Sunday, 24 November 2013
ذیابطیس کی روک تھام اور ہندوستانی طریقہ ہائے علاج تحریر وینس رتنانی
خوراک انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ ایک طرف جہاں دنیا تغذیہ کی کمی کا شکار ہے ، وہیں دوسری جانب ترقی پذیر ممالک میں خوراک سے متعلق ایسی بیماریاں بھی بڑھ رہی ہیں جو پہلے امیروں کی بیماریاں سمجھی جاتی تھیں ۔ خوراک سے متعلق اہم ترین بیماریوں میں امراض قلب ، ذہنی تناؤ ، موٹاپا ، ذیا بطیس وغیرہ شامل ہیں ۔
یہ امر باعث تشویش ہے کہ نہ صرف دولت مندبلکہ غریب لوگ بھی رہن سہن کے طریقوں اور کھانے پینے کی غلط عادتوں کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ بیمار ہو رہے ہیں ۔ کمسن لوگوں میں بھی ذیا بطیس کا مرض پھیل رہا ہے۔
لفظ ذیابطیس ایک یونانی لفظ سے مستعار لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے '' گزر جانا '' ۔ اس مرض میں پیشاب کے راستے گلوکوز خارج ہوا کرتا ہے۔ ذیابطیس کا مرض راتوں رات نہیں ہوا کرتا ہے لیکن خوراک اور ورزش جیسی چیزیں در اصل اس کا مستقبل طے کیا کرتی ہیں ۔ کچھ لوگوں کو یہ مرض وراثت میں ملا کرتا ہے۔ موٹاپا اس بیماری کو مزید بڑھاتا ہے ۔
ایک مقولہ ہے کہ کام نہیں بلکہ پریشانی مارتی ہے۔ صدمہ ، دکھ اور پریشانی کا اثر نظام ہاضمہ پر پڑتا ہے اور اس سے ذیابطیس کی علامتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ خوراک اور ذیابطیس کا ہمیشہ گہرا تعلق رہا ہے ۔ چونکہ ہم جو کچھ کھاتے ہیں اس کا بلڈ شوگر اور انسولین پر زبردست اثر پڑتا ہے لہٰذا ذیابطیس میں خوراک کا اہم رول ہوا کرتا ہے۔
دنیا بھر میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد تقریباً 15کروڑ ہے ۔ ہندوستان اور چین میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد بڑھنے کا اندیشہ ہے جس سے 2025 تک یہ تعداد دوگنا ہوسکتی ہے ۔ دوسرے ٹائپ کے ذیابطیس میں دنیا بھر میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کے مریضوں کی تعداد خاص طور سے ان ممالک میں بڑھی ہے جہاں صنعتی ترقی تیزی کے ساتھ ہورہی ہے اور معیشت پھل پھول رہی ہے ۔ دوسری طرح کے ذیابطیس کی وجہ پشتینی بھی ہے اور ماحولیاتی بھی ۔ بہر حال تیزی سے بدلتے ہوئے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ آخر الذکر کا اس معاملہ میں اہم رول ہے اور وہ اس مرض پر قابو پانے میں بھی معاون ہوسکتا ہے ۔ یہ مرض خاص طور سے ایسے معاشرے میں پھیل رہا ہے جہاں کھانے پینے کے طریقوں میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اور لوگوں میں موٹاپا بڑھ رہا ہے۔ خوراک میں گھی ، مکھن اور دیگر چکنائیوں کا زیادہ استعمال ہوتا ہے اور پھلوں و سبزیوں وغیرہ کے استعمال سے گریز کیا جاتا ہے۔ بازاری کھانوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔
ذیابطیس کی روک تھام میں خوراک کا رول
اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے صحت مند طریقہ زندگی اور صحیح خوراک کی کافی اہمیت ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا میں بھی یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جانے لگی ہے کہ صحت کے تمام مسائل خاص طور سے طرز زندگی والے امراض جیسے ذیابطیس پر قابو پانے کے لئے جدید طریقہ علاج کافی نہیں ہے ۔ اس تناظر میں موجودہ عہد کے مسائل کے حل تلاش کرنے کے لئے روایتی طریقہ علاج کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
1550 قبل مسیح میں ایبرس یاپیرس نے ذیابطیس کے علاج کے لئے ریشہ دار گیہوں کے دانوں کے استعمال کا مشورہ دیا تھا ۔ ذیابطیس کے علاج کے لئے چار سو سے زائد پودے استعمال کئے جاتے رہے ہیں ۔ یوروپ ،ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اس کا پسندیدہ علاج کچی پیاز اور لہسن ہے ۔ ذیابطیس پر قابو پانے کے لئے یوروپ کے کچھ حصوں میں مشروم کا استعمال عام ہے ۔ عراق میں جو کی روٹی اس کے علاج کے لئے استعمال کی جاتی ہے ۔بہت سے ممالک میں بند گوبھی ، لوبیا ، دھنیا وغیرہ بطور علاج استعمال کئے جاتے ہیں ۔جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ان سب سے یا ان سے تیار کردہ مرکبات کے استعمال میں بلڈ شوگر میں کمی آسکتی ہے یا جانوروں اور انسانوں میں انسولین کی سطح بڑھ سکتی ہے ۔
ہندوستانی تمدن کا ماضی شاندار رہا ہے جس نے خوراک اور علاج کے لئے بنی نوع
انسان کو پیڑ پودوں کے استعمال کا سلیقہ سکھایا ۔ گزشتہ تین ہزار برسوں سے زائد عرصہ سے رائج آیوروید ، یونانی ، سدھ، یوگا اور نیچروپیتھی جیسے طریقہ علاج صدیوں کے استعمال سے وجود میں آئے اور وہ اجمالی علاج معالجہ کی فراہمی کے معاملہ میں آزمودہ ہیں ۔ ان طریقہ ہائے علاج کی بنیاد یہ ہے کہ ماحول کا علاج میں خاص رول ہوا کرتا ہے۔ دنیا بھر میں ان طریقہ ہائے علاج سے دلچسپی بڑھی ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا ہندوستانی طریقہ ہائے علاج کو استعمال کرنے کے لئے تیار ہے ۔ یوگا دنیا بھر میں مقبولیت کی سند حاصل کرچکا ہے۔لہٰذا ہندوستان کے تناظر میں ذیابطیس اور اس کے اثرات کو فوری طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس پر قابو پانے کے لئے عملی راستے دریافت کئے جا سکیں