Sunday, 24 November 2013
طویل العمری کا انوکھا راز
جان ڈی راک فیلر منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔ اس کا بچپن اپنے خاندان کے ہمراہ ایک زرعی فارم پر گزرا لیکن جوان ہوتے ہی اس نے نہ صرف کاروبار کو پیشے کے طور پر اپنایا بلکہ یوں کہیے کہ وہ دولت کے حصول کیلئے دیوانہ وار دوڑنے لگا۔ اس دوڑ میں اس کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد تھا روپے کا حصول… کسی قیمت پر منافع اور کم سے کم خرچ… اس فرد کی طرح جسے آپ کنجوسی کیبجائے حریص کہتے ہیں ۔ وہ منافع حاصل ہونے پر دیوانہ ہوجاتا۔ اپنی ٹوپی زمین پر پھینک کررقص کرنے لگتا۔ لیکن جہاں تھوڑا نقصان ہوتا پریشانیوں اور تفکرات کے بادل اس کے ذہن کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے۔ اسے دل ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا اور ایک تاریک گوشے میں جاکر پڑا رہتا۔ 53 سال کی عمر تک کاروباری زندگی میں ہزاروں واقعات پیش آئے صرف نمونہ کے طور پر ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔
ایک دفعہ راک فیلر نے اپنے کاروباری ساتھی کے اشتراک سے چالیس ہزار ڈالر کا غلہ دخانی جہاز کے ذریعے گریٹ لیکس کے راستے بھیجا۔ اپنی کنجوس طبیعت کے تحت اس نے غلے کا بیمہ اس لیے نہ کرایا کہ ڈیڑھ سو ڈالرکی رقم ادا کرنا پڑتی تھی۔ غلہ بردار جہاز جب گریٹ لیکس میں پہنچا تو طوفان کی خبریں آنے لگیں راک فیلر گھبرایا بیمہ اب بھی کرایا جاسکتا تھا لیکن پریمیم کی رقم میں کچھ اضافہ ہوگیا تھا اس نے بیمہ کرادیا جب اس کا ساتھی بیمہ کراکے واپس آیا تو ایک تار موصول ہوا لکھا تھا ''جہاز طوفان سے نکل گیا'' گویا ڈیڑھ سو ڈالر کی رقم بے کار خرچ ہوگئی تھی۔ راک فیلر کو اتنا بڑا صدمہ ہوا کہ وہ اپنے آپ میں کڑھتا ہوا دفترسے نکل کر گھر جالیٹا۔
ان ڈور یا آؤٹ ڈور کھیلوں سے راک فیلر کو کوئی رغبت نہ تھی بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ ان پر ایک لمحہ خرچ کرنے کو تیار نہ تھا۔ اس کی رائے تھی ان پر وقت خرچ کرنے کے بجائے وہی لمحے کیوں نہ پیسہ کمانے میں خرچ کیے جائیں ۔ جان گارڈنر اس کا حصہ دار تھا اس نے دو ہزار ڈالر میں ایک پرانی بادبانی کشتی خریدی اور راک فیلر کو دعوت دی کہ وہ اس کے ساتھ سیر کو چلے۔ راک فیلر کا جواب تھا گارڈنر! میں نے تم سافضول خرچ نہیں دیکھا۔ تم اپنا کاروبار تباہ کررہے ہو' میں تمہاری کشتی پر نہ جاؤں گا۔آخر یہ اعصابی پریشانیاں اور ذہنی کشمکش رنگ لائی۔ راک فیلر 53سال کی عمر میں بوڑھا ہوگیا اس کے شانے جھک گئے اور وہ ایلومینیا کے مرض میں مبتلا ہوکر اپنے سر کے بالوں ' بھنوئوں اور پلکوں سے محروم ہوگیا۔ ڈاکٹروں کی رائے میں یہ سب اعصابی کشمکش کا کیا دھرا تھا۔ مزید انہوں نے رائے دی کہ راک فیلر کو دو باتوں میں ایک کا انتخاب کرنا ہوگا' دولت یا زندگی…
راک فیلر نے زندگی کا انتخاب کرلیا۔ اس نے اپنی بے پناہ دولت کا ایک حصہ عوام پر خرچ کرنے کا پروگرام بنایا اور اسی جذبہ کی تکمیل کی خاطر ادارہ راک فیلر کی بنیاد رکھی۔ اسی ادارے کی معرفت اس نے دنیا بھر کے اداروں اور بیماروں کی مدد کی۔ اس نے مالی طور پر دم توڑتے ہوئے ایک کالج کو لاکھوں ڈالر کی امداد دی۔ کالج نہ صرف معیاری گردانا گیا بلکہ ترقی پاکر یونیورسٹی بن گیا۔ شکاگو یونیورسٹی ہی وہ ادارہ ہے جو راک فیلر کی مالی امداد کے تحت اس مقام تک پہنچی۔ انسانی بیماریوں کے علاج کے ضمن میں راک فیلر کی امداد نے لاکھوں انسانوں کو موت کے منہ سے بچالیا۔
