Sunday, 24 November 2013

شوگر کی بیماری کے بارے میں معلومات ہی بہترین علاج ہے


انگریزی زبان میں ڈیا بٹیز ملیٹس ، فارسی میں مرضِ قند، اُردو میں ذیابیطس اور کشمیری میں شوگر بیما ۔ ذیابیطس ایک دیرینہ (مزمن ) مٹابولک مرض ہے جس میں جسم اپنی توانائی کے لئے گلوکوز استعمال کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔

ذیابیطس کی دو اقسام ہیں :

ٹائپ ون: اس قسم کی بیماری میں جسم کے اندر لبلبے کے خلیوں سے انسولین کی پیداوار یا تو ہوتی ہی نہیں یا اس کی مقدار بہت قلیل ہوتی ہے۔ ایسے مریضوں کو انسولین کے انجکشن دیئے جاتے ہیں تاکہ ان کی بیماری پر قابو پایا جا سکے۔

ٹائپ ٹو:اس قسم کی ذیابیطس میں جسم میں انسولین پیدا تو ہوتا ہے مگر جسم اسے استعمال کرنے میں ناکام ہوتا ہے ۔ اس قسم کی بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد اکثر موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں۔ اس نوع کی بیماری کو پرہیز ، ورزش اور ادویات (ضد ذیابیطس) سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔ بعض مریضوں میں کسی قسم کی انفکشن یا سرجری کے بعد انسولین کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے تاکہ ان کے خون میں شکر کی سطح قابو میں رہ سکے ۔

يہ وہ مرض ہے جو جنوبی ایشیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے یا بقول ایک دوست کے ، ڈاکٹر یہ بیماری ہمارے سماج میں اسی رفتار سے پھیل رہی ہے جس طرح یہاں کوئی افواہ پھیلتی ہے ۔ انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف ) کے مطابق آج دنیا بھر میں 95 ملین افراد کو ذیابیطس کا خطرہ لاحق ہے جبکہ موجودہ رجحانات کو مدنظر رکھ کر اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2025ء تک ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 330 ملین تک پہنچ جائے گی ۔

ذیابیطس کے مریض کا ایک سانحہ یہ بھی ہے کہ ان کی پچاس فیصد تعداد اپنے مرض میں مبتلا ہونے سے باخبر ہے ۔

بعض ترقی پذیرممالک میں تو ذیابیطس کے شکار اسّی فیصد مریض اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ انہیں ذیابیطس کے مرض نے آ گھیرا ہے ، شاید اسی وجہ سے کئی ترقی پذیر ممالک میں ذیابیطس سے متاثرہ افراد کی اموات کا چوتھا بڑا سبب بن چکا ہے ۔
عالمی تنظیم صحت (WHO)کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا میں 3.5ملین لوگ ذیابیطس کے سبب موت کے منہ میں جا رہے ہیں ۔ اگر اس تعداد کو سال بھر کے وقت پر تقسیم کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ہر منٹ میں چھ لوگ صرف ذیابیطس کے سبب موت کے شکار بن رہے ہیں ۔

محققین کا خیال ہے کہ آئندہ بیس برسوں میں اس بیماری کی شرح میں 59 فیصد اضافہ ہو گا ۔ اس کی وجہ صرف آبادی میں اضافہ نہیں بلکہ لوگوں کے طرزِ زندگی میں انقلابی تبدیلی ، دیہات کو خیرباد کہہ کر شہروں میں سکونت اختیار کرنا ، آرام پسند طرزِ زندگی اپنانا بھی شامل ہے ۔ کشمیریوں میں نامساعد حالات کی وجہ سے عام لوگوں کا نفسیاتی اور ذہنی دباﺅ میں مبتلا ہونا ، کھانے پینے کی عادات میں نمایاں تبدیلیوں کا وقوع پذیر ہونا اور سیدھی سادھی زندگی سے منہ موڑ کر ’الٹرا ماڈرن‘، ”مصنوعی زندگی“ کو گلے لگانا بھی اس بیماری کے اسباب میں شامل ہے ۔ لوگ ”اچانک “ یا پھر ” دھیرے دھیرے “ بہرحال بدل رہے ہیں ۔ اب یہاں اکثر لوگ ”قدرت “ کو فراموش کرچکے ہیں ۔ قدرتی غذائیں کھانے کے بجائے فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ کی طرف مائل ہوچکے ہیں ۔
صاف ستھرے پانی کی بجائے کوک کی بوتلوں سے پیاس بجھاتے ہیں-

اب لوگ اپنے تغذیہ کی طرف کم اور ”دکھاوے“ کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ مادیت پرستی کی پیدا شدہ مصروفیت کے سبب اب لوگوں کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ مناسب وقت پر مناسب غذا حلق سے اُتاریں۔ عام لوگ (خاص کر بچے) تازہ میوہ جات اور سبزیوں کی بجائے بازاری غذاﺅں کو ترجیح دیتے ہیں ۔
سکولی بچوں کے پاس باقاعدہ ورزش کے لئے وقت ہی نہیں ۔ وہ زمانہ گیا جب بچے اپنے محلے میں گلی ڈنڈا، آنکھ مچولی اور دیگر کھیلوں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے ۔

اب نئی نسل صرف ” ہوم ورک ، ٹی وی یا کمپیوٹر کی دنیا“میں گم ہوتی ہے جس سے ان کے جسم کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور وہ”موٹاپے“ (Obesity) کے شکار ہوجاتے ہیں اور یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ موٹاپے کے سبب نہ صرف ترقی یافتہ بلکہ ترقی پذیر ملکوں میں بھی ذیابیطس کے مریض کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ۔ بڑوں کے علاوہ بچوں میں بھی وزن میں اضافہ کی بیماری عام طور پر پھیل رہی ہے ۔ ڈاکٹروں کو تشویش ہے کہ موٹاپے اور وزن میں اضافہ کے سبب یہاں لوگوں کو نہ صرف ذیابیطس کا عارضہ لاحق ہو سکتا ہے بلکہ اوسط عمر بھی کم ہوسکتی ہے ۔ جب کسی انسان کے جسمانی وزن میں ایک کلو وزن کا ضرورت سے زیادہ اضافہ ہوتاہے تو اس کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے امکانات پانچ فیصد بڑھ جاتے ہیں ۔ وزن میں بے قاعدگی کے مسئلہ سے دوچار 70فیصد نوجوان مستقبل میں موٹاپے کی خطرناک بیماری کا شکار بن سکتے ہیں ۔ آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے بعض مریضوں کو ”جسمانی وزن پر قابو“ کے ذریعے سے روکا جا سکتا ہے ۔
جسمانی ورزش کے ذریعہ ذیابیطس کے مرض کو ساٹھ فیصد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے یعنی نوجوان نسل کو اپنا آرام پسند طرزِ زندگی بدل کر ایک فعال زندگی گزارنی ہوگی تاکہ وہ موٹاپا جیسی مہلک بیماری میں مبتلا نہ ہوں ۔

اکثر لوگوں کا باطل عقیدہ یہ ہے کہ یہ بیماری صرف کھانڈ یا کھانڈ سے بنی اشیاءخوردنی کا زیادہ استعمال کرنے والوں کو ہوتی ہے اور اس بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد اکثر مریض ڈر ، خوف اور وہم میں مبتلا ہوکر اپنے آپ کو اُن غذائی اجزا سے یکسر محروم کرتے ہیں جو اُن کی صحت مندی کے لئے لازم ہوتے ہیں ۔ وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ بیماری انہیں دل ، دماغ اور گردوں اور پیروں کی پیچیدگیوں میں مبتلا کرسکتی ہے