بانجھ پن.......(Infertility)
جنسی قوت انسان کی افریندہ قوت ہے۔یہ تہذیب وتمدن کی ماں ہے ۔اسی قوت سے نسل انسانی بڑھتی ہے اور اسی قوت سے انسان میں آگے بڑھنے کی صلاحتیں پیداہوتی ہیں۔اس قوت کا نصف حصہ مرد اور نصف حصہ عورت میں ہوتا ہے ۔دونوں تنہا اپنی اپنی جگہ نامکمل ہیں گو ان کی تخلیق تو مکمل ہے لیکن ان کا فعل ایک دوسرے کی مدد کے بغیر ادھورارہ جاتا ہے۔
دونوں ہی اپنے دل و دماغ میں ایک کمی سی محسوس کرتے ہیں۔ مردعورت کے بغیر تشنہ اور عورت کے حاسل کرلینے کے بعد مطمئن ہوجاتا ہے۔اسی طرح عورت مرد کے حاصل کرلینے کے بعد کامل سکون اور یکجہتی محسوس کرتی ہے۔یہ قدرت کا اٹل قانون ہے اور پھر ان کے جیون ساتھی بن جانے کے بعد ہی نسل کی افزائش کا فعل مکمل ہوتا ہے کیونکہ شجر زندگی کا خوشگوار ثمر اولاد ہی ہے۔دنیامیں وہ لوگ کم نصیب سمجھے جاتے ہیں جو اولاد جیسی پسندیدہ نعمت سے محروم ہوں۔اگر کسی شخص کو دنیا کی تمام نعمتیں ،تندرستی بشمول عیش وحکومت حاصل ہو لیکن اولاد نہ ہو تو اس کو یہ تمام چیزیں ہیچ و ناکارہ معلوم ہوتی ہیں۔مرد اور عورت کے بوڑھے ہونے سے پہلے اگر کوئی چیز دونوں کو اس نعمت سے مایوس کرنے والی ہے تو وہ محض بانجھ پن ہے جسے عقر بھی کہا جاتا ہے۔اس مرض میں عورت میں حاملہ ہونے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔یہ کمی تو مردوں میں بھی ہوتی ہے یا عورتوں میں یا بعض اوقات دونوں میں ہوتی ہے۔پرانے زمانے میں اکثر اقوام و مذاہب اس مرض کو ایک مصیبت خیال کیا کرتے تھے او راس وقت کے قوانین مذہبی و ملکی سے بانجھ عورتوں کو حقوق زوجیت سے محروم کیا جاتا تھا ۔دنیا کے اکثر ممالک مثلًا مصر ،شام ،ایران اور ہندوستان وغیر ہ میں یہ مرض اب تک ویسا ہی مذموم اور منحوس خیال کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ زمانہ قدیم میں اس مرض کو عورت سے ہی مخصوص کیا جاتا تھا لیکن بعد کی تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ تیس سے چالیس فیصد واقعات میں اس مرض کاسبب مرد ہی ہوا کرتے ہیں۔
اقسام:
(۱)عقر مطلق(Absolute Infertility)یہ قسم خواہ مرد وں میں ہو یا عورتوں میں اس کا کوئی علاج نہیں ۔مردوں میں اس کا سبب اسپرم یعنی منی کا سے سے پیدا نہ ہونا یا پھر منی میں اسپرم(منی کے کیڑے)کا بالکل نہ پایا جانا ،ان کی تعداد میں کمی کا ہونا ،اس کے علاوہ بعض امراض کے سبب خصیتین (Testies)کو سرجری کے ذریعے نکال دینا بھی ہے۔
(۲)عقر نسبتی(Relative Infertility)اس قسم کا علاج ممکنات میں سے ہے لیکن بعض اوقات اس کے بھی اسباب بذریعہ تفتیش معلوم نہیں کئے جا سکتے۔بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ حمل تو ٹھہر جاتا ہے لیکن اسقاط ہوجاتا ہے یا پھر پہلا بچہ طبعی مدت میں طبعی طریقے پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے بعد پھر حمل نہیں ٹھہر تا ۔اس صورت کو One Child Sterlityکہتے ہیں۔عمومًا یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ 30سے 40فیصد واقعات میں عقر کا سبب مرد ہی ہوا کرتے ہیں اس لئے عورت کا Investigationکرانے سے پہلے مرد کا مکمل Investigationکرایا جانا چاہئے۔
اسباب: عورتوں میں اسباب کے لحاظ سے بانجھ پن کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔
(۱)پیدائشی بانجھ پن:
(۱)پردہ بکارت (ہائمین)کابہت سخت دبیز اور بالکل تنگ ہونا ۔اس مرضکا ایک اہم سبب ہے پرد�ۂ بکارت ۔دراصل اندام نہانی کی لعاب دار جھلی کی ایک ہلالی شکل کا ایک باریک پردہ ہے جو اندام نہانی کے سوراخ کے نچلے حصے پر واقع ہوتا ہے اور اسے مکمل طورپر بندرکھتا ہے۔اس کے درمیان ایک یا کئی باریک باریک سوراخ ہوتے ہیں جن کی راہ حیض کا خون جاری ہوتا رہتا ہے۔یہ عمومًا پہلے جماع سے پھٹ جاتا ہے۔اس کے پھٹے کنارے چھوٹے چھوٹے گول ابھاروں کی شکل میں اندام نہانی کے سوراخ کو گھیر لیتے ہیں ۔بعض اوقات یہ نہیں بھی ہوتا اس لئے اس کا ہونا یا نہ ہونا دوشیزگی کی قطعی دلیل ہر گز نہیں ہوسکتی۔
(۲)اندام نہانی کی آخری حصے کی تنگی بھی اس مرض کا باعث ہوتی ہے۔یہ غشائی نالی ہوتی ہے جس میں عضلی ریسے بھی پائے جاتے ہیں۔بچہ کی پیدائش کے وقت یہ نالی اس قدر پھیل جاتی ہے کہ بچہ کا سرا ور دھڑ اس نالی سے بہ آسانی گزرجاتا ہے۔
(۳)رحم(بچہ دانی Uerus)کاپیدائشی طورپر نہ ہونا یا پھر سامنے یا پیچھے کی طرف گر جانا یا جھک جانا بھی اس مرض کا ایک اہم سبب ہے کیونکہ اس صورت میں اسے سرجری کے ذریعے الگ نہیں کیا جاسکتا۔رحم میں ہی بچہ نو ماہ تک پرورش پاتا ہے ۔حمل کے علاوہ دیگر اوقات میں اس کی شکل امرود یا ناشپاتی کی طرح ہوتی ہے ۔اس کی لمبائی 13انچ ،چوڑائی 12انچ اور دبازت 11انچ ہوتی ہے۔خالی ہونے کی صورت میں اس کی اگلی اورپچھلی دیواریں باہم ملی ہوتی ہیں۔
