گردے میں پتھری
گردے اور پتے میں پتھری کا بننا، پاکستان میں ایک عام مرض ہے لیکن یہ مرض جتنا عام ہے، اتنا ہی اس کے بارے میں غلط فہمیاں زیادہ اور لوگوں کی اس کے متعلق معلومات بہت کم ہیں۔ اس تحریر کا مقصد اپنے قارئین کو آگاہی دینا ہے کہ یہ مرض کیوں پیدا ہوتا اوراس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟ احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟
ہمارے ہاں ایسے سیکڑوں کیس ہوتے ہیں جن میں مرض بگڑ جاتا ہے۔سب سے پہلے معلوم کرنا چاہیے کہ پتھری کہاں اور کیسے بنتی ہے۔ اس کی اقسام کتنی اور اس کے مروجہ علاج کیا ہیں اور کون سی احتیاطی تدابیر ہیں جنھیں اختیار کر کے اس سے بچا اور دوبارہ بننے سے کیسے ر وکا جاسکتا ہے؟
ایک قدیم مرض
تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ سب سے پہلے پتھری ۴۸۰۰ قبل مسیح میں مصری ممیوں میں دیکھی گئی اور ہیپوکریٹ نے بھی پتھری کے آپریشن کا ذکر کیا ہے۔ عموماً ۲ سے ۳ فیصد لوگوں میں پتھریاں بنتی ہیں ۔ ۱۹۸۰ء کے بعد سے جدید علاج کے باعث گردے کی پتھریوں کی وجہ سے گردے کم خراب ہوتے ہیں۔ دنیا میں مختلف ممالک ایسے ہیں جن میں پتھری کی بیماری زیادہ ہے۔ پاکستان بھی دنیا کی اس سٹون بیلٹ میں شامل ہے جہاں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں خاص طور پر سرائیکی بیلٹ میں واقع علاقوں میں پتھریاں زیادہ بنتی ہیں۔ ان میں بہاولپور، بہاول نگر، ڈی جی خان، میانوالی، چکوال، ملتان کے علاقے شامل ہیں۔ پانی کی کمی اور گرمی کا زیادہ ہونا اس کا سبب ہوسکتا ہے ۔
گردوں کا کام
اللہ تعالیٰ ہر انسان کو نے ۲ گردے عطا کیے ہیں۔ ایک نارمل انسانی گردے کا وزن تقریباً ۱۵۰ گرام ہوتا ہے اوراس کے کام کرنے کی اکائی (یونٹ) کو نیفران کہتے ہیں۔ایک گردے میں تقریباً ۵ئ۲ ملین نیفران ہوتے ہیں۔ پتھریاں گردے، گردے کی نالی اور مثانے میں ہو سکتی ہیں۔ گردوں کا کام جسم کی ویسٹ پراڈکٹس کو پیشاب کے راستے خارج کرناہے۔
پتھریوں کی اقسام اور ان کے بننے کی وجوہات
پتھری مختلف اقسام کی ہوتی ہے۔ کیلشیم، ٹرپل فاسفیٹ، یورک ایسڈ، سسٹین اور ذینتھیسن سے جسم میں پتھری بنتی ہے ۔ اگر پیشاب میں کیلشیم زیادہ ہے تو پتھریاں بنیں گی اور اگر پیشاب میں کیلشیم زیادہ نکل رہا ہے تب بھی بنیں گی۔اگر یورک ایسڈ بڑھ رہا ہے تب بھی بنیں گی لیکن یورینری سٹرریٹ زیادہ ہوںتو پتھری نہیں بنے گی لیکن اگر کم ہوں تو تب پتھریاں بن سکتی ہیں ۔ ۳۰ فیصد لوگوں میں پتھریاں بننے کی وجہ معلوم نہیں کی جاسکتی۔گلے کے غدود کی کارکردگی زیادہ ہو جانے سے کیلشیم ہڈیوں سے موبالائز ہوتی ہے اس سے بھی پتھریاں بن سکتی ہیں۔ چھوٹی انتڑیوں سے کیلشیم کا اخراج، وٹامن ڈی کا زیادہ استعمال ، گردے کے اندر کوئی زخم یا نمک اور زیادہ مسالے دار چیزوں کا استعمال پتھری کا سبب بن سکتا ہے۔ ۲۰ سے ۴۰ سال کی عمر کے مردوں اور عورتوں میں پتھری بننے کی شرح تین اور ایک ہے۔
