بسم اللہ الرحمن الرحیم
بلڈ پریشر کے مضمون پر یہ معلوماتی کتابچہ پیش خدمت ہے۔ میں نے بلڈ پریشر کے مریضوں کے لئے اس میں تمام ضروری باتیں تحریر کی ہیں:
Blood pressurبلڈ پریشر کیا ہے؟
ڈاکٹری اصطلاح میں بلڈ پریشر سے مراد دل کے پمپ کرنے سے بڑی خونی رگوں پر پڑنے والا دباؤ ہے. مجموعاً آپ کا بلڈ پریشر جتنا کم ہوگا آپ طولانی مدت میں سالم رہیں گے (مگر بہت کم موارد میں کہ جب بہت لو بلڈ پریشر ان کی بیماری کا ایک حصہ ہو)۔
Blood circulating system
خونی گردش کا نظام
پھیپھڑوں میں موجود ہوا میں پایا جانے والا آکسیجن خون کے ذریعے سپلائی ہوتا ہے. آکسیجن پر مشتمل خون دل میں وارد ہوتا ہے اور دل بھی ایک پمپ کی طرح شریان نامی رگوں کے ذریعے سے بدن کے تمام حصو ں میں اس خون کو پہنچاتا ہے. بڑی خونی رگیں چھوٹی شاخوں میں تقسیم ہوتی ہیں. یہ چھوٹی شاخیں بھی اور چھوٹی شاخوں اور پھر اور چھوٹی شاخوں میں تقسیم ہوتی ہیں اور آخر میں عروق شعریہ (Capillary) نامی باریک رگوں کا ایک شبکہ (Plexus) تشکیل دیتی ہیں. عروق شعریہ کا یہ شبکہ بدن کے تمام خلیات (Cells) کے کنارے سے گزر کر خلیات کو آکسیجن پہنچاتا ہے تاکہ خلیات بھی اپنی ضرورت بھر انرجی (توانائی) حاصل کریں. جب خون اپنا آکسیجن خلیات کو دے دیتا ہے تو بغیر آکسیجن کا ہوکر ورید نامی رگوں کے ذریعے دل میں واپس لوٹ جاتا ہے. پھر دل اس بغیر آکسیجن کے خون کو پھیپھڑوں تک پہنچاتا
ہے تا کہ وہاں سے آکسیجن حاصل کرے. ہر دھڑکن میں عضلات قلب منقبض ہوتے ہیں تاکہ خون کو پورے بدن میں پہنچا سکیں. انقباض قلب کے وقت وجود میں آنے والافشار زیادہ سے زیادہ فشار رکھتا ہے کہ جسکو انقباضی فشار Systolic pressur(یا Maximum) کہتے ہیں پھر عضلات قلب ڈھیلے ہوکر پھیل جاتے ہیں اور فشار کم سے کم ہوجاتا ہے کہ جس کو انبساطی فشار Diastolic pressur(یا Minimum) کہا جاتا ہے۔
بلڈ پریشر دیکھنا
اکثر لوگوں کا بلڈ پریشر کم سے کم ایک بار ڈاکٹر یا نرس کے ذریعے دیکھا گیا ہے. ممکن ہیکہ آپ نے اپنا بلڈ پریشر اپنے آلہ سے دیکھا ہو۔
اگرچہ بلڈ پریشر دیکھنے کا بہترین آئیڈیل ترین طریقہ بڑی شریانوں میں موجود پریشر کی جانچ کرنا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کام کے لئے تخصص (Specialization) اور مختلف سوئیوں کے استعمال ضرورت ہے. پھر بھی بڑی رگوں میں پائے جانے والے پریشر کا ایک دقیق انعکاس ایک سادہ طریقے سے حاصل کیا جاسکتا ہے. یہ سادہ طریقہ ڈاکٹروں کے کلینک میں استعمال ہونے والے نبضی فشار پیما(Sphygmomanometer) کے استعمال کے علاوہ اور کچھ نہیں. اور آج کے زمانے میں بہت سے لوگ اپنے گھروں میں اس سے استفادہ کرتے ہیں. اس اوزار کے استعمال کے لئے پہلے کاف یا بازو بند کو بازو کے گرد لپیٹ کر لگایا جاتا ہے. پھر مخصوص پمپ کے ذریعے اس بازوبند میںہوا بھر دی جاتی ہے تاکہ خون کی روانی وقتی طور پر بند ہوجائے. پھر ڈاکٹر اپنے آلہ سماع الصدر کو بازوبند کے نیچے شریان پر رکھتا ہے. پھر آہستہ سے ہوا کی پینچ کو کھولتا ہے تاکہ بازوبند کی ہوا دھیرے دھیرے نکل جائے. اسی دوران ڈاکٹر آلہ سماع الصدر سے دوبارہ خون کے رواں ہونے کی آواز (نبض کے کھٹکوں کی صورت میں) سنتا ہے. سب سے پہلے سنائی دینے والی آواز انقباضی فشار (Systolic pressur) کے مطابق ہوتی ہے. چند کھٹکوں کے بعد آوازیں بند ہوتی ہیں تو یہ حالت آپ کے انبساطی فشار (Diastolic pressur)سے مطابقت کرتی ہے۔
جو آوازیں آلہ سماع الصدر میں سنی جاتی ہیں وہ کہونی کے جوڑ کے آگے شریان (Brachial puls) میں موجود خون کی روانی کی وجہ سے وجود میں آتی ہے. ان آوازوں کو کوروٹکوف کی صدائیں کہتے ہیں جو کہ روس کے فوجی ڈاکٹر نیکولائی کوروٹکوف (Nicholai Korotkoff) کے افتخار میں کہ جس نے ١٩٠٥ئ میں تقریباً ایک صدی پہلے اس آواز کے سننے کا طریقہ ایجاد کیا ، اس کے نام سے موسوم ہے۔
نبضی فشار پیما (Sphygmomanometer)میںموجود پارہ والے درجہ سے ہم سسٹولک یا ڈسٹولک پریشر کی جانچ اور یاد داشت کر سکتے ہیں. بازوبند میں استعمال ہونے والے پریشر کو پارہ والے ملی لیٹر (mmHg) سے ناپتے ہیں، یعنی پارہ شیشہ کے ٹیوب میں ہوا کے دباؤ سے اوپر چڑھتا ہے۔
بلڈ پریشر دیکھنے کا یہ طریقہ چونکہ کہ ایک غیر مستقیم طریقہ ہے اس لئے دقیق طور پر بلڈ پریشر کی مقدار کی نشاندہی نہیں کر سکتا ہے. یہاں تک کہ کبھی کبھی حاصل شدہ عدد واقعی عدد سے بہت متفاوت ہوتا ہے. خاصکر ان افراد میں جو بڑے بازو والے ہوتے ہیں . اگر آپ کے بازوؤں کی گولائی کا محیط ٥ سینٹی میٹر سے زیادہ ہو تو آلہ کا بازوبند ہوا بھرنے پر خون کی روانی کو کافی اور مناسب طور پر بند نہیں کر سکے گا. نتیجةً حاصل ہونے والا یہ عدد واقعی بلڈ پریشر کے میزان سے زیادہ ہوگا. پھر بھی کئی سالوں میں یہ مشخص ہو چکا ہے کہ بلڈ پریشر دیکھنے کا یہ غیر مستقیم طریقہ قلبی یا دماغی (مغزی) سکتہ میں میں افراد کے مبتلا ہونے کے احتمال کی پیش بینی کا ایک دقیق وسیلہ ہے۔
حال ہی میں بلڈ پریشر دیکھنے کے لئے چھوٹے اور الکٹرانک آلات بنائے گئے ہیں کہ جن میں پارہ کا استعمال نہیں ہے. اگرچہ بہت سے یہ نئے آلات پارہ کے ذریعے کام کرنے والے آلات کی طرح دقت ِ کافی نہیں رکھتے اور ان میں کچھ برطانیہ کی بلڈ پریشر ٹیم کی جانب سے تائید شدہ ہیں.ان آلات میں پارہ والا اسکیل نہ ہونے کے باوجود حاصل شدہ عدد کو یہ پارہ والے ملی میٹر میں ظاہر کرتے ہیں۔
ان آلات کا کام تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے لیکن ان کے طرز کار میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے. معمولاً ڈاکٹر بیٹھنے کو کہتا ہے اور بازوبند اوپری بازو اور سطح قلب میں باندھ دیا جاتا ہے. شخص کو آرام اور استرخاء کی حالت میں رہنا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