(۴)خصیۃ الرحم(اووریز)کا پیدائشی طورپر نہ ہونا بھی اس مرض کی ایک اہم وجہ ہے ۔اس کا نہ ہونا یا اس کی ساخت میں خرابی کی حالت میں عورت کو جماع کی طرف بالکل رغبت نہیں ہوتی اور نہ ہی انزالی تسکین ہوتی ہے۔مردوں کی طرح عورتوں میں بھی دو خصیہ ہوتے ہیں۔ان ہی میں عورت کا مادہ تولید تیار ہوتا ہے جب اس مادہ کے ساتھ مردوں کا نطفہ قدررتی طورپر ملتا ہے اور دیگر حالات موافق ہوتے ہیں تو بچہ بننے لگتا ہے ۔یہ مادہ فلوپئین ٹیوب کی راہ رحم کے جوف کی طرف آتا ہے۔خصیۃ الرحم کا دوسرا کام عورت کے جسم میں صحت وتندرستی ،خوبصورتی اور حیض کی باقاعدگی کو قائم رکھنا ہے۔پہلے دونوں کام جوانی کے آغاز سے شروع ہوجاتے ہیں۔
(۵)رحم کے منہ کا بالکل بند ہونا یا پیدائشی طورپر اساکا نہ ہونا ۔اس کے علاوہ اس کے منہ پر ایسی سخت چیزوں کا پیدا ہونا جو ازالہ بکارت کے وقت بھی نہیں پھٹتی چنانچہ ایسی عورتوں کو حیض کے ابتدا میں حیض کے اخراج کا راستہ نہ ہونے کی وجہ سے سخت قسم کے درد پیدا ہوجاتے ہیں اور عورت سخت مصیبت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
(۶)قاذفین (فلوپئین ٹیوب)کا نہ ہونا بہت زیادہ تنگ ہونا بھی اس مرض کی وجہ ہوتی ہے ۔دراصل یہ دوباریک نالیاں ہوتی ہیں جو مادہ تولید کو خصیۃ الرحم تک پہنچاتی ہیں۔اس کا اندرونی حصہ بہت تنگ اور بیرونی نصف حصہ گول پھیلا ہوا ہوتا ہے ۔اس کی ساخت رحم کے مانند ہوتی ہے۔
(۲)غیر پیدائشی بانجھ پن :
(۱)بعض عورتوں کا مزاج سرد (بارد ،ٹھنڈا)ہوتا ہے جو کہ اس مرض کا سبب بنا کرتا ہے کیونکہ برودت کی زیادتی سے رحم کثیف ہوجاتا ہے اور اس کی عروقیں تنگ ہوجاتی ہیں پھر جب مرد او ر عورت کا نطفہ رحم میں داخل ہوتا ہے تو یہی برودت اس کے مزاج کو بگاڑ دیتی ہے۔
(۲)بعض عورتوں کے مزاج میں گرمی (حدت وحرارت)کا غلبہ ہوتا ہے جو کہ اس مرض کا سبب ہے کیونکہ یہ اپنی گرمی کے سبب منی کے مزاج کو بگاڑدیتی ہ ۔اس میں احتراق(جلی)کی صورت پیدا کردیتی ہے۔
(۳)بعض عورتوں میں اس مرض کا سبب ان کی بڑھتی ہوئی مزاجی خشکی ہوتی ہے جس کے سبب نطفہ خشک ہوجاتا ہے اور اس میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔
(۴)رحم کے اندر رطوبات کا اجتماع بھی اس مرض کا ایک اہم وقتی سبب ہے کیونکہ یہی خراب رطوبات رحم کی رطوبت میں کھاراپن اورنمکینیت کی بڑھوتری اور مزاج میں بگاڑ کا نتیجہ بنتی ہیں جو کہ حمل کے ٹھہرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔
(۵)یہ مرض اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ بلغم،صفرا،سودا ،اپنے اصلی مقام سے بہہ کر رحم میں آنے لگتے ہیں جس سے رحم کا مزاج خراب یا بگڑ جاتا ہے اور منی بھی خراب ہوجاتی ہے۔
(۶)بعض اوقات یہ مرض عورت کے زیادہ موٹا ہونے اور اس میں چربی کے زیادہ ہونے سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ چربی کی زیادتی رحم اور رحم کے منہ کو دبادیتی ہے ۔اس کے علاوہ منی اور خون کی عروق مجاری پر بھی دباؤ پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ان کے طبعی افعال بگڑ جاتے ہیں۔
(۷)بہت زیادہ کمزوری اور لاغری بھی بانجھ پن کا سبب ہوتی ہے کیونکہ عورت کا اپنا بدن اپنی اصلاح کے لئے اور اپنی جسمانی قوتوں کی بحالی کے لئے غذا میں سے اس قدر حصہ لے لیتا ہے کہ بچہ کی پرورش کے لئے فاضل بچتا ہی نہیں ہے۔
(۸)عمر کی زیادتی یا بہت عرصہ کے بعد مباشرت کرنے کیوجہ سے بھی اس مرض کا لاحقہ ہوتا ہے۔
(۹)اس مرض کا ایک سبب رحم یا رحم کے منہ میں کسی مرض کی نمود کا ہونا یا ان میں سخت ورم یامسہ کی مانند زائد گوشت کا پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے رحم کا منہ بند ہوجاتا ہے اور منی رحم تک نہیں پہنچ پاتی ۔اسی طرح یہ مرض رحم کے کسی ایک طرف پھرجانے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے جب یہ کسی ایک طرف کو مڑجاتا ہے تو اس کا سبب سرطان(کینسر)یا سخت ورم ہوتے ہیں یا رحم کی ایک جانب رگیں پر ہوجاتی ہیںیا غلیظ اور لیسدار رطوبتیں ایک جانب کے رباطات اور اعصاب کی طرف بکثرت گرتی ہیں جس کے سبب رحم ایک طرف کو جھک جاتا ہے اور اندام نہانی کے مقابلے سے ہٹ جاتا ہے اس لئے حمل نہیں ٹھہر تا۔
(۱۰)بعض اوقات غلیظ ریاح اور نفخ جنین کے غلاف اور رحم کے مقام اتصال کے درمیان حائل ہوجاتی ہیں جوکہ اس مرض کا سبب ہے ۔اسی طرح حیض کے خون کا یکایک یا پھر کسی مرض کے سبب بند ہوجانا بھی ایک اہم سبب ہے۔