عورتوں میں زیادہ تر پیشاب کی نالی میں انفکشن اور ہائپر پیراتھرٹزم کی وجہ سے پتھری بنتی ہے ۔ صحرائوں، پہاڑوں اور گرم علاقوں کے رہنے والوںمیں پتھری زیادہ بنتی ہے۔ غریب ملکوں میں گردے کے بجائے مثانے کی نالی یعنی ٹوٹرٹریک میں پتھریاں زیادہ بنتی دیکھی گئی ہیں۔ آپ پانی کم پئیں تو بھی پتھریاں بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ روزوں میں ایک مہینے میں پانی کی کم مقدار سے فرق نہیں پڑتا، لیکن زیادہ عرصہ تک کم مقدار میں پانی پینے سے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ بیٹھ کر زیادہ دیر کام کرنے سے مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ زیادہ عمر کے لوگ جو گوشت زیادہ کھاتے ہیں ان میں زیادہ بنتی ہیں۔ ۵ سال سے کم عمر کے جو بچے گوشت کم اور صرف سبزیاں کھاتے ہیں ان میں مثانے کی پتھریاں زیادہ بنتی ہیں ۔ کچھ مختلف قسم کی ساسز(کیچ اپ وغیرہ ) بھی پتھریوں کا سبب بنتی ہیں۔
خوراک کا کردار
آگزلیٹ زیادہ ہونے کی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ انتڑیوں میں کوئی مسئلہ ہو، لگاتار ، زیادہ چکنائی کا استعمال، فروٹ جس میں آگزلیسٹ زیادہ ہو پتھری بناتا ہے۔ فاسفیٹ بھی ایسے عام ذرات ہیں جو پتھریاں بننے کا موجب بنتے ہیں۔ فاسفیٹ بہت سی سبزیوں میں بھی پایا جاتا لیکن زیادہ تر گوشت اور دودھ کی مصنوعات میں پایا جاتا ہے۔ یہ کیلشیم کے ساتھ مل کر کیلشیم فاسفیٹ پتھریاں بناتا ہے۔ یورک ایسیڈ سٹون ہمارے خوراک کے میٹابولزم سے وجود میں آتے ہیں۔چھوٹا گوشت،بڑا گوشت(خاص طور پر کلیجی، مغز، پائے، ٹکاٹک)، ڈرائی فروٹ ، سرخ لوبیا اور زیادہ نمک کا استعمال اس کا باعث ہے۔
گنٹھیا اور جوڑوں کے درد کے مریضوں میںیورک ایسڈ زیادہ بنتا ہے اور پھر زیادہ بننے کی وجہ سے جب پیشاب میں خارج ہوتا ہے تو اس سے یورک ایسڈ پتھریاں بنتی ہیں۔ یہ پتھریاں اکثر ایکسرے میں نظر نہیں آتیں اور زیادہ تر ادویات سے خارج کی جاسکتی ہیں۔ سائٹریٹ فیملی کے فروٹس، مثلاً لیموں، سنگترہ، مالٹا وغیرہ کیلشیم آئی اور سلفیٹ آئی لینے سے یا کچھ امینوایسڈ لینے سے ، پتھریوں کے بننے کے عمل کو روکا جاسکتا ہے۔
پتھری بننے کی علامات اور تشخیص
