طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسپرین کے روزانہ استعمال سے آنتوں کے کینسر میں مبتلا مریضوں کی موت کے امکانات تین چوتھائی کم ہو جاتے ہیں۔
کینسر سے متعلق برطانوی جریدے میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق ہالینڈ میں میں رہنے والے چار ہزار پانچ سو آنتوں کے کینسر میں مبتلا مریضوں پر یہ تحقیق کی گئی۔
یہ تمام مریض روزانہ اسی ملی گرام یا اس سے کم مقدار میں ایسپرین کا استمعال کرتے تھے۔
تاہم طبی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ آنتوں کے کینسر میں مبتلا مریضوں کے لیے یہ ابتدائی علاج ہے۔
مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چند ایسے کینسر ہیں جن کا پھیلاؤ ایسپرین کے استمعال سے پہلے مرحلے میں رک سکتا ہے۔
حالیہ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایسپرین کا استعمال کینسر تھراپی کا کام دیتا ہے۔
تاہم اس دوائی کے زیادہ استعمال سے جسم میں خطرناک منفی اثرات ہو سکتے ہیں جس میں معدے میں سوزش ہو سکتی ہے۔
دس سال پر محیط تحقیق کے مطابق تین چوتھائی مریضوں نے ایسپرین کا استمعال نہیں کیا، تین چوتھائی مریضوں نے آنتوں کا کینسر معلوم ہونے پر ایسپرین کا استعمال کیا جبکہ باقی مریضوں نے مرض کا پتہ چلنے سے پہلے اور بعد میں ایسپرین کا استعمال کیا۔
متعدد مریضوں نے دل کے مرض جیسی بیماری سے بچنے کے لیے ایسپرین کا استعمال کیا۔
تحقیق کے مطابق ایسرپن کے استمعال سے آنتوں کے کینسر میں مبتلا مریضوں کی اموات میں تیئس فیصد کمی ہوئی۔
تحقیق کے مطابق آنتوں کے کینسر میں مبتلا ایسے مریض جو روزانہ نو ماہ تک ایسپرین استعمال کرتے رہے ان میں مرنے کی شرح تیس فیصدتک کمی ہوئی۔
لیڈن یونیورسٹی کے میڈیکل سینٹر اور تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر گیرٹ جان کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق سے اس بات کا پتہ چلا ہے کہ ایسپرین کا استمعال نہ صرف کینسر کو پیدا ہونے سے روکتا ہے بلکہ یہ کینسر کو مذید پھیلنے سے بھی روکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسپرین کو دوسرے علاج جیسا کہ کیموتھراپی کے متبادل کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے تاہم اس کا استمعال اضافی علاج کے طور پر ہو سکتا ہے۔
برطانوی کینسر ریسرچ کی سارہ لائینس کا کہنا ہے کہ تازہ ترین تحقیق سے ایسپرین کے استعمال سے ہونے والے فوائد کا پتہ چلا ہے۔
انہوں نے مذید کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم لوگو ں کو کینسر کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے انہیں ایسپرین کا استمعال کرنے کی سفارش کر رہے ہیں۔