(۱۱)اس مرض کا سبب رحم اور اس کے متعلقات کا گرم ورم(میٹرائٹس)رحم کی بواسیر عنق الرحم کی سوجن(سردسانٹیس)رحم کا کینسر ،ناسور،رحم کا چھوٹا ہونا یا اس میں پانی کا جمع ہوجانا،قسنج،وغیرہ ہوتے ہیں کیونکہ حمل اس وقت تک نہیں ٹھہر پاتا جب تک وہ صحیح نہ ہو اور اس کے افعال بھی درست نہ ہوں۔
(۱۲)مباشرت کے وقت منی کا رحم میں داخل ہوجانے کے بعدعورت کا فورًا کھڑا ہوجانایا زور سے چھینکنا،زور سے کودنا،یا پھر کسی سخت صدمے کا پہنچنا اور نفسیاتی تکلیف جیسے سخت رنج یا غم یا خوف وہراس بدنی تکالیف جیسے رحم کی قوت ماسکہ کا کمزور ہونا یا بہت زیادہ بھوک جس سے ماں کی قوت جنین ،اس کی حفاظت پر قادر نہ رہے ،اس کے علاوہ حمل ٹھہر جانے کے بعد کثرت مباشرت جس سے سیال منویہ کو نقصان پہنچتا ہے وغیرہ بھی اس مرض کے اسباب میں سے ہیں۔
(۱۳)اس مرض میں خاص طورپر اونچے طبقے کی عورتیں زیادہ متاثر ہوتی ہیں کیونکہ خوف کی وجہ سے مباشرت کے دوران تعاون نہیں کرتیں اور ایک ساتھ رہنے کے باوجود بھی ان میں یہ صورت ایک لمبے عرصے تک قائم رہتی ہے ۔اس مرض کی دوسری وجہ شادی کے فورًا بعد مانع حمل ادویہ کا استعمال ہے جن کے استعمال سے حمل ٹھہرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔
علامات :
حیض کا خون پتلا اور اس کی رنگت بھی ہلکی ہوتی ہے اور مقدار بھی کم ہوتی ہے ۔حیض کا کازمانہ دیردیر سے آتا ہے ،کمزوری زیادہ ہوتی ہے۔بعض دفعہ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے سے پڑجاتے ہیں جن عورتوں میں گرمی کا غلبہ ہوتا ہے ان کے پیڑوکے مقام پر بالوں کی کثرت ہوتی ہے اور حیض کے خون کی رنگت سیاہ ہوتی ہے ،مقدار بھی کم ہوتی ہے ۔اگر مزاج میں خشکی غالب ہے تو اندام نہانی خشک چمڑہ کی مانند ہوجاتی ہے ۔اسی طرح رطوبت کے غلبے کی صورت میں رحم سے ہمیشہ رطوبتیں بہتی رہتی ہیں۔پھر اس صورت میں اگرحمل ٹھہر بھی جائے تو بہت جلد اسقاط ہوجاتا ہے۔موٹا پا کی صورت میں پیٹ بلنداور طبعی حالت سے بڑا ہوتا ہے ،چلنے پھرنے کے وقت سانس پھولنے لگتی ہے ،معمولی ریاح اور پاخانہ کے جمع ہوجانے سے پیٹ میں سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔رحم کے کسی ایک سمت میں جھکاؤ کے نتیجہ میں سخت درد ہوتا ہے کیونکہ رحم کا جھکاؤ عام طورپر کسی دوسرے سبب سے ہوتا ہے جس میں رحم کا دردناک ہونا غالب ہے۔
اقسام:
پرانے ویدک شاستروں میں عورتوں کی اقسام درج ہیں جوکہ کھانے پینے جماع اور دیگر زیادتیوں کی وجہ حیض کی خرابی یا بد نصیبی سے امراض مخصوصہ میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور اولاد پیدا نہیں کرسکتیں۔اداورتا،بندھیا ،ویپلتا،پریپلنا ،واتلا ،لوہتا کشرا،پرسنسنی،دامنی ،پثلا ،اتیا نندا،کرنیکا ،اتی چرنا،آنند چرنا،شلیشملا،شنڈھ انڈنی،ودرتا،سوچی دکترا،تردوشج ،شیتلا وغیرہ۔
مردوں میں بانجھ پن کے اسباب:
(۱)پیدائشی بانجھ پن:(۱)خصیتین (Testies)کاپیدائشی طورپر نہ ہونا مردوں میں اس مرض کی ایک اہم وجہ ہے۔خصیتین دوچھوٹی انڈوں کی شکل کی گلٹیا ں ہوتی ہیں جوکہ فوطہ میں لٹکی رہتی ہیں ان میں ہی منی پیداہوتی ہے ۔بایاں خصیہ کس قدر دائیں خصیہ سے بڑا ہوتا ہے ۔ہر خصیہ میں مسلسل حوینات منویہ (منی کے کیڑے)بنتے رہتے ہیں ۔بعض اشخاص میں ایک خفیہ فوطہ میں اور دوسرا پیٹ کے اندر گردوں کے نیچے ہوتا ہے ۔بعض میں دونوں خصیے پیٹ کے اندر گردوں کے نیچے ہوتے ہیں مگر اس صورت میں بھی اولاد پیدا ہوسکتی ہے۔خصیوں کا دوسرا کام مردانہ ہارمون پیدا کرنا بھی ہوتا ہے اگر اس مردانہ ہارمون کا افراز کم ہوتو لڑکا لڑکی کی طرح زنانہ شکل کا نظر آتا ہے۔اس کے علاوہ حوینات منویہ کی پیدائش نہیں ہوتی ۔
(۲)منی کی نالی(واساد فرنشیا)کا پیدائشی طورپر نہ ہونا بھی اس مرض کے اسباب میں سے ہے۔یہ دونالیاں ہوتی ہیں۔ایک بائیں اور دوسری دائیں جانب لٹکتی رہتی ہے۔ہرایک کی لمبائی دو فٹ ہوتی ہے۔یہ پیچ دار راستہ طے کرنے کے بعد سیمنل ویسکل سے مل کر اجاکیولیٹری ڈکٹ میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
(غیر پیدائشی بانجھ پن:اس مرض کا ایک اہم سبب منی کے مزاج کا خراب ہونا ہے جس سے اس میں تولید کی صلاحیت نہیں ہوتی۔یہ خرابی اس میں غیر معمولی گرمی،تیزی،ٹھنڈک،رطوبت وپتلا پن اور خشکی کی وجہ سے ہوتی ہے۔قضیب میں کسی قسم کی عارضی خرابی بھی اس مرض کا سبب ہے۔مختلف امراض جیسے آتشک(سفلس)سوزاک(گنوریا)جوانی کے بعد ممپس(گل سوا)میں مبتلا ہونا جس کے ساتھ خصیہ بھی متورم ہو ،وائرس کا تعدیہ،بخار کے ساتھ لاحق ہونے والا تعدیہ ،فوطہ کی چوٹ اور ٹی بی بھی اس مرض کے اسباب میں سے ہیں۔فوطہ میں پانی اترنا (ہائیڈروسیل)فوطوں کی رگوں کی سوجن (ویر کوسل)اور ذیابیطس کے مریضوں میں یہ مرض پیدا ہوجاتا ہے۔کثرت مباشرت بھی اس مرض کا ایک اہم سبب ہے کیونکہ اس سے منی کے قوام پر اثر پڑتا ہے ۔اس طرح ایک لمبے عرصے تک مباشرت سے پرہیز کرنے کے نتیجے میں بھی حوینات منویہ کی حرکت پر اثر پڑتا ہے جوکہ موجب بانجھ پن ہے۔