پتھری اگر گردے میں ہو تو کمر کے پچھلے حصے میں شدید درد ہوتا ہے۔اس کی وجہ سے انفیکشن اور بلڈ پریشر بھی بڑھ سکتا ہے۔ اگر وہ پتھری گردے اور مثانے کی طرف نالی میں آجائے تو یہ درد پیٹ کے اگلے حصے کی طرف محسوس ہوتا اور پیشاب کی نالی میں درد ہو سکتا ہے۔ یہ الٹرا سائونڈ اورایکسرے کرانے سے پتا چل جاتا ہے۔ اگر یہی پتھری مثانے میں آجائے تو مثانے میں درد ہوتا ہے۔ جب پیشاب کرتے ہیں تو یہ رک رک کر آتا ہے اور اس کے ساتھ خون بھی آسکتا ہے ۔ پتھری کے علاج سے پہلے مستند ڈاکٹر کو دکھائیں، معاینے کے علاوہ الٹراسائونڈ اور ایکسرے کروائیں ۔ اس سے پتا چل جاتا ہے کہ پتھری گردے کے کس حصے میں ہے اور اس کے لیے کیا علاج کرنا چاہیے۔ شدید درد ہو تو قے بھی آتی ہے کیونکہ یہ اللہ کا نظام ہے کہ اس طرح آپ کے جسم میں سے زائد پانی نکل جاتا اور گردے کے اندر کا پریشر کم ہو جاتا ہے ۔
اگر درد زیادہ ہو اور گردے کی نالی میں پتھری ہو تو نہ تو ڈرِپ لگوانی اور نہ پانی زیادہ پینا چاہیے کیونکہ نالی بند ہونے کی وجہ سے پریشر بڑھتا اور درد زیادہ ہوتا ہے۔ جتنی جلدی ہو سکے پتھری کو نکلوانا چاہیے۔ پتھری نکل جائے تو پھرآپ زیادہ پانی نہ پئیں۔ غیر مستند معا لجین سے ہوشیار رہیں وہ کیس کو بگاڑ دیتے ہیںجیسا کہ کامران کے کیس میں ہوا۔ کامران کے “ٹی ڈی پی یے” سکین کو دیکھ کر پتا چلا کہ کڈنی ۳۵ فیصد کام کر رہی تھی۔میں نے جدید ترین طریقہ اپناتے ہوئے پیشاب اور گردے کی نالی میں کیمرے سے جا کر اس ۴۲ئ۱ سینٹی میٹر پتھری کو لیزر سے ریت بنا دیا۔ پتھری بھی پیشاب کے راستے ذرات بن کر خارج ہوگئی اور گردے نے بھی کام کرنا شروع کر دیا۔
درد میں کمی ہونے سے لوگ سمجھتے ہیں کہ پتھری کا دوائوں سے علاج ہو گیا ہے حالانکہ پتھری وہاں موجود ہوتی اور گردے کو نقصان پہنچارہی ہوتی ہے۔
مروجہ علاج
پتھریوں کا جلدی پتا چل جائے اور بننے کی وجہ معلوم ہو جائے تو مختلف ادویات استعمال کی جاتی ہیں۔ یورک ایسڈ پتھری عموماً دوائوں کے استعمال اور خوراک میں احتیاط سے ختم کر سکتے ہیں۔ پتھریاں تھوڑی بڑی ہو جائیں تو اوپن سرجری کے بجائے لیتھو ٹرپسی سے علاج ہوتا ہے۔ پتھری کو ذرات میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور وہ نارمل راستے جسم سے خارج ہو جاتی ہیں۔ زیادہ بڑی پتھریاں نکالنے کے لیے انسٹر ا کاریوریل شاک ویو لیتھو ٹرپسی کی جاتی ہے یعنی مثانے میں اگر ہو تو ہم اسے مثانے میں ریت بنا دیتے ہیں اوریہ پیشاب کے ذریعے خارج ہو جاتی ہے۔ اگر یہ پیشاب کی نالی میں ہو تو وہاں کیمرے کے ذریعے دیکھ کر ، اسے ریت بنا کر خارج کردیا جاتا ہے۔ اگر گردے میں ہو تو “پی سی این ایل” کے ذریعے یعنی مریض کو بے ہوش کر کے اور کمر میں ایک سینٹی میٹر کا سوراخ کر کے وہاں سے گردے کے اندر چلے جاتے ہیں اور پتھری کو کیمرے سے دیکھ کر وہاں لیزرکے ذریعے اسے توڑ دیا اور چھوٹے ٹکڑے کر کے اسی وقت اسی سوراخ سے نکال دیا جاتا ہے۔ اِس طرح مریض اگلے دن اپنے کام پر بھی جاسکتا ہے۔