ہر ایک کا بلڈ پریشر بہت ہی تغیر پذیر ہوتا ہے اور اگر اضطراب کا احساس اور اسٹریس ہوتو بلڈ پریشر بڑھنے کا امکان ہوتا ہے اس لئے بلڈ پریشر دیکھتے وقت جہاں تک ممکن ہومریض پرُ آرام اور مطمئن رہے. احتمالا ً آپ کا ڈاکٹر جب پہلی بار آپ کا بلڈ پریشر دیکھتا ہے تو اس کو بنیادی بلڈ پریشر کے عنوان سے لکھ لیتا ہے. اگر یہ اعداد آپس میں بہت متفاوت ہوں تو ڈاکٹر آپ سے چاہے گا کہ آیندہ دنوں میں تیسری یا چوتھی بار بلڈ پریشر دکھانے کے لئے اس کی کلینک کی طرف رجوع کریں. یہ امر خاصکر اس وقت اہمیت رکھتا ہے جب حاصل شدہ عدد طبعی (نارمل) بلڈ پریشر کے میزان سے فقط تھوڑا زیادہ ہو. چند شواہد موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہیکہ چوتھی وزٹ (Vsit) اور اس کے بعد کا لکھا جانیوالا بلڈ پریشر پہلی وزٹ میں لئے گئے بلڈ پریشر سے کم ہوتا ہے (لیکن اس مورد میں کچھ استثناء ات بھی موجود ہیں) بعض استثنائی موارد کے علاوہ دونوں ہاتھ میں بلڈ پریشر ایک جیسا ہوتا ہے اس لئے بلڈ پریشر یکھتے وقت جس ہاتھ سے بھی آسانی ہوبلڈ پریشر کی جانچ کریں. دونوں ہاتھ کا بلڈ پریشر دیکھنا اچھا ہے تاکہ اطمینان ہوجائے کہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اگر آپ کا بازو معمولی حد سے بڑا ہے (33cmسینٹی میٹر سے زیادہ) تو چاہیے کہ بڑے بازوبند کا استعمال کریں ورنہ امکان ہے کہ آپ کا بلڈ پریشر اشتباہاً زیادہ سمجھ لیا جائے. تقریباً ہائی بلڈ پریشر کے ١٥ فیصدی افراد کا بازو 33cm سینٹی میٹر سے زیادہ ہوتا ہے. اس لئے بازو کے مناسب بازو بند کا استعمال بڑی اہمیت کا حامل ہے تاکہ آپ کا بلڈ پریشر دقیقاً ثبت ہوسکے۔
اگر چہ بلڈ پریشر دیکھنے کے لئے معمولاً یہ کسی سے نہیں کہا جاتا کہ کھڑے ہوکر اس امر کو انجام دے لیکن کچھ ایسے مواقع بھی ہیں کہ جب کھڑے ہو بلڈ پریشر کی جانچ کرنا چاہیے. مثال کے لئے ذیابیطس شکر ی میں مبتلا افراد، دراز عمر افراد اور وہ لوگ جو کھڑے ہونے پر سر چکرانے یا دوسری مشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں.ذیابیطس شکری میں مبتلا افراد کا بلڈ پریشر ان کے کھڑے ہوتے وقت وقتی طور پر گھٹ جاتا ہے. طبعی طور پر بیٹھے اور کھڑے رہنے کی صورت میں بلڈ پریشر میں کوئی بدلاؤ نہیں ہونا چاہیے لیکن بعض موارد میں جیسے ذیابیطسی افراد میں یہ حالت پیدا ہوجاتی ہے، کہ بلڈ پریشر گھٹ جانے کی اس حالت کو Positional hypotention کہتے ہیں۔
انقباضی بلڈ پریشر Systolic blood pressur
جیسا کہ بتایا جا چکا ہیکہ بلڈ پریشر دیکھتے وقت اوپر (Systolic) اور نیچے (Diastolic) کے دو عدد لکھ لئے جاتے ہیں. تحریری طور پر بلڈ پریشر، ڈسٹولک پریشر پر سسٹورلک پریشر کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے جیسے120/08۔
سسٹولک اور ڈسٹولک بلڈ پریشر کی نسبت کی اہمیت بہت سے دانشمندوں کی تحقیق کا موضوع بنا ہوا ہے. لوگوں کی سمجھ کے برخلاف در حقیقت ٤٠ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں ڈسٹولک پریشر کی بہ نسبت سسٹولک پریشر، دل کی بیماریوں کی پیش بینی کرنے میں زیادہ اہمیت کا حامل ہے. خاصکر دراز عمر لوگوں کا سسٹولک بلڈ پریشر قابل توجہ طور سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
حال میں ہونے والی دو تحقیقات میںانقباضی پریشر کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ جن افراد کا انبساطی پریشرنارمل ہے ان کا انقباضی پریشر نیچے لانا اہمیت کا حامل ہے ، اور وہ حالت جس میں انبساطی پریشر نارمل ہو اور انقباضی پریشر زیادہ ہو، اس کو اصطلاح میں ''مجزا انقباضی ہائی بلڈ پریشر''(ISH) کہتے ہیں. زیادہ تر یہ حالت ٦٥سال سے زیادہ عمر والوں میں دیکھنے کو ملتی ہے اور علاج نہ ہونے کی صورت میںیہ افراد قلبی بیماری یا سکتہ میں مبتلا ہونے کے خطرے کا پیش خیمہ ہوتے ہیں. ہائی بلڈ پریشر کے علاج سے ہمارا ہدف قلبی بیماری کے اسباب جیسے دخانیات کے استعمال، کلسٹرول کی بڑھی ہوئیسطح وغیرہ کو کم کرناہے اور نیز بلڈ پریشر کو ١٤٠٩٠ سے نیچے رکھنا ہے۔
ڈاکٹر اور مطب کے خوف سے بلڈ پریشر کا بڑھ جانا
بعض افراد ڈاکٹر کو دیکھتے ہیں تو ان کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے. چند سالوں سے کچھ ایسی مشینیں تیار کی گئی ہیں جو آٹومیٹک طور پرگھر کے اندر لوگوں کے بلڈ پریشر کو ٢٤گھنٹے ناپتی رہتی ہیں، دیکھنے میں آیا ہیکہ بہت سے افراد جب ڈاکٹر کے مطب سے گھر لوٹتے ہیں تو ایک گھنٹے کے بعد ان کا بلڈ پریشر نیچے آکر نارمل ہوجاتا ہے. اس کی اصل علت ابھی تک مشخص نہیں ہو سکی ہے. ایسے افراد کو علاج کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ آیندہ کے پانچ سالوں میںاکثر ایسے افراد دائمی ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہوجاتے ہیں . اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ایسے افراد ہر ٦ مہینے پر اپنے بلڈ پریشر کی جانچ کرائیں۔
گھر میں رہ کر بلڈ پریشر کی جانچ کرنا
اگر ضروری ہو کہ آپ کا بلڈ پریشر گھر میں دیکھا جائے تو آپ کو چند راہوں کا سامنا کرنا ہوگا:
١۔ آپ ایک مرکری والی بلڈ پریشر کی مشین اور ایک صدر بین خرید سکتے ہیں اور اس کے استعمال کا طریقہ سیکھ سکتے ہیں لیکن یہ کام نسبتاً مشکل ہے۔
٢۔ کوئی آشنا شخص یا خانوادہ کا فرد گھر میں آپ کا بلڈ پریشردیکھ سکتا ہے۔
٣۔ آپ ایک الکٹرانک بی پی مشین خرید سکتے ہیں، اگر چہ بہت سی ایسی مشینیں دقیق نہیں ہوتیں. ان مشینوں کا استعمال بہت آسان ہے. آپ صرف اس کا بازوبند اپنے بازو کے گرد باندھ لیں اور اس کا بٹن دبادیں. دور حاضر میں فقط OmronM4مارک والی ڈیجیٹل بی پی مشین کی دقت برطانیہ کی بلڈ پریشر ٹیم کی جانب سے تائید ہوئی ہے۔
٤۔ کچھ خاص موار د میں آپ کا معالج٢٤ گھنٹے والی آٹومیٹک بی پی مشین (ABPM) کے استعمال کا مشورہ دیتا ہے۔
یہ مشین معمولاً آٹومیٹک طور پہ ہر آدھے گھنٹے کے بعد بلڈ پریشر کی جانچ کرتی ہے. یہ مشین رات میں اور سوتے وقت بھی ہر آدھے گھنٹے کے بعدبلڈ پریشر کی جانچ کرتی ہے اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اکثر افراد کے خواب میں کوئی خلل نہیں ڈالتی. یہ مشین خاصکر ان افراد میں مفید ہے جن کا بلڈ پریشر ڈاکٹر کے مطب میں بڑھ جاتا ہے، تاکہ سمجھا جا سکے کہ آیا ان کا بلڈ پریشر گھر پہ بھی بڑھتا ہے یا نہیں ؟