آج تھئیٹر ،سنیما اور فحش ناول ،فحش فلمیں سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں جوکہ بہت بری شکل میں انسانی اخلاق کا نمونہ پیش کرتے ہیں ۔لو گ سمجھتے ہیں کہ سنیما میں تعلیم بھی ملتی ہے ۔ہاں ضرور ملتی ہے لیکن پتہ ہے دنیاوی اور اخلاقی تعلیم کے ساتھ عشق ومحبت کی تعلیم کی آمیزش نوجوانوں کے لئے کیا اثر رکھتی ہے تو سنئیے! چیونٹیوں کے آگے ایک سیر نمک میں ایک تولہ شکر ملاکر رکھ دیجئے تو وہ شکر تو اٹھا لے جائیں گی اورنمک آپ کے دسترخوان کے لئے چھوڑ جائیں گی۔اسی طرح سے آج کل کے نوجوان سنیما سے محض محبت کی گھاتوں او ر عاشق ومعشوق کی خفیہ ملاقاتوں کا سبق ہی دماغ کے نازک اورکچے پردوں میں سنبھال کر گھر لے جاتے طہیں اور رات کو خواب میں وہ ورق الٹتے رہتے ہیں اور اس طرح کوتاہ اندیش یہ نوجوان اپنی زندگی کے مستقبل کی بھاری کشمکش میں فتح حاصل کرنے کے خیال کو پس پشت ڈال کر اپنے دل ودماغ کی تمام طاقتیں عشق و محبت کی قربان گاہ پر نثار کردیتے ہیں۔ایسی صورت میں سب سے زیادہ اس نظام میں خرابی آجاتی ہے جس پر براہ راست یہ ظلم کیاجاتا ہے ۔وہ نظام جس کا کام اور وہ اعضاء جن کا کام شادی ہوجانے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے وہ سارا سلسلہ شادی سے پیشتر ہی ناکارہ ہوچکتا ہے یعنی مشت زنی جوکہ اس مرض کا ایک اہم سبب ہے کیونکہ اس سے عضو تناسل کے رگ و پٹھوں میں کمزوری اور خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ایسے اشخاص جو ایکسرے میں کھلے رہ کر کام کرتے ہیں یا کسی دوسرے طریقے سے شعاعوں سے ان کا واسطہ ہوتا ہے یا بہت زیادہ درجہ حرارت کی جگہ کام کرتے ہوں تو اس سے منی بنانے والی Testicularساخت پر اثر پڑتا ہے جو اس مرض کا سبب ہوسکتا ہے اس لئے ایسے لوگوں کو حتی الامکان ریڈیئیشن سے بچنا چاہئے ۔جذباتی صدمہ زیادہ رنج وغم بہت زیادہ غصہ ،موٹاپا،ہرنیا اور پیشاب کے سوراخ کا پیدائشی طورپر عضو مخصوص کی نچلی طرف ہونا بھی اس مرض کی وجہ ہے۔
علامات:
مردوں کی منی میں گرمی و تیزی کے نتیجے میں منی کی رنگت زرد مقدارکم اور بو بہت بری ہوتی ہے ۔اس طرح اگر منی میں برودت کی زیادتی ہے تو منی کا قوام پتلا اور اس کی مقدار بہت زیادہ ہوگی۔
اصول علاج:
اس مرض کا علاج اصل سبب کو رفع کرنا ہے اگر عورت یا مرد کے اعضا ء تناسل میں کوئی پیدائشی نقص ہوتو پھر یہ مرض عمومًا لاعلاج ہوکرتا ہے۔واضح ہے کہ ایسی بیماریوں کا علاج دنوں اور ہفتوں میں نہیں ہوا کرتا بلکہ مرض پرانا ہونے کی صورت میں تین سے چار ماہ بھی لگ سکتے ہیں اور یہ بات خاص طورپر یادرہے کہ علاج کے سلسلے میں مستقل مزاجی بہت ضروری ہے ۔غیر مستقل مزاجی سے مراد حاصل نہیں ہوتی ۔یہ ملاح کا کام ہے کہ کشتی کو کس رستے وہ باحفاظت پار اتار سکتا ہے سواریوں کاکام نہیں کہ ہر موڑ پر وہ شور مچا نے لگیں۔اس مرض کا علاج بڑا صبر آزما ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں ایک قصہ بیان کرتا چلوں کہ ایک مالی نے دونوجوانوں کو دو پودے دیئے اور کہا کہ گھر جاکر مٹی کھود کر لگا دو اور روزانہ پانی دیتے رہو۔ دس پندرہ دن میں یہ جڑ پکڑ جائیں گے اور کچھ عرصہ بعد ان میں خوشنما پھول آئیں گے ۔ایک نوجوان نے تو مالی کی بات مان کر پودا لگا کر پانی دینا شروع کردیا اور صبر سے اس کے بڑھنے کا انتظار کرنے لگا۔دوسرا جو زیادہ عقلمند تھا اور عقلمندی اسے چین سے بیٹھنے نہ دیتی تھی وہ روزانہ پودے کو ذرا اوپر کھینچ کر دیکھتا کہ جڑ لگ گئی ہے یا نہیں لیکن جڑ بیچاری خاک لگتی؟جو کچھ وہ زمین میں تھوڑی سی جگہ پکڑتی دوسرے روز یہ صاحب امتحان کی خاطر اسے کچا کردیتے۔نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے نوجوان کا پودا چند دنوں میں پھول دینے لگ گیا اور دوسرے کا پودا مرجھا گیا۔یہی بات علاج میں بھی ہے صبر واستقلال سے کام لیں گے اور پورا وقت باپرہیز علاج کرائیں گے تو آپ کا دامن گوہر مراد سے بھر جائے گا۔
غذا اور پرہیز:
معمولی شور باچپاتی،مونگ اور ارہر کی دال،کدو ،خرفہ،ترئی،بھنڈی اور پالک وغیرہ کی ترکاریاں استعمال کرائیں۔بہت زیادہ گرم چیزیں مثلاً لال مرچ میں پکائی ہوئی چیزیں ،گرم مصالحہ وغیرہ سے سختی سے پرہیز کرائیں،دیر سے ہضم ہونے والی اور ثقیل غذاؤں سے مکمل احتراز کرناچاہئے۔قبض بالکل نہ ہونے دیں۔