پتھری بننے سے کیسے روکا جائے
لائف سٹائل بدلنے سے پتھریاں بننے کے امکانات اور خطرات کم ہو جاتے ہیں مثلاً پانی زیادہ پینا، ڈی ہائیڈریٹ ہونے سے بچنا، تازہ پھلوں کا زیادہ استعمال، خشک فروٹ کم لینا، تُرش پھل یعنی لیموں، سنگترہ، مالٹے وغیرہ کا زیادہ استعمال۔ سبزیوں کا زیادہ استعمال پتھری سے بچاتا ہے لیکن جن لوگوں میں آگزلیسٹ کی پتھریاں بنتی ہیں وہ ایسی سبزیاں نہ کھائیں جن میں یہ عنصر پایا جاتا ہے۔کیلشیم جسم کی ضرورت ہے۔ روزانہ کم از کم ایک پائو دودھ ضرور پینا چاہبے۔ نمکین چیزیں کم سے کم کھانی چاہئیں۔ کیلشیم اور سوڈیم کا بیلنس رکھنا بہت ضروری ہے۔
پروٹین غذا کم کھانی چاہیے لیکن ۵ سا ل سے کم عمر بچوں کو پروٹین ڈائٹ ضرور دینی چاہیے تاکہ ان میں مثانے کی پتھریاں نہ بنیں۔چکنائی کا استعمال کم کرنا چاہیے۔مٹاپے میں چربی جمنے سے پتھریاں بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔ وزن نہ بڑھنے دیں اور ایکسر سائز کریں۔ ذہنی دبائو، مایوسی، فکرمندی، پانی کم پینا بھی پتھری بنانے کا باعث ہے۔ سرجری اور علاج معالجے کے جدید ترین طریقوں اور احتیاطی تدابیر سے اس مرض سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
گردے اور پتے میں پتھری کا بننا، پاکستان میں ایک عام مرض ہے لیکن یہ مرض جتنا عام ہے، اتنا ہی اس کے بارے میں غلط فہمیاں زیادہ اور لوگوں کی اس کے متعلق معلومات بہت کم ہیں۔ اس تحریر کا مقصد اپنے قارئین کو آگاہی دینا ہے کہ یہ مرض کیوں پیدا ہوتا اوراس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟ احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟
ہمارے ہاں ایسے سیکڑوں کیس ہوتے ہیں جن میں مرض بگڑ جاتا ہے۔سب سے پہلے معلوم کرنا چاہیے کہ پتھری کہاں اور کیسے بنتی ہے۔ اس کی اقسام کتنی اور اس کے مروجہ علاج کیا ہیں اور کون سی احتیاطی تدابیر ہیں جنھیں اختیار کر کے اس سے بچا اور دوبارہ بننے سے کیسے ر وکا جاسکتا ہے؟
ایک قدیم مرض
تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ سب سے پہلے پتھری ۴۸۰۰ قبل مسیح میں مصری ممیوں میں دیکھی گئی اور ہیپوکریٹ نے بھی پتھری کے آپریشن کا ذکر کیا ہے۔ عموماً ۲ سے ۳ فیصد لوگوں میں پتھریاں بنتی ہیں ۔ ۱۹۸۰ء کے بعد سے جدید علاج کے باعث گردے کی پتھریوں کی وجہ سے گردے کم خراب ہوتے ہیں۔ دنیا میں مختلف ممالک ایسے ہیں جن میں پتھری کی بیماری زیادہ ہے۔ پاکستان بھی دنیا کی اس سٹون بیلٹ میں شامل ہے جہاں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں خاص طور پر سرائیکی بیلٹ میں واقع علاقوں میں پتھریاں زیادہ بنتی ہیں۔ ان میں بہاولپور، بہاول نگر، ڈی جی خان، میانوالی، چکوال، ملتان کے علاقے شامل ہیں۔ پانی کی کمی اور گرمی کا زیادہ ہونا اس کا سبب ہوسکتا ہے ۔
