جديد و قديم تحريروں سے ہميں پتہ چلتا ہے کہ قديم ايراني لوگ بھي طب سے واقف تھے- پرانے زمانے ميں ايراني لوگ جڑي بوٹيوں کي خصوصيات کو جانتے تھے اور سرجري بھي کيا کرتے تھے - طب کا ذکر زرتشتيوں کي مذہبي کتاب " اوستا" ميں پايا جاتا ہے- جس ميں ميں بتايا گيا ہے کہ انسان اور اس دنيا کے نظام کے بيچ ميں مشابہت موجود ہے اس چھان بيني کے بنا پر انسان کے مزاج کے عناصر اربعہ کا نظريہ ، دنيا کے عناصر اربعہ ( پاني، مٹي، آگ، بادل) سے ملتا جلتا ہے- بعد ميں يہ اصيل ايراني نظريہ بقراط کے آثار ميں جلوہ گر ہوا-
ان باتوں پر ہم کہہ سکتے ہيں کہ اب طب ميں جو ترقي ہوئي ہے وہ قديم ايرانيوں کي مرہون منت ہے -
ايران ميں طب کے کچھ اہم ادوار ہيں ، ان ميں سے سب سے اہم مندرجہ ذيل ہيں:
ہخامنشي دور
ساساني دور
اسلامي دور
1- ہخامنشي دور : يہ دور ايران کي طب ميں سب سے نماياں اور روشن دور تھا- 2500 سال قبل بھي طب کي اہميت موجود تھي اور زرتشت کي مذہبي کتابوں ميں بھي اسي کے بارے ميں لکھا گيا ہے-
2- ساساني دور: طب ہخامنشي دور سے ساساني دور ميں منتقل ہوا- ساساني دور ميں تومشرقي روم کي سلطنت کے بادشاہ وقت (امراء) اور دانشمندوں اور طبيبوں کے بيچ ميں کسي حد تک مذہبي اختلافات پيدا ہوئے- ان اختلافات کي بنا پر امراء و دانشمندوں اور مشہور طبيبوں نے مشرقي روم کي سرحدوں سے ايران ميں ہجرت کي اور اپني دانش دوسروں کو منتقل کر دي اور ان ہي کے ذريعے سے ايران ميں شفا خانہ اور جندي شاپور کے سکول بناۓ گئے -اسي طرح ايران ميں طب کي تاريخ کا نيا دور شروع ہوا -
نوشيروان کے دور ميں طب ميں ايک بہت بڑا انقلاب نمودار ہوا- اسي دور ميں طب کي پہلي کانفرنس منعقد ہوئي جس ميں طبيبوں نے ايک دوسرے سے فلسفہ اور طب کے بارے ميں مباحثے اور مناظرے کيے-
بروزيہ طبيب اس دور کے مشہور طبيب تھے جو نوشيرواں کے دربار سے منسلک تھے - )