جنسی قوت انسان کی افریندہ قوت ہے۔یہ تہذیب وتمدن کی ماں ہے ۔اسی قوت سے نسل انسانی بڑھتی ہے اور اسی قوت سے انسان میں آگے بڑھنے کی صلاحتیں پیداہوتی ہیں۔اس قوت کا نصف حصہ مرد اور نصف حصہ عورت میں ہوتا ہے ۔دونوں تنہا اپنی اپنی جگہ نامکمل ہیں گو ان کی تخلیق تو مکمل ہے لیکن ان کا فعل ایک دوسرے کی مدد کے بغیر ادھورارہ جاتا ہے۔
دونوں ہی اپنے دل و دماغ میں ایک کمی سی محسوس کرتے ہیں۔ مردعورت کے بغیر تشنہ اور عورت کے حاسل کرلینے کے بعد مطمئن ہوجاتا ہے۔اسی طرح عورت مرد کے حاصل کرلینے کے بعد کامل سکون اور یکجہتی محسوس کرتی ہے۔یہ قدرت کا اٹل قانون ہے اور پھر ان کے جیون ساتھی بن جانے کے بعد ہی نسل کی افزائش کا فعل مکمل ہوتا ہے کیونکہ شجر زندگی کا خوشگوار ثمر اولاد ہی ہے۔دنیامیں وہ لوگ کم نصیب سمجھے جاتے ہیں جو اولاد جیسی پسندیدہ نعمت سے محروم ہوں۔اگر کسی شخص کو دنیا کی تمام نعمتیں ،تندرستی بشمول عیش وحکومت حاصل ہو لیکن اولاد نہ ہو تو اس کو یہ تمام چیزیں ہیچ و ناکارہ معلوم ہوتی ہیں۔مرد اور عورت کے بوڑھے ہونے سے پہلے اگر کوئی چیز دونوں کو اس نعمت سے مایوس کرنے والی ہے تو وہ محض بانجھ پن ہے جسے عقر بھی کہا جاتا ہے۔اس مرض میں عورت میں حاملہ ہونے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔یہ کمی تو مردوں میں بھی ہوتی ہے یا عورتوں میں یا بعض اوقات دونوں میں ہوتی ہے۔پرانے زمانے میں اکثر اقوام و مذاہب اس مرض کو ایک مصیبت خیال کیا کرتے تھے او راس وقت کے قوانین مذہبی و ملکی سے بانجھ عورتوں کو حقوق زوجیت سے محروم کیا جاتا تھا ۔دنیا کے اکثر ممالک مثلًا مصر ،شام ،ایران اور ہندوستان وغیر ہ میں یہ مرض اب تک ویسا ہی مذموم اور منحوس خیال کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ زمانہ قدیم میں اس مرض کو عورت سے ہی مخصوص کیا جاتا تھا لیکن بعد کی تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ تیس سے چالیس فیصد واقعات میں اس مرض کاسبب مرد ہی ہوا کرتے ہیں۔
اقسام:
(۱)عقر مطلق(Absolute Infertility)یہ قسم خواہ مرد وں میں ہو یا عورتوں میں اس کا کوئی علاج نہیں ۔مردوں میں اس کا سبب اسپرم یعنی منی کا سے سے پیدا نہ ہونا یا پھر منی میں اسپرم(منی کے کیڑے)کا بالکل نہ پایا جانا ،ان کی تعداد میں کمی کا ہونا ،اس کے علاوہ بعض امراض کے سبب خصیتین (Testies)کو سرجری کے ذریعے نکال دینا بھی ہے۔
(۲)عقر نسبتی(Relative Infertility)اس قسم کا علاج ممکنات میں سے ہے لیکن بعض اوقات اس کے بھی اسباب بذریعہ تفتیش معلوم نہیں کئے جا سکتے۔بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ حمل تو ٹھہر جاتا ہے لیکن اسقاط ہوجاتا ہے یا پھر پہلا بچہ طبعی مدت میں طبعی طریقے پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے بعد پھر حمل نہیں ٹھہر تا ۔اس صورت کو One Child Sterlityکہتے ہیں۔عمومًا یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ 30سے 40فیصد واقعات میں عقر کا سبب مرد ہی ہوا کرتے ہیں اس لئے عورت کا Investigationکرانے سے پہلے مرد کا مکمل Investigationکرایا جانا چاہئے۔
اسباب: عورتوں میں اسباب کے لحاظ سے بانجھ پن کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔
(۱)پیدائشی بانجھ پن:
(۱)پردہ بکارت (ہائمین)کابہت سخت دبیز اور بالکل تنگ ہونا ۔اس مرضکا ایک اہم سبب ہے پرد�ۂ بکارت ۔دراصل اندام نہانی کی لعاب دار جھلی کی ایک ہلالی شکل کا ایک باریک پردہ ہے جو اندام نہانی کے سوراخ کے نچلے حصے پر واقع ہوتا ہے اور اسے مکمل طورپر بندرکھتا ہے۔اس کے درمیان ایک یا کئی باریک باریک سوراخ ہوتے ہیں جن کی راہ حیض کا خون جاری ہوتا رہتا ہے۔یہ عمومًا پہلے جماع سے پھٹ جاتا ہے۔اس کے پھٹے کنارے چھوٹے چھوٹے گول ابھاروں کی شکل میں اندام نہانی کے سوراخ کو گھیر لیتے ہیں ۔بعض اوقات یہ نہیں بھی ہوتا اس لئے اس کا ہونا یا نہ ہونا دوشیزگی کی قطعی دلیل ہر گز نہیں ہوسکتی۔
(۲)اندام نہانی کی آخری حصے کی تنگی بھی اس مرض کا باعث ہوتی ہے۔یہ غشائی نالی ہوتی ہے جس میں عضلی ریسے بھی پائے جاتے ہیں۔بچہ کی پیدائش کے وقت یہ نالی اس قدر پھیل جاتی ہے کہ بچہ کا سرا ور دھڑ اس نالی سے بہ آسانی گزرجاتا ہے۔
(۳)رحم(بچہ دانی Uerus)کاپیدائشی طورپر نہ ہونا یا پھر سامنے یا پیچھے کی طرف گر جانا یا جھک جانا بھی اس مرض کا ایک اہم سبب ہے کیونکہ اس صورت میں اسے سرجری کے ذریعے الگ نہیں کیا جاسکتا۔رحم میں ہی بچہ نو ماہ تک پرورش پاتا ہے ۔حمل کے علاوہ دیگر اوقات میں اس کی شکل امرود یا ناشپاتی کی طرح ہوتی ہے ۔اس کی لمبائی 13انچ ،چوڑائی 12انچ اور دبازت 11انچ ہوتی ہے۔خالی ہونے کی صورت میں اس کی اگلی اورپچھلی دیواریں باہم ملی ہوتی ہیں۔
