Thursday, 29 May 2014

کم عمری میں ہارٹ اٹیک


ذاتی صحت سے بے خبررہنے والوں کے لیے لمحۂ فکریہ جمشید اشیائے خورونوش بنانے والی ایک بڑی کمپنی میں سیلز مین تھا۔ وہ ملک بھر میں گھوم پھر کر آرڈر لیتا، اکثر سفر میں رہتا اور سخت محنت و مشقت کرتا۔ کمپنی اس کے کام سے خوش تھی۔ اس کی تنخواہ معقول تھی اور وہ خوشحال زندگی بسر کررہا تھا۔ایک رات وہ بیرونی سفر کرکے گھر پہنچا تو اس کی طبیعت سخت خراب ہوگئی۔ وہ فوری طور پر ہسپتال پہنچا۔ اس کے بدن میں اینٹھن ہو رہی اور وہ قے کررہا تھا۔ اُسے ایمرجنسی روم پہنچایا گیا، ڈاکٹر نے اس کا بڑی توجہ سے معاینہ کیا اور اسے بُری خبر سنائی کہ اُسے ہارٹ اٹیک ہوچکا ہے۔ وہ بڑا حیران ہوا۔وہ جوان تھا۔ اس کی عمر صرف 43 سال تھی۔ اِس سے قبل جمشید نے دل کی تکلیف کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ اسی لیے جمشید کو یقین نہ آیا لیکن جب ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اگر فوری طور پر اسے طبی امداد نہ ملی تو وہ مر بھی سکتا ہے تو اسے یقین کرنا پڑا۔جمشید کو فوری طور پر آپریشن تھیٹر پہنچایا گیا۔ سرجنوں نے اس کے سینے میں 3 ٹیوبیں جنھیں سٹنٹ کہا جاتا ہے، اس کی بند شریانیں کھولنے کے لیے داخل کردیں۔ اس آپریشن سے اس کی جان تو بچ گئی لیکن کئی سوال اُٹھ کھڑے ہوئے کہ اُسے اتنی کم عمری میں دل کا دورہ کیوں پڑا؟ اس کے پورے خاندان میںکبھی کسی کو دل کی بیماری نہیں تھی۔ 2004 میں 29 ہزار افراد کے معاینے کے بعد یہ نتیجہ اَخذ کیا گیا تھا کہ امراضِ قلب میںمبتلا 90 فیصدلوگ کولیسٹرول کی زیادتی اورذیابیطس کے باعث اس کانشانہ بنے۔ جمشید کی عمر جب 40 سال تھی تو اُس وقت سے اس کے جسم میں کولیسٹرول کی سطح زیادہ تھی۔ اس نے کھانے پینے میں پرہیز شروع کردی تھی لیکن دعوتوں کے موقع پر جو اکثر ہوتی تھیں، وہ بدپرہیزی کر بیٹھتا۔ماہرین کہتے ہیں کہ آپ ہارٹ اٹیک ہونے کے صحیح وقت کا تو اندازہ نہیں لگا سکتے لیکن احتیاط کرکے اِس جان لیوا بیماری سے کافی حد تک بچ سکتے ہیں۔ مردوں کو عورتوں کی نسبت ہارٹ اٹیک 10 سے 15 برس قبل ہوتا ہے۔ عموماً مردوں کو 45 سال بعد اور عورتوں کو 55 سے 40 سال بعد جمشید نہ تو الکوحل استعمال کرتا تھا، نہ تمباکو نوشی۔ وہ ورزش بھی کرتا تھا لیکن اس کی بیماری کی وجہ کچھ اور تھی۔ دراصل وہ روزانہ 13 گھنٹے کام کرتا تھا۔ اکثر گھر سے باہر سفر میں رہتا ۔ دوسریکمپنیوں سے اس کی کمپنی کا زبردست مقابلہ تھا۔ وہ اکثر فکرمند رہتا تھا کہ مصنوعات کی فروخت گر نہ جائے۔لہٰذا زیادہ کام اور ذہنی دبائونے اسے بیمار کردیا ۔ ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ 8 گھنٹے روزانہ کام کرنا کافی ہے۔ 11گھنٹے سے زیادہ کام کرنا دل کے دورے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ جمشید ڈاکٹروں کی بات سمجھ گیا اوراب اُن کی ہدایت کے مطابق زندگی گزار رہا ہے۔