ہائپر ٹنشن کیا ہے؟
اگر آپ کا بلڈ پریشر ہمیشہ ١٦٠٩٠ سے اوپر رہتا ہے تو آپ ہائپرٹنشن میں مبتلا ہیں. اگر آپ کا بلڈ پریشر١٤٠٩٠ اور ١٦٠٩٠ کے بیچ رہتا ہے تو آپ بارڈرلائن ہائپرٹنشن کے مریض ہیں۔
بلڈ پریشر کی جانچ مستقبل میں شخص کی سلامتی کی پیشین گوئی کا ایک بہترین راستہ ہے. بلڈ پریشر جتناہی زیادہ ہوگامختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا یہاں تک کہ وہ افراد جن کا بلڈ پریشر سماج کے افراد کی متوسط حد میں ہے، ان افراد کی نسبت قلبی بیماریوں میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں جن کا بلڈ پریشر متوسط حد سے کم ہے، اسی لئے ہائپرٹنشن کی تعریف کرنا بہت مشکل ہے۔
شاید ہائپرٹنشن کی بہترین تعریف یہ ہو کہ ''فشار خون کی سطح کے اس میزان کو ہائپرٹنشن کہا جاتا ہے کہ جس میں اینٹی ہائپرٹنسیو دواؤں سے اس کے معالجے کے فوائد اس دوا کے مضرات سے زیادہ ہوں'' کیونکہ ابھی تک کوئی ایسی اینٹی ہائپرٹنسیو دوا وجود میں نہیں آسکی ہے جو بالقوہ جانبی عوارض سے خالی ہو۔
اگر آپ کا بلڈ پریشر ١٦٠٩٠ سے زیادہ ہو اور قلبی بیماری میں مبتلا ہونے کے چند دوسرے اسباب بھی موجود ہوں جیسے خونی کلسٹرول کا زیادہ ہونا، دخانیات کا استعمال اور قلبی بیماری میں مبتلا ہونے کا خاندانی سابقہ، تو ہائپرٹنشن کا معالجہ قابل قدر ہوتا ہے(آنے والی فصلوں میں اس بارے میں مفصل طور پہ گفتگو کیجائیگی۔
دوسری طرف سے بعض جوان افراد کے لئے کہ جن کا بلڈ پریشر صرف تھوڑا زیادہ ہے، بلڈ پریشر کو نیچے لانے کے لئے ادویاتی علاج کی اہمیت کم ہے اور بہتر ہے ادویاتی علاج کو بعد کے لئے ٹال رکھیں. اس کے باوجود ایسے افراد کے لئے ہر ٦ مہینے پہ اپنے بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنا اہمیت رکھتا ہے۔
ہائپرٹنشن کی بیماری کو اصطلاح میں ''خاموش قاتل'' کا نام دیا گیا ہے، اس لئے کہ عام طور پرجب تک شخص کو بیماری کے آخری مراحل تک نہ پہنچالے کسی قسم کی علامت ظاہر نہیں ہوتی. اس کے برخلاف بہت سے لوگوں کا سمجھنا ہے کہ وہ اپنے ہائی بلڈ پریشر کو محسوس کر سکیں گے، جبکہ آپ اپنے ہائی بلڈ پریشر کو محسوس نہیں کر سکتے . اپنے بلڈ پریشر کو سمجھنے کا تنہا راستہ طبی نبضی فشار پیما کا استعمال ہے۔
ہائپرٹنشن کی اہمیت
رگیں ربر کے پائپ جیسی ہیں جو خون کو بدن کے ہر حصے میں پہنچاتی ہیں. شرائین جو خون کو بدن کے ہر حصے میں پہنچاتی ہیں قلب کے پمپنگ کرتے وقت زیادہ فشار تحمل کرنے پر مجبور ہیں. اگر کئی سالوں تک بلڈ پریشر اپنی طبعی حد سے زیادہ ہو اور اس مدت میں اس کا علاج نہ کیا جائے، تو رگوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے. رگوں کی دیواریں تدریجاً سخت اور ضخیم ہوکر ان کے مجرا کے تنگ ہونے کا باعث بنتی ہیں جس سے رگوں کی انعطاف پذیری اور ارتجاعی حالت گھٹ جاتی ہے. اس حالت کو اصطلاح میں ''تصلب شرائین'' یا ''Arteiosclerosis''کہتے ہیں. اگر کوئی ایک رگ بہت باریک اور تنگ ہوجائے
تو خون اس سے ٹھیک سے نہیں گزر سکے گا جس کے نتیجہ میں بدن کا وہ حصہ جس میں یہ رگ خون پہنچاتی تھی کافی خون حاصل نہ کر پائے گا نتیجةً آکسیجن کی کمی کا شکار ہوجائے گا. جب کوئی شریان باریک ہوجاتی ہے تو اس میں خون جمنے (Thrombosis) کا احتمال بڑھ جاتا ہے جس سے رگ کے مکمل طور پر بند ہونے کا امکان ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں بدن کا وہ حصہ جس میں یہ رگ خون پہنچاتی تھی تباہ ہوجائے گا. اگر بدن کا یہ حصہ قلب یا دماغ (مغز) ہو تو تباہ ہونے والے علاقے کو اصطلاح میں ''Infarct'' کہتے ہیں اور اس حالت کو''Infarction''کہا جائیگا۔
خطرے کے تمام عوامل
چند سال کے اندر ہائی بلڈ پریشر تمام مشکلات کے وجود میں آنے کا باعث بن سکتا ہے اس لئے بلڈپریشر کی جانچ اور حسب ضرورت اس کے علاج کامقصد برے عوارض کے وقوع سے بچنا ہے اسکے ہوتے ہوئے اگر آپ سگریٹ کا استعمال کرتے ہیں یاآپ کے خون کے کلٹرول کی سطح اوپرہے تو ان عوارض سے سامناہونے کازیادہ احتمال ہے .سگریٹ کا استعمال باعث ہوتا کہ خونی رگیں ایسانقصان اٹھائیں جیساکہ ہائی بلڈپریشر کے نتیجے میں نقصان اٹھاتی ہیں جس سے شرائین باریک ہوکر انکی دیواریں کٹھور اور ضخیم ہوجاتی ہیں ۔
خونی کسٹرول کازیادہ ہوناشریانوں کی دیواروںمیں چربی جمنے کاباعث ہو سکتا ہے اور شریانوں کے تنگ ہونے میں مدد کر سکتا ہے. اس لئے خون کے کلسٹرول کو نیچے لانا طول عمر کی افزائش اور زندگی کی نجات کا باعث بن سکتا ہے۔
ذیابیطس کی بیماری ایک دوسرا شایع عامل ہے جو شریانوں کے تنگ ہونے میں مدد کر سکتا ہے. جس طرح سے ہائی بلڈ پریشر عروق کی دیوار کو نقصان پہنچا سکتا ہے ویسے ہی خون کی شکر بھی یہ کام انجام دے سکتی ہے۔
بلڈپریشر کی جانچ کا ہدف یہ ہے کہ آپ اس بات کی طرف متوجہ ہوکر کہ آپ ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں، صحیح علاج کرسکیںاور اپنے بلڈ پریشر کو نیچے لاکر قلبی بیماری اور دماغی (مغزی) سکتہ میں مبتلا ہونے کے خطرے کو گھٹا سکیں ۔
بہر حال اس شخص کی حالت جو ہائی بلڈ پریشر کا مریض تھا لیکن اس کو علاج کے ذریعے نیچے لایا ہو اس سے بہتر ہے جس کا بلڈ پریشر تھوڑا زیادہ ہو اور اس کا علاج نہ کرے اور اس سے غافل ہو۔
ہائی بلڈپریشر کے طویل مدت اثرات
اگرچہ ہائی بلڈ پریشر میں کچھ خطرناک طویل مدت اثرات پائے جاتے ہیں لیکن اس بات کی یہ تاکید کرنی چاہیے کہ ان تمام عوارض کو بلڈپریشر کے علاج سے روکا جا سکتا ہے۔