(۴)خصیۃ الرحم(اووریز)کا پیدائشی طورپر نہ ہونا بھی اس مرض کی ایک اہم وجہ ہے ۔اس کا نہ ہونا یا اس کی ساخت میں خرابی کی حالت میں عورت کو جماع کی طرف بالکل رغبت نہیں ہوتی اور نہ ہی انزالی تسکین ہوتی ہے۔مردوں کی طرح عورتوں میں بھی دو خصیہ ہوتے ہیں۔ان ہی میں عورت کا مادہ تولید تیار ہوتا ہے جب اس مادہ کے ساتھ مردوں کا نطفہ قدررتی طورپر ملتا ہے اور دیگر حالات موافق ہوتے ہیں تو بچہ بننے لگتا ہے ۔یہ مادہ فلوپئین ٹیوب کی راہ رحم کے جوف کی طرف آتا ہے۔خصیۃ الرحم کا دوسرا کام عورت کے جسم میں صحت وتندرستی ،خوبصورتی اور حیض کی باقاعدگی کو قائم رکھنا ہے۔پہلے دونوں کام جوانی کے آغاز سے شروع ہوجاتے ہیں۔
(۵)رحم کے منہ کا بالکل بند ہونا یا پیدائشی طورپر اساکا نہ ہونا ۔اس کے علاوہ اس کے منہ پر ایسی سخت چیزوں کا پیدا ہونا جو ازالہ بکارت کے وقت بھی نہیں پھٹتی چنانچہ ایسی عورتوں کو حیض کے ابتدا میں حیض کے اخراج کا راستہ نہ ہونے کی وجہ سے سخت قسم کے درد پیدا ہوجاتے ہیں اور عورت سخت مصیبت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
(۶)قاذفین (فلوپئین ٹیوب)کا نہ ہونا بہت زیادہ تنگ ہونا بھی اس مرض کی وجہ ہوتی ہے ۔دراصل یہ دوباریک نالیاں ہوتی ہیں جو مادہ تولید کو خصیۃ الرحم تک پہنچاتی ہیں۔اس کا اندرونی حصہ بہت تنگ اور بیرونی نصف حصہ گول پھیلا ہوا ہوتا ہے ۔اس کی ساخت رحم کے مانند ہوتی ہے۔
(۲)غیر پیدائشی بانجھ پن :
(۱)بعض عورتوں کا مزاج سرد (بارد ،ٹھنڈا)ہوتا ہے جو کہ اس مرض کا سبب بنا کرتا ہے کیونکہ برودت کی زیادتی سے رحم کثیف ہوجاتا ہے اور اس کی عروقیں تنگ ہوجاتی ہیں پھر جب مرد او ر عورت کا نطفہ رحم میں داخل ہوتا ہے تو یہی برودت اس کے مزاج کو بگاڑ دیتی ہے۔
(۲)بعض عورتوں کے مزاج میں گرمی (حدت وحرارت)کا غلبہ ہوتا ہے جو کہ اس مرض کا سبب ہے کیونکہ یہ اپنی گرمی کے سبب منی کے مزاج کو بگاڑدیتی ہ ۔اس میں احتراق(جلی)کی صورت پیدا کردیتی ہے۔
(۳)بعض عورتوں میں اس مرض کا سبب ان کی بڑھتی ہوئی مزاجی خشکی ہوتی ہے جس کے سبب نطفہ خشک ہوجاتا ہے اور اس میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔
(۴)رحم کے اندر رطوبات کا اجتماع بھی اس مرض کا ایک اہم وقتی سبب ہے کیونکہ یہی خراب رطوبات رحم کی رطوبت میں کھاراپن اورنمکینیت کی بڑھوتری اور مزاج میں بگاڑ کا نتیجہ بنتی ہیں جو کہ حمل کے ٹھہرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔
(۵)یہ مرض اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ بلغم،صفرا،سودا ،اپنے اصلی مقام سے بہہ کر رحم میں آنے لگتے ہیں جس سے رحم کا مزاج خراب یا بگڑ جاتا ہے اور منی بھی خراب ہوجاتی ہے۔
(۶)بعض اوقات یہ مرض عورت کے زیادہ موٹا ہونے اور اس میں چربی کے زیادہ ہونے سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ چربی کی زیادتی رحم اور رحم کے منہ کو دبادیتی ہے ۔اس کے علاوہ منی اور خون کی عروق مجاری پر بھی دباؤ پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ان کے طبعی افعال بگڑ جاتے ہیں۔
(۷)بہت زیادہ کمزوری اور لاغری بھی بانجھ پن کا سبب ہوتی ہے کیونکہ عورت کا اپنا بدن اپنی اصلاح کے لئے اور اپنی جسمانی قوتوں کی بحالی کے لئے غذا میں سے اس قدر حصہ لے لیتا ہے کہ بچہ کی پرورش کے لئے فاضل بچتا ہی نہیں ہے۔
(۸)عمر کی زیادتی یا بہت عرصہ کے بعد مباشرت کرنے کیوجہ سے بھی اس مرض کا لاحقہ ہوتا ہے۔
(۹)اس مرض کا ایک سبب رحم یا رحم کے منہ میں کسی مرض کی نمود کا ہونا یا ان میں سخت ورم یامسہ کی مانند زائد گوشت کا پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے رحم کا منہ بند ہوجاتا ہے اور منی رحم تک نہیں پہنچ پاتی ۔اسی طرح یہ مرض رحم کے کسی ایک طرف پھرجانے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے جب یہ کسی ایک طرف کو مڑجاتا ہے تو اس کا سبب سرطان(کینسر)یا سخت ورم ہوتے ہیں یا رحم کی ایک جانب رگیں پر ہوجاتی ہیںیا غلیظ اور لیسدار رطوبتیں ایک جانب کے رباطات اور اعصاب کی طرف بکثرت گرتی ہیں جس کے سبب رحم ایک طرف کو جھک جاتا ہے اور اندام نہانی کے مقابلے سے ہٹ جاتا ہے اس لئے حمل نہیں ٹھہر تا۔
(۱۰)بعض اوقات غلیظ ریاح اور نفخ جنین کے غلاف اور رحم کے مقام اتصال کے درمیان حائل ہوجاتی ہیں جوکہ اس مرض کا سبب ہے ۔اسی طرح حیض کے خون کا یکایک یا پھر کسی مرض کے سبب بند ہوجانا بھی ایک اہم سبب ہے۔