گردوں کا کام
اللہ تعالیٰ ہر انسان کو نے ۲ گردے عطا کیے ہیں۔ ایک نارمل انسانی گردے کا وزن تقریباً ۱۵۰ گرام ہوتا ہے اوراس کے کام کرنے کی اکائی (یونٹ) کو نیفران کہتے ہیں۔ایک گردے میں تقریباً ۵ئ۲ ملین نیفران ہوتے ہیں۔ پتھریاں گردے، گردے کی نالی اور مثانے میں ہو سکتی ہیں۔ گردوں کا کام جسم کی ویسٹ پراڈکٹس کو پیشاب کے راستے خارج کرناہے۔
پتھریوں کی اقسام اور ان کے بننے کی وجوہات
پتھری مختلف اقسام کی ہوتی ہے۔ کیلشیم، ٹرپل فاسفیٹ، یورک ایسڈ، سسٹین اور ذینتھیسن سے جسم میں پتھری بنتی ہے ۔ اگر پیشاب میں کیلشیم زیادہ ہے تو پتھریاں بنیں گی اور اگر پیشاب میں کیلشیم زیادہ نکل رہا ہے تب بھی بنیں گی۔اگر یورک ایسڈ بڑھ رہا ہے تب بھی بنیں گی لیکن یورینری سٹرریٹ زیادہ ہوںتو پتھری نہیں بنے گی لیکن اگر کم ہوں تو تب پتھریاں بن سکتی ہیں ۔ ۳۰ فیصد لوگوں میں پتھریاں بننے کی وجہ معلوم نہیں کی جاسکتی۔گلے کے غدود کی کارکردگی زیادہ ہو جانے سے کیلشیم ہڈیوں سے موبالائز ہوتی ہے اس سے بھی پتھریاں بن سکتی ہیں۔ چھوٹی انتڑیوں سے کیلشیم کا اخراج، وٹامن ڈی کا زیادہ استعمال ، گردے کے اندر کوئی زخم یا نمک اور زیادہ مسالے دار چیزوں کا استعمال پتھری کا سبب بن سکتا ہے۔ ۲۰ سے ۴۰ سال کی عمر کے مردوں اور عورتوں میں پتھری بننے کی شرح تین اور ایک ہے۔
عورتوں میں زیادہ تر پیشاب کی نالی میں انفکشن اور ہائپر پیراتھرٹزم کی وجہ سے پتھری بنتی ہے ۔ صحرائوں، پہاڑوں اور گرم علاقوں کے رہنے والوںمیں پتھری زیادہ بنتی ہے۔ غریب ملکوں میں گردے کے بجائے مثانے کی نالی یعنی ٹوٹرٹریک میں پتھریاں زیادہ بنتی دیکھی گئی ہیں۔ آپ پانی کم پئیں تو بھی پتھریاں بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ روزوں میں ایک مہینے میں پانی کی کم مقدار سے فرق نہیں پڑتا، لیکن زیادہ عرصہ تک کم مقدار میں پانی پینے سے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ بیٹھ کر زیادہ دیر کام کرنے سے مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ زیادہ عمر کے لوگ جو گوشت زیادہ کھاتے ہیں ان میں زیادہ بنتی ہیں۔ ۵ سال سے کم عمر کے جو بچے گوشت کم اور صرف سبزیاں کھاتے ہیں ان میں مثانے کی پتھریاں زیادہ بنتی ہیں ۔ کچھ مختلف قسم کی ساسز(کیچ اپ وغیرہ ) بھی پتھریوں کا سبب بنتی ہیں۔
خوراک کا کردار