=قلب ایسا عضلہ ہے جسے خود خون کی ضرورت ہوتی ہے. خود عضلہ قلب میں خون کی سپلائی اکلیلی شریانوں کے ذریعے انجام پاتی ہے، اگر یہ اکلیلی شریانیں باریک ہوجائیں تو خون عضلہ قلب میںکافی مقدار میں نہیں پہنچ سکے گا اس لئے جب دل کو زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو عضلہ قلب اپنی ضرورت کے لحاظ سے خون اور آکسیجن کی زیادہ مقدار دریافت نہیں کر پائیگا . اس حالت میں سینے کے قفسے میں درد کا احساس ہوتا ہے جسے اصطلاح میں '' عضلیہ قلب کا وقف ا لدم'' یا ''درد قلب'' کہا جاتا ہے۔
= اگر کوئی اکلیلی شریان باریک ہوجائے اور اس میں خون کا لختہ جم جائے تو عضلیہ قلب کا وہ حصہ جس میں وہ شریان خون کی سپلائی کرتی تھی تباہ ہوجائیگا. اس حالت کو اصطلاح میں''Coronary thrombosis'' یا ''Myocardial infarction'' یا قلبی سکتہ کہتے ہیں۔
=اگر ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے چند سالوں میں شرائین باریک ہوکر ان انعطاف پذیری گھٹ جائے اور شرائین سخت ہوجائیں تو دل کے لئے بدن کے تمام حصوں میں خون کی پمپنگ کرنا مشکل ہوجائیگا.یہ زائد فشار جو دل پر پڑتا ہے آخر میں اس کے لئے ضرر کا باعث بنتا ہے اور قلبی ناکفایتی پیدا کر دیتا ہے جسکی وجہ پھیپھڑوں میں پانی جمع ہوجاتا ہے اور سانس کی تنگی پیدا کر دیتا ہے. اس حالت کو اصطلاح میں ''قلب کی احتقانی ناکفایتی'' یا سادہ لفظوں میں ''قلبی ناکفایتی'' کہتے ہیں۔
=دماغ (مغز) میں خون اور آکسیجن پہنچانے والی شریان کا باریک ہونا دماغ کے اس حصے کی فعالیت کے وقتی طور پر بند ہونے کا سبب بنتا ہے جس حصہ میں یہ شریان خون لیجاتی تھی. اس حالت کو اصطلاح میں ''وقتی وقف الدم کا حملہ''(TIA)کہتے ہیں. خون کے کسی لختہ سے دائمی طور پر شریان کا بند ہونا دماغ کے اس حصہ کے تباہ ہونے کا سبب بنتا ہے ہے جس میں یہ رگ خون لیجاتی تھی اور اس طرح دماغی (مغزی) سکتہ کا موجب بنتا ہے۔
=پیروں کی چھوٹی رگیں نقصان اٹھا سکتی ہیں اور پیروں میں کافی خون نہ پہنچنے کا سبب بن سکتی ہیں. ایسی حالت میں راستہ چلتے وقت پاؤں کے ساق کے عضلات میں درد ہوتا ہے۔
= آنکھوں کے اندر چھوٹی رگیں ممکن ہے ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے نقصان اٹھائیں، اگرچہ ممکن ہے یہ حالت جب تک شدید نقصان وارد نہ ہو پہچانی نہ جا سکے. بہت زیادہ بلڈ پریشر میں شاذ و نادرجریان خون کی وجہ سے شبکیہ چشم کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے اس حالت کو اصطلاح میں ''بدخیم ہائی بلڈ پریشر '' کہتے ہیں، اگرچہ مناسب علاج سے مریض کو بہت اچھا نتیجہ ملتا ہے۔
٩٥ فیصدی میں ہائی بلڈ پریشر کی کوئی خاص علت دریاف نہیں ہوتی، اسی وجہ سے اس قسم کے ہائی بلڈ پریشر کو ، ابتدائی کہتے ہیں. باقی ٥ فیصدی میں بلڈ پریشر کے وجود میں آنے کی علت مشاہدہ میں آتی ہے. ان موارد میں ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا افراد کے گردوں یا فوق کلیہ غدد (ایڈرینل) میں مشکل ہوتی ہے. اس قسم کے بلڈ پریشر کو ثانوی کہتے ہیں ۔
بلڈ پریشر کے مختلف اسباب ہیں : وراثت بلڈ پریشر کی پیدائش میں اہم کردار ادا کرتی ہے، جیسا کہ بعض خاندانوں میں یہ مشکل زیادہ مشاہدہ میں آتی ہے. بلڈ پریشر عمر کی افزائش کے ساتھ بڑھنے کی جانب میلان رکھتا ہے لیکن عمدةً یہ امر اشخاص کی کیفتِ زندگی میں تبدیلی کے سبب ہوتا ہے. اکثر جب لوگوں کی عمر زیادہ ہوتی ہے تو ان کا تحرک کم ہوکر ان کا وزن بڑھ جاتا ہے . فعالیت کی کمی اور وزن کی زیادتی یہ دو عامل ہیں جو بلڈ پریشر کے بڑھنے میں مددگار ہیں . اس کے علاوہ وہ افراد جو زیادہ نمکین غذائیں کھانے کی عادت رکھتے ہیں ، عمر بڑھنے کے ساتھ ان کا بلڈ پریشر بڑھتا ہے۔
اشخاص کی نسل بھی ہائی بلڈ پریشر کے وقوع میں اہم کردار ادا کرتی ہے. مثلا کالے افریقائی اشخاص جو مغربی ممالک میں رہتے ہیں ان میں ہائی بلڈ پریشر کا شیوع گوروں سے زیادہ ہے۔
بلڈ پریشر کے اندر ٢٤ گھنٹے میں کچھ تبدیلیاں وجود میں آتی ہیں . معمولاً ورزشی تمرینات کے دوران قلب خون کو پمپنگ کرنے اور بدن کے ہر حصے میں پہنچانے کے لئے تیز کام کرتا ہے. اس کے باوجود وہ افراد جو منظم طورپہ ہمیشہ ورزش کرتے ہیں ان افراد کی نسبت جو ورزشی سرگرمیاں نہیں رکھتے ، آرام کی حالت میںان کا بلڈ پریشر کچھ کم ہوتا ہے.جب آپ خواب یا آرام کی حالت ہوتے ہیں تو آپ کا بلڈ پریشر کچھ کم ہوتا ہے. اگر ایک بار آپ نے اپنا بلڈ پریشر دیکھا ہو اور آپ کا بلڈ پریشر بڑھا ہوا ملے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں. کم سے کم دوبار آپ کا بلڈ پریشر بڑھا ہوا ملے (یعنی ١٦٠٩٠ سے زیادہ) وہ بھی کم سے کم دو مہینے کے دوران بڑھا ملے تاکہ ہائی بلڈ پریشر کی تشخیص ہوسکے. آئیڈیل کے طور پر جب آپ آرام اور استرخاء کی حالت میں کر سی پر بیٹھے ہوئے ہوں تو بلڈ پریشر کی جانچ کی جانی چاہیے. اگر آپ کا بلڈ پریشر خطرناک طریقے سے بڑھا ہوا ہو یا آپ خاص حالات میں ہوں (جیسے حاملہ ہوں) تو ممکن ہے کہ ایمرجنسی اقدامات کی ضرورت پڑے۔
بلڈ پریشر کو ریگولیٹ کرنا
بدن میں دو نظام ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کو طبعی مقدار میں رکھنے میں مدد کرتا ہے. ایک مشارکی عصبی نظام(Sympathetic nervous system) ہے جو ایڈرینلین اور نار ایڈرینلین ہارمونس کی ترشح کرتا ہے. یہ ہارمون اس لحاظ سے کہ بدن کے کسی حصہ میںان کی ضرورت ہے، رگوں کے پھیلنے اور سکڑنے کا باعث بنتے ہیں. یہ نظام بحرانی حالات اور خاص مواقع میں وارد عمل ہوتا ہے مثلاً ''جنگ یا گریز ''کے وقت وقتی طور پر بدن کے بعض ان حصوں میں(غذائی قنال) کی فعالیت کو کم کردیتا ہے ، جن میں ان کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ کام غذائی قنال کی خونی رگوں کوتنگ کر کے انجام دیتا ہے . اسی طرح اسی وقت عضلات جیسے بدن کے تمام حصوں کی رگوں کو کشادہ کر دیتا ہے تاکہ خون کی زائد روانی پیدا ہوکر شخص خطرے سے فرار کر سکے. چھوٹی رگوں پہ انقباضی اثر پیدا کر کے یہ نظام عمل بلڈ پریشر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے. اس لئے بٹابلاکر جیسی اس نظام پر اثر کرنے والی دوائیں (جیسے ایٹی نولول) بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں استعمال کی جاسکتی ہیں۔