(۱۱)اس مرض کا سبب رحم اور اس کے متعلقات کا گرم ورم(میٹرائٹس)رحم کی بواسیر عنق الرحم کی سوجن(سردسانٹیس)رحم کا کینسر ،ناسور،رحم کا چھوٹا ہونا یا اس میں پانی کا جمع ہوجانا،قسنج،وغیرہ ہوتے ہیں کیونکہ حمل اس وقت تک نہیں ٹھہر پاتا جب تک وہ صحیح نہ ہو اور اس کے افعال بھی درست نہ ہوں۔
(۱۲)مباشرت کے وقت منی کا رحم میں داخل ہوجانے کے بعدعورت کا فورًا کھڑا ہوجانایا زور سے چھینکنا،زور سے کودنا،یا پھر کسی سخت صدمے کا پہنچنا اور نفسیاتی تکلیف جیسے سخت رنج یا غم یا خوف وہراس بدنی تکالیف جیسے رحم کی قوت ماسکہ کا کمزور ہونا یا بہت زیادہ بھوک جس سے ماں کی قوت جنین ،اس کی حفاظت پر قادر نہ رہے ،اس کے علاوہ حمل ٹھہر جانے کے بعد کثرت مباشرت جس سے سیال منویہ کو نقصان پہنچتا ہے وغیرہ بھی اس مرض کے اسباب میں سے ہیں۔
(۱۳)اس مرض میں خاص طورپر اونچے طبقے کی عورتیں زیادہ متاثر ہوتی ہیں کیونکہ خوف کی وجہ سے مباشرت کے دوران تعاون نہیں کرتیں اور ایک ساتھ رہنے کے باوجود بھی ان میں یہ صورت ایک لمبے عرصے تک قائم رہتی ہے ۔اس مرض کی دوسری وجہ شادی کے فورًا بعد مانع حمل ادویہ کا استعمال ہے جن کے استعمال سے حمل ٹھہرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔
علامات :
حیض کا خون پتلا اور اس کی رنگت بھی ہلکی ہوتی ہے اور مقدار بھی کم ہوتی ہے ۔حیض کا کازمانہ دیردیر سے آتا ہے ،کمزوری زیادہ ہوتی ہے۔بعض دفعہ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے سے پڑجاتے ہیں جن عورتوں میں گرمی کا غلبہ ہوتا ہے ان کے پیڑوکے مقام پر بالوں کی کثرت ہوتی ہے اور حیض کے خون کی رنگت سیاہ ہوتی ہے ،مقدار بھی کم ہوتی ہے ۔اگر مزاج میں خشکی غالب ہے تو اندام نہانی خشک چمڑہ کی مانند ہوجاتی ہے ۔اسی طرح رطوبت کے غلبے کی صورت میں رحم سے ہمیشہ رطوبتیں بہتی رہتی ہیں۔پھر اس صورت میں اگرحمل ٹھہر بھی جائے تو بہت جلد اسقاط ہوجاتا ہے۔موٹا پا کی صورت میں پیٹ بلنداور طبعی حالت سے بڑا ہوتا ہے ،چلنے پھرنے کے وقت سانس پھولنے لگتی ہے ،معمولی ریاح اور پاخانہ کے جمع ہوجانے سے پیٹ میں سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔رحم کے کسی ایک سمت میں جھکاؤ کے نتیجہ میں سخت درد ہوتا ہے کیونکہ رحم کا جھکاؤ عام طورپر کسی دوسرے سبب سے ہوتا ہے جس میں رحم کا دردناک ہونا غالب ہے۔
اقسام:
پرانے ویدک شاستروں میں عورتوں کی اقسام درج ہیں جوکہ کھانے پینے جماع اور دیگر زیادتیوں کی وجہ حیض کی خرابی یا بد نصیبی سے امراض مخصوصہ میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور اولاد پیدا نہیں کرسکتیں۔اداورتا،بندھیا ،ویپلتا،پریپلنا ،واتلا ،لوہتا کشرا،پرسنسنی،دامنی ،پثلا ،اتیا نندا،کرنیکا ،اتی چرنا،آنند چرنا،شلیشملا،شنڈھ انڈنی،ودرتا،سوچی دکترا،تردوشج ،شیتلا وغیرہ۔
مردوں میں بانجھ پن کے اسباب:
(۱)پیدائشی بانجھ پن:(۱)خصیتین (Testies)کاپیدائشی طورپر نہ ہونا مردوں میں اس مرض کی ایک اہم وجہ ہے۔خصیتین دوچھوٹی انڈوں کی شکل کی گلٹیا ں ہوتی ہیں جوکہ فوطہ میں لٹکی رہتی ہیں ان میں ہی منی پیداہوتی ہے ۔بایاں خصیہ کس قدر دائیں خصیہ سے بڑا ہوتا ہے ۔ہر خصیہ میں مسلسل حوینات منویہ (منی کے کیڑے)بنتے رہتے ہیں ۔بعض اشخاص میں ایک خفیہ فوطہ میں اور دوسرا پیٹ کے اندر گردوں کے نیچے ہوتا ہے ۔بعض میں دونوں خصیے پیٹ کے اندر گردوں کے نیچے ہوتے ہیں مگر اس صورت میں بھی اولاد پیدا ہوسکتی ہے۔خصیوں کا دوسرا کام مردانہ ہارمون پیدا کرنا بھی ہوتا ہے اگر اس مردانہ ہارمون کا افراز کم ہوتو لڑکا لڑکی کی طرح زنانہ شکل کا نظر آتا ہے۔اس کے علاوہ حوینات منویہ کی پیدائش نہیں ہوتی ۔
(۲)منی کی نالی(واساد فرنشیا)کا پیدائشی طورپر نہ ہونا بھی اس مرض کے اسباب میں سے ہے۔یہ دونالیاں ہوتی ہیں۔ایک بائیں اور دوسری دائیں جانب لٹکتی رہتی ہے۔ہرایک کی لمبائی دو فٹ ہوتی ہے۔یہ پیچ دار راستہ طے کرنے کے بعد سیمنل ویسکل سے مل کر اجاکیولیٹری ڈکٹ میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
(غیر پیدائشی بانجھ پن:اس مرض کا ایک اہم سبب منی کے مزاج کا خراب ہونا ہے جس سے اس میں تولید کی صلاحیت نہیں ہوتی۔یہ خرابی اس میں غیر معمولی گرمی،تیزی،ٹھنڈک،رطوبت وپتلا پن اور خشکی کی وجہ سے ہوتی ہے۔قضیب میں کسی قسم کی عارضی خرابی بھی اس مرض کا سبب ہے۔مختلف امراض جیسے آتشک(سفلس)سوزاک(گنوریا)جوانی کے بعد ممپس(گل سوا)میں مبتلا ہونا جس کے ساتھ خصیہ بھی متورم ہو ،وائرس کا تعدیہ،بخار کے ساتھ لاحق ہونے والا تعدیہ ،فوطہ کی چوٹ اور ٹی بی بھی اس مرض کے اسباب میں سے ہیں۔فوطہ میں پانی اترنا (ہائیڈروسیل)فوطوں کی رگوں کی سوجن (ویر کوسل)اور ذیابیطس کے مریضوں میں یہ مرض پیدا ہوجاتا ہے۔کثرت مباشرت بھی اس مرض کا ایک اہم سبب ہے کیونکہ اس سے منی کے قوام پر اثر پڑتا ہے ۔اس طرح ایک لمبے عرصے تک مباشرت سے پرہیز کرنے کے نتیجے میں بھی حوینات منویہ کی حرکت پر اثر پڑتا ہے جوکہ موجب بانجھ پن ہے۔
