Thursday, 29 May 2014

ہڈیوں کے لیے مفید غذائیں


75 سالہ ’’باباجی‘‘ توقیر حسین اس عمر میں بھی بڑے چاق و چوبند ہیں۔ وہ اپنے گھر کے بھی اکثر کام کرتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو بازار بھی چلے جاتے ہیں۔ ورنہ اس عمر میں اکثر مردوزن کی ہڈیاں اتنی کمزور ہوجاتی ہیں کہ ان کے لیے دو قدم چلنا بھی دشوار ہوتا ہے۔ توقیر حسین کی ہڈیوں کی مضبوطی کا راز یہ ہے کہ وہ باقاعدگی سے ایسی غذائیں کھاتے ہیں جن میں کیلشیم اور وٹامن ڈی موجود ہو۔ ہڈیاں مضبوط کرنے میں ان دونوں غذائی عناصر کا بنیادی کردار ہے۔ کیلشیم ہماری ہڈیاں طاقتور بناتا جبکہ وٹامن ڈی کی بدولت کیلشیم انسانی جسم میں بہ سہولت جذب ہوتا ہے۔ یہ وٹامن ہڈیوں کی نشوونما میں بھی سودمند ہے۔

بچوں اور نوجوانوں کو یہ دونوں غذائی عناصر ضرور لینے چاہئیں کیونکہ تب ہڈیاں بڑھ رہی ہوتی ہیں۔ تاہم ادھیڑ عمری اور بڑھاپے میں بھی ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر بڑھاپے میں بیشتر مرد و زن ہڈیوں کی ایک بیماری ’’بوسیدگی استخوان‘‘ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس بیماری میں ہڈیاں رفتہ رفتہ نہایت کمزور ہوجاتی ہیں۔ تاہم انسان غذائوں یا ادویہ کے ذریعے وافر کیلشیم اور وٹامن ڈی لے، تو ہڈیاں جلد بھربھری نہیں ہوتیں اور یوں ان کے ٹوٹنے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

ماہرین طب کے مطابق ۵۰ سال کی عمر تک مردو زن کو روزانہ ۱۰۰۰ ملی گرام کیلشیم جبکہ ۲۰۰ عالمی یونٹوں کے وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ ۵۰ سال سے زائد عمر کے مردوزن کے لیے لازم ہے کہ وہ روزانہ ۱۲۰۰ ملی گرام کیلشیم جبکہ ۴۰۰ سے ۶۰۰ عالمی یونٹ وٹامن ڈی استعمال کریں۔ ذیل میں ایسی غذائوں کا ذکر ہے جن میں دونوں غذائی عناصر وافر مقدار میں ملتے ہیں۔ بازار میں ایسی گولیاں دستیاب ہیں جن میں کیلشیم اور وٹامن ڈی ہوتا ہے، تاہم ڈاکٹر غذائوں میں موجود فطری غذائی عناصر کو ترجیح دیتے ہیں۔

دہی​
وٹامن ڈی کے سلسلے میں قباحت یہ ہے کہ وہ بہت کم غذائوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ وٹامن بنیادی طور پر سورج کی روشنی سے حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ کوئی انسان پندرہ بیس منٹ روزانہ دھوپ میں کھڑا ہو، تو اُسے وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار مل جاتی ہے۔ مغربی ممالک میں مسئلہ یہ ہے کہ موسم سرما اور برسات کے دوران وہاں اکثر سورج نہیں نکلتا۔ چنانچہ وہاں ایسا دہی سامنے آیا ہے جس میں مصنوعی وٹامن ڈی شامل کیا جاتا ہے۔ چونکہ دہی میں قدرتاً وافر کیلشیم ہوتا ہے، لہٰذا انسانی صحت کے لیے وہ سہ آتشہ بن گیا۔ اس خاص دہی کا صرف ایک پیالہ کیلشیم کی روزانہ ۳۰ فیصد جبکہ وٹامن ڈی کی ۲۰ فیصد ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ ہمارے ہاں عام دستیاب دہی میں کیلشیم تو خاصا ملتا ہے، البتہ وٹامن ڈی کی بہت کم مقدار ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے یہ سوچ کر نہ کھائیے کہ وہ وٹامن ڈی کی مطلوبہ ضرورت پوری کر دے گا۔

دُودھ​
دنیا کی تمام غذائوں میں سب سے زیادہ کیلشیم دودھ ہی میں ملتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ صرف ایک گلاس دودھ کیلشیم کی ۳۰ فیصد روزانہ ضرورت پوری کردیتا ہے۔ اگر یہ دودھ چکنائی سے پاک ہو، تو اچھا ہے کہ یوں انسان کو محض ۹۰ حرارے (کیلوریز) ملتے ہیں۔ مغربی ممالک میں اب دودھ میں بھی مصنوعی وٹامن ڈی شامل کیا جا رہا ہے تاکہ اُسے زیادہ غذائیت بخش بنایا جاسکے۔