دوسرا اہم نظام گردوں سے ترشح کرنے والا رنین نامی ایک ہارمون ہے جو انجیوٹنسین دو نامی ایک انزائم کے فعال ہونے کا باعث ہوتاہے. انجیوٹنسین دو انزائم رگوں کے انقباض کا باعث بنتا ہے. انجیوٹنسین کو روکنے والی دوائیںACEکے نام سے معروف ہیں. ان دواؤں کا نمونہ انالاپرل ہے جو بلڈ پریشر کے نیچے لانے میں ممد ہو سکتاہے. اسی طرح انجیوٹنسین فوق کلیہ غدد سے الڈوسٹیرون نامی ہارمون کی ریزش کے تحریک کا باعث ہوتا ہے. یہ ہارمون گردوں کے ذریعے پانی اور نمک کے احتباس کا موجب بن کر بلڈ پریشر کو بڑھاتا سکتا ہے۔
خونی رگوں کا انقباض اور انبساط
بہت چھوٹی خونی رگیں جو عروق شعریہ کے نام سے معروف ہیں، ان کی دیواروں میں صاف عضلانی خلیات ہوتے ہیں جو کیلشیم کی غلظت بڑھنے کی صورت میں منقبض ہوتے ہیں. ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں میںان افراد کی نسبت جن کا بلڈ پریشر طبعی حد میں ہے، صاف عضلانی خلیات کے اندر کیلشیم کی زیادہ مقدار ہوتی ہے، اگرچہ یہ امر ابھی تک مشخص نہیں ہو سکا ہے. کہا جاتا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں میںکیلشیم کی غلظت کی افزائش عروق شعریہ کے انقباض کا سبب بنتی ہے اور ان میں سختی پیدا کر دیتی ہے، جس سے قلب کی پمپنگ میں مشکل پیدا ہو جاتی ہے. عروق شعریہ کا طویل مدت انقباض ان کی دیواروں میں نقصان کا سبب بنتا ہے، جس کے نتیجے میں بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے. نیفڈیپین جیسی وہ دوائیں جو کیلشیمی قنال کے انسداد کا باعث ہوتی ہیں، عروق شعریہ کے انبساط اور بلڈ پریشر کے نیچے لانے کا سبب بنتی ہیں. یہاں پہ ذکر کئے گئے وہ تمام ہارمونس اگرچہ تمام افراد میں بلڈپریشر کے ریگولیشن میںکردار ادا کرتے ہیں لیکن مشاہدات سے پتا چلتا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے زیادہ تر مریض ان ہارمونس سے حساس ہوتے ہیں. ان اشخاص کے خون کی روانی میں مذکورہ ہارمونس زیادہ نہیں ہوتے لیکن اینٹی ہائپرٹنسیو دواؤں سے ان ہارمونس کو روکنا ان کے بلڈ پریشر کے نیچے لانے کا باعث بنتا ہے۔
کیفیتِ زندگی سے متعلق عوامل
بتایا جاچکا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کا تعلق جنٹکس (Gnetics)، توارث اور کیفیتِ زندگی سے ہے. وہ تحقیقات جو یکساں جوڑواؤں میں انجام پائیں اور جوڑواؤں میں سے وہ بچے جو دو مختلف خانوادوں میں منہ بولے بیٹے کی حیثیت سے پلے بڑھے، ان تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ جن خانوادوں میں مناسب غذائی رژیم کا لحاظ ہوتا تھا، جنٹکس کے لحاظ سے بلڈ پریشر میں مبتلا ہونے کیلئے مستعد ہونے کے باوجود بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا نہیں ہوئے. اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں میں ہائی بلڈ پریشر کے نصف اسباب جنٹیکل اور ارثی عوامل ہیں اور نصف غذائی عوامل ہیں۔
نمک کا استعمال
نمک کا استعمال بلڈ پریشر پربلاواسطہ اور مستقیم اثر رکھتا ہے. دیکھنے میں آیا ہے کہ شہر نشین معاشروں میںعمر بڑھنے کے ساتھ بلڈ پریشر کا بڑھنا نمک کی زیادہ مقدار استعمال کرنے کا نتیجہ ہے. نمک کا استعمال کم کرنا بلڈ پریشر کو نیچے لانے میں مدد کرتا ہے. چند سالوں کے دوران نمک کا زیادہ استعمال، احتمالاً عروق شعریہ کی دیواروں کے صاف عضلہ کے خلیات میں موجود سوڈیم کی مقدار کی افزائش کی وجہ سیبلڈ پریشر کی افزائش کا سبب بنتاہے. معلوم ہوتا ہے کہ سوڈیم کی یہ بڑھی ہوئی مقدار خلیات کے اندر کیلشیم کے بآسانی داخل ہونے کا باعث بنتی ہے. کیلشیم بھی اپنے حساب سے عروق شعریہ کے مجرا کے تنگ اور باریک ہونے کا باعث بنتا ہے۔
کچھ ایسے شواہد ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ وراثتی لحاظ سے ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہونے کے کیلئے مستعد افراد میں گردوں کے راستے نمک ربائی (نمک کو برطرف کرنے) کی توانائی کم ہوتی ہے. اس کے باوجود کچھ ایسے مدارک بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے افراد دیگر تمام لوگوں سے زیادہ نمک استعمال کرتے ہیں. اگرچہ ممکن ہے کہ نمک کی وہ مقدار جو وہ لوگ استعمال کرتے ہیں ان کے بدن میں رہ جائے۔
نمک اور بلڈ پریشر کا رابطہ ایک طویل عرصے سے مورد بحث قرار پارہا ہے، کیونکہ اس سلسلے میں انجام پانے والی ابتدائی تحقیقات کافی دقت کی متحمل نہیں تھیں. اس کے باوجود ١٩٨٠ویں دھائی میں ایک دقیق انٹرنیشنل تحقیق کی بنیاد پر پتا چلا کہ مختلف ممالک کے افراد میں نمک کے استعمال اور بلڈ پریشر میں گہرا رابطہ ہے. مثال کے لئے ، جاپانی، لہستانی اور پرتغالی اپنی غذاؤں میں نمک کا استعمال زیادہ کرتے ہیں اور ہائی بلڈ پریشر کا شیوع اور دماغی (مغزی) سکتہ ان ممالک میں زیادہ ہے. اس کے علاوہ دیکھا گیا ہے کہ ان ممالک کے افراد میںپرنمک غذائی رژیم کا رواج ہے، ان کی عمر بڑھنے کے ساتھ ان کا بلڈ پریشر بھی بڑھتا ہے. اس کے برخلاف ان ممالک کے افراد جو کم نمک استعمال کرتے ہیں ، عمر بڑھنے کے ساتھ ، فقط تھوڑی مقدار میں ان کا بلڈ پریشر بڑھتا ہے، جس کے نتیجے میں ہائی بلڈ پریشر کا شیوع ان ممالک میں نسبتا ًکم ہے. جیسا کہ بعد میں بتایا جائیگا کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ غذائی رژیم میں نم کا مصرف کم کرنے کی صورت میں بلڈ پریشر بھی نیچے آتا ہے. اگرچہ یہ بات حقیقت ہے کہ بعض افراد کا بدن نمک سے حساسیت رکھتا ہے . یہ موضوع بلڈ پریشر کے مرض میں متلا ہونے کا خاندانی سابقہ رکھنے والے افراد پہ صادق آتا ہے. اسی طرح کچھ ایسے شواہد ہیں جن سے معلوم ہوتا ہیکہ سن دراز افراد نمک سے حساس ہوتے ہیں۔
