین اور کیرلا میں چار اموات ہوئی ہیںاور ملک میں دو ہزار نوسو افراد ڈینگو وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 673 افراد کا تعلق دلی سے ہے جبکہ بھارت کی حکومت کے بقول گزشتہ برس پورے ملک میں ڈینگو وائرس کے گیارہ ہزار نو سو کیس سامنے آئے تھے اور اس بیماری نے 157 افراد کی جانیں لیں تھیں۔بھارت میں ڈینگو بخار کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ہسپتالوں میں روز نئے مریض داخل ہو رہے ہیں۔ اب تک اس وائرل بخار سے کم از کم پچیس افراد کے ہلاک ہو نے کی خبر ہے۔اس دوران متاثرہ ریاستوں میں اس بیماری پر قابو پانے کے لیئے ہنگامی انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ تجزیے اور جانچ کے لیئے متعدد طبی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔بھارت کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈینگو بخار ایک خاص طرح کے ایڈیز نامی مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے اور اس کی علامتوں میں تیز بخار، متلی ، جسم میں اینٹھن اور پیٹھ میں درد جیسی شکایات شامل ہیں۔بخار کی تیزی کی وجہ سے بعض معاملات میں دماغ کی رگ پھٹنے یعنی برین ہیمرج کا بھی خطرہ رہتا ہے۔
۔اقوام متحدہ کے صحت کے ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ دنیا کے ایک سو کے قریب ممالک میں ڈینگو وائرس پھیلانے والے اڑتیس اقسام کے مچھر ہیں جس میں سے پاکستان میں ان میں سے صرف ایک قسم کا مچھر پایا جاتا ہے۔ دنیا کی چالیس فیصد آبادی اس بیماری میں مبتلا ہے اور ہر سال پانچ کروڑ کیسزسامنے آتے ہیں جس میں سے پوری دنیا میں سالانہ پندرہ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جنوبی ایشیا میں پہلی بار1949میں اس بیماری کے بارے میں علم ہوا اور اس خطے میں پوری شدت کے ساتھ پہلی بار1989 سری لنکا میں یہ ایک وبا کی صورت میں پھیلی۔جبکہ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پہلی بار ڈینگو وائرس کراچی میں 1995 میں ریکارڈ ہوئی اور145 مریض متاثر ہوئے اور ہلاکت صرف ایک کی ہوئی۔پاکستان میں ڈینگو وائرس کی تاریخ کے مطابق اکتوبر 1995 میں جنوبی بلوچستان اور 2003 میں صوبہ سرحد کے ضلع ہری پور اور پنجاب کے ضلع چکوال میں میں پھیلی۔ ان دونوں اضلاع میں ترتیب وار 300 اور700 کیسز ریکارڈ ہوئے۔