پنیر​
پنیر دہی سے بھی زیادہ کثیف ہوتا ہے۔ اسی لیے اس میں سب سے زیادہ کیلشیم ہوتا ہے۔ اگر انسان محض ۵ئ۱ اونس پنیر کھالے، تو اُسے ۳۰ فیصد کیلشیم مل جاتا ہے لیکن پنیر ہضم کرنا کٹھن مرحلہ ہے، اسی لیے اُسے کثیر مقدار میں کھانے کی کوشش نہ کریں۔ پنیر کی معتدل مقدار ہی فائدہ پہنچاتی ہے۔پنیر میں وٹامن ڈی کی بھی معمولی مقدار ملتی ہے۔ تاہم وہ اس غذائی عنصر کی مطلوبہ ضرورت پوری نہیں کر سکتا۔ لہٰذا وٹامن ڈی کے معاملے میں محض پنیر پر بھروسا مت کریں۔

مچھلی​
سالمن، سارڈین اور ٹونا وہ سمندری مچھلیاں ہی جن میں وٹامن ڈی کثیر مقدار میں ملتا ہے، تاہم پاکستانی سمندروں میں یہ مچھلیاں کم ہی ملتی ہیں۔ گو ڈبوں میں دستیاب ہیں لیکن مہنگا ہونے کے باعث امیر لوگ ہی انھیں کھا سکتے ہیں۔ دیگر مچھلیوں میں وٹامن ڈی اتنا زیادہ نہیں پایا جاتا۔

انڈے​
گو ایک انڈہ ہمیں صرف ۶ فیصد وٹامن ڈی مہیا کرتا ہے، لیکن یہ ایک عام دستیاب غذاہے۔ پھر اسے پکانا بھی آسان ہے۔ واضح رہے کہ وٹامن ڈی زردی میں ہوتا ہے، لہٰذا جو مردوزن دو تین انڈے کھانا چاہیں، وہ سفیدی نہ کھائیں۔ یوں انھیں کم حرارے ملیں گے۔

ساگ​
سبزیوں میں کیلشیم سب سے زیادہ ساگ میں ملتا ہے۔ چنانچہ جو افراد دودھ پینے کے شوقین نہیں، وہ ساگ سے مطلوبہ کیلشیم حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک پیالی ساگ ہمیں ۲۵ فیصد کیلشیم فراہم کرتا ہے نیز یہ سبزی ریشہ (فائبر)، فولاد اور وٹامن اے کی خاصی مقدار بھی رکھتی ہے۔

مالٹے کا رس​
آج کل بازار میں مالٹے کے ذائقے والے ایسے ادویاتی رس دستیاب ہیں جن میں وٹامن سی کے علاوہ کیلشیم اور وٹامن ڈی بھی شامل ہوتا ہے۔ ان مشروبات میں وٹامن سی شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ غذائی عنصر بھی کیلشیم جسم انسانی میں جذب کراتا ہے ۔ چنانچہ اس کی غذائی اہمیت بھی مسلم ہے۔

تھکن کی کیا وجہ ہے؟​
دورِجدید میں تھکن اور جسمانی درد سیکڑوں مردوزن کو نشانہ بناتا ہے۔ اب ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ خصوصاً خواتین میں تھکن کی ایک وجہ فولاد کی کمی ہو سکتی ہے۔ (وہ اس لیے کہ حیض کے دوران بہت سا خون نکلنے کے بعد جسم میں فولاد کی مقدار کم ہوجاتی ہے) یاد رہے، ہر انسان کو کم از کم ۱۸ ملی گرام فولاد روزانہ درکار ہوتا ہے۔ ایک تجربے میں سوئٹزرلینڈ کی لوزین یونیورسٹی میں ۲۰۰ خواتین کو ۳ ماہ تک ۸۰ ملی گرام فولاد کی گولیاں کھلائی گئیں۔ یہ خواتین تھکن، سستی اور غنودگی کا شکار تھیں۔

ء۳ ماہ بعد دیکھا گیا کہ ۹۰ فیصد خواتین میں ۵۰ فیصد تک تھکن کم ہو گئی۔ چنانچہ ڈاکٹروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایام بند ہونے سے قبل خواتین میں کمیِ فولاد تھکن کی ایک اہم وجہ ہوتی ہے۔ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تھکن مختلف جسمانی وجوہ کے باعث جنم لیتی ہے، لہٰذا اصل وجہ تک پہنچنے کے لیے جسمانی معاینہ ضروری ہے۔ مزید برآںجسم میں فولاد کی زیادتی ہوجائے تو یہ بھی بڑا خطرناک امر ہے۔ ایسی صورتِ حال میں کوئی عضو بھی خراب ہو سکتا ہے۔

چکنائیاں جو کھانی چاہئیں​
ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ حراروں کی روزانہ انسانی ضرورت میں سے ۲۰ تا ۳۰ فیصد حرارے چکنائیوں سے آنے چاہئیں۔ ایک عام انسان کو روزانہ ۲۰۰۰ حرارے درکار ہوتے ہیں۔ گویا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزانہ ۵۰ تا ۷۰ گرام چکنائی غذائوں سے حاصل کرے۔یہ واضح رہے کہ چکنائیوں کی ۵ اقسام ہیں۔ ان کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔

سیرشدہ چکنائی​
ماہرین طب سیر شدہ چکنائی کو ’’بُری‘‘ چکنائی کہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انسانی جسم میں اس چکنائی کی زیادتی ہوجائے، تو انسان امراضِ قلب کا نشانہ بن جاتا ہے۔ تاہم جدید تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ بعض سیرشدہ چکنائیاں دل کی بیماریاں پیدا نہیں کرتیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان سیرشدہ چکنائیوں کو ہمارا جسم بہت جلد تحلیل کر دیتا ہے۔ چنانچہ وہ بدن میں لوتھڑے کی صورت نہیں جمتیں۔ ماہرین کی رو سے اب وہ چکنائی حقیقی سیرشدہ اور ’’بُری‘‘ ہے جو کمرے کے درجہ حرارت میں ٹھوس بن جائے۔ لہٰذا ایسی چکنائی کم ہی استعمال کیجیے۔

سیرشدہ چکنائی کی غذائیں​
ایک چمچ نمکین مکھن (۱۲ گرام چکنائی، ۱۰۲ حرارے)، ایک چمچ ناریل کا تیل (۱۴ گرام چکنائی، ۱۱۷ حرارے)، ۸ اونس کم چکنائی والا دودھ (۵ گرام چکنائی، ۱۲۲ حرارے)، ۳ اونس پکا ہوا بڑا گوشت، چربی کے بغیر (۱۳ گرام چربی، ۲۱۲ حرارے)۔

یک ناسیرشدہ چکنائی تیزاب​
یہ چکنائیوں کی وہ قسم ہے جو کمرے کے درجہ حرارت میں تیل کی طرح مائع بن جاتی ہے۔ یک ناسیرشدہ چکنائی تیزابوں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ جسم میں کولیسٹرول کی سطح معمول پر لاتے ہیں۔ یوں ذیابیطس قسم دوم اور امراض قلب چمٹنے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ یہ چکنائیاں عموماً نباتات میں ملتی ہیں۔

یک ناسیرشدہ چکنائی تیزابوں کی غذائیں​
ایک چمچ مکئی، سورج مکھی، سویابین، مونگ پھلی اور دیگر سبزیوں و مغزیات کا تیل (۱۴ گرام چکنائی، ۱۲۰ حرارے)، ایک اونس سورج مکھی کے بھنے بیج (۱۴ گرام چکنائی، ۱۶۵ حرارے)۔

کثیر ناسیرشدہ چکنائی تیزابوں کی غذائیں​
ء۱۰ بڑے زیتون (۴ گرام چکنائی، ۴۰ حرارے)، ایک چمچ مونگ پھلی کا مکھن (۸ گرام چکنائی، ۹۴ حرارے)، آدھی ناشپاتی (۷ گرام چکنائی، ۸۰ حرارے)۔

اومیگا-۳ چکنائی تیزاب​
یہ چکنائیاں ہمیں امراض قلب سے بچاتی ہیں۔ تاہم غذا سے اومیگا-۳ چکنائی تیزاب حاصل کرنا خاصا خرچہ مانگتا ہے مثلاً امراض قلب سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ روزانہ ۵۰۰ ملی گرام یہ چکنائیاں کھائیں۔ گویا آپ کو ہر ہفتے ۳ بار کم از کم ایک کلو مچھلی کھانا ہوگی۔ یہ چکنائیاں بدن کو سوزش سے بھی پاک رکھتی ہیں۔

اومیگا- ۳ چکنائی تیزاب کی غذائیں​
ء۳ اونس پکی سالمن مچھلی (۴ گرام چکنائی، ۱۱۴ حرارے)، ایک ڈبا سارڈین مچھلی مع تیل (۱۱ گرام چکنائی، ۱۹۱ حرارے)، ایک اونس اخروٹ (۱۸ گرام چکنائی، ۱۸۵ حرارے)۔

اومیگا-۶ چکنائی تیزاب​
چکنائی کی یہ قسم بھی ہمیں امراض قلب سے محفوظ رکھتی ہے۔ مگر قباحت یہ ہے کہ ہمارے جسم میں اومیگا-۳ اور اومیگا-۶ چکنائیوں کی مقدار برابر ہونا ضروری ہے۔ اگر دونوں میں توازن نہ رہے، تو اومیگا-۶ چکنائی کی زیادتی اُلٹا دل کو نقصان پہنچاتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا، پاکستان، برطانیہ سمیت بیشتر ممالک میں لوگ اومیگا-۶ چکنائی زیادہ کھاتے ہیں۔ اسی لیے وہ ہمہ قسم کے امراض قلب کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اگر بدن میں اومیگا-۶ اور اومیگا-۳ کی مقدار برابر ہو، تو اول الذکر چکنائی غذا سے زیادہ حیاتین جسم میں جذب کراتی ہے۔

اومیگا-۶ چکنائی تیزاب کی غذائیں​
ایک چمچ مارجرین (۱۱ گرام چکنائی، ۱۰۱ حرارے)، ۲ چمچ نِباتی تیلوں والا سلاد (۱۷ گرام چکنائی، ۱۶۳ حرارے)، ایک چمچ بادام کا مکھن (۹ گرام چکنائی، ۹۸ حرارے)۔