حال ہی میں ان بچوں پہ کیجانے والی ایک تحقیق، جن سے دودھ چھڑایا گیا تھا اور ان میں سے کچھ کو کم نمک والا کھانا اور باقی کچھ کو معمولی نمک والا کھانا دیاجاتا تھا ،سے نمک کے استعمال اور ہائی بلڈ پریشر کے رابطے کی تائید ہوتی ہے. چھ مہینے کے بعد ان بچوں کا بلڈ پریشر جنھوں نے کم نمک والا کھانا کھایا تھا، ان بچوں سے کم تھا جنھوں نے معمولی غذا کھائی تھی. پندرہ سال کی عمر تک ان میں سے بعض بچوں کی پیگیری کی گئی اور دیکھنے میں آیا کہ ابھی بھی ان کا بلڈ پریشر نیچے ہے۔
اگر ہوسکے تو بچوں کو کم نمک استعمال کرنے کا پابند بنایاجائے. ہم ابتدا سے ہی ہائی بلڈ پریشر کے وقوع کو روک سکتے ہیں. اس لئے چپس اور دالموٹ کا استعمال جو آج شایع اور عام ہے، آیندہ کے لئے پریشان کن ہو سکتا ہے۔
وزن
موٹے لوگوں کا بلڈ پریشر دبلے پتلے لوگوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتا ہے. کسی حد تک یہ امر اس وجہ سے ہے کہ موٹے افراد کا بدن اضافی کیلریز کو جلانے کے لئے زیادہ کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے. اسی طرح موٹے افراد طبعی مقدار سے زیادہ نمک استعمال کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں. اس کے علاوہ موٹے افراد انسولین ہارمون سے مقاوم ہوتے ہیں اور ان کے خون کا شکر بڑھ جاتا ہے. ممکن ہے یہی چیز ان کے اندر بلڈ پریشر بڑھنے کا سبب بنے، اگرچہ ابھی تک اس کی علت پوری طرح مشخص نہیں ہو سکی ہے. اگرچہ موٹے افراد کا بلڈ پریشر نارمل وزن والے افراد کی نسبت زیادہ ہوتا ہے لیکن جب ڈاکٹر اور نرسیں نبضی فشار پیما کے اسی معمولی بازو بند سے ان موٹے افراد کا بلڈ پریشر دیکھتے ہیں تو کچھ عدد غلطی سے بڑھا ہوا ملتا ہے. شخص کا بازو جتنا ہی بڑا ہوگا ، اشتباہاً یہ عدد بڑھا ہوا ملے گا. اس اشتباہ سے بچنے کے لئے ان افراد میں بڑے بازو بند کا استعمال کرنا چاہیے۔
صرف لوگوں کے وزن کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ موٹے ہیں، اس لئے بڑے قد والے افراد کا وزن چھوٹے قد والے افراد کی نسبت زیادہ ہوتا ہے. اس لئے ڈاکٹر موٹاپے کی تشخیص کے لئے جسمانی حجم کی شاخص (BMI) کا استعمال کرتے ہیں. جسمانی حجم کی شاخص کے حساب کے لئے وزن (کلو گرام کے حساب سے) کو قد (میٹر کے حساب سے) پر٢ کی توان سے تقسیم کیا جاتا ہے۔
وزن (کلوگرام)=جسمانی حجم کی شاخصBMI
٢ (قد (میٹر)
وہ شخص جس کے جسمانی حجم کی شاخص٣٠ یا اس سے زیادہ ہو تو وہ موٹا شمار کیا جاتا ہے، جبکہ ٢٥سے ٣٠ تک کے بیچ کی جسمانی حجم کی شاخص والے کو تھوڑا موٹا مانتے ہیں. جب آپ کا وزن بڑھتا ہے تو اس کے ساتھ بلڈ پریشر بھی اوپر چلا جاتا ہے. اگر آپ کا وزن گھٹ جائے تو آپ کا بلڈ پریشر بھی گھٹ جاتا ہے۔
الکحل
الکحل کا استعمال بلڈ پریشر پر اثر انداز ہے اور بطور کلی الکحل کا استعمال جتنا ہی زیادہ ہوگا بلڈ پریشر بھی اتنا ہی اوپر جائے گا. زیادہ مشروبات کا استعمال کرنے والے افراد کا بلڈ پریشر زیادہ ہوتا ہے اور ان میں دماغی (مغزی) سکتہ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اسٹریس یا افسردگی
افسردگی تھوڑی مدت کے لئے بلڈ پریشر کو بڑھا سکتی ہے، لیکن طویل مدت بلڈ پریشر بڑھانے میں کوئی خاص نقش نہیں رکھتی. آرام سازی اور ریلیکزیشن کی روش اور ٹیکنکس آپ کی کیفیتِ زندگی کو بہبودی عطا کر سکتی ہیں، لیکن واقعی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے کے لئے کافی نہ ہوں گی۔
اسٹریس اور بلڈ پریشر کا رابطہ مبہم اور چکرا دینے والا ہے اور اس سلسلے کی بہت سی ابتدائی تحقیقات آج کے اسٹینڈرڈ سے مطابقت نہیں رکھتیں. اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹریس زا تحریکات بلڈ پریشر کے بڑھنے کا باعث بن سکتی ہیں. مثال کے لئے اگر آپ بری اور پریشان کن خبر سن لیں تو آپ کے بلڈ پریشر کے بڑھنے کا امکان ہے. اسی طرح شور و غل والے ماحول میں بھی بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔
اگر آپ پہلی بار ڈاکٹر کے کلینک پر جاتے ہیں تو یہ امر آپ کو مضطرب اور بے چین کرتا ہے، جسکی وجہ سے کلینک میں آپ کے بلڈ پریشر کے بڑھنے کا امکان ہے. اسی لئے آپ کا ڈاکٹر آپ کو چند بار اپنے پاس بلا کر بلڈ پریشر کی جانچ کرانے کو کہتا ہے، اس لئے کہ آپ بعدکی نوبتوں میں ڈاکٹر اور مطب سے آشنا ہوجاتے ہیں اور وہ پہلے والا اضطراب ختم ہوجاتا ہے۔
اگرچہ بلڈ پریشر بڑھانے میں مختصر مدت کے اسٹریس کے اثرات کی تائید ہوتی ہے لیکن ابھی تک مشخص نہیں ہوا ہے کہ طویل مدت اسٹریس دائمی طور پر بلڈ پریشر بڑھانے میں موثر ہو سکتا ہے. عمل میں آنے والی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ اسٹریس کی سطح کے میزان اور بلڈ پریشر میں کوئی رابطہ نہیں ہے. افسردگی (اسٹریس) پیدا کرنے والا کام کرنے والے افراد زیادہ قلبی بیماری یا بلڈ پریشر میں مبتلا نہیں ہوتے.اس کے باوجود ان دو گروہ کا تفاوت ان کے طرز زندگی اور غذائی رژیم سے بھی تعلق رکھتا ہے اور یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کس حد تک یہ تفاوت صرف اسٹریس کی وجہ ایجاد ہوا ہے۔
پوٹاشیم اور کیلشیم
زیادہ پوٹاشیم پر مشتمل غذاؤں (جیسے پھل اور سبزی) کا استعمال بلڈ پریشر نیچے رکھنے کے لئے بہتر ہے، جبکہ زیادہ پھل اور سبزی استعمال کرنے والے افراد کا بلڈ پریشر کم ہوتا ہے اور دماغی (مغزی) سکتہ میں کم مبتلا ہوتے ہیں . بدن کے خلیات جب پوٹاشیم سے روبرو ہوتے ہیں تو سوڈیم (نمک) سے چھٹکارا پا جاتے ہیں. نمک کے استعمال کی نسبت پوٹاشیم کے استعمال کا اثر تھوڑا ہوتا ہے. اگرچہ یہ کہنا حقیقت ہے کہ لوگوں کے درمیان نمک کے اندر پائے جانے والے اختلافات بطور متقابل پوٹاشیم کے استعمال میں پائے جانے والے اختلافات سے مربوط ہیں. جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ جو لوگ زیادہ پوٹاشیم پہ مشتمل غذاؤں کا استعمال کرتے ہیںعام طور سے نمک بھی کم استعمال کرتے ہیں. اور جو لوگ نمکین غذاؤں کے استعمال سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ لوگ پھل اور سبزی کم کھاتے ہیں۔