آگزلیٹ زیادہ ہونے کی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ انتڑیوں میں کوئی مسئلہ ہو، لگاتار ، زیادہ چکنائی کا استعمال، فروٹ جس میں آگزلیسٹ زیادہ ہو پتھری بناتا ہے۔ فاسفیٹ بھی ایسے عام ذرات ہیں جو پتھریاں بننے کا موجب بنتے ہیں۔ فاسفیٹ بہت سی سبزیوں میں بھی پایا جاتا لیکن زیادہ تر گوشت اور دودھ کی مصنوعات میں پایا جاتا ہے۔ یہ کیلشیم کے ساتھ مل کر کیلشیم فاسفیٹ پتھریاں بناتا ہے۔ یورک ایسیڈ سٹون ہمارے خوراک کے میٹابولزم سے وجود میں آتے ہیں۔چھوٹا گوشت،بڑا گوشت(خاص طور پر کلیجی، مغز، پائے، ٹکاٹک)، ڈرائی فروٹ ، سرخ لوبیا اور زیادہ نمک کا استعمال اس کا باعث ہے۔
گنٹھیا اور جوڑوں کے درد کے مریضوں میںیورک ایسڈ زیادہ بنتا ہے اور پھر زیادہ بننے کی وجہ سے جب پیشاب میں خارج ہوتا ہے تو اس سے یورک ایسڈ پتھریاں بنتی ہیں۔ یہ پتھریاں اکثر ایکسرے میں نظر نہیں آتیں اور زیادہ تر ادویات سے خارج کی جاسکتی ہیں۔ سائٹریٹ فیملی کے فروٹس، مثلاً لیموں، سنگترہ، مالٹا وغیرہ کیلشیم آئی اور سلفیٹ آئی لینے سے یا کچھ امینوایسڈ لینے سے ، پتھریوں کے بننے کے عمل کو روکا جاسکتا ہے۔
پتھری بننے کی علامات اور تشخیص
پتھری اگر گردے میں ہو تو کمر کے پچھلے حصے میں شدید درد ہوتا ہے۔اس کی وجہ سے انفیکشن اور بلڈ پریشر بھی بڑھ سکتا ہے۔ اگر وہ پتھری گردے اور مثانے کی طرف نالی میں آجائے تو یہ درد پیٹ کے اگلے حصے کی طرف محسوس ہوتا اور پیشاب کی نالی میں درد ہو سکتا ہے۔ یہ الٹرا سائونڈ اورایکسرے کرانے سے پتا چل جاتا ہے۔ اگر یہی پتھری مثانے میں آجائے تو مثانے میں درد ہوتا ہے۔ جب پیشاب کرتے ہیں تو یہ رک رک کر آتا ہے اور اس کے ساتھ خون بھی آسکتا ہے ۔ پتھری کے علاج سے پہلے مستند ڈاکٹر کو دکھائیں، معاینے کے علاوہ الٹراسائونڈ اور ایکسرے کروائیں ۔ اس سے پتا چل جاتا ہے کہ پتھری گردے کے کس حصے میں ہے اور اس کے لیے کیا علاج کرنا چاہیے۔ شدید درد ہو تو قے بھی آتی ہے کیونکہ یہ اللہ کا نظام ہے کہ اس طرح آپ کے جسم میں سے زائد پانی نکل جاتا اور گردے کے اندر کا پریشر کم ہو جاتا ہے ۔
اگر درد زیادہ ہو اور گردے کی نالی میں پتھری ہو تو نہ تو ڈرِپ لگوانی اور نہ پانی زیادہ پینا چاہیے کیونکہ نالی بند ہونے کی وجہ سے پریشر بڑھتا اور درد زیادہ ہوتا ہے۔ جتنی جلدی ہو سکے پتھری کو نکلوانا چاہیے۔ پتھری نکل جائے تو پھرآپ زیادہ پانی نہ پئیں۔ غیر مستند معا لجین سے ہوشیار رہیں وہ کیس کو بگاڑ دیتے ہیںجیسا کہ کامران کے کیس میں ہوا۔ کامران کے “ٹی ڈی پی یے” سکین کو دیکھ کر پتا چلا کہ کڈنی ۳۵ فیصد کام کر رہی تھی۔میں نے جدید ترین طریقہ اپناتے ہوئے پیشاب اور گردے کی نالی میں کیمرے سے جا کر اس ۴۲ئ۱ سینٹی میٹر پتھری کو لیزر سے ریت بنا دیا۔ پتھری بھی پیشاب کے راستے ذرات بن کر خارج ہوگئی اور گردے نے بھی کام کرنا شروع کر دیا۔
