Saturday 6 September 2014

اونٹنی کا دودھ


اونٹنی کا دودھ

ہالینڈ میں ماہرین تحقیقات کررہے ہیں کہ تاریخی طور پر فائدہ مند سمجھا جانے والا اونٹنی کا دودھ کیا واقعی کئی بیماریوں سے لڑنے کی تاثیر رکھتا ہے۔


مصر میں جزیرہ نما سنائی کے بدو زمانہ قدیم سے یقین رکھتے ہیں کہ اونٹنی کا دودھ تقریباً تمام اندرونی بیماریوں کا علاج ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس دودھ میں جسم میں موجود بیکٹیریا ختم کرنے کی صلاحیت ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق روس اور قزاقستان میں اکثر ڈاکٹر اونٹنی کا دودھ کئی مریضوں کے علاج کے لیے تجویز کرتے ہیں۔

بھارت میں اونٹنی کا دودھ یرقان، ٹی بی، دمہ ، خون کی کمی اور بواسیر کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اور ان علاقوں میں جہاں اونٹنی کا دودھ خوراک کا باقاعدہ طور پر حصہ ہے وہاں لوگوں میں ذیابیطس کی شرح بہت کم پائی گئی ہے۔

ہالینڈ میں 26 سالہ فرینک سمتھس وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر اونٹوں کی کمرشل فارمنگ کا کام شروع کیا۔ ان کے والد مرسل اعصابی امراض کے ماہر ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے شعبہ صحت کے اپنے ساتھیوں کو اس تحقیق کے لیے تعینات کیا کہ وہ یہ جان سکیں کہ ان کے بیٹے کی تیار کردہ مصنوعات کتنی فائدہ مند ہیں۔

صرف تین ہی سال کے عرصے میں ان کے کام نے مختلف حلقوں میں اتنی دلچسپی پیدا کردی کہ شعبہ صحت کی جانب سے ان کے لیے باقاعدہ فنڈنگ شروع کردی گئی۔

ڈاکٹر سمتھس کا کہنا ہے کہ اس دودھ میں اتنے فائدے ہیں کہ یہ یورپ کی صحت افزا خوراک کا حصہ بن سکتا ہے۔ ’اور ہم یہی کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘۔

انہوں نے اپنی تحقیق کے بارے میں بتایا کہ ہسپتال میں ذیا بیطس کے مریضوں کو گروپوں میں تقسیم کرکے گائے یا اونٹنی کا دودھ باقاعدہ طور پر پلایا گیا اور پھر ان کے شوگر لیول کی جانچ کی گئی جس سے اونٹنی کے دودھ کی افادیت ظاہر ہوئی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سلسلے میں وسیع تر تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یورپ میں اونٹوں کی درآمد بھی منع ہے
انہوں نے اپنی کمرشل فارمنگ کا آغاز تین اونٹوں سے کیا تھا اور اب ان کے پاس 40 اونٹ موجود ہیں۔ اگرچہ اس کام کے شروع کرنے میں انہیں کئی مشکلات کا سامنا رہا۔

ان کا کہنا ہے کہ یورپ میں اونٹوں کی فارمنگ شروع کرنا ایک مشکل کام تھا کیونکہ عرب ممالک کے برعکس یورپی یونین اونٹوں کو گائے، بکری وغیرہ کی طرح کا پیداواری جانور نہیں تسلیم کرتی۔ اس لیے انہیں حکومت سے خصوصی اجازت حاصل کرنی پڑی۔ یورپ میں اونٹوں کی درآمد بھی منع ہے۔ اور پھر اونٹوں کا دودھ دوہنے کا بھی مسئلہ تھا۔

فرینک سمتھس کا دعوٰی ہے کہ انہوں نے اونٹوں کا دودھ نکالنے والی دنیا کی پہلی مشین ایجاد کی ہے۔

انہیں شروع میں اپنی مصنوعات کے خریدار ڈھونڈنے میں بھی مسائل درپیش تھے۔ ابتدا میں انہوں نے اپنی مصنوعات مساجد کے باہر تقسیم کرنا شروع کیں جہاں مراکشی اور صومالیائی مسلمان اپنے ممالک میں اس خوراک کے عادی تھے۔ آہستہ آہستہ ان کی مصنوعات کی مانگ بڑھتی گئی۔

انہیں امید ہے کہ یورپ میں اونٹنی کے دودھ کی مصنوعات کی مانگ میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