آج تھئیٹر ،سنیما اور فحش ناول ،فحش فلمیں سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں جوکہ بہت بری شکل میں انسانی اخلاق کا نمونہ پیش کرتے ہیں ۔لو گ سمجھتے ہیں کہ سنیما میں تعلیم بھی ملتی ہے ۔ہاں ضرور ملتی ہے لیکن پتہ ہے دنیاوی اور اخلاقی تعلیم کے ساتھ عشق ومحبت کی تعلیم کی آمیزش نوجوانوں کے لئے کیا اثر رکھتی ہے تو سنئیے! چیونٹیوں کے آگے ایک سیر نمک میں ایک تولہ شکر ملاکر رکھ دیجئے تو وہ شکر تو اٹھا لے جائیں گی اورنمک آپ کے دسترخوان کے لئے چھوڑ جائیں گی۔اسی طرح سے آج کل کے نوجوان سنیما سے محض محبت کی گھاتوں او ر عاشق ومعشوق کی خفیہ ملاقاتوں کا سبق ہی دماغ کے نازک اورکچے پردوں میں سنبھال کر گھر لے جاتے طہیں اور رات کو خواب میں وہ ورق الٹتے رہتے ہیں اور اس طرح کوتاہ اندیش یہ نوجوان اپنی زندگی کے مستقبل کی بھاری کشمکش میں فتح حاصل کرنے کے خیال کو پس پشت ڈال کر اپنے دل ودماغ کی تمام طاقتیں عشق و محبت کی قربان گاہ پر نثار کردیتے ہیں۔ایسی صورت میں سب سے زیادہ اس نظام میں خرابی آجاتی ہے جس پر براہ راست یہ ظلم کیاجاتا ہے ۔وہ نظام جس کا کام اور وہ اعضاء جن کا کام شادی ہوجانے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے وہ سارا سلسلہ شادی سے پیشتر ہی ناکارہ ہوچکتا ہے یعنی مشت زنی جوکہ اس مرض کا ایک اہم سبب ہے کیونکہ اس سے عضو تناسل کے رگ و پٹھوں میں کمزوری اور خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ایسے اشخاص جو ایکسرے میں کھلے رہ کر کام کرتے ہیں یا کسی دوسرے طریقے سے شعاعوں سے ان کا واسطہ ہوتا ہے یا بہت زیادہ درجہ حرارت کی جگہ کام کرتے ہوں تو اس سے منی بنانے والی Testicularساخت پر اثر پڑتا ہے جو اس مرض کا سبب ہوسکتا ہے اس لئے ایسے لوگوں کو حتی الامکان ریڈیئیشن سے بچنا چاہئے ۔جذباتی صدمہ زیادہ رنج وغم بہت زیادہ غصہ ،موٹاپا،ہرنیا اور پیشاب کے سوراخ کا پیدائشی طورپر عضو مخصوص کی نچلی طرف ہونا بھی اس مرض کی وجہ ہے۔
علامات:
مردوں کی منی میں گرمی و تیزی کے نتیجے میں منی کی رنگت زرد مقدارکم اور بو بہت بری ہوتی ہے ۔اس طرح اگر منی میں برودت کی زیادتی ہے تو منی کا قوام پتلا اور اس کی مقدار بہت زیادہ ہوگی۔
اصول علاج:
اس مرض کا علاج اصل سبب کو رفع کرنا ہے اگر عورت یا مرد کے اعضا ء تناسل میں کوئی پیدائشی نقص ہوتو پھر یہ مرض عمومًا لاعلاج ہوکرتا ہے۔واضح ہے کہ ایسی بیماریوں کا علاج دنوں اور ہفتوں میں نہیں ہوا کرتا بلکہ مرض پرانا ہونے کی صورت میں تین سے چار ماہ بھی لگ سکتے ہیں اور یہ بات خاص طورپر یادرہے کہ علاج کے سلسلے میں مستقل مزاجی بہت ضروری ہے ۔غیر مستقل مزاجی سے مراد حاصل نہیں ہوتی ۔یہ ملاح کا کام ہے کہ کشتی کو کس رستے وہ باحفاظت پار اتار سکتا ہے سواریوں کاکام نہیں کہ ہر موڑ پر وہ شور مچا نے لگیں۔اس مرض کا علاج بڑا صبر آزما ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں ایک قصہ بیان کرتا چلوں کہ ایک مالی نے دونوجوانوں کو دو پودے دیئے اور کہا کہ گھر جاکر مٹی کھود کر لگا دو اور روزانہ پانی دیتے رہو۔ دس پندرہ دن میں یہ جڑ پکڑ جائیں گے اور کچھ عرصہ بعد ان میں خوشنما پھول آئیں گے ۔ایک نوجوان نے تو مالی کی بات مان کر پودا لگا کر پانی دینا شروع کردیا اور صبر سے اس کے بڑھنے کا انتظار کرنے لگا۔دوسرا جو زیادہ عقلمند تھا اور عقلمندی اسے چین سے بیٹھنے نہ دیتی تھی وہ روزانہ پودے کو ذرا اوپر کھینچ کر دیکھتا کہ جڑ لگ گئی ہے یا نہیں لیکن جڑ بیچاری خاک لگتی؟جو کچھ وہ زمین میں تھوڑی سی جگہ پکڑتی دوسرے روز یہ صاحب امتحان کی خاطر اسے کچا کردیتے۔نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے نوجوان کا پودا چند دنوں میں پھول دینے لگ گیا اور دوسرے کا پودا مرجھا گیا۔یہی بات علاج میں بھی ہے صبر واستقلال سے کام لیں گے اور پورا وقت باپرہیز علاج کرائیں گے تو آپ کا دامن گوہر مراد سے بھر جائے گا۔
غذا اور پرہیز:
معمولی شور باچپاتی،مونگ اور ارہر کی دال،کدو ،خرفہ،ترئی،بھنڈی اور پالک وغیرہ کی ترکاریاں استعمال کرائیں۔بہت زیادہ گرم چیزیں مثلاً لال مرچ میں پکائی ہوئی چیزیں ،گرم مصالحہ وغیرہ سے سختی سے پرہیز کرائیں،دیر سے ہضم ہونے والی اور ثقیل غذاؤں سے مکمل احتراز کرناچاہئے۔قبض بالکل نہ ہونے دیں۔