1932ء میں چین میں ہیضے کی وباء پھوٹ پڑی۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں لقمہ اجل ہوئے تھے آخر راک فیلر میڈیکل کالج کی ارسال کردہ ویکسین سے لاکھوں ملکی اور غیرملکی متعدی مرض سے محفوظ کردئیے گئے مزید جن بیماریوں کی روک تھام کی طرف توجہ دی گئی اور عوام کو ان سے محفوظ کرنے کے اقدامات کیے گئے ان میں تپ دق' ملیریا' انفلوئنز خناق اور گردن توڑ بخار شامل ہے۔ان خیراتوں نے راک فیلر کی زندگی میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ اسے روپے سے محبت نہ رہی بلکہ روپیہ اس کے سامنے ہیچ ہوکر رہ گیا۔ اس امر کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ حکومت نے اس کی فرم سٹینڈرڈ آئل کمپنی کولاکھوں ڈالر جرمانہ کیا۔ اس کے وکیل نے جب اس عظیم جرمانہ کی خبر راک فیلر کو سنائی تو اس نے وکیل سے کہا فکر نہ کیجئے' میں رات کو آرام سے سوؤں گا۔ آپ بھی پریشان نہ ہوں ۔ پریشانیوں اور تفکرات سے آزاد شخص نے اٹھانوے سال کی عمر پائی۔
دنیا کی اس عظیم شخصیت کی کہانی پڑھ کر آپ کا کیا خیال ہے کہ اسے یہی کرنا چاہیے تھا یعنی خیرات یا وہ دولت کو سنبھالتا رہتا۔ آپ نے دیکھا جب تک وہ دولت کو سنبھال سنبھال کر رکھتا رہا۔ اس کی زندگی خوشیوں سے دور تھی چونکہ وہ صرف اپنے بارے میں سوچتا تھا۔ لہٰذا اعصابی بیماری نے اسے جکڑلیا۔ جب خیرات کے ذریعے اس نے لوگوں کے دکھ کم کردئیے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس پر خاص نظرکرم فرمائی اور اس کو سکون اور اطمینان کی کیفیت نصیب کی۔ یہ اطمینان اور سکون دولت کی ہوس میں نہیں تھا۔ لوگوں کی تکلیف دور کرکے اسے احساس ہوتا کہ اسے کوئی مقصد حاصل ہوگیا ہے جبکہ وہ اس دولت سے پہلے بہت دور تھا۔
ایک انگریز نے خیرات اور لوگوں کی زندگی سنوارنے سے اپنا مقصد حاصل کرلیا اور اٹھانوے سال کی مطمئن زندگی پائی اور ہم مسلمان اپنے آس پاس بھوکے پیاسے لوگوں کودیکھتے ہیں مگر ان کی مدد نہیں کرتے۔ آنکھیں ' دل اور کان بند کرلیے ہیں اور اپنی ذات کی خوشیوں کے حصار سے باہر نہیں نکلتے اور یہی بات ہمیں ذاتی الجھنوں کا باعث بناتی ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا اور دکھ بانٹنا بنالیں تو راک فیلر کی طرح لمبی اور مطمئن زندگی تو پاہی لیں گے مگر اس کے ساتھ اپنی آخرت بھی سنوار لیں گے۔ دوسروں کے کام آنے سے جب ہمیں ان کے مسائل کا پتا چلتا ہے تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے مسائل کتنے چھوٹے ہیں جب ان کے مسائل حل کرنے میں مدد کرتے ہیں تو آپ جان پاتے ہیں کہ ہمیں اپنے مسائل سے کس طرح نپٹنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے آس پاس لوگ بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کررہے ہیں ' شایدہم نے صدقہ کی فضیلت کو نہیں جانا' حدیث مبارک ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اسماء (رضی اللہ عنہا) صدقہ دینے میں کشادہ ہاتھ استعمال کرو اور گنو مت۔ اگر تم گن کردوگی تو پھر اللہ پاک بھی گن کردیں گے اگر تم گنے بغیر دو گی تو اللہ تعالیٰ بھی بے تحاشہ دیں گے۔ میری اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اس حدیث پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین۔