انجام شدہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ کیلشیم کی زیادہ مقدار پر مشتمل غذائی رژیم ہائی بلڈ پریشر کو روک سکتی ہے. پھر بھی یہ نتائج ابھی تک مابہ النزاع ہیں، اس لئے ان کی صلاح نہیں دی جاسکتی۔
ورزشی تمرینات
اگر چہ ورزشی تمرینات کے دوران آپ کا بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے لیکن اگر آپ پابندی کے ساتھ ہمیشہ ورزش کرتے ہیں تو آپ صحتمند رہیں گے اور ورزش نہ کرنے والے افراد کی نسبت آپ کا بلڈ پریشر نیچے رہے گا. اس کی کچھ علت تو یہ ہو سکتی ہے کہ ورزش کرنے والے افراد معمولاً سگریٹ بھی نہیں پیتے، اگرچہ ورزشی تمرینات بلڈ پریشر کو نیچے لانے میں ڈائکرکٹ اور بلاواسطہ اثر انداز ہیں. چاہیے کہ منظم تمرینات کا انجام دینا آپ کا ہدف ہو اور بطور نامنظم اور کبھی کبھار سنگین ورزشوں کے انجام دینے سے پرہیز کریں۔
ہائی بلڈ پریشر کے علائم اور نشانیاں
ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا افراد کو اکثر کوئی علامت یا شکایت نہیں ہوتی. بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنے بلڈ پریشر کو محسوس کر سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ کس وقت اوپر چڑھتا ہے، لیکن وہ احتمالاً اپنی ہیجانی افسردگیوں کو محسوس کرتے ہیں کہ ان صورتوں میں بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے اور نہیں بھی۔
بلڈ پریشر کسی قسم کی علامت اور نشانیاں نہیں رکھتا ، یہ حقیقت باعث بنتی ہے کہ کئی سالوں تک ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا اور اس سے بے خبر رہیں اور جب تک کہ یہ بلڈ پریشر قلب، دماغ(مغز) اور گردوں پر اثر انداز نہیں ہوتا اس مرض میں مبتلا ہونے سے بے خبر ہوتے ہیں. لوگ قلبی، دماغی (مغزی) اور کلیوی (گردے کی) بیماری یا وخیم حالت میں مبتلا ہونے کے بعد ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ۔
مثال کے طور پر ممکن ہے کہ وہ تھوڑے دماغی سکتہ میں مبتلا ہوئے ہوںیا درد قلب سے ہمکنار ہوئے ہوں. قلبی ناکفایتی کا مریض لیٹنے یا سونے کی صورت میں سانس کی تنگی کا احساس کر سکتا ہے، جبکہ کلیوی (گردے کی) کی ناکفایتی کے مریض مفرط خستگی اور تندی تنفس میں مبتلا ہوتے ہیں۔
یہ مشکلات اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ بلڈ پریشر کئی سالوں تک بڑھا ہوا تھا اور شخص اس سے بے خبر تھا اور آج خطرناک امراض میں گرفتار ہوگیا. ڈاکٹروں کا سمجھنا ہے کہ٣٠ سال سے زیادہ عمر کے افراد منظم طور پر اپنے بلڈ پریشر کی جانچ کراتے رہیں. اگر ان کا بلڈ پریشر نارمل ہو تو ہر٣ یا ٤ سال پر اپنے بلڈ پریشر کی دوبارہ جانچ کرائیں. لیکن جولوگ بارڈرلائن ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں یعنی ان کا بلڈپریشر١٤٠٩٠ اور ١٦٠٩٠ کے درمیان ہو تو تھوڑے فاصلوں پہ مثلاً ہر٦ مہینے بعد ایک بار اپنے بلڈ پریشر کی جانچ کرائیں۔
ہائی بلڈ پریشر کے وقوع کا میزان
سماج میں ہائی بلڈ پریشر کتنا شایع ہے ،اس سوال کا جواب ان معیاروں سے وابستہ ہے، جن سے ہائی بلڈ پریشر کی تشخیص میں استفادہ ہوتا ہے.ہائی بلڈ پریشر کا شیوع عمر کی افزائش کے ساتھ بڑھتا ہے، خاصکر ان معاشروں میں جن کے غذائی رژیم میں نمک کا استعمال زیادہ ہے. اس لئے جب معاشرے میں ہائی بلڈ پریشر کے شیوع کا معاینہ کریں تو ہمیں چاہیے کہ لوگوں کی عمر کو بھی نظر میں رکھیں! سن یاس سے پہلیعورتوں کا بلڈ پریشر ان کے ہم سن مردوں سے کم ہوتا ہے ، لیکن ٥٠ سال اور اس کے بعد بلڈ پریشر کے لحاظ سے عورتوں اور مردوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔
ایسا اس لئے ہے کہ سن یاس سے پہلے ایسٹروجن ہارمون کی وجہ سے عورتیں نسبتاً قلبی بیماریوں میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہتی ہیں. چونکہ سن یاس کے بعد عورتوں میں ایسٹروجن ہارمون کم ہوجاتا ہے اس لئے عورتیں بھی مردوں کی طرح قلبی بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہیں۔
ہائی بلڈ پریشر اور نارمل بلڈپریشر کے درمیان جو خط کھینچا جاتا ہے اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے وہ ذوقی اور اختیاری ہے. یہاں تک کہ اگر آپ کا بلڈپریشر سماج میں متوسط ہو تو آپ اس سے کم بلڈ پریشر والے شخص کی نسبت زیادہ خطرے میں ہیں. اس لئے ١٤٠٨٠ کا بلڈ پریشر١٣٠٧٠ سے بدترپیشین گوئی ہے. اس کے باوجود موجودہ معلومات کی بنیاد پر ڈاکٹروں کا سمجھنا ہے کہ١٦٠٩٠ سے بڑھے ہوئے بلڈ پریشر کا ادویاتی معالجہ کرنا بہترہے۔
تقریباً٢٥ فیصدی لوگوں کا ڈسٹولک (انبساطی) بلڈپریشر٩٠ یا اس سے زیادہ ہوتا ہے. ایسے افراد کو ادویاتی معالجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے. اگر آپ کا ڈسٹولک بلڈپریشر٩٠ سے نیچے ہے، لیکن سسٹولک (انقباضی) بلڈپریشر١٦٠ سے اوپر ہے تو آپ ''مجزا ہائی بلڈ پریشر'' کے مریض ہیں. یہ حالت ٦٠سال سے کم عمر کے لوگوں میں بہت کم دیکھنے میں آتی ہے، لیکن ٢٠ سے ٣٠ فیصدی ٨٠سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں دیکھنے میں آتی ہے. حال میں ہونے والی تحقیقات سے معلوم ہوا ہیکہ سسٹولک بلڈ پریشر کو نیچے لانے کے لئے ادویاتی معالجہ قلبی اور دماغی (مغزی) سکتہ سے حفظ ماتقدم کے طور پر بہت موثر ہے۔
برطانیہ میں ٧٠سے ایک کروڑ افراد تک ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہیں. اقتصادی سماجی عوامل بلڈ پریشر کے وجود میں لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جیسا کہ برطانیہ کے فقیر نشین علاقوں میں رہنے والے افراد کا بلڈ پریشر زیادہ ہوتا ہے. تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ ١٠ سے ١٥ فیصدی بالغ افراد کو بلڈ پریشر کے ادویاتی معالجہ کی ضرورت ہے. اس لئے مغربی دنیا میں سب سے شایع مزمن طبی اختلال ہائی بلڈ پریشر ہے. تقریباً امریکہ میں ٥کروڑ لوگوں کا بلڈ پریشر اس حد تک پہنچا ہوا ہیکہ انھیں علاج کی ضرورت ہے اور یورپ میں بھی تقریباً یہی تعداد ہے۔
بلڈپریشر کے تشخیصی امتحانات