درد میں کمی ہونے سے لوگ سمجھتے ہیں کہ پتھری کا دوائوں سے علاج ہو گیا ہے حالانکہ پتھری وہاں موجود ہوتی اور گردے کو نقصان پہنچارہی ہوتی ہے۔
مروجہ علاج
پتھریوں کا جلدی پتا چل جائے اور بننے کی وجہ معلوم ہو جائے تو مختلف ادویات استعمال کی جاتی ہیں۔ یورک ایسڈ پتھری عموماً دوائوں کے استعمال اور خوراک میں احتیاط سے ختم کر سکتے ہیں۔ پتھریاں تھوڑی بڑی ہو جائیں تو اوپن سرجری کے بجائے لیتھو ٹرپسی سے علاج ہوتا ہے۔ پتھری کو ذرات میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور وہ نارمل راستے جسم سے خارج ہو جاتی ہیں۔ زیادہ بڑی پتھریاں نکالنے کے لیے انسٹر ا کاریوریل شاک ویو لیتھو ٹرپسی کی جاتی ہے یعنی مثانے میں اگر ہو تو ہم اسے مثانے میں ریت بنا دیتے ہیں اوریہ پیشاب کے ذریعے خارج ہو جاتی ہے۔ اگر یہ پیشاب کی نالی میں ہو تو وہاں کیمرے کے ذریعے دیکھ کر ، اسے ریت بنا کر خارج کردیا جاتا ہے۔ اگر گردے میں ہو تو “پی سی این ایل” کے ذریعے یعنی مریض کو بے ہوش کر کے اور کمر میں ایک سینٹی میٹر کا سوراخ کر کے وہاں سے گردے کے اندر چلے جاتے ہیں اور پتھری کو کیمرے سے دیکھ کر وہاں لیزرکے ذریعے اسے توڑ دیا اور چھوٹے ٹکڑے کر کے اسی وقت اسی سوراخ سے نکال دیا جاتا ہے۔ اِس طرح مریض اگلے دن اپنے کام پر بھی جاسکتا ہے۔
پتھری بننے سے کیسے روکا جائے
لائف سٹائل بدلنے سے پتھریاں بننے کے امکانات اور خطرات کم ہو جاتے ہیں مثلاً پانی زیادہ پینا، ڈی ہائیڈریٹ ہونے سے بچنا، تازہ پھلوں کا زیادہ استعمال، خشک فروٹ کم لینا، تُرش پھل یعنی لیموں، سنگترہ، مالٹے وغیرہ کا زیادہ استعمال۔ سبزیوں کا زیادہ استعمال پتھری سے بچاتا ہے لیکن جن لوگوں میں آگزلیسٹ کی پتھریاں بنتی ہیں وہ ایسی سبزیاں نہ کھائیں جن میں یہ عنصر پایا جاتا ہے۔کیلشیم جسم کی ضرورت ہے۔ روزانہ کم از کم ایک پائو دودھ ضرور پینا چاہبے۔ نمکین چیزیں کم سے کم کھانی چاہئیں۔ کیلشیم اور سوڈیم کا بیلنس رکھنا بہت ضروری ہے۔
پروٹین غذا کم کھانی چاہیے لیکن ۵ سا ل سے کم عمر بچوں کو پروٹین ڈائٹ ضرور دینی چاہیے تاکہ ان میں مثانے کی پتھریاں نہ بنیں۔چکنائی کا استعمال کم کرنا چاہیے۔مٹاپے میں چربی جمنے سے پتھریاں بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔ وزن نہ بڑھنے دیں اور ایکسر سائز کریں۔ ذہنی دبائو، مایوسی، فکرمندی، پانی کم پینا بھی پتھری بنانے کا باعث ہے۔ سرجری اور علاج معالجے کے جدید ترین طریقوں اور احتیاطی تدابیر سے اس مرض سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