اگر پتا چل گیا کہ آپ ہائی بلڈ پریشر کے شکار ہیں تو آپ کا ڈاکٹر آپ کے مزید معاینے اور امتحان عمل میں لائیگا. یہ امتحانات خون کی جانچ، پیشاب کی جانچ اور ای سی جی پر مشتمل ہوں گے. ممکن ہے کہ شدید ہائی بلڈ پریشر میں اعلی تخصص (Spcialization) کی جانب رجوع کرنا پڑے۔
یہ سمجھ لینے کے بعد کہ آپ ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں تین اساسی علتوں کی بنیاد پر آپ کو مزید امتحانات کی اور تحقیقات کی ضرورت ہے۔
=پہلی علت: خونی کلسٹرول کی سطح کو کنٹرول کرنے کے لئے
اگر ہائی بلڈ پریشر کے علاوہ آپ کے خون میںکلسٹرول کی سطح بڑھی ہوئی ہو تو آپ کو قلبی امراض او ر دماغی(مغزی) سکتہ کا زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے. اس لئے ادویاتی معالجے کے ذریعے بلڈ پریشر اور کلسٹرول کی سطح کو نیچے لانا ضروری ہے۔
=دوسری علت: اسباب کی تحقیق کے لئے
بعض حالات میںہائی بلڈ پریشر گردوں کے بعض امراض اور فوق کلیہ غدد میں کبھی کبھار ہونے والے بعض امراض کی وجہ سے ہوتا ہے۔
=تیسری علت: قلب اور گردوں کے احتمالی نقصانات کو کنٹرول کرنے کے لئے
طویل مدت اور مزمن ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے گردوں کی اور قلبی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں. خون کی جانچ کر کے گردوں کے افعال اور ای سی جی کے ذریعے قلبی افعال کا معاینہ کیا جاتا ہے ۔
معمول کے امتحانات
ہائی بلڈ پریشر میں مبتلاہونے والے تمام افراد کو پیشاب کی ایک سادہ جانچ، خون کی جانچ اور ایک ای سی جی کی ضرورت ہوتی ہے. اس کے ساتھ ہی آپ کو چاہیے کہ اپنا وزن کرائیں. اگروزن گھٹانے کی ضرورت ہوگی تو ڈاکٹر آپ کو اس کی صلاح دیگا. پھر ڈاکٹر آپ کے قلب، سینہ، شکم اور پیروں کی نبض کا معاینہ کرے گا۔
قلبی ناکفایتی کی صورت میں بدن کے اندر سیال رک کر ریوی استسقاء کا باعث ہوتا ہے. جسکو ڈاکٹر آپ کے سینے پر آلہ سماع الصدر (صدربین)رکھ کر محسوس کر سکتا ہے. اسی طرح قلب کا بایاں حصہ بڑھ سکتا ہے جسے ڈاکٹر معاینہ کے ذریعے کشف کر سکتا ہے. خون اور پیشاب کی جانچ سے گردوں کے نقصانات کو سمجھا جا سکتا ہے. اگر آپ کا بلڈپریشر بڑھا ہوا ہو تو ڈاکٹر ''آپتھلموسکوپ'' نامی ایک سامان سے آنکھوں کے اندر کا معاینہ کرتا ہے اور شبکیہ چشم کی باریک رگوں کی جانچ کرتا ہے. خفیف ہائی بلڈ پریشر میں ان رگوں میں تھوڑی تبدیلیاں ہوتی ہیں، لیکن شدید ہائی بلڈ پریشر میں شبکیہ کے اندر جریان خون دیکھا جا سکتا ہے۔
اگر پیشاب کی جانچ میں شکر دکھائی دے تو احتمال ہوتا ہے کہ آپ ذیا بیطس شکری میں مبتلا ہیں. اگر پیشاب کی جانچ میں پروٹین دکھائی دے تو ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کو گردے کی بیماری ہونے کی وجہ سے ہو۔
خون کی جانچ سے کلسٹرول کی سطح اور گردوں کے افعال کا پتا چلتاہے. اگر گردے بخوبی کام نہ کر رہے ہوں توخونی یوریا اور کریاٹینین بڑھ جاتا ہے. اس کے علاوہ خون کی جانچ سے خونی سوڈیم اور پوٹاشیم کی سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔
الکٹروکارڈیوگرام (ECG)
برقی قلب نگار یا ای سی جی قلب کی برقی کار کردگی کی معلومات فراہم کرتا ہے. ای سی جی کرانے کا ہدف دو چیز کی تحقیق کرنا ہے: پہلے یہ کہ ای سی جی قلب کی سائز کی بالواسطہ شاخص مہیا کر سکتا ہے. جب بلڈ پریشر بہت زیادہ ہوتا ہے تو قلب بڑا ہوجاتا ہے اور ای سی جی میں ولٹیج بڑھنے کا باعث بنتا ہے. در حقیقت ایسے حالات میں قلب کا بایاں بطن بڑھ جاتا ہے، جسے'' بائیں بطن کی ہائپرٹروفی'' (LVH)کہتے ہیں. اگر پتا چل گیا کہ مریض کا بایاں بطن بڑھ گیا ہے تو اس کے بلڈ پریشر کو نیچے لانا چاہیے کیونکہ یہ حالت اس بات کا پتا دیتی ہے کہ پورے بدن میں خون کی پمپنگ کرنے کے لئے قلب پر زیادہ فشار پڑ رہا ہے۔
ای سی جی کرانے کا دوسرا مقصد، قلب کی اکلیلی شریانوں کا مطالعہ کرنا ہے جو خود قلبی عضلات میں خون پہنچاتی ہے. ان اکلیلی شریانوں کے تنگ یا مسدود ہونے کی صورت میں ای سی جی کے اندرکچھ تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں جسے اصطلاح میں ''وقف الدم ''(Schemia) کہا جاتا ہے. وقف الدم میں مبتلا افرادمحنت و مشقت کے وقت درد قلب میں مبتلا ہوجاتے ہیں. حتیٰ اگر آپ کو درد قلب کی کبھی بھی کوی شکایت نہ رہی ہو اور قلبی سکتہ کی کوئی وجہ نہ پائی جاتی ہو تب بھی آپ کے ای سی جی میں وقف الدم کے دیکھے جانے کا امکان ہے. اس لئے ای سی جی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
تمام امتحانات
بلڈ پریشر میں مبتلا ہونے والے تمام افراد کومذکورہ امتحانات کرانے کی ضرورت ہوتی ہے. اگر آپ کا بلڈ پریشر بہت زیادہ ہے یا آپ کے ڈاکٹر کو شک ہے کہ آپ کو دوسری کوئی اور بیماری ہے جو بلڈ پریشر کا سبب ہے تو دوسری تکمیلی جانچ کرانا چاہیے. ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا دو یا تین فیصدی افراد کو کوئی ایک ایسی بیماری ہوتی ہے جو ان کے بلڈ پریشر بڑھنے کا سبب بنتی ہے. یہ بیماریاں گردوں اور فوق کلیہ غدد کے امراض کو شامل ہیں۔
دونوں صورتوں میں آپ کو کچھ خاص جانچ کرانی چاہیے. تقریباً تین یا چار فیصدی افراد کو ہائی بلڈ پریشر ہوتا ہے جنھیں قلب اور عروق کے متخصصین کے پاس جا کر مزید جانچ کرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا اکثر افراد کومتخصصین کے پاس یا تخصصی اسپتالوں میں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ عمومی (جنرل) ڈاکٹروں سے علاج کرا سکتے ہیں۔
فقط کچھ فیصدی افراد جو ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہیں ان کو متخصصین کے پاس یا تخصصی اسپتالوں میں جانے کی ضرورت ہوتی ہے. یہ وہ افراد ہیں جنھیں قلبی بیماری یا گردے کی بیماری جیسا کوئی عارضہ لاحق ہو یاان کا بلڈ پریشر بہت اوپر ہو اور کنٹرول میں نہ ہو۔
اگر پیشاب کی جانچ میں پروٹین دکھائی دے تو یہ گردوں کے افعال میں خرابی ظاہر کرتی ہے. اس کے علاوہ اگر خونی پوٹاشیم کی سطح نیچے ہو تو فوق کلیوی